ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں
شبِ صحرا سے مگر صبحِ چمن مانگتے ہیں
وہ جواُبھرا بھی تو بادل میں لِپٹ کر اُبھرا
اُسی بچھڑے ہوئے سورج کی کِرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ، بجز اذنِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پَن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو لُبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن
ہم تو اے وطن !دردِوطن مانگتے ہیں
یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا
مرے اندر کوئی پھوٹے کرن خود احتسابی کی
مری منصوبہ بندی میں چھپی ہے قرض کی دیمک
''مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
انور مسعود