کھلا ہے جھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار آؤ سچ بولیں
سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر
یہی ہے موقع اظہار آؤ سچ بولیں
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنام عظمت کردار آؤ سچ بولیں
سنا ہے وقت کا حاکم بڑا ہی منصف ہے
پکار کر سر دربار آؤ سچ بولیں
تمام شہر میں کیا ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار آؤ سچ بولیں
بجا کہ خوئے وفا ایک بھی حسیں میں نہیں
کہاں کے ہم بھی وفادار آؤ سچ بولیں
جو وصف ہم میں نہیں کیوں کریں کسی میں تلاش
اگر ضمیر ہے بیدار آؤ سچ بولیں
چھپائے سے کہیں چھپتے ہیں داغ چہرے کے
نظر ہے آئنہ بردار آؤ سچ بولیں
قتیلؔ جن پہ سدا پتھروں کو پیار آیا
کدھر گئے وہ گنہ گار آؤ سچ بولیں
قتیل شفائی