حکومت نا اہلی اور ناکردہ کاری کی جس معراج پر پہنچ چکی ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نظر نہیں آتا۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ حکومت کی اس ابتر حالت کا لوگوں کو اندیشہ نہیں تھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ وہ سارے زرخیز دماغ جو گزشتہ پانچ سال تک تبدیلی کا سنہرا خواب بیچتے رہے وہی اب اس خواب کی بھیانک تعبیر قوم کو دکھانے پر مامور ہو گئے ہیں۔ ایسے معصوم بن گئے ہیں کہ جیسے شریک جرم ہی نہیں تھے۔ جو اشخاص ٹی وی سکرینوں پر تبدیلی کے خوش رنگ سونامی کی داستان سناتے تھے اب اسی سونامی کی تباہی کی کہانی سنانے میں بھی وہی رطب اللسان ہیں۔
اس ساری صورت حال میں بس ایک غربت میں پسے ہوئے عوام ہیں جو ایک دوجے کا حیرانی اور پشیمانی سے منہ تک رہے ہیں۔ اس لئے کہ خیر کی کوئی خبر، امید کی کوئی کرن اب ان کو نظر نہیں آ رہی۔ حالات ایسی تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ اس تنزلی کے راستے میں اب کوئی شئے حائل نہیں ہو رہی۔ بسا اوقات تو یہ لگتا ہے کہ اس تباہی کی رفتار جان بوجھ کر تیز کی جارہی ہے۔ مہمیز لگائی جا رہی ہے۔ حکومت خود اپنے آپ سے انتقام لے رہی ہے اور عوام کو اس تبدیلی کا مزہ چکھا رہی ہے جس کے نعرے گزشتہ پانچ سال کنٹینروں، ٹی شوز اور جلسوں میں لگائے گئے تھے۔
معیشت کی ابتر حالت کا ذمہ دار اب پرانی حکومتوں کو قرار دینے کی سہولت ختم ہوتی جارہی ہے۔ آٹھ ماہ ہو گئے ہیں لوگ اب سہولت مانگتے ہیں، فلاح کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان ڈھائی کروڑ بچوں کا ذکر کرتے ہیں جو صاف پانی نہ ملنے سے مر جاتے ہیں اور جن کا ماتم تحریک انصاف کے ہر جلسے میں کیا گیا۔ ان کروڑوں بچوں کی تعلیم کے وعدے یاد دلاتے ہیں جو سکول جانے سے رہ گئے تھے اور تحریک انصاف نے ان کی بے بسی کا نعرہ الیکشن میں لگایا تھا۔
ان تین سو پچاس ڈیموں کو ذکر کرتے ہیں جس سے کے پی کے کا سارا علاقہ سیراب ہونا تھا۔ پشاور کی اس میٹرو کا ذکر کرتے ہیں جس نے سب سے کم لاگت والی میٹرو بننا تھا۔ ان تقریروں کا ذکر کرتے ہیں جس میں غریب پر ٹیکس کم لگنا تھا اور امیر سے دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم ہونی تھی۔ بجلی کے ان بلوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ذریعے ماضی میں حکومتیں عوام کا خون چوستی تھیں۔ پٹرول کی ان قیمتوں کا ماتم کرتے ہیں جن میں اضافے کو عوام کا معاشی قتل قرار دیا گیا۔
ان سمندر پار پاکستانیوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی ڈالروں سے خزانے کو بھر دینا تھا۔ ان خیالی ہسپتالوں کا ذکر رکتے ہیں جو قریہ قریہ گاؤں گاؤں تعمیر ہونے تھے۔ اس سبز پاسپورٹ کا ذکر کرتے ہیں جن کو ساری دنیا میں عزت ملنی تھی۔ ان سمندر پار پاکستانیوں کا انتظار کرتے ہیں جنہوں نے یہاں نوکریاں کرنے آنا تھا۔ بوریاں بھر بھر کر زرمبادلہ لانا تھا لوگ اب ان یونیورسٹیوں کا انتظار کرتے ہیں جو وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں کھلنی تھیں۔
تبدیلی کے اس خواب کی حقیقت بہت بھیانک ہے۔ اب ڈالر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور روپیہ تنزلی کے نئے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اب دنیا بھر میں ہم ایک بھکاری کے طور پر معروف ہو گئے ہیں۔ کسی ملک کا سربراہ ادھر آتے ہوئے گھبراتا ہے کہ کہیں ہم کشکول اس کے سامنے نہ رکھ دیں۔ سی پیک جو کہ ایک گیم چینجر تھا اب اس کے منصوبے بند ہو رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والا زر مبادلہ گزشتہ برسوں کی نسبت کم ہو گیا ہے۔
ترقیاتی فنڈز روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ سڑکوں اور شاہراوں کی تعمیر روک دی گئی ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت کم ہونے کے باوجود پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گیس کے بل عوام کے لئے سوہان روح بن چکے ہیں۔ بجلی کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ادویات نایاب اور مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پروٹوکول کی قبیح روایت ختم نہیں ہو رہی۔ وزراء کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ گورننس نامی شے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کرپشن کے مجرم وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ حکومت نے اس سارے منظر میں جھوٹ کو ایک فن بنا دیا ہے۔ اب بھی گزشتہ حکومتوں پر لعن طعن کر کے اپنی ابتر کارکردگی پر پردہ پوشی کر رہے ہیں۔
گزشتہ حکومتوں کا ماتم کرنے والی حکومتی جماعت سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ چند سال پہلے یہ ملک نہ افغانستان تھا، نہ عراق اور نہ ہی صومالیہ۔ اس ملک میں ترقی کے منصوبے لگ رہے تھے، شاہراہیں بن رہی تھِیں، لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی، طالبعلموں کو لیپ ٹاپ مل رہے تھے۔ ڈالر کی قیمت کنٹرول میں تھی، سٹاک مارکیٹ اچھا پرفارم کر رہی تھی۔ ترقی کی طرف اقدامات ہو رہے تھے۔ لیکن ان آٹھ ماہ میں سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ حکومت کے پاس اس تباہی کو روکنے کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ کوئی ایسا فعال منصوبہ جس سے ملک درست سمت پر گامزن ہو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ امید کی کرن کے طور پر مرغیاں، بکریاں اور گائے بھینسیں پیش کی جا رہی ہیں۔ گیس کے ان ذخائر کا ذکر ہو رہا ہے جن کے ملنے کا موہوم سا امکان ہے اور جس کی تلاش کا کام دس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔
حکومت کی اپنی صفوں میں شکست و ریخت واضح نطر آ رہی ہے۔ پنجاب کا تخت لرزہ براندام نظر اتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے اپوزیشن سے رابطے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن چاہے تو کسی وقت بھی نمبر گیم سے بساط پلٹ سکتی ہے۔ تخت پنجاب کبھی بھی اپوزیشن کا ہو سکتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ابتر صورت حال میں سوائے اپوزیشن کے ہر شخص اب تبدیلی کو ریورس گئیر میں دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اب یہ ارباب و بست و کشاد کے اختیار میں ہے کہ وہ یہ ریورس گئیر کب لگاتے ہیں۔
ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ یہ صورت حال اسی طرح زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ ہر روز آنے والی تباہی کے سامنے اب بند باندھنا ہو گا۔ ورنہ اس سے معشیت کے علاوہ ملکی وقار، حمیت، اور سالمیت کو بھی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ یہ ابتر صورت حال اب سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ ہم تنزلی کی ڈھلوان پر اب زیادہ دیر پھسلنا افورڈ نہیں کرسکتے۔ کسی نہ کسی کو اب کچھ کرنا ہے۔ اپوزیشن جو کسی بھی طرح اس حکومت کی تباہی میں حصہ دار نہیں بننا چاہتی اب زیادہ دیر تک دم سادھے کھڑی نہیں رہ سکتی۔
اس ملکی صورت حال کا حل بہت ضروری ہے۔ اب یہ اپوزیشن پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کا حل کیسے نکالتے ہیں۔ اگر اس معاشی، اخلاقی اور سماجی بحران سے ہم کسی جمہوری طریقے سے نکلتے ہیں تو بات بنے گے۔ لیکن اگر اس حکومت کو گرانے کے لئے کوئی غیر جمہوری طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ سیاسی شہید بھیانک خواب کی طرح ہمیں ڈراتے رہیں گے۔ اگلے چند ماہ بہت اہم ہیں۔ حکومت کے اندر سے ہی ایک تبدیلی متوقع ہے۔ انہی شعلہ بیان وزراء میں سے کوئی ایک تبدیلی کی گاڑی کو ریورس گئیر لگائے گا۔ یہ ریورس گئیربحالی جمہوریت کی طرف پہلا قدم کہلائے گا۔ ماضی کی غلطیوں کو مٹائے گا۔