سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
ڈھول سپاہیا نے آنچ اک ذرا زیادہ لگا دی ہو گی یا میٹھا کچھ زیادہ کر دیا ہو گا ۔۔۔!
ہم ایک طرف پاکستان آرمی اور مودی حکومت کو رو رہے تھے جو اپنے اپنے ملک میں آزادی اظہار اور صحافت پر گرفت مضبوط کئے ہوئے ہیں۔ تو دوسری طرف سب سے بڑے سوشل میڈیا نیٹورک فیس بک نے بھارتی الیکشن سے عین قبل پاکستان آرمی اور کانگریس پارٹی کے مبینہ پیجز کو بلاک کرکے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں :)

Conclusion
Facebook attributed the pages to ISPR employees. There was insufficient open-source evidence to fully confirm that attribution, but the behavior of the pages in question was wholly in keeping with a military PR agency. The focus on ISPR’s director general was particularly striking in this regard
 

جاسم محمد

محفلین
شاہ محمود، جہانگیر ترین تنازع: وزیراعظم نے کابینہ ارکان کو بیان بازی سے روک دیا
198637_1447159_updates.jpg

فائل فوٹو

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے تنازع میں کابینہ ارکان کو بیان بازی سے روک دیا۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کا اظہار میڈیا پر کرنا نامناسب ہے، پوری پارٹی ملکی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ زراعت پالیسی پر خود جہانگیر ترین کو اسائنمنٹ دی تھی، عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں تاہم جہانگیر ترین سے بطور ایکسپرٹ بریفنگ لی۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ اجلاس میں کون آئے گا اور کون نہیں، یہ فیصلہ کرنا بطور وزیراعظم میری صوابدید ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سینیئر رہنما ہیں اور دونوں کی رائے اہم سمجھی جاتی ہے۔

فواد چوہدری کی گفتگو

دوسری جانب کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فوادچوہدری نے کہا کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمودقریشی کے معاملے پر وزیراعظم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیاہے، وزیراعظم نے کہاہےکہ پارٹی کے اندرونی معاملات باہر ڈسکس نہیں ہونی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ہر کوئی اپنی رائے دے سکتا ہے لیکن حتمی فیصلےکا حق وزیراعظم کا ہوگا، ہم بھی سیاسی جماعت ہیں لیکن پارٹی امور کا فیصلہ صرف عمران خان کے پاس ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی دونوں ہی پارٹی کے لیے محترم ہیں، اپنی اپنی رائے دینے میں کوئی حرج نہیں، جب کہ اعترازاحسن بھی پیپلزپارٹی میں رہ کر پیپلزپارٹی پر تنقید کررہے ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ جہانگیر ترین سرکاری اجلاسوں میں شریک ہوکر مخالفین کو بیان بازی کا موقع دے رہے ہیں اور کارکن ذہنی طور پر اسے قبول نہیں کر پا رہے جب کہ (ن) لیگ سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہین عدالت نہیں تو اور کیا ہے۔

اس پر جہانگیر ترین نے ردعمل عمل کا اظہار کیا اور کہا کہ جہاں بھی جاتا ہوں عمران خان کی مرضی اور خواہش سے جاتا ہوں، مجھے پاکستان کی خدمت سے کوئی نہیں روک سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ڈھول سپاہیا نے آنچ اک ذرا زیادہ لگا دی ہو گی یا میٹھا کچھ زیادہ کر دیا ہو گا ۔۔۔!
فیس بک کی جانب سے بند کیے جانے والے اکاؤنٹس اور صفحات میں کیا تھا؟
_106263269_1r6e_uhbf0gu9u6hlfqxioq-2.png

تصویر کے کاپی رائٹDFRLAB
Image captionفیس بک نے 24 فیس بک پیجز، 57 فیس بک اکاؤنٹس، 7 فیس بک گروپس اور 15 انسٹاگرام اکاؤنٹ بند کیے
فیس بک نے پاکستان سے چلائے جانے والے ایسے درجنوں صفحات، گروپس اور پروفائلز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کا تعلق کمپنی کے مطابق پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے ملازمین سے ہے۔

پاکستان کی سائبر تاریخ میں ’فوج کے ساتھ تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس‘ کے حوالے سے یہ ایک بہت بڑی کارروائی ہے جس میں کل ملا کر 103 فیس بک پیجز، گروپس اور انسٹاگرام پروفائلز کو بلاک کیا گیا۔

فیس بک نے اپنے بیان میں سب سے اہم بات یہ کہی ہے کہ ’ان اکاؤنٹس کو چلانے والوں نے اپنی شناخت کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان اکاؤنٹس کے تانے بانے پاکستانی افواج کے شعبہ تعلقات عامہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ملازمین سے ملتے ہیں۔‘

ہوا کیا ہے؟
فیس بک کی جانب سے اس بارے میں جاری کیا گیا بیان عام صارفین اور پاکستانی میڈیا میں بہت سارے لوگوں کے لیے شاید کافی چشم کشا ہو مگر ان معاملات پر نظر رکھنے والوں کے لیے یہ بالکل حیران کن بات نہیں ہے۔

فیس بک کی جانب سے 24 فیس بک پیجز، 57 فیس بک اکاؤنٹس، سات فیس بک گروپس اور 15 انسٹاگرام اکاؤنٹ بند کیے گیے ہیں۔

ان میں سے بہت سارے فیس بک پیجز اور پروفائلز کے تانے بانے اوران پر شائع کیا جانے والے مواد بتاتا تھا کہ اس کا لکھنے والا یا اس کا چلانے والا کون ہے، کہاں سے چلایا جا رہا ہے اور بہت سے لوگ ان کا نشانہ بن چکے ہیں۔

فیس بک نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے ان 103 پیجز، گروپس اور اکاؤنٹس کو اس وجہ سے بلاک کیا کیونکہ یہ مربوط اور غیر مصدقہ طرز عمل میں ملوث پائے گئے جو ایک نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

فیس بک نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان اکاؤنٹ اور پیجز کو ان کے طرز عمل کی بنیاد پر بند کیا جا رہا ہے نہ کہ ان پر اس وجہ سے جو مواد ان پر پوسٹ کیا جاتا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اکاؤنٹس سے گیارہ سو ڈالر کے اشتہارات بھی فیس بک پر لگائے گئے جو 2015 میں پہلی بار اور دسمبر 2018 میں آخری بار لگے۔ فیس بک کے الزام کی روشنی میں سوال یہ ہے کہ یہ گیارہ سو ڈالر کس کی جیب سے گئے؟

_106263271_1i7xf82auepfmjom9cwqakq.png

تصویر کے کاپی رائٹDFRLAB
یہ کن صفحات/اکاؤنٹس کی بات ہو رہی ہے؟

اس معاملے میں مزید لکھتے ہوئے فیس بک نے کہا کہ ’ان اکاؤنٹس کے ذریعے مربوط غیر مصدقہ طرز عمل اختیار کرنے والے لوگوں نے جعلی اکاؤنٹ استعمال کر کے مختلف نوعیت کے فین پیجز چلائے۔‘ جن میں کشمیر کے معاملے پر، خبروں کی شیئرنگ کے حوالے سے، فوج کی تاریخ کے بارے میں اور عموماً حب الوطنی اور اس سے ملتے جلتے موضوعات پر پیجز بنائے گئے تھے۔

مثال کے طور پر فیس بک پیج ’پاکستان آرمی دی بیسٹ‘ جس کے دس لاکھ سے کچھ اوپر فینز ہیں۔ اسی نام کو استعمال کر کے ’پاکستان آرمی بیسٹ ٹو‘ کے نام سے مختلف پیجز بنائے گئے۔

اس کے علاوہ ’پاکستان سائبر ڈیفنس نیوز‘، ’پینٹرز پیلٹ‘ کے نام سے بنا ہوا فیس بک پیج جو ایک بہت ہی غیر متعلقہ نام لگتا ہے۔ اسی طرح کشمیر کے موضوع پر بنائے گئے فیس بک پیجز ’کشمیر فار کشمیریز‘ اور ’کشمیر نیوز‘ ہیں۔

ان میں سے اکثر پیجز میں کچھ موضوعات مشترک ہیں، فوج کی تعریف اور پاکستانی قوم کے لیے اس کی اہمیت اور اس کے کارنامے تقریباً تمام پیجز اور گروپس میں ایک نمایاں حیثیت سے پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے موجودہ سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی تعریف و توصیف اور انھیں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیے جانے کا تھیم اکثر پیجز میں مختلف طریقوں سے نظر آتا ہے۔

کچھ پیجز انھیں براہ راست اس طریقے سے پیش کرتے ہیں جبکہ دوسروں پر انھیں بالواسطہ طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال شاہد آفریدی کے ساتھ پی ایس ایل کا میچ دیکھتے ہوئے جنرل آصف غفور کی تصویر جس کے اوپر کیپشن یہ لگایا ہوا تھا ’اس شخص نے اپنے مناسب وقت پر کھیلے گئے شاٹس کی مدد سے انڈیا کو گراونڈ بھر میں ہٹ کیا ہے اور دوسرا شاہد آفریدی ہے۔‘

_106263277_1via3akv8ipuimvcl0brolw.png

تصویر کے کاپی رائٹDFRLAB
Image captionفوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے موجودہ سربراہ میجر جنرل آصف غفور کی تعریف و توصیف اور انھیں ایک ہیرو کے طور پر پیش کیے جانے کا تھیم اکثر پیجز میں مختلف طریقوں سے نظر آتا ہے
تاہم ان تمام پیجز پر سیاسی یا جیو پولیٹیکل پیغامات یا پوسٹس نہیں ہوتی تھیں بلکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی پیجز تھے جن پر پاکستان کے حوالے سے مثبت پیغامات اور تصاویر شیئر کی جاتی تھی جیسا کہ ’خوبصورت پاکستان‘ اور ’جی بی ٹائمز‘ کے نام سے پیج جس پر پاکستان کی خوبصورت تصاویر اور پوسٹس کو پیش کیا جاتا تھا۔

اٹلانٹک کونسل کی جانب سے چلائے جانے والے ڈیجیٹل فرانزک لیب نے فیس بک سے ان صفحات کی فہرست حاصل کی اور ان کو بند کیے جانے سے پہلے ان کے سکرین شاٹس لیے۔ ڈی ایف ایل کی جانب سے ان پیجز کے ناموں کی تبدیلی کی تاریخ دیکھنے پر دلچسپ انکشافات سامنے آئے۔

جیسا کہ فیس بک پیج ’پاکستان سائبر ڈیفنس نیوز‘ کو ان آفیشل پاکستان ڈیفنس نام سے بنایا گیا مگر اسی دن اس کا نام ’پاکستان ڈیفنس آفیشل` کر دیا گیا، اس کے بعد 28 مارچ 2018 کو اس کا نام ’پاکستان ڈیفنس نیوز` رکھ دیا گیا، 22 جون 2018 کو اس کا نام ’پاکستان سائبر ڈیفنس نیوز` میں تبدیل کر دیا گیا۔

ایک اور دلچسپ پیج ’پی ایم ایل این` لفظ کے نام سے دسمبر 2011 میں بنا تھا۔ دسمبر 2014 کو اس کا نام بدل کر ’سیز پاکستان` کر دیا گیا اور مارچ 2018 میں اس کا نام بدل کر ’شیلڈ پاکستان` رکھ دیا گیا۔

مربوط غیرمصدقہ طرز عمل کیا ہے؟
ان پیجز کو ہٹانے کے لیے فیس بک نے مربوط غیر مصدقہ طرز عمل کے بارے میں بات کی، یہ طرز عمل ہے کیا اور اس کو فیک نیوز یعنی جعلی خبروں سے فیس بک کیوں علیحدہ طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ کچھ عرصہ قبل فیس بک کی جانب سے اس کی شرائط و ضوابط میں ایک نیا اضافہ ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے فیس بک کے ہیڈ آف سائبر سکیورٹی پالیسی نتھینئیل گلیچر کہتے ہیں کہ ’مربوط غیر مصدقہ طرز عمل ایک ایسا طرز عمل ہے جس میں چند گروپ، پیجز یا پروفائلز مل کر دوسروں کو اپنے اور اپنے کام کے بارے میں گمراہ کرتے ہیں۔‘

_106263275_1xum3jumii4omrmu5vwxfiq.png

تصویر کے کاپی رائٹDFRLAB
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اس طرح کے کسی نیٹ ورک کو ختم کرتے ہیں تو اس کی وجہ اس نیٹ ورک کا دھوکہ دہی میں ملوث ہونا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ان کی جانب سے شیئر کیا جانے والا مواد یا کونٹینٹ نہیں ہوتا۔ یعنی ان پیجز کی جانب سے شائع کی جانے والی پوسٹ درست ہوسکتی ہیں اور اس کی کمیونٹی کے قواعد کے خلاف نہیں ہو سکتی مگر اس طرز عمل کی وجہ سے فیس بک انھیں غلط قرار دیتا ہے۔

اس قسم کے طرزعمل کی بیخ کنی کرنے لیے فیس بک دو طریقے اختیار کرتا ہے۔ پہلا طریقہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے اس قسم کے پیجز کا پتہ چلانا اور انہیں شروع میں ہی یا ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی خبردار کرنا اور پھر بند کرنا ہے۔

دوسری صورت میں فیس بک نے ماہر تفتیش کار رکھے ہوئے ہیں جو اس قسم کے پیجز کے اوپر کام کرتے رہتے ہیں اور کڑی سے کڑی ملا کر انہیں بند کرنے کے لیے ایک کیس تیار کرتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان میں گزشتہ روز بند کیے جانے والے 103 پیجز کا معاملہ ہے جس سے فیس بک کے تفتیش کاروں نے تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا ان کے تانے بانے دیکھیں اور پھر انہیں بند کیا۔

پاکستان کے پیجز کی بندش کے حوالے سے یہ طرز عمل اس طرح فیس بک کی نظر میں آیا کہ ان پیج پر شائع کیا جانے والا مواد ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔ اس معاملے میں ناصرف یہ مواد مطابقت رکھتا تھا بلکہ اس کو چلانے والے اکثر لوگ، ان کے آئی پی ایڈریسز میں بھی مطابقت ہو سکتی ہے۔ پھر ایک شخص کا ان میں سے مختلف پیجز کے اندر ایڈیٹر یا ایڈمن کے طور پر موجود ہونا بھی شاید تفتیش کاروں کے لیے ایک کڑی ثابت ہوا۔

طریقہ واردات کیا ہوتا ہے؟
نامہ نگار طاہر عمران کے مطابق اگر آپ سب فیس بک پر سیاسی یا سماجی حوالے سے ایک فعال فیس بک پیج چلاتے ہیں جیسا کہ بی بی سی اردو کا فیس بک پیج ہے تو آپ کو ان باتوں کی سمجھ آئے گی جو ہم نیچے لکھنے جا رہے ہیں لیکن اس کے علاوہ اگر آپ بی بی سی اردو کے فیس بک پیج کی طرح کے پیج کے فین ہیں اور اس پر باقاعدگی سے کمنٹ کرتے ہیں اور کمنٹس پڑھتے ہیں تو بھی آپ کو یہ بات سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ یہ طریقہ واردات کیا ہے۔

_106263273_1t9ekvawfcdupzdh9rmtz2a.png

تصویر کے کاپی رائٹDFRLAB
اس مقصد کے لیے روزانہ کی بنیاد پر مختلف پوسٹس اور خبروں کو اٹھایا جاتا ہے۔ ان میں سب سے دلچسپ اور پسندیدہ موضوع ملالہ یا ایسی خبریں جو مغربی معاشرے یا آزادانہ زندگی کے بارے میں ہوتی ہیں یا سیکس ایجوکیشن کے بارے میں ہوتی ہیں۔

ایسی کوئی بھی خبر جو پاکستان کے ایسی گروہوں کے بارے میں ہے جو اپنے آپ کو اقلیت سمجھتے ہیں یا وہ کسی خاص مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان میں نمایاں طور پر منظور پشتین یا پشتون تحفظ موومنٹ، احمدیوں کے حوالے سے مختلف خبریں، بلوچستان کے حوالے سے خصوصاَ لاپتہ افراد کے بارے میں خبریں شامل ہیں۔

اس طرح کی خبریں شائع کرتے وقت ایک بات جو اکثر نظر آتی ہے وہ یہ کہ خبر کی اشاعت کے فوراً بعد سلسلہ وار ایک ہی قسم کے تبصرے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے ایک بہت ہی سوچا سمجھا پیغام ٹائپ کیا ہے اور کسی گروپ یا فیس بک پیج یا وٹس اپ گروپ میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو بھجوایا ہے جو فیس بک کی پوسٹ پر آ کر کمنٹس میں اسے لکھ دیتے ہیں۔ پیغام لکھنے والا جتنا مرضی سمجھدار ہو لیکن پیغام پہنچانے والے کی عقل و دانش اور چستی یا سستی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ پیغام کاپی کرنے والا اصل خبر کے لنک پر جانے کی بجائے کسی بھی خبر کے نیچے وہ تبصرہ پوسٹ کردیتا ہے۔

مثال کے طور پر پی ٹی ایم کے بارے میں خبر پر اگر ایک صاحب نے دشنام طرازی کرنی تھی لیکن ان کو وہ پوسٹ نہیں ملی تو وہ ’انڈوں کے شوقین کے لیے بری خبر‘ کے بارے میں موجود پوسٹ کے نیچے وہ تبصرہ لکھ دیں گے۔

اس کے علاوہ ایسی خبروں پر بہت ہی صفائی سے بنائے گئے گرافکس اور میمز سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی بڑی مثال ڈان لیکس سے پہلے اور اس کے بعد ڈان اخبار، اس کے مالکان اور کالم نگار سرل المیڈا کے خلاف ایک مربوط قسم کی مہم ہے۔ ویسی ہی مربوط مہم جیسا کہ فیس بک نے اپنے بیان میں ان پیجز کے حوالے سے لکھا ہے۔

_106263354_facebooknewsroom.jpg

تصویر کے کاپی رائٹFACEBOOK NEWSROOM
فیس بک نے جیسے صفحات اور پروفائلز کو بند کیا ہے ان سے ہونے والے تبصروں میں بعض اوقات بہت ہی نازیبا زبان بھی استعمال کی جاتی ہے اور اگر اس صارف سے رابطہ کیا جائے یا تنبیہ کی جائے تو اکثر دوسری جانب سے چپ سادھ لی جاتی ہے اور کوئی جواب نہیں ملتا۔

اگر جواب ملے بھی تو وہ سوال گندم جواب چنا کے مصداق غیر متعلقہ ہوتا ہے جیسے کہ آپ کو کشمیر میں ظلم ہوتا نظر نہیں آتا؟ جب کشمیر کے حوالے سے تازہ ترین خبروں کے لنکس پیش کیے جاتے تو پھر کہا جاتا آپ کو فلسطینی نظر نہیں آتے؟ جب فلسطین کے بارے میں بھی حوالے سے بات کی جاتی ہے تو بات برما کے روہنجیا مسلمانوں کی شروع کر دی جاتی ہے۔

اس بارے میں بات کی جائے تو بات نکلتے نکلتے تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ آپ پاکستان یا اسلام دشمنی کر رہے ہیں یا کسی سازش کا حصہ ہیں۔ جب اس بارے میں ثبوت مانگا جائے تو کوئی جواب نہیں دیا جاتا کیونکہ بظاہر پیغام دینے والے نے ایسا کچھ مواد فراہم نہیں کیا ہوتا۔

تاہم اس قسم کے تمام تبصروں کو ایک کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ بہت سے لوگ حقیقی طور پر ایک خبر کے بارے میں ایک مختلف رائے رکھتے ہیں یا اس پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی اس تنقید کے پیچھے ایک پڑھی لکھی سوچ ہوتی ہے جو ان سے بات کرنے پر سامنے آتی ہے۔

جو بات یکم اپریل کو فیس بک نے کہی یہ بات کئی سالوں سے پاکستان میں لوگ جانتے ہیں۔ خصوصاً 2013 کے انتخابات اور اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر فعال لوگ اور ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے لوگوں کے لیے یہ بالکل کوئی انہونی بات نہیں ہے۔

آئی ایس پی آر سے تعلق کا ثبوت کیا ہے؟
جب بی بی سی نے فیس بک سے سوال کیا کہ انھوں نے کیسے یہ دعوی کیا ہے کہ بند کیے جانے والے صفحات اور اکاؤنٹس آئی ایس پی آر سے وابستہ ہیں تو کمپنی کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی اپنے طور پر ٹیکنالوجی اور تفتیش کے عمل پر کاربند ہو کر اس نتیجے پر پہنچی ہے۔

بی بی سی اردو کے عابد حسین کے مطابق کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے مختلف اقسام کے سگنلز کا مشاہدہ کیا اور اس کے لیے اپنی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور ساتھ ساتھ تفتیش بھی جاری رکھی۔ جو لوگ ان صفحات کو چلا رہے تھے انھوں نے اپنی شناخت چھپانے کی کافی کوشش کی لیکن ہماری تفتیش سے یہ واضح تھا کہ ان تمام صفحات کے تانے بانے آئی ایس پی آر سے ملتے تھے۔'

_106265207_053301169.jpg

تصویر کے کاپی رائٹPA
Image captionفیس بک نے پاکستان میں 103 فیس بک پیجز، گروپس اور انسٹاگرام پروفائلز کو بلاک کیا
اس سوال پر کہ فیس بک کس طرح خود پر لگائے گئے جانبداری کے الزامات کا سامنا کرے گا، کمپنی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ فیس بک کی سائبر سکیورٹی ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیچیدہ 'انفارمیشن آپریشنز' کی نشاندہی کرے اور اس کے خلاف کاروائی کرے۔

'ہم جب ایسے کسی منظم طریقے سے غیر مصدقہ رویے کے نتیجے میں ہونے والی کاروائی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو اس کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اس کا مواد کیا ہے بلکہ کاروائی کرنے کے لیے ہماری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس عمل سے لوگوں کو دغا دیا جا رہا ہے۔'

ترجمان نے بالخصوص پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان صفحات کے منتظمین نے آپس میں منظم طریقے سے روابط برقرار رکھے تھے اور انھوں نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر خود کو چھپانے کے کوشش کی تھی اور یہ بات معلوم ہوجانے کے بعد فیس بک نے ان کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا۔

واضح رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں فیس بک کے چند افسران نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی حکومت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئی تھیں اور فیس بک کی پاکستان میں موجودگی بڑھانے پر غور و خوض کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے جب بی بی سی نے سوال کیا کہ پیر کو کیے جانے والے اقدامات سے تعلقات متاثر تو نہیں ہوں گے تو ترجمان نے کہا کہ فیس بک ماضی میں حکومت پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھتا ہے اور نہ صرف حکومت بلکہ سول سوسائٹی کے ممبران اور دیگر تنظیموں سے بھی رابطے میں رہتا ہے۔

'فیس بک ان رابطوں اور ان ملاقاتوں کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ پاکستان میں ہمارے صارفین کا تجربہ خوشگوار رہے۔'
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
پاکستان کی دم توڑتی اپوزیشن جماعتیں
Muhammad Zubair Niazi
April 2, 2019

کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن کا اہم کردار ہوتا ہے، حکومت کیا کر رہی ہے، پالیسیاں کیسی بن رہی ہیں، کون بنا رہا ہے اور اُس کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اپوزیشن اِن سب پر نظر رکھتی ہے اور وقتا فوقتا عوام کو آگاہ کرتی ہے لیکن موجودہ حکومت میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن نام کی کوئی چیز باقی رہی ہی نہیں۔ ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنی اپنی فکر لاحق ہے، دونوں جماعتوں کی قیادت کرپشن مقدمات میں نیب کی پیشیاں بھگت رہی ہیں۔

جہاں تک سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا تعلق ہے تو وہ اِن دنوں عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی 6 ہفتوں کی ضمانت پر ہیں جو اُنہیں طبی بنیادوں پر دی گئی ہے، اس سے پہلے وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں العزیزیہ ریفرنس میں ملنے والی سزا بھگت رہے ہیں، اگرچہ ماضی میں ایسی کسی بھی ضمانت کی مثال نہیں ملتی تاہم گزشتہ دنوں پی پی رہنما اعتزاز احسن نے یہ انکشاف کرکے حیران کردیا کہ نوازشریف کو 6 ہفتوں کی رعایت مکمل زبان بندی پر دی گئی ہے، اُنہیں ایک دن پھر جیل جانا ہوگا۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ نوازشریف پلی بارگین کرسکتے ہیں، یعنی پیسے دو اور جان چھڑاؤ۔ حال ہی میں ایسی ہی ایک مثال بحریہ ٹاؤن اراضی کیس میں سامنے آئی ہے جب عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کی جانب سے مقدمات ختم کرنے کے عوض 450 ارب روپے کی پیشکش قبول کی اور قومی احتساب بیورو کو ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی سے روک دیا۔

کیا حکومت سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا فارمولا اپنانے جارہی ہے، یعنی بڑی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈال کر اُن سے لوٹا ہوا خزانہ نکالا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ابھی تک نو ڈیل، نو کمپرومائز اور نو ڈھیل کے دبنگ بیانات آ رہے تھے لیکن گزشتہ روز گھوٹکی جلسے سے خطاب میں بالاخر اُنہوں نے اپوزیشن کو بڑی آفر دے دی۔ اُن کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لے آئیں تو ہم اُن کی جان چھوڑ دیں گے،اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔ یہ تاثر بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو جو رعایت ملی ہے وہ درحقیقت علاج کیلئے نہیں بلکہ ڈیل کی رقم جمع کرنے کیلئے دی گئی ہے، کیوں کہ اس سے پہلے عدالت اُن کے بھتیجے حمزہ شہباز اور بھائی اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے چکی ہے۔ اگر یہ سب سچ ثابت ہوا تو پھر اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی اخلاقی ساکھ کیا رہ جائے گی، وہ کس طرح عوام کا سامنا کرے گی ۔ اندرون خانہ کیا چل رہا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت بالکل خاموشی چھائی ہوئی ہے، شہبازشریف کا لہجہ نرم جبکہ مریم نواز کا ٹوئٹر بھی خاموش ہے۔

پیپلزپارٹی کی بات کی جائے تو اُنہیں بھی عوام سے زیادہ اپنی فکر ستائے جا رہی ہے۔ چاروں صوبوں کی زنجیر اب سمٹ کر سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور شرجیل میمن سمیت کئی رہنما جیلوں میں ہیں جبکہ خود وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی منی لانڈرنگ کیس میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ مخالفین کو پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت بھی گوارا نہیں ہو رہی۔ تحریک انصاف اور اُس کے اتحادی پہلے بھی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو جھٹکا دے چکے ہیں لیکن حکومت گرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز کراچی کے علاوہ گھوٹکی کا بھی دورہ کیا جہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ سندھ پر اگلی حکومت تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی ہوگی یعنی اب بھی ہماری اس صوبے پر نظر ہے۔

ایسی صورتحال میں پیپلزپارٹی کی پریشانی بجا ہے۔ ایک طرف نیب کیسز اور دوسری طرف صوبائی حکومت پر مخالفین کے وار، شاید یہی وجہ ہے کہ اب بلاول کو بھی عوام میں آنا پڑا ہے۔ گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کی جانب کراچی سے لاڑکانہ کاروان بھٹو کا اہتمام کیا گیا۔ ٹرین کے دو دن سفر کے دوران بلاول بھٹو نے مختلف اسٹیشنز پر جیالوں سے خطاب کیا۔ اُن کی تقریریں زیادہ تر وفاق کیخلاف تھیں۔ عمران خان کی بہن علیمہ خان کو اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے نشانہ بنایا کہ صادق اور امین ، بس ایک سلائی مشین۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہمارا احتساب کیا جا رہا ہے تو وزیراعظم اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ لیکن عوام بھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ 10 سال تک سندھ پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والی جماعت کو اب عوام کی پسماندگی کیوں ستا رہی ہے؟

ن لیگ حکومت کیلئے درد سر اور تحریک انصاف حکومت کو ابتدائی دنوں میں ٹف ٹائم دینے والی مذہبی جماعت تحریک لبیک بھی ٹھس ہوچکی ہے۔ تحریک کے سربراہ مولانا خادم رضوی سمیت مرکزی رہنما جیلوں میں ہیں جبکہ 3 ہزار کے قریب کارکن مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ایک اور مذہبی جماعت جماعت اسلامی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جبکہ مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے اُسی پر راضی ہے جو اس وقت اُس کے پاس ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کیلئے کون آواز اُٹھائے گا جو مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس چکے ہیں ۔ ڈالر کنٹرول میں نہیں آرہا، غربت اور بیروزگاری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں میں پھر اضافہ ہوگیاہے۔ عوام یہ سوچ کر صبر کیے بیٹھے ہیں کہ نئی حکومت ہے، اسے وقت ملنا چاہئے لیکن جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے، حکومت کے پاس یہ جواز بھی ختم ہوتا چلا جائے گا۔ اسی لیے جو کرنا ہے جلدی کریں ، آپ کی ناقص کارکردگی دم توڑتی اپوزیشن کو خون فراہم کر رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی اپوزیشن اتنی توانا ہو جائے کہ آپ کیلئے حکومت کرنا مشکل ہو جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کیلئے کون آواز اُٹھائے گا جو مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پس چکے ہیں ۔ ڈالر کنٹرول میں نہیں آرہا، غربت اور بیروزگاری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں میں پھر اضافہ ہوگیاہے۔ عوام یہ سوچ کر صبر کیے بیٹھے ہیں کہ نئی حکومت ہے، اسے وقت ملنا چاہئے لیکن جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے، حکومت کے پاس یہ جواز بھی ختم ہوتا چلا جائے گا۔ اسی لیے جو کرنا ہے جلدی کریں ، آپ کی ناقص کارکردگی دم توڑتی اپوزیشن کو خون فراہم کر رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی اپوزیشن اتنی توانا ہو جائے کہ آپ کیلئے حکومت کرنا مشکل ہو جائے۔
مزے کی بات یہ کہ اس ملک میں حکومت تو ایک طرف اپوزیشن بھی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے بغیر نہیں ہو سکتی :)
 

جاسم محمد

محفلین
پنجاب حکومت کا وزرا اوراراکین کے لیے 70 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ
ویب ڈیسک بدھ 3 اپريل 2019
1617510-fbrnoticeluxerycarsownersabovelaccostofcar-1554284970-967-640x480.jpg

ایس اینڈ جی اے ڈی ٹرانسپورٹ پول نے گاڑیاں خریدنے کی سمری تیار کرلی، ذرائع۔ فوٹو:فائل


لاہور: حکومت پنجاب نے عوامی نمائندوں کے لیے 70 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پنجاب میں تحریک انصاف حکومت کے بچت دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، حکومت پنجاب نے ستمبر میں نئی گاڑیاں نہ خریدنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب وزراء نے پرانی گاڑیاں لینے سے انکار کردیا ہے جس کے بعد حکومت نے عوامی نمائندوں کے لیے 70 نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایس اینڈ جی اے ڈی ٹرانسپورٹ پول نے گاڑیاں خریدنے کی سمری تیار کرلی، حکام ٹرانسپورٹ پول کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی خریداری کا کیس کفایت شعاری کمیٹی میں لے جایا جائے گا، مجبوری ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں خریدنے کی سمری بھجوائی گئی۔

دوسری جانب محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ نئی گاڑیاں خریدنے کے حوالے سے کیس ہمارے پاس آیا ہے تاہم کمیٹی گاڑیوں کی خریداری کی منظوری دے گی۔


 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے ناخوش، ’’واک آؤٹ‘‘ کا پیغام
1616835-imrankhane-1554265129-646-640x480.jpg

تحریک انصاف کے با خبر حلقے بھی اسٹیبلشمنٹ کے بدلتے رویے کے بارے اپنے خدشات کا ’’ آف دی ریکارڈ ‘‘ اظہار کر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاکستان کے روایتی ’’بادشاہ گروں‘‘ نے تحریک انصاف کیلیے اپنی ’’سروسز‘‘ محدود کرنا شروع کر دی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کی’’ لو اسٹوری ‘‘ میں بریک اپ کے خطرات بڑھ رہے ہیں

عمران خان موجودہ صور تحال سے پریشان اور مشتعل ہیں، بالخصوص نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کو ممکنہ ’’ڈیل‘‘ کا پہلا قدم قرار دیے جانے کی باتوں نے کپتان کا موڈ خراب کر دیا ہے۔

اسلام آباد کے حلقوں میں مختلف قسم کی افواہیں گردش کرنے لگی ہیں اور نواب وسان نے بھی انہی افواہوں پر مبنی خواب دیکھ لیا ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے خوش نہیں ہیں اور کپتان نے حکومتی میچ کے دوران ہی ’’واک آوٹ‘‘ کرنے کا انتباہی پیغام ( دوسرے معنوں میں وارننگ ) بادشاہ گروں تک پہنچایا ہے۔

گزشتہ 8 ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت معیشت اور گڈ گورننس کے میدان میں ناکامیوں کا شکار ہے ، متعدد وزراء کی کارکردگی تشویشناک حد تک مایوس کن ہے ۔

تحریک انصاف کے با خبر حلقے بھی اسٹیبلشمنٹ کے بدلتے رویے کے بارے اپنے خدشات کا ’’ آف دی ریکارڈ ‘‘ اظہار کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور عوام کی جانب سے حکومت بارے منفی فیڈ بیک نے اسٹیبلشمنٹ کو ’’ متبادل ‘‘ آپشنز بارے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ۔
 

جاسم محمد

محفلین
جیل میں ہوں یا باہر ہر حال میں حکومت کا خاتمہ کرکے رہیں گے، آصف زرداری
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1618934-zardari-1554391116-984-640x480.jpg

عوام سے وعدہ ہے اس حکومت کو ختم کریں گے، آصف زرداری، فوٹو: اسکرین گریب

گڑھی خدا بخش: پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ ہم چاہے جیل میں ہوں یا باہر ہر حال میں اس حکومت کو ختم کرکے رہیں گے۔

گڑھی خدابخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ کارکن تیاری کرلیں اب ان لوگوں کو اقتدار سے نکالنے کا وقت آگیا، ملک کی بہتری کے لیے اس حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اس لیے ان لوگوں کو گھر بھیجنے کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

آصف زرداری نے کہا کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے، ڈالر کی قدر بڑھ گئی اور غریب کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہےاب حکومت کو مزید وقت نہیں دے سکتے، اگر حکومت برقرار رہی تو پاکستان سو سال پیچھے چلا جائے گا۔

شریک چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ مجھے حکومت کرنے کا شوق نہیں ہے لیکن ملک کے مستقبل کے لیے موجودہ حکومت کا خاتمہ ضروری ہے، ہم چاہے جیل میں ہوں یا باہر ،ان کو حکومت سے نکال کررہیں گے،کارکن تیاری کرلیں ، اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے ،سڑکوں پر رہیں گے اوراس حکومت کے خاتمے تک واپس نہیں آئیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت کہیں نہیں جارہی بلکہ آصف زرداری جیل جارہے ہیں، وزیراعظم
ویب ڈیسک جمع۔ء 5 اپريل 2019
1619836-imrankhan-1554464209-546-640x480.jpg

سابق حکمرانوں کو منی لانڈرنگ اور چوری کرنے کا تجربہ تھا، وزیراعظم عمران خان۔ فوٹو: فائل


جمرود: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کہیں نہیں جارہی بلکہ آصف زرداری جیل جارہے ہیں۔

جمرود میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں پہلا شخص تھا جس قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی، فوج کو بھیجنے کی وجہ سے فوج اور قبائلی عوام دونوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، 1948 میں قبائل نے کشمیریوں کا ساتھ دیا جب کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی قبائلیوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔

پوری کوشش کریں گے کہ قبائلی علاقوں میں جو نقصان ہوا اس کو پورا کریں

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں جو نقصان ہوا ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہوا، پوری کوشش کروں گا کہ آپ کے کاروبار چلیں اور آپ کا نقصان پورا ہو، نوجوانوں کو سود کے بغیر قرضے ملیں تاکہ وہ اپنے کاروبار چلاسکیں۔

خیبر میں پانی کی فراہمی کے لیے جبہ اور باڑہ ڈیم بنائیں گے

وزیراعظم نے کہا کہ ہم خیبر میں پانی کی فراہمی کے لیے جبہ ڈیم بنائیں گے، اس ڈیم سے 10 لاکھ لوگوں کو پینے کا پانی ملے گا، کاشت کاروں کو پانی فراہم کرنے کے لیے باڑہ ڈیم بھی بنائیں گے، واٹرسپلائی اسکیم بھی بنائیں گے اور خیبر میں 12 بائی پاس بناکردیں گے جب کہ طورخم کی بارڈر کو 24 گھنٹے کھولنے کی اجازت دی ہے۔

افغانستان میں امن ہمارے اپنے مفاد میں ہے

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ میں افغانستان میں امن کیلئے دعا گو ہوں، میرا مشورہ افغانستان کےاندرونی معاملات میں مداخلت نہیں، افغانستان میں امن ہمارے اپنے مفاد میں بھی ہے، تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ افغانستان میں عبوری حکومت سے الیکشن کرایا جائے کیوں کہ اگر کسی جماعت نے الیکشن کا نتیجہ نہ مانا تو وہاں پھر انتشار ہوگا، عبوری حکومت سے الیکشن پر کوئی انگلی نہیں اٹھائے گا۔

سابق حکمرانوں کو منی لانڈرنگ اور چوری کرنے کا تجربہ تھا

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جتنا میرے بس میں ہے میں وہ چیزیں آپ کو دوں گا، پاکستان کی تاریخ کا سب سے مشکل معاشی مرحلہ آج ہے، جب ہمارے 5 سال پورے ہوں گے تو ہمارا دیگر حکومتوں سے موازنہ ہوگا، 2008 میں پی پی حکومت آئی تو قرضہ 6 ہزار ارب روپے تھا۔ ان کو کہنا تھا کہ ہم سمجھتے تھے سابق حکمرانوں کو معاشی حالات کا تجربہ تھا تاہم انہیں تو منی لانڈرنگ اور چوری کرنے کا تجربہ تھا، ان کے دو ادوار میں پاکستان کا قرضہ6 ہزار ارب سے 30 ہزار ارب روپے پہنچ گیا۔

آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ملین مارچ کی دھمکی دے رہے ہیں

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کل مخالفین نے پیسے دیکر لوگوں کو جلسے کے لیے بلایا، جلسے میں 200 اور 500 روپے دے کر لوگوں کو لایا گیا، آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں ملین مارچ کی دھمکی دے رہے ہیں، یہ ملین مارچ کریں کنٹینر میں دوں گا جب کہ روز کہا جارہا ہے کہ حکومت جارہی ہے، حکومت کہیں نہیں جارہی بلکہ آصف زرداری جیل جارہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح حکومت گرادی جائے

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان بھی ملین مارچ کی بات کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کی تو الیکشن میں وکٹ اڑ گئی تاہم وہ بارہویں کھلاڑی بنے ہوئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح حکومت گرادی جائے اور ان کی باری آجائے لیکن مولانا صاحب آپ کی حکومت نہیں آئے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
اپوزیشن ایسے بیانات سے اپنا تماشا خود بنا رہی ہے اور دوسری جانب حکومت احتساب کے نعرے کو سیاسی رنگ دے کر عوام کی توجہ گھمبیر مسائل سے ہٹا کر اپنی نالائقی چھپانا چاہتی ہے؛ شاید دونوں ہی ناکام و نامراد رہیں گے ۔۔۔! خان صاحب کی ٹیم ابھی سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے جس کا اندازہ بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت میں رہ کر ایسے بیانات دینا اپنی سبکی کروانے کے مترادف ہے۔ حکومتی وزراء میں برداشت ،تحمل اور بردباری کا شدید فقدان ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
حکومت گرانے میدان میں نکل چکے، جو کرنا ہے کرلیں: فضل الرحمان
198771_461065_updates.jpg

اگر اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم مل کر الیکشن لڑیں گے تو گالی اور گولی کا اتحاد ہوجائے گا، سربراہ جے یو آئی (ف) — فوٹو:فائل

پنوں عاقل: جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت گرانے میدان میں نکل چکے ہیں اور حکومت کو جو کرنا ہے کرلے۔

پنوں عاقل میں میڈیا سے گفتگو میں سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف آصف زرداری ہم سے کئی گنا زیادہ پیچھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پشاور اور پنجاب میں کچھ ملین مارچ باقی ہیں پھر اسلام آباد جائیں گے، اس حکومت کو مزید ٹائم دینا اسے تسلیم کرنے کے برابر ہے، ہم حکومت گرانے میدان میں نکل چکے ہیں لہٰذا حکومت کو جو کرنا ہے کرلے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ کا بڑا قرضہ اس دور حکومت میں لیا جارہا ہے جب کہ نیب ایک انتقامی ادارہ ہے۔

جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ فواد چوہدری نے کہا ہے کہ فضل الرحمان اور خورشید شاہ جیل جائیں گے تو مولانا فضل الرحمان نے جواب میں کہا کہ کسی بندے دے پتر کا حوالہ تو دیا کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں قیادت سے لے کر کارکن تک گالی اور گالی ہے، اگر اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم مل کر الیکشن لڑیں گے تو گالی اور گولی کا اتحاد ہوجائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا سیاسی منظرنامے میں اہم پیشرفت ہونے جارہی ہے؟
198786_5838113_updates.jpg

رمضان المبارک قریب ہے اور مہنگائی کا جن بے قابو ہے یقیناً یہ صورت حال موجودہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ فوٹو: فائل

ملک کی گرتی معیشت، مہنگائی کے طوفان اور اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کی چہ مہ گوئیاں بظاہر حکومت کے خلاف سیاسی محاذ گرم کرنے کا جوا ز بن رہی ہیں اور حکومتی وزراء کئی معاملات کو سوشل میڈیا کی غلط بیانی اور مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں۔


دوسری جانب کرپشن کے خلاف قومی احتساب بیورو کی سیاسی قیادت کے خلاف بڑھتی کارروائیاں اپوزیشن جماعتوں میں خاصی بے چینی پیدا کیے ہوئے ہیں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کررہی ہیں۔

سیاسی منظر نامہ بتا رہا ہے کہ آنے والے چند ماہ میں کچھ اہم پیش رفت ہونے جارہی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی سیاسی جلسوں، ٹرین مارچ اور جلوسوں میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے اور یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔

چار اپریل کو پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری نے جیالوں کو ہرحال میں حکومت گرانے کا ہدف دیا۔

آصف علی زرداری نے اشارہ دے دیا کہ اگر گرفتار ہوا تو حکومت گرانے کی تحریک زور پکڑے گی اور اسلام آباد کے ایوانوں سے حکمرانوں کو نکال باہر کریں گے، بلاول بھٹو نے بھی اٹھارویں ترمیم کو چھیڑنے پر انتباہ دیا ہے کہ لات مار کر حکومت گرادیں گے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر نیب کے مقدمات اور مسلسل کارروائیوں پر پنجاب میں بھی سیاسی فضاء خاصی تناؤ کا شکار ہے، نواز شریف ، مریم اور شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لئے نیب کو مزاحمت کا سامنا ہے تو حکومت پر الزاما ت کی بارش بھی جاری ہے۔

ایک طرف کچھ سیاسی جماعتیں موجودہ پنجاب حکومت سے اتحادی بن کر معاملات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف حکومت میں شامل سیاسی شخصیات اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں اپوزیشن سے ملنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی بھی کیا ایک معمہ ہے؟ لیکن شہباز شریف کی سیاسی پختگی اور اعتماد بھی تحریک انصاف کے رہنماوں کے لیے بے چینی کا باعث بن رہی ہے، پی ٹی آئی کے رہنماوں کے اندرونی اختلافات زور پکڑتے نظر آتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کی توجہ ملکی معاملات کے ساتھ پارٹی کے اندرونی اختلافات ختم کرنے میں بھی لگی ہے، ملکی معیشت کی کمزور صورت حال ان کے لئے بڑا چیلنج بن گئی ہے جس میں وزیر خزانہ اسد عمر کا کردار اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے اختلاف کی خبریں بھی اہمیت اختیار کیے ہوئے ہیں، گزشتہ دنوں پاک بھارت کشیدگی میں خارجہ پالیسی کی اہم کامیابیوں کے بعد شاہ محمود قریشی بڑے مضبوط نظر آرہے ہیں ساتھ ہی اب وہ پارٹی کے کئی معاملات پر کھلی تنقید کرتے نظر آرہے ہیں۔

خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی پوزیشن بہتر نظر آتی ہے لیکن بلوچستان میں مخلوط حکومت کو خاصی مخالفت کا سامنا ہے، ایسی صورت حال میں وزیراعظم عمران خان سندھ کی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے میں شامل جماعتوں کو بھی اپنے سے دور نہیں کرسکتے۔

سیاسی دوربین یہ دیکھ رہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بڑھتے سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے عمران خان کی حکمت عملی کیا ہوگی اور وہ کب تک معیشت کو سنبھالنے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، ہم مختلف ٹاک شوز اور تجزیوں میں یہ سن رہے ہیں کہ معیشت کی حالت انتہائی خراب ہے لیکن وہ کیا اقدامات ہوں گے کہ معیشت بہتری کی طرف جاسکے گی۔

رمضان المبارک قریب ہے اور مہنگائی کا جن بے قابو ہے یقیناً یہ صورت حال موجودہ حکومت کے لیے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شریف خاندان کو این آراو نہ دیا جاتا تو منی لانڈرنگ ختم ہوجاتی، عمران خان
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1622701-imrankhan-1554639013-876-640x480.jpg

وزیر اعظم عمران خان سے وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے ملاقات کی، فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ شریف خاندان کو این آراو نہ دیا جاتا تو ملک میں منی لانڈرنگ کا خاتمہ ہوجاتا۔

وزیر اعظم عمران خان سے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال اور میڈیا انڈسٹری سمیت دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔

اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ اگر جنرل مشرف کی جانب سے حدیبیہ کیس میں شریف فیملی کو این آر او نہ ملتا اور کیس کا فیصلہ میرٹ پر کیا جاتا تو آج پاکستان میں منی لانڈرنگ کا خاتمہ ہو چکا ہوتا لیکن بدقسمتی سے حدیبیہ کیس میں ملنے والے این آر او کو آئندہ آنے والے تمام کیسز میں ماڈل کے طور پر استعمال کیا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری کے پیسے میں یہی ماڈل سامنے آیا ہے اس حوالے سے تمام تفصیلات میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائی جائیں تاکہ عوام الناس کو گمراہ کرنے والوں کی اصلیت سے پردہ اٹھا کر ان کا اصل چہرہ عوام کو دکھایا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر ان سیاہ کاریوں کے نقصانات سے ان لوگوں کو بتایا جائے جو آج مہنگائی اور بیرونی قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بے نامی قانون کے تحت قواعد اور قانون بنائے ہیں، اس سے منی لانڈرنگ پر قابو پانے اور دوسروں کے نام پر جائیدادیں رکھنے کی حوصلہ شکنی میں خاطر خواہ مدد ملے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے تو یہ مان لیں کہ سیاستدان کا کچھ بھی نجی نہیں ہوتا اس کی مکمل زندگی عوامی ہوتی ہے۔ نکاح, پاکپتن دربار کے دورے اور خاتون سوئم اول کے سرکاری اداروں کے دوروں کی رپورٹ میڈیا پر ہی نشر کروائی جاتی رہی ہے۔ مزید یہ کہ خبر کا میڈیا پر نشر ہونا سیاست نہیں صحافت ہے۔
بشریٰ بی بی سے اختلافات پر وزیراعظم نے واضح بیان دے دیا
5caa071223c10.jpg


وزیراعظم عمران خان نے اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی سے تعلق کے حوالے سے کی جانے والی افواہوں کو سختی سے مسترد کردیا ہے۔

نجی ٹی وی چینیل سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے اپنی ازدواجی زندگی سے متعلق تمام افواہوں کی تردید کی۔

ایسی افواہیں سامنے آرہی تھیں کہ وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کے درمیان کشیدگی ہے اور وہ بنی گالہ چھوڑ کر جاچکی ہیں جس کے بعد علیحدگی ہوسکتی ہے۔

مگر نجی ٹی وی کی رپورٹ میں عمران خان کے حوالے سے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے ان تمام افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بشری بی بی ان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی رحمت ہیں اور اس حوالے سے افواہیں بے بنیاد ہیں،ہم دونوں آخری سانس تک اکھٹے رہیں گے۔

نجی ٹی وی کی فوٹیج آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی گزشتہ سال فروری میں ہوئی تھی۔

اس شادی کی اطلاعات پہلے سامنے آگئی تھی مگر اس وقت پی ٹی آئی اور عمران خان کی جانب سے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ابھی عمران خان نے ابھی بشریٰ بی بی کو شادی کا پیغام بھیجا ہے۔

یہ عمران خان کی تیسری جبکہ بشریٰ بی بی کی دوسری شادی ہے۔

اس بارے میں بشریٰ بی بی نے ستمبر 2018 میں اپنے پہلے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ عمران خان سے شادی ان کی عدت کے 7 ماہ گزرنے کے بعد ہوئی تھی۔

انہوں نے وزیر اعظم کی زندگی کے حوالے سے بتایا کہ وہ انتہائی سادہ انسان ہیں اور انہیں کسی بھی چیز کی لالچ نہیں، کوئی سیاست دان ایسا نہیں جس کے پاس صرف 2 سے 3 سوٹ ہوں اور ضرورت پڑنے پر وہ کسی سے مانگ کر بھی کپڑے پہنتا ہو۔

بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ سیاستدان اور لیڈر میں فرق ہوتا ہے، لیڈر عوام کی تقدیر بدلتا ہے اور سیاستدان صرف حالات بدلتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صدی میں دنیا میں صرف دو ہی لیڈر ہیں ایک عمران خان اور دوسرے ترک صدر رجب طیب اردوان۔
 
Top