سیاسی منظر نامہ

جان

محفلین
ابھی تو میں نے کچھ رعایت کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹونے اپنے والد محترم شاہ نواز بھٹو (جو پیشہ کے لحاظ سے سیاست دان، جاگیردار اور سندھ میں اثر رسوخ رکھنے والے تھے) کی ’جان پہچان‘ پر پہلے صدر سکندر مرزا اور بعد میں جنرل ایوب خان کی آنکھ کا تارا بن کر ملکی سیاست میں قدم جمائے تھے۔
دوسری طرف میاں محمد نواز شریف نے اپنے والد محترم محمد شریف (جو پیشہ کے لحاظ سے بڑے صنعتکار اور پنجاب میں اثر رسوخ رکھنے والے تھے) کی ’سفارش‘ پر پہلے جنرل جیلانی اور بعد میں جنرل ضیاءکی آنکھ کا تارا بن کر ملکی سیاست میں قدم جمائے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ملکی سیاست میں اینٹری سنہ 1958 میں بطور وفاقی وزیر تجارت (ٹیک نوکریٹ) عمل میں آئی۔
نواز شریف کی ملکی سیاست میں اینٹری سنہ 1980 میں بطور وزیر خزانہ پنجاب (ٹیک نوکریٹ) عمل میں آئی۔
یوں بھٹو خاندان کو ملکی سیاست کرتے ہوئے: 2019-1958= 61 سال بیت گئے ہیں
جبکہ شریف خاندان کو ملکی سیاست کرتے ہوئے: 2019-1980= 39 سال بیت گئے ہیں
پچھلے 61 سالوں میں ان دونوں مفاد پرست سیاسی خاندانوں کو اسٹیبلشمنٹ کی گاہے بگاہے سپورٹ حاصل رہی ہے۔
آج کل اسٹیبلشمنٹ کا مشفقانہ ہاتھ اور اقتدار چھن جانے کے بعد لاتعداد کرپشن کیسز سے بچ نکلنے کیلئے یہ سب جاگیردار، صنعتکار، اشرافیہ، چور، لٹیرے جمہوریت بچانے کے نام پر اکٹھے ہو کر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔
اب بتائیں میں نے یہاں کیا جھوٹ بولا؟
پر مزاح۔ السلام علیکم!
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ویسے میں یہ سوچ رہا ہوں ان کو ایک ساتھ بٹھایا کس نے ہوگا؟
واضح رہے کہ بی بی نے چوری کیس میںJIT ممبران کے سوالات کے جوابات دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ یہ غیر محرم لوگ ہیں۔ کیا بلاول غیر محرم نہیں ہے اب مریم کا ایمان اور اسلام خطرے میں نہیں؟
 

جاسم محمد

محفلین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جب پاناما جے آئی ٹی نے مریم نواز کو جواب طلبی کیلئے بلایا تھا تو پارٹی نے یہ غیرمحرم کا ایشو اجاگر کرنا شروع کیا تھا۔ البتہ کیس کی سنگینی اور سیاسی پریشر کی وجہ سے ان کو بہرحال غیرمحرموں کے سامنے پیش ہونا پڑا۔
mtwtt.gif
 

جاسم محمد

محفلین
مورخ لکھے گا آپ نے تاریخ کی خوبصورت بات کی ہے۔ بس اگر آپ چیری بلاسم والے طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوتے تو ہمیں بھی آپ سے تاریخی محبت ہوتی۔ :)
بھائی میرا تعلق چیری بلاسم طبقہ سے نہیں ہے۔ میں عمران خان کا اس وقت سے مداح ہوں جب موصوف تن تنہا آمر مشرف کی پولیس سے ڈنڈے کھا کر حوالات کی سیر کر کے آئے تھے۔
Capture.jpg

اور جب جمعیت کے غنڈوں نے ان کی یونی ورسٹی آمد پر تھپڑوں اور گھونسوں سے استقبال کیا تھا۔
Imran-Khan-in-grip-og-Islami-Jamiat-Tulaba-in-Punjab-University-on-14-November-2007.jpg

آج 12 سال بعد تانگہ پارٹی اور جسے سیاست نہیں آتی کا طعنہ ملنے والا یہ قومی ہیرو ملک کا وزیر اعظم ہے۔ جس کے خلاف ملک کی تمام بڑی اپوزیشن پارٹیز اپنی کرپشن بچانے کیلئے متحد ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
احتجاجی تحریک: ٹھیک ہے مگر حاصل کیا کرنا ہے؟
19/05/2019 سید مجاہد علی



خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی پیپلز پارٹی کی طرح یہ فیصلہ کیا ہے کہ عید الفطر کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اس قسم کی تحریک کے لئے پر تولے ہوئے ہیں اور گزشتہ چند ماہ کے دوران نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو ایک کمزور حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے ذریعے چلتا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

ابھی یہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں کس قسم کی تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کریں گی۔ یا یہ کہ واقعی عوام کے بڑے اجتماع کو تسلسل سے سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا جائے گا یا علامتی احتجاج کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے گا اور مہنگائی اور معاشی بے یقینی کی وجہ سے عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصہ کو مہمیز دی جائے گی۔ مسلم لیگ نے ابھی تک اپنی حکمت عملی کی صراحت نہیں کی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری گزشتہ دنوں عدالت میں ایک پیشی کے موقع میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے عید کے بعد تحریک چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد نواز شریف کی عبوری ضمانت کے خاتمہ پر کوٹ لکھپت جیل واپسی کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کی ہے اور یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ پارٹی اب شہباز شریف سے منسوب مصالحانہ حکمت عملی کی بجائے نواز شریف کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی پر گامزن ہونے کے لئے تیار ہے۔ اس کا ایک اشارہ مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر بنا کر بھی دیا گیا ہے۔

ان خبروں اور اشاروں کے باوجود یہ بات ہنوز بحث طلب ہے کہ کیا ملک موجودہ حالات میں ایک نئی احتجاجی تحریک کا متحمل ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپوزیشن لیڈروں کی ہر طرح ہتک کرنے کے علاوہ بار بار یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ دھرنا دیں، کنٹینر ان کی حکومت فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ وضاحت بھی کرتے رہے ہیں کہ اپوزیشن میں کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ گویا وہ اپوزیشن کو احتجاج پر اکسانے کی کوشش کرکے اپنی مقبولیت اور اپنی حکومت کی سیاسی قوت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے رہے ہیں۔

تاہم 9 ماہ کی مختصر مدت میں ہی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ناقص حکمت عملی اور معاشی بدانتظامی کی وجہ سے ملک کے اکثر لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ کوئی بھی عمران خان یا ان کی ٹیم سے کسی معجزے کی توقع نہیں کر رہا تھا لیکن یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ بصد کوشش اقتدار میں آنے کے بعد ٹھوس معاشی پروگرام اور انتظامی ڈھانچے میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز کریں گے۔ یہ امیدیں بوجوہ دم توڑ چکی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے مختصر دورانیہ میں معیشت مسلسل انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی اور بازار ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے بیروز گاری اور قیمتوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت محاصل وصول کرنے کے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے بعد اب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے اور بجلی، گیس و تیل کی مصنوعات پر محاصل میں اضافہ یا سبسڈی میں کمی کی جائے گی۔

ان فیصلوں کا باالواسطہ اثر عام آدمی کی جیب پر ہی پڑے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی ضرورت کی اشیا اور سہولتوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے عوام کی مایوسی اب غم و غصہ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں بھی اسی صورت حال کو کسی عوامی سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ یعنی اس وقت حکومت وہ سارے حالات پیدا کر چکی ہے جو اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کے خلاف خطرناک ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب گرم لوہے پر چوٹ لگانے کی دیر ہے۔

تاہم پاکستان کے سیاسی، معاشی اور انتظامی حالات کی روشنی میں عوامی تحریک کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کسی بھی احتجاج کا مقصد صرف تحریک انصاف کو اقتدار سے محروم کرنا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کام تو سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے معمولی اکثریت کی بنیاد پر قائم پنجاب اور مرکز کی حکومتوں کو گرا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع کرنے سے پہلے سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو واضح اہداف کا تعین کرنا چاہئے۔ اگر یہ اہداف متعین کئے بغیر تحریک شروع کی گئی تو اس سے سماجی انتشار، معاشی بحران اور سیاسی بے یقینی میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔

سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف کی بجائے اگر کوئی دوسری پارٹی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو کیا وہ عوام کو ان مالی مشکلات سے فوری طور پر نجات دلا سکتی ہے جن کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے۔ کیا کوئی نئی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے سے انکار کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ کیا یہ پارٹیاں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ٹھوس فیصلے کرسکیں گی جو اس وقت حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سابقہ دونوں ادوار میں بھی یہی سب سے بڑا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ معاشی بد انتظامی اور اس حوالے سے عوام کی مشکلات کو نعرہ بنانے سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کو اس وقت جن مالی مسائل کا سامنا ہے ان کی کچھ وجوہ دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کے ادوار کی دین ہیں۔ ملک کی کوئی بھی حکومت اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کا مناسب اہتمام نہیں کرسکی ۔

احتجاجی تحریک کی بنیاد یہ سیاسی اصول ضرور ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کی سب سے بڑی وجہ اسے عسکری اداروں کا درپردہ حاصل ہونے والا تعاون تھا۔ جمہوریت کے بنیادی اصول کے پیش نظر ایک جمہوری انتظام میں اس قسم کےساز باز اور ملی بھگت کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس بنیاد پر کوئی تحریک چلانے سے پہلے اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کو ماضی میں اپنے کردار کے حوالے سے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ اور یہ واضح کرنا ہوگا کہ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے لئے ان کی تحریک کا مقصد واقعی ووٹر کی بالادستی ہے اور اس قسم کا احتجاج محض اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا جائے گا۔

اس اصول کو بنیاد بناتے ہوئے اپوزیشن کی اہم قیادت کو یہ وعدہ بھی کرنا پڑے گا کہ مستقبل میں وہ خود اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی سازش کا حصہ بن کر جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے کا سبب نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے 90 کی دہائی کے برے تجربات کے بعد میثاق جمہوریت کے نام سے ایک اہم دستاویز پر دستخط کئے تھے لیکن ان دونوں پارٹیوں نے باری باری اقتدار میں آنے کے باوجود اس معاہدے کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس لئے عوام کو جمہوری اقدار کے لئے گھروں سے نکلنے کی اپیل کرنے سے پہلے سیاسی لیڈروں کو خود یہ وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ بھی اپنے عزم کو ترک نہیں کریں گے۔ اور یہ ساری جدوجہد محض حکومت گرانے تک محدود ہو کر نہیں رہ جائے گی۔

ایک کمزور سیاسی حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کی سیاسی کامیابی کا امکان ضرور موجود ہے لیکن تحریک چلانے والے لیڈروں کو اس حوالے سے اپنی حکمت عملی بھی واضح کرنا ہوگی تاکہ اس کے نتیجے میں پھر سے ملک میں آمریت کا طویل دور نافذ نہ کردیاجائے۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ اس اصول سے دوٹوک وابستگی ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور اقتدار ملنے کے بعد بھی تمام اہم فیصلے منتخب پارلیمنٹ میں کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ اسی حوالے سے میڈیا کی آزادی کو مستحکم کرنے اور سیاسی بنیادوں پر انتقام کا طرز عمل ترک کرنے کے لئے قبل از وقت لائحہ عمل سامنے لانا مناسب ہوگا۔ نیب کے جس قانون کو اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کالا قانون قرار دے رہی ہیں، دونوں جماعتیں اپنے ادوار میں اسے تبدیل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔

موجودہ حالات میں کوئی بھی عوامی تحریک اس وقت تک بامقصد نہیں ہوسکتی جب تک اس کی قیادت ملک کی دہائیوں پرانی سیکورٹی اسٹیٹ کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کے لئے کام کرنے کا وعدہ نہیں کرتی۔ اس کے لئے نہ صرف فوج کے دائرہ کار کو محدود کرنا ہوگا، اس کی تعداد اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی بلکہ انتظام و انصرام کے لئے سول اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنا پڑے گا تاکہ فوج دل جمعی سے صرف سرحدوں کی حفاظت کا فرض پورا کرے۔ اور سول ادارے معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔

اس حوالے سے ایٹمی ہتھیاروں کو فوجی کنٹرول سے سول اختیار میں لانا اہم ترین اقدام ہوگا۔ اس فیصلہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا اور ہمسایہ ملکوں کے علاوہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کا موقع بھی مل سکے گا۔ پاکستان اس قسم کے اقدام کے ذریعے پارلیمنٹ اور اس میں منتخب ہونے والے قائد ایوان کو طاقت عطا کرسکتا ہے۔ یہ فیصلہ پورے خطے میں تصادم کی فضا ختم کرکے دوستی اور امن کا ماحول پیدا کرنے میں معاون ہو گا۔

عوام کی شکایات دور کرنے کے لئے تحریک ضرور چلائی جائے لیکن احتجاج کی اپیل کرنے سے پہلے اس کے تمام مضمرات کا جائزہ لے لیا جائے اور عوام پر واضح کیا جائے کہ اس احتجاج کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی واقع ہوگی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ملک کی ۴۰ سالہ موروثی سیاست کا عبرت ناک انجام ایک تصویر میں:
یہ تصویر پاکستانی سیاسی منظر نامے کی اگلی تین دہائیوں کی تصویر ہے!

جنرل مشرف اور اسکے ساتھیوں کی "صاف گوئی" کی داد دینی پڑتی ہے، انہوں نے حکومت کے سربراہ کے لیے "چیف ایگزیکٹو" کا عہدہ گھڑ کر ببانگِ دہل پاکستانیوں کو یہ بتا دیا تھا کہ "کمپنی" کا اصل مالک "بورڈ آف ڈائریکٹرز" ہے، اور چیف ایگزیکٹو ان کا محض ایک ملازم ہوتا ہے۔ کبھی کبھار بورڈ کے چیئر مین صاحب بھی چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر تشریف لے آتے ہیں۔ باقی رہے "یونین لیڈرز" جیسا کہ اس تصویر میں ہیں تو کسی روز انہوں نے بورڈ کی نوکری کرنی تو ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
مظلوم نانا اور بابا کو سیاست میں لا کر عوام سے انتقام لینے والے بھی وہی لوگ تھے۔ بھٹو نے اپنا سیاسی سفر جنرل ایوب جبکہ نواز شریف نے جنرل ضیاء کی کابینہ سے شروع کیا تھا۔
یہ بات عمار مسعود جیسے منافق لوگ عوام کو کبھی نہیں بتائیں گے۔ بلکہ صرف موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعظم پرگولا باری کریں گے۔ اگر سچ بولنا ہی ہے تو پورا بولیں۔ قوم کو گمراہ نہ کریں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ن لیگ کا عید کے بعد ملک گیر رابطہ مہم چلانے کا اعلان
200137_3033452_updates.jpg

پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ واپس لیا جائے: رہنما ن لیگ۔ فوٹو: جیو نیوز
مسلم لیگ ن نے عید کے بعد مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف ملک گیر رابطہ مہم چلانے کا اعلان کر دیا۔

اسلام آباد میں پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر حکمران اپنے منہ بند رکھتے تو آج معیشت کا یہ حال نہ ہوتا، آج بھی حکمرانوں کو یہی مشورہ دیتا ہوں، حکومت اگر سچ نہیں بول سکتی تو جھوٹ بھی مت بولے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے کم از کم اجرت 20 ہزار روپے کی جائے اور پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ واپس لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی وہ قیمت رکھی جائے جو قابل برداشت ہو، آنے والے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے اور کسی ٹیکس کی شرح میں اضافہ نہ کیا جائے۔

سڑکوں پر آنے یا حکومت گرانے کا فیصلہ اے پی سی کرے گی: شاہد خاقان
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ آئی ایم ایف سے شرائط میں بہت شکوک و شبہات ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط عوام کے سامنے رکھی جائیں۔

شاہد خاقان نے کہا کہ شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت گری ہوئی ہے اس کو گرانا مقصود نہیں، اصل مسئلہ عوام کے مسائل کا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا ہدف حکومت توڑنے اور اقتدار کا نہیں ہے، ہمارا ہدف عوام کے مسائل کا حل ہے، آل پارٹیز کانفرنس فیصلہ کرے گی کہ سڑکوں پر آنا ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل کا حل حکومت کو گرانے میں ہے تو فیصلہ اے پی سی کرے گی، مسئلے کا حل الیکشن میں ہے تو الیکشن کے مطالبے کا فیصلہ اے پی سی کرے گی۔

نواز شریف اپنے بیانیے کی وجہ سے جیل میں ہیں: رہنما ن لیگ
قومی احتساب بیورو کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ چیئرمین نیب کے اخبار کو انٹرویو کی تردید آنی چاہیے تھی، انٹرویو میں جو باتیں کہی گئیں وہ چیئرمین نیب کے دائرے اختیار میں نہیں آتیں۔

رہنما ن لیگ نے کہا کہ آج نیب کی حقیقت عوام کے سامنے آ گئی ہے، آج ہر شخص کہتا ہے کہ نیب کا عمل انتقامی ہے احتساب کا نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہمارا کل بھی تھا اور آج بھی ہے، آج اگر نواز شریف جیل میں ہیں تو اپنے بیانیے کی وجہ سے ہیں۔

سینئر نائب صدر مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عید کے بعد ملک گیر رابطہ مہم شروع کی جائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کو سامنے رکھتے ہوئے کم از کم اجرت 20 ہزار روپے کی جائے اور پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ واپس لیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی وہ قیمت رکھی جائے جو قابل برداشت ہو، آنے والے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے اور کسی ٹیکس کی شرح میں اضافہ نہ کیا جائے۔
ماشاءاللہ۔ خود تو جیسے قومی خزانہ میں زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑکر گئے تھے جو نئی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے!
3061f1e1-5942-4921-b97d-e4499a49747c.jpg
 
مظلوم نانا اور بابا کو سیاست میں لا کر عوام سے انتقام لینے والے بھی وہی لوگ تھے۔ بھٹو نے اپنا سیاسی سفر جنرل ایوب جبکہ نواز شریف نے جنرل ضیاء کی کابینہ سے شروع کیا تھا۔
یہ بات عمار مسعود جیسے منافق لوگ عوام کو کبھی نہیں بتائیں گے۔ بلکہ صرف موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعظم پرگولا باری کریں گے۔ اگر سچ بولنا ہی ہے تو پورا بولیں۔ قوم کو گمراہ نہ کریں۔
کیا اس ٹویٹ میں نصب شدہ کے بارے میں کوئی بات کہی گئی ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
لگے ہاتھ اگر یہ بھی نشاندہی فرما دیں کہ منکر و کافر، مرتد و ملحد اور جنتی اور دوزخی کون کون ہیں تو روزِ محشر احتساب کا عمل جلد نمٹ جائے گا۔
منافق لفظ اوپر سے کچھ اندر سے کچھ لوگوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی میں اسے Hypocrite کہتے ہیں۔
Capture.jpg
 
نہیں لیکن ان صاحب کے تمام تر ٹویٹس اپوزیشن جماعتوں کے حق میں ہوتے ہیں۔
میں آپ کو بیشمار ایسے صاحبان و صاحبات کے ٹویٹس دکھا سکتا ہوں جو ہمیشہ زبردستی کی بنی حکمران جماعت کے حق میں ہوتے ہیں اور کیا ان کے ایسا کرنے کی وجہ سے میں انھیں منافقین کی صف میں سمجھوں اور لکھوں؟ ایسے الفاظ کا بے جا استعمال غیر مناسب ہے۔
 
لگے ہاتھ اگر یہ بھی نشاندہی فرما دیں کہ منکر و کافر، مرتد و ملحد اور جنتی اور دوزخی کون کون ہیں تو روزِ محشر احتساب کا عمل جلد نمٹ جائے گا۔
روز محشر ذرا دور نہیں ہو جائے گا!

پاکستانی سیاست دانوں و دیگر نمایاں افراد و کچھ محفلین کے لیے ان سے فیصلہ یہیں کروا لیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں
20/05/2019 ارشاد بھٹی



سمجھ نہ آئے، معیشت زیادہ خراب یا مایوسی زیادہ پھیلائی جارہی، حکومت زیادہ نالائق یا پروپیگنڈا زیادہ کیا جا رہا، حالات آؤٹ آف کنڑول یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے ایسا تاثر دیا جارہا، بلاشبہ ڈالر شُتر بے مہار روپیہ، افغانی، نیپالی کرنسی سے بھی بے قدرا، بلاشبہ 9 ماہ میں ڈالر مہنگا ہونے سے ایک دھیلا نہ لینے کے باوجود 2 ہزار ارب قرضے بڑھ گئے، بلاشبہ ایک ماہ میں اسٹاک ایکسچینج میں 4 ہزار پوائنٹس کی کمی، کھربوں ڈوب گئے، بلاشبہ بجلی، گیس مہنگی، مزید مہنگی ہوگی، بلاشبہ مہنگائی کے توبہ شکن مرحلے ابھی باقی، بلاشبہ آئی ایم ایف ڈیل کسی پل صراط سے کم نہیں، 39 مہینوں میں ساڑھے 6 ارب ڈالروں کے لئے 8 سو ارب کے نئے ٹیکس لگانا ہوں گے، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو بھولنا پڑے گا، 90 فیصد سبسڈیز ختم کرنا ہوں گی، ڈالر پر حکومتی کنڑول نہیں رہے گا۔

گیس، بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں مرحلہ در مرحلہ اضافہ کرنا ہوگا، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے تک کی نجکاری ہو گی، آئی ایم ایف سے رقم قسطوں میں ملے گی، ہر 3 ماہ بعد حکومتی کارکردگی کو جانچے گا، آئی ایم ایف مطمئن ہوا تو ٹھیک ورنہ قرضے کی اگلی قسط سے معذرت، بلاشبہ آئی ایم ایف ڈیل کے بعد 24 گھنٹوں میں ڈالر 9 روپے مہنگا، اسٹاک ایکسچینج 8 سو پوائنٹس نیچے گری۔ بلاشبہ یہ ہوش اڑا دینے والے اعداد و شمار، بری پرفارمنس کی ایک وجہ حکومتی نا اہلی، نالائقی، کنفیوژن مگر پھر بھی کیا یہ کہنا درست کہ حکومت مکمل ناکام ہوچکی، انتخابات واحد حل، کیا یہ کہنا ٹھیک کہ حکومت کو فارغ نہ کیا تو مارشل لا کا خطرہ، کیا ایسا نہیں لگ رہا کہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے مایوسی کو ڈبل ٹرپل بنا کر دکھایا جارہا، حالات خراب مگر اتنے خراب نہیں، جتنا بتائے جارہے۔

فرض کریں اگر آج عمران خان کو ہٹا کر نواز شریف یا زرداری صاحب کا کوئی شیر جوان وزیراعظم بنا دیا جائے تو حالات ٹھیک، معاشی مسائل حل ہو جائیں گے، ملک میں دودھ، شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی، آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ دیا جائے گا؟ نہیں بالکل نہیں، تو پھر کیوں اصلی مایوسیوں کے ساتھ نقلی مایوسیاں پھیلائی جا رہیں، جعلی مایوسی فیکٹریاں چلائی جا رہیں، اِس لئے کہ عمران خان کو ناکام بنانا، اس لئے کہ عمران خان کی کامیابی کا مطلب اسٹیٹس کو کی ناکامی، باریوں کا خاتمہ، دو پارٹی سسٹم کا دی اینڈ، مل جل کر کھانے کا خاتمہ، من مرضی کی جمہوریت کا اختتام، اس لئے کہ یہ ان چند شاہی گھرانوں کی بقا کا مسئلہ، جنہوں نے اگلے 50 سال تک اقتدار میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی، یہی وجہ وہ بھی آج عوام کے لئے تڑپنے کی اداکاریاں کر رہے جن کی وجہ سے عوام تڑپ رہے، وہ بھی آج عوامی دکھ درد بانٹنے کے ڈرامے کرر ہے، جنہوں نے ہمیشہ عوام کو دکھ درد دیے، وہ بھی سبزیوں، فروٹوں، آٹے، گھی کے بھاؤ پر پر یشان، جن کے لئے عوام کی حیثیت سبزیوں، فروٹوں، آٹے، گھی جتنی بھی نہ تھی، ان کی نظر میں تو عوام پیلی ٹیکسیوں کے ڈرائیور، سستے تندور سے سستی روٹیاں کھانے والے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگراموں اور ہیلتھ کارڈوں کی لائنوں میں لگے بھکاری، کہنے کو اقبال کے شاہین، اصل میں بچا کھچا نوچتی چیلیں، ان کا نظام ایسا 2 فیصد کے لئے دودھ ملائیاں، 98 فیصد کے لئے وعدوں، امیدوں کی چوسنیاں۔

اندازہ کریں، اس ملک میں جہاں ہر نوازشریف کا کیس ترجیحی بنیادوں پر سنا جائے، جہاں ہر آصف زرداری کو آدھ درجن کیسوں میں ایک ہی دن ضمانتیں مل جائیں، جہاں ہر شہباز شریف کی لندن میں بیٹھے ضمانت میں توسیع ہوجائے، جہاں ہر حمزہ کو چھٹی والے دن گھر کے بیسمنٹ میں انصاف مل جائے، وہاں عوام کا حال یہ کہ ایک غریب پان والے جمشید اقبال کو احترام رمضان آرڈیننس کے تحت 5 دن قید کے خلاف اپیل پر 6 سال بعد انصاف ملے، ہے نامزے کی بات، 5 دن قید کے خلاف اپیل، فیصلے میں 6 سال لگ گئے، اب یہ نظام بنانے والے، عوام، عوام کررہے ہوں تو کون اعتبار کرے گا، رہ گئی معیشت کی بدحالی تو جہاں چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں کو قدم قدم پر تحفظ ہوں گے، نرمیاں برتی جائیں گی، رعایتیں ملیں گی، وہاں معاشی خوشحالی خاک آئے گی، جہاں سیاستدان، بیورو کریٹس کرپشن، بے ایمانی، دو نمبری میں نکونک ہوں گے، وہاں معاشی خوشحالی خاک آئے گی، جہاں صورتحال یہ ہوگی کہ د و چار دن پہلے حفیظ شیخ رعایتیں مانگتے تاجروں، ایکسپوٹروں سے جب کہیں ”یہ سب رعایتیں لے کر ایکسپورٹ بڑھائیں گے“ تو جواب ملے ”ایکسپورٹ نہیں بڑھا سکتے لیکن رعایتیں دیدیں“ ان حالات، اس مائنڈ سیٹ میں خوشحالی کیا خاک آئے گی، جہاں قوم ایسی کہ حج، عمرے، دنیا بھر میں ٹاپ فائیو میں جبکہ جھوٹ، منافقت، ملاوٹ میں بھی پانچواں نمبر، وہاں خوشحالی کیا خا ک آئے گی۔

بلاشبہ معاشی بحران مگر اتنا بھی نہیں کہ یہ فیصلہ صادر کر دیا جائے کہ 9 ماہ کی حکومت ہر خرابی کی ذمہ دار، اسے نہ ہٹایا گیا تو مارشل لا لگنے کا خطرہ، حالانکہ ہمارے ہاں ہی نہیں پوری دنیا میں معاشی بحران چل رہا، صرف روپیہ نہیں پاؤنڈ بھی ڈی ویلیو ہوا، کل ایک پاؤنڈ کے دو ڈالر تھے، آج ایک پاؤنڈ کے 1.30 ڈالر، کل ایک یورو کی ویلیو تھی۔ 1.80 سے 1.95 ڈالر، آج ایک یورو 1.12 ڈالر کا، مہنگائی برطانیہ میں بھی، پٹرول 200، ڈیزل 250 روپے کا ایک لیٹر، سعودیہ جہاں 95 پیسے کا ایک لیٹر پٹرول وہاں آج دو ریال کا ایک لیٹر، مہنگائی ہرجگہ، کرنسی کی بے قدری ہرجگہ، جن حالات سے ہم گزر رہے، ان سے سب گزر رہے، ہمیں صورتحال اس لئے مشکل لگ رہی کیونکہ یہاں جزا، سزا کا نظام نہیں، گھوڑے، گدھے ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جارہے، دوفیصدکی سات نسلیں سنور چکیں، 98 فیصد کا حال نہ مستقبل، جو ڈکیتیاں ہوچکیں ان کا حساب لینے نہیں دیا جا رہا، جو ڈکیتیاں ہورہیں، ان کو روکا نہیں جا رہا، پھر ان مشکلات کو مایوسی کے تڑکے اس لئے لگائے جارہے کیونکہ تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکالنی، عمران خان کو ناکام بنانا اور کھال بچاؤ، آل بچاؤ اور مال بچاؤ مقصد، اب یہ تو معلوم نہیں کہ مکار، عیار دشمنوں اور چھوٹے دماغوں، لمبی زبانوں والے نا اہل، ناتجربہ کار دوستوں میں گھرے عمران خان کی چومکھی لڑائی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے لیکن یہ معلوم کہ اگر اس چومکھی لڑائی میں عمران خان ہار گیا تو اگلے پچاس سال پاکستان میں امید، خواب کی موت ہو جائے گی۔
 
Top