احتجاجی تحریک: ٹھیک ہے مگر حاصل کیا کرنا ہے؟
19/05/2019 سید مجاہد علی
خبر ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے بھی پیپلز پارٹی کی طرح یہ فیصلہ کیا ہے کہ عید الفطر کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی اس قسم کی تحریک کے لئے پر تولے ہوئے ہیں اور گزشتہ چند ماہ کے دوران نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو ایک کمزور حکومت کے خلاف عوامی تحریک کے ذریعے چلتا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
ابھی یہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں کس قسم کی تحریک چلانے کی منصوبہ بندی کریں گی۔ یا یہ کہ واقعی عوام کے بڑے اجتماع کو تسلسل سے سڑکوں پر لانے کا فیصلہ کیا جائے گا یا علامتی احتجاج کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے گا اور مہنگائی اور معاشی بے یقینی کی وجہ سے عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصہ کو مہمیز دی جائے گی۔ مسلم لیگ نے ابھی تک اپنی حکمت عملی کی صراحت نہیں کی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری گزشتہ دنوں عدالت میں ایک پیشی کے موقع میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے عید کے بعد تحریک چلانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے اپنے قائد نواز شریف کی عبوری ضمانت کے خاتمہ پر کوٹ لکھپت جیل واپسی کے بعد پارٹی کی تنظیم نو کی ہے اور یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ پارٹی اب شہباز شریف سے منسوب مصالحانہ حکمت عملی کی بجائے نواز شریف کی جارحانہ سیاسی حکمت عملی پر گامزن ہونے کے لئے تیار ہے۔ اس کا ایک اشارہ مریم نواز کو پارٹی کا نائب صدر بنا کر بھی دیا گیا ہے۔
ان خبروں اور اشاروں کے باوجود یہ بات ہنوز بحث طلب ہے کہ کیا ملک موجودہ حالات میں ایک نئی احتجاجی تحریک کا متحمل ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپوزیشن لیڈروں کی ہر طرح ہتک کرنے کے علاوہ بار بار یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وہ دھرنا دیں، کنٹینر ان کی حکومت فراہم کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ وضاحت بھی کرتے رہے ہیں کہ اپوزیشن میں کسی قسم کا احتجاج کرنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ گویا وہ اپوزیشن کو احتجاج پر اکسانے کی کوشش کرکے اپنی مقبولیت اور اپنی حکومت کی سیاسی قوت کا اظہار کرنا ضروری سمجھتے رہے ہیں۔
تاہم 9 ماہ کی مختصر مدت میں ہی تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی ناقص حکمت عملی اور معاشی بدانتظامی کی وجہ سے ملک کے اکثر لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ کوئی بھی عمران خان یا ان کی ٹیم سے کسی معجزے کی توقع نہیں کر رہا تھا لیکن یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ بصد کوشش اقتدار میں آنے کے بعد ٹھوس معاشی پروگرام اور انتظامی ڈھانچے میں مثبت تبدیلیوں کا آغاز کریں گے۔ یہ امیدیں بوجوہ دم توڑ چکی ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت کے مختصر دورانیہ میں معیشت مسلسل انحطاط کا شکار ہوئی ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی اور بازار ٹھنڈے ہونے کی وجہ سے بیروز گاری اور قیمتوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت محاصل وصول کرنے کے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے بعد اب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہو رہی ہے اور بجلی، گیس و تیل کی مصنوعات پر محاصل میں اضافہ یا سبسڈی میں کمی کی جائے گی۔
ان فیصلوں کا باالواسطہ اثر عام آدمی کی جیب پر ہی پڑے گا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بنیادی ضرورت کی اشیا اور سہولتوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے عوام کی مایوسی اب غم و غصہ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں بھی اسی صورت حال کو کسی عوامی سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کر رہی ہیں۔ یعنی اس وقت حکومت وہ سارے حالات پیدا کر چکی ہے جو اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کے خلاف خطرناک ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب گرم لوہے پر چوٹ لگانے کی دیر ہے۔
تاہم پاکستان کے سیاسی، معاشی اور انتظامی حالات کی روشنی میں عوامی تحریک کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کسی بھی احتجاج کا مقصد صرف تحریک انصاف کو اقتدار سے محروم کرنا نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کام تو سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے معمولی اکثریت کی بنیاد پر قائم پنجاب اور مرکز کی حکومتوں کو گرا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع کرنے سے پہلے سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو واضح اہداف کا تعین کرنا چاہئے۔ اگر یہ اہداف متعین کئے بغیر تحریک شروع کی گئی تو اس سے سماجی انتشار، معاشی بحران اور سیاسی بے یقینی میں اضافہ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف کی بجائے اگر کوئی دوسری پارٹی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے تو کیا وہ عوام کو ان مالی مشکلات سے فوری طور پر نجات دلا سکتی ہے جن کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جا رہی ہے۔ کیا کوئی نئی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننے سے انکار کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔ کیا یہ پارٹیاں ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ٹھوس فیصلے کرسکیں گی جو اس وقت حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سابقہ دونوں ادوار میں بھی یہی سب سے بڑا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ معاشی بد انتظامی اور اس حوالے سے عوام کی مشکلات کو نعرہ بنانے سے پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کو اس وقت جن مالی مسائل کا سامنا ہے ان کی کچھ وجوہ دوسری دونوں بڑی پارٹیوں کے ادوار کی دین ہیں۔ ملک کی کوئی بھی حکومت اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافہ کا مناسب اہتمام نہیں کرسکی ۔
احتجاجی تحریک کی بنیاد یہ سیاسی اصول ضرور ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کی سب سے بڑی وجہ اسے عسکری اداروں کا درپردہ حاصل ہونے والا تعاون تھا۔ جمہوریت کے بنیادی اصول کے پیش نظر ایک جمہوری انتظام میں اس قسم کےساز باز اور ملی بھگت کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس بنیاد پر کوئی تحریک چلانے سے پہلے اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کو ماضی میں اپنے کردار کے حوالے سے سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ اور یہ واضح کرنا ہوگا کہ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے لئے ان کی تحریک کا مقصد واقعی ووٹر کی بالادستی ہے اور اس قسم کا احتجاج محض اقتدار حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا جائے گا۔
اس اصول کو بنیاد بناتے ہوئے اپوزیشن کی اہم قیادت کو یہ وعدہ بھی کرنا پڑے گا کہ مستقبل میں وہ خود اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی سازش کا حصہ بن کر جمہوریت کا راستہ کھوٹا کرنے کا سبب نہیں بنے گی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے 90 کی دہائی کے برے تجربات کے بعد میثاق جمہوریت کے نام سے ایک اہم دستاویز پر دستخط کئے تھے لیکن ان دونوں پارٹیوں نے باری باری اقتدار میں آنے کے باوجود اس معاہدے کے اصولوں پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اس لئے عوام کو جمہوری اقدار کے لئے گھروں سے نکلنے کی اپیل کرنے سے پہلے سیاسی لیڈروں کو خود یہ وعدہ کرنا ہو گا کہ وہ بھی اپنے عزم کو ترک نہیں کریں گے۔ اور یہ ساری جدوجہد محض حکومت گرانے تک محدود ہو کر نہیں رہ جائے گی۔
ایک کمزور سیاسی حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک کی سیاسی کامیابی کا امکان ضرور موجود ہے لیکن تحریک چلانے والے لیڈروں کو اس حوالے سے اپنی حکمت عملی بھی واضح کرنا ہوگی تاکہ اس کے نتیجے میں پھر سے ملک میں آمریت کا طویل دور نافذ نہ کردیاجائے۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ اس اصول سے دوٹوک وابستگی ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور اقتدار ملنے کے بعد بھی تمام اہم فیصلے منتخب پارلیمنٹ میں کرنے کا عہد کرنا ہوگا۔ اسی حوالے سے میڈیا کی آزادی کو مستحکم کرنے اور سیاسی بنیادوں پر انتقام کا طرز عمل ترک کرنے کے لئے قبل از وقت لائحہ عمل سامنے لانا مناسب ہوگا۔ نیب کے جس قانون کو اس وقت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کالا قانون قرار دے رہی ہیں، دونوں جماعتیں اپنے ادوار میں اسے تبدیل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔
موجودہ حالات میں کوئی بھی عوامی تحریک اس وقت تک بامقصد نہیں ہوسکتی جب تک اس کی قیادت ملک کی دہائیوں پرانی سیکورٹی اسٹیٹ کی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کے لئے کام کرنے کا وعدہ نہیں کرتی۔ اس کے لئے نہ صرف فوج کے دائرہ کار کو محدود کرنا ہوگا، اس کی تعداد اور اخراجات میں کمی کرنا ہوگی بلکہ انتظام و انصرام کے لئے سول اداروں کو مضبوط و مستحکم کرنا پڑے گا تاکہ فوج دل جمعی سے صرف سرحدوں کی حفاظت کا فرض پورا کرے۔ اور سول ادارے معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔
اس حوالے سے ایٹمی ہتھیاروں کو فوجی کنٹرول سے سول اختیار میں لانا اہم ترین اقدام ہوگا۔ اس فیصلہ سے دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتی عزت و وقار میں اضافہ ہوگا اور ہمسایہ ملکوں کے علاوہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملات طے کرنے کا موقع بھی مل سکے گا۔ پاکستان اس قسم کے اقدام کے ذریعے پارلیمنٹ اور اس میں منتخب ہونے والے قائد ایوان کو طاقت عطا کرسکتا ہے۔ یہ فیصلہ پورے خطے میں تصادم کی فضا ختم کرکے دوستی اور امن کا ماحول پیدا کرنے میں معاون ہو گا۔
عوام کی شکایات دور کرنے کے لئے تحریک ضرور چلائی جائے لیکن احتجاج کی اپیل کرنے سے پہلے اس کے تمام مضمرات کا جائزہ لے لیا جائے اور عوام پر واضح کیا جائے کہ اس احتجاج کے نتیجے میں ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی واقع ہوگی۔