افطار پارٹی عوام کے ساتھ مذاق نہیں تھا !
21/05/2019 وجاہت مسعود 5,793 Views
برادر عزیز ذیشان حسین نے “ہم سب” پر ایک کالم لکھا ہے جس کا عنوان ہے، “
افطار پارٹی عوام کے ساتھ مذاق تھا “۔ مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں۔ ذیشان حسین درویش کے پرانے دوست ہیں۔ رائے میں اتفاق اور اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ اچھی دوستی رائے کے کس فروعی زاویے سے زیادہ بڑی چیز ہے۔ اس باہم احترام ہی سے بامعنی مکالمہ آگے بڑھتا ہے۔
ضیا الحق کی رخصتی کے بعد نواز شریف پاکستان کے سیاسی منظر پر اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب تھے۔ انہیں پنجاب کی وزارت خزانہ اور پھر وزارت اعلیٰ تک تو ضیاالحق خود لائے تھے لیکن آئی جے آئی کے قیام اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کی مسند تک لے جانے کا منصوبہ اسلم بیگ، حمید گل اور غلام اسحاق خان کا تھا۔ نواز شریف کے پس پشت اسٹیبلشمنٹ بھی تھی، طاقتور کا اشارہ پا کر نشان زدہ چھتری پر اترنے والے سیاسی کبوتر بھی تھے، درمیانہ کاروباری طبقہ بھی تھا، بھٹو کی نیشنلائزشن کے ڈسے ہوئے سرمایہ دار بھی تھے، آمریت کے سائے میں پرورش پانے والی بیوروکریسی بھی نواز شریف کا ساتھ دے رہی تھی۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ پیپلز پارٹی کو مذہب دشن، روایت دشمن اور فوج کا مخالف سمجھنے والا مذہبی ذہن بھی نواز شریف کو گویا ضیاالحق کی توسیع سمجھتا تھا۔ نواز شریف بھی دل و جان سے ضیاالحق کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے تھے۔ انہیں نام نہاد مغرب زدہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں میڈ ان پاکستان، شرافت کا علمبردار، مذہب کا پابند محب وطن قرار دیا جاتا تھا۔
سیاسی موقع پرستی، میڈیا ٹرائل اور انتخابی دھاندلی کا کونسا حربہ تھا جو پاکستان کی ہمہ مقتدر قوتوں نے نواز شریف کے حق میں استعمال نہیں کیا۔ بعد کے برسوں میں نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت میں اخبار سیاہ کرنے والے کتنے ہی نام ہیں جنہوں نے نواز شریف کا بت تراشنے میں اپنے قلم کی روشنائی صرف کی۔ سنا جاتا ہے کہ کچھ سیانے آج کل افغان پالیسی اور جہاد کی کھلی حمایت کو غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے آخری بیس برس میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی جہاد اور اس کی آڑ میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی طرف اشارہ بھی کر سکے۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر بھٹو، جہاد کے نام پر سب کو سر جھکاتے ہی بنتی تھی۔ اور نواز شریف تو گویا عساکر جہاد کے سالار تھے۔
1988 میں بے نظیر بھٹو کی مفلوج، کٹی پھٹی اور ناتجربہ کار حکومت کو ایک دن ٹک کر کام کرنے نہیں دیا گیا۔ ہر روز ایک نیا اسکینڈل، ہر گھڑی ایک نیا بحران اور آئے روز ایک نیا الزام۔ ہمارے ہاں ایک عہدہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کے نام سے پایا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ ان دنوں کون اس عہدے کو رونق بخش رہا ہے۔ 30 برس قبل اس عہدے پر فائز ایڈمرل افتخار احمد سروہی ٹھیک اسی طرح قومی مفاد کے نمایاں ترین ٹھیکے دار تھے جیسے چند ماہ قبل ایک صاحب پاکستان میں ڈیم بنا رہے تھے اور آبادی پر قابو پانے کے لئے کانفرنس وغیرہ کرتے تھے۔
آصف علی زرداری کی کردار کشی میں ایک افسانہ اس بزنس میں کا تھا جس کی ٹانگ سے بم باندھ کر اسے بینک لے جایا گیا اور اسے زبردستی رقم نکال کر دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ آج کے سینئر صحافی کامران خان سے دریافت کیجئے کہ انہیں یہ کہانی گھڑنے کا حکم کس نے دیا تھا؟ ایک الزام یہ تھا کہ وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے سکھوں کی لسٹیں بھارت کو دے دی ہیں۔ یہ کون سی لسٹیں تھیں، اعتزاز احسن کو کہاں سے ملیں اور انہیں یہ مبینہ لسٹیں بھارت کو دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اعتزاز احسن آج بھی پاکستان ہی میں ہیں۔ ان پر کسی نے اس سنگین الزام میں مقدمہ کیوں نہیں چلایا؟
نومبر 1988 سے اگست 1990 تک کے بیس مہینے ایک قیامت کی طرح گزرے۔ اس دوران کراچی میں ایم کیو ایم ایک عفریت کی طرح ابھری۔ آج جس شخص کو بانی ایم کیو ایم کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے، تب وہ ایک صاحب کرامات تھا جس کی شبیہ مسجدوں کی دیواروں پر خود بخود نمودار ہوتی تھی۔ عزیز آباد کا پیر صاحب جس کے بستر سے چڑیاں اٹھنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔ جس کے دروازے پر نواز شریف سے لے کر بے نظیر بھٹو تک، اور قاضی حسین احمد سے لے کر ولی خان تک، سب حاضری دیتے تھے۔ کراچی کا تشدد زدہ تشخص، مجرمانہ ماحول اور خون آلود چہرہ ایک بڑے کھیل کا حصہ تھا جس کا مقصد حسب ضرورت ناپسندیدہ منتخب حکومتوں کو بے دست و پا کرنا تھا۔
زیادہ نہیں صرف یہ پوچھ لیجئے کہ کسی نے آج تک یہ سوال کیوں نہیں پوچھا کہ 26 مئی 1990 کو کون لوگ تھے جو ایک طرف سے حیدر آباد شہر میں داخل ہوئے اور سینکڑوں افراد کو قتل کرتے ہوئے دوسری طرف سے نکل گئے؟ صرف ایک اشارہ: لیفٹنٹ جنرل اسد درانی نے کہا تھا کہ پکا قلعہ آپریشن کے بعد بے نظیر حکومت برخاست کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ 1993، 1996 اور 1999 اور پھر 2007 میں کراچی سیاسی اتار چڑھاؤ میں بیرو میٹر کا کردار اختیار کر گیا۔ جہاں کٓراچی میں مار دھاڑ شروع ہوئی، سب سمجھ جاتے تھے کہ حکومت کا چل چلاؤ ہے۔
پاکستان میں احتساب کے نام پر سیاسی مخالفوں کو کسنے کی روایت لیاقت علی خان کے وقت سے چلی آتی ہے۔ ایوب خان نے احتساب کے نام پر ایبڈو کا قانون بنایا اور سیاست دانوں کی ایک پوری نسل کو منظر سے غائب کر دیا۔ ضیاالحق نے احتساب کے نام ہی پر انتخاب ملتوی کر کے اپنے اقتدار کو توسیع دی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اسی احتساب کا شاخسانہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت طویل آمریت کے بعد جمہوری حکمرانی کا مختصر، کمزور لیکن امید بھرا تجربہ تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اس عرصے میں “جمہوریت بہترین انتقام ہے” کا نعرہ متعارف کرایا تھا۔
تاہم 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت معزول کئے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ احتساب ہی کو انتقام کا صحیح طریقہ سمجھتی ہے۔ سندھ میں جام صادق علی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا جو خود کو غلام اسحاق خان کا تھانیدار قرار دیتے تھے۔ آصف علی زرداری کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا اور وہ نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دوران سارا وقت جیل میں رہے۔ جام صادق علی کی چیرہ دستیوں کی کچھ تفصیل پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا سے معلوم کی جا سکتی ہے۔
معروف کالم نویس ایاز امیر نے جام صادق سے پوچھا کہ آپ کی حکومت پر الزام ہے کہ مخالف سیاسی خواتین کے نازک اعضا میں سرخ مرچیں ڈالی جا رہی ہیں۔ جام صادق علی نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ نہیں، ہم تو آج کل اس مقصد کے لئے ٹوبیسکو ساس (Tabasco Sauce) استعمال کر رہے ہیں۔ سردار شوکت حیات کی صاحبزادی سے جنسی زیادتی کا الزام غلام اسحاق خان کے داماد عرفان اللہ مروت پر لگا تو دیانت کے پتلے غلام اسحاق خان نے کہا کہ میرے داماد کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کہ دوسروں کے داماد کیا کرتے پھر رہے ہیں۔ غلام اسحاق خان کی ضرب المثل دیانت داری کا نقطہ کمال یہ تھا کہ اپریل 1993 میں آصف علی زرداری کو جیل سے نکال کر سیدھا ایوان صدر میں لایا گیا جہاں غلام اسحاق خان نے ان سے نجکاری کے نگران وفاقی وزیر کا حلف اٹھوایا۔
اس تجربے کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے دوسرے عہد اقتدار میں احتساب کا آزمودہ نسخہ اختیار کر لیا۔ قائد حزب اختلاف نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کی توہین آمیز گرفتاری کا واقعہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاہم انتقام کا یہ کھیل یک طرفہ نہیں تھا۔ مرتضی بھٹو قتل کیس کے حقائق کبھی سامنے نہیں آ سکے اگرچہ شعیب سڈل آج بھی پاکستان کا تحقیقی دماغ سمجھے جاتے ہیں۔ حیدر آباد کے پکا قلعہ قتل عام، مرتضیٰ بھٹو قتل، 12 مئی 2007، ماڈل ٹاؤں لاہور فائرنگ اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تفصیلات کبھی سامنے نہیں آ سکتیں۔ ان تمام واقعات کا دھاگہ ناگزیر طور پر لیاقت علی خان کی شہادت اور مارچ 1973 میں لیاقت باغ فائرنگ کیس سے بندھا ہے۔ اتنا اشارہ کافی ہے کہ 20 ستمبر 1996 کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد فاروق لغاری سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے ایک قہقہے کی صورت میں اپنا ردعمل دیا تھا۔
5 نومبر 1996 کو بے نظیر بھٹو حکومت ختم کرنے کی رات آصف علی زرداری لاہور کے گورنر ہاؤس سے گرفتار کئے گئے اور انہیں احتساب کے نام پر 2004 تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ اس احتساب کی کہانی آصف زرداری کی زبان پر ان زخموں کے نشان بیان کرتے ہیں جن کے باعث ان کے لہجے میں آج بھی معمولی لکنت محسوس کی جا سکتی ہے۔ 1997 سے 1999 تک نواز شریف حکومت میں کئے گئے احتساب کی کچھ تفصیل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک قیوم کی اس ٹیلی فون کال میں موجود ہے جس کا انکشاف آئی بی کے سابق ڈائریکٹر مسعود شریف نے کیا تھا۔ اس احتساب کی کچھ گواہی حامد میر سے بھی لی جا سکتی ہے جنہوں نے کمرہ عدالت میں سیف الرحمن کو گڑگڑا کر آصف زرداری سے معافی مانگتے دیکھا تھا۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ 1988 سے 1999 تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے 1988 میں سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کیا۔ وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ سے دست برداری قبول کی۔ عہدہ صدارت کے لئے نوابزادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کی حمایت کی۔ افغانستان سے سوویت فوج کی واپسی کے بعد جہادی سرگرمیوں کی مقبوضہ کشمیر منتقلی کی مزاحمت نہیں کی۔ 1993 میں نواز شریف کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اسحاق خان اور مقتدرہ سے گٹھ جوڑ کیا۔ اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کرنے کا خیر مقدم کیا۔
اس عرصے میں نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں پنجاب حکومت کو بے نظیر کی وفاقی حکومت کے خلاف مورچے میں تبدیل کر دیا۔ آئی ایس آئی سے وہ فنڈ قبول کئے جن کی تفصیل یونس حبیب کی ڈائری میں محفوظ رہی۔ ذرائع ابلاغ کو ناجائز مراعات کی مدد سے حکومتیں بنانے اور گرانے کا ہتھیار بنا لیا۔ پارلیمانی نظام کے استحکام کی بجائے تصادم کی سیاست کو اپنی طاقت سمجھا۔ پندرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے جمہوری نظام پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی۔ انتخابی دھاندلی کے منصوبوں کا حصہ رہے، پس پردہ اشاروں پر تحریکیں چلائیں اور جہاں تک ممکن ہو سکا، اقتدار کے لئے عوام کے مفادات کو رہن رکھا۔
اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف طیارہ ہائی جیکنگ کے جھوٹے الزام کی آڑ میں اقتدار پر قابض ہوئے۔ درحقیقت پرویز مشرف کا طیارہ پاکستان کی فضاؤں میں داخل ہونے سے پہلے ٹرپل ون بریگیڈ ایوان وزیر اعظم کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ بعد ازاں پرویز مشرف نے عدالت سے تین برس کے لئے اقتدار کا غیر آئینی پروانہ حاصل کیا۔ احتساب بیورو کو سیاست دانوں کی وفاداریاں خریدنے کے لئے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ پرویز مشرف کے احتساب کی درون خانہ گواہی تو جنرل شاہد عزیز اور جنرل گلزار کیانی نے دی ہے۔
سیاست دانوں سے احتساب بیورو کا تجربہ معلوم کرنا ہو تو چوہدری شجاعت حسین، فیصل صالح حیات اور آفتاب شیر پاؤ سے پوچھیئے۔ اور اگر خالص سیاسی نکتہ طرازی سے لطف لینا ہو تو 2002 کی قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کا جملہ یاد کیجئے۔ انہوں نے اسپیکر امیر حسین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اسمبلی قوم کے ضمیر کی آواز نہیں، (جنرل) احتشام ضمیر کی آواز ہے۔ 17ویں آئینی ترمیم کی مدد سے دستور کا پارلیمانی تشخص تباہ کرنے والے پرویز مشرف کھلے بندوں کہتے تھے کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو پاکستانی سیاست میں واپس نہیں آنے دوں گا۔ اس پس منظر میں 14 مئی 2006ء کو لندن میں بے نظیر بھٹو شہید اور محترم نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا۔
1973 کے متفقہ دستور کے بعد میثاق جمہوریت پاکستان کی جمہوری تاریخ میں اہم ترین دستاویز ہے۔ میثاق جمہوریت کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جمہوری قوتیں سیاسی عمل میں غیر سیاسی مداخلت قبول نہیں کریں گی۔ ظاہر ہے کہ عوام کا حق حکمرانی غصب کرنے والی قوتوں کے لئے میثاق جمہوریت جیسی دستاویز ہرگز خوشگوار نہیں تھی۔ میثاق جمہوریت ہی کا کرشمہ تھا کہ بے نظیر بھٹو شہید اور محترم نواز شریف پاکستان واپس آئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی میثاق جمہوریت ہی کا شاخسانہ تھی۔ میثاق جمہوریت کی بنیاد سے اٹھارہویں آئینی ترمیم کی عمارت اٹھائی گئی جس نے وفاق پاکستان کی اکائیوں کو وہ صوبائی حقوق عطا کئے جن کا وعدہ 1940 کی قرار داد لاہور میں کیا گیا تھا۔ ان صوبائی حقوق کی ضمانت 1973 کے دستور میں دستاویز کی گئی تھی۔ جنہیں فروری 1981ء میں تحریک بحالی جمہوریت کے چار اساسی نکات میں شامل کیا گیا تھا۔
میثاق جمہوریت ہی کی رو سے نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف غیر جمہوری سازش ہوئی تو وہ آگے بڑھ کر اس کی مزاحمت کریں گے۔ طاہر القادری نے 2013ء میں حکومت کو مفلوج کرنے لئے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو میثاق جمہوریت کی روشنی میں نواز شریف کی زیر قیادت حزب اختلاف کے مشترکہ بیان نے اس سبوتاژ منصوبے کا دھڑن تختہ کر دیا۔ میثاق جمہوریت ہی کا نصب العین تھا کہ اگست 2014 میں پیپلز پارٹی سمیت تمام پارلیمانی قوتیں نواز شریف حکومت کی مدافعت میں فصیل بن گئیں۔
تاہم یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ گزشتہ 14 برس میں جمہوری قوتیں میثاق جمہوریت کے متن اور روح پر پوری طرح کاربند رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے نواز شریف کو اعتماد میں لئے بغیر این آر او کے مزاکرات اسی شخص سے کئے جو بعد ازاں این آر او کی مخالفت میں پس پردہ ڈوریاں ہلاتا رہا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے مطالبے پر نواز شریف کے غیرضروری اصرار نے پیپلز پارٹی حکومت کو غیرمستحکم کیا۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا نواز شریف کی غلطی تھی۔
آصف علی زرداری انکشاف کر چکے ہیں کہ جنرل شجاع پاشا نے ان سے یہ کہہ کر معافی مانگی تھی کہ میمو گیٹ اسکینڈل جنرل کیانی کے حکم پر گھڑا گیا تھا۔ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کی حکومت 2017 کے گہرے پانیوں میں تھی جب آصف علی زرداری نے بلوچستان حکومت کے خلاف سازش کا حصہ بن کر جولائی 2018ء کی راہ ہموار کی۔ جمہوریت کا سفر سیدھی سڑک پر طے نہیں ہوتا۔ یہ مسلسل سیکھنے کا عمل ہے۔ اس میں پگڈنڈی، شاہراہ، بند گلی اور گہری کھائی کی آزمائش مستقل درپیش رہتی ہے۔ جمہورہت اپنی غلطیوں سے سیکھتے رہنے کا عمل ہے۔
بلاول بھٹو اور مریم نواز پاکستان کی نئی نسل کے چہرے ہیں۔ یہ دونوں کبھی براہ راست اقتدار کا حصہ نہیں رہے۔ ان دونوں کے پاس گزشتہ نسل کے قیمتی تجربات کی میراث ہے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے 18 برس تک سیاسی آزمائش کاٹنے کے بعد 2006 میں میثاق جمہوریت کی صورت میں جو نصب العین اختیار کیا تھا، بلاول بھٹو اور مریم نواز وہاں سے اپنے سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ اسے بھی تاریخ کا انصاف کہا جائے گا کہ 1990 میں پیپلز پارٹی کی قیادت بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں جب کہ آئی جے آئی کے سربراہ نواز شریف تھے۔ ان دنوں نواز شریف کے پارسا حامی بے نظیر بھٹو کی صنفی شناخت پر رکیک حملے کیا کرتے تھے۔ آج مسلم لیگ نواز کی قیادت عملی طور پر مریم نواز کے ہاتھوں میں پہنچ گئی پے جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم تمدنی طور پر ایک قدم آگے بڑھے ہیں۔
مریم نواز نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا بیانیہ ووٹ کو عزت دینا ہے۔ بلاول بھٹو کے کندھوں پر اپنی شہید ماں کی لہو میں ڈوبی چادر ہے۔ لیاقت علی خان کو لگنے والی گولی، ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں آویزاں پھانسی کا پھندہ اور بے نظیر بھٹو کا تابوت پاکستان کی جمہوری روایت کے سنگ میل ہیں۔ تاریخ کی عدالت میں اس میراث کا دعویٰ ووٹ کے نام پر ہی کیا جا سکتا ہے۔
ووٹ لوگوں کے حق حکمرانی کی دلیل ہے، ووٹ قوم کی خود مختاری کا نشان ہے، ووٹ عوام کی معاشی ترقی کی ضمانت ہے۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز کا آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، شاہد خاقان عباسی، حاصل بزنجو، پرویز رشید، آفتاب شیرپاؤ اور خورشید شاہ جیسے تجربہ کار رہنماؤں کی موجودگی میں ہراول دستے کے طور پر آگے بڑھنا پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
میاں افتخار حسین جیسے قابل احترام رہنما نے اس پیش رفت کو کس خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے کہ حقیقی مقصد عمران حکومت کو غیر مستحکم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کو پسماندہ اور غیرمستحکم کرنے والی قوتوں کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کرنا ہے۔ اس مقدس جدوجہد کو مذاق قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے پرویز مشرف کے حواری میثاق جمہوریت پر مذاق جمہوریت کی پھبتی کستے تھے۔
بلاول بھٹو کی افطار پہل کاری کو “ابو بچاؤ” تحریک کا تضحیک آمیز نام دینے والے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے 2014ء میں اپنے معنوی چچا جان کو آرٹیکل چھ کے تحت قائم مقدمے سے بچانے کے لئے 126 دن کا دھرنا دیا تھا اور بالآخر اپنے بزرگ مشفق کو دبئی پہنچانے میں کامیاب رہے تھے۔ آمریت فرد واحد کا تسلط ہے جب کہ جمہوریت قوم کا تسلسل ہے۔ آمرانہ قوتوں کی سیاست افراد کے گرد گھومتی ہے جب کہ جمہوری قوتیں نسل در نسل انسان کی تکریم کا سفر طے کرتی ہیں۔ بلاول بھٹو کی افطاری مذاق نہیں، ایک قابل تحسین اور خوش آئند جمہوری سنگ میل ہے۔