پاکستان کا دیوالیہ ہی عمران خان کا پرچہ ترکیب استعمال ہے
11/07/2019 سید مجاہد علی
گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ کسی زیر تفتیش سیاست دان کا انٹرویو نشر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اب اس فیصلہ سے پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی یعنی پیمرا کو مطلع کیا جائے گا تاکہ وہ حکومت کی منشا اور صوابدید کے مطابق قومی ٹیلی ویژن نشریات کو کنٹرول اور محدود کرنے کا اقدام کرے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت براہ راست سنسر شپ کے حوالے سے اس سے بدتر فیصلہ نہیں کر سکتی۔
اس دوران ملک کے اٹارنی جنرل انور منصور علی خان کا ایک انٹرویو نشر ہؤا ہے جس میں انہوں نے مریم نواز کی طرف سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ویڈیو پر تبصرہ کیا ہے۔ انہیں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ کسی پرائیویٹ شخص نے ایک دوسرے شخص کی اجازت کے بغیر ویڈیو بنائی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس پر مملکت کو حرکت میں آنا چاہیے اور ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو اس جرم میں ملوث ہیں۔
اگرچہ اٹارنی جنرل ہی ملک میں قانون نافذ کرنے اور مختلف جرائم میں ملوث ہونے والوں کے خلاف اقدام کرنے کا اختیار رکھتے ہیں لیکن ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہ وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اگر مریم نواز کی جاری کردہ ویڈیو ’غیر قانونی اور ایک فرد کی پرائیویسی پر حملہ‘ کے مترادف ہے تو اس شخص کو ’انصاف‘ فراہم کرنے کے لئے ملک کا قانون نافذ کرنے کے لئے وہ خود کیا اقدام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
معاملہ کا یہ پہلو دلچسپ بھی ہے اور تعجب خیز بھی کہ انور منصور خان نے اس پیچیدہ اور مشکل مسئلہ کو ایک سادہ قانون شکنی تو قرار دیا لیکن وہ خود یہ حوصلہ نہیں کر پائے کہ فوری طور پر پولیس حکام کو ایف آئی آر درج کرنے اور ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے جنہوں نے جج ارشد ملک کی ویڈیو تیار کی اور پھر اسے نشر کر کے بطور شہری ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی۔ اس ویڈیو کے متن کی تردید کرتے ہوئے جج ارشد ملک نے اپنی پریس ریلیز میں بھی یہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا ’مشورہ‘ دیا تھا لیکن وہ بطور جج یا بطور متاثرہ شہری مدعی بن کر پولیس کے پاس نہیں گئے تاکہ یہ ویڈیو نشر کرنے پر مریم نواز اور ان تمام دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی جو اس ’غیر قانونی‘ ویڈیو ریکارڈنگ میں ملوث ہیں۔
اب مریم نواز نے جج ارشد ملک کی دو مزید ویڈیو جاری کی ہیں۔ اس طرح جج صاحب اور اٹارنی جنرل کا ’مقدمہ‘ مزید مضبوط ہو گیا ہے۔ اہل پاکستان کو انتظار کرنا چاہیے کہ ملکی عدالتی تاریخ میں دباؤ میں فیصلہ کا ’اعتراف‘ کرنے والے جج کا معاملہ نمٹانے کی بجائے ملک کے اٹارنی جنرل پہلے غیرقانونی ریکارڈنگ کرنے والے افراد کو کیفر کردارتک پہنچانے کا اقدام کریں۔
حیرت تو اس بات پر بھی ہونی چاہیے کہ حکومت اور اٹارنی جنرل کو یہ پریشانی تو نہیں ہے کہ ملک میں احتساب کے معاملات دیکھنے والے ایک جج پر تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے خلاف، دباؤ میں فیصلہ کرنے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ جج صاحب نے اس ویڈیو میں سامنے لائے گئے مؤقف کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا دعویٰ ضرور کیا ہے لیکن وہ اس کے ساتھ ہی ریکارڈنگ کرنے والے اور شریک گفتگو شخص کو جاننے اور متعدد بار اس سے ملاقات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نہ اس معاملہ کو اہم سمجھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ اس متنازعہ ویڈیو کی وجہ سے ملک میں احتساب اور انصاف کا پورا نظام کٹہرے میں کھڑا ہو چکا ہے۔ وہ پورے عدالتی نظام کو اس الزام سے بچانے کے لئے کوئی اقدام تجویز کرنے یا مستقبل میں اس قسم کی ناخوشگوار صورت حال سے بچنے کے لئے کوئی راستہ نکالنے کی بجائے الزام کے جواب میں الزام عائد کر کے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا یہ مؤقف اور طرز عمل وفاقی کابینہ کے اس فیصلہ سے ملتا جلتا ہے جس میں گزشتہ روز ’زیر حراست‘ سیاست دانوں کے انٹرویو نشر کرنے کا سلسلہ بند کرنے کے لئے پیمرا کو ’حکم‘ جاری کیا گیا ہے۔ اس طرح کابینہ نے بھی مشکل اور پیچیدہ مسائل کا آسان راستہ تلاش کرنے کی مثال قائم کی ہے۔ وہ سیاسی مخالفین کی دلیل یا شکایت کا جواب دینے کی بجائے ان کی آواز بند کرنے کو ہی آسان ترین حل سمجھتی ہے۔ کیوں کہ اس کے خیال میں اسی طرح قومی مفاد کا بہترین طریقے سے تحفظ کیا جا سکتا ہے۔
یعنی ملک کے میڈیا کو ’جرم کرنے والوں‘ کو شہرت دینے کا مرتکب قرار دے کر خبر اور رائے عام کرنے کے بنیادی حق سے محروم کر دیا جائے۔ یوں لگتا ہے کہ معاشی بحران میں گھری حکومت اصل مسائل پر توجہ دینے اور ان کا حل تلاش کرنے کی بجائے، سیاسی معاملات میں نکتہ رسی اور تصادم کی صورت حال پیدا کرکے مسلسل عوام کی ہمدردی جیتنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسی لئے حکومت کو نہ تو اس بات کی پرواہ ہے اور نہ ہی شاید اسے اس بات کا ادراک ہے کہ براہ راست ٹکراؤ کی حکمت عملی سے اگر دو سیاسی خاندانوں کا خاتمہ کر بھی دیا گیا تو بھی ملک میں تقسیم، باہمی عدم اعتماد، ذہنی خلفشار اور نفرت کا جو ماحول پیدا کیا جائے گا اس سے پیدا ہونے والی بداعتمادی ملک کے نظام کو گھن کی طرح کھا جائے گی۔ یہ درست ہے کہ اپوزیشن بھی اس وقت تصادم اور براہ راست ٹکراؤ ہی کی پالیسی پر گامزن ہے۔
ایک طرف چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا رہی ہے تو دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری مہنگائی کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کر رہے ہیں اور مریم نوز مسلسل احتساب عدالتوں کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ان حالات میں ملک کی کابینہ سمیت کوئی بھی ایسا شخص یا ادارہ موجود نہیں ہے جو انتشار اور تصادم کی اس کیفیت کو ختم کر سکے۔ بلکہ دامن بچا کر ایسے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جو موجودہ بحران اور پریشان خیالی میں اضافہ کا سببب بنے گی۔
ان میں سے ہی ایک سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز بھی ہیں جنہوں نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں اپوزیشن کو حیران کر دے گی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن کے متعدد سینیٹرز سے رابطے میں ہیں اور چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے کی کوشش کو ناکام بنانے کے لئے انہیں ان سینیٹرز کا تعاون حاصل ہونے کی قوی امید ہے۔ سینیٹ میں تحریک انصاف اقلیت میں ہے۔
اپوزیشن اور آزاد ارکان کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ صادق سنجرانی کو منتخب کروانے کے لئے گزشتہ سال مارچ میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری کا تعاون حاصل کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی پیش کش قبول کرنے کی بجائے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے صادق سنجرانی کو چئیرمین منتخب کروا لیا۔ اب تحریک انصاف حکومت میں ہے لیکن آصف زرداری قید ہیں۔ حالات پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی توقعات کے برعکس رخ اختیار کر چکے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے نمائندے اپوزیشن کو یہ تحریک واپس لینے کے لئے راضی کرنے کی بجائے اس میں پھوٹ ڈلوانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے پنجاب اسمبلی ارکان سے ملاقات کرکے اسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کہ سیاسی اختلاف کو سیاسی مشاورت سے حل کرنے کی بجائے اپوزیشن کو دھمکی دی جائے کہ اگر اس نے حکومت کو چیلنج کیا تو اس کی صفوں میں سے ابن الوقت قسم کے لوگوں کو توڑ کر ان پارٹیوں کو کمزور کیا جائے گا۔ ماضی میں تمام فوجی حکومتیں یہی طریقہ کار اختیار کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لئے بھی اسی آزمودہ طریقہ پر عمل کیا گیا تھا۔ اسی لئے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف نے کہا تھا کہ عمران خان کی کابینہ تو ان کے دوستوں پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی تفصیلات اب پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہیں۔ لیکن انصاف اور دیانت کی دعویدار حکومت پھر بھی اس سیاسی جبر اور جوڑ توڑ کو بدعنوانی کی بجائے عین کار خیر سمجھتی ہے۔
اس کے باوجود نئے پاکستان کا نعرہ لگاتے ہوئے نہ شرم محسوس کی جاتی ہے اور نہ ہی یہ سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے جان بلب عوام یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی مالی مشکلات میں اضافہ کرنے کے بعد ہر دم نیا پاکستان بن رہا ہے کے نعرے لگا کر حکومت کے ارکان ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حکومت کے سارے ہتھکنڈے پرانے اور عمران خان کے ساتھیوں میں سب لوگ جانے پہچانے ہیں لیکن مفاد پرستوں کے اس گروہ کے بیچ بیٹھ کر نہ صرف وزیر اعظم بلکہ ہر حکومت میں شامل رہنے والے یہ لوگ بھی ہر گھڑی بڑے جوش سے ’نیا پاکستان بن رہا ہے‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور وزیر اعظم یہ دلاسہ دیتے ہیں کہ ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے‘ ۔
آج کراچی کے دورہ کے دوران بھی وزیر اعظم نے تاجروں اور صنعتکاروں سے ملاقاتوں میں ایسا ہی رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے تاجروں سے حکومت کا ساتھی بننے کی اپیل کرتے ہوئے یہ پیش گوئی بھی کر دی کہ اگر لوگوں نے ٹیکس دینا شروع نہ کیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ اس لحاظ سے تو ضرور ’نیا پاکستان‘ معرض وجود میں آ چکا ہے کہ حکومت کا سربراہ خود ملک کے دیوالیہ ہونے کا منحوس لفظ منہ پر لانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔ نہ جانے عمران خان یہ دھمکی کس کو دے رہے ہیں۔
ایک طرف وہ سرمایہ کاری کو معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی اور سماجی بے چینی میں اضافہ کے ذریعے سرمایہ داروں کو پاکستان سے دور رہنے کے اشارے دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ ٹیکس میں اضافہ کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کے قلیل طبقہ پر ٹیکسوں کا بہت بوجھ ہے۔ ملک کے صنعتکار 70 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم نے یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے کہ صنعت کا یہ ٹیکس مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ذریعے انہی صارفین سے وصول کرتے ہیں جو پہلے ہی بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم نے گورنر ہاؤس کراچی میں آج جو شو منعقد کیا اور اس میں جو باتیں کیں، وہ ملکی معیشت کے حل سے زیادہ سیاسی چومکھی کا وہی بیانیہ ہے جو انہوں نے کسی مدرسے کے معانی سے نابلد طالب علم کی طرح رٹا ہؤا ہے۔ جب تک عمران خان اس ’ازبر سبق‘ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے ”حالات میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یا وہ معیشت اور قوم پر یہ احسان کردیں کہ معاشی مسائل پر براہ راست گوہر افشانی سے گریز کیا کریں۔ کسی عطائی کی دوا سے بہتر ہے کہ مریض کو دوا کے بغیر مرنے دیا جائے۔