نواز شریف نے وزارت خارجہ اپنے پاس ہی رکھی ہوئی تھی تو ٹیکنیکلی وزیر خارجہ موجود تھا ۔ شاید کسی کو یاد ہو کہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد نواز نے پہلے سال ہی بہت زیادہ بیرون ملک دورے کیے تھے جس پر اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ۔ بظاہر ان دوروں کا مقصد خارجہ پالیسی کو فوج کے ہاتھ سے نکال کر اپنے ہاتھ میں لینا تھا ۔ اگر آپ غور کریں تو وزارت عظمی سے ہاتھ دھونے کے بعد نواز نے وزیر خارجہ کا تقرر کیا اور اپنے قریب ترین اور پر اعتماد ساتھی خواجہ آصف کو بنایا یعنی وزارت خارجہ پھر نواز کے ہاتھ ہی میں رہے ۔ جرنیلوں کے ساتھ تعلقات اس دور میں شروع سے ہی اچھے نہیں رہے ۔ ابھی حالیہ بیان کے بعد تو کھلم کھلا لڑائی شروع ہوچکی ہے۔
وزیر خارجہ کا عہدہ اپنے پاس رکھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ نواز شریف صاحب کا خیال تھا کہ کوئی اور فرد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ برداشت نہ کر پائے گا۔ اس حکمت عملی کے باعث اسٹیبلشمنٹ کو خارجہ پالیسی کی تشکیل سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ یہ بات سننے میں آئی تھی کہ ملٹری اسٹیبلشیہ چودھری نثار علی خان کو وزارتِ خارجہ کا منصب دینے کے حق میں تھی۔ 2013ء میں چودھری نثار علی خان کے 'روٹھ' جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی، غالباََ کہ انہیں مرضی کی وزارت نہ دی گئی۔ وہ تو خیر وزیراعلیٰ پنجاب بھی بننے کے متمنی رہے۔
بیرون ملک زیادہ نجی دورے کیے انہوں نے۔اور آتے جاتے لندن یاترا ضروری تھی ان دوروں میں۔ 300 دورے چار سال میں کس ملک کا سربراہ کرتا ہے ؟ ملک کون چلائے گا ان سب دنوں میں ؟
پھر بے شمار انٹرنیشنل کانفرنسز ، اجلاس اور میٹنگز ہوتی ہیں، کیا ان سب کے لیے بھی وزیراعظم کو بھیجا جائے ؟
خواجہ آصف کو پہلے ہی کیوں نہیں لگا دیا گیا ؟ کیا اس وقت خواجہ آصف پر اعتبار نہیں تھا ؟ ان کی "کروڑوں" پر مشتمل پارٹی میں ان کو ایک شخص پر بھی اعتبار نہیں تھا؟
کیا ان "بے شمار" دوروں میں سے کسی ایک بھی دورے میں انہوں نے پاکستانی مؤقف ایسے پیش کیا جیسا کہ خواجہ آصف نے کیا ؟
بطور وزیرِخارجہ، نواز شریف کا کلبھوشن پر بیان سنا دیں، یا کوئی نیوز۔سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی، بین لاقوامی پریشر پر ان کا سٹینڈ ؟
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے پاکستان کو جو دھمکیاں دیں، اس کا پاکستانی وزیر خارجہ نے کیا جواب دیا ؟ اس کے لیے بھی جوا ب چوہدری نثار کو دینا پڑا۔
"ٹیکنیکلی" قلمدان اپنے پاس رکھنے سے ذمہ داریاں بھی خود بخود ادا نہیں ہو جاتیں۔