سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

جاسم محمد

محفلین
دراصل یہ زرداری نواز اشتراک تھا جس کے باعث اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی اور وفاق کی اکائیوں کو اُن کے جائز حصے ملے جو کہ وفاق نے دبا رکھے تھے۔
صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ ۱۸ ویں ترمیم بلاشبہ جمہوری قوتوں کی طرف سے قوم کیلیے تحفہ تھا، ہے اور رہے گا۔
البتہ بعد میں جو ان نکموں نکھٹووں نے بغیر چادر دیکھے پاؤں پھیلائے۔ اور ملک کو مزید مقروض کر کے چلے گئے۔ اس کا خمیازہ پوری قوم تابڑ توڑ مہنگائی کی شکل میں بھگت رہی ہے۔
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ اگر وفاق صوبوں کے پیسے روک لے تو وہ باغی ہو جاتے ہیں۔ فوج کے پیسے روکے تو وہ حکومت کو ہی غدار بنا کر اتار دیتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی سی غیرت دکھا کر مزید قرضے لینے سے انکار کرے تو عالمی اسٹیبلشمنٹ سازشیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔
الغرض اس ملک میں اگر کسی کو عبرت ناک سزا دینی ہو تو اس کے حوالہ وفاقی حکومت کر دینی چاہیے :)
 

فرقان احمد

محفلین
صوبوں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ ۱۸ ویں ترمیم بلاشبہ جمہوری قوتوں کی طرف سے قوم کیلیے تحفہ تھا، ہے اور رہے گا۔
البتہ بعد میں جو ان نکموں نکھٹووں نے بغیر چادر دیکھے پاؤں پھیلائے۔ اور ملک کو مزید مقروض کر کے چلے گئے۔ اس کا خمیازہ پوری قوم تابڑ توڑ مہنگائی کی شکل میں بھگت رہی ہے۔
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ اگر وفاق صوبوں کے پیسے روک لے تو وہ باغی ہو جاتے ہیں۔ فوج کے پیسے روکے تو وہ حکومت کو ہی غدار بنا کر اتار دیتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی سی غیرت دکھا کر مزید قرضے لینے سے انکار کرے تو عالمی اسٹیبلشمنٹ سازشیں کرنا شروع کر دیتی ہے۔
الغرض اس ملک میں اگر کسی کو عبرت ناک سزا دینی ہو تو اس کے حوالہ وفاقی حکومت کر دینی چاہیے :)
اور جنہوں نے بصد شوق اور سب کچھ جانتے بوجھتے یہ بوجھ سر پر لاد لیا ہے، اُنہیں آپ کیا مشورہ دینا چاہیں گے؟ اب شاید یہ اسٹیبلشیہ خان صاحب کو صدارتی نظام کی طرف قدم بڑھانے کے مشورے دے رہی ہے کیونکہ ملک کی فی الوقت سب سے بڑی اور موثر جماعت کے بغیر یہ مشن پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ بزعم خود بڑے دانشور ہیں اور ملک کو تجربہ گاہ بنائے ہوئے ہیں۔ ایسا ہوا تو ایک اور سبکی اٹھانا پڑے گی ہمیں ۔۔۔!
 

فرقان احمد

محفلین
وہی مشورے جو ہم عموما نشئیوں کو دیتے ہیں :)
چچا غالب فرما گئے ۔۔۔!

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتےتھے کہ ہاں!
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ۔۔۔!

اب یہی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیں اور وہ قرض اتارنے کے لیے مزید قرضہ لیں کیونکہ عوام تو صبر کر لے گی مگر خاکیان نے آپ کو گھر بھیج کر اسحاق ڈار کے ہاتھ پر بیعت کر لینی ہے کہ تم ہی بہتر تھے بھیا ۔۔۔ ایک سال گزر گیا؛ پیسہ کرپشن کا برآمد سیاسیوں سے ہو نہ سکا اور ڈھول سپاہیا کے اپنے حالات بھی پتلے ہو گئے؛ اب وہ خود منت کر رہے ہوں گے کہ آئی ایم ایف جاؤ؛ اسد عمر صاحب نےبوجوہ تاخیر کر دی تھی؛ شاید یہی کام اب حفیظ شیخ صاحب سے لیا جانے والا ہے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
اب شاید یہ اسٹیبلشیہ خان صاحب کو صدارتی نظام کی طرف قدم بڑھانے کے مشورے دے رہی ہے کیونکہ ملک کی فی الوقت سب سے بڑی اور موثر جماعت کے بغیر یہ مشن پایہ ء تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔
اگر خان صاحب نے یہ مشورہ مان لیا تو تحریک انصاف کو کسی قبرستان میں دفن کر دینا زیادہ بہتر رہے گا :)
ویسے صدارتی نظام لانے کیلئے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ وہ کیا نیب کے مقدمات لا کر دیں گے؟ :)
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے صدارتی نظام لانے کیلئے پارلیمان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ وہ کیا نیب کے مقدمات لا کر دیں گے؟ :)
صدارتی نظام کی جو بازگشت سنائی دے رہی ہے، وہ دراصل سیاست دانوں، بالخصوص حکمران سیاست دانوں کو دباؤ میں لانے کا نسخہ ہے کہ کاکردگی دکھاؤ، ہمارا بجٹ بڑھاؤ، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔! بجٹ قریب ہے تو سیاسی مارکیٹ میں یہ شور و غوغا اچنبھے کی بات نہیں ہے ۔۔۔! اس دنیا میں زیادہ تر معاملات کا تعلق دولت اور معیشتی چکر سے جڑا ہے ۔۔۔! :) حب الوطنی کے کھوکھلے نعروں کے جلو میں کھابہ گیری کا نظام بے دردی سے جاری و ساری ہے ۔۔۔! اگر خان صاحب ایمان دار ہیں تو آپ ان کے استعفیٰ کے منتظر رہیں وگرنہ کمپرومائزز کر کے وہ کم از کم اپنے حقیقی بیانیے اور منشور سے دستبردار ہو جائیں گے۔

یعنی کہ

جب تک خان صاحب اقتدار میں نہیں آئے تھے تو 'نورا کشتی' بیانیہ چلایا گیا۔ جب خان صاحب اقتدار میں آ گئے تو اب آئے روز نئے منجن بیچے جا رہے ہیں ۔۔۔!
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
دراصل یہ زرداری نواز اشتراک تھا جس کے باعث اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی اور وفاق کی اکائیوں کو بجا طور پر اُن کے جائز حصے ملے جو کہ وفاق نے دبا رکھے تھے۔ اب مرکز میں بیٹھے حکمرانوں کو تکلیف ہے کہ صوبوں کو جانے والے حصے واپس وفاق کے پاس آئیں اور اس خاطر صدارتی نظام تک کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اور اب یہ نیا بیانیہ اسی لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ عسکری سایوں میں پرورش پانے والے سیاسیوں نے آخر کتنے قرضے کیوں لیے تھے؟ یہ سوال بھی ان سے ہی کیا جانا چاہیے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر جینوئن سیاست دان (جو کہ بالآخر بن ہی گیا تھا جینوئن کہ عوامی حمایت رکھتا تھا) کو پھانسی گھاٹ تک نہ پہنچایا جاتا تو کیا اسٹیبلشیائی سیاست دان اقتدار میں آ پاتے اور اتنے قرضے لے کر ملک کا یہ حشر نشر کرتے ۔۔۔! خیر یہ تو زراہ تفنن ہی عرض کیا ہے یا اب جو فرمانے والے ہیں وہ ازراہ تفنن تصور کیا جاوے ۔۔۔! وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک بجا طور پر ہی سمجھتی ہے کہ صوبوں کو جانے والے اثاثے 'ضائع' ہو رہے ہیں اس لیے شاید ان کی کوشش ہو گی کہ انہیں بھی اس میں سے شیئر دیا جاوے ۔۔۔! یعنی کہ کریں گے اہل 'حرب' تازہ بستیاں آباد یعنی کہ ڈی ایچ اے ایکسٹینشز، عسکری سیمنٹ، بجری، ریت و فوجی کارن فلیکس پلس پلس ان دی آڑ آف شوشہ ہائے صدارتی نظام و دھبڑدھوس بذریعہ نیب۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔!

آخری ایک آدھ لائن کی کوئی معذرت نہیں کیونکہ سنجیدہ مراسلے کو بہرصورت چٹکلہ بنانا مقصود تھا ۔۔۔!

اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی۔۔۔۔
لگتا ہے جاسم سے کہنا پڑے گا کہ اس لڑی میں اپنے ہر مراسلہ کے آخر میں یہ لکھ دیا کریں۔:)
 

جاسم محمد

محفلین
صاف چلی شفاف چلی تحریک روٹی، کپڑا ، مکان چلی۔۔۔
53781896f580b263909b418fa1a4d7bc611911f4f58f47cfe5b3d0d695ab8af4bb77df3c.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
پرانے اور نئے پاکستان کے وزیروں کے لطیفے
20/04/2019 حاشر ابن ارشاد


محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد کا قصہ ہے۔ وزارت خزانہ کی ذمہ داری احسان الحق پراچہ صاحب کے پاس تھی۔ بجٹ اجلاس کے لیے صاحب نے کراچی سے اڑان بھری تو اسی پرواز میں آئی بی اے کراچی کے استاد اور ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالوہاب بھی تھے۔ پرواز ہموار ہوئی تو پراچہ صاحب خود اپنی نشست سے اٹھے اور وہاب صاحب کے برابر براجمان ہو گئے۔ سلام دعا کا تبادلہ ہونے کے بعد وہ کچھ جھجکتے ہوئے وہاب صاحب کی طرف جھکے اور بولے ”ڈاکٹر صاحب، میں چاہ رہا تھا آپ مجھے کچھ سمجھائیں کہ یہ بجٹ خسارہ ہوتا کیا ہے“۔ یاد رہے کہ دو روز بعد موصوف نے بجٹ پیش کرنا تھا۔ پراچہ صاحب کا تعلق بھلوال، ضلع سرگودھا سے تھا، بی اے، ایل ایل بی تھے اور مالیات سے ان کا دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا پر سیاست کی نیرنگی تھی کہ وزیر خزانہ کہلائے۔

میاں نواز شریف کے دور میں ان کے رشتہ دار میاں بلال یاسین وزیر خوراک تھے۔ ایک دن اتوار بازار کے دورے میں لوگوں نے شکایت جڑ دی کہ لیموں بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ وزیر موصوف کو طلب اور رسد کے قوانین سے آ گاہی نہیں تھی مگر شاید ملکہ میری اینٹونینٹ سے واقف تھے اس لیے فرمایا کہ عوام کو چاہیے کہ لیموں کی جگہ کھانے پر ٹماٹر نچوڑ لیا کریں۔

اسی دور میں خواجہ آصف بجلی اور پانی کے وزیر تھے۔ قوم لوڈ شیڈنگ سے پریشان تھی۔ روز کے شیڈول میں کئی علاقوں میں بجلی عین اس وقت بند ہوتی جب سحر یا افطار کا اہتمام ہو رہا تھا۔ ایک کھلی کچہری میں لوگ اس پر پھٹ پڑے تو خواجہ صاحب نے انتہائی اطمینان سے انہیں بتایا کہ سحر اور افطار کے وقت روزانہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی، بریک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ کسی نے بڑھ کر ان کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بریک ڈاؤن روزانہ ایک مقررہ وقت پر نہیں ہوتا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی کے مکین جناب حاجی نواز کھوکھر سے خوب واقف ہیں۔ یہ شہرت ایسی ہے کہ اس پر زبان جتنی کم کھولی جائے اتنا بہتر ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر ان کا وسیع وعریض ڈیرہ ہے۔ اسی ڈیرے سے ایک اور مشہور نام تاجی کھوکھر بھی جڑا ہے۔ آکسفورڈ سے پڑھی محترمہ بے نظیر کے ہی دور حکومت میں جب یہ فیصلہ ہوا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سائینس اور ٹیکنالوجی سے بڑھ کر کچھ نہیں تو یہ قلمدان حاجی نواز کھوکھر کو سونپ دیا گیا۔ سوچتا ہوں اس دور میں بھی میم ایجاد ہو گئے ہوتے تو کیسا کیسا نمونہ سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتا۔

زرداری صاحب کا دور آیا تو گیلانی صاحب نے یہ یہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت تاج جمالی کے صاحبزادے میر چنگیز خان جمالی کو سونپ دی۔ آخری اطلاعات آنے تک سائنس سے چنگیز خان جمالی کا اتنا ہی تعلق ثابت کرنا ممکن تھا جتنا کہ چنگیز خان تموجن کا۔ 2011 میں ہوا کا رخ بدلا تو یہ وزارت اعظم سواتی صاحب کی جھولی میں جا گری۔ یہ وہی اعظم سواتی ہیں جو ایک گائے پر سوار کابینہ سے باہر بھیتر ہوتے نظر آتے رہے ہیں۔ ان کی واحد قابلیت اس وقت مولانا فضل الرحمن کی چھتر چھایا تھی۔

2015 میں ٹیلی نار پاکستان نے ”انٹرنیٹ آف تھنگز ایکسپو“ لاہور میں سجایا۔ میاں نواز شریف کا دور تھا اور رانا تنویر حسین سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلمدان سنبھال رہے تھے۔ خطاب کے لیے سٹیج پر آئے تو خطاب کچھ اس طرح سے کیا۔ ”دیکھیے، میرے پاس کہنے کو تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت ہے پر مجھے ٹیکنالوجی، سائنس یا اس اس سے متعلقہ معلومات کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ یہ جو آپ فور جی ٹیکنالوجی کی باتیں کر رہے ہیں یہ یقینا بڑی اعلی ٹیکنالوجی ہو گی۔ میں اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہوں۔ ویسے یہ ایک، دو، تین، چاد، پانچ جو ٹیلی نار والے بتا رہے ہیں سارے اچھے فائدے ہیں لیکن۔ مجھے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجھے تو ایس ایم ایس کرنا بھی نہیں آتا، ہاہاہا۔ تو مجھے تو کوئی معلومات نہیں ملتیں لیکن یہ اچھا ہے کیونکہ زیادہ معلومات صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ ٹیکنالوجی اچھی بھی ہوتی ہے، بری بھی ہوتی ہے۔ یہ آپ کو ٹیلی نار والے بتائیں گے۔ یہ میڈم کا مجھے نام نہیں آتا، یہ بھی سائبر کرائم کا بتا رہی تھیں۔ ویسے مجھے پتہ نہیں۔ ۔ “

یہ بے ربط تقریر اسی طرح کچھ منٹ اور چلی اور جب سائنس اور ٹیکنالوجی کے سرخیل سٹیج سے اترے تو اکثر شرکاء منہ چھپا کر ہنس رہے تھے۔

نئے پاکستان میں فواد چوہدری صاحب کو پہلے اطلاعات کے لیے مناسب سمجھا گیا۔ وہاں سے معزولی ہوئی تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا وہی پرچم انہیں تھما دیا گیا جو کبھی حاجی نواز کھوکھر اور میاں تنویر حسین کے ہاتھ تھا۔ دیکھیے اب غیب سے کیسی ہوا چلتی ہے کہ چمن ظہور کا کچھ باقی ہے۔ باقی شاخ نہال غم تو ہمیشہ ہری رہنی ہے۔

اسد عمر سے پہلے اس کرسی پر اسحاق ڈار صاحب براجمان تھے۔ یہ تو میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ آئی ٹی پالیسی کے تحت دیے گئے لائسنسز کی شرائط کے تحت پی ٹی اے ہر سال موبائل کمپنیوں سے جو رقم تحقیق اور ترقی کے نام پر اکٹھی کر کے یو ایس ایف فنڈ اور نیشنل آئی سی ٹی فنڈ کو دینے کی پابند تھی وہ بھی ساری کی ساری کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جھونک دی گئی تاکہ کسی طرح گردشی قرضہ چکایا جا سکے۔ چونکہ ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان تھا اس لیے جب میاں صاحب کا دور ختم ہوا تو گردشی قرضہ پہلے سے کہیں بلند سطح پر اگلی حکومت کا منہ چڑا رہا تھا۔

تحقیق اور ترقی کا تو جو ہونا تھا سو ہوا۔ برآمدات کے ساتھ جو کمال سلوک ڈار صاحب نے کیا اس سے عالمی منڈی میں ہماری رہی سہی جگہ بھی صاف ہو گئی۔ ہاں، ڈالر کے پر انہوں نے کترے رکھے پر اس کے لیے جو مصنوعی طریقے اختیار کیے گئے ان کا حباب الیکشن کے فورا بعد پھوٹ گیا۔ رہی بات ان کے جانشین کی تو ان کے قصے تو ہم سات آٹھ ماہ سے سن ہی رہے ہیں۔ انجام یہ ہوا کہ مسیحا سمجھے جانے والوں کو معزول کیے بنا بات نہیں بنی۔ معزول اصل میں کس نے کیا، کیوں کیا، یہ وہ کھلے راز ہیں جن پر بات کرنا نئے پاکستان میں حرام ہے۔

تبدیلی کی ہوا چلی تو اسی نئے پاکستان میں ایک سے ایک نابغہ دیکھنے کو ملا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی ہر تقریر سے پہلے قرآن کا ایک رکوع پڑھتے اور پھر ویسی ہی لایعنی گفتگو فرماتے جیسے کہ ان سے پہلے چوہدری نثار کیا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان کی گفتگو آدھ گھنٹے میں ختم ہو جاتی جبکہ چوہدری صاحب دو گھنٹے سے کم پر راضی نہیں ہوتے تھے۔

آبی وسائل کے وزیر کو ایکویفر کے ہجے نہیں معلوم، یہ نہیں پتہ کہ بڑے ڈیم بنانا عقل کی بات ہے کہ گھاٹے کا سودا ہے پر وہ ٹی وی پر ایک کروڑ نوکریاں روز بیچتے ہیں۔ زیب النساء سٹریٹ میں موٹر سائیکل خوب چلاتے ہیں۔ دہشت گردوں کے پیچھے اپنا پستول اور کیمرہ بردار دونوں لے کر پہنچتے ہیں اور تو اور ابھینندن کے شکستہ جہاز کی لاش پر سینہ تان کر ایسا پوز دیتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ رہے آبی وسائل تو وہ کون سا کہیں بھاگے جا رہے ہیں۔ کبھی ان پر بھی منہ کھول ہی لیں گے۔

ہمارے نیم پارلیمانی، نیم صدارتی ادوار میں وردی کو کھال سمجھ کر حکمرانی کرنے والوں کی کابینہ کے قصے اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہیں پر ان کو رہنے دیتے ہیں کہ وہ آمر تھے اور آمریت عوام کو جواب دہ نہیں ہوتی۔ پر جو راہنما عوام کے کندھوں پر سوار پارلیمان میں پہنچتے ہیں وہ کس اہلیت اور صلاحیت پر وزارتوں کی بانٹ کرتے ہیں کیا یہ کسی سے چھپا ہوا ہے۔

خان صاحب سے گلہ کرنے والے یہ گلہ نہیں کرتے کہ چند ایک مستثنیات کے علاؤہ ان کے تمام رتن دماغی معذوری میں اپنی نظیر آپ ہیں۔ شکوہ تو یہ ہے کہ نیا پاکستان اور تبدیلی کدھر ہیں۔ ان تمام شکوہ گروں سے عرض ہے کہ تبدیلی ہر ایک کا منشور ہوتی ہے۔ کہ اگر تبدیلی درکار نہ ہو تو پھر نئی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پر یہ نعرہ ہے۔ اسے نعرہ ہی سمجھیے۔ غور سے دیکھیے گا تو یہ وہی پرانی شراب ہے جو ہر دفعہ نئی بوتل میں فروخت ہوتی ہے۔

نہ گیلانی صاحب کے وزراء ملک بدلنے آئے تھے نہ ہی بے نظیر اور راجہ پرویز اشرف کے۔ نہ میاں صاحب کی کابینہ کو مثبت تبدیلی سے غرض تھی اور نہ ہی عباسی صاحب کے مصاحبین کو۔ اور یہی روش خان صاحب کی بھی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حماقت اور ناسمجھی کا جیسا اشتہار نئے پاکستان کے نئے چہروں کی زبان پر ارزاں ہوتا ہے اس کی مثال پہلے ڈھونڈنا مشکل ہے۔

فیض صاحب کو ڈر تھا کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ہمیں بھی یہی ڈر ہے۔ پر آپ کے میرے سوچنے کی بات کچھ اور ہے۔ پانی کہیں اور مرتا ہے۔ یہ لوگ جو بھی ہیں۔ جیسے بھی ہیں۔ انہیں لانے کا اور انہیں نکالنے کا اختیار اگر آپ کے اور میرے ہاتھ میں ہے تو شب گزیدہ ہی سہی، سحر کا امکان رہے گا۔ لیکن اگر یہی اختیار بہ جبر یا بہ خوشی آپ نے اور میں نے کسی اور کو سونپ دیا تو غم کی یہ شب طویل نہیں، لامتناہی ہو جائے گی۔ دوراہا ہے۔ واضح ہے۔ تیسری آنکھ کھولیے اور صحیح راستہ چن لیجیے۔ ستر برس گزر گئے ہیں۔ اور کتنا بھٹکیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
عسکری آسیب پچاس کی دہائی سے اس ملک کو چمٹ گیا تھا جو اب تک پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔
مشرقی پاکستان کو اس آسیب سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بھارتی افواج بلوانا پڑیں تھی۔
یعنی فوج کے بدلہ فوج؟؟؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top