پرانے اور نئے پاکستان کے وزیروں کے لطیفے
20/04/2019 حاشر ابن ارشاد
محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد کا قصہ ہے۔ وزارت خزانہ کی ذمہ داری احسان الحق پراچہ صاحب کے پاس تھی۔ بجٹ اجلاس کے لیے صاحب نے کراچی سے اڑان بھری تو اسی پرواز میں آئی بی اے کراچی کے استاد اور ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالوہاب بھی تھے۔ پرواز ہموار ہوئی تو پراچہ صاحب خود اپنی نشست سے اٹھے اور وہاب صاحب کے برابر براجمان ہو گئے۔ سلام دعا کا تبادلہ ہونے کے بعد وہ کچھ جھجکتے ہوئے وہاب صاحب کی طرف جھکے اور بولے ”ڈاکٹر صاحب، میں چاہ رہا تھا آپ مجھے کچھ سمجھائیں کہ یہ بجٹ خسارہ ہوتا کیا ہے“۔ یاد رہے کہ دو روز بعد موصوف نے بجٹ پیش کرنا تھا۔ پراچہ صاحب کا تعلق بھلوال، ضلع سرگودھا سے تھا، بی اے، ایل ایل بی تھے اور مالیات سے ان کا دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا پر سیاست کی نیرنگی تھی کہ وزیر خزانہ کہلائے۔
میاں نواز شریف کے دور میں ان کے رشتہ دار میاں بلال یاسین وزیر خوراک تھے۔ ایک دن اتوار بازار کے دورے میں لوگوں نے شکایت جڑ دی کہ لیموں بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ وزیر موصوف کو طلب اور رسد کے قوانین سے آ گاہی نہیں تھی مگر شاید ملکہ میری اینٹونینٹ سے واقف تھے اس لیے فرمایا کہ عوام کو چاہیے کہ لیموں کی جگہ کھانے پر ٹماٹر نچوڑ لیا کریں۔
اسی دور میں خواجہ آصف بجلی اور پانی کے وزیر تھے۔ قوم لوڈ شیڈنگ سے پریشان تھی۔ روز کے شیڈول میں کئی علاقوں میں بجلی عین اس وقت بند ہوتی جب سحر یا افطار کا اہتمام ہو رہا تھا۔ ایک کھلی کچہری میں لوگ اس پر پھٹ پڑے تو خواجہ صاحب نے انتہائی اطمینان سے انہیں بتایا کہ سحر اور افطار کے وقت روزانہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی، بریک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ کسی نے بڑھ کر ان کی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بریک ڈاؤن روزانہ ایک مقررہ وقت پر نہیں ہوتا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے مکین جناب حاجی نواز کھوکھر سے خوب واقف ہیں۔ یہ شہرت ایسی ہے کہ اس پر زبان جتنی کم کھولی جائے اتنا بہتر ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر ان کا وسیع وعریض ڈیرہ ہے۔ اسی ڈیرے سے ایک اور مشہور نام تاجی کھوکھر بھی جڑا ہے۔ آکسفورڈ سے پڑھی محترمہ بے نظیر کے ہی دور حکومت میں جب یہ فیصلہ ہوا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سائینس اور ٹیکنالوجی سے بڑھ کر کچھ نہیں تو یہ قلمدان حاجی نواز کھوکھر کو سونپ دیا گیا۔ سوچتا ہوں اس دور میں بھی میم ایجاد ہو گئے ہوتے تو کیسا کیسا نمونہ سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتا۔
زرداری صاحب کا دور آیا تو گیلانی صاحب نے یہ یہی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت تاج جمالی کے صاحبزادے میر چنگیز خان جمالی کو سونپ دی۔ آخری اطلاعات آنے تک سائنس سے چنگیز خان جمالی کا اتنا ہی تعلق ثابت کرنا ممکن تھا جتنا کہ چنگیز خان تموجن کا۔ 2011 میں ہوا کا رخ بدلا تو یہ وزارت اعظم سواتی صاحب کی جھولی میں جا گری۔ یہ وہی اعظم سواتی ہیں جو ایک گائے پر سوار کابینہ سے باہر بھیتر ہوتے نظر آتے رہے ہیں۔ ان کی واحد قابلیت اس وقت مولانا فضل الرحمن کی چھتر چھایا تھی۔
2015 میں ٹیلی نار پاکستان نے ”انٹرنیٹ آف تھنگز ایکسپو“ لاہور میں سجایا۔ میاں نواز شریف کا دور تھا اور رانا تنویر حسین سائنس اور ٹیکنالوجی کا قلمدان سنبھال رہے تھے۔ خطاب کے لیے سٹیج پر آئے تو خطاب کچھ اس طرح سے کیا۔ ”دیکھیے، میرے پاس کہنے کو تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت ہے پر مجھے ٹیکنالوجی، سائنس یا اس اس سے متعلقہ معلومات کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے۔ یہ جو آپ فور جی ٹیکنالوجی کی باتیں کر رہے ہیں یہ یقینا بڑی اعلی ٹیکنالوجی ہو گی۔ میں اس کے فروغ کے لیے کوشاں ہوں۔ ویسے یہ ایک، دو، تین، چاد، پانچ جو ٹیلی نار والے بتا رہے ہیں سارے اچھے فائدے ہیں لیکن۔ مجھے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجھے تو ایس ایم ایس کرنا بھی نہیں آتا، ہاہاہا۔ تو مجھے تو کوئی معلومات نہیں ملتیں لیکن یہ اچھا ہے کیونکہ زیادہ معلومات صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ ٹیکنالوجی اچھی بھی ہوتی ہے، بری بھی ہوتی ہے۔ یہ آپ کو ٹیلی نار والے بتائیں گے۔ یہ میڈم کا مجھے نام نہیں آتا، یہ بھی سائبر کرائم کا بتا رہی تھیں۔ ویسے مجھے پتہ نہیں۔ ۔ “
یہ بے ربط تقریر اسی طرح کچھ منٹ اور چلی اور جب سائنس اور ٹیکنالوجی کے سرخیل سٹیج سے اترے تو اکثر شرکاء منہ چھپا کر ہنس رہے تھے۔
نئے پاکستان میں فواد چوہدری صاحب کو پہلے اطلاعات کے لیے مناسب سمجھا گیا۔ وہاں سے معزولی ہوئی تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا وہی پرچم انہیں تھما دیا گیا جو کبھی حاجی نواز کھوکھر اور میاں تنویر حسین کے ہاتھ تھا۔ دیکھیے اب غیب سے کیسی ہوا چلتی ہے کہ چمن ظہور کا کچھ باقی ہے۔ باقی شاخ نہال غم تو ہمیشہ ہری رہنی ہے۔
اسد عمر سے پہلے اس کرسی پر اسحاق ڈار صاحب براجمان تھے۔ یہ تو میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ آئی ٹی پالیسی کے تحت دیے گئے لائسنسز کی شرائط کے تحت پی ٹی اے ہر سال موبائل کمپنیوں سے جو رقم تحقیق اور ترقی کے نام پر اکٹھی کر کے یو ایس ایف فنڈ اور نیشنل آئی سی ٹی فنڈ کو دینے کی پابند تھی وہ بھی ساری کی ساری کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں جھونک دی گئی تاکہ کسی طرح گردشی قرضہ چکایا جا سکے۔ چونکہ ٹھوس منصوبہ بندی کا فقدان تھا اس لیے جب میاں صاحب کا دور ختم ہوا تو گردشی قرضہ پہلے سے کہیں بلند سطح پر اگلی حکومت کا منہ چڑا رہا تھا۔
تحقیق اور ترقی کا تو جو ہونا تھا سو ہوا۔ برآمدات کے ساتھ جو کمال سلوک ڈار صاحب نے کیا اس سے عالمی منڈی میں ہماری رہی سہی جگہ بھی صاف ہو گئی۔ ہاں، ڈالر کے پر انہوں نے کترے رکھے پر اس کے لیے جو مصنوعی طریقے اختیار کیے گئے ان کا حباب الیکشن کے فورا بعد پھوٹ گیا۔ رہی بات ان کے جانشین کی تو ان کے قصے تو ہم سات آٹھ ماہ سے سن ہی رہے ہیں۔ انجام یہ ہوا کہ مسیحا سمجھے جانے والوں کو معزول کیے بنا بات نہیں بنی۔ معزول اصل میں کس نے کیا، کیوں کیا، یہ وہ کھلے راز ہیں جن پر بات کرنا نئے پاکستان میں حرام ہے۔
تبدیلی کی ہوا چلی تو اسی نئے پاکستان میں ایک سے ایک نابغہ دیکھنے کو ملا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی ہر تقریر سے پہلے قرآن کا ایک رکوع پڑھتے اور پھر ویسی ہی لایعنی گفتگو فرماتے جیسے کہ ان سے پہلے چوہدری نثار کیا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان کی گفتگو آدھ گھنٹے میں ختم ہو جاتی جبکہ چوہدری صاحب دو گھنٹے سے کم پر راضی نہیں ہوتے تھے۔
آبی وسائل کے وزیر کو ایکویفر کے ہجے نہیں معلوم، یہ نہیں پتہ کہ بڑے ڈیم بنانا عقل کی بات ہے کہ گھاٹے کا سودا ہے پر وہ ٹی وی پر ایک کروڑ نوکریاں روز بیچتے ہیں۔ زیب النساء سٹریٹ میں موٹر سائیکل خوب چلاتے ہیں۔ دہشت گردوں کے پیچھے اپنا پستول اور کیمرہ بردار دونوں لے کر پہنچتے ہیں اور تو اور ابھینندن کے شکستہ جہاز کی لاش پر سینہ تان کر ایسا پوز دیتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ رہے آبی وسائل تو وہ کون سا کہیں بھاگے جا رہے ہیں۔ کبھی ان پر بھی منہ کھول ہی لیں گے۔
ہمارے نیم پارلیمانی، نیم صدارتی ادوار میں وردی کو کھال سمجھ کر حکمرانی کرنے والوں کی کابینہ کے قصے اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہیں پر ان کو رہنے دیتے ہیں کہ وہ آمر تھے اور آمریت عوام کو جواب دہ نہیں ہوتی۔ پر جو راہنما عوام کے کندھوں پر سوار پارلیمان میں پہنچتے ہیں وہ کس اہلیت اور صلاحیت پر وزارتوں کی بانٹ کرتے ہیں کیا یہ کسی سے چھپا ہوا ہے۔
خان صاحب سے گلہ کرنے والے یہ گلہ نہیں کرتے کہ چند ایک مستثنیات کے علاؤہ ان کے تمام رتن دماغی معذوری میں اپنی نظیر آپ ہیں۔ شکوہ تو یہ ہے کہ نیا پاکستان اور تبدیلی کدھر ہیں۔ ان تمام شکوہ گروں سے عرض ہے کہ تبدیلی ہر ایک کا منشور ہوتی ہے۔ کہ اگر تبدیلی درکار نہ ہو تو پھر نئی حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے۔ پر یہ نعرہ ہے۔ اسے نعرہ ہی سمجھیے۔ غور سے دیکھیے گا تو یہ وہی پرانی شراب ہے جو ہر دفعہ نئی بوتل میں فروخت ہوتی ہے۔
نہ گیلانی صاحب کے وزراء ملک بدلنے آئے تھے نہ ہی بے نظیر اور راجہ پرویز اشرف کے۔ نہ میاں صاحب کی کابینہ کو مثبت تبدیلی سے غرض تھی اور نہ ہی عباسی صاحب کے مصاحبین کو۔ اور یہی روش خان صاحب کی بھی ہے۔ اگرچہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ حماقت اور ناسمجھی کا جیسا اشتہار نئے پاکستان کے نئے چہروں کی زبان پر ارزاں ہوتا ہے اس کی مثال پہلے ڈھونڈنا مشکل ہے۔
فیض صاحب کو ڈر تھا کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ہمیں بھی یہی ڈر ہے۔ پر آپ کے میرے سوچنے کی بات کچھ اور ہے۔ پانی کہیں اور مرتا ہے۔ یہ لوگ جو بھی ہیں۔ جیسے بھی ہیں۔ انہیں لانے کا اور انہیں نکالنے کا اختیار اگر آپ کے اور میرے ہاتھ میں ہے تو شب گزیدہ ہی سہی، سحر کا امکان رہے گا۔ لیکن اگر یہی اختیار بہ جبر یا بہ خوشی آپ نے اور میں نے کسی اور کو سونپ دیا تو غم کی یہ شب طویل نہیں، لامتناہی ہو جائے گی۔ دوراہا ہے۔ واضح ہے۔ تیسری آنکھ کھولیے اور صحیح راستہ چن لیجیے۔ ستر برس گزر گئے ہیں۔ اور کتنا بھٹکیں گے۔