جی بالکل، تبھی ذلالت مسلمان ملکوں کی جان نہیں چھوڑ رہی۔بے کار کی باتیں۔۔۔
مسلمان کہاں کہاں کن کی پوسٹوں پر قائم ہیں یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کے نزدیک یا تو وہ مسلمان نہیں ہوں گے یا وہ کافروں کی کسی سازش کا حصہ ہیں۔ بہر حال آپ خود سرچ آؤٹ کر سکتے ہیں۔وہاں بھی کون سا مسلمان کی پوسٹس پر ہیں۔۔۔
جی "سبھی" مسلمان ایسے نہیں ہیں۔مسلمان منافق نہیں ہے۔۔۔
غیر ملکی ایجنسیاں وہی کریں گی جو ان کے ملک کے حق میں بہترہو گا۔ ہم نے اپنے ملک کے لیے کیا کیا ہے؟ (ًمذہبی، سیاسی اور لسانی انتشار کے علاوہ)غیر ملکی ایجنسیاں منافق ہیں۔۔۔
مسلمانوں نے اس سے بچنے کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں کیا اقدامات کیے ہیں۔ ملکی نظام اور سوشل فیبرک کی مضبوطی کے لیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں تاکہ افراتفری کو روکا جا سکے ہیں؟ جب اپنی قمیض ہی جا بجا پھٹی ہوئی ہو تو دشمن کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ جب معاشرتی اعتبارسے ہی ہم دھڑے بندیوں میں بٹے ہوئے ہوں تو پہلے اپنے گھر پہ توجہ کی سخت ضرورت ہے۔مسلم ممالک میں افراتفری اور وسیع پیمانے پر قتل عام انہیں منافقین نے کیا ہے۔۔۔
ہمارا بس چلے تو ہر جگہ ہی اپنا جھنڈا گاڑنے کی پوری کوشش کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہیں کیونکہ اول تو ہم میں اتنی صلاحیت نہیں ہے اور دوم ان کا معاشرتی نظام ہم سے بہت مضبوط ہے اس لیے وہاں افرا تفری پھیلانا آسان نہیں۔ ہمیں بحیثیت امہ مسلمان ملکوں میں زوال کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔مسلمانوں نے ان کے کس ملک میں جا کر ایسی تباہیاں پھیلائی ہیں؟؟؟
جی بالکل پیارے بھائی میں مریخ پہ رہتا ہوں۔پیارے بھائی جتنے فلٹر آپ نے گنوائے ہیں وہ سبھی غلط ہیں ۔
مجھے تو اپنے ملک کی بدحالی پہ افسوس ہوتا ہے اور آپ سمیت قوم کی اکثریت ابھی "قادیانی قادیانی" کے کھیل سے باہر نہیں نکل پا رہی۔ اپنی ناکامیوں کو مذہب کی آڑ میں چھپانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔قادیانیوں کی حمایت کے لیے ایک الگ لڑی کھولیں وہاں شافی جوابات ملیں گے انشاء اللہ آپ کو ۔
الیکٹیبلز ۔۔۔! ابھی تو یہ نام کم ہیں۔ خالد مقبول صدیقی صاحب نوے کی دہائی میں نواز شریف کابینہ میں شامل تھے ۔۔۔! شیخ رشید صاحب کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ شفقت محمود صاحب سی زمانے میں پیپلزپارٹی کے سینٹر تھے؛ اس سے قبل وہ بے نظیر بھٹو کے پولیٹکل سیکرٹری تھے۔ صاحب زادہ محبوب سلطان بھی پیپلزپارٹی سے ہی آئے ہیں؛ معلوم نہیں وزیر رہے یا نہیں۔ ہاں، غلام سرور خان اور فواد چودھری بھی تو پیپلز پارٹی میں ہی تھے۔ یعنی کہ، پوری کابینہ بھان متی کا کنبہ ہے۔
حالات کا جبر دیکھیں کہ مارشل لاز کے بعد نافظ ہونے والے عسکری صدارتی نظام میں بھی لوٹے اور فصلی بٹیرے ہی مینوفیکچر ہوتے رہے ہیں۔ اس ملک کا المیہ یہی ہے کہ یہاں نہ کبھی اصلی آمریت آسکی ہے نہ اصل جمہوریت۔الیکٹیبلز ۔۔۔! ابھی تو یہ نام کم ہیں۔ خالد مقبول صدیقی صاحب نوے کی دہائی میں نواز شریف کابینہ میں شامل تھے ۔۔۔! شیخ رشید صاحب کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ شفقت محمود صاحب سی زمانے میں پیپلزپارٹی کے سینٹر تھے؛ اس سے قبل وہ بے نظیر بھٹو کے پولیٹکل سیکرٹری تھے۔ صاحب زادہ محبوب سلطان بھی پیپلزپارٹی سے ہی آئے ہیں؛ معلوم نہیں وزیر رہے یا نہیں۔ ہاں، غلام سرور خان بھی تو پیپلز پارٹی کے ہی تھے۔ یعنی کہ، پوری کابینہ بھان متی کا کنبہ ہے۔
عسکری آسیب پچاس کی دہائی سے اس ملک کو چمٹ گیا تھا جو اب تک پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اب یا تو وہ خود براہ راست اقتدار میں ہوتے ہیں یا ان کے چنیدہ 'سیاست دان' اور یہ بھی کہ ہر پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے گرویدہ افراد موجود ہوتے ہیں جو کہ دراصل پلانٹ کر دیے جاتے ہیں ۔۔۔!حالات کا جبر دیکھیں کہ مارشل لاز کے بعد نافظ ہونے والے عسکری صدارتی نظام میں بھی لوٹے اور فصلی بٹیرے ہی مینوفیکچر ہوتے رہے ہیں۔ اس ملک کا المیہ یہی ہے کہ یہاں نہ کبھی اصلی آمریت آسکی ہے نہ اصل جمہوریت۔
عسکری جرنیل اقتدار پر قبضہ کر کے عوامی جمہوریہ بن جاتا ہے۔ جبکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا جمہوریہ اقتدار میں آکر آمر۔
مشرقی پاکستان کو اس آسیب سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بھارتی افواج بلوانا پڑیں تھی۔ کیا مغربی پاکستان کو بھی بالآخر یہی کرنا پڑے گا؟ اللہ اس قوم و ملک پر رحم کرے۔ آمینعسکری آسیب پچاس کی دہائی سے اس ملک کو چمٹ گیا تھا جو اب تک پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ اب یا تو وہ خود براہ راست اقتدار میں ہوتے ہیں یا ان کے چنیدہ 'سیاست دان' اور یہ بھی کہ ہر پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے گرویدہ افراد موجود ہوتے ہیں جو کہ دراصل پلانٹ کر دیے جاتے ہیں ۔۔۔!
دراصل، مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کی سیاسی دانش یہاں بسنے والوں کی نسبت زیادہ بہتر تھی۔ یہی حال ان علاقوں کا تھا جہاں ان دنوں بھارت کے نام سے ملک آباد ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بسنے والے افراد میں سیاسی شعور کم تھا؛ یہ تو صبح اٹھے تو ملک بن چکا تھا۔ اس لیے انہیں غیب سے خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ اور، پھر اعلیٰ سیاسی قیادت جلد ہی راہیء ملک عدم ہوئی یا انہیں پراسرار حالات میں 'اوپر' روانہ کر دیا گیا۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا حسین شہید سہروردی کی پراسرار حالات میں موت۔ اسی طرح یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غالباََ قتل کیا گیا تھا۔ اور ایسا نہ بھی کیا گیا ہو تو انہیں را کا ایجنٹ تک کہا جاتا رہا۔بعدازاں بھٹو کا حال سب کے سامنے ہے۔ اس دوران، انگریزوں کے خاص تربیت یافتہ فوجی ہمارے ہیرو بنتے گئے اور ہم بوٹوں کی چاہت میں مبتلا ہوتے گئے کہ ہمارے سیاسی شعور کے حساب سے یہی عسکری بہترین آپشن تھے جو نہایت منظم تھے۔ پچاس کی دہائی سے جو عسکری آسیب ہم پر مسلط ہوا، اس میں عالمی حالات و واقعات کا بھی اثر اپنی جگہ موجود تھا۔ ان دنوں آمریت کا چلن زیادہ تھا۔ آہستہ آہستہ جب دنیا بھر میں آمریت کے خلاف محاذ گرم ہو گیا تو یہاں بھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی بازگشت سنائی دی جانے لگی اور عسکریوں نے من چاہے سیاست دانوں کو ہم پر مسلط کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے ۔۔۔!مشرقی پاکستان کو اس آسیب سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے بھارتی افواج بلوانا پڑیں تھی۔ کیا مغربی پاکستان کو بھی بالآخر یہی کرنا پڑے گا؟ اللہ اس قوم و ملک پر رحم کرے۔ آمین
ویسے تو یہ سیاسی لطائف کی لڑی ہے البتہ آپ کی بیان کردہ سیاسی تاریخ پڑھ کر سچی میں آنسو آگئےدراصل، مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کی سیاسی دانش یہاں بسنے والوں کی نسبت زیادہ بہتر تھی۔ یہی حال ان علاقوں کا تھا جہاں ان دنوں بھارت کے نام سے ملک آباد ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بسنے والے افراد میں سیاسی شعور کم تھا؛ یہ تو صبح اٹھے تو ملک بن چکا تھا۔ اس لیے انہیں غیب سے خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ اور، پھر اعلیٰ سیاسی قیادت جلد ہی راہیء ملک عدم ہوئی یا انہیں پراسرار حالات میں 'اوپر' روانہ کر دیا گیا۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا حسین شہید سہروردی کی پراسرار حالات میں موت۔ اسی طرح یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غالباََ قتل کیا گیا تھا۔ اور ایسا نہ بھی کیا گیا ہو تو انہیں را کا ایجنٹ تک کہا جاتا رہا۔بعدازاں بھٹو کا حال سب کے سامنے ہے۔ اس دوران، انگریزوں کے خاص تربیت یافتہ فوجی ہمارے ہیرو بنتے گئے اور ہم بوٹوں کی چاہت میں مبتلا ہوتے گئے کہ ہمارے سیاسی شعور کے حساب سے یہی عسکری بہترین آپشن تھے جو نہایت منظم تھے۔ پچاس کی دہائی سے جو عسکری آسیب ہم پر مسلط ہوا، اس میں عالمی حالات و واقعات کا بھی اثر اپنی جگہ موجود تھا۔ ان دنوں آمریت کا چلن زیادہ تھا۔ آہستہ آہستہ جب دنیا بھر میں آمریت کے خلاف محاذ گرم ہو گیا تو یہاں بھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی بازگشت سنائی دی جانے لگی اور عسکریوں نے من چاہے سیاست دانوں کو ہم پر مسلط کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے ۔۔۔!
ہم نے اب لڑی کے عنوان پر نگاہ کی ہے۔ مدیران سے جھاڑ پڑنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔۔۔!ویسے تو یہ سیاسی لطائف کی لڑی ہے البتہ آپ کی بیان کردہ سیاسی تاریخ پڑھ کر سچی میں آنسو آگئے
عمران خان کی آج کی تقریر سے اقتباس:دراصل، مشرقی پاکستان میں بسنے والوں کی سیاسی دانش یہاں بسنے والوں کی نسبت زیادہ بہتر تھی۔ یہی حال ان علاقوں کا تھا جہاں ان دنوں بھارت کے نام سے ملک آباد ہے۔ بدقسمتی سے یہاں بسنے والے افراد میں سیاسی شعور کم تھا؛ یہ تو صبح اٹھے تو ملک بن چکا تھا۔ اس لیے انہیں غیب سے خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ اور، پھر اعلیٰ سیاسی قیادت جلد ہی راہیء ملک عدم ہوئی یا انہیں پراسرار حالات میں 'اوپر' روانہ کر دیا گیا۔ لیاقت علی خان کا قتل ہو یا حسین شہید سہروردی کی پراسرار حالات میں موت۔ اسی طرح یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غالباََ قتل کیا گیا تھا۔ اور ایسا نہ بھی کیا گیا ہو تو انہیں را کا ایجنٹ تک کہا جاتا رہا۔بعدازاں بھٹو کا حال سب کے سامنے ہے۔ اس دوران، انگریزوں کے خاص تربیت یافتہ فوجی ہمارے ہیرو بنتے گئے اور ہم بوٹوں کی چاہت میں مبتلا ہوتے گئے کہ ہمارے سیاسی شعور کے حساب سے یہی عسکری بہترین آپشن تھے جو نہایت منظم تھے۔ پچاس کی دہائی سے جو عسکری آسیب ہم پر مسلط ہوا، اس میں عالمی حالات و واقعات کا بھی اثر اپنی جگہ موجود تھا۔ ان دنوں آمریت کا چلن زیادہ تھا۔ آہستہ آہستہ جب دنیا بھر میں آمریت کے خلاف محاذ گرم ہو گیا تو یہاں بھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کی بازگشت سنائی دی جانے لگی اور عسکریوں نے من چاہے سیاست دانوں کو ہم پر مسلط کر دیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے ۔۔۔!
دراصل یہ زرداری نواز اشتراک تھا جس کے باعث اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی اور وفاق کی اکائیوں کو بجا طور پر اُن کے جائز حصے ملے جو کہ وفاق نے دبا رکھے تھے۔ اب مرکز میں بیٹھے حکمرانوں کو تکلیف ہے کہ صوبوں کو جانے والے حصے واپس وفاق کے پاس آئیں اور اس خاطر صدارتی نظام تک کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اور اب یہ نیا بیانیہ اسی لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ عسکری سایوں میں پرورش پانے والے سیاسیوں نے آخر کتنے قرضے کیوں لیے تھے؟ یہ سوال بھی ان سے ہی کیا جانا چاہیے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر جینوئن سیاست دان (جو کہ بالآخر بن ہی گیا تھا جینوئن کہ عوامی حمایت رکھتا تھا) کو پھانسی گھاٹ تک نہ پہنچایا جاتا تو کیا اسٹیبلشیائی سیاست دان اقتدار میں آ پاتے اور اتنے قرضے لے کر ملک کا یہ حشر نشر کرتے ۔۔۔! خیر یہ تو زراہ تفنن ہی عرض کیا ہے یا اب جو فرمانے والے ہیں وہ ازراہ تفنن تصور کیا جاوے ۔۔۔! وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک بجا طور پر ہی سمجھتی ہے کہ صوبوں کو جانے والے اثاثے 'ضائع' ہو رہے ہیں اس لیے شاید ان کی کوشش ہو گی کہ انہیں بھی اس میں سے شیئر دیا جاوے ۔۔۔! یعنی کہ کریں گے اہل 'حرب' تازہ بستیاں آباد یعنی کہ ڈی ایچ اے ایکسٹینشز، عسکری سیمنٹ، بجری، ریت و فوجی کارن فلیکس پلس پلس ان دی آڑ آف شوشہ ہائے صدارتی نظام و دھبڑدھوس بذریعہ نیب۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔!عمران خان کی آج کی تقریر سے اقتباس:
"ملک میں کل 4500 ارب روپے اکٹھے ہوتے ہیں۔ 2500 ارب صوبوں کو چلا جاتا ہے۔2000 ارب سابقہ حکومتوں کے قرضوں کی ادائیگی میں لگ جاتے ہیں۔ 1700 ارب فوج لے جاتی ہے۔یوں وفاقی حکومت 1700 ارب روپے کے خسارہ سے شروع ہوتی ہے۔"
یعنی اگر فوج کو 1700 ارب نہ بھی دئے جائیں تب بھی وفاق کو حکومت چلانے کیلئے مزید قرضے لینےہی پڑیں گے۔ اب پتا چلا یہ جمہوریے پچھلے دس سالوں میں کیا کر کے گئے ہیں؟