سلیم صافی شہر کی ایک بس میں بیٹھا ہوا تھا تو اچانک اس نے دیکھا کہ بس ڈرائیور نے چلتی بس میں سے ایک چور پکڑ لیا جو لوگوں کو لوٹ رہا تھا
بس ڈرائیور نے کمال مہارت سے ایک ہاتھ سے چور کو پکڑا، اسے مارا اور اس سے مسافروں کے پیسے چھین کر اسے چلتی بس سے دھکا مار کر باہر گرا دیا
بس کے سبھی مسافر بس ڈرائیور کے شکرگزار تھے جس نے ان کا قیمتی مال ان کو واپس دلایا
معروف صحافی سلیم صافی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ نوجوان بس ڈرائیور کی بہادری سے بہت متاثر ہوا۔ سلیم صافی بس ڈرائیور کے قریب جا کر بولا
کل کی جنگ اخبار میں یہ سرخی ہو گی کہ "ڈائیو بس کے ایک بہادر ڈرائیور نے ایک ڈاکو پکڑ لیا"
ڈرائیور مسکراتے ہوئے بولا، لیکن میں ڈائیو کا بس ڈرائیور نہیں ہوں
سلیم صافی بولا، چلو تو پھر کل کی جنگ اخبار میں یہ سرخی ہو گی کہ "میٹرو بس کے ایک بہادر بس ڈرائیور کی بہادری کی داستان پڑھیے"
ڈرائیور نے دانت نکالتے ہوئے کہا، لیکن جناب میں میٹرو سروس کا بھی ڈرائیور نہیں ہوں۔
تو آخر تم کس بس سروس کے ڈرائیور ہو ؟ سلیم صافی جھنجھلا کر بولا
جناب میں بی آر ٹی پشاور کا بس ڈرائیور ہوں
اگلے دن بس ڈرائیور نے جنگ اخبار کھولی تو بڑی بڑی سرخی لگی ہوئی تھی
"بی آر ٹی کے ظالم بس ڈرائیور کا معصوم شہری پر تشدد، چلتی بس میں زدکوب کر کے بس سے اتار دیا۔ کیا یہ ہے عمران خان کی تبدیلی"
منقول