لطیفہ نمبر 1
دوستو آپ سب کو یاد ہو گا کہ لاہور کی انسداد منشیات کی عدالت کے جج مسعود ارشد نےرانا ثناء اللہ کیس کی سماعت سے روکے جانے پر کہا تھا کہ "ان کو واٹس ایپ کے ذریعے حکم دیا گیا ہے کہ رانا ثنا اللہ کا مقدمہ نہ سنیں اور اب ان کی جگہ دوسرا جج یہ کیس سنے گا"۔ آپ سب نے اس خبر کو پڑھا ہو گا کہ جج نے وکلاء کو بتایا تھا کہ "ہائی کورٹ نے مجھے واٹس ایپ میسج کے ذریعے کام کرنے سے روک دیا ہے، اس لیے وہ اس مقدمے میں کسی قسم کا ضمانت کی درخواست پر فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی ٹرائل جاری رکھ سکتے ہیں"۔ قارئین آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ "حکومت نے وزارت قانون کے ذریعے مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے مقدمات سننے والے لاہور کی احتساب عدالت کے ججز مشتاق الٰہی اور نعیم ارشد کی خدمات بھی ہائی کورٹ کو واپس کر دی تھیں اور ڈیپوٹیشن پر نئے ججز لگانے کی سفارش کی تھی۔ جس پر رانا ثناءاللہ کے وکیل زاہد بخاری نے کہا تھا کہ "انتہائی افسوس ہے، یہ عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملزم کے وکلاء اپنے دلائل مکمل کر چکے ہوں اور عدلیہ کو بدنیتی سے روکا گیا ہو۔ اب چیف جسٹس ہائی کورٹ کا امتحان ہے کہ حکومت سے پوچھے کہ ان ججوں کو کیوں ہٹایا گیا؟"۔ رانا ثناءاللہ کے دوسرے وکیل وکیل اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ " جج کو ہٹوا کر حد کر دی گئی ہے، کون کیس سنے گا؟ اس کا اختیار عدلیہ کے پاس ہے حکومت کے پاس نہیں۔ آج حکومت پر بدنیتی کا الزام ثابت ہو گیا ہے"۔
لطیفہ نمبر 2
منسٹری آف لاء نے جج مسعود ارشد کو اگست میں ہٹا دیا تھا، قارئین یہ وہی جج ہیں جو شہریارآفریدی کےبقول" منشیات کے ملزمان کو چھوڑ دیتے تھے" چلو مان لیا کہ وہ ملزمان کو چھوڑ دیتے تھے اور ایسی حساس عدالت میں بیٹھنے کے لائق نہیں تھے تو پھر وہ کیا وجہ تھی کہ ان کو لاہور سے تبدیل کر کے ملتان میں انسداد دہشت گردی کی ہی ایک اور عدالت کا جج لگا دیا گیا، کیا یہ وہاں بھی ملزمان کو چھوڑ سکتے تھے؟ ججز لگانے کا اور ہٹانے کا یہ کون سا اصول ہے، ایسے تو کوئی چپڑاسی بھی نہیں ہٹا سکتا؟
لطیفہ نمبر 3
شہریار آفریدی نے آج سماء ٹی وی پر نیا دعویٰ کر دیا ہے کہ "جج مسعود ارشد پر اپریل میں ہی ANF نےاعتراض اٹھا دیا تھا"۔ وزارت قانون نے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے 11 دن بعد لاہورہائی کورٹ کو انہیں ہٹانے کا خط لکھا اوراگست میں دوران سماعت واٹس ایب پیغام کے ذریعے انہیں ہٹا دیا گیا"۔