ٹائپنگ مکمل سیر ظلمات

لاريب اخلاص

لائبریرین
صفحہ: 46

لگا دی۔
”میری مالکہ کی باتوں سے پرتگیزی فراق کے چہرہ پر ایک لمحہ کے لیے خوف نمایاں ہوا مگر وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور اپنے ملک کی رسم کے مطابق اس نے ہوا میں صلیب کا نشان کھینچا تاکہ جس (غیر واضح لفظ) سے وہ مخاطب ہوا تھا اس کے الفاظ کے شگون بد کے اثر سے محفوظ رہے پھر وہ ہنکارتا ہوا بولا۔ ”اے میری پیاری کیا تو یہ پیشن گوئی کرتی ہے کی جب تو چاہے گی میرے پنجہ سے نکل جائے گی۔ اچھا دیکھا جائے گا۔ ہمراہیو دوسرا خچر اس عورت کے لیے لاؤ!“ دوسرا خچر لایا گیا اور میری مالکہ جوانا کو اس پر سوار کر دیا گیا پھر بردہ فروشوں نے ان قیدیوں پر جو ان کے خیال میں بیش قیمت نہیں تھے گولیاں (غیر واضح لفظ) ہانکنے والوں نے اپنے دریائی گھوڑے کے چمڑے کے تسموں سے غلاموں پر (غیر واضح لفظ) باری کی اور قافلہ کنارے کنارے بہاؤ کی طرف روانہ ہوا۔
جب سب چلے گئے تو میں نے اپنی کمین گاہ سے سر نکالا اور اپنی مالکہ کے ان نوکروں کی سرا غرسانی کی طرف متوجہ ہوئی جو اس قتل عام سے بچ رہے تھے اور (غیر واضح لفظ) ان سے کہا کہ اپنے ہتھیار لے کر پیلے بھرنے کا تعاقب کرو اور اپنی پیاری راعیہ کو چھڑانے کے لیے موقع کے منتظر رہو ان کے اوسان بجا نہ رہے تھے اور ان کے اکثر سردار سیر ہو گئے تھے اس لیے میری انہوں نے ایک نہ سنی بلکہ اپنے (غیر واضح لفظ) اور آتش زدہ جھونپڑوں کو دیکھ دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگے۔
میں نے ان سے کہا کہ اے بزدلو! اگر تم نہیں جاتے تو میں تنہا جاتی ہوں۔ کم از کم اتنا تو کرو کہ تم میں سے کوئی دریا کے پار جا کر ماووم کو ڈھونڈے اور اس کو خبر کرے کہ اس کے گھر پر یہ مصیبت نازل ہوئی ہے۔
ان آدمیوں نے کہا کہ اچھا ہم تمہارے کہنے پر جاتے ہیں ادھر میں نے ایک (غیر واضح لفظ) اور تھوڑا سا توشہ لے لیا اور بردہ فروشوں کے پیچھے پیچھے ہو لیا چار دن تک میں نے ان کا تعاقب کیا اور کبھی کبھی وہ مجھے نظر بھی آ جاتے تھے آخر کار جو گوشت میں ہمراہ لائی تھی وہ ختم ہو گیا اور میری قوت اور ہمت نے جواب دیا پانچویں دن کی صبح کو مجھ میں آگے جانے کی طاقت نہ رہی اس لیے میں ایک پہاڑی کے اوپر چڑھ گئی اور ان کی لمبی قطار کو میدان میں بل کھاتے دیکھتی رہی قافلہ کے قلب میں دو خچر تھے جن میں سے ایک پر ایک عورت سوار تھی مجھے معلوم ہوا کہ میری مالکہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ وہ اس وقت تک زندہ تھی۔
”اب مجھے پہاڑی پر ایک چھوٹا سا جھونپڑا بیت فاصلہ پر اپنے دائیں طرف نظر آیا اور اسی دن سہ پہر کے وقت اپنی رہی سہی طاقت کی مدد سے وہاں تک پہنچی۔
”اس جھونپڑے کے رہنے والوں سے میں نے کہا کہ میں بردہ فروشوں سے بچ کر آئی ہوں یہ سن کر وہ میرے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
47
ساتھ سلوک سے پیش آئے۔ یہاں مجھے معلوم ہوا کہ ناٹال سے کچھ انگریز لوگ یہاں آئے ہیں اور سونے کی تلاش میں اس جگہ کو (غیر واضح لفظ) کر رہے ہیں۔ اس خیال سے کہ شاید ان سے مجھے کچھ مدد ملے میں ان کی تلاش میں دوسرے دن نکل کھڑی ہوئی کیونکہ میں سب جانتی ہوں کہ انگریز بردہ فروشی کو (غیر واضح لفظ) حقارت دیکھتے ہیں اب بامشقت تمام میں یہاں پہنچی ہوں اور سرکار سے میری التماس ہے کہ میری مالکہ راعیہ کو پہلے بھرنے کے ہاتھ سے چھڑائے۔ افسوس کہ سرکار کو میں مفلس اور خستہ حال معلوم ہو رہی ہوں لیکن اگر آپ میری مالکہ کو رہا کرائیں گے تو بہت کچھ انعام و اکرام پائیں گے اس کے علاوہ میں خود آپ کو وہ بات بتاؤں گی جو میں نے اپنی تمام عمر اپنے مالک ماووم سے بھی پوشیدہ رکھی ہے یعنی میں اپنے ہم وطنوں (سیر ظلمات) کے چھپے ہوئے خزانوں کا راز آپ پر کھولوں گی۔“
لیونارڈ خاموش بیٹھا ہوا سوا کی داستان کو بغور سن رہا تھا اور جب کہانی کے آخری حصہ کو اس نے سنا تو اس نے اپنا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور دل میں سمجھا کہ اس بیچاری کو رنج و الم نے دیوانہ بنا دیا ہے مگر دراصل عورت کے درشت چہرہ سے اس کا دیوانہ ہونا ثابت نہیں ہوتا تھا بلکہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کا دل جذبات واثقہ سے بھرا ہوا ہے اور وہ صدق دل سے درخواست کر رہی ہے اس لیے وہ اس کے دیوانہ پن کو خارج از بحث خیال کر کے اس سے کہنے لگا۔
”اے نیک بخت تو پاگل تو نہیں ہو گئی تو دیکھتی ہے کہ میں یہاں تن تنہا ہوں اور میرے ساتھ ایک نوکر ہے میرے تین ساتھی جن کی نسبت تو جھونپڑی کے رہنے والوں سے سن آئی ہے بخار سے مر گئے ہیں اور مجھ کو بھی بخار نے آ گھیرا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ باوجود اس علم کے تو مجھ سے اس بردہ فروش تاجر کے خیمہ گاہ میں جانے کے لیے درخواست کرتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ وہاں میں اکیلا جا کر تیری مالکہ کو (بشرطیکہ فی الحقیقت تیری کوئی مالکہ ہے اور تیری کہانی سچی ہے) رہا کراؤں ”اے نیک بخت تو دیوانی تو نہیں؟“
”نہیں سرکار میں دیوانی نہیں ہوں جو کچھ میں آپ سے کہتی ہوں اس کا ایک ایک لفظ صحیح ہے اگرچہ میں جانتی ہوں کہ میری التماس چھوٹا منہ بڑی بات کی مصداق ہے مگر یہ بھی جانتی ہوں کہ انگریزوں کو جب کافی معاوضہ دیا جائے تو بڑے بڑے کارہائے نمایاں کر گزرتے ہیں میری امداد میں آپ ساعی تو ہوں دیکھیے تو آپ کو کتنا انعام ملے گا۔ اگر آپ کامیاب نہ بھی ہوئے اور زندہ رہے تو پھر بھی میں آپ کو اس قدر انعام دے سکتی ہوں کہ شاید زیادہ تو نہ ہوگا مگر آج تک جتنا آپ نے کمایا ہے اس سے بھی زیادہ ہو۔“
سوا کا تمسخر آمیز طرز کلام لیونارڈ کے دل پر نشتر کی طرح چبھا اور لیونارڈ نے امتحاناً قطع کلام کرکے کہا ”انعام کو جانےدو ہاں اس وقت جب کہ تم مجھے بخار سے نجات دلاؤ۔“ یہ کہہ کر وہ مسکرا پڑا۔“
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
48
عورت نے بآہستگی جواب دیا ”یہ بھی میرے امکان میں ہے کل صبح میں تمہارا علاج کروں گی۔“
لیونارڈ۔ ( بے اعتباری سے مسکرا کر) ”یہ اور بھی اچھا ہے۔ اب تم یہ بتاؤ کہ چھڑانا تو درکنار میں تمہاری مالکہ کا سراغ کس طرح لگاؤں گا جب مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کو قافلہ والے کہاں لے گئے ہیں۔ غالباََ یہ قلعہ جس کی نسبت اس پرتگیز قزاق نے ذکر کیا تھا کسی پوشیدہ جگہ واقع ہے۔ بردہ فروشوں کو اسے پکڑ کر لے گئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟“
عورت۔ ”جناب آج بارھواں دن ہو گا۔ قلعہ کے متعلق میں کچھ بھی نہیں جانتی اس کے معلوم کرنے کے لیے آپ سے دانا شخص کی ضرورت ہے۔“
لیونارڈ کچھ دیر سوچتا رہا پھر فوراً اس کو ایک بات یاد آئی پست قامت آٹر کی طرف جو پاس بیٹھ کر اپنا بڑا سر زانوں پر رکھے ہوئے ان تمام باتوں کو سن رہا تھا مخاطب ہو کر اس نے ڈچ زبان میں کہا کہ ”آٹر کیا تم ایک دفعہ غلامی میں یہیں پکڑے گئے تھے؟“
آٹر۔ ہاں یہاں دس سال ہوئے میں ایک دفعہ پکڑا گیا تھا۔“
لیونارڈ ”کیونکر؟“
آٹر۔ ”اس طرح کہ میں دریائے زنبری کے کنارے ایک قوم کے سپاہیوں کو ساتھ لے کر شکار کھیل رہا تھا یہ اس زمانے کے بعد کا ذکر ہے جب میرے لوگوں نے مجھ کو ملک سے اس لیے نکال دیا تھا کہ میں بدصورت ہوں اور ( غیر واضح لفظ) ان کا حاکم نہیں بن سکتا۔
”اس وقت اس سے پیلے بھتنے نے جس کا ذکر یہ عورت کر رہی ہے اور ان عربوں نے جو اس کے ساتھ تھے ہم پر حملہ کیا اور ہم کو اپنے خیمہ گاہ میں لے گئے جہاں ہمیں کشتیوں کے آنے تک انتظار کرنا پڑا۔ پیلا بھتنا ایک قوی الحبثہ اور سال خوردہ آدمی تھا جس کی شکل ہیبت ناک تھی۔ جس دن کشتیاں پہنچیں میں کشتی پر سوار ہوتے وقت زنجیر توڑ کر دریا میں کود پڑا۔ باوجود ان کے جد وجہد کے جو انھوں نے مجھے مکرر گرفتار کرنے کے لیے کی میں تیرتا اور غوطہ مارتا ہوا دریا کے دوسرے پار نکل گیا اور پھر ایسا بہا کہ ان کے ہاتھ نہ آیا میرے باقی کے ساتھیوں کو جو زندہ رہے بردہ فروش جہازوں میں بھر کر زنجبار لے گئے۔“
لیونارڈ۔ ”آٹر کیا تم اس جگہ پھر جا سکتے ہو؟“
آٹر۔ ”ہاں میان مجھے ان پہاڑوں کے دامن دامن دس دن یا کم و بیش کی مسافت طے کرنی پڑے گی حتیٰ کہ ہم زنبری کے جنوبی دہاتہ پر جو لوابو کے نیچے واقع ہے پہنچیں۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
49
”پھر مجھے دریا کے بہاؤ کی جانب ایک دن کا رستہ چلنا پڑے گا اس کے بعد دلدلوں میں دو دن صرف ہوں گے اور ہم منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے۔ مگر میان وہ ایک حصن حصین ہے اور اس میں بہت سے مسلح آدمی بندوقیں لیے ہر وقت موجود رہتے ہیں علاوہ اس کے وہاں ایک توپ بھی رکھی ہوئی ہے جا کر دیکھ لینا۔“
یہ سن کر لیونارڈ ایک لمحہ تک کچھ سوچتا رہا پھر وہ سوا سے یوں مخاطب ہوا۔ ”تمہاری داستان سے معلوم ہوتا ہے کہ پیلے بھتنے کے قول کے مطابق اس کا قلعہ تمہارے آقا کی بستی سے آٹھ روز کی راہ پر واقع ہے اس لیے اگر تمہاری مالکہ وہاں پہنچ گئی ہے تو ضرور ہے کہ اس کو پہنچے ہوئے تین یا چار رو ہوئے ہوں اور اس ساحل کے بردہ فروشوں کے طرز عمل سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ برسات کی وجہ سے ابھی وہ ایک مہینہ تک اپنی کشتیوں پر کسی قسم کا اسباب نہیں لادیں گے۔“اتنا کہہ کر لیونارڈ رک گیا اور پھر سوا سے یوں کہنے لگا ”تم یہ مت سمجھو کہ میں اس مہم کا بیڑا اٹھانے کا حتمی اقرار کرتا ہوں پہلے میں معاملہ پر اچھی طرح سے سوچ بچار کر لوں تب کوئی وعدہ کروں گا۔“
”عورت نے جواب دیا ”جب آپ کو معلوم ہو گا کہ کس قدر معاوضہ آپ کو ملنے والا ہے تو آپ اس مہم کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھائیں گے مگر اس کے متعلق میں کل آپ کا بخار اتار کر آپ سے بات کروں گی۔ اب مجھے آپ کوئی ایسی جگہ بتائیں جہاں میں سو رہوں کیوں کہ میں نہایت تھکی ہوئی ہوں ۔“
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 31 تا 39

صفحہ 31

لیونارڈ ۔ ”وہاں تم کیسے پہنچو گی؟ سو گز کا فاصلہ بیچ میں حائل ہے اور برف رستہ میں نہایت گہری ہے۔“

جين ۔ ”برف کی پروا نہیں۔“

لیکن لیونارڈ کو برف کی پروا تھی اور اس مشکل کو ا س نے دل میں حل کر لیا۔ اوّل تو اس نے اُس رستہ کی فرط دیکھا کہ کوئی آ تو نہیں رہا اور تب آگے کو جھُک کر بغیر کچھ کہے اور معذرت طلب کئے اس نے جین کو اپنی گودی میں اُٹھا لیا اور مکان مذکور کی جانب چلا گیا۔ اگرچہ جین کا وزن زیادہ تھا لیکن لیونارڈ کی یہی آرزو تھی کہ کاش یہ فاصلہ زیادہ بعید ہوتا۔ کچھ دیر میں وہ وہاں پہنچی اور لیونارڈ نے نہایت آہستگی سے جین کو نیچے اتارا اور اتارتے وقت اس کے منہ کو بوسہ دیا۔ پھر اس نے اپنا اوور کوٹ اتارا اور اسے اُوڑھا دیا ۔

اس عرصہ میں جین نے کوئی بات نہ کہی تھی ۔ بے چاری بات کیا کرتی ۔ عاشق سے بغلگیر ہونے گی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ اسے آرزو ہی نہ ہو سکتی تھی کہ میں خود بولوں یا کچھ کروں۔ لیونارڈ نے اس سکوت کو توڑا اور بولا۔

”جین۔ تم جو مجھ سے پوچھتی ہو کہ میں تم سے رخصت ہوئے بغیر کیوں چل دیا۔ سو اسکی وجہ یہ تھی کہ تمہارے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا کہ اور مجھے تاکید کی کہ تمہارے خیال سے درگزر رہوں۔“

جین (مایوسی کے ساتھ ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر) ”یہ کیوں؟“

لیونارڈ (تلخی سے ہنس کر) ”کیا تم قیاس نہیں دوڑا سکتیں“

جین (لیونارڈ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر یاس کے لہجے میں ) ”ہاں لیونارڈ میں سمجھی“

لیونارڈ۔ ” شاید یہ بہتر ہو گا کہ میں زیادہ واضع کر کے تم کو سمجھا دوں۔“

اس سے غلطی کا احتمال نہ رہے گا۔ تمہارے باپ نے مجھ سے اس لئے کنارہ اختیار کیا ہے کہ میرے باپ نے میرا تمام روپیہ کرد برد کر دیا۔ تم نے دیکھا کہ اس کے گناہوں کا خمیازہ بچّوں کو کیسا کھینچنا پڑا اور تمہارے باپ نے مجھ سے زیادہ سختی اس لیے روا رکھی ہے اور معمول سے زیادہ رو کھے پن کے ساتھ مجھے اس لئے جواب دیا ہے کہ وہ تمہاری شادی مسٹر کوہن کے ساتھ کیا چاہتا ہے جو کروڑ پتی ہے اور اوٹرم کا آئندہ مالک ہے۔“

جین (کانپ کر) ”میں جانتی ہوں، میں جانتی ہوں مگر لیونارڈ تم سے کہے دیتی ہوں کہ مجھے اس سے سخت نفرت ہے۔“

لیونارڈ ۔ ”اگر ایسا ہے تو پھر اس سے شادی مت کرو۔“

جین (وثوق کے لہجہ میں) ”میں شادی کرنے سے پہلے مرنا قبول کروں گی۔“

صفحہ 32

لیونارڈ ”جین بات یوں ہے کہ جب آرام و آسائش نظر کے سامنے آتی ہے تو ہمیشہ آدمی مرا نہیں کرتا۔“

جین (رو کر) ”لیونارڈ خدا کے لئے ایسی دِلخراش باتیں تو نہ کرو۔ تم کہاں جاتے ہو۔ میرا کیا حال ہو گا۔ “

لیونارڈ۔ ”غالباً میں تباہی کی سرزمین میں جاتا ہوں اور مجھے اس سے بچانا نہ بچانا تمہارے اختیار میں ہے ۔ دیکھو جین اگر تم میرا ساتھ دو گی تو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ اگر قسمت اس وقت میرے خلاف ہے لیکن مجھے اپنے اوپر بھروسہ ہے کہ ایک نہ ایک دن میرا نصیب یاوری کرے گا۔ میں تمہارا عاشق صادق ہوں اور اس عشق کی بدولت کوئی محنت ایسی ہیں جو تمہاری خاطر میں گوارا کروں۔ مگر اس کو ایک زمانہ چاہیئے اور غالباً سالہا سال کا زمانہ چاہیے۔“

جین ”لیونارڈ اگر میرے بس میں ہے تو میں یقیناً انتظار کروں گی۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ تم کو مجھ سے اتنی محبت نہیں جتنی مجھ کو تم سے ہے۔“

لیونارڈ ”جین صورت معاملہ اب یوں ہے کہ یو تو تمہارے والدین جو تم سے کہتے ہیں اس کو مانو اور مجھے چھوڑ دو اور یا اُن سے کنارہ کرو اور میرا ساتھ دو۔ سنو چھ مہینے میں تمہاری عمر ۲۱ سال کی ہو جائے گی اور اس ملک میں کوئی انسانی طاقت کسی عورت کو مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف کسی مرد سے شادی کرے یا جس مرد سے وہ شادی کرنا چاہتی ہو اس سے اسے روکا جائے ۔ شہر میں جس کلب میں میں رہتا ہوں اس کا پتہ تمہیں معلوم ہی ہے ۔تم جو خط مجھے اس پتہ پر لکھو گی وہ مجھے مل جائے گا۔ یہ تو خلاف قیاس ہے کہ تمہارے خطوط کو روک لیا جائے یا مجھ سے خط و کتابت کرنے میں تم سے مزاحمت کی جائے۔ اس لیے میں تمہارے خط کا منتظر رہوں گا اور اگر ضرورت ہوئی تو تمہارے اکیسویں سال کے ختم ہوتے ہی میں تمہیں آ کر لے جاؤں گا اور تم سے شادی کر لوں گا۔ لیکن اگر تمہارا کوئی خط مجھے نہ ملا تو میں سمجھوں گا کہ یا تو تم مجھے خط لکھنا ہی نہیں چاہتیں یا جو کچھ کہنا چاہتی ہو وہ ایسا درد انگیز ہے کہ تم نہیں چاہتی کہ میں اسے پڑھوں۔ جین تم میرا مطلب سمجھیں۔“

جین۔ ”لیونارڈ میں سب سمجھتی ہوں۔ مگر تمہاری شرطیں نہایت کڑی ہیں۔“

لیونارڈ۔ ” میری جان! جو شرطیں میرے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ بھی کچھ کم کڑی نہ تھیں ۔ چونکہ تم سے بات کرنے کا آخری وقت موقعہ ہے اس لئے ضرور ہے کہ جو کچھ مجھے کہنا ہے صاف صاف کہہ دوں۔“

ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک آواز اُن کے کان میں آئی یہ آواز مسٹر بیچ کی تھی جو برآمدہ میں کھڑا ہوا پکار رہا تھا۔ ”جین تم کہاں ہو۔“

صفحہ 33

جین کا عکس

صفحہ 34

جین ۔ ”ارے یہ کیا غضب ہوا ۔ میں پچھواڑے کے دروازے سے آئی تھی۔ لیکن اماں میرے کمرے میں گئی ہو گی اور مجھے وہاں نہ پایا ہو گا۔ اب وہ دن بھر میری نگرانی کیا کرتی ہوں۔ اب میں کیا کروں گی؟“

لیونارڈ ”جا کر ان سے کہہ دو کہ تم مجھ سے رخصت ہو رہی تھیں۔ یہ کوئی جرم نہیں اور اس کے لئے وہ تمہیں جان سے مارنے سے رہیں۔“

جین۔ ”وہ اس سے بھی بُرا سلوک مجھ سے کریں گے۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے عاشق کی گردن میں ہاتھ ڈال دئیے اور اپنے منہ کو لیونارڈ کے سینے پر رکھ کر زار و قطار رونے لگی اور کہنے لگی کہ میرے پیارے تیرے بغیر میرا کیا حال ہو گا۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس دردناک نظارہ پر جو تھوڑی دیر کے لئے اس وقت وقوع میں آیا پردہ ڈال دیا جائے ۔ لیونارڈ کے دل کی تلخی اور کہاوٹ اب بالکل جاتی رہی اور جہاں تک اس سے ہو سکا اس نے جین کو پیار سے تسلّی اور تشفی دی یہاں تک کر خود اس کے آنسو بھی جین کے ساتھ ٹپک پڑے۔ آخر کار جین نے لیونارڈ کے پہلو سے اپنے آپ کو جدا کیا کیونکہ مسٹر بیچ کی آواز زور زور سے آنی شروع ہوئی۔ جین کی ہچکی بندھ رہی تھی اور اس کی بے کسی اور یاس کی حالت میں اس نے لیونارڈ سے کہا کہ پیارے لیونارڈ میں تمہیں یہ الوداعی تحفہ دینا بھول گئی تھی ۔ یہ کہ ہ کر اس نے اپنے دامن میں سے ایک چھوٹا سا خریطہ نکالا اور لیونارڈ کو دیا اور بولی کہ اسے بطور میری یاد گار کے رکھو۔ پھر ایک دفعہ اور دونوں بغلگیر ہوئے اور پھر وہ تاریکی اور برف کے اندر لیونارڈ کی نظروں سے غائب ہو گئی۔ اگرچہ اس کے دل سے وہ کبھی غائب نہ ہو سکتی تھی۔

جین کے چلے جانے کے بعد لیونارڈ کی جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ دیر تیک سکتہ کے عالم میں رہا اور پھر ایک آہ ِ سرد بھر کر اس نے خریطہ کو کھولا جسے دیتے وقت جین نے کہا تھا کہ یہ ایک الوداعی تحفہ ہے۔ اسے بطور میری یادگار کے اپنے پاس رکھو۔ یہ لفظ ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہے تھے اور اسے یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے گویا ایک ایسے نقصانِ عظیم کی پیشین گوئی کی ہے جس کی تلافی عمر بھر نہ ہو سکے گی۔ چاند کی دھندلی روشنی میں اس نے دیکھا کہ خریطہ میں دو چیزیں ہیں۔ ایک تو انجیل کی ایک چھوٹی سی جلد ہے جس کے پہلے صفحہ پر جین کا نام اور اس کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی ایک مختصر تحریر ہے اور دوسرا سنہری بالوں کا ایک گچھا ہے جو ریشم میں بندھا ہے ۔ ان چیزوں کو دیکھ کر لیونارڈ آپ ہی آپ بولا کہ اس الوداعی تحفہ کے شگون اچھے نہیں اور پھر اوور کوٹ کو پہن کر جس میں سے جین کے جسم کی گرمی ابھی زائل نہ ہوئی تھی وہ بھی تاریکی اور برف میں

صفحہ 35

غائب ہو گیا اور گاؤں کی طرف روانہ ہوا ۔تھوڑی دیر میں وہ سرا میں پہنچا اور ایک چبوترے سے حجرہ میں جو قہوہ خانہ کے محاذی واقع تھا داخل ہوا۔ اس حجرہ میں کوئی چراغ روشن تھا مگر دہکتی ہوئی آگ کی روشنی سے حجرہ کے اندر اجالا ہو رہا تھا۔ اس اجالے میں اس نے دیکھا کہ اس کا بھائی گھٹنے پر ہاتھ ٹیکے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا آگ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

ٹامس اوٹرم : لیونارڈ سے دو سال بڑا تھا اور اپنے بھئی کی نسبت زیادہ نحیف الجثہ تھا ۔ جسمانی پھرتی اور چالاکی اس میں نہ تھی۔ اس کا چہرہ ایک ایسے شخص کا سا تھا جو تخیل میں ہر وقت مستغرق رہتا ہو اور ادراک اور تصور کی چمک نے اس کی بڑی بڑی بھوری آنکھوں کو روشن کر رکھا تھا۔ مزاج اس کا نہایت سادہ واقع ہوا تھا۔ علم و فضل میں اسے دستگاہ ِ کامل حاصل تھی اور اس میں وہ ماہر تھا۔ کتب بینی اسے بہت پسند تھی۔ مذاق اس کا سلیم تھا اور یونان کے علم و فن کے جواہرات سے اس کی معلومات کا گنجینہ معمور تھا۔

لیونارڈ کے داخل ہونے پر اس نے اوپر کو نگاہ اٹھائی اور کہا ”لیونارڈ تم ہو۔ تم کہاں گئے تھے ؟“

لیونارڈ ۔ ”پادری کے مکان کو گیا تھا۔“

ٹامس۔ ” وہاں تم کیا کر رہے تھے ؟“

لیونارڈ ”آپ معلوم کیا چاہتے ہیں؟“

ٹامس ”البتّہ! تم جین سے ملے؟“

اس پر لیونارڈ نے اپنے بھائی سے پورا قصّہ بیان کیا ۔

ٹامس ”تمہارے خیال میں وہ کیا کرے گی؟ ان واقعات کو اور اس عورت کو اگر صغریٰ و کبریٰ سے تعبیر کیا جائے تو اس کا نتیجہ نکالنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے۔“

لیونارڈ۔ ”ہو گا ! لیکن یہ منطق کا کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے حل ہونے کی مجھے آرزو ہو۔ میں آپ کی اس دل لگی کا مطلب نہیں سمجھا۔ اگر آپ مجھ سے یہ سوال کریں کہ میرے خیال میں جین کیا کرے گی تو میں یہی کہوں گا کہ جیسا اور عورتوں کا قاعدہ ہے وہ بھی ایسا ہی کرے گی اور میرا ساتھ چھوڑ دے گی۔“

ٹامس ”لیونارڈ معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری رائے عورت کی نسبت بُہت خراب ہے۔ مجھے سبھی عورتوں سے کم سابقہ پڑا ہے اور نہ میں چاہتا ہوں کہ میں ان کے حالات سے زیادہ واقفیت حاصل کروں البتہ میں یہ ہمیشہ سے سمجھے ہوئے تھا کہ عورتیں ان خاص خاص موقعوں پر نہایت ثابت قدم اور وفادار نکلا کرتی ہیں۔ تم نے

صفحہ 36

سُنا نہیں کہ عورتوں نے مصیبت کی حالت میں بسا اوقات مردوں کا ساتھ دیا ہے۔“

لیونارڈ ”بھائی جان میں تو ایسا نہیں سمجھتا۔ میری رائے میں عورتوں کو اپنی آسائش کا زیادہ خیال ہوتا ہے اور مصیبت کے وقت وہ کسی کا ساتھ نہیں سیتیں۔ خیر شکر ہے کہ کھانا تو آ پہنچا۔“

لیونارڈ نے یہ باتیں نہایت تلخی سے کہیں اور اگر چہ اس نے بظاہر کھانے کے آنے پر اطمینان ظاہر کیا تھا تا ہم ہے زیادہ رغبت سے اس نے کھانا نہیں کھایا۔ اس بے چارے کی اشتہا کا کم ہونا ایسی حالت میں ایک لازمی امر تھا۔ اس پر ایک بہت بڑی مصیبت نازل ہوئی تھی اور دولت اور رسوائی کے جس داغ سے اس کے اپنے خاندان کی عزّت پر دھبا لگا تھا اس کا خیال کسی طرح سے اس کے دل سے دور نہ ہوتا تھا اور اب ایک اور مصیبت کا اسے سامنا ہوا جو یہ تھی کہ وہ ابھی ابھی نہایت ذلّت کے ساتھ اُس مکان سے نکالا گیا جہاں اس کی پہلے بڑی آؤ بھگت ہوتی تھی۔ علاوہ اس کے وہ اس عورت سے جدا ہوا جو اُس کو جان سے زیادہ پیاری تھی اور جن حالات میں کہ اُسے جدا ہونا پڑا ان سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ جدائی ہمیشہ کے لئے ہے۔

لیونارڈ بہت بڑا مردم شناس تھا اور اس میں اس سے زیادہ سمجھ تھی جس کی ایک ایسے نوجوان سے جو عشق میں مبتلا ہو تو توقع ہو سکتی ہے۔ وہ خوب جانتا تها کہ جین کی مزاج کی خصوصیات میں سے سب سے بڑی خصوصیت یہ یہ ہے کہ اس پر واقعات متداولہ کا دباؤ پڑا اور اس نے سر تسلیم خم کیا ۔ اور اگرچہ وہ اپنے دل کو بہت تسلی دیتا تھا لیکن وہ کوئی وجہ اس امر کے باور کرنے کی نہ پاتا تھا کہ وہ معمول سے زیادہ استقلال اس نسبت کے بارے میں ظاہر کرے گی ۔ پھر اس نے سوچا کر آیا میرے لئے ایسا کرنا قرین مصلحت ہو گا یا نہیں اور میرے پاس ہے کیا جو میں اسے پیش کروں۔ شاید مسٹر بیچ نے جب مجھے خود غرض اور گستاخ قرار دیا تو وہ غلطی پر نہیں تھا کیونکہ اس سے بڑھ کر اور خود غرضی اور گستاخی کیا سکتی ہے کہ میں موجودہ حالت میں کسی عورت سے بھی اپنی قسمت لڑانے کی آرزو کروں۔

لیونارڈ کی ان باتوں اور اس کی ظاہری حالت کو ہمیں قابلِ معافی تصور کرنا چاہئے کیونکہ اس کا دل صدمہ سے پاش پاش ہو رہا تھا۔

جب دسترخوان بڑھایا گیا اور چونوں بھائی پھر اکیلے رہ گئے تو ٹامی نے اپنے بھائی سے جو پائپ میں تمباکو بھر رہا تها سوال کیا۔

”لیونارڈ ۔ آج رات ہم کیا کریں گے ؟“

صفحہ 37

لیونارڈ ”غالباً بستر پر جا کر سو جائیں گے۔“

ٹام ۔ ”لیونارڈ میں چاہتا ہوں کہ اپنے قدیم گھر کو آخر بار چل کر ہم ایک نگاہ اور دیکھ آئیں۔ تمہاری کیا صلاح ہے؟“

لیونارڈ۔ ”اگر آپ کی مرضی ہے تو چلئے لیکن دل کو صدمہ ہو گا۔“

ٹام (بھائی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر) تھوڑے سے صدمہ سے کوئی زیادہ ضرر مقصود نہیں۔“

دونوں اُٹھ کر روانہ ہوئے اور پاؤ گھنٹے بعد اوٹرم ہال میں پہنچے۔ برف اب تھم گئی تھی اور رات بالکل صاف تھی۔ لیکن تھمنے سے پہلے برف نے اتنا احسان ضرور کیا کہ نیلام کے کوڑے اور بچی کھچی چیزوں کو نظر سے چھپا دیا اور اس تباہی اور ویرانی کے منظر پر پردہ ڈال دیا جو نیلام کے بعد دیکھنے میں آتا ہے۔

دونوں بھائی اس مکان کے گرد جو ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا خاموش پھرتے رہے اور محبت بھری نگاہوں سے ہر ایک درخت اور کھڑکی کو جن سے ان کے بچپن کی شناسائی تھی دیکھتے رہے۔ لیونارڈ نے اتفاق سے جو دروازے کو دھکا دیا تو اس کے دونوں پٹ کھل گئے جس سے اس کو بڑا تعجب ہوا۔ نیلام کی گھبراہٹ اور ابتری کے برد کسی کو دروازہ بند کرنا یاد نہ رہا تھا۔ لیونارڈ نے بھائی سے کہا کہ آؤ اندر چلیں۔ دونوں اندر داخل ہوئے اور تمام کمروں میں پھرتے رہے حتیٰ کہ وہ ایک بڑے کمرے میں جس میں ایک بڑا دریچہ لگا تھا پہنچے۔ اس دریچہ پر خاندان اوٹرم کے بہت سی نسلوں کے امتیازی نشان منقوش تھے۔ یہ نشانات جوڑیوں میں تھے۔ ہر ایک جوڑے میں خاندان کے سردار وقت اور اس کی بیوی کا نشان منقوش تھا۔ یہ گھر ان نشانات سے بالکل بھری نہ تھی کیونکہ اس میں دو تختیاں خالی چھوٹی ہوئی تھیں جن پرنام ٹامس اوٹرم اور اس کی بیوی کے نشانات منقوش کرائے جانے کی نیت تھی۔

ٹام نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا ”دیکھو لیونارڈ یہ اب ہمیشہ کے لئے خالی رہے گی۔“

لیونارڈ ”یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر میرا خیال ہے کہ خاندان کوہن کو بھی کسی نہ کسی نشان امتیازی پر ناز ہے یا اگر نہیں تو وہ روپیہ کی مدد سے نشان خرید سکتے ہیں۔“

ٹام ”میرے خیال میں اگر ان کا مذاق سلیم ہے تو انہیں اپنے لئے ایک نیا دریچہ تعمیر کرنا چاہیے۔“

اس کے بعد وہ کچھ دیر خاموش رہے اور چاندنی کو منقوش دریچہ کے آئینوں میں سے چھن کر پڑ رہی تھی، دیکھتے رہے۔ خاندان اوٹرم کے بہت سے متوفی اراکین کی تصویریں دیواروں پر آویزاں تھیں اور جب چاندنی کی جھلک ان پڑی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ دیوار پر سے حسرت آلود نگاہ کے ساتھ ان دونوں بھائیوں

صفحہ 38

کو دیکھ رہے ہیں۔

ٹام نے خاندانی مقولہ کی جو یہ تھا کہ

کمند کوشش لگا کے تارے سہ پہر رفعت کے توڑ لاؤ

بآواز بلند پڑھا اس مقولہ کے ساتھ ایک اور مقولہ ثبت تھا جو خاندان مزبور کے کسی اور رکن نے اختیار کیا تھا اور وہ یہ تھا۔ ”دولت۔ عزت۔ محبت“

ٹام نے ان دونوں مقولوں کو پھر دہرایا اور کہا کہ اگر مقولوں سے تسلّی اور تشفی حاصل ہو سکتی ہے تو ہمارے خاندان کی تسلی و تشفی کی اس سے بڑھ کر ضرورت کبھی نہ تھی۔ ہمارا دل شکستہ ہمارا گھر ویران اور ہماری عزت برباد ہو گئی لیکن کوشش کی کمند لگانا اور سہ پہر رفعت کے تارے توڑ لانا ابھی باقی رہتا ہے۔

ٹام نے یہ کلمات سچے جوش سے کہے اور پھر وہ یوں گویا ہوا ”لیونارڈ کیا وجہ ہے کہ جو کچھ گزر چکا ہے ہم اس کی تلافی نہ کریں ۔ ہم کو چاہئے کہ اس مقولہ کو اپنا اصل اصول قرار دیں اور اس کے شگون کو نیک سمجھ کر اسے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی اسے پورا کرے گا ۔“

لیونارڈ ” کوشش کرنا تو ہمارے اختیار میں ہے اور اس کا نتیجہ خدا کے ہاتھ۔“

ٹام ”لیونارڈ کیا تم میرے ساتھ مل کر ایک قسم کھاؤ گے۔ اس میں بچپن پایا جاتا ہے لیکن میرے خیال میں بعض دفعہ طلفا نہ حرکات میں سبھی دانشمندی سے خالی نہیں ہوتیں۔“

لیونارڈ ۔ ” کون سی قسم؟“

ٹام ”ہم یہ قسم کھائیں کہ انگلستان کو خیر باد کہیں اور کسی غیر ملک میں جا کر دولت جمع کریں اس قدر دولت جس کے ذریعے ہم اپنے کھوئے ہوئے گھر کو پھر خرید سکیں اور جب تک کہ ہم یہ دولت جمع نہ کر لیں اس وقت تک ہم وطن کو واپس نہ آئیں اور ہماری اس جستجو کا خاتمہ اگر کرے تو موت ہی کرے ۔“

لیونارڈ نے تھوڑی دیر کے لئے تامل کیا اور پھر جواب دیا کہ ”اگر جین نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں قسم کھانے کو تیار ہوں۔“

ٹام نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی گویا کہ اس کو کسی ایسی شے کی تلاش تھی جس سے اس کی آنکھیں بخوبی آشنا تھیں۔ کچھ دیر کے بعد جس چیز کی اس کو تلاش تھی اس پر نظر پڑی۔ گھر کا قریب قریب سب سامان نیلام ہو چکا تھا اور ان میں سے اکثر چیزیں جن میں خاندان کی تصویریں بھی شامل تھیں نئے مالک مکان نے خرید لی تھیں

صفحہ 39

باقی جو چیزیں بچ رہی تھیں ان میں ایک قدیم اور قیمتی بائیبل کا نسخہ تھا جو کمرے کے وسط میں ایک تپائی پر رکھا تھا۔ ٹام اس بائیبل کی طرف آیا اور اس کا بھائی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ تب ان دونوں نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے اور بڑے بھائی نے بلند آواز سے ایک ایسے لہجہ میں جس سے اس کے شوق اور خلوصِ نیت کا پورا اظہار ہوتا تھا۔ یہ قسم کھائی۔

”ہم اس خدا کے سامنے جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، اس کتابِ مقدس کی قسم کھاتے ہیں کہ ہم اپنے گھر کو چھوڑ دیں گے اور پھر اس کی اس وقت تک شکل نہ دیکھیں گے جب تک کہ ہم پھر اس کو اپنے ملک نہ کہہ سکیں، ہم قسم کھاتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے اس مقصد کی انجام دہی میں اس وقت تک ساعی رہیں گے جب تک کہ موت ہمارا اور ہمارے مقصد کا خاتمہ نہ کر دے اور جب تک کہ ہمارے جسم میں طاقت اور دماغ میں عقل ہے اس وقت تک ہم اس قسم سے ہرگز نہ پھریں گے اگر ہم پھریں تو ہم پر خدا کا عذاب نازل ہو۔ اے خدا ہماری مدد کر۔“

لیونارڈ نے بھی اس آخری جملے کا اعادہ کیا اور کہا ”اے خدا ہماری مدد کر۔“

اس طرح اپنے آباؤ اجداد کے گھر میں اور اپنے خالق کے رو برو اور اپنے اسلاف کی بے جان تصاویر کے سامنے ٹامس اور لیونارڈ اوٹرم نے اپنی زندگی کو اس بڑے مقصد کے لئے وقف کر دیا۔ ان میں سے ایک کے قول کے مطابق یہ ایک طفلانہ حرکت تھی لیکن اگر اس میں بچپنا تھا تو کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلوصِ نیّت اور وثوق یقین سے یہ حرکت عاری نہ تھی ۔ ان کی ناؤ ایسے بھنور میں پھنس چکی تھی جس سے نکلنا محال نظر آتا تھا لیکن اگر ایمان پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا سکتا ہے تو سچی کوشش اپنے مقاصد میں اس سے بھی زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔ اس وقت اس کے دل نے اسی بات کی گواہی دی۔ انہیں یقین تھا کہ ہم میں سے ایک نہ ایک اس مقصد کو پورا کرے گا۔ اگرچہ اس امر کا ان کو علم نہ تھا کہ اس عزم کی تکمیل کی راہ میں کس قدر رکاوٹیں حائل تھیں۔

صبح ہوتے ہی وہ لندن کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں کچھ دیر ٹھہرے رہے۔ لیکن جین بیچ کی طرف سے کوئی پیغام نہ آیا اور جو قسم لیونارڈ اوٹرم نے کھائی تھی اس کا سلسلہ طوعاً و کرہاً اس کی گردن میں پڑ گیا۔

تین مہینے کے اندر دونوں بھائی سواحل افریقہ کے قریب جا پہنچے جہاں اہلِ ظلمات کا وطن تھا۔
 

محمد عمر

لائبریرین
221

خوف کے مارے چلّا رہے ہیں اور جب ان سے حقیقت حال پوچھی تو اسے معلوم ہوا کہ ان میں سے تین آدمی رات کے وقت نامعلوم طور پر غائب ہو گئے۔ اس امر کے دریافت کرنے سے لیونارڈ کو سخت تعجب ہوا کیونکہ جس کوٹھڑی میں یہ لوگ سو رہے تھے اس کے دروازہ کے باہر قفل پڑا ہوا تھا اور اس پر آلفن کے سپاہیوں کا پہرہ تها اور اندر کوئی ایسا رستہ نہ تھا کہ اس میں سے کسی کا گذر ہو۔ جب اس نے آلفن سے اس بات کا تذکرہ کیا تو اس نے بھی تعجب ظاہر کر کے کہا ”مجھے ان لوگوں کے اس طرح پر غائب ہو جانے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہاں اتنا میں نے سنا ہے کہ محل میں بہت سے خفیہ رستے ہیں جن کا علم کاہنوں کے سوا کسی کو نہیں۔ یہ سن کر لیونارڈ کے ہوش پران ہو گئے اور جب جوانا سے اس نے جا کر یہ دہشت انگیز ماجرا بیان کیا تو وہ بھی کانپ اُٹھی۔

اب نو آبادی کے لوگ روز ایک ایک دو دو کر کے غائب ہونے لگے حتیٰ کہ صرف تین باقی رہ گئے۔ ان بے چاروں کی حالت ایسی نہ تھی جو تحریر میں آ سکے۔ روتے اور چِلّاتے اور خوف سے کانپتے ہوئے وہ لیونارڈ کو بد دعائیں دیتے تھے اور اسے کہتے تھے کیا تم ہمیں یہاں اسی لئے لائے تھے کہ جن ہم کو اس عذاب کے ساتھ جان سے ماریں۔“ لیونارڈ سے کچھ جواب نہ بن پڑتا تھا اور سرنگوں ہو کر خاموش رہتا تھا اور دل میں کہتا تھا۔ ”یہ مجھے سچ ملامت کرتے ہیں ۔ ہائے افسوس میں انہیں کیوں اپنے ساتھ لایا۔ انہیں میری خود غرضی نے مارا۔“ جوانا بھی اپنے باپ کے خادموں کے یکے بعد دیگرے غائب ہوتا دیکھ کر سخت اندوه و بیقراری میں مبتلا تھی اور کف افسوس ملنے کے سوا وہ بھی اور کچھ نہ کر سکتی تھی۔

جو تین آ دمی باقی رہ گئے تھے لیونارڈ نے انہیں ایک علیحدہ کمرہ میں لے جا کر کہا اور خیال کیا کہ یہ یہاں سلامت ر ہیں گے لیکن جب دوسری صبح اس نے جا کر کمرے کو دیکھا اور وہاں سوائے دو تیز چھروں کے اور کچھ نہ پایا تو گویا اس پر بجلی گر پڑی۔ خوف اور دہشت سے مبہوت ہر کر واپس جوانا کے پاس آیا اور چھرے اس کے سامنے پتھر ہر پھینک کر بولا۔ ” جو باقی تین رہ گئے تھے آج وہ بھی غائب ہو گئے اور ان کی بجائے میں نے وہاں پر یہ چھرے پائے۔“

یہ ہوش ربا خبر سن کر جوانا کا صبر و استقلال ہاتھ سے جاتا رہا ۔ وہ زار و قطار رونے لگی اور

222

روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ آخر کار ٹوٹے ہوئے فقروں میں وہ بولی ۔”لیونارڈ! لیونارڈ! وہ میرے باپ کے قدیم نوکر تھے ۔ میں بچپن سے ان کو جانتی تھی اور اب میری وجہ سے ان کا خاتمہ اس خوفناک طور پر ہوا ۔ کیا تم کو یہاں سے نکل چلنے کی کوئی تدبیر نہیں سوجھتی۔ اگر نہیں تو خوف کے مارے میرا دم نکل جائے گا۔ مجھے اب نیند بھی نہیں آتی۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رات کے وقت کوئی شخص میری حرکات و سکنات کو دیکھتا رہتا تھا مگر یہ میں نہیں بتا سکتی کہ کون شخص ہے۔ گذشتہ شب مجھے خیال ہوا کہ میں نے پردہ کے قریب جہاں تم اور فرانسسکو رات کو سوتے ہو کسی کی آہٹ سنی اگرچہ سوا یہ کہتی ہے کہ میرا تصور ہو گا۔“

لیونارڈ ” ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کوئی شخص آتا تو فرانسسکو اس کو ضرور دیکھتا کیونکہ وہ پہرہ دے رہا تھا۔ اور لو وہ خود آ گیا۔“

اس وقت فرانسسکو کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے چہر ہ پر بیم و یاس کے نقش ثبت تھے۔ پھرائی ہوئی آواز میں وہ یوں بولا۔ ”جس کمرہ میں ہم گذشتہ شب سوئے تھے اس میں ضرور کسی شخص کا گذر ہوا ہے۔ سب بندوقیں غائب ہیں۔ یہ ہماری بندوقیں باقی ہیں اور نہ نو آبادی کے لوگوں کی۔“

لیونارڈ ”غضب ہو گیا بس اب بنائے نہیں بنتی لیکن فرانسسکو تم تو پہرہ دے رہے تھے۔“

فرانسسکو ”شاید دو چار منٹ کے لئے میری آنکھ لگ گئی ہو۔ ہائے اندھیرا ہو گیا۔ بندوقیں سب چل دیں اور ہم بے ہتھیار رہ گئے۔“

جوانا (غمناک لہجہ میں) ” کیا ہم فرار نہیں ہو سکتے؟“

لیونارڈ (افسردہ دلی سے) ”اسکی تو کوئی امید نہیں کہ ہم پر آج کل وہی مثل صادق آتی ہے۔

نہ جائے فتن نہ پائے ماندن

یہاں آلفن کے سوا ہمارا اور کوئی یار و مددگار نہیں اور اس کی طاقت بھی کچھ زیادہ نہیں کیونکہ کاہنوں نے اس کے کپتانوں اور سپاہیوں کو پھسلا دیا ہے۔ بھلا ایسی حالت میں ہم اس شہر سے کیسے نکل سکتے ہیں ۔اور اگر نکلے بھی تو اس کا حشر کیا ہو گا۔ ہتھیار ہمارے پاس نہیں ، جمیعت ہماری زیادہ نہیں ۔ اگر اس وقت ہم کچھ کر سکتے ہیں تو یہی کر سکتے ہیں کہ نا امید نہ ہوں اور خدا کی ذات پر بھروسہ کریں۔“

223

”خدا خود میر ساماں است ارباب توکل

جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ

مار برسر گنج است

انہوں نے نہایت ٹھیک کہا ہے اگرچہ اسی حالت میں بھی مجھے یقین ہے کہ اس مخمصہ میں سے نکل کر ہمیں انجام کار یہ خزانہ ملے گا۔“

لیونارڈ نے یہ جملہ ختم کیا تھا کہ پیچھے سے ایک طعن آمیز آواز یہ کہتی ہوئی سنائی دی ”نجات دھندہ! کیا تو ابھی تک سرخ پتھروں کت حاصل کرنے کا آرزو مند ہے۔ اس کا شاید تجھے خیال تک نہیں کہ تیرے دل کا خون ایک خاص پتھر کو جو یہاں سے کچھ دور نہیں عنقریب خود سرخ بنانے والا ہے۔ سچ ہے گورے آدمیوں کی حرص و آزر کی کوئی حد نہیں۔“

لیونارڈ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور اس کی نگاہ سوا پر پڑی جو ان کی گفتگو کو سن رہی تھی اور اس کی طرف نہایت نفرت اور حسد کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ سوا کے چہرہ پر ٹکٹکی جما کر لیونارڈ نے کہا ”کس کی اجازت سے تو ہماری باتیں سن رہی تھی اور کس نے تجھے کہا تھا کہ دخل در معقولات دے۔“

سوا (تند و تیز ہو کر) ”گورے آدمی ابھی تک تو تو بڑی خوشی سے میرے مشورے لیتا تھا۔ کون تھا جس نے تجھے اہلِ ظلمات کا قصہ سنایا۔ کون تھا جو اتنی تکلیفیں جھیل کر تجھے ان کے ملک میں لایا؟ کیا وہ شخص میں تھی یا کوئی دوسرا؟“

لیونارڈ ”افسوس تھی تو تو ہی۔“

سوا۔ ”غنیمت ہے کہ تو مان تو گیا۔ اے گورے میں تجھے یہاں اس لئے لائی کہ تو ایک چور کی طرح میرے ہم قوموں کے خزانہ کو چُرائے لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ راعیہ مالکہ نے مجھے اس پر مجبور کیا اور ان دنوں میں اس کی مرضی میری مرضی تھی۔ اس کی خاطر اور تیری خاطر میں جان ہتھیلی پر رکھ کر آئی اور مجھے کیا صلہ ملا۔ فقط اس قدر کہ مجھے میری مالکہ اپنے پاس آنے نہیں دیتی ۔ میرے ساتھ مہربانی سے پیش نہیں آتی۔ تو ہر وقت اس کے گرد و پیش پھرتا رہتا ہے۔ تیرے مشورے وہ نہایت اشتیاق کے ساتھ سنتی ہے۔ تو نے اس کا دِل میری طرف سے پھیر دیا ہے اور تو نے اور اس کالے سور نے جس کو دیوتا کہتے ہیں، میرے خلاف میری مالکہ کے کان ایسے بھرے ہیں کہ وہ اپنی کوئی راز کی بات

224

مجھ سے نہیں کہتی۔ اس کے علاوہ وہ تیرے عشق کا سبق سیکھ گئی ہے اور اسی لئے اسے چورا چکے اُٹھائی گیرے تیرے بہکانے پر اس کو مجھ سے نفرت کرنے کی حدیث بھی از بر ہو گئی ہے ۔“ (جوانا کی طرف مخاطب ہو کر) ”راعیہ سنو، تم خوب جانتی ہو کہ جب تم بچہ تھیں تو میں نے تمہیں کس محبت سے پالا۔ جب تم بڑی ہوئیں تو کس وفاداری سے میں نے تمہارا ساتھ دیا اور اگرچہ تم کو اس شخص کی خاطر مجھ سے تنفّر پیدا ہو گیا۔ پھر بھی مجھے ابھی تک تم سے ویسی ہی محبت ہے۔ اب تمہیں اختیار ہے یا تو اس کا ساتھ دو اور یا میرا دامن پکڑو۔ اگر مجھ پر اعتبار کرو گی اور نجات دھندہ کو کاہنوں کے حوالے کر دو گی تو میں تمہیں بچا لوں گی اور اگر اس سے جدائی اختیار کرنا نہیں چاہتیں تو میری محبت مبدل بہ نفرت ہو جائے گی اور تم سب کو ذلت و رسوائی کی موت نصیب ہو گی۔“ (لیونارڈ سے مخاطب ہو کر) ”گورے آدمی خبردار میں اس قوم کے لوگوں میں سے ہوں اور تو جانتا ہے کہ وہ کس طبیعت کے ہیں جب وہ نفرت اور عداوت پر آتے ہیں تو انتقام کے لئے کوئی نہ کوئی سبیل نکال لیتے ہیں۔“

اس وقت لیونارڈ نے چپکے سے اپنا خنجر طمنچہ نکالا اور اسے کل پر چڑھا کر سوا کے سینے کا نشانہ لیا۔ فرانسسکو اور جوانا نے اسے نشانہ کرتے ہوئے دیکھا اور دونوں اس کا ہاتھ روکنے کے لئے اس کی طرف جھپٹے اور جوانا نے اس سے کہا۔ ”خدایا خیر! یہ کیا کرتے ہو؟“

لیونارڈ ”قبل اس کے یہ عورت ہم سب کو مروا ڈالے میرا قصد یہ ہے کہ کود اسے مار ڈالوں۔“

جوانا ”خدا کے لئے ایسا نہ کرو۔ کئی سال سے وہ نہایت وفاداری کے ساتھ میری خدمت کرتی رہی ہے۔ مجھے یہ کسی طرح گوارا نہیں کہ میں اسے گولی کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھوں۔“

لیونارڈ ( پریشان اور مُضطرب ہو کر) ”اب کیا کیا جائے۔ اگر میں اسے نہیں مار ڈالتا تو وہ یقیناً ہمارا راز افشا کر دے گی۔“

فرانسسکو ”تو کرنے دو۔ خدا اپنے کلام پاک میں فرماتا ہے کہ قتل کے داغ سیاہ سے اپنے دامن کو آلودہ مت کرو۔“

سوا ت(تمسخر اور استہزا کے لہجہ میں ) ”گورے آدمی اگر تو ایک عورت کی جان لیتے ہوئے ڈرتا ہے تو اس اپنے کالے کتے کو بلا بھیج۔ اگر اس کے بس میں ہوت تو وہ میرے باپ کو مار ڈالتا۔ اور یہ کام بھی اسے بالطبع مرغوب ہو گا۔“

225

لیونارڈ ”اچھا فرانسسکو ایک رسا لے آؤ اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ ڈالو۔ اب ہمیں چاہیے کہ دن رات اس کی نگہبانی کریں تا کہ چھوٹ کر یہ اپنے لوگوں میں نہ جا ملے۔ جہاں اور خطرات کا سامنا تھا وہاں یہ ایک اور بھی سہی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب ہمارا انجام قریب آ چلا۔ مگر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے سے تو یہ بہتر ہے کہ مرتے دم تک ہاتھ پاؤں مارے جائیں۔“

فرانسسکو رسا لانے کے لئے گیا اوت تھوڑی دیر میں آٹر کو ہمراہ لئے واپس آیا۔ ایک مہینہ کی شراب خوری اور عیاشی بونے کے جسم کی فولادی بناوٹ پر بھی اثر ڈالے بغیر نہ رہی تھی۔ اس کی سیاہ چمکتی ہوئی آنکھوں میں خون کے سرخ ڈورے نظر آتے تھے۔ اس کے ہاتھ کانپتے تھے اور وہ لڑکھڑا کر چلتا تھا۔

لیونارڈ ”آٹر افسوس باوجود میری ہدایت کت تم شراب پئے جاتے ہو اور اس وقت ایسے بد مست ہو کہ سیدھی طرح نہیں چل سکتے۔ اچھا اب سنو۔ اس عورت نے ہم سے بدلہ لینے کی ہم کو دھمکی دی ہے اور اس لئے ہم اس کی مشکیں کس ڈالتے ہیں تاکہ اپنے لوگوں میں جا کر ہمارا راز فاش نہ کر سے۔ ہم پر ضروری ہے کہ اس کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں۔ دن بھر میں اور فرانسسکو پہرہ دیں گے اور رات کو تمہاری باری ہو گی۔ یہ شغل تمہیں شراب سے بھی باز رکھے گا۔“

آٹر ”میاں افسوس آپ میری حالت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ مفت میں مجھ پر الزام لگائے جاتے ہیں

درمیاں معر دریا تختہ بندم کردہ

باز میگوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش؟​

جس گرداب تشویر میں میں پھنسا ہوا ہوں اگر آپ اس میں مبتلا ہوں تب میں جانوں کہ آپ شراب پینے اور رہی سہی زندگی کا لطف اٹھانے سے کیسے محترز رہتے ہیں۔ بہت اچھا میں پھر بھی آپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا لیکن آپ اس نابکار بڑھیا کی مشکیں کیوں کستے ہیں۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ابھی اس بڑھیا گلا گھونٹے ڈالتا ہوں۔“

لیونارڈ ”راعیہ کی مرضی نہیں ہے کہ یہ عورت ماری جائے ۔“

آٹر ”اچھا میاں میں پھر کہوں گا۔ اگرچہ مناسب تو یہی تھا کہ اس کا اسی وقت کام تمام کر دیا جاتا کیونکہ اس طرح ہم کو کوئی کھٹکا نہ رہتا۔“
 

محمد عمر

لائبریرین
57

لیونارڈ ” سنو آٹر میری کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی جو میان مر گئے ہیں انہوں نے مرنے سے قبل ایک خواب دیکھا تھا۔ اس خواب میں انہیں یہ معلوم ہوا کہ مجھے دولت ملے گی اور ملے گی بھی ایک عورت کی مدد سے اور انہوں نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد میں کچھ دیر یہاں ٹھہرا رہوں۔ آٹر تم ایک ایسی قوم میں سے ہو جو خوابوں کی تعبیر کے علم میں ما ہر ہے اور جو ایک معتبر کی نسل سے ہے۔ اب تم مجھے بتاؤ کہ یہ خواب سچ تھا یا محض ایک بیمار شخص کی پریشانی خیالی تھی۔“

بونے نے جواب دیا۔ ”میان یقینی طور پر خواب کی تعبیر کون بتا سکتا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک سوچتا سہا اور پھر مٹی پر انگلی سے لکیریں کھینچے لگا اور اس کے بعد یوں بولا۔ ”میاں میں کہے دیتا ہوں کہ مرنے والے نے جو بات مرتے وقت کہی تھی وہ سچ ثابت ہو گی۔ اس نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو دولت ملے گی۔ یقین مانئے کہ یہ وعدہ سچ ہے اور کسی نہ کسی طرح آپ ضرور دولت حاصل کریں گے ۔ اور سمندر پار جو بڑی کرال ہے اس پر آپ کا قبضہ ہو گا اور غیروں کی اولاد کا اس پر تصرف نہ ہو گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مرنے والے حکم کی تعمیل کریں اور اس کے حکم کے مطابق کچھ عرصہ یہاں منتظر رہیں۔“

اس واقعہ کو سات روز گزر گئے اور ساتویں روز شب کے وقت لیونارڈ اور آٹر جبل القبر کی غار میں (کیونکہ اس مہلک مقام کو انہوں نے اسی نام سے موسوم کیا تھا) بیٹھے تھے۔ بات چیت انہوں نے آپس میں دیر کچھ نہ کی تھی اگرچہ ہر ایک اپنے اپنے سوچ میں پڑا ہوا تھا اور دونوں کے لئے اس سوچ میں پڑنے کی وجہ بھی موجود تھی ۔ دن بھر شکار کے پیچھے پھرتے رہے لیکن سوائے ایک تیتر کے انہوں نے اور کچھ نہ مارا۔ اس تیتر کا اکثر حصہ اس ابھی ابھی کھا چکے تھے اور ان کے کھانے کے لئے سوائے اس کے اور کوئی شے نہ تھی۔ معلوم ایسا ہوتا تھا کہ شکار اس نواح سے غائب ہو گیا ہے کم سے کم انہیں تو کچھ شکار نہ ملا تھا۔

لیونارڈ نے اپنے بھائی کے مرنے کے دن سے سونے کی جستجو اور کوشش کو چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ یہ کوشش محض بے سود تھی۔ اب اسے وقت کاٹنا بھی دو بھر معلوم ہونے لگا کیونکہ انسان دن بھر ہرنوں کی تلاش میں جو عنقا کا حکم رکھتے ہوں دشت پیمائی اور صحرا نوردی نہیں کر سکتا۔ کلفت اور تکدر نے اس کی روح میں بھی سرایت کرنا شروع کیا اور اپنے بھائی کی موت کا صدمہ اس دن کی نسبت جب کہ اس نے اسے دفن کیا تھا آج اُسے زیادہ محسوس ہوا۔ مزید براں پہلی ہی مرتبہ اس پر اس مہلک بخار کی علامتیں طاری ہوئیں کو اس کے تین ساتھیوں کو آغوشِ لحد میں سلا چکا تھا۔ اس کو بخوبی معلوم تها اس اضمحلال اور امتلا اور اس وجع شدید کا صحیح مفہوم کیا ہے جو وقتاً فوقتاً

58

اسے اپنے سر اور دوسرے اعضا میں محسوس ہوتا تھا۔ اسی طرح اس کے بھائی کی آخری بیماری کا ظہور ہوا تھا۔

وہ سوچا کہ کیا میری زندگی کا خاتمہ بھی اسی طرح پر ہو گا؟ اس کا تو اسے چنداں خیال نہ تھا ۔ اپنے انجام کی طرف سے وہ بالکل بے پروا تھا کیونکہ زندگی کی شدید جدوجہد نے روحانی شکوک کے جان گداز آلام میں گرفتار ہونے کی اُسے نہ تو فرصت تھی اور نہ رغبت ۔ لیکن بایں ہمہ اس کا تصور خوفناک تھا۔ اپنے بھائی کے سانحہ کو اپنی واہمہ کے نظر کے سامنے وہ اتنی بار لایا کہ خیال اس کے لئے بمنزلہ ایک حقیقت نفس الامری کے ہو گیا۔ اس نے اپنی تصور کی آنکھوں سے دیکھا کہ میں آخری مرتبہ اپنی جان کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں اور آٹر حسرت بھری نگاہ سے مجھے تک رہا ہے۔ اس کی واہمہ نے اس کے پردۂ نظر پر اس کے بود یہ تصویر کھینچی کہ بونا اسے اپنی آغوش میں لئے ہوئے ایک تین تنہا قبر کی طرف لئے جاتا ہے اور پھر مٹی دے کر ایک آہ سرد بھرتا ہے اور اس بخار زدہ مقام سے ہمیشہ کے لئے فرار ہو جاتا ہے۔ وہم و تصور کی منزل سے روانہ ہو کر لیونارڈ نے یوں استدلال شروع کیا کہ میں اس مقام پر بخار سے مرنے کے لئے کس واسطے ٹھہرا ہوا ہوں۔ کیا اپنے مرنے والے بھائی کی وصیت کی تعمیل کے خیال سے؟ کیا ایک وہم باطل اور سفیہانہ پیشین گوئی کو مدِّنظر کہنے کی غرض سے جسے ہر مہذب اور شائستہ آدمی حقارت کی نگاہ سے دیکھے گا؟

لیکن مشکل تو یہی تھی کہ اب وہ مہذب اور شائستہ ہرگز نہیں رہا تھا۔ قدرت کے ساتھ اور وحشیوں میں رہتے رہتے اُسے اتنا زمانہ ہو گیا تھا کہ قدرت نے اس پر ویسا ہی اثر ڈال دیا تھا جیسا کہ وہ وحشیوں پر ڈالتی ہے۔ اس کی شائستہ عقل سے بتائی تھی کہ توہمات کو یقین کی نگاہ سے دیکھنا حماقت ہے لیکن اس کی عقل حیوانی نے جواب اس پر غالب آتی جاتی تھی اسے کچھ اور بتایا تها۔ وہ معیارِ حیات کے طبقہ اخریٰ میں چلا گیا تھا اور اس کی حالت زمانہ قدیم کے انسانوں کی ہو گئی تھی اور اس کے قوائے مدرکہ و استباچیہ یا ارئٹک لوگوں کے سے ہو گئے تھے۔ یہ امر اس کے لئے تعجب انگیز نہ تھا کہ اس کے بھائی نے اپنے بسترِ مرگ پر پیشن گوئی کی ہو اور یہ بات اس کو عجیب نہ معلوم ہوتی تھی کہ وہ اس پیشن گوئی کو سچا مانے اور اس پر کاربند ہو باوجودیکہ وہ جانتا تھا کہ اس پیشن گوئی پر کاربند ہونے کا ہونے کا نتیجہ غالباً موت ہو گا۔

جو لوگ ایک عرصہ دراز تک قدرت کہ صحبت میں رہے ہیں وہ اس قسم کے احساسات سے ایک حد تک آگاہ ہوں گے کیونکہ انسان میں اور قدرت میں ہمیشہ باہمی مناقشہ رہا ہے اور ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو اپنے مقاصد و اغراض کے سانچہ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اس جدوجہد میں بازی انجام کار قدرت کے ہی

59

ہاتھ رہتی ہے۔ انسان بڑی لاف و گزاف کے ساتھ قدرت کو تمسخر کرنے اور اس کے بیم و رجا اور اس کے ذاتی اثرات پر غلبہ حاصل کرنے کا ہمیشہ دعویٰ پیش کرتا ہے لیکن اسے اپنے شہروں اور اپنے انبائے جنس سے ذرا جدا ہو کر قدرت کے ہمراہ کچھ عرصہ تک رہنے دو پھر دیکھیں اس کا تفوق اور غلبہ کہاں جاتا ہے۔ دایہ قدرت کی گودی میں وہ ایک طفلِ نو خیز کی طرف پھر جا لیٹتا ہے اور اس کے نفس ناطقہ کی نشوونما پذیر فتنہ توائے ادراکیہ دارتبناطیہ اسی طرح پر ضائع ہو جاتے ہیں جیسے کسی زمانہ میں چل کر اس کے تمام کام برباد ہو جائیں گے۔ جنگل کی گھاس اور بیابان کا ریت بابل کے مقابلہ میں زیادہ زبردست ہے کیونکہ اس سے قبل موجود تھے اور اس کے بعد بھی ان کا وجود ہے۔ یہی حال علی سبیل مدارج ہر ایک طبعی و اخلاقی شئے کا ہے کیونکہ کی قدرت کی ایسی دایہ ہے جس کی فرمانبرداری انسانوں کو جو اس کے بچے ہیں آخر کار کرنی ہی پڑتی ہے خواہ وہ کیسی ہی سرکشی کیوں نہ کریں۔

لیونارڈ ان سوچوں میں پڑا ہوا تھا۔ دونوں ہاتھ اس کے جیبوں میں تھے اور ایک خالی پائپ اس کے منہ میں تھا۔ پائپ میں تمباکو نہ تھا لیکن پھر بھی لیونارڈ شاید بتقاضائے عادت پئے جاتا تھا۔ آٹر اس تمام اثنا میں اس کی طرف نگاہ جمائے بیٹھا تھا۔ آخر کار بولا۔

”میاں آپ بیمار معلوم ہو تے ہیں۔“

لیونارڈ نے جواب دیا۔ ”نہیں بیمار تو نہیں ہوں کسی قدر کسلمند البتہ ہوں۔“ اس پر بونے نے کہا۔ ”میاں ہاں ابھی آپ کسی قدر بیمار ہیں آپ نے تو کوئی بات نہیں کی مگر مجھے آپ کی حالیت خوب معلوم ہے۔ بخار نے ابھی آپ کو اپنی انگلی سے چھوا ہے۔ رفتہ رفتہ پورے ہاتھ سے آپ کو پکڑ لے گا اور میاں تب۔“

”آٹر خداحافظ۔“

”میاں آپ کا تو خدا حافظ۔ میرا کیا حال ہو گا۔ میاں آپ سوچتے رہتے ہیں اور کام آپ کے پاس کرنے کو ہے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آہ کو بیماری نے آ لیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ ہم جا کر پھر کھدائی شروع کریں۔“

”آٹر! کھودنے سے کیا حاصل؟ کھدے کھدائے گڑھے موجود ہیں جو قبروں کا کام اچھی طرح دے سکتے ہیں۔“

”میاں آپ کیسا برا شگون نکالتے ہیں۔

مزن فال بد کا درد حال بد

اس سے یہی بہتر ہے کہ ہم یہاں سے چل دیں اور انتظار نہ کریں کیونکہ آپ کا ایسی باتیں کرنا گویا موت کا بلانا ہے۔“

اس کے بعد کچھ دیر تک خاموشی کا عالم رہا۔

60

تھوڑی دیر کے بعد لیونارڈ نے کہا۔ ”آٹر حق تو یہ ہے کہ ہم دونوں بیوقوف ہیں۔ ہمارے یہاں ٹھہرنے کا کیا نتیجہ ہے۔ نہ یہاں کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو۔ صرف بخار پر ہماری نظریں لگ رہی ہیں۔ ہم کو معلوم نہیں کہ آگے چل کر پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آئے لیکن اس کی کوئی پروا نہیں۔ بیوقوفوں اور داناؤں دو نوں کا انجام ایک ہی ہوتا ہے ارے میرے اللہ میرا سر درد سے پھٹا جاتا ہے۔ اور سخت گرمی ہے۔ کاش ہمارے پاس یہ کچھ اور کونین بچ رہی ہوتی۔ میں تو اب باہر جاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ بےقرار ہو کر اٹھا اور غار سے باہر نکلا۔

آٹر اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوا ۔ وہ خوب جانتا تھا کہا لیونارڈ اپنے بھائی کی قبر کی طرف جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ وہاں پہنچے۔ چونکہ چاند بادل میں چھپا ہوا اور ان کی نگاہ کام نہ کر سکتی تھی اس لئے وہ کچھ دیر تک منتظر رہے کہ بادل چاند سے ہٹے۔

وہ اس انتظار میں کھڑے ہوئے تھے کہ دفعتاً کسی کے رونے اور آہ و زاری کی آواز اس کے کان میں آئی۔ جس طرف سے آواز آئی تھی لیونارڈ نے اُدھر دیکھا اور آٹر سے پوچھا۔ ”یہ کیا ہے؟“

”آٹر نے جواب دیا ” مجھے کیا معلوم۔ شاید کوئی بھوت ہو گا یا کسی عورت کی آواز ہو گی جو اپنے مرے ہوئے عزیزوں کا ماتم کر رہی ہے؟“

لیونارڈ بولا۔ ”ماتم کرنے والا تو یہاں سوائے ہمارے اور کوئی نہیں۔ “ اور یہ بات اس کے منہ سے نکلی ہی تھی کہ ایک مرتبہ اور وہی نالہ و شیون کی صدا پھر بلند ہوئی ۔ اتنے میں بادل کی نقاب چاند کے چہرہ پر سے اٹھ گئی اور ماہتاب کا نور نہایت آب و تاب کے ساتھ چاروں طرف پھیل گیا اور اب ان کو معلوم ہوا کہ اس ویران مقام میں کون شخص گریہ و بکا کر رہا ہے کیونکہ ان سے بیس قدم کے فاصلہ پر ایک طویل القامت اور لاغر عورت ایک پتھر کے اور بیٹھی ہوئی رنج و یاس کے عالم میں کراہ رہی تھی۔

ایک کلمۂ تعجب کے ساتھ لیونارڈ اس کی طرف چلا اور بونا اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوا۔ وہ عورت اپنے رنج و غم میں اس درجہ ڈوبی ہوئی تھی کہ نہ اس نے انہیں دیکھا اور نہ ان کی آہٹ اُسے محسوس ہوئی حتیٰ کہ جب یہ اس کے پاس آ کر کھڑے ہوئے تب بھی اس نے ان پر نگاه نہ ڈالی کیونکہ وہ اپنے خود کو اپنے ہاتھوں سے جن میں بجز پوست اور استخوان کے اور کچھ باقی نہ تھا چھپائے ہوئے تھی۔ لیونارڈ نے حیرت کی نگاہ سے اس کو دیکھا۔ اس کی عمر عہد کہولت سے متجاوز ہو چکی تھی لیکن لیونارڈ اس کے انداز سے یہ معلوم کر سکتا تھا کہ جوانی کے عالم میں وہ حسین ہو گی اور ایک ایسی عورت ہونے کے اعتبار سے اس کی رنگت نہایت صحیح تھی ۔ اس کے بال ان کے سے نہیں تھے بلکہ

61

گھنے اور پیچدار اور بھوری رنگت کے تھے۔ اور اس کے ہاتھ پاؤں نازک اور خوش شکل تھے۔ اس وقت اس عورت کی شکل و شباہت کو وہ بالکل دریافت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا اور ایک پھٹا پرانا کمبل وہ جسم پر اوڑھے ہوئے تھی۔“

لیونارڈ نے سسوٹو بولی میں اس سے خطاب کیا۔ ”اسے نیک بخت تجھ پر کیا مصیبت گذری ہے جو تو یہاں اکیلی بیٹھی ہوئی روتی ہے۔“

اجنبی عورت نے اپنے ہاتھ منہ پر سے ہٹائے اور ایک ندائے خوف کے ساتھ دفعۃً زمین سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اب اتفاق ایسا ہوا کہ پہلی نگاہ اس کی آٹر بولنے پر جو اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا پڑی۔ بونے کو دیکھتے ہی جو کلمہ کہ اس کے منہ سے نکلنے والا تھا وه وہیں کا و ہیں رہ گیا اور اس کی پچکی ہوئی گالوں اور صاف نقش والے چہرہ اور سیاه آنکھوں کی حالت ایسی ہو گئی جیسے کہ بلا کے خوف و ہیبت کے طاری ہو جانے سے ہوتی ہے۔ فرطِ خوف سے اس کی وضع کچھ ایسی ہو گئی تھی کہ بونا اور اس کا آقا دونوں بالکل نہیں بولے اور خاموشی کے ساتھ اس امر کے متوقع رہے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ آخر خار اس مہر سکوت کو اس عورت نے توڑا اور باہستگی ایک ایسے لہجہ میں جس سے خوف اور تعبد مترشح ہوتا تھا وہ سجدہ میں جا کر آٹر سے مخاطب ہو کر بولی ۔

”اے کہ جو کا نام ظلمت ہے اور جس کے حبالہ عقد میں آئی تھی اور جس کے پاس سے میں اپنی جوانی کے دنوں میں بھاگ آئی تھی کیا تو آخر کار مجھے لینے کے لئے دنیا میں آگیا ہے؟ اے شب تاریک کے مالک اور اے قہر و عذاب کے شہنشاہ کیا میں تجھ کو مجسم آنکھ سے دیکھتی ہوں اور کیا یہ تیرا کاہن ہے؟ کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں یا بیداری کے عالم میں ہوں ۔ نہیں نہیں میں خواب نہیں دیکھ رہی ہوں۔ اے کاہن مجھے قتل کر ڈال تا کہ میرا خون میرے مصیبت کے داغ کو دھو ڈالے۔“

آٹر ۔ ”معلوم ہوتا ہے کہ یہ عورت پگلی ہے۔“

عورت۔ ”اے جال میں پگلی نہیں ہوں البتہ کچھ عرصہ سے میری حالت ایسی ہی ہے کہ اگر مجھے جنوں ہو جاتا تو مقامِ تعجب نہ تھا۔“

آٹر (برہم ہو کر) ” نہ میرا نام جال ہے اور نہ ظلمت۔ ان بے وقوفی کی باتوں کو چھوڑ کر اور اس سفید رنگت والے سردار کو بتا کہ تو کہاں سے آئی ہے۔ مجھے تیری یہ بہکی باتیں پسند نہیں۔“

عورت ”اے ہستی ظلمانی اگر تو جال نہیں ہے تو نہایت تعجب کا مقام ہے کیوں کہ جو شکل جال کی ہے

62

وہی تیری ہے۔ لیکن شاید یہ جسمانی اوتار لے کر دنیا میں نازل ہونے سے تو اپنے آپ کو مجھ پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا ۔ خیر جو تیری مرضی وہی سہی۔ اگر جال نہیں ہے تو میں تیرے انتقام سے محفوظ ہوں اور اگر تو جال ہے تو میں تجھ سے بمنت التجا کرتی ہوں کہ میری جوانی کی خطاؤں سے درگزر کر اور میری جان بخشی کر۔“

لیونارڈ۔ ( حیرت زدہ ہو کر) ”یہ جال کون ہے؟“

عورت (دفعتاً انجان بن کر ) ”مجھے کیا معلوم! میں بھوکی اور تھکی تھی۔ اس لئے میرے منہ سے بہکی بہکی باتیں نکلیں۔ ان باتوں کو فراموش کرو اور مجھے کچھ کھانے کو دو کیونکہ مارے فاقوں کے میں جاں بلب ہو رہی ہوں۔“

لیونارڈ ”کھانا تو ہمارے پاس کم ہے مگر جو کچھ ہے وہ حاضر ہے۔ اے نیک بخت میرے ساتھ چل ۔“ یہ کہہ کر وہ غار کی طرف روانہ ہوا اور اجنبی عورت اس کے پیچھے ضعف سے لڑکھڑاتی ہوئی ہو لی۔ وہاں پہنچ کر آٹر نے اسے کھانے کو گوشت دیا اور وہ اس پر اس طرح سے گری جیسے کوئی فاقہ زدہ شخص جسے ایک مدّت سے کچھ کھانے کو نہ ملا ہو،۔ جس اس نے کھانے سے فراغت پائی تو لیونارڈ پر اپنی تیز سیاہ آنکھیں جما کر بولی۔

”اے سفید رنگت والے سردار! کیا تم بھی بردہ فروش ہو؟“

لیونارڈ۔ ” نہیں میں خود ایک غلام ہوں۔“

اجنبی عورت ”پھر تمہارا مالک کون ہے۔ کیا ہی ہستی ظلمانی ہے؟“

لیونارڈ۔ ”وہ غلامانِ غلام ہے۔ میرا کوئی مالک نہیں البتہ ایک مالک ہے جس کا نام قسمت ہے۔“

عورت ”سب سے بری مالکہ ہے اور سب اسے اچھی بھی ہے کیونکہ اس کی ہمیشہ سے یہ عادت ہے کہ ادھر ماتھے پر تیوری چڑھاتی ہے اور ادھر مسکرا دیتی ہے اور اپنے خادموں کو ادھر تازیانے لگاتی ہے اور اُدھر ان کا منہ چوم لیتی ہے۔“

لیونارڈ (غمزدہ آواز میں) ” تازیانے تو میں نے خو ب خوب کھائے ہیں لیکن لیکن برسوں کی لذّت سے ہنوز آشنا ہوں۔“

اس کے بعد ایک بدلے ہوئے لہجے میں اس نے کہا۔ ” اے نیک بخت! تو یہاں کیسے آئی؟ تیرا کیا نام ہے؟ اور اِن پہاڑوں اور جنگلوں میں تو اکیلی کس واسطے پھر رہی ہے؟“

عورت ”میرا نام سوا ہے اور میں ایک ایسے شخص کے لئے امداد بہم پہچانے کی جستجو بہترین میں پھر رہی ہوں جس سے مجھے محبت ہے اور جو سخت مصیبت میں مبتلا ہے۔ اے میرے سردار کیا آپ میری سرگزشت سنیں گے۔“

لیونارڈ ”سنا“

اس پر عورت اس کے سامنے بیٹھ گئی اور اپنا قصہ اس طرح شروع کیا۔

63

باب ششم

سوا کی داستان

اے میرے سردار میرا نام سوا ہے اور میں ایک گورے آدمی کی خادمہ ہوں جو ایک تاجر ہے اور یہاں سے چاروں کی راہ پر دریائے زمبزی کے کنارے رہتا ہے اور وہاں اس کا ایک مکان ہے جو کئی سال ہوئے اس نے تعمیر کیا تھا۔“

لیونارڈ نے پوچھا کہ ”اس گورے آدمی کا نام کیا ہے؟“

سوا نے جواب دیا ”کالے لوگ تو اُسے ماووم کہتے ہیں لیکن اس کا اصلی نام راڈ ہے ۔ وہ اپنے نوکروں سے نہایت اچھی طرح پیش آتا ہے اور کوئی معمولی درجہ کا آدمی نہیں۔ لیکن ایک بُرائی اس میں یہ ہے کہ بعض دفعہ وہ اتنی شراب پیتا ہے کہ مدہوش ہو جاتا ہے۔ بیس سال کا عرصہ ہوا ہے کہ ماووم نے ایک نہایت حسینہ و جمیلہ عورت سے جو قوم پرتگیز سے تھی اور جس کا باپ خلیج ڈیلیلگو میں رہتا تھا شادی کی۔ اس کے بعد اس نے دریا زمبزی کے کنارے سکونت اختیار کر لی اور تجارت کے کام میں مصروف ہوا اور وہاں ایک مکان بنایا جس کے اب کھنڈر باقی رہ گئے ہیں۔ اس مکان میں اس کی بی بی کی زچگی ہوئی اور بچہ پیدا ہونے کے ساتھ ہی وہ مر گی۔ دم اس کا میری آغوش میں نکلا اور میں نے ہی اس کی بیٹی جوانا کی پرورش کی اور اب تک اس کو پالا۔

بی بی کے مر جانے سے ماووم کو شراب کی اور زیادہ چاٹ لگ گئی اور وہ اکثر مخمور رہنے لگا تاہم جب وہ شراب کے نشہ میں نہیں ہوتا تو نہایت معاملہ فہم اور زیرک ہوتا ہے اور متعدد بار اس نے ہاتھی دانت اور ربر اور سونا ایک معتدبہ مقدار میں جمع کیا ہے جس سے اس کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ اس ہوشی کی حالت میں وہ کہا کرتا ہے کہ میں ایک دوسرے ملک میں جو سمندر پار ہے اس ویرانہ کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ اس ملک کا نام میں نہیں جانتی لیکن یہ ملک ہے جہاں سے انگریز آتے ہیں۔

دو دفعہ وہ وطن کی جانب روانہ ہوا اور اس کی بیٹی جوانا جو میری مالکہ ہے اور جسے کالے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسے مینہ کے متعلق پیشین گوئی کرنے کی قدرت حاصل ہے راعیہ فلک کے نام سے پکارتے ہیں اس کے ہمراہ تھے لیکن

64

ایک دفعہ تو ماووم شہر ڈربن واقعہ ملک ناٹال میں ٹھہر گیا اور وہاں شراب پی کر ایک مہینہ میں تمام اپنا روپیہ اس نے جوئے میں اُڑا دیا۔ اور ایک دفعہ اس کی دولت غرق دریا ہو گئی کیونکہ جس کشتی میں اس کا ہاتھی دانت اور سونا بھرا تھا وہ الٹ کر ڈوب گئی۔ اس کے بعد ماووم نے اپنی بیٹی کو ڈربن بھیج چیا جہاں وہ تین سال تک رہی اور اس عرصہ میں اس نے وہاں وہ باتیں سیکھی جن کی گوری عورتوں کو واقفیت ہوتی ہے کیونکہ زیرکہ اور فہمیہ ہے اور اس جیسی وہ حسین ہے ویسی ہی دانشمند بھی ہے۔ تین سال کے گذرنے پر وہ اپنے گھر کو واپس چلی آئی اور اسے آئے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں ۔

ایک مہینہ ہونے کو آتا ہے کہ راعیہ میری مالکہ نے اپنے والد ماووم سے کہا کہ میرا جی اب ویرانہ سے بیزار ہو گیا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اپنے وطن کو جو سمندر پار ہے سدھاریں۔“ ماووم نے اس بات کو توجہ سے سنا کیونکہ اُسے اپنی بیٹی سے محبت ہے اور اس سے اقرار کہا کہ ہم ضرور اپنے وطن کو چلیں گے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ وطن جانے سے پہلے میں ایک مقام پر جو دریا کے کنارہ ہے جا کر ہاتھی دانت کی ایک مقدار کثیر جو سستی دستیاب ہوتی ہے خریدنا چاہتا ہوں۔ میری مالکہ اس صلاح کے مخالف تھی۔ اس نے کہا۔

ہمیں فوراً وطن روانہ ہو جانا چاہیئے۔ دولت ہمارے پاس کافی موجود ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ناٹال جا کر وہاں سے جہاز میں سوار ہو جائیں ورنہ ممکن ہے کہ پھر کچھ مواقع ہمارے ارادوں کی سد راہ ہو جائیں۔

لیکن ماووم نے ایک نہ سنی کیونکہ وہ ایک ضدی شخص ہے دوسرے ہی دن وہ علی الصبح ہاتھی دانت کی تلاش میں روانہ ہوا اور خاتون جوانا اس کی بیٹی رونے لگی کیونکہ اگرچہ وہ دلیر اور نڈر ہے تاہم ئی مناسب نہ تھا کہ اس کا باپ اس طرح اسے اکیلی چھوڑ جائے علاوہ اس کے وہ اپنے باپ سے جدا رہنا بھی نہیں چاہتی کیونکہ جب وہ پاس نہیں ہوتی تو ایسی حالت میں اس کا باپ کثرت مہ نوشی کے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔

ماووم کو گئے ہوئے باون دن کا عرصہ گذر گیا اور میں اور راعیہ میری مالکہ کے انتظار میں چشم براہ تھی۔ میری مالکہ کی عادت ہے کہ کپڑے پہننے کے بعد ہر روز صبح کے وقت ایک خاص مقدس کتاب کو پڑھا کرتی ہے جس میں اس بڑے پروردگار کے قانون اور احکام لکھے ہیں جس کی وہ پرستش کرتی ہے۔ تیرہویں دن صبح کے وقت وہ مکان کے برآمدہ میں بیٹھی ہوئی اپنی عادت کے موافق اس کتاب کو پڑھ رہی تھی اور میں کھانا پکا رہی تھی۔ دفعتاً میں نے ایک ہنگامی کا شور اور باغ کی دیوار پر سے جو مکان کے بائیں جانب سے میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ جن میں سے بعض گورے اور بعض عرب اور بعض دوغلے ہیں مکان کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک

65

شخص سوار ہے اور باقی پا پیادہ ہیں اور ان کے پیچھے غلاموں کی ایک بڑی قطار ہے جن کی گردنوں میں طوق غلامی پڑے ہوئے ہیں ۔

ان لوگوں نے آتے ہی ہمارے علاقہ کے آدمیوں پر بندوقیں سر کیں جس سے وہ تتر بتر ہو کر چاروں طرف فرار ہو نے لگے۔ چند آدم گولی کھا کر گر پڑے اور کئی انہوں نے گرفتار کر لیے لیکن جو باقی تھے وہ بھاگ گئے کیونکہ وہ نو آبادی کے کھیتوں میں کام کر رہے تھے اور انہوں نے بردو فروشوں کو آتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

جب میں خوف زدہ ہو کر اس ہنگامہ کو دیکھ رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ راعیہ میری مالکہ بھاگ کر اس دیوار کی طرف آ رہی ہے جس کے پیچھے میں کھڑی تھی اور جس کتاب کو وہ پڑھ رہی تھی وہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن جب وہ دیوار کے قریب آ پہنچی تو شخص خچر پر سوار تھا اس نے آ لیا اور وہ پھر کر اس کی جانب متوجہ ہوئی اور اپنی پشت کو دیوار سے لگایا۔ اس پر میں پیچھے کو دبک گئی اور کیلے کے پتوں میں اپنے تئیں چھپا کر دیوار کی ایک درز میں سے دیکھنے لگی کہ کیا ہوتا ہے۔

جو شخص خچر پر سوار تھا وہ سال خوردہ اور فربہ تھا۔ اس کے بال سفید تھے اور اس کے چہرہ پر جس کی رنگت زرد تھی جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ میں اسے فوراً پہچان لیا کیونکہ میں نے اس کا ذکر پہلے اکثر سنا تھا ۔ اس نواح میں وہ کئی سال سے لوگوں کے لئے بلائے بے درماں بن رہا ہے ویسے لوگوں نے اس کا پرتگالی نام پریرا ہے اور وہ ایک مخفی مقام میں جو دریائے زمبزی کے منبع کے قریب واقع ہے رہتا ہے۔ اس مقام پر وہ غلاموں کو جمع کرتا ہے اور بردہ فروش لوگ سال میں دو مر تبہ کشتیوں میں یہاں آتے ہیں تاکہ غلاموں کو بازار میں لے جا کر فروخت کریں۔

اس شخص نے میری مالکہ کی طرف جو خوف زدہ ہو کر دیوار سے پشت لگائے کھڑی تھی دیکھا اور قہقہہ مار کر پرتگالی زبان میں بآواز بلند کہنے لگا شکار تو ہمیں خوب ہاتھ لگا ۔ یہی ہے وہ جوانا جس کے حسن کی تعریف میں نے اکثر سنی ہے۔ جانِ من تمہارا باپ کہاں ہے؟ مجھے یہ بات خوب معلوم تھی ورنہ شاید مجھے یہاں آنے کی جرات نہ ہوتی ۔ لیکن یہ اس نے غلطی کی کہ ایسے حسن کے خزانہ کو یہاں بغیر حفاظت کے چھوڑ کر چلا گیا۔ بہرحال وہ اپنے کام میں مصروف ہے اور ہم کو اپنے کام میں مشغول ہونا چاہئے۔ کیونکہ میں بھی سوداگر ہوں اور کالے پر والی چڑیوں کی تجارت کرتا ہوں۔ سفید پروں والی چڑیا ذرا میرے ہاتھ کم لگتی ہے اور جب لگتی ہے تو مجھ پر لازم ہے میں اس سے پورا فائدہ اٹھاؤں۔ ہمارے علاقہ میں بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو تمہاری ان آنکھوں پر خوب بڑھ چڑھ کر بولی بولیں گے۔ میری پیاری

66

ڈر مت میں تیرے لیے جلد خاوند تلاش کر دوں گا۔

اے گورے آدمی راعیہ میری مالکہ دیوار سے پشت لگائے خوف زدہ نگاہ سے پیلے بھُتنے کی طرف ٹکٹکی باندھے کھڑی تھی اور جب پیلے بھُتنے نے یہ باتیں کیں تو اس کے ملازم بُرده فروش اس کی ان بری باتوں کو سن کر قہقہہ مار کر ہنسے۔ تھوڑی دیر میں میری مالکہ اس ماجرے کی کیفیت سمجھ گئی اور میں نے دیکھا کہ اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اپنے سر کی جانب بڑھایا۔ اس وقت میں اس کا مطلب تاڑ گئی۔

اے گورے آدمی میں ایک نہایت مہلک زہر کے راز سے واقف ہوں اور یہ راز مدّت ہوئی کہ میں نے اپنی مالکہ کو بتا دیا تھا۔ یہ زہر اس درجہ مہلک ہے کہ ایک خشخاش کے دانہ کے برابر بھی اگر آدمی اسے کھا جائے تو مر جائے۔ اس زہر کو اس کی خفیف مقدار میں زبان پر رکھتے ہی کام تمام ہو جاتا ہے۔ چونکہ میری مالکہ ویرانہ میں تنہا رہتی ہے لہٰذا وہ اس زہر کی تھوڑی سی مقدار کو ہر وقت اپنے بالوں میں چھپائے رکھتی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا وقت آ جائے کہ اسے اس زہر کے استعمال سے اپنے تئیں ایسی مصیبت سے بچانا پڑے موت سے بھی بد تر ہے۔ اسے اس وقت یہ خیال ہوا کہ وہ ساعت آ پہنچی ہے اور میں جان گئی کہ اب وہ بالوں میں سے زہر نکالنا چاہتی ہے۔ اس کے اس ارادہ سے خائف ہو کر میں دیوار سے اس کے کان میں آہستہ سے ایک قدیم بولی میں جو میں نے اسے سکھا رکھی ہے اور جو میری قوم کے لوگوں کی زبان ہے یوں کہا۔ ”راعیہ خبردار! اپنے ہاتھ کو روک! جب تک سانس ہے اس وقت تک آس ہے لیکن موت سے رستگاری نہیں ہو سکتی۔ جب تم جانو کہ اب کوئی امید نہیں رہی تب زہر کھا لینا ۔

اس نے میری بات کو سنا اور وہ میرا مطلب سمجھ گئی کیونکہ اس نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی اور ہاتھ کو سر سے ہٹا لیا۔ اس کے بعد پریرا کہنے لگا۔۔۔ کہ اب اگر تم تیار ہو تو ہم یہاں سے روانہ ہوں کیونکہ میرا قلعہ جو ساحل پر واقع ہے یہاں سے آٹھ دن کی راہ پر ہے اور کسے معلوم ہے کہ کشتیاں میرے حبشی غلاموں کو لینے کے لئے کب آ جائیں۔ میری پیاری روانہ ہونے سے پیشتر انہیں کچھ کہنا ہے تو کہہ لو۔

میرے مالکہ نے اب پہلی مرتبہ مہر سکوت کو توڑا اور پیلے بھُتنے کو یہ جواب دیا ”اگرچہ اس وقت میں تمہارے قابو میں ہوں مگر مجھے تمہارا ذرا سا ڈر نہیں۔ جب میں چاہوں گی تمہارے پنجہ سے چھوٹ جاؤں گی۔ مگر یہ میں تم سے کہتے دیتی ہوں کہ تمہاری خباثت انجام کار تمہیں موت کا منہ دکھائے گی۔ یہ کہہ کر اس نے ان آدمیوں کی لاشوں کی طرف جن کو بردہ فروش ابھی قتل کر چکے تھے اور ان قیدیوں کی جن کی مشکیں کسی جا رہیں تھیں حسرت آلود نگاہ ڈالی اور پھر جب اپنے مکان کی طرف نظر اٹھائی تو دھواں اٹھتا دکھائی دیا کیونکہ بردہ فروشوں نے مکان کے چھت کو آگ
 
Top