لاريب اخلاص
لائبریرین
173
لیکن اب پلٹنے کا وقت نہ رہا تھا اور یہ سوچ کر وہ بول اٹھا
ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم
انیسواں باب
منزل مقصود
ایک گھنٹہ کے بعد وہ اس قدرتی دیوار پر جو ان کے سد راہ تھی چڑھنے لگے۔ اس عمود دار پہاڑ پر جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں نہ آتا تھا۔ کوئی پگڈنڈی ایسی نہ تھی جسے انسان کے قدموں نے بنایا ہو کیوں کہ جو لوگ پہاڑ کے دوسری طرف رہتے تھے وہ کبھی اس طرف کو نہ آئے تھے سوا البتہ ایک دفعہ یہاں سے گزری تھی مگر اسے بھی سالہا سال کی مدت گزر چکی تھی۔ چڑھائی میں انھیں سخت دقت پیش آئی وہ ہانپ ہانپ گئے جڑی بوٹیوں کو پکڑ پکڑ کر چڑھنے سے ان کے ہاتھ مجروح ہو گئے مگر آخر کار وہ بصد مشکل شام کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ وہیں شب باش ہوئے اور جو گوشت ان کے پاس بچا ہوا تھا اسی پر اکتفا کیا۔
رات نہایت بے مزگی سے کٹی۔ سردی اس قدر تھی کہ اس کی تاب لانا مشکل تھا خصوصاً نو آبادی کے لوگ اور فرانسسکو تو مارے جاڑا کے کانپ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی دھند اور کہر نے ایک سماں باندھ رکھا تھا۔۔۔(غیر واضح لفظ) ادھر ادھر سے سر کنڈے جمع کر کے آگ سلگائی اور ماحضر پر اکتفا کر کے لگے انتظار کرنے کہ مطلع کب صاف ہوگا۔ مگر یہاں کی آب و ہوا ایسی نہ تھی کہ مطلع کے جلد صاف ہونے کی توقع ہو سکے۔
آخر کار وہ سوا کی رہنمائی سے جوں توں کر کے پہاڑ کے دوسری طرف نیچے اترے۔ زمین اب انہیں ہموار ملی۔ کہیں کہیں سنگ مرمر کی چٹانیں نظر آ جاتی تھیں باقی ہر طرف سبزہ زار تھا۔
لیکن اب پلٹنے کا وقت نہ رہا تھا اور یہ سوچ کر وہ بول اٹھا
ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم
انیسواں باب
منزل مقصود
ایک گھنٹہ کے بعد وہ اس قدرتی دیوار پر جو ان کے سد راہ تھی چڑھنے لگے۔ اس عمود دار پہاڑ پر جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں نہ آتا تھا۔ کوئی پگڈنڈی ایسی نہ تھی جسے انسان کے قدموں نے بنایا ہو کیوں کہ جو لوگ پہاڑ کے دوسری طرف رہتے تھے وہ کبھی اس طرف کو نہ آئے تھے سوا البتہ ایک دفعہ یہاں سے گزری تھی مگر اسے بھی سالہا سال کی مدت گزر چکی تھی۔ چڑھائی میں انھیں سخت دقت پیش آئی وہ ہانپ ہانپ گئے جڑی بوٹیوں کو پکڑ پکڑ کر چڑھنے سے ان کے ہاتھ مجروح ہو گئے مگر آخر کار وہ بصد مشکل شام کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ وہیں شب باش ہوئے اور جو گوشت ان کے پاس بچا ہوا تھا اسی پر اکتفا کیا۔
رات نہایت بے مزگی سے کٹی۔ سردی اس قدر تھی کہ اس کی تاب لانا مشکل تھا خصوصاً نو آبادی کے لوگ اور فرانسسکو تو مارے جاڑا کے کانپ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی دھند اور کہر نے ایک سماں باندھ رکھا تھا۔۔۔(غیر واضح لفظ) ادھر ادھر سے سر کنڈے جمع کر کے آگ سلگائی اور ماحضر پر اکتفا کر کے لگے انتظار کرنے کہ مطلع کب صاف ہوگا۔ مگر یہاں کی آب و ہوا ایسی نہ تھی کہ مطلع کے جلد صاف ہونے کی توقع ہو سکے۔
آخر کار وہ سوا کی رہنمائی سے جوں توں کر کے پہاڑ کے دوسری طرف نیچے اترے۔ زمین اب انہیں ہموار ملی۔ کہیں کہیں سنگ مرمر کی چٹانیں نظر آ جاتی تھیں باقی ہر طرف سبزہ زار تھا۔