صفحہ 276
بےچارے فرانسسکو مرحوم نے مجھ سے مرتے دم کہا تھا کہ یہ میری طرف سے راعیہ کو دے دینا۔“
یہ کہہ کر اس نے تسبیح اور روزنامچہ جوانا کو دے دیا اور کہنے لگا ”اس نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ تم اس تسبیح کو بطور یادگار اپنے پاس رکھنا اور جب کبھی دعا مانگو تو اس کے لئے مغفرت مانگنا۔“
جوانا نے روزنامچہ لے کر کھولا۔ پہلے اس نے اپنا نام دیکھا کیوں کہ اس روزنامچہ میں پادری فرانسسکو نے اس وقت سے جب کہ جوانا کے ساتھ اس کی پہلی ملاقات ہوئی اپنے دلی جذبات کی اور اس جدوجہد کی کیفیت درج کر رکھی تھی جو ان جذبات کو روکنے کے لیے اس نے پیہم کی تھیں۔ جوانا ورقوں کو جلدی سے الٹی چلی گئی۔ آخری صفحہ پر اس کی نگاہ اس تحریر پر پڑی جو فرانسسکو نے مرتے وقت جوانا کو لکھی تھی۔ وہ تحریر یہ تھی۔
”خاتون عصمت و ثار و عفت شعار۔ آپ کو رفتہ رفتہ معلوم کو جائے گا کہ مجھے کس بات نے یہ الفاظ قلم بند کرنے پر آمادہ کیا ہے اگر آپ اس روزنامچہ کے صفحات کو غور سے پڑھیں گی تو آپ کہیں گی کہ فرانسسکو ضبط نفس پر کافی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن آپ اس بات کو فراموش کہ کریں کہ اگرچہ میں پادری ہوں مگر پھر بھی انسان ہوں۔ اور محبت کا مادہ مجھ میں کسی قدر موجود ہے۔ میں نے بارہا چاہا کہ اپنے دل کو روکوں اور آپ کی محبت کے آنچل کو پکڑنے سے باز رہوں مگر نہ ہو سکا۔ اور
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اگرچہ میں اپنے اس گناہ سے شرمندہ ہوں اور خود اپنے آپ کو کبھی بے قصور نہیں ٹھہراؤں گا مگر مجھے امید ہے کہ جہاں میرے ہزاروں گناہ خدائے کریم بخش دے گا وہاں آپ بھی میرا یہ گناہ بخشیں گی۔ اب آپ اس شریف النسل اور شریف الطبع آدمی کے ساتھ جسے آپ سے سچی محبت ہے، مسرت اور راحت کی زندگی بسر کریں۔ میں آپ کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ آپ پر اور آپ کے چاہنے والوں پر آسمان سے برکت نازل ہو۔ اور آپ مصائب و تکالیف سے مامون و مصئون رہیں۔ جب کبھی آپ یاد کریں تو میرا نام لے کر کہیں کہ محبت ہو تو ایسی ہو کہ جان دینی پڑے تو اپنے دوستوں سے دریغ نہ کرے۔ اب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔ دوسری دنیا میں آپ سے ملاقات ہو گی۔ الوداع۔“
جوانا نے اس تحریر کو ایک ایسی حیرت سے جو مبدم ترقی پر تھی بڑھا اور جب وہ پڑھ چکی تو اس نے روزنامچہ کو نیچے رکھ دیا اور پکار اٹھی۔ ”آہ مجھ میں کون سی خوبی ہے کہ ایسے شریف النفس لوگ میرے
صفحہ 277
اوپر جان نثار کرتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور وہ زار قطار رونے لگی۔
جب اس کا رونا بند ہوا تو لیونارڈ نے آہ بھر کر کہا۔ ”افسوس دنیا میں سے ایک نہایت نیک آدمی اٹھ گیا۔ جوانا ہم اس قابل نہ تھے کہ وہ ہماری صحبت میں رہتا۔“
اس وقت دستک کی آواز سنائی دی اور جب لیونارڈ نے دروازہ کھولا تو نام اور سوا اندر داخل ہوئے۔
نام (جس کے چہرے سے تذبذب اور خوف مترشح تھا( ”اے نجات دھندہ اور اے راعیہ میں تم سے کچھ کہنے کے لئے آیا ہوں۔ دیکھو میں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر تمہیں بچایا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ گورا آدمی جو تمہارا ہمراہی تھا راعیہ کے بجائے قربانی چڑھا۔“
لیونارڈ (قطع کلام کر کے) ”کیا گرا دیا گیا؟“
لیونارڈ کے سوال کو جوانا نے ترجمہ کر کے نام کو سنایا۔
نام۔ ”ان میں تم سے کوئی بات چھپا تو نہیں سکتا۔ ہم کو ایک دوسرے کی حقیقت خوب معلوم ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ گورا آدمی جو تمہارے ہمراہیوں میں سے تھا واقعی قربانی چڑھا دیا گیا ہے۔ جس وقت اس کے بت پر سے گرائے جانے کا وقت نزدیک تھا تو اس کو خوف سے لرزہ آ گیا اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر میں حیران ہوں کہ وہ بونا کس بلا کا آدمی تھا کہ اس نے اتنا انتظار نہ کیا کہ کوئی شخص اس کو گرائے بلکہ خودبخود خلا میں کود پڑا اور ایک شخص کو بھی جو میرے کاہنوں میں سے تھا ساتھ ہی لے گیا۔“
لیونارڈ (بلند آواز سے) ”شاباش آٹر شاباش! میں جانتا تھا کہ تو مرے گا بھی تو ایک انداز سے۔“
نام ”اے نجات دھندہ! واقعی اس بونے نے کمال کر دیا۔ اس وقت تک بہت سے لوگ قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ انسان نہیں تھا بلکہ دیوتا تھا۔“
لیونارڈ ”قسمیں کھاتے ہیں؟“
نام ”ہاں کیونکر نہ کھائیں؟ بعد میں جب دکھا کہ بونا اتنی بلندی پر سے گرنے کے بعد بھی زندہ ہے اور سانپ کے پیچھے پیچھے جو تمہارے گورے ہمراہی کی لاش کو منہ میں دبائے غار کی طرف جا رہا تھا تیر رہا ہے تو لوگ حیران اور ہکّا بکّا رہ گئے۔ گو اس امر کی وجہ کوئی شخص نہیں بتا سکتا کہ انسان ہو کر سانپ کے پیچھے پیچھے تیرنے کی ہمّت اس کو کیونکر پڑی۔“
صفحہ 278
لیونارڈ (بآوازِ بلند) ”شاباش! اچھا نتیجہ کیا نکلا؟“
نام ”اے نجات دھندہ! اس بات کا علم کسی کو نہیں ہاں یہ دیکھا گیا تھا کہ سانپ نے پانی میں غوطہ مارا اور بونا بھی اس کے ساتھ ہی پانی کے اندر چلا گیا۔ اس کے بعد سانپ نے تو غار کے پاس جا کر سر نکالا اور اس میں گھس گیا مگر بونا نہیں معلوم کہاں گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ غار میں بھی گیا اور بعض کی یہ رائے ہے کہ وہ نہیں گیا۔“
لیونارڈ ”مرے یا جئے مگر آٹر ایک دفعہ تو سانپ سے لڑے گا۔ نام تم کس کام کے لئے آئے ؟“
اس سوال نے نام کو تشویش میں ڈال دیا کیونکہ دراصل وہ جوانا کو لیونارڈ سے علیحدہ کرنے کے لئے آیا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ کسی قسم کی جبر و تعدی سے کام نہ لے۔ ساتھ ہی اس کو یہ بھی خیال تھا کہ اگر میں لیونارڈ اور جوانا کو جو کچھ میرے دل کا منشا ہے ٹھیک ٹھیک بتا دون تو خلافِ مصلحت ہو گا۔ اس لئے وہ بولا۔
”اے نجات دھندہ میں یہاں اس غرض سے آیا تھا کہ جو کچھ مندر میں پیش آیا ہے اس سے تم کو خبر دوں۔“
لیونارڈ ”خوب جز اس بات کی کہ تم میرے دو نہایت عزیز دوستوں کی زندگی کا خاتمہ کر کے آئے ہو جن میں سے ایک مرنے سے کچھ دیر پہلے تمہارا معبود اور دیوتا تھا۔ نام میں اس خوشخبری لانے کے لئے تمہارا دل سے مشکور ہوں۔ کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ہمارے متعلق تم نے کیا تجویز سوچی ہے؟“
نام۔ ”نجات دھندہ! یقین مانو کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہاری جانیں بچی رہیں اگر تمہارے ساتھی موت کا شکار ہوئے ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہ تھا۔ ملک بھر میں ایک کھلبلی مچ گئی ہے اور عجیب عجیب افواہیں اڑ رہی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہفتہ آئندہ میں کیا پیش آئے مگر میں چاہتا ہوں کہ جب تک لوگوں کے دلوں کا جوش کم نہ ہو تب تک تم اسی جگہ چھپے رہو۔ یہ کمرہ تمہارے رہنے کے لائق نہ تھا مگر کیا کیا جاوے۔ موجودہ صورت میں اس سے بہتر کوئی مقام نہیں مل سکتا۔ تاہم ایک اور کوٹھڑی ہے جس میں تم رہ سکتے ہو اور وہ اسی کے برابر ہے۔ شاید تم نے پہلے ہی دیکھ لی ہو گی۔“
یہ کہہ کر اس نے دیوار میں ایک جگہ انگلی رکھ کر پتھر کو زور سے دبایا اور معاً پتھر کی ایک سل جو معمولی دروازہ جتنی بڑی تھی ایک طرف کو سرک گئی اور ایک کوٹھڑی نمودار ہوئی۔
نام۔ ”دیکھو نجات دھندہ یہ ہے وہ کوٹھڑی۔“ یہ کہہ کر وہ کوٹھڑی میں داخل ہونے کے لئے
صفحہ 279
آگے بڑھا مگر پھر پیچھے ہٹ گیا گویا کہ اخلاق کا یہ تقاضا تھا کہ وہ پہلے لیونارڈ کو آگے جانے دے۔“
یہ پہلا ہی موقعہ تھا کہ لیونارڈ احتیاط سے کام لینا بھول گیا۔ دہلیز کے دوسری طرف اس نے قدم رکھا مگر فوراً اسے خیال آیا۔ ”میں اس تاریک کوٹھڑی میں تنہا کیو گھسا۔ آخر یہ نام میرا دوست تو نہیں ہے؟“
وہ جلدی سے پیچھے ہٹا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ پتھر کی سل اپنی جگہ پر آ گئی ۔ چور دروازہ بند ہو گیا اور اس نے ایک زندان تاریک میں جوانا سے علیحدہ اپنے آپ کو مقید پایا۔
صفحہ 280
چونتیسواں باب
نام کی آخری حجّت
نام نے دروازہ بند کرنے میں اس پھرتی سے کام لیا کہ جوانا حیران و ششدر رہ گئی۔
نام ” بڑی دیر کے بعد تخلیہ میں گفتگو کرنے کا موقع ملا۔“
جوانا ۔ ”ہٹ مردود۔ میں تجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ (دل میں) ان میرے لیے یہی بہتر ہے کہ مر جاؤں۔“
ہی سوچ کر اس نے اپنا ہاتھ سر کی طرف بڑھایا تاکہ زہر کھا کر مر جائے اور تمام جھگڑوں قضیوں سے رہا ہو جائے۔
سوا۔ ”جان سے بڑی تنگ آ گئی ہو لیکن وہاں اب کیا رکھا ہے۔ میں ایسی احمق نہ تھی کہ زہر کا غریطہ تمہارے بالوں میں رہنے دیتی کہ جب چاہو جان پر کھیل جاؤ۔ اب تم اسے نہ پاؤ گی۔“
نام۔ ” خبردار راعیہ۔ اگر تو نے اپنی جان کا قصد کیا تو میں تیری مشکیں کسوا دوں گا۔ اور اپنی بیٹی کو تیری نگرانی کرنے کے لئے مقرر کر دوں گا۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر تو میرا کہا مانے گی تو اس شخص کو جو ساتھ کے کمرے میں بند ہے کوئی ضرر نہیں پہنچاؤں گا۔ تو یہ تو سمجھ سکتی ہے کہ لوگ تجھ کو اب دیبی خیال نہیں کریں گے۔ میں اگر اپنا خیال کرتا تو میرے لئے یہ بہتر تھا کہ تو سانپ کے آگے پھنکوا دی جاتی۔ اور سب خدشے مٹ جاتے مگر میری بیٹی نے مجھ سے تیری سفارش کی اور چونکہ وہ میری لختِ جگر ہے میں نے اس کی آرزو پوری کرنے کے لئے تجھ کو بچا لیا۔ اب تو اس ملک سے بھاگ بھی نہیں سکتی۔ عمر بھر تجھے اس سرزمین پر رہنا پڑے گا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ تو اس تنگ و تاریک حجرہ میں ساری عمر گزار دے۔ پس محض اس لئے کہ میری بیٹی کو تجھ سے محبت ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ تو زندہ رہے، میں نے ایک تجویز سوچی ہے جس سے نہ صرف تجھ کو اس قید خانے کی قید سے رہائی ہو گی بلکہ تو تمام ملک میں ممتاز ہو جائے گی۔“ یہ کہہ کر وہ رک گیا۔
جوانا۔ (غصہ اور خوف سے کانپ کر) ”آخر تم اپنے مطلب ہر آؤ گے یا نہیں؟“
صفحہ 281
نام۔ (سر جھکا کر) ”میرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ دیبیوں میں تمہاری پرستش آئندہ نہیں ہو سکتی مگر یہ ممکن ہے کہ تم شاہ آلفن کے حبالۂ عقد میں آ کر اس ملک کی ملکہ کہلاؤ۔“
جوانا کے دل پر ان الفاظ کے سننے سے جو کیفیت طاری ہوئی اس کا اندازہ اچھی طرح کیا جا سکتا ہے۔ ایک وحشی کی بی بی بننے کے خیال سے ، گو وہ والئ ملک ہی کیوں نہ ہو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور ساتھ ہی اسے نام کی مکّاری اور بے باکی پر سخت غصہ آیا مگر اس وقت وہ بے یار و مددگار اور بالکل بے کس تھی لہٰذا جو مصلحت وقت سمجھ کر اس نے اپنے غصہ کو مشکل کے ساتھ ضبط کیا اور کہنے لگی۔ ”کیا لوگ مجھ کو جو ان کی دیبی تھی، اپنے بادشاہ کے نکاح میں آئی ہوئی دیکھ کر تعجب نہ کریں گے؟“
نام۔ ”نہیں راعیہ۔ تم اس بات کہ فکر نہ کرو۔ میں لوگوں کو ایک دن مندر میں جمع کر کے کہہ دوں گا کہ وہ دیبی جس کو تم نے جھوٹی اقرار دے کر سانپ کی قربانی چڑھا دیا تھا دراصل سچی تھی اور بوجہ اس کے کہ اس کو تم سے محبت ہے، انسانی قالب میں پھر تمہارے درمیان آ گئی ہے تا کہ تم میں سے جس شخص سے اس کو خاص طور پر محبت ہے، اس کے ساتھ چند سال رہے۔“
جوانا۔
”چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
نام تو گو لاکھ مکّار اور چالاک ہے مگر یہ تجویز تیری نہیں معلوم ہوتی۔ اس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی عورت ضرور ہے لیکن خواہ کچھ بھی ہو میں ہرگز اس پر عمل نہیں کر سکتی۔“
سوا۔ ”راعیہ تم ٹھیک کہتی ہو۔ یہ تجویز میری ہے اور اس سے میرے دو مقصد ہیں ایک تو یہ کہ تم زندہ رہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا نکاح ایک وحشی آدمی سے کرا کے لیونارڈ سے انتقام لوں۔“
جوانا۔ ”مگر کیا تم کو یہ معلوم نہیں کہ اس معاملہ میں میری رائے بھی کچھ وقعت رکھتی ہے۔“
سوا (طنز سے) ”جوانا تم اس گھمنڈ میں ہو کہ چونکہ تمہاری شکل ذرا اچھی ہے اس لئے تمام دنیا تمہاری خواہشوں کی غلام ہے اور تمہاری ہر ایک آرزو پوری ہو سکتی ہے۔ مگر کہیں اسی خیال پر مت اترانا۔ کم از کم مجھ پر تو تمہارا جادو نہیں چلتا۔ سنو جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس سے نہ صرف تمہاری اور لیونارڈ کی سلامتی ہی مقصود ہے بلکہ میں اپنے باپ نام کی بھلائی بھی چاہتی ہوں۔ آلفن تمہارے عشق میں مبتلا ہے اور اس آڑے وقت میں میرے باپ اور اس کے کاہنوں کو اس کی مدد کی ضرورت ہے۔
صفحہ 282
وہ ان کو اس شرط پر مدد دینے کے لئے تیار ہے کہ آج ہی تمہارا اس سے نکاح کر دیا جائے۔ ہم جبراً تمہارا نکاح اس سے کر دیتے مگر مشکل یہ ہے کہ آلفن چاہتا ہے کہ تمہاری رضامندی کے بغیر تم سے شادی نہ کرے۔ اے راعیہ گو تم یہ چاہتی ہو کہ اپنی قوم کے کسی آدمی سے تمہاری شادی ہوتی مگر موجودہ صورتِ حال میں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ تم ایک ملک پر حکمرانی کرو گی اور ملکہ کہلاؤ گی۔ اس کے علاوہ خیال کرو کہ جس شخص کو تم نجات دھندہ کہتی ہو وہ قریب کی کوٹھڑی میں قید ہے اور اس کا مرنا جینا تمہارے رد یا قبول پر منحصر ہے۔ تمہاری زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ اس کو ایک ایسی خوفناک موت سے بچا سکتا ہے جس کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔“
جوانا۔ ”سوا یہ تو نے مجھ سے چال کی ہے۔ تو چاہتی ہے کہ یا تو میں آلفن سے شادی کر لوں اور یا لیونارڈ کو اپنے ہاتھوں قتل کراؤں۔ بہتر ہوتا کہ تو مکھ کو بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں رہنے دیتی۔“
سوا۔ (درشتی کے ساتھ) ”جب تم اس خیمہ گاہ میں تھیں تو تم کو مجھ سے محبت تھی مگر اس کے بعد تمہیں عشق چرایا اور تم مجھ سے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ مجھ کو تم سے اب بھی اسی طرح محبت ہے، جو پہلے تھی۔ مگر میں اس گورے آدمی سے انتقام لوں گی جس نے تمہارا دل میری طرف سے پھیر دیا ہے اور اس انتقام لینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تم کو آلفن کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کروں۔ اس سے نہ صرف میرا ہی مقصد پورا ہوتا ہے بلکہ تمہاری قدر و منزلت کا بڑھنا اور خوشی سے بسر کرنا بھی مقصود ہے۔“
جوانا کو ہرگز اس امر کا اقبال منظور نا تھا کہ وہ آلفن سے شادی کر لے گی مگر ساتھ ہی اس کے دوسرے خیالات نے اس کے دل کو اور تذبذب و اضطراب میں ڈال رکھا تھا۔ اس نے دل میں کہا۔ ”اگر میں آلفن کے ساتھ شادی سے انکار کر دوں تو ایک ایسا شخص جو مجھ پر ہزار جان سے فدا ہے اور جس سے مجھے سچا عشق ہے جان سے مارا جاتا ہے۔ اس کی جان کی سلامتی مجھے ہر طرح سے منظور ہے۔ مگر افسوس اس مقصد کی تکمیل کے لئے صرف ایک ہی سبیل ہے جس سے پیارا لیونارڈ مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا رہے گا۔ ہائے یہ جدائی میرے اور اس کے دل پر کیسی شاق گزرے گی۔ یہ کوئی جینا نہیں۔ اس کو زندہ درگور کہنا چاہیے۔ خیر
”نہ سہی وصل تو حسرت ہی سہی“
صفحہ 283
مگر ہاں ممکن ہے کہ خدا ہم کو پھر ملا دے۔ گو آلفن کی محبت سچی ہے اور وہ میری دلجوئی کے لئے ہزار کوشش کرے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ لیونارڈ کا خیال میرے جی سے اٹھ جائے۔
ایں خیال است ق محال و جنون
ممکن ہے کہ اس ملک کی ملکہ بن کر میں اپنی حکومت و اقتدار کو اپنے حصول کا ذریعہ بناؤں اور لیونارڈ کو پھر راحت و آرام نصیب ہو۔ آٹر اپنی جرأت اور دلاوری کی وجہ سے ممکن ہے ان تک بحرِ حیات ہو میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔ جو خود دریا باش ہے وہ نہنگوں سے کب ڈرے گا۔ اس لئے اگر وہ سانپ کو مار کر غار سے زندہ نکل آیا تو اہل ظلمات کے نزدیک اس کے دیوتا ہونے میں کچھ شک نہیں رہے گا۔ پھر تو کیا آلفن اور کیا نام سب اس کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہوں گے۔ اس صورت میں وہ اور لیونارڈ دونوں مل کر ضرور مجھ کو آلفن کی قید سے چھڑا لیں گے۔“
ان خیالات سے متاثر ہو کر جوانا نے اپنا سر اٹھایا اور نام سے کہنے لگی۔ ”میں آلفن سے شادی کرنے پر رضامند ہوں۔“
نام ”بس میرا مطلب یہی تھا۔ اب میں تمہیں اس بات سے آگاہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ خبردار ہرگز آلفن کے سامنے یہ نہ کہنا کہ لیونارڈ زندہ ہے اور تم اس (آلفن) سے شادی کرنے پر خوش نہیں ورنہ میں اسی دم نجات دھندہ کو مروا ڈالوں گا۔ اب تم یہ بتاؤ کہ ہم آلفن کو یہاں کس وقت لائیں۔“
جوانا ”جس وقت تمہاری مرضی ہو۔ جتنی جلدی کرو گے اتنا ہی اچھا ہے۔“
نام ”بہت بہتر۔“
پھر سوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ”آلفن باہر کھڑا ہے اس کو بلا لو۔“
سوا نے اپنے باپ کے کہنے کہ تعمیل کی اور آلفن کو بلانے کے لئے دروازہ سے باہر نکل گئی۔ جوانا خوف و ہراس کے عالم میں چارپائی پر دیوار سے پشت لگا کر بیٹھی تھی اور چونکہ رہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ نام کو اس کے دل کی کیفیت معلوم ہو اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ کو چھپا لیا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہی پھر دروازہ کھلا اور سوا اور آلفن اندر داخل ہوئے۔
نام (دبی آواز سے) راعیہ خبردار اگر تو نے ایک لفظ ایسا ویسا کہا تو نجات دھندہ کی خیر نہیں۔“
صفحہ 284
پینتیسواں باب
شریف بنو یا رذیل
کچھ دیر تک سب خاموش رہے ۔ جوانا نے نگاہ اٹھا کر آلفن کو دیکھا۔ وہ بے حس و حرکت کھڑا تھا اور اپنے بھاری بلم کو زمین پر ٹیکے ہوئے نیچی نگاہوں سے جوانا کے حسن گلو سوز کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے وحشیانہ رعب اور وقار مترشح تھا اور شمع کی روشنی اس کے تمام اعضا پر پڑ کر اس کے بدنی نشوونما کو بطرزِ احسن دکھا رہی تھی۔ اس کے شاہانہ لباس میں جو بکری کی نہایت عمدہ کھال کا تھا قیمتی جواہرات ٹکے ہوئے تھے اور اس کے لمبے سیاہ بال پیچھے کی طرف ایک سفید فیتے سے بندھے ہوئے تھے۔
آخر کار جوانا نے اس خاموشی کے قفل کو توڑا۔
”آلفن خاموش کیوں کھڑے ہو؟ اپنا مطلب بیان کرو۔“
آلفن (دھیمی مگر صاف آواز میں) ”اے ملکہ میں نے یہ سنا تھا کہ آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کا فرمانبردار ہوں ۔ مجھ کو اس امر کے سننے سے نہایت ملال ہوا کہ آپ کے شوہر اس جہانِ فانی سے انتقال کر گئے ہیں اس واقعہ جانکاہ میں میں کے کچھ حصہ نہیں لیا۔ آپ کے شوہر اور دوسرے گورے آدمی اور بونے تینوں کی موت کا الزام اس کاہن کے ذمہ ہے لیکن وہ قسم کھاتا ہے کہ وہ لوگوں کے مجبور کرنے پر اس امر نا مطبوع کا مرتکب ہوا۔ ابھی کچھ دیر نہیں گزری ہے کہ مجھ جو یہ یقین تھا کہ آپ کے دشمن بھی عدم کو سدھار چکے ہیں اور یہ آپ کا نازک جسم بت کے کنگرہ پر سے پانی کے غار میں گرا دیا گیا ہے۔ میں ایک سپاہی آدمی ہوں لیکن اس خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے اور میں نے اپنے اوپر لعنت اور نفرین بھیجی کہ بادشاہ ہو کر مجھے اتنی قدرت نہ ہوئی کہ آپ کی دستگیری کرتا۔ بعد میں اس آدمی نے جو ہمارے ملک کا سردار کاہن ہے مجھے آ کر حقیقتِ حال بتائی اور میرے
صفحہ 285
سامنے ایک تجویز پیش کی جس سے نہ صرف اس کی مقصد بر آوری ہوتی بلکہ تمہاری جان بچتی ہے اور میری حکومت اور اقتدار کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔“ یہ کہہ کر آلفن رک گیا۔
جوانا (کچھ دیر بعد) ”وہ تجویز کیا ہے؟“
آلفن ”وہ تجویز یہ ہے کہ آپ میرے عقد میں آ کر اس ملک کی ملکہ بنیں۔ لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے گا کہ آپ کو جھوٹی دیبی سمجھ کر مار ڈالا گیا تھا لیکن بوجہ اس محبت کے جو آپ کو اس سے ہے آپ پھر انسانی قالب کا جامہ پہن کر ان کے درمیان آ گئی ہیں۔ مین اس عزت کے ہرگز لائق نہیں اور مجھ کو افسوس ہے کہ جس سے آپ کو محبت تھی وہ اس جہان سے چل دیا اور آپ کے دل کو گوناگوں غم و آلام میں مبتلا کر گیا۔ ہر چند کہ میں نہیں جانتا تھا کہ اس ماتم میں میرا آپ سے اس امر کی درخواست کرنا کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں ہرگز زیبا نہیں ہے۔ مگر جب نام نے مجھ سے بار بار کہا کہ اگر یوں نہ کیا جائے گا تو آپ کے دشمنوں کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی اور مجھ کو بوجہ کمال محبت کے جو آپ سے ہے ہرگز یہ منظور نہیں کہ اس عالمِ شباب میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ اس لئے میں نے نام نے کہا کہ تم ان کے پاس جاؤ اور ان کی رائے لو۔ اگر انہوں نے مجھ سے نکاح کرنا پسند کیا تو میرے زہے نصیب۔ نام آپ کے پاس آیا اور آپ سے پوچھ کر واپس گیا اور کہنے لگا کہ ملکہ نے آپ کی درخواست کو منظور کر لیا، میں نے کہا کہ جب تک میں اپنے کانوں سے نہ سن لوں مجھ کو اعتبار نہیں آئے گا۔ اس لئے میں خود حاضر ہوا ہوں۔ میں آپ پر اپنی جان قربان کر دینے کو تیار ہوں مگر میں ہرگز آپ کو مجبور نہیں کرنا چاہتا کہ آپ میرے ساتھ شادی کریں۔ میری عیب خواہش ہے کہ آپ صاف صاف الفاظ میں جو کچھ آپ کو کہنا ہے کہہ دیں۔“
یہ کہہ کر اس نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے برچھے کے سہارے خاموش کھڑا ہو گیا۔
جوانا اپنی حالت کو خوب پہچانتی تھی ۔ آلفن سے وہ یہ نہ کہہ سکتی تھی کہ لیونارڈ زندہ ہے ورنہ اس کی جان پر آ بنتی۔ لیکن آلفن کی نسبت اس کا گمان یقین کے مرتبہ کو پہنچ چکا تھا کہ اہلِ ظلمات میں سے اگر کوئی شخص انسانیت اور شرافت کے اوصاف سے متصف ہے تو وہ آلفن ہے اس لئے اس نے جواب دیا۔
آلفن جو کچھ تم نے کہا میں نے سنا ہے۔ میں تمہارے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہوں مگر چونکہ تم جانتے ہو کہ میرے پیارے شوہر کو انتقال کئے بہت زمانہ نہیں گزرا اور اس کی بے وقت موت نے