ٹائپنگ مکمل سیر ظلمات

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ نمبر 230

ساگا" چچا جان وہ ہم سے اچھا بول لیتی ہے“۔
نام کو نہایت تعجب ہوا اور اس نے دروازہ کے پاس جا کر کاہن کو آواز دی کہ عورت کو لے آؤ پھر وہ سوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔" تم مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہو“۔
سوا۔" ہاں مگر میں کسی کے سامنے نہیں کہوں گی۔ میں آپ سے تخلیہ میں گفتگو کرنا چاہتی ہوں“۔
نام نے کاہن اور ساگا کو کمرہ سے باہر چلے جانے کے لئے کہا اور اب کمرہ میں نام اور سوا رہ گئے۔
سوا۔ "حضور کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے؟“
نام۔ "میں نہیں جانتا تم کون ہو“۔
سوا۔" آپکو یاد ہوگا کہ کئی سال پہلے آپکی ایک بیٹی تھی جس کو آپ کے دشمنوں نے سانپ سے منسوب کیا تھا اور جب قربانی کی رات آئی تو آپکی دلی شفقت اور پدرانہ محبت نے جوش کیا اور آپ نے اپنی بیٹی کو یہاں سے فرار ہو جانے میں مدد دی۔ میں وہی آپ کی بیٹی ہوں“۔
نام۔ "ہاں مجھے یاد پڑتا ہے مگر جس بیٹی کا تم ذکر کر رہے ہو اس کی نسبت تو میں نے یہ سنا تھا کہ منتقم دیوتاؤں نے اس کو سفر میں مار ڈالا اس لیے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کیسے میری بیٹی ہو سکتی ہو لیکن بفرض محال اگر تم میری بیٹی ہو تو مجھے وہ خفیہ لفظ بتاؤ جو سوا ئے میرے اور میری بیٹی کے اور بہت کم لوگوں کو معلوم ہے“۔
تب سوا نے نام کے کان سے اپنا منہ لگا کر کچھ باتیں کہیں۔ اگر برق صاعقہ کا ایک پرکالا نام کے سامنے گر پڑتا تو وہ اس قدر ہکا بکا اور مبہوت نہ ہو جاتا جیسا کہ سوا کے لفظوں کے سننے سے ہوا کچھ دیر تک تو وہ حیرت کے عالم میں سوا کے چہرہ کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھتا رہا لیکن جب اس کا تعجب ذرا کم ہوا اور اس کیفیت کا خمار جو سالہا سال کے بعد اپنے لخت جگر کے جو اس کی دانست میں مر چکی تھی یکا یک ملنے سے چڑھا تھا ذرا ٹوٹا تو اس نے بآواز بلند کہا۔" شکر ہے۔ شکرہے کہ میری بیٹی پھر مجھ سے آملی۔ بیٹی میں اب دنیا میں تنہا نہیں ہوں۔ میرے بعد تو میری نام لیوا ہے اور تو مجھے جان سے عزیز ہے“۔
یہ کہہ کر نام نے اپنی بیٹی کو گلے سے لگا لیا۔ اس کا دل بھر آیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ صفحہ
*216*
دیر مین نام نے لوگون سے اس طرح پر خطاب کیا۔
“اےاہل ظلمات آج یہاں اس لئے جمع ہوتے ہوکہ قدیم رسم کے مطابق جال کی قربانی تہوار مناؤ لیکن دیوتاؤں نے جو تم میں واپس آ گئے ہیں اس رسم کو تبد یل کر دیا ہے. اس قربانی کے لئے
پچاس عور تین تیار ہیں آج صبح وہ نہایت خوشی خوشی اٹہیں کیونکہ اس کو خیال تھا کہ وہ سانپ پر نثارکیجائنگی۔ لیکن اب انکی خوشی مدل رنج ہوگئی ہے کیونکہ دیوتا نے انہیں قبول کرنے کےبجائے ایک نیا چڑھاوا پسند کیا ہے۔ اس چڑھاوےکو آ گے لاؤ”
نام کے کہنے پر کے کچھ لڑکے کے پیچھے سے دو دبلے بیل اور دو بکرے ہانکتے ہوئےآگے بڑھے ہے۔ اب معلوم نہیں کہ اتفاق ایسا ہوا یا دانستہ انہوں نے یہ حرکت کی کرائی ہے
انہوں نے جا نوروں کو اس بُری طرح ہانکا کہ ایک اِ دھر چلا گیا اور ایک اُدھر اور آخر کار اُنکو لاٹہیوں اور کلہاڑیوں
کی حربوں سے مارڈالا گیا۔ البتہ ایک بکرا بچ کردنگل کی طرف بھاگ گیا اور خوفزدہ آواز میں پکارتا ہوا لوگوں کے درمیان ایک نشست سے دوسری نشست کودنے لگا ۔یہ نظارہ ایسا مضحکہ خیز تھا کہ اہلِ ظلمات کی متانت اور سکوت پسندی بھی اس سے عہدہ برا نہ ہوسکی اور وہ ہنسنے لگے۔ بھلا جو لوگ آدہی رات کے وقت کثیرال تعداد انسانون کی قربانی کے
دہشت ناک منظر کے دیکھنے کے عادی ہوں انکی خونخواری اور سفاکی کی آگ کو ایک دوبیلون اور دو بکروں کی قربانی اس سے تمسخر آمیز وضع میں کیسے فروسکتی ہے ۔
تھوڑی دیر مین نام مرے ہوتے
جانوروں کی طرف اشارہ کر کے کہا”اے اہلِ ظلمات اپنے اپنے گھروں کو جا قربانی ہوچکی۔
اور جال کی جترا کی رسم ادا ہوگئی۔ اب ہماری دعا ہے کہ دیبی اپنے بیٹے سانپ
کو کہے سورج نلکر ہمارے ملک کو روشن کرے اور ہماری سرزمین پہلے پھولے ۔۔
قربانی کی رسم کے ختم ہونیمین میں دس منٹ کا عرصہ بھی نہ لگا ۔اگرحسب سابق رسم دستور ادائیگی عمل مین آتی تو اسے ختم ہونے میں کئی گھنٹے لگ جاتے ہوتے کیونکہ قاعده یہ تھا کہ ایک ایک قربانی کوقتل کیا جا تا۔ اور اسکے ساتھ مناسب رسمیں عمل میں لائی جائیں۔ دنگل کے انتہائی
سرے سے لوگوں کے بڑ بڑانے کی آواز اٹھی اسی سے انکی ناراضگی کا اظہار ہوتا تھا اور یہ آواز به تدریج
بند ہوکر بہ غیظ و غضب کے نعرہ سے بدل گئی۔ لوگوں نے جوانا کے امن و امان کی شفقت
*216*
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
217*
آمیز پیغام شکریہ کے ساتھ قبول توکیا لیکن خونریزی کے پہم نظاروں کو دیکھ دیکھ کر ان کی فطرتوں
نے ایسا سیاعی ڈہنگ اختیار کر دیا تھا کہ وہ انسانی قربانی کو ترک کرنے پر ہرگز رضا مند نہ تھے
اُِنھوں نے ایک آواز میں چلا کر کہا “لاؤ عورتنکو اور کی دستور کے مطابق جال پر قربانی
چڑھاؤ جب شورو غوغا کسیقدر کم ہواتو نام نے کسی قدر مگاری سے ان سے یوں خطاب کیا۔
اےاہلِ ظلمات دیوتاؤن نے اب ایک نیا قانون نافذ کیا ہے اس قانون کی رو سے آدمیوں
اور عورتوں کے بجائے بیل اور بکرے قربانی دئے جایا کریں گے اور خود تم نے اس قانون کو تسلیم کیا
ہے ۔ اب جال کی قربان گاہ پر چاند کی نورانی شعاعون کے تنے انسان کا خون نہ بہے گا کیا اور کاہنوں
کے منتروں کی آواز بلند ہوکر آسمان کی طر ف نہ جائے گی۔آئندہ یہ پاک جگہ بیلوں اور بکروں
کی ذبح گاہ بنے گا اور سانپ غار میں بیٹھا ہوا اپنے شکار کا بیفا ئدہ انتظار کر گیا۔ اچھا میرے بچو تو ایسا ہی سہی مین اپنے بڑھاپے
میں دیوتاؤں کی بدلی ہوئی آواز میں بولتے سنتا ہوں اور ان کے حکم کی تعمیل مجہہ پر فرض
ہے۔ میں تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں اور اس لئے مجھے اسکا کچھ خیال نہین لیکن میں تم سے
کہے دیتا ہوں کہ بجائے اسکے کہ ہم اپنے آباو اجداد کی پرستش کا مضحکہ ہوتے ہوئے
دیکھیں میں خود قربان گاہ کے قدیم پتھر پر لٹائے جانے کو زیادہ ترجیح دینا ہون ۔ اچھا قربانی ہو چکی
اب ہماری بہ دعا ہونی چاہیئے کہ دینی اس سانپ سے سفارش کرے کہ ہمارا ملک پھلے پھولے اور اسکی پیداوار
زیادہ ہو۔
یہ طعن آمیز الفاظ سنکر ٹام مسکرایا اور انہیں سنتے ہی لوگون مین وہ جوش پیدا ہوا کہ بیان نہیں
ہو سکتا ۔ رعد کی طرح وہ گرج کر بولے ہمیں انسان کا خون چاہئے بکروں کی قربانی سے ہمیں ٹھٹھے
میں اُڑایا جاتا ہے ان جھوٹے د یوتاؤں کے دوست کے خادموں کو قربان چڑھاؤ اورہمین خون چاہیے اور قربانیاں لاؤ |
اس ہنگامے کے درمیان جوانا اپنے تخت کے لئے اٹھی اور ٹام سے بلند آواز سے کہا
لوگو خاموش! ایکا دیبی کی بات سنواور اس پررفتہ رفتہ شوروغوغا کم ہو تا گیا اور جوانا نے لوگوں سے اسطرح
خطاب کیا۔
اے بندہ تم اپنے دیوتاؤں کو دہمکیاں دیتے ہو اور تم میں اتنی جرات ہے۔تم اُنکی اسطرح توہین کرو
خبردار کہیں ہم تم سب پر موت اور قحط کی
بلا نازل نہ کریں ۔”انسانوں کی قربانی آئندہ ہم ہرگز نہ
ہونے
*217*
 

سیما علی

لائبریرین
*218*
دینگے بس مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکی ۔کچھ دیر تک کہ
توخاموشی کا عالم طاری رہا لیکن پھر لوگ غصے میں آکر چلے
گئے اور کچھ لوگ جوانا اور آٹر تخت گاہوں کی طرف لپکے اور سپاہیوں کے اور سپاہیوں نے ان کے ایک ہلہ کو کچھ اسوقت آئفن نے جو پاس کھڑا تھا لیونارڈو فرناسکو کو نو آبادی کے لوگوں کی طرف
اشارہ کر کے کہا میری رائے میں اب انہین بیان سے چلد ینا چاہیئے۔ دیبی اور دیوتا دیتا بلا شبہ
اپنی حفاظت آپ کر سکتے ہیں لیکن اگریہ لوگ یہان سے نہ بھاگے تو مجھے یقین ہے کہ انکی بوٹی بوٹی
بھی بانٹنے نہ آئیگی۔
جوانا نے جسپر اب خوف غالب آ چکا تھا جوابدیا کہ چلو ہم سب یہاں سے چل دیں۔ اور یہ کہہ کر وہ اپنے ہمراہیوں کے سمیت سرنگ کی طرف بڑھی اس سرنگ کے منہ پر ایک دروازه لگا تھا۔اورجب وہ اسمیں داخل ہوئے
تو انھیں خیال ہوا سب اندر آگئے ہیں
تو آئفن اور لیونارڈ نے لوگوں کو نے چیخنا چلاتا چھوڑ کر جھٹ دروازہ بند کرلیا۔ یہاں سے وہ محل کی طرف چلے گئیے۔
اور بغیر کسی مزاحمت کے وہاں صحیح و سلامت پہنچ گئیے۔ آئفن پہڑ کی نقل و حرکت دیکھنے کے لئے پیچھے ٹہرا ۔ لوگ تک
او بر پتا چلا ہو کر جب دروازہ بندکردیا۔ یہان است و محل کی طرف چلے گئے اور بغیر سی امت
کے بان صحیح وسلاست پوتے گئے الفن پڑی نقل ووکی تو دیکھنے کے لئے پیچھے غیظ
و عضب کے لہجے میں لوگوں کے چلانے کی آواز یں دور تک آرہی تھیں لیکن یکیبارگی
آوازیں فتحیابی اور اطمینان کے نعرہ میں تبدیل ہوگئی سے نہال ہوگئیں اور اسکے بعد خاموشی چھاگئی ۔
جوانا نے اضطراب اور خوف میں پوچھا اس کے کیا معنی ہیں اسوقت آئفن پروہ
اٹھا کر اندر لایاا اور اسکے چہرہ پر تشویش کے آثار ظاہر تھے۔ جوانا نے اضطراب اور خوف میں پوچھا اس کے کیا معنی ہیں۔
آنفین پردہ اُٹھا کر اندر آیا اور اُسکے چہرہ پر تشویش کے وہ آثار ظاہر تھے !جوانا نے کہا کہو کیاماجرا ہے
آئفن نے جواب دیا اے
ملکہ لوگ تقدیر دستور کے بعد بہت قربانی کر رہے ہیں۔ ہم نے
سب دروازے اندر سے داخل نہیں ہونے
پائے کہ دو کالے خادم پیچھے رہ گئے تھے اور
اب لوگ دوسروں کے ساتھ اُنکو بھی قربانی چڑھا رہے ہین
ليونارڈ بھاگا ہوا صحن میں گیا ، جب اسنے نو آبادی کے لوگوں کو گنا جو خوف کے مارے بھیڑوں
کی طرح ایک کہ جمع ہوکر پھاٹک کی سلاخون میں سے مندر کی طرف دیکھ رہے تھے تو اسے
معلوم ہوا کہ دو کم ہیں۔ جب وہ ہٹا تو اسے آئفن کو جاتے ہوئے دیکھا جوانا نے اس سے پوچھا ؟آئفن کہاں جارہا ہے؟؟
218
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*219*

جوانا پھاٹک کی حفاظت.. کے ۔۔۔۔۔۔کہ اس نےاپنے سپاہیوں پر بھروسہ نہ
کیا یہ سچ ہے کہ نو آبادی میں لوگوں میں سے دو باہر رہینگے”
لیونارڈ۔ یہ بات صحیح ہے سمجھنے میں نے انہین گنا تھا دو کا پتہ نہیں
جوانا نے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپا لیا اور کانپ اٹھی۔
-
—۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،::::::::::::؛؛؛؛؛؛؛؛::::::؛:؛؛:؛:::
*219*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
220
چھبیسواں باب

نو آبادی کے لوگون کا خاتمہ

ہمارے جری سیاحوں کے دن نہایت مصیبت کے کٹنے لگے انہیں معلوم ہوا
اہلِ ظلمات کا اعتقاد ہم پرروز روز کم ہوتاجارہا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ نئے دیوتاؤں کا ظهور اسے دہنداور کہر
کی تاریکی کو زائل کردیگا۔ آفتاب کی جان بخش روشنی سے ملک ہمیشہ کے لیے منور ہو جائیگا اور پیداوار
بڑھ جائیگی ۔اب اُِنھوں نے دیکھا کہ ملک کی آب و ہوا اور اس کے ماحولیات پر وہی اگلی سی تاریکی
چھائی ہوئی ہے۔ تواُنکی ہری بھری امیدیں نا امیدی سے بدلنے لگیں اور اس کے اعتقادات کی حالت
مخدوش ہونے لگی اور واقع میں پانچ ہفتےسے جو ہمارے منچلے سیاحون کو یہاں آئے ہوئے گزر چکےتھے۔ مطلع اور بھی مکدر ہوچکا تھا ۔ سورج نے اپنا منہ بہت کم دیکھایا تھااور سردی غضب کی پڑ رہی تھی۔
کہ الامان و فصلوں کی حالت نہایت ہی ردی تھی ۔ اسکے علاوہ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ دیوؤں کےکالے خادموں
کو قربانی چڑھایا وہ انہیں بچا نہ سکے تو ضرور ہے کہ ان مین قدرت نہین ہے کاہنوں کی جماعت اُن سے پہلے ہی بگڑی ہو ئی تھی اور انکا سردار نام اس کا شکست کے بعد سے جو
اسنے جوانا کے ہاتھوں اُٹھائی تھی آئفنں کی طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اس کے دل میں بھی یہی خیال گذرتے
تھے کہ اگریہ سچے دیوتا ہیں تو کیوںں مطلع صا ف نہیں ہوتا کس لئے فصلیں اچھی نہیں اُگتیں اور وہ اپنے خادموں تک کو اُنکی آنکھوں کے سامنے ہی سانپ کے غار میں جھونک دیا گیا نہ بچا سکے کہ اسنے
دل سے عہد کرلیا کہ اگر دیوتا جھوٹا ہے تو میں انھیں خاک میں ملا دوں گا۔
لیونارڈ کی عادت تھی وہ روزمرہ صبح کے وقت جاکر نوآبادی میں لوگوں کو انکی کوٹٹھری میں جہاں وہ سوتے تھے چوکا دیا گیا نہ کر سکے اور اسے لے
نام کر دیا کہ گریه یا بنے ہیں تو میت کو خاک میں ملا دونگا۔
میزان کی عادت تھی کہ وہ روز مرد سے کیریست باکریز آبادی کے لوگون کو کوٹھری میں جہاں وہ سوتے تھے گن لیا کرتا تھا - ایکدن حسب معمول وہ انھیں گننے کیا تو کیا دیکھتا کہ وہ بیچارے۔
*220*
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 261
دروازہ کے پاس پہنچے تو آلفن جو وہاں ان کا منتظر کھڑا تھا فرانسسکو کے نزدیک آ کر آہستہ سے بولا " اے ملکہ الوداع تمہاری سلامتی کے لیے میں جان سے بھی دریغ نہ کرتا مگر افسوس مجھ کو ناکامی حاصل ہوئی اب جب تک میں نام اور اس کے اخوان الشیاطین سے تمہارا بدلہ نہ لے لونگا مجھے ایک گھڑی چین نہ آئے گا۔ اے ملکہ الوداع“
فرانسسکو جواب میں کچھ نہ بولا بلکہ سر نیچا کر کے بڑھا چلا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ بت کے پاؤں کے قریب پہنچے اور کاہنوں کے پیچھے پیچھے یہاں سے اُس سیڑھی پر چڑھنا شروع کیا۔ جو بت کے اندر بنی ہوئی تھی۔ تاریکی میں وہ برابر زینہ پیمائی کرتے چلے گئے اور فرانسسکو کے لیے جس کا اس زندگی میں یہ آخری سفر تھا ایک ایک لمحہ صدیوں کا سا ہو گیا۔
آخر کار وہ بت کے سر پر پہنچے آٹر اور فرانسسکو دو چٹائیوں پر جو وہاں بچھی تھیں بیٹھ گئے اور نام اور تین کاہن ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔
فرانسسکو (آٹر کے کان میں ) " آٹر مجھے تھامے رہو ورنہ میرے حواس گم ہو جائیں گے اور میں گر پڑوں گا۔ اتنی بلندی پر سے اس غار کو جس میں میں گرنیوالا ہوں دیکھ کر مجھے چکر آرہے ہیں“۔
آٹر" آنکھیں بند کر لو اور پیچھے جھک جاؤ پھر تمہیں کچھ نظر نہیں آئے گا اور وہ زہر بھی نکال رکھو کیونکہ وقت قریب ہے۔“
فرانسسکو " زہر میرے پاس تیار رکھا ہے خدا میرا یہ گناہ بخشے۔“
آٹر نے جواب میں کچھ نہ کہا اور پانچ منٹ تک سب خاموش رہے۔ اس کے بعد ایک آواز ہوا کے طبقات تحہانی میں سے جو کہر کے باعث کثیف ہو رہے تھے آئی۔" اے سردار کاہن کیا وہ جن کے نام ایکا اور جال ہیں اوپر بیٹھے ہوئے ہیں ؟“
اس کے جواب میں نام اوج ہوا پر سے بولا " ہاں اوپر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر وہی آواز آئی" اے سردار کاہن کیا پو پھٹنے کا وقت نزدیک ہے ؟“
" ابھی کچھ دیر باقی ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے پیچھے مڑ کر اُس برفانی چوٹی کی طرف جو مندر سے بیس ہزار فٹ بلند اٹھی ہوئی تھی نگاہ کی۔ یہ چوٹی سب سے بلند تھی اور یہہیں سے۔ " (صبحدم دروازہ خا در کھلا)“

صفحہ نمبر 262

آٹر اور فرانسسکو چٹائیوں پر جو وہاں بچھی تھیں بیٹھ گئے اور نام اور تین کاہن ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔
(متعلقہ صفحہ 436)
صفحہ نمبر 263

نظر آتا تھا۔ نام کے ساتھ جو کاہن کھڑے تھے انہوں نے بھی اشتیاق کے ساتھ مڑ کر مشرق کی طرف دیکھنا شروع کیا کیونکہ افق پر سرخ یا سفید رنگ کے ظاہر ہونے سے اہل ظلمات کو معلوم ہو جاتا تھا کہ
(اِک نگار آتشیں رخ سر کھلا)
نکلا ہے یا نہیں۔
صبح کی سفیدی بتدریج بڑھتی گئی اور چونکہ مطلع اس صبح کو اسقدر کثیف نہیں تھا اس لیے آٹر کے دل میں پہر اُمید تازہ ہو گئی۔ مندر کے لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ خاموشی نے علم نصرت بلند کر کے اپنا رعب جما رکھا تھا۔ کسی کو زبان ہلانے کی مجال نہ تھی۔ سب دم بخود کھڑے ہوئے برف کی چوٹی پر سے آفتاب کے نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر کار پہاڑ کی چوٹی پر سے دھند کسی قدر پتلا پڑ گیا اور اب وہ وقت آ گیا کہ روشنی کا رنگ یا تو سرخی سے بدل جائے اور یا بدستور سفید رہے۔ کچھ دیر تک لوگ ایک عالم تذبذب میں مشرق کی طرف دیکھتے رہے۔ مگر جب باوجود انتظار مدید کے پہاڑ کی یخ بستہ چوٹی پر سرخ کرنیں نمودار نہ ہوئیں تو وہ ایک ساتھ باآواز بلند پکار اٹھے۔ " مطلع سفید ہے مطلع سفید ہے۔ دیوتا جھوٹے ہیں ان کو نیچے گرا دو۔“
آٹر (فرانسسکو کے کان میں ) " فیصلہ ہو چکا اب زہر کھا لو اے دوست الوداع۔“
یہ کہہ کر پادری نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر کچھ لمحوں تک دعا مانگتا رہا۔
آخر کار مجلس شوری کے سرکردہ رکن نے باصابطہ طور پر بآواز بلند پوچھا۔ " کیا روشنی سفید ہے یا سرخ ؟“
نام (مڑ کر اور برف کی طرف دیکھ کر) " آفتاب کے نکلنے کا وقت ہو چکا مگر مطلع کا رنگ ابھی تک سفید ہے۔ “
آٹر (فرانسسکو کے کان میں ) " جلدی !جلدی !“ فرانسسکو نے اپنا ہاتھ منہ کی طرف بڑھایا مگر فوراً اسکو ایک خیال آیا اور اس نے کہا۔ " یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ میں خودکشی نہیں کرونگا وہ مجھے سانپ کے آگے پھینکتے ہیں تو پھینکیں۔“
قدرت نے اس وقت فرانسسکو کی دستگیری کی اور اس کے نورایمان کی حجت اس کے آڑے آئی۔
 

موجو

لائبریرین
266
واقعہ سے لوگوں میں عام جوش پیدا ہوگیا تھا کیونکہ ظلمات میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مطلع کی سفیدی دفعتاً مبدل بہ سرخی ہوجائے لوگوں کو اب عام طور پر یہ خیال پیدا ہوا کہ دیوتا سچے تھے انہیں ناحق گرایا گیا۔ جب ٹام نے دیکھا کہ آفتاب نکل آیا ہے دوتا گرائے جاچکے ہیں اور لوگ مجھکو جھوٹا شک کی نگا ہ سے دیکھ رہے ہیں اور مجھ سے جواب طلب کرنا چاہتے ہیں تو و سراسیمہ ومضطرب ہوکر اِدہر اُدھر دیکھنے لگا ۔ ناگہاں اسکے دل میں ایک خیال آیا اور اُسنے بلند آواز سے سب کو مخاطب ہوکر کہا " ائے اہل ظلمات خاموش! تم نے دیکھ اکہ جھوٹے دیوتاؤں کے مارے جانے کے بعد سچے دعوتاؤں نے ہم سے جو ایک عرصہ کے لئے اُن کے وجود سے منکر ہوگئے تھے خوش ہوکر آفتاب کو پھر نکالا" ٹام کی اس معقول حجت نے سب کے شکوک رفع کردئیے۔
 

موجو

لائبریرین
267
بتیسواں باب

آٹر اور نہنگ کی لڑائی

آٹر ایک ہاتھ میں اپنا دو پھلا چھرا لیے اور دوسرے ہاتھ سے چٹان کے کنارہ کو تھامتا ہوا سانپ کے غارکے منہ تک پہنچا اور بااحتیاطتمام اندر داخل ہوا تاریکی اسقدر تھی کہ کچھ نظر نہ آتا تھا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ اپنے حوالیات کا عادی ہوگیا اور اُسے سب کچھ بخوبی نظر آنے لگا کینوکہ بیشتر ذکر ہوچکا ہے کہ آٹر کی بینائی نہایت تیز تھی اور وہ بلّی کی طرح اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا تھا۔ ایک کونے میں اُسے ایک چوڑا سا پتھر مل گیا اور بآرام تمام وہ اس پر بیٹھ گیا اور چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اسکی نگاہ ایک میز کی شکل کی چٹان پر جو آٹھ گز کے فاصلہ پر پانی کی سطح کے اوپر اُٹھی ہوئی تھی پڑی۔ اُسے دیکھ کر وہ بولا کہ نہنگ غالباً اس چٹان پر آکر لیٹا کرتا ہے میں جاکر دیکھوں تو سہی کہ اس چٹان کی بناوٹ کیسی ہے۔ اس خیال سے اس نے ایک آگے بڑھایا اور اسی وقت غار کے منہ میں سے روشنی کی ایک شعاع اُس مقام پر پڑی جسکے امتحان کے لئے وہ بڑھا تھا۔ روشنی کے پڑتے ہی آٹر کے منہ سے ایک ندائے خوف بلند ہوئی کیونکہ جس شئے کو وہ پتھر کی چپٹی چٹان سمجھا تھا وہ نہنگ کا سر تھا اور اسمیں سے دو خوفناک آنکھیں چمک رہی تھیں اور اُسکے منہ میں غریب فرانسسکو کی لاش تھی۔ آٹر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اگر میں کچھ دیر ٹھرا رہوں تو وہ لاش کو کھانے لگے گا اور کھا چکنے کے بعد جو وہ سئے گا تو میں اُس پر حملہ کروں گا۔ کیونکہ نہنگوں کی یہ عادت ہوتی کہ جب انکا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ مگن ہوکر سو جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر وہ بیٹھ گیا اور نہنگ کی آنکھوں کی چمک کی طرف ٹکٹی باندھ کر دیکھنے لگا۔

اس وضع سے بیٹھے بیٹھے آٹر پر محویت اور بے خودی کا ایک عالم طاری ہوگیا اور اُسے معلوم نہیں کتنی دیر اسطرح بیٹھے ہوئے گزر گئی لیکن آخر کار اُسے یہ محسوس ہونے لگا کہ نہنگ کی آنکھیں
 

موجو

لائبریرین
268

اسکی آنکھوں سے لڑرہی ہیں اور اُسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں کچھ دیر تک وہ اِس ناپاک سحر کے خلاف جدوجہد کرتا رہا اور پھر خوف کھاکر اُسنے چاہا کہ بھاگ جائے اور اُن خبیث آنکھوں کی کشش کے اثر سے بچے مگر افسوس اب وہ وقت نہ رہا تھا کہ وہ اپنی قوت ارادی سے کام لے سکے۔ اُسنے ہزار کوشش کی مگر ایک قدم پیچھے نہ ہٹاسکا۔ اُسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نہنگ کی آنکھیں بے اختیار اُسے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں ایک قدم اُسنے آگے بڑھایا (دیوہیکل بت کے کنگرہ پر سے ایک دفعہ اور کودنا وہ لاکھ حصہ زیادہ پسند کرتا) اور نہنگ کی آنکھوں کی چمک زیادہ خوفناک نظر آنے لگی۔

اِس وقت آٹر نے بیکسی اور پاس کے عالم میں اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو چھپا لیا اور اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور جی ہی جی میں یوں باتیں کرنے لگا۔

"جس سے میں لڑتا ہوں وہ ایک دیو ہے اور اُس کی آنکھوں میں جادو بھرا ہے افسوس یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میں ایک حبشی بونا ہوکر ایک خبیث روحوں کے سردار سے جسنے نہنگ کی شکل اختیار کر رکھی ہے مقابلہ کروں"

اِس وقت بھی گو نہنگ کی اور اُس کی آنکھیں چار نہ تھیں مگر اُسے معلوم ہوتا تھا کہ نہنگ کی آنکھوں کی ناپاک چمک اُسے اپنی طرف کھینث رہی ہے۔ تاہم چونکہ وہ اُنہیں دیکھ نہ رہا تھا اِ س لئے اُس کی جبلّی ہمت اور جراءت پھر عود کر آئی اور وہ کہنے لگا۔

"آٹر اگر تو اسی طرح کچھ دیر پڑا رہا تو دیو کا جادو تجھ پر چل جائے گا اور وہ تجھے نگل جائے گا۔ ائے آٹر تو دیوتا رہ چکا ہے اِ سلئے تجھے معمولی انسانوں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے تیر امیاں لیونارڈ اگر پاس کھڑا ہو تو تجھے یوں اوندھا پڑا دیکھ کر وہ کیا کہے؟ غالباً وہ یہ کہے گا کہ اس شخص کو میں بہادری اور شجاعت کی لافیں مارتے سنتا تھا مگر یہ تو سخت بزدل ہے اب آٹر کیا تو ایسا بے غیرت ہے کہ بزدلی کا داغ لیکر اس دنیا سے جائے؟"

آٹر کے پریشان دماغ نے لیونارڈ کی تصویر سچ مچ اُسکی آنکھوں کے سامنے لاکر کھڑی کردی جو تمسخر کی راہ سے اُسے یہ کہہ رہا تھا " واہ آٹر دیکھ لی تیری بہادری"

بونے کی رگِ حمیت و شجاعت اب جوش میں آگئی اور اُس نے "میاں ایسا ہرگز نہ ہوگا" کا نعرہ اس زور سے مارا کہ تمام غار گونچ اُٹھا۔ پھر وہ اپنا دو پھل والا چُھرا دائیں ہاتھ میں پکڑ کر سیدھا اپنے حریف
 

موجو

لائبریرین
269

[تصویر]
آٹر اپنا دو پھل والا چھرا نہنگ کی خوفناک تھوتھنی میں اتنی دور تک لے گیا کہ اُس کا ہاتھ کہنی تک اندر چلا گیا (متعلقہ صفحہ 270)
 

موجو

لائبریرین
270

کی طرف چھپٹا۔ نہنگ کی آنکھیں اب مشعل کی طرح چمکنے لگیں۔ آٹر کا نعرہ سن کر اُس نے اپنے تمام جسم کو جنبش دی اور آہستہ آہستہ اپنا سر اُٹھا کریکایک چٹان پر سے پانی میں کود پڑا اور اس زور سے نیچے کودا کہ تمام غارمیں پانی اچھلنے سے اندھیرا چھا گیا۔

جوانا نے خوف اور غصہ کی حالت میں پھر ایک نعرہ مارا اس نعرہ سے اسکا حریف جھلّا اٹھا اور منہ پھاڑ کر اتنا نزدیک آگیا کہ آٹر میں اور اُسمیں چھ ۶ فٹ کا فاصلہ رہ گیا۔ آٹر نے دیکھ اکہ اب موقع ہے نہایت چالاکی اور بہادری کے ساتھ اُسنے ایک جست بھری اور اپنا دو پھل والا چُھرا اُسکی خوفناک تھوتھنی میں اتنی دور تک لے گیا کہ اُس کا ہاتھ کہنی تک اندر چلا گیا۔ چھرے کا ایک سرا تالو کی طرف اور دوسرا نیچے زبان کی طرف تھا نہنگ نے یہ دیکھ کر کہ اُس کا شکار اُس کے منہ میں ہے چاہا کہ اُسے چبا ڈالے اور اِسلئے اُسنے اپنا منہ بند کرنے کی کوشش کی مگر جبڑوں کو ملاتے ہی چھرے کی دونوں نوکیں اپنا کام کر گئیں اور جوں جوں اُسنے جدوجہد کی چھرے کا اوپر کا سرا تالو میں اور نیچے کا زبان میں زیادہ گھستا چلا گیا۔ آٹر نے ایک لمحہ کے بعد اپنا ہاتھ نہنگ کے منہ میں سے کھینچ لیا اور پھاند کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔

اسوقت اگر نہنگ کے منہ سے چھرا نکل جاتا تو آٹر کی خیر نہ تھی مگر چُھرے کا لوہا نہایت عمہ تھا اور جس تسمہ سے اُسکے دونوں قبضے ایک دوسرے کے ساتھ باندھے گئے تھے وہ بھی نہایت مضبوط تھا نہنگ درد کے مارے بیتاب ہوگیا اور اس تکہیف میں اُس کو اپنے حریف کے موجود ہونے کا خیال نہ رہا اُس نے پیچ وتاب کھائے اور اِدھر اُدھر لوٹا ُسکی دم چابک کی طرح چٹان پر لگتی تھی اور وہ منہ کھول کر چُھرا نکالنے کی کوشش کرتا تھا مگر ہر ایک کوشش کے ساتھ چھرے کے دونوں پھل اُس کے مُنہ میں اوپر تلے اور گہرے دھنستے جاتے تھے۔ آخر کار وہ بیقرار ہوکر آگے کی طرف جھپٹا تسمہ جو آٹر نے اپنی کمر سے دس بارہ ہاتھ کھلا چھوڑ رکھا تھا اُسکے ساتھ ساتھ پانی میں کھینچتا چلا گیا۔ جب بالکل کھنچ گیا تو اُس کو جھٹکے لگنے شروع ہوئے نہنگ نے تین بار چکر کھایا چوتھے بار اُسنے پانی میں غوطہ لگایا اور آٹر بھی اُسکے ساتھ ساتھ پانی کی تہ میں چلا۔ اگر کوئی اور شخص ہوتا تو اُسکا دم رک جاتا اور وہ مرجاتا مگر آٹر سانس بند رکھنے ‘تیرنے اور غوطہ لگانے میں آبی جانوروں سے کچھ کم نہ تھا۔ نہنگ نے دوبارہ چشمے کی تہ تک جو نہایت گہری تھی غوطہ لگایا اور بونے کو اپنے ساتھ کھینچ لے گیا مگر ہر بار وہ پانی کے اوپر سانس لینے کے لئے نکلا۔ تیسری دفعہ اُسنے پھر غوطہ لگایا اور بونے کو اُس جگہ لے گیا جہاں ندی کا پانی مدور سوراخ میں سے باہر
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 231

آئے۔ پھر نام نے کاہن اور ساگا سے علیحدہ ہو کر کچھ گفتگو کی اور ان کو رخصت کیا ۔ اس کے بعد اس نے سوا سے کہا۔ ”بیٹی پہلے مجھے یہ بتا کہ ایکا کی درگاہ میں کیونکر تیری رسائی ہو۔“

سوا: ”پہلے آپ ایک قسم کھائیں اور جب تک آپ وہ قسم نہ کھائیں گے میں آپ کو اپنے متعلق ایک لفظ نہیں بتاؤں گی۔ آپ ایکا کے خون کی قسم کھائیے کہ آپ اس ملکہ کو جس کے ساتھ میں یہاں آئی ہوں کوئی ضرر نہیں پہنچنے دیں گے۔“

نام : ”بیٹی تو مجھ سے کیوں یہ قسم لے رہی ہے ؟“

سوا: ” اس واسطے کہ مجھ کو اس سے دلی انس اور محبت ہے۔ اور نیز اس واسطے کہ اگر آپ اس کی جان کی حفاظت کریں گے تو آپ کی اس میں عزّت افزائی ہو گی۔“

نام: ”مجھ انسان ضعیف البیان کی کیا حقیقت ہے کہ دیوتاؤں کے مخالف کچھ بھی کروں۔ خیر بیٹنی میں ایکا کے خون کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں نے اپنا وعدہ وفا نہ کیا تو جال دیوتا مجھے اسی طرح قتل کرے جیسا اس نے ایکا کو قتل کیا تھا۔“

تب سوا نے اپنی رام کہانی شروع کی اور اوّل سے جب وہ اپنے ملک سے فرار ہوئی تھی آخر تک جب لیونارڈ سے اس کی تکرار ہوئی سنائی اور اس میں خاص طور پر اس وعدہ کا ذکر کیا جو اس نے لیونارڈ سے کیا تھا۔

نام اپنی بیٹی کی زبانی یہ ماجرا سن کر ایک سکتہ کے عالم میں رہ گیا اور آخر کار اس نے کہا۔ ”یہ عورت جو تمہاری مالکہ ہے اور جو اس قدر دلیر ہے کہ ہماری دیبی کا مضحکہ اڑوانے سے نہیں ٹلی خوش قسمت ہے کہ اس کی جان بخشی کے لیے تو نے مجھ سے پہلے قسم لے لی۔ ورنہ میں اس عذاب سے اس کو مارتا کہ وہ بھی یاد ہی کرتی خیر باقی کے تو کہیں نہیں گئے۔ یہ کہہ کر وہ فوراً اُٹھ کھڑا ہوا ۔

سوا: ”ٹھہرے آپ نے کیا تجویز سوچتی ہے؟“

نام : ”اس میں کیا تجویز سوچنی ہے بس اب ان کو کھینچ کر مندر میں لے آتا ہوں اور سب کے سامنے رسوا کرتا ہوں۔“

سوا : ” اس طرح پھر آپ اپنے آپ کو بھی رسوا کریں گے کیونکہ آپ ہی نے پہلے ان کو دیوتا مشتہر کیا۔ میں آپ کو ایک اور تجویز بتاتی ہوں۔ وہ یہ کہ آج آپ اُن کے پاس جائیں اور بصد و جز و منت یوں کہیں

صفحہ 232

میں نے ساگا اور اس کے ساتھ کی دوسری عورتوں کی زبانی سنا ہے کہ دیوتا جال نے ان کی طرف مخاطب ہو کر چند کلمات اس قسم کے کہے جن سے اس کی شان ربانی پر بٹہ لگتا ہے۔ مجھ کو ان کی اس بات پر یقین نہیں آتا لیکن امتحاناً اگر کل صبح تک مطلع صاف نہ ہوا تو ان عورتوں کی سچائی ظاہر ہو جائے گی۔“

نام: ” اور اگر مطلع صاف ہو گیا تو پھر؟“

سوا: ” غالباً صاف نہیں ہو گا اور اگر ہو بھی گیا تو پھر کوئی اور تجویز سوچیں گے۔“

نام: ” بیٹی تم مجھ سے قسم لے لی ہے کہ تمہاری مالکہ ضرر سے محفوظ رہے لیکن میں نہیں جانتا کہ جب وہ تمام کاہنوں اور عوام کے سامنے جھوٹی ثابت ہوئی تو میں اس کو کیونکہ بچا سکوں گا۔“

سوا: ” اس کا بچنا ہر صورت میں ممکن ہے۔ ابّا جان آپ نے ایک گورے آدمی کو دیکھا ہو گا۔ نجات دهنده نہیں دوسرا۔ اگر اُس شخص کو کسی طرح کی پوشاک پہنا دی جائے اور چاندنی میں اس کو بت کے اوپر بٹھا دیا جائے تو کون کہے گا کہ ایکا دیبی بیٹھی ہوئی نہیں ہے ؟“

نام: ” اور جو باقی ہیں انہیں تم قتل کروانا چاہتی ہو ؟ “

سوا: ”نہیں کچھ دنوں کے لئے میں نجات د ہند کو بھی زندہ رہنے دوں گی ۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کو آپ ایکا سمجھتے ہیں اس سے اس کو محبت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ اپنے ملک کی رسم کے مطابق شادی کرے۔ اب میرا یہ منشا ہے کہ ایکا کا نکاح کسی اور سے ہو جائے۔“​

نام : ”کس سے؟“​

سوا : ”آلفن سے جو دل و جان سے اس پر فدا ہے اس طرح پر وہ آپ کا مطیع اور فرمانبردار ہو جائے گا اور جو آپ کہیں گے وہ مانے گا۔“​

نام : ”بیٹی تیری تجویز نہایت معقول ہے اور جو باتیں تو نے مجھ کو بتائی ہیں وہ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھیں۔ آؤ اب ہم کھانا کھائیں۔ اس کے بعد ہم ان جھوٹے دیوتاؤں کے پاس جنہوں نے میرے اقتدار میں رخنہ اندازی کی ہے چلیں گے۔“

اب ہم دوسری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لیونارڈ ، جوانا، فرانسسکو اور آٹر پر یہ ایک نہایت مصیبت کا وقت تھا۔ وہ کچھ گھنٹوں تک خاموش بیٹھے رہے۔ بد قسمتی نے ان کو آ گھیرا تھا۔ ان کا انجام

صفحہ 233

نزدیک معلوم ہوتا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ہم اس آڑے وقت میں کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ میرے ہتھیار جو ہمارے کسی قدر مددگار ہو سکتے تھے وہ بھی اب ہمارے پاس نہیں۔

سب خاموش بیٹھے تھے مگر آٹر جوش و خروش میں اِدھر اُدھر چکر لگا رہا تھا اور سوا اور ساگا پر دانش پیس پیس کر لعنت اور نفرین بھیج رہا تھا۔ آخر کار پردہ اُٹھا کر وہ اُٹھا کر وہ یکایک کمرہ سے نکل گیا۔ لیونارڈ سمجھا کہ شاید شراب پینے گیا ہو گا مگر اس کا خیال غلط ثابت ہوا کیونکہ جب وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ کچھ عورتیں جمع ہیں جن کے درمیان ساگا چیخ چیخ کر رو رہی ہے اور آٹر ایک تازیانہ سے اس کا چمڑا اُدھیڑ رہا ہے۔ جب لیونارڈ نزدیک پہنچا تو اس نے کہا۔ ”آٹر کیا کر رہا ہے ۔“

آٹر : یہاں میں اس عورت کو یہ بتا رہا ہوں کہ دیوتاؤں سے فریب کرنا اچھا نہیں۔“ پھر زور سے جھٹکا دے کر اس نے ساگا کو کہا۔ ”جا دفع ہو پھر نہ مجھے منہ دکھائیو۔“

وہ بے چاری آٹر کو اپنی زبان میں گالیاں دیتی ہوئی روتی اور چلاتی چلی گئی۔

لیونارڈ: ”آٹر تم نے تو اپنے دل کا ارمان نکال لیا لیکن ساگا بھی اپنے دل کا ارمان نکالے بغیر صبر نہ کرے گی۔ اب چلے آؤ۔“

یہ کہہ کر وہ کمرہ کی طرف بڑھا اور آٹر کے پیچھے پیچھے تھا۔ ابھی وہ کمرہ میں آ کر بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک قاصد نے آ کر خبر دی کہ ”سردار کاہن صاحب باہر کھڑے ہیں اور آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔“

جوانا : (آہ بھر کر) ”اچھا اُس کو اندر آنے دو۔“

جب نام اندر داخل ہوا تو جوانا اور بونے کو جھک کر سلام کیا اور کہنے لگا۔

”اے دیوتا! میں اہلِ ظلمات کی طرف کی طرف سے تمہاری خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ تمہارے دیوتا ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور تمہاری تعظیم و تکریم ہم سب پر لازم ہے۔ مگر میں انہیں جانتا کہ جس صورت میں ہم کو امن و آسائش کی امید ہونی چاہیے تھی ہم پر کیوں دن بدن مصیبت نازل ہوتی جاتی ہے۔ آفتاب نہیں نکلتا، فصلوں کا ستیاناس ہو رہا ہے اور قحط کے آثار ابھی سے نظر آ رہے ہیں۔ اے دیوتاؤ رم کو یہ قدرت حاصل ہے کہ اگر چاہو تو ایک دن ہر طرف آسودگی اور کشاکش نظر آنے لگے۔“

صفحہ 234

جوانا۔ ”اور جو تمہارے اعمال تمہاری آسودگی و کشائش کے متقاضی ہوں ت پھر کیا ؟“

نام ۔ ”پھر یہ کہ تم ہماری حالت زار پر رحم کھا کر کل چاند نکلنے کے قریب مندر میں آؤ۔ وہاں اہلِ ظلمات میری وساطت سے تمہاری خدمت میں کچھ عرض کریں گے ۔“

جوانا۔ ” اور اگر ہمارا آنا نہ ہوا ؟“

نام۔ ”تم کو آنا پڑے گا۔ لوگوں کا حکم ہے اور اس حکم کی تعمیل تم پر لازم ہے۔“

جوانا۔ ”خبردار! نام کیا کہہ رہا ہے؟ بندے اور ملک کو حکم سنائیں تیری عقل تو نہیں گئی ہے؟ اب سن مجھ سے کچھ اور کہنا ہے۔ میرے خدام کو غولوں کی طرح یکے بعد دیگرے غائب ہو گئے اور جہاں وہ تھے وہاں بجائے ان کے میں نے (کاہنوں کے اُن چہروں کی طرف اشارہ کر کے جو نو آبادی کے لوگوں کے کمرہ میں لیونارڈ کو ملے تھے) اس قسم کے چہرے پائے ہیں یہ تیری ہی شرارت معلوم ہوتی ہے ۔ اس کا تیرے پاس کیا جواب ہے؟ اور یہ جو کہتا ہے کہ اہل ظلمات کا حکم ہے کہ ہم مندر میں آئیں اس کے متعلق میں یہ کہتی ہوں کہ اگر ہماری اپنی مرضی جانے کی نہ ہوتی تو ہم کھی وہاں نہ جاتے۔ لیکن یہ خود ہماری خواہش ہے کہ ہم اپنے بندوں کی آنکھوں کو اپنی شانِ ربانی کے نور سے منوّر کر دیں۔ اس لیے ہم کل رات طلوعِ ماہتاب کے قریب آئیں گے مگر خبردار ایسا نہ ہو کہ تمہاری شرارتوں کے باعث ہمیں اپنا دستِ شفقت ہمارے سر پر سے اُٹھا لینا پڑے اور تم پر قہر اور غضب کی آگ نازل ہو۔“

نام۔ ”اے ایکا تم سچ دیوی ہو اور یہ بات تمہارے علم سے باہر نہیں ہو سکتی کہ تمہارے نوکر کہاں گئے ہیں ۔ہم اہل ظلمات تمہارے کلماتِ شفقت آمیز کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ میری تم سے ا یک اور عرض ہے وہ یہ کہ جو عورت سانپ کی زوجہ بنائی گئی تھی اور جو میری بھتیجی ساگا ہے اس کو کسی ظالم نے محل میں سخت مارا۔ جب میں یہاں آ رہا تھا تو میں نے اس کو دیکھا کہ روتی اور کراہتی جا رہی ہے اور اس کا دامن خون سے آلودہ ہے۔ اے معزز دیوتاؤ میری تم سے یہ التماس ہے کہ اس خبیث ظالم کا جس نے اُسے مارا تھا پتہ لگاؤ اور انتقام لو۔ اب میں جاتا ہوں۔“

یہ کہہ کر نام اور اس کے ساتھ کاہنوں نے جوانا کو جھک کر سلام کیا اور کمرہ سے باہر نکل گئے۔

صفحہ 235

اٹھائیسواں باب

جوانا کی خلاف بیانی

دوسرا دن حسب معمول گزر گیا۔ کہرا اور جاڑے کا وہی عالم رہا۔ غروب آفتاب کے قریب لیونارڈ اور فرانسسکو اپنے کمرہ سے باہر نکل کر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔ ناگاہ اُن کی نگاہ مندر کی طرف پڑی۔ دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہو رہے ہیں اور لیونارڈ اور فرانسسکو کی طرف گھور گھر کر دیکھ رہے ہیں۔

لیونارڈ۔ ”اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج ہم پر کیا تباہی آئے گی۔

بگڑی ہوئی تقدیر بنائی نہیں جاتی

مگر مجھ کو جوانا کی فکر ہے۔ میری جو پوچھو تو اس کی سلامتی کے لئے اپنی جان بھی دے دینے کو رضامند ہوں۔“

فرانسسکو۔ ”اور مجھ سے پوچھتے ہو تو مسٹر لیونارڈ مین میں پہلے ہی جان سے بیزار بیٹھا ہوں۔ مجھے ہمیشہ مرنے کا خیال رہا ہے اور اگر میں مر جاؤں گا تو مجھے کوئی اس کا اندیشہ نہیں۔ جوانا کی تم کچھ فکر نہ کرو۔ میرا گمان ہے کہ غالباً وہ بچ جائے گی۔“

یہ کہہ کر وہ واپس ہوئے اور اس کمرے میں پہنچے جہاں جوانا غمگین اور افسردہ دل بیٹھی تھی۔

جوانا۔ ”کہو آٹر کیا خبر ہے؟“

لیونارڈ۔ ”کیا کہوں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ حالت نازک نظر آتی ہے۔ مندر کے گرد ایک جم غفیر جمع ہو رہا ہے اور پھاٹک کے قریب بھی بہت سے آدمی غل غپاڑا مچا رہے ہیں۔“

جوانا نے کچھ جواب نہ دیا اور خاموش بیٹھی رہی۔ اتنے میں کسی نے باہر سے آواز دی۔ یہ آواز آلفن کی تھی۔ جب وہ اندر آیا تو جوانا نے اس سے صورت حال پوچھی۔

آلفن۔ ”اے ملکہ مجھ کو نہایت تعجب اور افسوس آتا ہے کہ نام اور ا س کے کاہن جن پر تم کو قادر مطلق ہونے کی وجہ سے ہر طرح کا اختیار حاصل ہے، تمہارے احاطہ انقیاد سے باہر نکلے جاتے ہیں۔ ایک دن

صفحہ 236

میں ان کی حالت کیا سے یا ہو گئی ہے اور وہ تمہاری مخالفت کر رہے ہیں اور لوگوں کو پھسلاتے پھرتے ہیں۔ میں نے سنا ہے آج مندر میں ایک بڑی کونسل ہو گی جس میں تم کو حاضر ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ یہ کیا ماجرا ہے؟“

لیونارڈ کو اب یقین واثق ہو گیا کہ معاملہ بگڑنے لگا ہے۔ اس نے انگریزی میں جوانا سے کہا کہ ”بہتے ہو گا کہ اس شخص کو اپنی سچی کیفیت بتا سی جائے۔ ممکن ہے کہ اس سے مدد ملے۔“

جوانا نے اس کی بات سے اتفاق کیا اور وہ کہنے لگی۔ ”آلفن میں تم ست ایک بات کہنے والی ہوں اگرچہ اسے سن کر تم کو سخت تعجب ہو گا اور ہماری وقعت تمہاری نظروں میں وہ نہ رہے گی جو اب ہے، لیکن تمہاری جبلی شرافت سے مجھے امید ہے کہ تم ہر حالت میں ہمارا ساتھ دو گے۔ دیکھو یہاں کوئی سننے والا تو نہیں۔ میں دیبی یا ملکہ نہیں ہوں۔ مجھ کو آئندہ ملکہ نہ کہنا۔ میں ایک معمولی عورت ہوں اور فانی ہونے کے اعتبار سے عام انسانوں میں میرا شمار ہے۔ اور یہ کانا بونا جس کو دیوتا سمجھتے ہو، حقیقت میں ایک آدمی ہے۔“

یہ سن کر آلفن حیران و ششدر رہ گیا اور گردن جھکا کر کچھ دیر سوچ میں پڑا رہا۔ جوانا اس کے چہرہ کی طرف دیکھتی رہی۔ آخر کار آلفن نے اپنا سر اٹھایا اور کہنے لگا۔

”آپ کی حقیقت مجھ پر کسی قدر کھل گئی مگر یہ جو آپ فرماتے ہیں کہ میں آپ کو ملکہ نہ کہوں مجھے ہرگز گوارا نہیں ہے کیونکہ انسانوں میں بھی آپ ملکہ کہلانے کی مستحق ہیں۔ دنیا کے پردہ پر کوئی عورت نہ ہو گی جو حسن ، صورت، حسنِ سیرت، بہادری اور استقلال میں آپ کی نظیر ہو۔“

لیونارڈ (چونک کر، دل میں) ”یہ نیا گل کھلا۔ کیا خوب! یہ تو میرا ہی رقیب نکلا بن چلا۔“

آلفن (اپنی سلسلۂ تقریر کو جاری رکھ کر) ”اے ملکہ ! آپ اس خوشی اور مسرت کا اندازہ نہیں فرما سکتیں جو میرے دل میں اس بات کے معلوم ہونے سے پیدا ہوئی کہ آپ دیبی نہیں بلکہ انسان فانی ہیں۔ دیبیوں میں اور ہم میں عالم غیر مرئی کا ایک حجاب حائل ہے جسے عشق اور پرستش کی قوتیں اٹھا نہیں سکتیں۔ لیکن عورتیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور ہمارے ہاتھ چھو سکتے ہیں وہ فوری طور پر ہمارے تعیش کا مورد اور مہبط ہو سکتی ہیں۔ عشق حقیقی کاہنوں اور راہبوں کو مبارک ہو۔ ہم تو عشق مجازی کا دم پھرتے ہیں۔“

صفحہ 237

یہ کہہ کر اس نے جوانا کے آگے اپنے سر کو اس انداز سے خم کیا کہ یورپ کا کوئی مہذب سے مہذب اور شائستہ سے شائستہ جنٹلمین ایک لیڈی کی تعظیم کے لیے اس سے بہتر نہیں جھک سکتا تھا۔

لیونارڈ (دل میں) ”لیونارڈ تجھے مردم شناسی کا بڑا زعم تھا مگر تو خرف ہی نکلا۔ اپنے معشوق کو بلا حیلہ و حجت رقیب کے حوالے کر دینا تیرا ہی کام ہے۔ اس وحشی بادشاہ سے تجھے اچھی مدد ملی۔

جو طبیب اپنا تھا، دل اس کا کسی پر زار ہے

مژدہ باد اے مرگ عِیسیٰ آپ ہی بیمار ہے

جوانا کو آلفن کی بے حجاب گفتگو پر نہایت غیرت اور شرم آئی مگر وقت کا تقاضا نہ تھا کہ وہ رنج اور غصّہ کو اپنے چہرے پر ظاہر ہونے دے۔ اس لئے اس نے آلفن سے کہا۔

”دیکھو آلفن ۔ یہ وقت رنگین اور مرصع فقرے تراشنے کا نہیں ہے۔ کون جانتا ہے کہ دن چڑھے تک میں زندہ بھی رہوں گی یا نہیں، سنو ہماری داستان یہ ہے ۔ ہم یہاں ان لعلوں کی غرض سے آئے تھے جن تم ایکا کا خون بتاتے ہو اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے میں نے نجات دہندہ کو اپنے ساتھ آنے کی ترغیب دی تھی۔ اس شخص نے میری خاطر اس قدر تکلیفیں اور مصیبتیں گوارا کی ہے۔“

آلفن (رکھاوٹ سے) ”اے ملکہ گستاخی معاف، کیا میں آپ سے یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ اس گورے آدمی سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟“

اس ناگہانی سوال سے جوانا ہکا بکا رہ گئی مگر یہ وقت ایسا نہ تھا کہ وہ جواب کے سوچنے سے اپنا تذبذب آلفن پر ظاہر ہونے دے اس لئے اگرچہ اس سے پہلے اس نے کبھی اپنی خود داری اور رعونت کو ہاتھ سے نہیں دیا مگرا س وقت اس کو بہ مصلحت مجبوری کہنا پڑا کہ ”یہ شخص میرا شوہر ہے۔“

آلفن ”مگر آپ کو اس سے محبت ہے یا نہیں۔ اور اگر وہ مر گیا تو کیا آپ کو افسوس ہو گا ؟“

اس سوال نے جوانا کو اور بھی چہ کنم میں ڈال دیا لیکن ایک دفعہ قدم بڑھا کر اب پیچھے ہٹنے کا موقعہ نہ رہا تھا اس لئے اس دلدل میں اسے اپنے آپ کو اور گہرا دھنسا اور آلفن کو جواب دیا ۔

”دیکھو آلفن تم اس امر کے ہرگز مجاز نہیں کہ مجھ سے اس قسم کے سوالات کرو تاہم مجھ کو تمہارے جواب دینے میں کوئی عذر نہیں۔ مجھ کو اس شخص سے محبت ہے اور سچی محبت ہے اور میں اس پر اپنی جان تک قربان کرنے کو راضی ہوں۔“

صفحہ 238

لیونارڈ نے بمشکل ایک ندائے تعجب کو روکا جوانا کے اس بیان کو اس نے تحیر آمیز مسرت کے ساتھ سنا تھا وہ اب دوسرے ہی رنگ میں ظاہر ہوئی تھی۔ اس سے پہلے اس نے اپنے عشق کو ایسا مخفی رکھا تھا کہ نہ زبان کے ذریعہ سے اسے ظاہر ہونے دیا تھا اور نہ اشارہ کنایہ کے ذریعہ اور گو اس مقناطیسی اثر نے جو اپنی خاموش زبان سے مطلوب کے دل کا قصہ طالب کو سناتا ہے۔ ایک عرصہ سے لیونارڈ کو جوانا کی محبت کا راز جا کر سنا دیا تھا مگر

شنیده کی بود مانند دیده

جوانا کے تصدیق بالقلب کے نہانی راز کو اس کے اقرار باللسان کے عیانی اظہار سے مطابق پا کر لیونارڈ کا احتمال یقین۔ یقین عین الیقین اور عین الیقین حق الیقین کے درجہ کو پہنچ گیا اور اسے آج اس قول کی صداقت معلوم ہو گئی کہ

دلہارا بدلہا ارہ ا باشد

آلفن (افسردگی سے) ”بس اب مجھے جواب شافی مل گیا۔ اب اپنی داستان ختم کیجئے۔

جوانا: ”سوا جو میری ایک خادمہ تھی اسی ملک کے رہنے والی تمہارے سردار کاہن نام کی بیٹی ہے۔ چالیس سال ہوئے وہ سانپ کی زوجیت کے لئے منتخب ہوئی تھی اور ا س لیے وہ ڈر کر یہاں سے فرار ہو گئی۔“

آلفن (قطع کلام کر کے) اس وقت وہ کہاں ہے ؟“

جوانا ”معلوم نہیں۔ گزشتہ رات وہ میرے دوسرے نوکروں کی طرح کہاں غائب ہو گئی؟“

آلفن : ”اچھا پھر ؟“

جوانا ”جب میری شادی نجات دھندہ سے ہو چکی تو سوا نے جو کئی سال تک میری دایہ رہ چکی تھی، مجھ سے ایک دن یہ کہا کہ چونکہ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں میں چاہتی ہوں کہ میں اپنے ملک کو واپس جاؤں اور وہیں میرا مرنا ہو۔“

آٹر ۔ ”کاش اس کی دعا قبول ہوتی۔“

جوانا۔ ”اور اس نے ہم سے کہا کہ اگر ہم اس کو وہاں پہنا دیں گے تو وہ ہم کو نہایت بیش بہا لعلوں اور جواہرات کا پتہ دے بتائے گی۔ چنانچہ اس نے بطور نمونہ کے ایک نہایت عجیب لعل ہم کو دیا۔ میں نے اپنے

صفحہ 239

شوہر کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اس بڑھیا کو اس کے ملک میں پہنچا دے۔ وہ مجھ سے اتفاقِ راے ظاہر کر کے سفر ظلمات کے لئے کمر بستہ ہو گیا لیکن جب ہم اس پہاڑ کے قریب پہنچے جو سر زمین ظلمات کی حد پر واقع ہے تو سوا نے ہم سے کہا کہ اس ملک میں دراز قامت اور وحشی لوگ آباد ہیں وہ اگر ہم کو دیکھ پائیں گے تو ہم کو مور ڈالیں گے۔ اس لئے ہمارے بچنے کی یہی سبیل ہو سکتی ہے کہ اہل ظلمات کے درمیاں جو مدت سے ایکا اور جال کے واپس آنے کے منتظر ہیں جھوٹ موٹ کے دیبی اور دیوتا بن کر رہیں۔ اب آلفن انصاف سے دیکھو کہ آیا یہ تمام شورش جو دیکھ رہے ہو ہماری وجہ سے برپا ہوئی ہے یا اس بڑھیا عورت کی وجہ سے جس نے ہم کو دھوکا دے کر دام میں پھنسایا۔ ہاں اگر ہم کو اب کوئی آسرا ہے تو تمہارا ہے۔ ہم نے تمہیں سانپ سے بچایا اور تم نے قسم کھائی تھی کہ تم ہمارے مطیع اور فرمانبردار رہو گے۔ اب آگر تم چاہو تو ہماری مدد کر سکتے ہو۔“

آلفن ”اے ملکہ ! اول تو تم نے ہم سے دھوکا کیا اور اس صورت میں تمہاری مدد کرنا افترا پردازوں کی حمایت لینا ہے۔ دوئم میری جمیعت بہت کم ہے۔ میں تمام ملک کے لوگوں کے مقابلہ میں تم کو مدد نہیں دے سکتا۔ مزید براں تم یہ کہتی ہو کہ تمہیں نجات دھندہ سے دلی محبت ہے اور تم کو اس پر جان وار کر دینے میں بھی عذر نہ ہو گا ۔ اس صورت میں مجھ کو یہ کیونکر گوارا ہو سکتا ہے کہ میں تمہارا حامی اور معاون بنوں۔ اگر تمہارا دل میری طرف کچھ بھی مائل ہوتا تو میں۔۔۔۔۔ مگر اب تو صورتِ حالات دِگرگوں ہے۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا اے ملکہ اس سے کوئی بہتر دلیل پیش کرو۔“

جوانا۔ ” میرے پاس دو دلائل اور ہیں اور اگر تمہارے دل کی تسکین کے لئے وہ بھی کافی نہ ہو تو پھر ہم کو ہماری قسمت پر چھوڑ دو۔ اوّل تو یہ کہ ہم تمہارے سچے خیر خواہ ہیں اور تم پر ہم کو بھروسا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر تم کو سانپ کے مُنہ سے بچایا اور پھر اپنا تمام راز بے تمہارے کہے تم سے بیان کر دیا۔ اس لئے اگر ایفائے عہد اور دوستی کسی چیز کا نام ہے تو تم جو ایک ملک کے حاکم ہو ہمیں مدد دو۔ دوسرے یہ کہ ہمارا اور تمہارا حال ایک سا ہو گا۔ ہم اور تم دونوں نام کے ؐخالف ہیں۔ اگر ہم کو نام نے لوگوں کے آگے جھوٹا ثابت کر کے قتل کر ڈالا تو یقین ہے کہ اس کے بعد تم کو بھی تھوڑے سے عرصے میں سانپ کے آگے پھنکوا دے گا۔ پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ تم ہمارا ساتھ چھوڑ رہے ہو۔ کیا تم دیدہ دانستہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارو گے ۔“
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 240

آلفن ( کچھ دیر تامل کر کے )”اے ملکہ جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے تمہاری دوربینی اور عاقبت اندیشی صاف ظاہر ہوتی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر میری بجائے اس ملک کی فرمانروا ہوتیں تو یہی سردار کاہن نام تمہارے آستانہ پر آ کر جبین فرسائی کرتا اور اس کے کاہن تمہارے لکڑہاروں اور سقوں کا کام کرتے نظر آتے۔ مجھے اس وقت تمہاری دوسری دلیل سے بحث نہیں کیونکہ میں نام کی مخالفت اور اپنی ذاتی منفعت کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس بحث کے لئے وقت نہیں کیونکہ میں تمہاری دلیل اول کو نہایت معقول خیال کرتا ہوں۔ اے ملکہ اگرچہ میں ایک وحشی قوم کا حاکم ہوں اور مجھ میں اس قدر فہم و فراست نہیں جتنی تمہیں حاصل ہے لیکن پھر بھی میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ میں تین وصف ہیں۔ ایک تو میں عہد شکن نہیں ہوں۔ دوسرے میں نے دوست کو کبھی ساتھ نہیں چھوڑا۔ تیسرے میں کسی کا احسان نہیں بھولتا۔ اس لیے چونکہ میں تمہارا ساتھ دینے کے لیے ایک بار قسم کھا چکا ہوں، میں تمہاری جان کی حفاظت کے لئے لڑوں گا اور تمہارا مرتے دم تک ساتھ دوں گا۔ اے ملکہ تم کو یہ بھی اطمینان رہے کہ اگرچہ اس آدمی جس کو تم اپنا شوہر بتاتی ہو میرے نزدیک سر مو حقیقت نہیں ہے تاہم مجھ کو اس سے یا تمہارے دوسرے ساتھیوں سے کسی قسم کی عداوت نہیں اور میں کبھی ان کو مصیبت میں نہیں پھنسنے دوں گا۔ اب میں جاتا ہوں اور اپنے کپتانوں سے جو میرے طرفدار اور نام کے مخالف ہیں مشورہ کروں گا اور کچھ دیر بعد آ کر تمہیں مندر لے جاؤں گا۔“

یہ کہہ کر وہ جھکا اور سلام کر کے چلا گیا۔

لیونارڈ : ”جوانا اس وحشی کا قول سچ ہے واقعی تم کو ملکہ ہونا چاہیے تھا۔ ہم نے اپنے دل پر کس قدر جبر کر کے وہ باتیں اس سے کیں۔ اس کے لئے ایک ملکہ کا سا بڑا دل اور ایک ملکہ کا سا تحمل اور استقلال چاہیے تھا۔“

جوانا (سرد مہری سے) ”کون سے باتیں؟“

لیونارڈ : ”میری مراد ان باتوں سے ہے جو تم نے ہماری شادی کے ہو جانے اور نیز دوسرے امور کے متعلق کہیں۔“

جوانا : ”ہاں۔ میں سمجھی۔ تم جانتے ہو کہ کوئی وقت ایسا آ پڑتا ہے کہ آدمی کو

دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز

صفحہ 241

کے مقولہ پر کاربند ہونا پڑتا ہے۔ اگر میں ضرورت دیکھتی تو میں لامحالہ قسم کھا جاتی کہ میری شادی آٹر سے ہو چکی ہے اور میں اس پر ہزار جان سے عاشق ہوں یا اگر مجھے مجبوراً یہ کہنا پڑتا کہ مجھے اس وحشی بادشاہ سے جو فی الفور خوبرو اور طرحدار ہے دلی محبت ہے تو میں ایسا کہنے سے بھی نہ رکتی۔ اسی طرح جو کچھ میں نے تمہارے متعلق کہا وہ سراسر جھوٹ تھا اور اس کا ایک حرف سچ نہیں۔ دروغ بیانی میں مجھے آج سے سند امتیاز حاصل ہو گئی ہے۔“

لیونارڈ (غصہ کے مارے کانپ کر) ”دیکھو جوانا! جب تم دیکھو کہ میں عارضی تعلقات اور اتفاقی دوستیوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں تو اس وقت تم مجھے الزام دے لینا۔ اس قسم کے کلمات زبان سے نکال کت تم مجھے ابھی سے کیوں رسوا کر رہی ہو۔ اگر ہم کسی مہذب ملک میں ہوتے تو میں تم سے کبھی بات نہ کرتا۔“

جوانا میں ایک بڑا وصف یہ تھا کہ وہ دوسروں کے دل کو اپنے قابو میں رکھتی تھی۔ جب لیونارڈ کو اس نے خفا دیکھا تو اس نے کہا۔ ”لیونارڈ خفا کس بات پر ہوئے جاتے ہو؟ تم غنیمت نہیں جانتے کہ اس وقت ہم مل جل کر بیٹھے ہیں۔ کیا معلوم کہ تقدیر ہماری ان چہہ مگوئیوں پر ہنس رہی ہو اور ہمیں چند گھنٹوں کے بعد نہنگِ مرگ کا شکار بننا پڑے۔“

لیونارڈ: ”پھر سچ تو یہ ہے کہ تمہاری اس قسم کی باتیں مجھے نزع کی حالت میں بھی آزردہ خاطر کئے بغیر نہ رہیں گی۔ خیر گذشتہ را صلوۃ اگر تمہارے پاس زائد زہر ہو تو ہم سب کو تھوڑا تھوڑا دے دو۔ ممکن ہے ہم کو شام سے پہلے ا سکی ضرورت پڑے۔“

جوانا نے اپنے بالوں میں سے ٹٹول کر ایک چھوٹا سا چرمی خریطہ نکالا اور اس میں سے چنے کے برابر ایک بھوری رنگت کی گولی نکال کر تھوڑا تھوڑا زہر سب کو بانٹ دیا۔ فرانسسکو نے کسی قدر زہر لینے میں پس و پیش کی اور آٹر نے اپنا حصہ لیونارڈ کو دے ڈالا اور کہا۔ ”میاں لیجئے یہ بھی لے لیجئے۔ آپ کے کام آئے گا۔ مجھے ایسی موت پسند نہیں کہ آدمی اینٹھ کر تختہ ہو جائے اور پھر اس کی رنگت سبز ہو جائے۔ میں مروں گا تو پہلے یہ دیکھ کر مروں گا کہ سانپ کی شکل کیسی ہے۔“

صفحہ 242

انتیسواں باب

دیوتاؤں کہ قسمت کا فیصلہ

جوانا نے زہر کا خریطہ ابھی اپنے بالوں میں چھپا کر رکھا ہی تھا کہ اتنے میں پردہ اٹھا اور نام اندر داخل ہوا اور مؤدبانہ جھک کر بولا۔ ”اے دیوتاؤ ! چاند نکل آیا ہے اور آسمان بالکل صاف ہے۔ اب تم مندر کی طرف چلو اور جو کچھ اہل ظلمات تم سے کہنا چاہتے ہیں اس کو سنو۔“

جوانا اور آٹر بے کچھ کہے اُٹھ کر اس کے پیچھے ہو لئے اور لیونارڈ اور فرانسسکو نے بھی انکی تقلید کی۔ محل کے پھاٹک پر آلفن اور اس کے دو کپتان منتظر کھڑے تھے مگر آلفن کو جوانا سے گفتگو کرنے کا موقعہ نہ ملا ۔ بہت سے کاہن بھی جمع تھے جن میں سے کچھ آگے اور کچھ پیچھے ہو لئے اور یہ سب مل کر ایک ایسے رستہ سے ہوتے ہوئے مندر میں داخل ہوئے جو لیونارڈ نے ابھی تک نہیں دکھا تھا۔ وہاں پہلے کی طرح چاروں طرف آدمی جمع تھے۔ بت کے پاؤں کے قریب دو کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ نام نے دیوتاؤں کو لے جا کر ان کرسیوں پر بٹھا دیا اور لیونارڈ اور فرانسسکو ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔ ان کرسیوں کے سامنے نصف دائرہ کی شکل میں تیس اور کرسیاں تھیں جن چند اشخاص آ کر بیٹھ گئے جو رتبہ اور عمر کے لحاظ سے اہل ظلمات میں سربر آوردہ اور ممتاز تھے اور جو مندر میں اس غرض سے جمع ہوئے تھے کہ جوانا اور آٹر کی الوہیت کے متعلق جو شکوک لوگوں کو تھے اس کی حقیقت دیوتاؤں سے پوچھیں۔ یہ گویا اہالی ظلمات کی مجلس شوریٰ تھی۔

تب نام نے آگے بڑھ کر حاضرین سے یوں خطاب کیا۔

”اسے اہل ظلمات! میں نے ان مقدس دیوتاؤں کی درگاہ میں جن کو تم اس وقت بالمشافہ دیکھ رہے ہو تمہاری طرف سے جو کچھ تم نے عرض کیا۔ اب وہ خود یہاں آئے ہیں تاکہ ان مصائب اور تکالیف کے دفعیہ کے متعلق جو ہمارے ملک پر نازل ہو رہی ہیں تم سے گفتگو کریں۔ یہ محض ان کا۔

صفحہ 243

کرم و فضل ہے کہ انہوں نے قدم رنجہ فرما کر اپنی آرزوؤں اور خواہشوں کے اظہار کا موقع دیا اب جو کچھ تمہیں ان کی حضور میں عرض کرنا ہے کرو تا کہ وہ بات خود اپنی زبان مبارک سے اور یا مجھ بندۂ نا چیز و گنہگار کی وساطت سے تم کو جوا ب دیں۔“

اس کے بعد کچھ دیر تک سب خاموش رہے حتیٰ کہ مجلس شوریٰ کا ایک رکن اُٹھا اور کہنے لگا ۔

”اے ایکا اور اے جال! ہم تم سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں آفتاب کیوں نہیں نکلتا؟ برف باری کیوں روز بروز ترقی پر ہے اور کیوں ہر طرف قحط پڑ رہا ہے۔ کچھ دنوں سے تم نے ہم لوگوں کے طریق پرستش کو بدل دیا ہے اور اس تہوار میں جو موسم بہار میں آتا ہے قربانیاں چڑھانے سے منع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سال بہار ہی نہیں آئی۔ اے دیوتاؤ، اس کی تم کیا وجہ بیان کر سکتے ہو؟ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایسے معبود نہیں چاہتے جو بجائے امن سو آسائش کے ہم پر قحط نازل کریں (نام کی طرف مخاطب ہو کر ) اور اے نام تم اس کا کیا جواب دیتے ہو کہ تم نے ایسی ہستیوں کو دیوتا مشتہر کرنا پسند کیا جن کا وجود ہمارے لئے موجب نقصان ہے ؟“

جوانا : ”اے اہل ظلمات! وہ مصائب و تکالیف جو تمہارے ملک پر نازل ہو رہی ہیں ان کو دیکھ کر تم لوگوں نے ہماری الوہیت کے متعلق جو شبہ ظاہر کیا ہے وہ بیشک بجا ہے مگر کیا تم نے میرے احکام کی تعمیل میں کوتاہی نہیں کی؟ کیا تم نے اپنے دل کا ارمان نکالنے کے لئے اپنے ابنائے جنس کا خون نہیں بہایا؟ میں دیکھتی ہوں کہ تم نے میرے تمام خادموں کو قتل کر ڈالا۔ پس یہ کیونکر ممکن ہے کہ تم کو فرخی و فراخی نصیب ہو۔ ہرگز نہیں۔ تمہارے اعمال قبیحہ کا یہی نتیجہ ہونا چاہیے تھا جو تم دیکھ رہے ہو۔“

پھر مجلس شوریٰ کا وہی رکن اپنی کرسی پر سے اٹھا اور بولا:

”اے ایکا، جو کچھ تو نے کہا ہے اس سے ہماری خاک بھی تشفی نہیں ہوتی کیونکہ انسان کی قربانی قدیم الایام سے اس ملک میں مروج ہے اور اس کی وجہ سے کبھی ہمارے ملک میں ایسی بلائیں نازل نہیں ہوئیں جو اس سال ہم نے دیکھیں اور دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ جو کچھ تو نے کہا ہے ٹھیک ہے تو نام جس نے ہم کو تمہاری الوہیت اور صداقت کا یقین دلایا تھا اس قتل اور خونریزی کا جوابدہ ہے نہ کہ ہم۔ ”پھر وہ نام نے مخاطب ہوا اور بولا۔ ”اے نام، یہ تمام الزام تمہارے

صفحہ 244

سر پر آتا ہے اور ہم تم سے پوچھتے ہیں کہ تم نے ان کو کیوں دیوتا مشتہر کیا اور ان کو کیوں ہمارے اوپر حکمران بنایا۔ ” اس وقت نام حیران اور متفکّر کھڑا تھا اور دل میں کہہ رہا تھا کہ اگر میں نے مدعیوں کے اس الزام کا جواب شافی نہ دیا تو میری جان کی خیر نہیں کیونکہ سب لوگ یہ سمجھیں گے کہ میں نے ان سے دھوکا اور فریب کھیلا ۔ آخر کار وہ بولا ۔

”بھائیو سنو! تم کو معلوم ہے کہ یہ روایت ہمارے ملک میں نسلاً بعد نسل چلی آئی ہے کہ ایکا اور جال پھر مبعوث ہوں گے ۔ ایکا ایک خوبصورت عورت کی شکل میں ظاہر ہو گی اور جال کی شکل ایک کالے بونے کی سی ہو گی۔ تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مبعوث ہوئے اور میں نے ان کو اس مندر میں لا کر تم کو بتا دیا کہ یہ تمہارے دیوتا ایکا اور جال ہیں۔ ان کی پرستش اور عبادت تم پر لازم ہے۔ تم آمنا و صدقنا کہہ کر ان کو اپنا دیوتا سمجھنے لگے۔ تم کو یاد ہو گا کہ انہوں نے تمہارے پرانے طریق پرستش کو منسوخ اور قربانیوں کو یک قلم موقوف کر دیا۔ مجھے ان کے ان احکام کی تعمیل میں عذر تھا اس لیے میں نے پہلے پہل پس و پیش کی مگر انہوں نے میرے دو بھائیوں کو اپنے ایک خادم سے جس کا نام نجات دہندہ ہے اور اس وقت ان کی کرسی کے پیچھے کھڑا ہے مروا ڈالا۔ اس وقت بے اختیار میری زبان سے کچھ شکایت آمیز الفاظ نکل گئے۔ انہوں نے مجھے موت کی دھمکی دی۔ تم نے بھی میرا کہا نہ مانا اور نئے قانون کی تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ دیوتا اپنے قدیم طرزِ عبارت کو بدلیں۔ اس لیے میں خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔

تا نہ بینم کہ چہ از پردہ بردن می آید

صاحبو میں افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتا ہوں اور مجھے اظہار کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ یہ دیوتا جن کو میں سچے اوتار خیال کرتا تھا آخر کار کاذب مفتری نکلے اور جامہ تزویر پہن کر مجھ کو تم کو اور سارے ملک کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔“

جب نام کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو سب سامعین ہکّا بکّا رہ گئے اور پہر ایک شور عظیم برپا ہوا۔

لیونارڈ (جوانا کے کان میں) ”اب مصیبت کا پہاڑ ہم پر ٹوٹا۔“

جوانا : ”ہوں ٹوٹ پڑا اور میں جانتی تھی کہ ایک نہ ایک وقت ٹوٹے گا مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔“

صفحہ 245

جب شور و غوغا فرو ہوا تو مجلس شوریٰ کا وہی رکن کرسی سے اٹھا اور کہنے لگا۔

”اے نام، ہم کو ہرگز اس امر کا یقین نہیں آتا کہ روئے زمین پر کوئی شخص ایسا دلیر اوت بے دھڑک ہو گا دوسروں کو محض دام مکر میں پھنسانے کے لئے اپنے آپ کو دیوتا مشتہر کرے اور اس کے خمیازہ اٹھانے اٹھانے کے خطروں میں پڑے۔ تم جب تک اپنے دعویٰ کی تصدیق میں کوئی مدلل ثبوت پیش نہ کرو، ہم تمہاری بات کو سچ نہیں سمجھ سکتے۔“

نام ”میں آپ صاحبوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا ایک ایک حرف سچ ہے اور اپنے بیان کی تصدیق میں میں ایک بڑھیا عورت کو جسے میں نے اپنا جاسوس مقرر کیا تھا، پیش کر سکتا ہوں۔“

مجلس شوریٰ کا رکن۔ ”اس میں کیا قباحت ہے تم اس عورت کو پیش کر سکتے ہو۔“

نام ”اے نیک بخت آگے آ۔“

نام کے اس کہنے پر سوا جو بت کے سائے میں کھڑی ہوئی تھی آگے بڑھی اور نام کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔“

نام ”اے نیک بخت ! جو کچھ سچ سچ ہے بیان کر دے۔“

سوا ”میں جو کچھ کہوں گی سچ کہوں گی۔ مجھے کاہے کا ڈر ہے۔“

پھر وہ یوں گویا ہوئی۔

”اے اہل ظلمات! تم میرے خط و خال اور آواز سے پہچان گئے ہو گے کہ میں اسی ملک کی رہنے والی ہوں۔ میرا باپ ایک کاہن تھا۔ چالیس سال ہوئے کہ میں بوجوہات چند در چند اس ملک سے جانب جنوب نکل گئی اور میں نے ایک گاؤں میں جو ایک بڑے دریا کے کنارے آباد ہے جا کر بود و باش اختیار کی۔ وہاں میں بیس برس رہی اور طبابت کرتی رہی۔ اس گاؤں میں ایک گورا آدمی رہتا تھا۔ مرتے وقت وہ مجھ کو اپنی بیٹی کی دایہ مقرر کر گیا۔ یہ عورت جو تمہارے سامنے بیٹھی ہے اسی شخص کی بیٹی ہے اور اس کا نام راعیہ ہے۔

جب بیس برد اور گذر چکے تو مجھ کو اپنا وطن یاد آیا۔ میں نے کہا کہ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں اور پردیسیوں کی طرح یہاں مرنا اچھا نہیں، اپنے ملک چلنا چاہیے۔“

صفحہ 246

چونکہ میں تنہا سفر نہیں کر سکتی تھی اس لئے میں نے راعیہ اور اس کے خاوند نجات دھندہ سے کہا کہ میرا ملک ایک عجیب سر زمین ہے۔ اس میں لعل و جواہر کثرت سے پاے جاتے ہیں۔ اگر تم مجھ کو وہاں پہنچا دو تو ایک تو تمہیں ثواب حاصل ہو گا۔ دوسرے تم مالا مال ہو کر آؤ گے۔ چنانچہ وہ لالچ کی وجہ سے فوراً میرے ساتھ ہو لئے جب ہم یہاں پہونچے تومیں نے اپنے خبث باطن کی وجہ سے ان کو دیبی اور دیوتا بننے کی تحریک دی کیونکہ مجھ کو معلوم تھا کہ اہل ظلمات کے دیوتا ایکا اور جال پھر مبعوث ہونے والے ہیں ۔ علاوہ اس کے بونے کی شكل بالکل جال کے بت کی سی تھی۔ طمع وہ چیز ہے کہ کوئی انسان اس سے خالی نہیں۔ ان کو بھی دولت کی چاٹ تھی اس لئے انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا اور جھوٹ موٹ کے دیوتا بننے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا۔ پرسوں رات میں نے اصلی دیوتا کو خواب میں دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہا ہے ”اے گستاخ اور سرکش عورت، تو اپنے دیوتاؤں سے ہی فریب کرنے لگی۔ دیکھ تو تجھے اس کی کیسی سزا ملتی ہے۔“ میں ڈر گئی اور میں نے کل نام کے پاس آ کر ساری کیفیت ظاہر کر دی۔ اے اہل ظلمات میں اپنا اظہار دے چکی، اب جو کچھ تم کو فیصلہ کرنا ہے کرو۔“

سوا یہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔

لیونارڈ : (جوانا کے کان میں) ”اگر کچھ کہہ سکتی ہو تو جلدی کہو۔ اس وقت سب حیرت زدہ ہو کر خاموش کھڑے ہیں۔ اگر کوئی شخص بول اٹھا تو۔۔۔ “

جوانا: ”اے اہل ظلمات! جو کچھ نام نے اور اس عورت نے جو میری خادمہ تھی کہا ہے تم سن چکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دیوتا نہیں ہیں۔ میں ہم کو اس سے کچھ بحث نہیں کیونکہ دیوتا اپنی ربانیت کو خود ثابت نہیں کرنا چاہتے۔ مگر تم کو اجازت دیتی ہوں ہ اگر تم چاہتے ہو تو ہم کو اپنے دیوتا نہ بناؤ اور ہماری پرستش نہ کرو کیونکہ دیوتا اس قوم پر حکمرانی کرنا نہیں چاہتے جو ان کے ایزدی وجود سے انکار کرے۔ بلکہ جہاں سے وہ آئے تھے واپس چلے جائیں گے۔“

”مگر وہ دن تمہارے لئے نہایت ہی بدبختی اور شقاوت کا ہو گا جب ہم یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔ کیونکہ قحط اور وبا اور خانہ جنگیاں چاروں طرف سے تمہارے ملک کا احاطہ کر لیں گی اور تمہارے اوپر اتنی مصیبتیں اور آفتیں پیہم نازل ہوں گی کہ تم آخر کار صفحہ روزگار سے مٹ جاؤ گے اور تمہارا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔ تم نے ہمارے خادموں کو قتل کر ڈالا اور ہماری عدول حکمی کی اور یہی وجہ ہے کہ نہ تو آفتاب

صفحہ 247

نکلتا ہے اور گرمی کا موسم آتا ہے ۔ اے سرکشو! اگر تم شرارت پر آئے ہو تو اس پر قائم رہو جس طرح خادم ملک بقا کو سدھارے ہیں ہم بھی چلے جائیں گے مگر تم نے جیسا کیا ہے ویسا پاؤ گے اوت تمہاری کوششوں کا ثمرہ سوائے موت اور ویرانی کے کچھ نہ ہو گا۔“

”ہاں اس مکّاره ملعونہ کی بھی سن لو اس نے ایک بات تم سے پوشیدہ رکھی ہے۔ وہ تمہارے سردار کاہن نام کی بیٹی ہے اور وہ اس ملک کے اس واسطے نکل گئی تھی کہ وہ سانپ کی زوجہ بننے کے لئے منتخب کی گئی تھی۔ اس لئے اس کی سزا موت ہے۔ نام جو اس کا باپ ہے ، اس کے متعلق بھی سن لو۔ اگر جو وہ کہتا ہے سچ ہے تو اس میں کسی کو شک نہیں کہ وہ اپنی بیٹی سوا کی زبانی پہلے سے سب سن چکا تھا اور اس نے دیدہ و دانستہ تم کو دھوکا دیا اور ایسے دیوتاؤں کو مشتہر کیا جن کو وہ دل میں جھوٹا کہتا تھا اور میں سچ کہتی ہوں کہ اس کا اصلی منشا تھا کہ وہ اپنی قوت و حشمت کو بڑھائے اور اس کو رسوخ اور کامیابی حاصل ہو مگر اس کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوئی۔ اس لئے اب شرمندہ ہو کر اپنے ہی مشتہر کئے ہوئے دیوتاؤں کو جھوٹا بتا رہا ہے ۔ افسوس ہے اس کے بے حیائی اور خیرہ چشمی پر ۔ اے اہلِ ظلمات مجھے جو کچھ بھی کہنا تھا کہہ چکی۔ تم ہمارا اور نام کا فیصلہ کرو اور ہم میں سے جو کوئی جھوٹا نکلے اس کو سزا دو۔ ہمارے دیوتا ہونے کا کچھ خیال نہ کرو کیونکہ ہم نے اب تم کو تمہاری قسمت پر چھوڑ دیا ۔“

یہ کہہ کر جوانا بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ غصے کے مارے ٹمٹمایا ہوا تھا اس کے دل کا جوش اس کی آنکھوں سے ظاہر تھا۔ اس کی تقریر کی فصاحت نے سامعین کے دل جادو کا سا اثر کیا۔ سوا سایہ میں پیچھے کی طرف اور سرک گئی اور نام کا چہرہ اتر گیا۔ غصہ کے ساتھ وہ ایک کانپتی ہوئی آواز میں چیخ کر بولا۔ ”یہ سرا سر جھوٹ ہے۔ میری بیٹی نے آج طلوعِ آفتاب کے قریب مجھ سے یہ سب ماجرا بیان کیا تھا۔“

اس کے ان الفاظ نے سامعین کو گہری نیند سے بیدار کر دیا کیونکہ یکایک ایک آواز بلند ہوئی۔ ”میری بیٹی! کہتا ہے میری بیٹی! ارے نام یہ خلاف بیانی کیسی؟“ پھر ایک اور آواز بلند ہوئی۔ ”دیوتا جھوٹے ہیں۔ ان کو معزول کر دو۔“ بعضوں نے کہا ۔”دیوتا سچے ہیں، خبردار کوئی ان کو ہاتھ نہ لگائے ورنہ وہ اس پر لعنت بھیج دیں گے۔“ اس فریق میں لیونارڈ نے آلفن کی آواز سنی۔ اسی طرح دس منٹ تک آوازیں آتی رہیں اور جب سب چپ ہو گئے تو وہی مجلس شوریٰ کا رکن اٹھا اور اس طرح تقریر کرنے لگا۔

”اے ایل ظلمات! ہم لوگ جو تمہاری مجلس شوریٰ کے اراکین ہیں اور اس الزام کی تحقیقات کے

صفحہ 248

لئے مقرر کئے گئے ہیں جو دیوتاؤں پر عاید کیا گیا ہے اب ہم تم کو اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ جس کو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ ہم اس کے متعلق کچھ نہیں کہتے کہ آیا یہ اجنبی جن کا نام ایکا اور جال ہے سچے دیوتا ہیں یا جھوٹے لیکن اگر وہ چھوٹے ثابت ہوں گے تو یقیناً نام بھی ان کے ساتھ ملزم قرار دیا جائے گا ۔“

سب سامعین ۔ ”درست درست ۔“

رکن۔ ”دیبی نے خود اپنے منہ سے کہا ہے کہ آفتاب کا نہ نکلنا صرف ہمارے جرائم اور نافرمانیوں کی وجہ سے ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کو آفتاب کے نکالنے یا نہ نکالنے پر قدرت حاصل ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ کل وہ مطلع کو صاف کر دیں اور آفتاب سامنے کے پہاڑ پر سے جو برف سے چھپا ہوا ہے یاقوت کی طرح چمکتا نظر آئے لیکن اگر سردی اور کہر کا وہی عالم رہا جیسا کہ آج تک رہا ہے تو ہم کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ جھوٹے دیوتا ہیں۔ اور ہم ان کو اس چٹان پر سے جس پر ہم کھڑے ہیں اس قعر عمیق میں گرا دیں گے تا کہ وہ سانپ کا شکار ہو جائیں۔ اس کے بعد نام کا بھی جُداگانہ فیصلہ کیا جائے گا ۔“

سامعین میں سے بہت سے لوگوں نے ان الفاظ کی تائید کی اور کہا کہ یہ ایک نہایت معقول اور منصفانہ فیصلہ ہے۔ باقی کے لوگ خاموش رہے کیونکہ گو ان کو اس فیصلے سے اختلاف رائے تھا مگر ان کو ہمت نہ پڑھتی تھی کہ بلند آواز سے اپنی رائے کا اظہار کریں۔ پھر جوانا نے اٹھ کر کہا۔

”جو کچھ تم نے کہا ہے ہم نے سن لیا ۔ اب ہم جاتے ہیں اور اس معاملہ پر غور کریں گے ۔ صبح کے وقت تم ہم کو اس کالے بت کے اوپر بیٹا ہوا پاؤ گے ۔ ہم نہیں جانتے کہ صبح کے وقت آفتاب کو کہر اور دھند میں سے روشن کر دکھائیں گے یا خود جوش کھاتے ہوئے پانیوں مین سے ہو کر اپنے وطن مالوفہ کو واپس چلے جائیں گے۔ یہ آخری بات مجھے زیادہ پسند ہے کیونکہ اے اہلِ ظلمات تمہارے اعمال قبیحہ نے ہمارے دل میں تمہاری طرف سے اس قدر نفرت پیدا کر دی ہے کہ اب ہمیں دم بھر بھی تمہارے درمیاں رہنا ناگوار ہے ۔ ہم نہیں چاہتے کہ تم ہمارے ظل عاطفت سے مستفیض ہو اور حیف ہے کہ تم پر اب آئے دم مصیبتوں پر مصیبتیں نازل ہونے والی ہیں۔ آلفن، ہم کو یہاں سے لے چلو۔“

بادشاہ اپنے چند کپتانوں کو ساتھ لے کر جوانا کی طرف بڑھا جو خاموشی کے عالم میں سنجیدگی اور وقار کے ساتھ اٹھ کر آلفن کے ہمراہ ہو لی۔ اس کے ساتھ آٹر ، لیونارڈ اور فرانسسکو پیچھے پیچھے تھے۔

صفحہ 249

جب وہ محل میں پہنچے تو لیونارڈ نے گھڑی نکال کر دیکھی۔ ٹھیک دس بجے تھے۔ اپنے ہمراہیوں سے اس نے کہا۔ ”آؤ اب کچھ کھا پی لیں کیونکہ کل ہم کو اپنی تمام طاقت سے کام لینا پڑے گا۔“

جوانا۔ (افسردہ دلی سے مسکرا کر) ”ہاں کھا لی لینا چاہیے کیونکہ کل اپنے مرنے کی تیاری ہے۔“
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 250



تیسواں باب

فرانسسکو کا کفارہ

جب وہ کھانا کھا چکے تو ان میں اس طرح گفتگو شروع ہوئی۔

جوانا ”کوئی امید بر نہیں آئی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔“

لیونارڈ۔ (مایوسی کے لہجے میں) ”اگر کل آفتاب نہ نکلا تو ہماری زندگی کی کوئی امید نہیں ہو سکتی۔“

آٹر۔ ”آفتاب نکلنے کہ بہت کم توقع ہو سکتی ہے۔ پانچ ہفتوں سے سردی اور کہر کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ اگر اس ملک کے رہنے والے درشت مزاج اور شریر ہیں تو کوئی تعجب کا مقام نہیں۔“

جوانا۔ ”لیونارڈ انہوں نے تمہارے بر خلاف تو کئی بات نہیں کہی اس لئے امید ہے کہ شاید تم اور فرانسسکو بچ جاؤ۔“

لیونارڈ۔ ”مجھے تو امید نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو سچ کہتا ہوں تمہارا میرا مرنا جینا ایک ساتھ ہے۔“

جوانا۔ (آہستگی سے) ”لیونارڈ میں تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں مگر تمہاری اس جانبداری سے نہ مجھے کچھ فائدہ ہو گا اور نہ تمہیں۔ معلوم نہیں وہ ہم کو کیا سزا دیں گے۔ بت کے کنگرہ پر سے گرائیں گے؟“

لیونارڈ۔ ”ہاں ان کا ارادہ تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جوانا ، تمہاری دوا کرنی دیر میں اپنا پورا اثر دکھاتی ہے۔“

آٹر۔ ”نہیں راعیہ۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ غار میں زبردستی دھکیل دیا جاؤں۔ جب وقت آئے گا تو میں خودبخود نیچے کود پڑوں گا۔ اور اگر گرتے ہی نہ مر گیا تو ایک دفعہ سانپ کے دانت کھٹے کر کے چھوڑوں گا۔

صفحہ 251

اب میں جاتا ہوں اور اس سے ملاقات کرنے کی تیاری شروع کرتا ہوں۔“

یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اپنے سونے کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ فرانسسکو کی عبادت کا وقت تھا اس لئے وہ بھی اپنے گوشۂ عزلت میں جا کر یادِ الہٰی میں مصروف ہو گیا۔ اب لیونارڈ اور جوانا اکیلی رہ گئی۔ مشعل کی مدھم روشنی میں لیونارڈ کچھ دیر جوانا کے حسن دلآویز کو دیکھتا رہا۔ دل ہی دل میں وہ کہتا تھا کہ نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے کہ میری خود غرضی نے اس لڑکی کو یہاں مصیبت میں پھنسایا۔ میری ہی وجہ سے اب اس کی موت آنے والی ہے۔ ہائے افسوس میں نے اپنے ہاتھوں اس کا خون کیا۔ آخر کار وہ سرد آہ بھر کر جوانا کی طرف مخاطب ہوا اور کہنے لگا۔ ”جوانا! میری خطا معاف کرو۔“

جوانا۔ ”تم نے میری کیا خطا کی ہے جو میں معاف کروں۔ ایسی باتیں نہ کرو۔ معاف تو الٹا تم کو مجھے کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب میں ایام گذشتہ کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتی ہوں تو تمہاری طرف سے اپنا نامۂ اعمال سیاہ پاتی ہوں۔“

لیونارڈ۔ ”جوانا یہ بالکل غلط ہے۔ تم میری حماقت اور نادانی کی طرف خیال کرو کہ میں تمہیں یہاں لے آیا۔ اب تم اپنی حسرتوں اور آرزوؤں کو ساتھ لے کر شباب کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گی۔ مجھے یہ خیال مارے ڈالتا ہے کہ تمہارا خون میری گردن پر ہے۔“ جب اس نے یہ کہا تو اس کی آواز بھرّا گئی اور وہ رک گیا مگر کچھ دیر تامل کے بعد بولا۔ ”جوانا آخر کار مجھے دل خالی ہی کرنا پڑا۔ ہر چند میرا یہ منشا تھا اور میں نے قسم کھا لی تھی کہ حال دل کبھی نہ کہوں گا مگر کیا کروں۔ دیکھتا ہوں کہ کاسۂ عمر لبریز ہو چکا ہے۔ جوانا، مجھے تم سے سلی محبت اور سچا عشق ہے۔ اس وقت میری وہی مثال ہے کہ۔

کنگرہ وصل او گر چہ ندارد کمند

نالہ شبگیر را تار سدیرن دہم۔۔۔

لیونارڈ کے ان الفاظ پر جوانا نے بالکل تعجب ظاہر نہ کیا بلکہ پہلے کی طرح مدھم روشنی میں اپنے رفیق کے چہرہ کی طرف دیکھتی رہی۔ آخر کار وہ کہنے لگی۔

لیونارڈ۔ ”تم کو مجھ سے محبت ہے! کیا جین بیچ کو بھول گئے؟“ اور جب اس نے کہا تو اس کے رخساروں اور گردن پر ایک ہلکا سا گلابی رنگ شفق کی طرح پھیل گیا۔

لیونارڈ۔ ”ہاں سچ ہے کہ جین بیچ سے میں ایک دفعہ منسوب ہوا تھا اور یہ بھی سچ ہے کہ اب بھی۔

صفحہ 252

اس دور دراز ملک میں کبھی کبھی مجھے اس کا خیال آتا ہے مگر جیب بیچ سے جدا ہوئے مجھے کئی سال گذر چکے ہیں اور مجھ کو یقین ہے کہ اس نے مجھے بھلا دیا ہو گا اور کسی اور شخص سے شادی کر لی ہو گی۔ بہت سے آدمی اپنی پہلی عمر میں محبت کی کئی منزلیں طے کر چکتے ہیں مجھے صرف ایک عورت سے محبت ہوئی اور اب وہ کالعدم ہے۔ جب میں نے تم کو پہلے پہل بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں دیکھا تواسی وقت سے جذب دل نے زور آزمائی شروع کر دی اور میرے دل پر بتدریج تم نے پورا قابو پا لیا۔ اگرچہ بار ہا تم نے اپنے قول و فعل سے ثابت کر دیا کہ میری محبت تمہارے دل میں نہیں ہے جس کی تصدیق ان الفاظ سے ہو سکتی ہے جو تم نے آلفن کے چلے جانے کے بعد میری طرف مخاطب ہو کر کہے۔ تاہم اب تک میرا دل تمہارا حلقہ بگوش ہے۔ مجھ کو حیرت ہے کہ میں نے تم سے اس کے متعلق کیوں گفتگو کی مگر حقیقت یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ اس جہان فانی سے بغیر دل کی بات صاف صاف کہہ دینے کے ایک ایسی جگہ چلا جاؤں جہاں ہماری محبتیں اور امیدیں سب خاک میں مل جانے والی ہیں۔“

جوانا۔ “خاک میں مل جانے والی ہیں یا پھر نصیب ہونے والی ہیں۔“

اس کے بعد ایک لمحہ تک خاموشی کا عالم رہا۔ لیونارڈ یہ سمجھ کر کہ اب مجھے جواب مل گیا دل میں سوچا کہ بہتر ہو گا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے جوانا کو تنہا چھوڑ دوں۔ وہ اٹھنے ہی کو تھا کہ جوانا نے بڑھ کر اپنے ہاتھ اس کے گلے میں ڈال دئیے اور اپنا سر اس کی چھاتی پر رکھ دیا۔

لیونارڈ دریائے حیرت میں غرق ہو گیا اور اس نے دل میں کہا۔

”ایں کہ می بینم یہ بیداری است یا رب یا بہ خواب“

لیکن جب جوانا کو اس نے سچ مچ اپنے آغوش میں پایا تو اس نے نہایت نرمی کے ساتھ اس کے رخسار ہائے گلگوں پر بوسی دیا۔

اس کے بعد جوانا نے لیونارڈ کی آغوش سے جدا ہو کر کہا ”سنو لیونارڈ۔ ہر انسان کو خدا نے ذوقِ سلیم اور چشم بینا عطا کی ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ تمہیں یہ قوت دی گئی ہے یو نہیں اور مجھ کو اس بات کے معلوم کرنے کی چنداں خواہش بھی نہیں ۔ مگر مجھے واقعی تعجب ہوتا ہے کہ گذشتہ پانچ یا چھ ماہ کے عرصے میں تم کو میرے دل کا حال معلوم نہیں ہوا۔ بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں تیرِ محبت نے ترازو ہو کر تمہارے ہی دل کا حوصلہ نہیں تولا تھا میں بھی تمہیں دیکھ کر اسی تیر کی گھائل ہو گئی تھی۔ مگر جب تم نے جیب بیچ کا ذکر مجھ سے

صفحہ 253

کیا تو میرے کان کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے اپنے خیالات کو جو کچھ تھے مخفی رکھا۔ میں اب بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ آیا ان خیالات کا اظہار قرین مصلحت ہو گا یا نہیں۔ کیونکہ اگرچہ تم کہتے ہو کہ جین مر چکی ہو گی لیکن ممکن ہے کہ وہ زندہ ہو اور اس کی محبت تمہارے دل میں پھر تازہ ہو جائے۔ میرا یہ خیال ہے کہ مرد و زن کی آنکھیں جن کے ساتھ پہلے پہل دو چار ہو جاتی ہیں ان کو وہ قیامت تک نہیں بھولتے۔ اگرچہ ان کے درمیان بعد المشرقین ہو اور وہ ان کو دلک سے فراموش کرنے کی کوشش بھی کریں۔“

لیونارڈ کی آنکھوں کے سامنے جوانا کے ان الفاظ نے ناز و نیاز کا وہ سین کھینچ دیا جس کو وہ سات سال پہلے انگلستان میں دیکھ چکا تھا۔ جب رات کا وقت تھا۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی اور برف پڑ رہی تھی اور اس نے کہا۔

”میری جان تم کیوں بار بار جین کا ذکر چھیڑ رہی ہو؟“

جوانا۔ ”میں اس کا ذکر نہیں چھیڑتی اور نہ آئندہ چھیڑوں گی۔ مہلت قلیل ہے۔ ہمارے درمیان کسی قسم کی شکر رنجی نہیں ہونی چاہیے۔ آؤ مضمون بدلیں۔ تم یہ کہو کہ مجھے تم سے عشق ہے۔ مجھے تم سے عشق ہے۔ کیونکہ یہ وہ الفاظ ہیں جن کو آنکھیں بند کرنے سے پہلے میں ان کانوں سے سننا چاہتی ہوں اور نیز یہ وہ الفاظ ہیں جن سے میں تم کو چند گھنٹوں کے بعد دوسرے جہان میں پہچانوں گی۔ لیونارڈ تم یہ کہو کہ آج کل اور ہمیشہ کے لئے میں تمہارا عاشق ہوں۔“

لیونارڈ نے یہ الفاظ نہایت صدقِ دل سے دہرائے۔ گویا اس کو امید تھی کہ وہ حسینہ جمیلہ عورت کے ساتھ جس نے اس کے دل کو لبھا لیا تھا، ہم‌سفر ہو کر بحر حیات کے اس ساحل پر جا پہنچے گا جس کی نسبت ہم کو کچھ بھی علم نہیں۔ مگر جہاں ہماری کشتی عمر کو آگے لے جانے والی موجیں ہم کو متواتر ٹوٹتی نظر آ رہی ہیں۔ بہت دیر تک ان کے درمیاں گفتگو ہوتی رہی اور جوانا کا دل اس اثنا میں موم کی طرح پگھلتا گیا۔ حتیٰ کہ اس کے جذبۂ دل کی آگ نے اس کے عناد اور خود داری کو خاک سیاہ کر دیا اور موت کا خوف اس کے اور اس کے چاہنے والے کے چہرہ سے صاف عیاں ہونے لگا۔ آخر کار اس کا دل پھر آیا اور وہ ایک سہمے ہوئے بچے کی طرح لیونارڈ سے لپٹ گئی اور بلک بلک کر رونے لگی اور اتنا روئی کہ لیونارڈ نے یہ سمجھ کر کہ اس کو غش آ گیا یا وہ سو گئی ہے یا وہ سو گئی ہے، بستر پر لٹا دیا۔ پھر اس نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور آہستہ آہستہ چل کر اس کمرہ میں آیا جہاں آٹر اور فرانسسکو بیٹھے ہوئے تھے۔

صفحہ 254

ادھر جوانا اور لیونارڈ میں راز و نیاز ہو رہا تھا، ادھ آٹر سانپ کے مقابلے کے لئے تیاری کر رہا تھا۔ اس نے ان دو چہروں کے دستوں کو جن سے کاہن لوگ قربانی کیا کرتے تھے اور جو لیونارڈ نے نو آبادی کے آدمیوں کی کوٹھڑی میں پڑے پائے تھے، ایک چمڑے کے تسمہ سے اس طرح پر کس کر باند دیا تھا کہ وہ بالکل نہیں ہل سکتا تھے اور ان کی خمدار نوکیں مخالف سمتوں میں نکلی ہوئی تھیں۔ جب آٹر کی نگاہ لیونارڈ پر پڑی تو وہ بولا۔ ”دیکھیے میاں۔“

لیونارڈ (بے اعتنائی سے) ”یہ تم نے کس لئے بنایا ہے؟“

آٹر۔ (ہنس کر) ”یہ میں نے نہنگ کے لئے بنایا ہے۔ جب وہ مجھ کو نگلنے کی کوشش کرے گا تو میں اس کے منہ کو اس سے چھید ڈالوں گا۔ میاں میں دریائے زمبزی میں نہنگوں کو شکار پہلے کر چکا ہوں۔ یہ تو مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنے حجرہ میں سے نکلے گا تو نتیجہ خواہ کچھ ہی نکلے لڑائی خوب ہو گی۔“

یہ کہہ کر اس نے ایک چمڑے کے تسمہ کے ایک سرے سے اس ہتھیار کو باندھ دیا اور پھر تسمہ کو جو تیس فٹ کے قریب لمبا ہو گا اپنی کمر کے گردا گرد اس طرح لپیٹ لیا کہ جو پوستین وہ پہنے ہوئے تھا اس کے نیچے اس کو معلوم ہونا ناممکن تھا۔

آٹر۔ میں اب پھر مجھ میں مردانگی آ گئی۔ شراب اور اس قسم کی دوسری بےہودگیاں میں نے چھوڑ دین ہیں۔ اب وقت لڑنے کا آیا ہے۔ میاں مجھے کامل یقین ہے کہ میں جیتوں گا کیونکہ میں دریا باش ہوں اور نہنگوں سے نہیں ڈرتا۔ ذرا بھی نہیں ڈرتا۔ میرے لئے نہنگ کا شکار کھیلنا کوئی نئی بات نہیں۔ آپ دیکھ ہی لیں گے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔“

لیونارڈ۔ ”مجھ کو امید نہیں کہ میں بھی تمہاری طرح بچ جاؤں ۔ ضیر دوست خدا تم کو کامیاب کرے اگر تم سانپ سے بچ بھی گئے تو پھر لوگوں کو تمہارے دیوتا ہونے میں کچھ شک نہ ہو گا۔ پھر تو تمہارے مزے ہیں۔ خوب حکومت کرنا، مگر دیکھو شراب بہت بری چیز ہے۔“

آٹر۔ ”میاں میری خوشی آپ کے ساتھ ہے۔ اگر آپ ہی نہ ہوں گے تو میرا جینا مرنے کے برابر ہے۔ (آہ سرد بھر کر) ہائے افسوس ! میاں میری حماقت کی وجہ سے آپ کو ان مصیبتوں میں گرفتار ہوئے ۔ خیر میں عہد کرتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہا تو میں آپ کا بدلہ لوں گا۔ اگر میں پھر دیوتا بن گیا تو ان کاہنوں اور دوسروں تیسروں کو چن چن کر ماروں گا اوت جب وہ مر کھپ جائیں گے تو پھر خود مر جاؤں گا اور

صفحہ 255

آپ کو ڈھونڈوں گا۔

لیونارڈ (مسکرا کر) ”آٹر تمہاری عنایت کا ممنون ہوں۔“ اس وقت پردہ اٹھا ا اور سوا چار کاہنوں کو ساتھ لئے ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

لیونارڈ۔ (سوا کی طرف جھپٹ کر) ”کیا ہے ؟ کیوں آئی ہے ؟“

سوا۔ (سسوٹو زبان میں جس کو صرف لیونارڈ ہی سمجھ سکتا تھا) ”اے نجات دهنده خبردار! پیچھے ہٹو اگر تم نے مجھے پر ہاتھ اٹھایا تو تمہاری خیر نہیں۔ علاوہ اس کے تم کو میرے مارنے سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہو گا۔ سنو، کل صبح آفتاب تو نکلنے کا نہیں کیونکہ کہر ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور مطلع ساعت بساعت کثیف ہوتا جاتا ہے۔ اس لئے راعیہ اور دیوتا یقینی طور پر گرائے جائیں گے اور تم اور پادری فرانسسکو خزاں کے آنے تک زندہ رکھے جاؤ گے تاکہ جو تہوار اس موسم میں آتا ہے اس میں قربان کے جاؤ۔“

لیونارڈ۔ ”اے نابکار کیا ہمیں یہی باتیں سنانے کے لئے آئی تھی؟ اگر کچھ اور نہیں کہنا ہے تو دور ہو جا اور اپنی مکروہ صورت ہمیں مت دکھا۔

سوا، ” نجات دھندہ سنو! مجھے راعیہ سے ابھی تک دلی محبت ہے جیسی کہ تم کو یا (پر زور لہجے میں ) اس گنجے پادری کو ۔میں تمہارے سامنے تجویز پیش کرتی ہوں ۔ پو پھٹنے پر تم میں سے دو کو مرنا ہو گا لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ راعیہ ان دو میں سے ایک ہو۔ صبح کے وقت کہرا اور دھند کی تاریکی میں جھوٹی دیبی کو ستّر فٹ کی بلندی پر لوگ بمشکل دیکھ سکیں گے اور اگر اس کے بجائے کوئی شخص ایسا ہے جو شکل و شباہت اور قد و قامت کے لحاظ سے اس کے مشابہ ہو تو اس دُھندلکے میں کالے لباس کے اندر جو اس وقت اسے پہنایا جائے گا کوئی آدمی ان دونوں میں امتیاز نہیں کر سکے گا۔“

لیونارڈ۔ (چونک کر) ”ایسا شخص کون مل سکتا ہے؟“

سوا نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اٹھایا اور فرانسسکو کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ ” یہ ہے وہ آدمی۔ اس کو ایکا کو سیاہ لبادہ اوڑھا دیا جائے گا تو راعیہ میں اور اس میں کوئی شخص امتیاز نہ کر سکے گا۔ اور جب ایک دفعہ وہ سانپ کے منہ میں چلا جائے گا تو پھر اسے کوئی چیز باہر نہیں لا سکتی۔“

سوا کی اس خوفناک تحریک کا مفہوم جب لیونارڈ کے ذہن نشین ہوا تو وہ کانپ اٹھا اور ہراساں ہو کر اس نے فرانسسکو کی طرف نگاہ کی جو پاس کھڑا ہوا تھا اور ان کی باتیں سن رہا تھا مگر سسوٹو زبان نہ جاننے

صفحہ 256

کے باعث کچھ سمجھ نہ سکتا تھا۔

سوا۔ ”اسے بتا دو۔“

لیونارڈ۔ ”ٹھہرو۔ اگر بالفرض ہم نے تمہارے کہنے کے بموجب عمل کیا تو پھر راعیہ کا کیا حال ہو گا۔“

سوا۔ ”وہ مندر کے تہ خانوں میں چھپا دی جائے گی۔ جب موقع ملے گا تو وہ کہیں نکل جائے گی یا ممکن ہے کہ پھر اسی ملک میں بغیر روک ٹوک کے فرماں روائی کرے۔ اس بات کو صرف میرا باپ جانتا ہے اور محض میری محبت کی وجہ سے وہ اس پر رضامند ہوا ہے۔ نیز اس کو اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہ کہتا ہے کہ شاید راعیہ کی وجہ سے وہ اس پر رضامند ہوا ہے۔ نیز اس کو اپنی جان کا خطرہ ہے اور وہ کہتا ہے کہ شاید راعیہ کی وجہ سے اس دن جب وہ ماخوذ ہو کر مجلسِ شوریٰ کے سامنے ملزم قرار دیا جائے، اس کے جاب بخشی کیونکر ہو جب کہ لوگ راعیہ کے مبعوث بعد الموت کو برہ العین مشاہدہ کر لیں گے تو ان کو یقین ہو جائے گا کہ واقع میں وہ سچی دیبی ہے جس کا فنا ہونا ممکن نہیں۔“

لیونارڈ۔ ”مگر تو دغا باز اور وعدہ شکن ہے جوانا کو تیرے حوالہ کرتے ہوئے مجھے ڈر لگتا ہے۔ اس سے تو یہی بہتر ہے کہ وہ مر جائے اور خوف و عذاب سے نجات پائے۔“

سوا۔ ”میں نے تم سے ہرگز نہیں کہا کہ تم جوانا کو میرے سپرد کر دو۔ تم بھی اس کے ساتھ رہو گے اور اگر وہ زندہ رہے گی تو تم بھی زندہ رہو گے۔ اب سمجھے؟ یہ آدمی جو میرے ساتھ ہیں تم کو اور جوانا کو لینے کے لئے آئے ہیں۔ اب اگر فرانسسکو رضامند ہو جائے تو جوانا کے بجائے وہ چلا چلے۔ اس سے پوچھو۔“

لیونارڈ نے فرانسسکو کو بلا کر پرتگالی زبان میں سارا ماجرا سنایا۔ فرانسسکو جوں جوں سنتا تھا اس کا رنگ زرد ہوتا جاتا تھا اور اس کا بدن کانپتا تھا لیکن اس جانکاہ تحریک کے سننے کے بعد اس کا خوف و لرزہ جاتا رہا اور لیونارڈ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ روحانی نور کی روشنی سے منور ہو گیا جس کا نور ان لوگوں پر پڑتا ہے جو خدا کی راہ میں جان دینے کو تہیا کر لیتے ہیں۔ نہایت اطمینان اور استقلال سے اس نے لیونارڈ کو یہ جواب دیا۔

”مجھے یہ تجویز بخوشی منظور ہے۔ میرا کفارہ عصیان اس سے بہتر اور کسی طریقہ پر نہیں ہو سکتا۔

فرانسسکو کے ان لفاظ نے لیونارڈ کے دل پر رقت طاری کر دی اور اس نے رکتی ہوئی آواز میں کہا۔

صفحہ 257

”فرانسسکو تم ولی اللہ بھی ہو اور مرد میدان بھی۔ کاش اس موقع پر تمہارے بجائے میں ہوتا مگر افسوس یہ ممکن نہیں۔“

فرانسسکو۔ ”اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ پر ایک نہیں بلکہ دو ولی اللہ اور مردِ میدان کھڑے ہیں۔ مگر ایسی باتوں کو جانے دو کیونکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم میں ایک یا دونوں جونا کی سلامتی کے لئے اپنی جان پر کھیل جائیں۔ مسٹر لیونارڈ میں اس کو بہت بہتر سمجھتا ہوں کہ اس کی خاطر مر جاؤں اور تم زندہ رہو تا کہ اس کو اس خیال سے کہ اس کا عاشق جیتا ہے تسکین رہے۔“

لیونارڈ (کچھ تامل کے بعد) ”افسوس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں مگر اس سانحۂ جاں گزا کے خیال سے بھی میری روح کانپ اٹھتی ہے۔“

فرانسسکو۔ ”افسوس اور تاسف کو اس وقت جانے دو۔ اس وقت کوئی ایسی تدبیر سوچنی چاہیے کہ ہمارا منشا بھی پورا ہو جائے اور جوانا کو جو اس وقت سو رہی ہے خبر تک نہ ہو۔ اگر اس کی آنکھ کھل گئی تو کام خراب ہو جائے گا۔“

لیونارڈ۔ ”مجھ کو تو کوئی ایسی تدبیر نہیں سوجھتی۔“

سوا۔ ”گورے آدمی اس بات کی تم بالکل فکر نہ کرو۔ میرے پاس ایک ایسی دوا ہے کہ اگر جوانا کو کسی طرح اٹھا کر پلا دی جائے تو وہ دس گھنٹے تک بالکل بےہوش رہے۔“

لیونارڈ۔ ”کوئی زہر تو نہیں۔“

سوا۔ ”نہیں زہر نہیں ہے۔ مجھے ایسے شخص کو زہر دینے سے کیا فائدہ جسے کل صبح مرنا ہے۔“

لیونارڈ۔ ”اچھا چلو یہ خواب آور دوا راعیہ کو پلائیں۔ وہ پہلو کے کمرہ میں سو رہی ہے۔“

یہ کہہ کر لیونارڈ اور سوا جوانا کے سونے کے کمرے میں گئے۔

لیونارڈ۔ ”جوانا پیاری اٹھو۔“

جوانا کی آنکھ کھل گئی اور اس نے کہا۔ ”کیا ہے لیونارڈ۔ تم نے مجھے کیوں جگایا؟“

لیونارڈ۔ ”یہ لو شربت پی لو۔ اس سے تمہارے دل کو تقویت ہو گی۔“

جوانا نے لیونارڈ کے ہاتھ سے دوا کا پیالہ لیا اور پی گئی اور منہ بنا کر کہنے لگی۔ ”یہ شربت کیسا بد مزہ ہے۔“ لیکن وہ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ اس کی آنکھوں میں جلدی سے نیند کو غلبہ

صفحہ 258

محسوس ہونے لگا اور تھوڑی دیر میں وہ سو گئی۔

جب لیونارڈ جوانا کو دوا پلانے گیا تو فرانسسکو نے جیب میں سے روزنامچہ نکالا اور ایک کورا ورق نکال کر جلدی سے کچھ الفاظ اس پر لکھے۔ اس کے واپس آنے پر اس نے کہا۔ ”مسٹر لیونارڈ۔ لو یہ تحریر جوانا کو دے دینا اور اس سے کہہ دینا کہ میرے مرنے کے بعد ان الفاظ کو جو میں نے اس کے لئے لکھے ہیں پڑھے۔ ہوں اور یہ تسبیح لے لو۔ یہ بھی میری طرف سے اس کو دے دینا۔ میں نے اس تسبیح کے دانوں کو گن گن کر اس کی سلامتی کے لئے صبح و شام دعائیں مانگی ہیں۔“

لیونارڈ نے روزنامچہ اور تسبیح لے کر اپنی جیب میں ڈالی اور پھر آٹر سے مخاطب ہو کر اس نے جلدی جلدی سب حقیقت بیان کی۔

آٹر۔ ”میاں اس چڑیل کو ذرا بھی اعتبار کہ کرو۔ (پھر کچھ تامل کے بعد) مگر یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس کو راعیہ سے ایسی محبت ہے جیسی شیرنی کو اپنے بچوں سے ہوتی ہے۔ مگر میاں مجھے آپ کی طرف سے خطرہ ہے۔“

لیونارڈ۔ ”آٹر میرا کچھ خیال نہ کرو۔ سنو، ہم کو وہ مندر کے تہہ خانوں میں چھپائے رکھیں گے۔ تم اگر زندہ رہے تو آلفن کی مدد سے ہم کو رہا کرانے کی کوشش کرنا ورنہ خیر پھر عالمِ بقا میں ملاقات ہو گی۔“

آٹر۔ (رو کر) ” ہائے میاں! میاں مجھ کو اپنی کچھ پروا نہیں کہ میں جیوں گا یا مروں گا مگر مجھے اس بات کا افسوس آتا ہے کہ آپ تنہا مریں گے اور میں ساتھ دینے کے لئے پاس نہ ہوں گا۔ ہوئے افسوس وہ کیسی بری گھڑی تھی جب آپ کے بھائی نام مرحوم نے خواب دیکھا کہ دولت حاصل ہو گی۔ اگر ہم یہ سفر اختیار نہ کرتے تو آج ناٹال میں مزے سے گاڑی بانی کرتے۔ میں مجھے یہ قلق ہے کہ میں نے آپ کا حقِ خدمت ادا نہیں کیا۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔“

لیونارڈ ’تم اس بات کا افسوس نہ کرو۔ جس طرح تم نے حق دوستی ادا کیا ہے شاید ہی کسی اور نے ادا کیا ہو۔ اور اس کے لئے خدا تم کو جزائے خیر دے۔ اگر تم جوانا کو مدد دے سکو تو دینا اور کچھ نہ ہو تو اتنا دیکھتے رہنا کہ جونا زہر کھا کر مرے کیونکہ وہ اس قدر نازک ہے کہ میں اس کے لئے ایک ظالمانہ موت کے خیال تک کو برداشت نہیں کر سکتا۔“

اس وقت سوا فرانسسکو کو ایکا کا کالا لباس پہنا چکی تھی اور اب اس نے کہا۔

”چلو نجات دھندہ اب چلو۔ راعیہ کو تم نہایت آہستگی سے اٹھا لو (فرانسسکو سے مخاطب ہو کر)

صفحہ 259

پادری صاحب میں یہ کہوں گی کہ فرانسسکو کو خوف سے غش آ گیا ہے۔ میں اس موقعہ پر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ آپ ایک نہایت ہی بہادر آدمی ہیں اور میں آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔ منہ سر خوب لپیٹ لو اور اگر تمہارا مقصد جوانا کی سلامتی ہے تو خاموش رہنا۔ کسی بات کا جواب نہ دینا اور خوف کے وقت ہرگز نہ چلّانا۔“

فرانسسکو اس کمرہ میں آ گیا جہاں جوانا سو رہی تھی۔ اس نے اس کی چارپائی کے پاس کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ اٹھائے اور اس کے لئے دعا مانگی۔ جب مانگ چکا تو مڑ کر لیونارڈ سے بغلگیر ہوا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہا کہ خدا تم کو برکت دے۔

لیونارڈ (رو کر) اچھا خداحافظ فرانسسکو۔ آسمان کی پادشاہت تم ہی جیسے لوگوں سے قائم ہے۔“

فرانسسکو ”میرے دوست روتے کیوں ہو۔ مجھے امید ہے کہ اگلے جہاں میں میں تم سے اور جوانا سے ملوں گا۔“

یہ کہہ کر وہ جدا ہوئے۔

صفحہ 260

اکتیسواں باب

سپیدۂ دم

لیونارڈ جوانا کو اس کی خوابگاہ سے بآہستگی تمام دوسرے کمرے میں لے گیا جہاں سوا کاہنوں سمیت مشعل ہاتھ میں لئے کھڑی تھی۔ جوانا کی طرف اشارہ کر کے اس نے کاہنوں سے کہا کہ ”یہ گنجے سر والا گورا آدمی بزدل ہے خوف کے مارے اسے غش آ گیا ہے۔ چور دروازہ کھولو اور ہمیں گذر جانے دو۔“

اس پر ایک کاہن نے آگے بڑھ کر ایک پتھر کو جو دیوار میں نصب تھا زور سے دبایا۔ دبانے سے یہ پتھر اندر کی طرف گھوم گیا اور اتنی جگہ خالی ہو گئی کہ ایک آدمی اس میں سے بآسانی گذر سکتا تھا۔ سوا جو آگے آگے مشعل لئے جا رہی تھی سب سے پہلے داخل ہوئی۔ اس کے بعد دو کاہن اور ان کے بعد لیونارڈ۔ دو کاہن جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی دروازہ بند کر کے لیونارڈ کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔

ادھر فرانسسکو اور آٹر اپنے کمرے میں منتظر بیٹھے ہوئے تھے۔ فرانسسکو تو یادِ الہٰی میں مصروف تھا مگر آٹر کار ہاے نمایاں کو جو اس نے سفرِ ظلمات میں کئے تھے ایک مسرّت آمیز لہجہ میں آپ ہی آپ تعریف کر رہا تھا۔ اور کبھی کبھی وہ گیت گاتا تھا جو اس نے بردہ فروشوں پر فتح پانے کے موقع پر بنایا تھا۔

قریباً پاؤ گھنٹہ گذرا ہو گا کہ نام اور اس کے ساتھ کچھ کاہن کمرہ میں داخل ہوئے۔

فرانسسکو ”آٹر خاموش“ اور یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ سر ڈھک لیا۔

نام (مشعل کو بلند کر کے) ”یہ ہیں دیوتا۔ اے دیوتاؤ! اٹھو ہم تمہیں مندر کی طرف لے چلنے کے لئے آئے ہیں۔ وہاں ہم تمہیں ایک بلند جگہ پر بٹھائیں گے جہاں سے تم آفتاب کو طلوع ہوتے دیکھ سکو گے۔“

فرانسسکو اور آٹر بغیر کسی پس و پیش کے اٹھ کر ان کے ساتھ ہو لئے۔ جب وہ مندر کے
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 276

بےچارے فرانسسکو مرحوم نے مجھ سے مرتے دم کہا تھا کہ یہ میری طرف سے راعیہ کو دے دینا۔“

یہ کہہ کر اس نے تسبیح اور روزنامچہ جوانا کو دے دیا اور کہنے لگا ”اس نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ تم اس تسبیح کو بطور یادگار اپنے پاس رکھنا اور جب کبھی دعا مانگو تو اس کے لئے مغفرت مانگنا۔“

جوانا نے روزنامچہ لے کر کھولا۔ پہلے اس نے اپنا نام دیکھا کیوں کہ اس روزنامچہ میں پادری فرانسسکو نے اس وقت سے جب کہ جوانا کے ساتھ اس کی پہلی ملاقات ہوئی اپنے دلی جذبات کی اور اس جدوجہد کی کیفیت درج کر رکھی تھی جو ان جذبات کو روکنے کے لیے اس نے پیہم کی تھیں۔ جوانا ورقوں کو جلدی سے الٹی چلی گئی۔ آخری صفحہ پر اس کی نگاہ اس تحریر پر پڑی جو فرانسسکو نے مرتے وقت جوانا کو لکھی تھی۔ وہ تحریر یہ تھی۔

”خاتون عصمت و ثار و عفت شعار۔ آپ کو رفتہ رفتہ معلوم کو جائے گا کہ مجھے کس بات نے یہ الفاظ قلم بند کرنے پر آمادہ کیا ہے اگر آپ اس روزنامچہ کے صفحات کو غور سے پڑھیں گی تو آپ کہیں گی کہ فرانسسکو ضبط نفس پر کافی قدرت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن آپ اس بات کو فراموش کہ کریں کہ اگرچہ میں پادری ہوں مگر پھر بھی انسان ہوں۔ اور محبت کا مادہ مجھ میں کسی قدر موجود ہے۔ میں نے بارہا چاہا کہ اپنے دل کو روکوں اور آپ کی محبت کے آنچل کو پکڑنے سے باز رہوں مگر نہ ہو سکا۔ اور

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اگرچہ میں اپنے اس گناہ سے شرمندہ ہوں اور خود اپنے آپ کو کبھی بے قصور نہیں ٹھہراؤں گا مگر مجھے امید ہے کہ جہاں میرے ہزاروں گناہ خدائے کریم بخش دے گا وہاں آپ بھی میرا یہ گناہ بخشیں گی۔ اب آپ اس شریف النسل اور شریف الطبع آدمی کے ساتھ جسے آپ سے سچی محبت ہے، مسرت اور راحت کی زندگی بسر کریں۔ میں آپ کے لئے دعا مانگتا ہوں کہ آپ پر اور آپ کے چاہنے والوں پر آسمان سے برکت نازل ہو۔ اور آپ مصائب و تکالیف سے مامون و مصئون رہیں۔ جب کبھی آپ یاد کریں تو میرا نام لے کر کہیں کہ محبت ہو تو ایسی ہو کہ جان دینی پڑے تو اپنے دوستوں سے دریغ نہ کرے۔ اب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔ دوسری دنیا میں آپ سے ملاقات ہو گی۔ الوداع۔“

جوانا نے اس تحریر کو ایک ایسی حیرت سے جو مبدم ترقی پر تھی بڑھا اور جب وہ پڑھ چکی تو اس نے روزنامچہ کو نیچے رکھ دیا اور پکار اٹھی۔ ”آہ مجھ میں کون سی خوبی ہے کہ ایسے شریف النفس لوگ میرے

صفحہ 277

اوپر جان نثار کرتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور وہ زار قطار رونے لگی۔

جب اس کا رونا بند ہوا تو لیونارڈ نے آہ بھر کر کہا۔ ”افسوس دنیا میں سے ایک نہایت نیک آدمی اٹھ گیا۔ جوانا ہم اس قابل نہ تھے کہ وہ ہماری صحبت میں رہتا۔“

اس وقت دستک کی آواز سنائی دی اور جب لیونارڈ نے دروازہ کھولا تو نام اور سوا اندر داخل ہوئے۔

نام (جس کے چہرے سے تذبذب اور خوف مترشح تھا( ”اے نجات دھندہ اور اے راعیہ میں تم سے کچھ کہنے کے لئے آیا ہوں۔ دیکھو میں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر تمہیں بچایا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ گورا آدمی جو تمہارا ہمراہی تھا راعیہ کے بجائے قربانی چڑھا۔“

لیونارڈ (قطع کلام کر کے) ”کیا گرا دیا گیا؟“

لیونارڈ کے سوال کو جوانا نے ترجمہ کر کے نام کو سنایا۔

نام۔ ”ان میں تم سے کوئی بات چھپا تو نہیں سکتا۔ ہم کو ایک دوسرے کی حقیقت خوب معلوم ہے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ گورا آدمی جو تمہارے ہمراہیوں میں سے تھا واقعی قربانی چڑھا دیا گیا ہے۔ جس وقت اس کے بت پر سے گرائے جانے کا وقت نزدیک تھا تو اس کو خوف سے لرزہ آ گیا اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔ مگر میں حیران ہوں کہ وہ بونا کس بلا کا آدمی تھا کہ اس نے اتنا انتظار نہ کیا کہ کوئی شخص اس کو گرائے بلکہ خودبخود خلا میں کود پڑا اور ایک شخص کو بھی جو میرے کاہنوں میں سے تھا ساتھ ہی لے گیا۔“

لیونارڈ (بلند آواز سے) ”شاباش آٹر شاباش! میں جانتا تھا کہ تو مرے گا بھی تو ایک انداز سے۔“

نام ”اے نجات دھندہ! واقعی اس بونے نے کمال کر دیا۔ اس وقت تک بہت سے لوگ قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ انسان نہیں تھا بلکہ دیوتا تھا۔“

لیونارڈ ”قسمیں کھاتے ہیں؟“

نام ”ہاں کیونکر نہ کھائیں؟ بعد میں جب دکھا کہ بونا اتنی بلندی پر سے گرنے کے بعد بھی زندہ ہے اور سانپ کے پیچھے پیچھے جو تمہارے گورے ہمراہی کی لاش کو منہ میں دبائے غار کی طرف جا رہا تھا تیر رہا ہے تو لوگ حیران اور ہکّا بکّا رہ گئے۔ گو اس امر کی وجہ کوئی شخص نہیں بتا سکتا کہ انسان ہو کر سانپ کے پیچھے پیچھے تیرنے کی ہمّت اس کو کیونکر پڑی۔“

صفحہ 278

لیونارڈ (بآوازِ بلند) ”شاباش! اچھا نتیجہ کیا نکلا؟“

نام ”اے نجات دھندہ! اس بات کا علم کسی کو نہیں ہاں یہ دیکھا گیا تھا کہ سانپ نے پانی میں غوطہ مارا اور بونا بھی اس کے ساتھ ہی پانی کے اندر چلا گیا۔ اس کے بعد سانپ نے تو غار کے پاس جا کر سر نکالا اور اس میں گھس گیا مگر بونا نہیں معلوم کہاں گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ غار میں بھی گیا اور بعض کی یہ رائے ہے کہ وہ نہیں گیا۔“

لیونارڈ ”مرے یا جئے مگر آٹر ایک دفعہ تو سانپ سے لڑے گا۔ نام تم کس کام کے لئے آئے ؟“

اس سوال نے نام کو تشویش میں ڈال دیا کیونکہ دراصل وہ جوانا کو لیونارڈ سے علیحدہ کرنے کے لئے آیا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ کسی قسم کی جبر و تعدی سے کام نہ لے۔ ساتھ ہی اس کو یہ بھی خیال تھا کہ اگر میں لیونارڈ اور جوانا کو جو کچھ میرے دل کا منشا ہے ٹھیک ٹھیک بتا دون تو خلافِ مصلحت ہو گا۔ اس لئے وہ بولا۔

”اے نجات دھندہ میں یہاں اس غرض سے آیا تھا کہ جو کچھ مندر میں پیش آیا ہے اس سے تم کو خبر دوں۔“

لیونارڈ ”خوب جز اس بات کی کہ تم میرے دو نہایت عزیز دوستوں کی زندگی کا خاتمہ کر کے آئے ہو جن میں سے ایک مرنے سے کچھ دیر پہلے تمہارا معبود اور دیوتا تھا۔ نام میں اس خوشخبری لانے کے لئے تمہارا دل سے مشکور ہوں۔ کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ ہمارے متعلق تم نے کیا تجویز سوچی ہے؟“

نام۔ ”نجات دھندہ! یقین مانو کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہاری جانیں بچی رہیں اگر تمہارے ساتھی موت کا شکار ہوئے ہیں تو اس میں میرا کوئی قصور نہ تھا۔ ملک بھر میں ایک کھلبلی مچ گئی ہے اور عجیب عجیب افواہیں اڑ رہی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ہفتہ آئندہ میں کیا پیش آئے مگر میں چاہتا ہوں کہ جب تک لوگوں کے دلوں کا جوش کم نہ ہو تب تک تم اسی جگہ چھپے رہو۔ یہ کمرہ تمہارے رہنے کے لائق نہ تھا مگر کیا کیا جاوے۔ موجودہ صورت میں اس سے بہتر کوئی مقام نہیں مل سکتا۔ تاہم ایک اور کوٹھڑی ہے جس میں تم رہ سکتے ہو اور وہ اسی کے برابر ہے۔ شاید تم نے پہلے ہی دیکھ لی ہو گی۔“

یہ کہہ کر اس نے دیوار میں ایک جگہ انگلی رکھ کر پتھر کو زور سے دبایا اور معاً پتھر کی ایک سل جو معمولی دروازہ جتنی بڑی تھی ایک طرف کو سرک گئی اور ایک کوٹھڑی نمودار ہوئی۔

نام۔ ”دیکھو نجات دھندہ یہ ہے وہ کوٹھڑی۔“ یہ کہہ کر وہ کوٹھڑی میں داخل ہونے کے لئے

صفحہ 279

آگے بڑھا مگر پھر پیچھے ہٹ گیا گویا کہ اخلاق کا یہ تقاضا تھا کہ وہ پہلے لیونارڈ کو آگے جانے دے۔“

یہ پہلا ہی موقعہ تھا کہ لیونارڈ احتیاط سے کام لینا بھول گیا۔ دہلیز کے دوسری طرف اس نے قدم رکھا مگر فوراً اسے خیال آیا۔ ”میں اس تاریک کوٹھڑی میں تنہا کیو گھسا۔ آخر یہ نام میرا دوست تو نہیں ہے؟“

وہ جلدی سے پیچھے ہٹا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ پتھر کی سل اپنی جگہ پر آ گئی ۔ چور دروازہ بند ہو گیا اور اس نے ایک زندان تاریک میں جوانا سے علیحدہ اپنے آپ کو مقید پایا۔

صفحہ 280

چونتیسواں باب

نام کی آخری حجّت

نام نے دروازہ بند کرنے میں اس پھرتی سے کام لیا کہ جوانا حیران و ششدر رہ گئی۔

نام ” بڑی دیر کے بعد تخلیہ میں گفتگو کرنے کا موقع ملا۔“

جوانا ۔ ”ہٹ مردود۔ میں تجھ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ (دل میں) ان میرے لیے یہی بہتر ہے کہ مر جاؤں۔“

ہی سوچ کر اس نے اپنا ہاتھ سر کی طرف بڑھایا تاکہ زہر کھا کر مر جائے اور تمام جھگڑوں قضیوں سے رہا ہو جائے۔

سوا۔ ”جان سے بڑی تنگ آ گئی ہو لیکن وہاں اب کیا رکھا ہے۔ میں ایسی احمق نہ تھی کہ زہر کا غریطہ تمہارے بالوں میں رہنے دیتی کہ جب چاہو جان پر کھیل جاؤ۔ اب تم اسے نہ پاؤ گی۔“

نام۔ ” خبردار راعیہ۔ اگر تو نے اپنی جان کا قصد کیا تو میں تیری مشکیں کسوا دوں گا۔ اور اپنی بیٹی کو تیری نگرانی کرنے کے لئے مقرر کر دوں گا۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ اگر تو میرا کہا مانے گی تو اس شخص کو جو ساتھ کے کمرے میں بند ہے کوئی ضرر نہیں پہنچاؤں گا۔ تو یہ تو سمجھ سکتی ہے کہ لوگ تجھ کو اب دیبی خیال نہیں کریں گے۔ میں اگر اپنا خیال کرتا تو میرے لئے یہ بہتر تھا کہ تو سانپ کے آگے پھنکوا دی جاتی۔ اور سب خدشے مٹ جاتے مگر میری بیٹی نے مجھ سے تیری سفارش کی اور چونکہ وہ میری لختِ جگر ہے میں نے اس کی آرزو پوری کرنے کے لئے تجھ کو بچا لیا۔ اب تو اس ملک سے بھاگ بھی نہیں سکتی۔ عمر بھر تجھے اس سرزمین پر رہنا پڑے گا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ تو اس تنگ و تاریک حجرہ میں ساری عمر گزار دے۔ پس محض اس لئے کہ میری بیٹی کو تجھ سے محبت ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ تو زندہ رہے، میں نے ایک تجویز سوچی ہے جس سے نہ صرف تجھ کو اس قید خانے کی قید سے رہائی ہو گی بلکہ تو تمام ملک میں ممتاز ہو جائے گی۔“ یہ کہہ کر وہ رک گیا۔

جوانا۔ (غصہ اور خوف سے کانپ کر) ”آخر تم اپنے مطلب ہر آؤ گے یا نہیں؟“

صفحہ 281

نام۔ (سر جھکا کر) ”میرا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ دیبیوں میں تمہاری پرستش آئندہ نہیں ہو سکتی مگر یہ ممکن ہے کہ تم شاہ آلفن کے حبالۂ عقد میں آ کر اس ملک کی ملکہ کہلاؤ۔“

جوانا کے دل پر ان الفاظ کے سننے سے جو کیفیت طاری ہوئی اس کا اندازہ اچھی طرح کیا جا سکتا ہے۔ ایک وحشی کی بی بی بننے کے خیال سے ، گو وہ والئ ملک ہی کیوں نہ ہو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور ساتھ ہی اسے نام کی مکّاری اور بے باکی پر سخت غصہ آیا مگر اس وقت وہ بے یار و مددگار اور بالکل بے کس تھی لہٰذا جو مصلحت وقت سمجھ کر اس نے اپنے غصہ کو مشکل کے ساتھ ضبط کیا اور کہنے لگی۔ ”کیا لوگ مجھ کو جو ان کی دیبی تھی، اپنے بادشاہ کے نکاح میں آئی ہوئی دیکھ کر تعجب نہ کریں گے؟“

نام۔ ”نہیں راعیہ۔ تم اس بات کہ فکر نہ کرو۔ میں لوگوں کو ایک دن مندر میں جمع کر کے کہہ دوں گا کہ وہ دیبی جس کو تم نے جھوٹی اقرار دے کر سانپ کی قربانی چڑھا دیا تھا دراصل سچی تھی اور بوجہ اس کے کہ اس کو تم سے محبت ہے، انسانی قالب میں پھر تمہارے درمیان آ گئی ہے تا کہ تم میں سے جس شخص سے اس کو خاص طور پر محبت ہے، اس کے ساتھ چند سال رہے۔“

جوانا۔

”چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

نام تو گو لاکھ مکّار اور چالاک ہے مگر یہ تجویز تیری نہیں معلوم ہوتی۔ اس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی عورت ضرور ہے لیکن خواہ کچھ بھی ہو میں ہرگز اس پر عمل نہیں کر سکتی۔“

سوا۔ ”راعیہ تم ٹھیک کہتی ہو۔ یہ تجویز میری ہے اور اس سے میرے دو مقصد ہیں ایک تو یہ کہ تم زندہ رہو۔ دوسرے یہ کہ تمہارا نکاح ایک وحشی آدمی سے کرا کے لیونارڈ سے انتقام لوں۔“

جوانا۔ ”مگر کیا تم کو یہ معلوم نہیں کہ اس معاملہ میں میری رائے بھی کچھ وقعت رکھتی ہے۔“

سوا (طنز سے) ”جوانا تم اس گھمنڈ میں ہو کہ چونکہ تمہاری شکل ذرا اچھی ہے اس لئے تمام دنیا تمہاری خواہشوں کی غلام ہے اور تمہاری ہر ایک آرزو پوری ہو سکتی ہے۔ مگر کہیں اسی خیال پر مت اترانا۔ کم از کم مجھ پر تو تمہارا جادو نہیں چلتا۔ سنو جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس سے نہ صرف تمہاری اور لیونارڈ کی سلامتی ہی مقصود ہے بلکہ میں اپنے باپ نام کی بھلائی بھی چاہتی ہوں۔ آلفن تمہارے عشق میں مبتلا ہے اور اس آڑے وقت میں میرے باپ اور اس کے کاہنوں کو اس کی مدد کی ضرورت ہے۔

صفحہ 282

وہ ان کو اس شرط پر مدد دینے کے لئے تیار ہے کہ آج ہی تمہارا اس سے نکاح کر دیا جائے۔ ہم جبراً تمہارا نکاح اس سے کر دیتے مگر مشکل یہ ہے کہ آلفن چاہتا ہے کہ تمہاری رضامندی کے بغیر تم سے شادی نہ کرے۔ اے راعیہ گو تم یہ چاہتی ہو کہ اپنی قوم کے کسی آدمی سے تمہاری شادی ہوتی مگر موجودہ صورتِ حال میں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ تم ایک ملک پر حکمرانی کرو گی اور ملکہ کہلاؤ گی۔ اس کے علاوہ خیال کرو کہ جس شخص کو تم نجات دھندہ کہتی ہو وہ قریب کی کوٹھڑی میں قید ہے اور اس کا مرنا جینا تمہارے رد یا قبول پر منحصر ہے۔ تمہاری زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ اس کو ایک ایسی خوفناک موت سے بچا سکتا ہے جس کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔“

جوانا۔ ”سوا یہ تو نے مجھ سے چال کی ہے۔ تو چاہتی ہے کہ یا تو میں آلفن سے شادی کر لوں اور یا لیونارڈ کو اپنے ہاتھوں قتل کراؤں۔ بہتر ہوتا کہ تو مکھ کو بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں رہنے دیتی۔“

سوا۔ (درشتی کے ساتھ) ”جب تم اس خیمہ گاہ میں تھیں تو تم کو مجھ سے محبت تھی مگر اس کے بعد تمہیں عشق چرایا اور تم مجھ سے نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ مجھ کو تم سے اب بھی اسی طرح محبت ہے، جو پہلے تھی۔ مگر میں اس گورے آدمی سے انتقام لوں گی جس نے تمہارا دل میری طرف سے پھیر دیا ہے اور اس انتقام لینے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تم کو آلفن کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کروں۔ اس سے نہ صرف میرا ہی مقصد پورا ہوتا ہے بلکہ تمہاری قدر و منزلت کا بڑھنا اور خوشی سے بسر کرنا بھی مقصود ہے۔“

جوانا کو ہرگز اس امر کا اقبال منظور نا تھا کہ وہ آلفن سے شادی کر لے گی مگر ساتھ ہی اس کے دوسرے خیالات نے اس کے دل کو اور تذبذب و اضطراب میں ڈال رکھا تھا۔ اس نے دل میں کہا۔ ”اگر میں آلفن کے ساتھ شادی سے انکار کر دوں تو ایک ایسا شخص جو مجھ پر ہزار جان سے فدا ہے اور جس سے مجھے سچا عشق ہے جان سے مارا جاتا ہے۔ اس کی جان کی سلامتی مجھے ہر طرح سے منظور ہے۔ مگر افسوس اس مقصد کی تکمیل کے لئے صرف ایک ہی سبیل ہے جس سے پیارا لیونارڈ مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا رہے گا۔ ہائے یہ جدائی میرے اور اس کے دل پر کیسی شاق گزرے گی۔ یہ کوئی جینا نہیں۔ اس کو زندہ درگور کہنا چاہیے۔ خیر

”نہ سہی وصل تو حسرت ہی سہی“​

صفحہ 283

مگر ہاں ممکن ہے کہ خدا ہم کو پھر ملا دے۔ گو آلفن کی محبت سچی ہے اور وہ میری دلجوئی کے لئے ہزار کوشش کرے یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا کہ لیونارڈ کا خیال میرے جی سے اٹھ جائے۔

ایں خیال است ق محال و جنون

ممکن ہے کہ اس ملک کی ملکہ بن کر میں اپنی حکومت و اقتدار کو اپنے حصول کا ذریعہ بناؤں اور لیونارڈ کو پھر راحت و آرام نصیب ہو۔ آٹر اپنی جرأت اور دلاوری کی وجہ سے ممکن ہے ان تک بحرِ حیات ہو میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔ جو خود دریا باش ہے وہ نہنگوں سے کب ڈرے گا۔ اس لئے اگر وہ سانپ کو مار کر غار سے زندہ نکل آیا تو اہل ظلمات کے نزدیک اس کے دیوتا ہونے میں کچھ شک نہیں رہے گا۔ پھر تو کیا آلفن اور کیا نام سب اس کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہوں گے۔ اس صورت میں وہ اور لیونارڈ دونوں مل کر ضرور مجھ کو آلفن کی قید سے چھڑا لیں گے۔“

ان خیالات سے متاثر ہو کر جوانا نے اپنا سر اٹھایا اور نام سے کہنے لگی۔ ”میں آلفن سے شادی کرنے پر رضامند ہوں۔“

نام ”بس میرا مطلب یہی تھا۔ اب میں تمہیں اس بات سے آگاہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ خبردار ہرگز آلفن کے سامنے یہ نہ کہنا کہ لیونارڈ زندہ ہے اور تم اس (آلفن) سے شادی کرنے پر خوش نہیں ورنہ میں اسی دم نجات دھندہ کو مروا ڈالوں گا۔ اب تم یہ بتاؤ کہ ہم آلفن کو یہاں کس وقت لائیں۔“

جوانا ”جس وقت تمہاری مرضی ہو۔ جتنی جلدی کرو گے اتنا ہی اچھا ہے۔“

نام ”بہت بہتر۔“

پھر سوا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ”آلفن باہر کھڑا ہے اس کو بلا لو۔“

سوا نے اپنے باپ کے کہنے کہ تعمیل کی اور آلفن کو بلانے کے لئے دروازہ سے باہر نکل گئی۔ جوانا خوف و ہراس کے عالم میں چارپائی پر دیوار سے پشت لگا کر بیٹھی تھی اور چونکہ رہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ نام کو اس کے دل کی کیفیت معلوم ہو اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ کو چھپا لیا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہی پھر دروازہ کھلا اور سوا اور آلفن اندر داخل ہوئے۔

نام (دبی آواز سے) راعیہ خبردار اگر تو نے ایک لفظ ایسا ویسا کہا تو نجات دھندہ کی خیر نہیں۔“

صفحہ 284

پینتیسواں باب

شریف بنو یا رذیل

کچھ دیر تک سب خاموش رہے ۔ جوانا نے نگاہ اٹھا کر آلفن کو دیکھا۔ وہ بے حس و حرکت کھڑا تھا اور اپنے بھاری بلم کو زمین پر ٹیکے ہوئے نیچی نگاہوں سے جوانا کے حسن گلو سوز کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے وحشیانہ رعب اور وقار مترشح تھا اور شمع کی روشنی اس کے تمام اعضا پر پڑ کر اس کے بدنی نشوونما کو بطرزِ احسن دکھا رہی تھی۔ اس کے شاہانہ لباس میں جو بکری کی نہایت عمدہ کھال کا تھا قیمتی جواہرات ٹکے ہوئے تھے اور اس کے لمبے سیاہ بال پیچھے کی طرف ایک سفید فیتے سے بندھے ہوئے تھے۔

آخر کار جوانا نے اس خاموشی کے قفل کو توڑا۔

”آلفن خاموش کیوں کھڑے ہو؟ اپنا مطلب بیان کرو۔“

آلفن (دھیمی مگر صاف آواز میں) ”اے ملکہ میں نے یہ سنا تھا کہ آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کا فرمانبردار ہوں ۔ مجھ کو اس امر کے سننے سے نہایت ملال ہوا کہ آپ کے شوہر اس جہانِ فانی سے انتقال کر گئے ہیں اس واقعہ جانکاہ میں میں کے کچھ حصہ نہیں لیا۔ آپ کے شوہر اور دوسرے گورے آدمی اور بونے تینوں کی موت کا الزام اس کاہن کے ذمہ ہے لیکن وہ قسم کھاتا ہے کہ وہ لوگوں کے مجبور کرنے پر اس امر نا مطبوع کا مرتکب ہوا۔ ابھی کچھ دیر نہیں گزری ہے کہ مجھ جو یہ یقین تھا کہ آپ کے دشمن بھی عدم کو سدھار چکے ہیں اور یہ آپ کا نازک جسم بت کے کنگرہ پر سے پانی کے غار میں گرا دیا گیا ہے۔ میں ایک سپاہی آدمی ہوں لیکن اس خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے اور میں نے اپنے اوپر لعنت اور نفرین بھیجی کہ بادشاہ ہو کر مجھے اتنی قدرت نہ ہوئی کہ آپ کی دستگیری کرتا۔ بعد میں اس آدمی نے جو ہمارے ملک کا سردار کاہن ہے مجھے آ کر حقیقتِ حال بتائی اور میرے

صفحہ 285

سامنے ایک تجویز پیش کی جس سے نہ صرف اس کی مقصد بر آوری ہوتی بلکہ تمہاری جان بچتی ہے اور میری حکومت اور اقتدار کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔“ یہ کہہ کر آلفن رک گیا۔

جوانا (کچھ دیر بعد) ”وہ تجویز کیا ہے؟“

آلفن ”وہ تجویز یہ ہے کہ آپ میرے عقد میں آ کر اس ملک کی ملکہ بنیں۔ لوگوں کو یہ یقین دلایا جائے گا کہ آپ کو جھوٹی دیبی سمجھ کر مار ڈالا گیا تھا لیکن بوجہ اس محبت کے جو آپ کو اس سے ہے آپ پھر انسانی قالب کا جامہ پہن کر ان کے درمیان آ گئی ہیں۔ مین اس عزت کے ہرگز لائق نہیں اور مجھ کو افسوس ہے کہ جس سے آپ کو محبت تھی وہ اس جہان سے چل دیا اور آپ کے دل کو گوناگوں غم و آلام میں مبتلا کر گیا۔ ہر چند کہ میں نہیں جانتا تھا کہ اس ماتم میں میرا آپ سے اس امر کی درخواست کرنا کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں ہرگز زیبا نہیں ہے۔ مگر جب نام نے مجھ سے بار بار کہا کہ اگر یوں نہ کیا جائے گا تو آپ کے دشمنوں کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی اور مجھ کو بوجہ کمال محبت کے جو آپ سے ہے ہرگز یہ منظور نہیں کہ اس عالمِ شباب میں آپ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں۔ اس لئے میں نے نام نے کہا کہ تم ان کے پاس جاؤ اور ان کی رائے لو۔ اگر انہوں نے مجھ سے نکاح کرنا پسند کیا تو میرے زہے نصیب۔ نام آپ کے پاس آیا اور آپ سے پوچھ کر واپس گیا اور کہنے لگا کہ ملکہ نے آپ کی درخواست کو منظور کر لیا، میں نے کہا کہ جب تک میں اپنے کانوں سے نہ سن لوں مجھ کو اعتبار نہیں آئے گا۔ اس لئے میں خود حاضر ہوا ہوں۔ میں آپ پر اپنی جان قربان کر دینے کو تیار ہوں مگر میں ہرگز آپ کو مجبور نہیں کرنا چاہتا کہ آپ میرے ساتھ شادی کریں۔ میری عیب خواہش ہے کہ آپ صاف صاف الفاظ میں جو کچھ آپ کو کہنا ہے کہہ دیں۔“

یہ کہہ کر اس نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے برچھے کے سہارے خاموش کھڑا ہو گیا۔

جوانا اپنی حالت کو خوب پہچانتی تھی ۔ آلفن سے وہ یہ نہ کہہ سکتی تھی کہ لیونارڈ زندہ ہے ورنہ اس کی جان پر آ بنتی۔ لیکن آلفن کی نسبت اس کا گمان یقین کے مرتبہ کو پہنچ چکا تھا کہ اہلِ ظلمات میں سے اگر کوئی شخص انسانیت اور شرافت کے اوصاف سے متصف ہے تو وہ آلفن ہے اس لئے اس نے جواب دیا۔

آلفن جو کچھ تم نے کہا میں نے سنا ہے۔ میں تمہارے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہوں مگر چونکہ تم جانتے ہو کہ میرے پیارے شوہر کو انتقال کئے بہت زمانہ نہیں گزرا اور اس کی بے وقت موت نے
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 286

مجھ کو سخت رنج میں ڈال دیا ہے۔ اس لئے مجھے امید ہے کہ رم مجھ کو چند دنوں کی مہلت دو گے تا کہ میں دو دو کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لوں۔“

آلفن کے متین اور سنجیدہ چہرہ سے مسرت اور خوشی کے آثار عیاں ہونے لگے اور اس نے جوانا کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور بولا۔ ”اے ملکہ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے اس کی تعمیل میں مجھے کچھ عذر نہیں۔ لیکن ایک مشکل آ پڑی ہے۔“

جوانا۔ ”وہ کیا آلفن؟“

آلفن۔ ”اے ملکہ وہ یہ ہے کہ نام نے مجھ سے ایکا کے خون کی قسم کھلا کر یہ شرط لی تھی کہ نکاح کی رسم آج ہی ادا ہو جانی چاہیے۔ اب میں اس قسم کو کیسے توڑ سکتا ہوں۔“

جوانا۔ ”مگر آلفن اس بات کا خیال کرو کہ میرے خاوند کو مرے ہوئے ابھی چھ گھنٹے بھی نہیں گزرے۔“

آلفن۔ ”اے ملکہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے آپ کے حکم کی تعمیل میں کوئی عذر نہ تھا مگر افسوس کہ میں اپنی قسم کو بھی نہیں توڑ سکتا۔ نکاح ہو جانے مین کیا حرج ہے جب کہ آپ کو اختیار ہے کہ جتنی دیر تک آپ چاہیں تنہا رہیں۔“

اس وقت نام بول اٹھا۔ ”راعیہ یہ وقت باتوں میں گذار دینے کا نہیں ہے۔ یہ سمجھ لو کہ اگر جو کچھ تم کہتی ہو ٹھیک ہے مگر اس وقت کے لئے شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ تمہارے اس وقت اتنا کہہ دینے سے کہ ”قبول کردم“ بہت سے آدمیوں کی جانیں بچ جاتی ہیں۔ خصوصاً ایک شخص کی جان (جس کا نام میں اس وقت نہیں لینا چاہتا) تو ضرور تمہاری زبان کی جنبش پر منحصر ہے اور یہ کہ اس نے اس کوٹھڑی کے دروازہ کی طرف جس میں لیونارڈ محبوس تھا اس انداز سے نظر بھر کر دیکھا کہ سوا جوانا کے اور کسی کو معلوم نہیں ہوا۔“

آلفن نے خیال کیا کہ شاید نام اپنی طرف اشارہ کرتا ہے مگر جوانا کو خوب معلوم تھا کہ اس نے کس طرف اشارہ کیا تھا۔

آلفن ”اے ملکہ۔ تم نے سنا نام کیا کہتا ہے۔ وقت بہت نازک ہے اور اگر شادی کی رسم ابھی ادا ہو گئی تو مجھے آج مجلس شوریٰ کے سامنے کھڑے ہو کر قسم کھانی پڑے گی کہ ایکا دیبی جس کو تم مار چکے تھے پھر زندہ ہو ہو کر آ گئی ہے اور اس وقت میرے نکاح میں ہے۔“

صفحہ 287

جوانا۔ ”اچھا میں زیادہ اصرار نہیں کرتی مگر چونکہ میں اس ملک کی ملکہ بننے والی ہوں اس لئے مخفی طور پر نکاح ہونا مناسب نہیں۔ کم از کم دو چار ایسے گواہ ہونے چاہیں جن پر اعتبار کیا جا سکے۔“

آلفن (مسکرا کر) ”اس کی چنداں ضرورت تو نہیں معلوم ہوتی پھر بھی آپ کا کہنا درست ہے۔ میں اپنے تین معتبر کپتانوں کو بلاتا ہوں جو اس نکاح کے گواہ رہیں گے۔” یہ کہہ کر اس نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا۔

جوانا۔ (آلفن کی کلائی پکڑ کر) ”مجھے اکیلی مت چھوڑو۔ مجھ کو ان دونوں میں سے کسی پر بھروسہ نہیں۔“

نام۔ (تند لہجہ میں) ”مگر گواہوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟“

آلفن۔ (درشتی کے ساتھ) ”راعیہ کا منشا ہے کہ گواہ ہوں اور میں گواہوں کو بلاؤں گا۔ اے بُڈھے تو نے بہت عرصے تک مجھ پر حکومت کر لی ہے۔ اب تک میں تیرا غلام رہا۔ لیکن اب سے تو میرا غلام ہو گا۔ خبردار اگر تو نے اپنا ہاتھ چہرے کی طرف بڑھایا۔ کیا تجھ کو میرا برچھا بھول گیا۔ میں جانتا ہوں کہ تیرے کاہن باہر کھڑے ہیں مگر میں بھی اپنے کپتانوں کو ساتھ لایا ہوں اور میں نے ان کو بتا رکھا ہے کہ میں کہاں ہوں۔ اس اندھیری کوٹھڑی میں ہزاروں کی جانیں گئیں اور خوب یاد رکھ کہ اگر میرا بھی یہی حال ہوا تو تیری خیر نہیں۔ اے نام تو کس شیخت میں ہے۔ وہ دن گئے کہ خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ تیری طاقت ٹوٹ گئی۔ اب میری اطاعت تجھ پر لازم ہے۔ خبردار اس جگہ سے نہ ہلنا۔“ اور یہ کہہ کر اس نے اپنے برچھے کے پھل کو بلند کر کے یہاں تک جھکایا کہ اس کی تیز نوک سردار کاہن کی ننگے سر پر سانپ کے پھن کی طرح ہلنے لگی۔ پھر آلفن بولا۔ ”اس کو کہہ کہ دروازہ کے پاس جا کر محافظ کو بلا لائے۔ دروازہ تک جائے۔ اس سے پرے نہیں۔ خبردار۔“

نام ڈر گیا اور اس نے سوا کو کہا۔ ”بیٹی جو کچھ تجھ کو کہا گیا ہے اس کی تعمیل کر۔“

آلفن۔ ” جو کچھ تجھ کو کہا گیا ہے۔ زیادہ نہیں۔“

سوا آہستہ سے دروازہ کی طرف گئی اور تھوڑا سا کھول کر اس نے سیٹی بجائی۔

آلفن (جوانا کی طرف مخاطب ہو کر) ”اے خاتون۔ ذرا پیچھے کی طرف سایہ میں ہو جاؤ۔“

جوانا سایہ میں ہو گئی اور اس وقت کھلے دروازہ میں سے ایک شخص نے اندر داخل ہو کر کہا۔ “اے سردار کاہن اس غلام کو کیا ارشاد ہوتا ہے۔“

صفحہ 288

آلفن (تاریکی میں برچھے کی انّی کو نام کے گلے کے قریب کے جا کر) ”اس سے کہو کہ جس دروازہ سے بادشاہ سلامت داخل ہوئے تھے وہاں تین کپتان کھڑے ہوں گے۔ ان کو لپک بلا لاؤ۔“

نام ”بیٹے جس دروازہ سے بادشاہ سلامت داخل ہوئے تھے وہاں تین کپتان کھڑے ہوں گے۔ ان کو لپک بلا لاؤ۔“

آلفن (نام کے کان میں) ”اور دیکھو رستہ میں کسی سے نہ کہے۔“

نام۔ “اور دیکھو رستہ میں کسی سے نہ کہنا۔“

کاہن۔ ”بہت اچھا سردار۔“ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ دس منٹ کے بعد دروازہ پھر کھلا اور ایک آواز آئی۔ ”کپتان آ گئے ہیں۔“

نام۔ ”ان کو اندر آنے دو۔“

جب نام نے یہ کہا تو تین مسلح آدمی کمرہ میں داخل ہوئے۔ اُن میں سے ایک شخص بادشاہ کا بھائی اور دوسرے دو اس کے چیدہ دوست تھے۔ دروازہ بند ہو گیا۔

آلفن۔ ”میں نے تمہیں اس لئے بلایا ہے کہ تم ایک رسم کی ادائیگی میں جو ابھی قرار پانے والی ہے گواہ رہو۔ ایکا دیبی جو آج سانپ کے آگے پھنکوا دی گئی تھی انسانی قالب میں پھر زندہ ہو گئی ہے اور اب میرے نکاح میں عنقریب آنے والی ہے۔“

جب آلفن نے یہ کہا تو کپتان حیران رہ گئے۔

آلفن۔ ”حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ ایک امر واقعی ہے۔ اے کاہن کو کچھ تمہیں کرنا ہے کرو۔“

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ جوانا کو یہ تمام سین ایک خواب معلوم ہوتا تھا۔ نکاح کی رسم کے ادا ہو چکنے کے بعد اسے صرف اتنا یاد رہا کہ وہ آلن کے ساتھ کھڑی تھی اور نام منہ سے کچھ بولتا گیا۔ اس وقت اسے وہ سوانگ بھی یاد آیا جس میں لیونارڈ اور وہ چند ماہ پیشتر بردہ فروشوں کے خیمہ گاہ میں دولہا دلہن بنے تھے۔ اس وقت تو لیونارڈ نے اس کی جان بچائی تھی مگر اس وقت وہ اس کی جان بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔

جب نکاح پڑھایا جا چکا تو آلفن نے ایک دفعہ پھر جھک کر جوانا کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور کہنے لگا۔

صفحہ 289

”اے اہلِ ظلمات کی ملکہ بارک ہو تجھ کو۔“

جوانا جو محویت کی نیند میں سو رہی تھی یکایک یہ لفظ سن کر بیدار ہوئی۔ اس کی امیدیں منقطع ہو چکی تھیں اور وہ حیران ہو کر دل میں کہنے لگی۔ ”اب کیا ہو سکتا ہے۔“

مگر دفعۃً اس کو ایک تدبیر سوجھی اور وہ آلفن سے یوں مخاطب ہوئی۔

”آلفن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میں ملکہ ہوں۔“

آلفن ”اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ اہلِ ظلمات کی ملکہ ہیں۔“

جوانا ”اور اہلِ ظلمات کی ملکہ ہونے کے لیے مجھے اختیار بھی حاصل ہے۔“

آلفن ”حیات ممات کا سلسلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ آگر آل کسی کو قتل کرائیں گی تو میرے اور مجلسِ شوریٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اس ملک کے لوگ آپ کی رعایا ہیں اور مذہبی معاملات کو چھوڑ کر باقی تمام امور میں کی کو آپ کے سامنے چون و چرا کی مجال نہیں۔“

جوانا۔ (کپتانوں کو ایک تحکمانہ آواز میں خطاب کر کے) ”اس کاہن کو جس کا نام نام ہے اور اس عورت کو جو اس کے ساتھ کھڑی ہے دونوں کو پکڑ لو۔“

آلفن حیران رہ گیا۔ کپتان پس و پیش کرنے لگے اور نام چھلانگ مار کر دروازہ کی طرف بڑھا۔

آلفن (اپنے برچھے کو اس کے سامنے کر کے) ”کہاں جاتے ہو۔ نام ٹھہرو ملکہ نے جو کچھ کہا ہے بلا وجہ نہیں کہا۔ اس کی وجوہات پہلے سن لو پھر بھاگنا۔ میرے کپتانو ملکہ کا کہا مانو اور اسے پکڑ لو۔“

تینوں کپتانوں ہے جھپٹ کر اس کو پکڑ لیا۔ نام نے اپنا چھرا نکالنے کی کوشش مگر اس کی کوشش رائیگاں گئی۔ سوا البتہ اس آسانی سے گرفتار نہ ہوئی۔ بادشاہ کے بھائی نے جست بھر کر اس کو پکڑا تو وہ دونوں ہاتھ پاؤں مار کر اور دانتوں سے اسے کاٹ کر چھوٹ گئی اور جنگلی بلی کی طرح جست پھر کر دروازہ تک پہنچ گئی۔ اس کا مقصد تھا کہ باہر نکل جائے اور کاہنوں کو اپنے باپ کی مدد کے لئے بلا لائے۔ لیکن بادشاہ کے بھائی نے جو اس کی جدوجہد اور تیزی کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا، جھپٹ کر اس دفعہ اس قدر زور سے دبوچا کہ وہ ہل نہ سکی۔

آلفن ”اے ملکہ جو تمہیں کہنا تھا اب کہو۔“

جوانا ”اے بادشاہ اور اے کپتانو۔ ان جھوٹوں نے تم سے یہ کہا تھا کہ نجات دھندہ مر گیا ہے، مگر نہیں وہ زندہ ہے اور قریب کے کمرہ میں مقید ہے۔ اگر میں ذرا بھی کہتی کہ وہ زندہ ہے تو وہ کبھی کا

صفحہ 290

مر گیا ہوتا۔“

”کیا تم جانتے ہو کہ اِن دغا باز سفاکوں نے مجھے کیونکر اس بات پر رضامند کیا کہ میں تم سے شادی کر لوں؟ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میں نے تمہارے ساتھ شادی کرنے سے انکار کیا تو نجات دھندہ جو مجھے جان سے عزیز ہے اسی وقت مار ڈالا جائے گا۔ اور علاوہ اس کے اس کا یہ بھی مقصد ہے کہ جب اس کا کام تم سے نکل جائے تو تمہیں بھی خفیہ طور پر اپنے کاہنوں سے مروا ڈالے۔“

نام ”یہ بالکل جھوٹ ہے۔“

جوانا ” میں جو کچھ کہتی ہوں اس کی تصدیو اسی وقت ہو سکتی ہے۔ اے بادشاہ اگر تم چاہو تو دروازہ کھول کر دیکھ لو۔ نجات دھندہ اس قریب کے کمرہ میں مقید ہے یا نہیں۔“

آلفن ”میں جانا ہوں کہ تمہارا شوہر زندہ ہے مگر کیا تمہارے نزدیک اب اس نکاح میں فرق آ گیا؟“

جوانا ”کیوں نہیں۔“

آلفن۔ ”ہر گز نہیں۔ اب تم یہ چاہتی ہو کہ میں تمہارے خاوند کو اس کی قسمت پر چھوڑ دوں اور اگر وہ پہلے نہ مرا تو اب مروا ڈالوں۔ اے خاتون! اب تم میری ہو چکیں ۔ تم خود اپنی مرضی سے میرے عقد میں آئیں۔ تمہیں یاد ہے میں نے اس شادی کے مسئلہ کو تمہاری مرضی پر چھوڑا تھا اوت کہا تھا کہ شادی پر میں تمہیں مجبور نہیں کرتا۔ اگر تم چاہو تو مجھ سے نکاح کرو اور اگر نہ چاہو تو تمہیں اختیار ہے کہ مجھ پر تم یہ الزام نہیں لگا سکتی کہ میں نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا یا برا سلوک کیا۔“

جوانا۔ ”مگر کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میرے خاوند کو ماوا ڈالو۔“

آلفن ”نہیں بلکہ میں اس کی جان کی حفاظت کروں گا اور اس کو اپنے وطن کو بھجوا دوں گا۔“

جوانا سمجھی کہ اب معاملہ بگڑا۔ آلفن کے نفسیاتی جذبات کا شعلہ اس قدر بلند ہو گیا تھا کہ اس کی جبلی انسانیت اور شرافت میں اس کو فرو کرنے میں قاصر ہو چلی تھی اور عشق کی کڑی منزل میں وہ اس سے اتنے قدم بڑھ آیا تھا کہ اب اس کا پیچھے ہٹنا مشکل نظر آتا تھا۔ بے چاری جوانا پر ناامیدی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا لیکن اس کے طبعی استقلال نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اس ان آلفن سے یوں خطاب کیا۔

”اے بادشاہ۔ میں تمہارے بس میں ہوں۔ یہ نہ سمجھو کہ یہ میری حماقتوں کا نتیجہ ہے بلکہ میری قسمت

صفحہ 291

میں ہی ایسا لکھا تھا۔ واقعی میں نے تمہارے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا اور تمہارا کہنا بالکل درست ہے کہ تم نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ مگر اے بادشاہ، کیا تم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ مجھ کو میرے حال ہو چھوڑ دو تاکہ میں تمہیں ہمیشہ یاد رکھوں اور کہوں کہ یہ شخص نہایت شریف آدمی تھا۔ اے بادشاہ تم یہ کہتے ہو کہ تم کو مجھ سے محبت ہے۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو پھر یہ بتاؤ کہ اگر تم اپنی زبان سے ایل لفظ نکال کر میری جان بچا سکتے تو کیا تم وہ لفظ اپنی زبان سے نکلتے؟ ضرور نکالتے۔“

”میری بھی یہی حالت سمجھو۔ میں نے ایک لفظ کہہ کر تھوڑی سی دیر کے لئے تمہیں فریب دیا۔ یہ لفظ میں نے اس لیے زبان سے کہا تاکہ اپنے شوہر کو ان ملعونوں کے پنجہ سے رہا کراؤں۔ اب تم باوجود صاحبِ دل ہونے کے اصرار کر رہے ہو کہ مجھے اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے۔ اگر تم یہی دل رکھتے تو میں نے اس کے اندازه من سخت غلطی کی۔ ابھی تک میں یہ سمجھ رہی تھی کہ تم وہ شخص ہو کہ مر جانا قبول کرو گے مگر ایک بے کس عورت کو جس کا گناہ صرف یہ ہے کہ اس نے اپنے شو کو بچانے کی غرض سے تم کو دھوکا دیا اپنی بیوی بنانے کے لئے کبھی مجبور نہ کرو گے۔“

یہ کہہ کر وہ رک گئی اور آلفن کے متفکّر چہرہ کو بغور دیکھنے لگی۔ جب وہ نہ بولا تو اس نے پھر کہا۔ ”اے بادشاہ مجھے ایک بات اور کہنی ہے۔ گو تم نہایت طاقتور اور ذی جاہ آدمی ہو اور مجھ کو تم بآسانی اپنے قبضہ مین لا سکتے ہو۔ مگر یقین مانو کہ وہ وقت کبھی نہیں آئے گا جب کہ میں تمہاری زوجہ بنوں گی۔ کیونکہ اس صورت میں مجھے مر جانا پسند ہے۔ تمہاری عزت کو بٹہ لگ جائے گا۔ بیوی کو الگ ہاتھ سے کھو بیٹھو گے اور تمہاری وہ بات ہو گی کہ

یکے نقصان مایہ و دیگر شمائت ہمسایہ“

آلفن جواب مین کچھ کہنے کو ہی تھا کہ سوا یہ خیال کر کے شاید جوانا کے الفاظ نے آلفن کے دل کو مسخّر کر لیا ہے بول اٹھی۔ ”اے بادشاہ۔ یہ عورت چاہتی ہے کہ اپنے شیریں الفاظ اوت ملائم دھمکیوں سے تم کو اپنی طرف مائل کرے۔ میں خوب جانتی ہوں کہ اس کو اپنی جان اس قدر عزیز ہے کہ اگر وہ اس پر کی وقت کھیل جانا چاہے تو ایسا نہیں کر سکتی اور تم بھی اس بات کو دل کے کانوں سے سن لو کہ وہ تم سے ضرور محبت کرے گی۔ کیونکہ ہم عورت کا خاصہ ہے کہ جس شخص کے پاس گئیں اس کی گرویدہ ہو گئیں۔ علاوہ اس کے نجات دھنده برائے نام اس کا خاوند ہے۔ مجھ کو ان کے ساتھ رہتے رہتے کئی مہینے گذر گئے اور مجھ کو ان کی حقیقت معلوم ہے۔ اے بادشاہ اس وقت اس عورت کو لے جاؤ ورنہ تمام عمر اپنی حماقت کو روتے

صفحہ 292

عکس

صفحہ 293

رہو گے۔“

جوانا (فخریہ الفاظ میں) ”میں اس سفاک عورت کی جھوٹی باتوں کا جواب نہیں دیتی اور اے بادشاہ یہ بہتر ہو گا کہ اس کی باتوں کی کچھ پروا نہ کرو۔ مجھے جو کچھ کہنا تھا کہ چکی۔ اب جو تمہاری مرضی ہے کرو۔ فیاض بنو یا سنگ دل۔ شریف بنو یا رذیل۔ تمہیں اختیار ہے۔“

بنیان تست مستعد نقش علود سفل

خواہ آسمان و کواہ زمین شو مخیری“

یہ کہہ کر وہ زمین پر بیٹھ گئی اور زار زار رونے لگی۔ بادشاہ نے دو دفعہ اس کی طرف نگاہ کی مگر وہ اس کے حسن دلاویز کی تاب نہ لا سکا اور دیوار کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ ”اے ملکہ اٹھ اور اپنے آنسو نہ بہا۔ میری طرف سے اب کچھ اندیشہ نہ کر۔ پہلے کی طرح میں اب بھی تیرا مطیع اور فرمانبردار ہوں مگر اے خاتون جہاں تک تم سے ہو سکے اپنا چہرہ مجھ سے چھپائے رکھو۔ ایک ایسی چیز کو جو میں کھو بیٹھا ہوں بار بار دیکھنے سے کیا فائدہ۔ میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔“

جوانا اتنا روئی کہ ہچکیوں کا تار بندھ گیا۔ اس کو حیرت تھی کہ ایک وحشی آدمی کیونکر اتنا فیاض اور کریم النفس ہو سکتا ہے۔ وہ اٹھی۔ سب کپتان اس کے چہرہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور سوا اس پر اور بادشاہ دونوں پر تبرّا کر رہی تھی۔ مگر جوانا نے اس کی سب دشتم کی کچھ پروا نہ کی اور آلفن سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ ”اے بادشاہ۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔“

آلفن (آہستگی سے) ”اے ملکہ میں شکریہ کا مستحق نہیں۔ تم نے میرے دل کا اندازه ٹھیک لگایا ہے۔ محبت تو ہو چکی۔ اب میں تمہاری خاطر لڑنے کو تیار ہوں۔ (سوا سے مخاطب ہو کر) یہ دروازہ کیونکر کھلتا ہے۔“

سوا (درشت لہجہ میں) ”مجھے کیا معلوم کیونکر کھلتا ہے۔ جا کر خود دیکھ لو۔ ایک پیچ ہے اگر وہ تمہیں مل گیا تو بآسانی کھل جائے گا۔ عورت کا دل بھی تو ایسا ہی ہوتا ہے اور اگر وہ پیچ تمہیں نہ ملا تو پھر اس کو توڑ لینا۔ عورتوں کو اپنا گرویدہ بنا لینے میں تم اتنے ماہر ہو بھلا دروازہ کیوں نہ کھول سکو گے۔ میری رائے کی تمہارے نزدیک وقعت ہی کیا ہے۔ ابھی ابھی میں نے تم کو اس بارے میں اپنی رائے دی تھی۔ مگر تم نے اس پر کچھ التفات نہ کیا اور ایک عورت کے آنسوؤں پر موم ہو گئے۔“

جب جوانا نے سوا کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو اس نے عہد کر لیا کہ ”جو کچھ ہو اب سوا سے کسی

صفحہ 294

قسم کا رابطہ نہیں رکھوں گی۔“ اور واقعی ایسا کرنے میں وہ حق بجانب تھی کیونکہ سوا نے اسے ہزاروں طرح کے مصائب و تکالیف میں پھنسایا تھا۔

آلفن (اپنے بھائی سے مخاطب ہو کر) برچھے کی نوک کو اس کے حلق پر رکھ دو۔ اگر نہیں بتاتی تو چھید ڈالو۔“

جب برچھا سوا کے حلق پر گا تو اس کی ہٹ دھرمی جاتی رہی اور دروازہ کا بھید اسے طوعاً و کرہاً بتانا پڑا۔

صفحہ 295

چھتیسواں باب

آٹر کی واپسی

گلیشیر کے دامن میں کچھ دیر سستانے کے بعد آٹر اٹھا اور جس برفیلے پہاڑ پر اس نے اپنے آپ کو پایا اس پر اِدھر اُدھر پھرنے لگا تاکہ اگر کوئی رستہ ملے تو پہاڑ سے نیچے اتر کر رات کے وقت شہر میں داخل ہوا اور آلفن سے ملے لیکن تھوڑی دیر کی جستجو کے بعد اسے معلوم ہو گیا کہ شہر میں واپس جانے کا کوئے راستہ ہے تو وہی غار ہے جس میں سے ہو کر وہ یہاں پہنچا تھا۔

یہ غار نہایت ڈھلوان تھا۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ آٹر ایک ایسی چٹان کی چوٹی پر کھڑا تھا جس کے قدرتی طور پر تین زینے بنت ہوئے تھے۔ ان تینوں زینوں کی بلندی قریباً تین سو فیٹ ہو گی اور رسوں کی مدد کے بغیر ان پر سے اترنا ناممکن تھا۔ یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے دائیں بائیں دور تک رستہ ڈھونڈتا ہوا نکل جائے کیونکہ غار کے منہ سے (جس کا موقعہ اس نے اچھی طرح ذہن نشین کر لیا تھا) بائیں طرف چار سو قدم کے فاصلے پر اتار شروع ہو جاتا تھا جو اس قدر ڈھلوان تھا کہ اس پر قدم نہ جم سکتے تھے۔ اس کے بعد وہ داہنی طرف متوجہ ہوا لیکن کچھ دور نہ گیا تھا کہ اسے ایک ایسا قعر دکھائی دیا جس کی اتھاہ معلوم نہ ہو سکتی تھی۔

آٹر بیٹھ کر اپنی حالت پر غور کرنے لگا۔ ابھی دن زیادہ نہیں چڑھا تھا اور اسے معلوم تھا کہ غار کے رستے غروبِ آفتاب کے قبل نکل جانے کی کوشش کرنا حماقت ہو گی۔ اس کے سامنے پہاڑ بتدریج بلند ہوتا چلا گیا تھا اور سو میل کے فاصلہ پر ایک درّہ سے جا ملتا تھا۔ پہاڑ کے پہلو کا اکثر حصہ سبزی مائل برف کے بڑے تودوں سے ڈھکا ہوا تھا مگر بعض بعض مقامات پر پتھر کی چٹانیں عریاں نظر آتی تھیں اور ان پر کہیں کہیں پست قامت جھاڑیاں اور گھاس اور کچھ دشتی پھول بھی اگے ہوئے تھے آٹر بھوک کے مارے بیتاب ہو رہا تھا اور اسے خیال ہوا کہ شاید ان نباتات میں سے کوئی جڑی بوٹی ایسی مل جائے جو قابل
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 296

خوش ہو۔ یہ سوچ کر وہ آگے بڑا اور کدی قدر جستجو کے بعد اس کو ایک بوٹی ملی جو اس نے پہچان کر بہت سی اپنی جھولی میں بھر لی کیونکہ یہ وہی سبزی تھی جو پہلے دن اُسے پیش کی گئی تھی جب کہ غصہ میں آ کر لعل کو کاہن کے منہ پر کھینچ مارا تھا۔ اس وقت ایک مضبوط سی شاخ اسے نظر پڑی جسے اس نے کاٹ کر لٹھ بنا لیا۔ اس لٹھ کر ٹیک ٹیک کر اس نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا تاکہ دیکھے کہ درّہ کی دوسری طرف کیا ہے۔

کچھ دیر کے بعد بغیر زیادہ دقت کے درّہ کی چوٹی پر پہنچا جہاں سے اسے ایک عظیم الشان نظّارہ دکھائی دیا اور اگرچہ وہ مناظرِ قدرت کے مطالعہ کا شائق نہ تھا لیکن پھر بھی متحیر ہو کر اس کی دید میں محو ہو گیا۔ اس کے نیچے شہرِ ظلمات تھا جس کے گردا گرد دریا بہہ کر پیچ و خم کہتا ہوا اُن میدانوں میں نکل گیا تھا جو خطہ ظلمات میں داخل ہوتے وقت انہوں نے طے کئے تھے۔ اس کے سر پر وہ عظیم الشان چوٹی ہزار ہا فٹ بلند آسمان سے باتیں کرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی جس کے پیچھے اس دن آٹر اور فرانسسکو کو بت کے کنگرہ پر سے گرایا گیا۔ ظلمات کے کاہن طلوعِ آفتاب کے منتظر تھے۔

اس کے سامنے برفیلی گھاٹیوں کا ایک سلسلہ جس میں کہیں کہیں سیاہ چٹانیں نکلی ہوئی نظر آتی تھیں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ گھاٹیاں نیچے اوپر واقع تھیں اور ان کے نشیب و فراز ایک دوسرے میں اس طرح ملتے چلے گئے تھے جیسے کہ سمندر کی موجیں ۔ آٹر نے ذرا اور آگے نگاہ دوڑائی تو اسے معلوم ہوا کہ برف کی یہ گھاٹیاں کم ہوتے ہوتے آخر کار بالکل غائب ہو گئی ہیں اور ان کے اختتام پر اوّل تو کچھ میدان شروع ہوتے تھے جن پر سبز بچھا ہوا تھا اور ان کے بعد ایک زرخیز اور ہموار مسطح خطہ زمین نظر آتا تھا جس پر جھاڑیاں اور جنگل کے درخت اُگے ہوئے تھے۔

درّہ کی چوٹی سے جہاں کہ بونا کھڑا تھا برف کی پہلی گھاٹی نصف میل کے فاصلہ پر کئی فٹ نیچے ہو گی۔ اس درّہ کی چوٹی اور برف کی گھاٹی کے درمیان ایک بہت بڑا قدرتی شگاف یا نالہ تھا جس کے پہلو ایسے ڈھلوان تھے کہ کوئی بکرا بھی اس پر اپنے قدم نہ جما سکتا۔ لیکن یہ قعر ہولناک بھی بغیر پل کے نہ تھا کیونکہ نشیب کی تہہ سے چٹان کی ایک قدرتی دیوار برف سے ڈھکی ہوئی اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اور اس کے ایک سرے کو دوسرے سے ملاتی تھی۔ بعض جگہ یہ دیوار ہموار تھی لیکن بعض مقامات پر اس قدر ڈھلوان تھی کن آبشار کا اتار بھی اس سے زیادہ نہ ہو گا۔ اس حیرت انگیر برف کے پل کا عرض سو قدم سے لے کر چند قدم تک تھا اور اس کے دونوں طرف نہایت خوفناک کڑاڑے تھے۔ جس مقام ہر اس کا اتار نہایت سخت اور عرض بہت

صفحہ 297

کم تھا وہاں پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ بالکل غائب ہو گیا ہے اور واقعی میں اس مقام پر پہنچ کر یہ پل اس قدر باریک ہو گیا تھا کہ آٹر کو شبہ ہوا کہ کہیں چند گز کے فاصلے تک یہ پل ٹوٹا ہوا تو نہیں ہے۔

ہونے کی طبیعت متجسس واقع ہوئی تھی اور اس لئے اس نے چاہا کہ اس شبہ کو رفع کرے۔ اس کے چاروں طرف پتھر کی صاف چکنی سلیں بکھری ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک کو دھکیلتا ہوا آٹر اس مقام پر لایا جہاں سے کہ پل کا اُتار شروع ہوتا تھا۔ یہاں لا کر اس نے پتھر کو نیچے دھکیل دیا۔ پتھو جنبش میں آیا کہیں تیزی کے ساتھ اور کہیں بآہستگی حرکت کرتا ہوا برابر برف پر پھسلتا چلا گیا۔ ایک یا دو جگہ آٹر کو خیال ہوا کہ پتھر ٹھہر جائے گا مگر وہ کہیں نہیں ٹھہرا۔ اور آخر کار برف کے پل کے تنگ ترین اور سب سے زیادہ ڈھلوان حصہ پر پہنچ کر اس نے بلا کی سرعت کے ساتھ نیچے کو جانا شروع کیا۔ جب وہ اس مقام کے قریب پہنچا جہاں کچھ فاصلہ میں پل ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا تھا تو آٹر بولا۔ ”اب مجھے معلوم ہو جائے گا کہ پل ٹوٹا ہوا ہے یا نہیں۔“ ایک لمحہ کے لئے پتھر تیر کی طرح ہوا میں اڑتا ہوا اور پھر برف پر حرکت کرتا نظر آیا۔ اور تھوڑی دور نشیب میں جا کر پھر ایک فرار کے پہلو پر چڑھتا ہوا دکھائی دیا۔ اور کچھ اور آگے جا کر بالکل ٹھہر گیا۔

یہ دیکھ کر آٹر بولا۔ ”اگر کوئی آدمی اس پتھر پر بیٹھا ہوا ہوتا تو وہ صحیح سلامت اس پل کے پار ہو جاتا لیکن ایسے آدمی بہت کم ہوں گئے کہ جب تک کہ موت ان کے پیچھے پیچھے نہ آ رہی ہو اور اس اسم کا سفر اختیار کرنا پسند کریں۔“

اس کے بعد اس نے چاہا کہ دوسرے پتھر پر بیٹھ تجربہ کرے۔ اس دفعہ اس نے ایک دوسرے پتھر کی سل جو وزن میں پہلے پتھر سے کم تھی لڑھکائی۔ اس پتھر کی سل نے بھی وہی رستہ اختیار کیا جس پر پہلی سل گئی تھی۔ لیکن جب وہ پل کے اس حصہ پر پہنچی جو ٹوٹا ہوا نظر آتا تھا تو وہ غائب ہو گئی۔

آٹر۔ ”افسوس یہ پتھر چکنا چور ہو گیا۔“

اس کے بعد اس نے تیسری دفعہ تجربہ کیا اور ایک نہایت بھاری پتھر کو نیچے لڑھکایا۔ یہ قاصد بھی پہلے قاصد کی طرح پل کے تنگ ترین حصہ کو پھاند کر دوسری طرف صحیح سلامت گزر گیا۔

آٹر ”کیا عجیب جگہ ہے۔ خدا کرے مجھے ان پتھر کے گھوڑوں پر کبھی نہ سوار ہونا پڑے۔“

اب وہ پیچھے کو پلٹا کیونکہ دوپہر ڈھل گئی تھی۔ جب وہ غار کے منہ پر پہنچا تو آفتاب غروب ہو رہا تھا۔ کچھ دیر تک وہ بیٹھ کر شفق کا تماشا دیکھتا رہا۔ پھر جو بوٹی اس کی جھولی میں بھری تھی اُسے

صفحہ 298

کسی قدر کھا کر رینگتا ہوا غار میں داخل ہوا۔ اندھیرے میں رستہ ٹٹولتا ہوا آہستہ آہستہ آگے بڑھا۔ آخر کار وہ پھر اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا اور نہنگ کی لاش کے پاس جا کر چٹان پر بیٹھ گیا۔

اس وقت مختلف قسم کے خیالات اس کے دل می آنے لگے۔ اس نے کہا۔ ”کاش میں کبھی کا مر گیا ہوتا کہ اس گردابِ مصیبت سے رہائی پا جاتا۔ اس اندھیرے غار میں جس میں سے کہیں نکلنے کا راستے نہیں دکھائی دیتا، چاروں طرف یاس و نا امیدی نظر آتی ہے۔ کھانے کی کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے اور اگر ہوتی تو کتنے دن کے لئے مکتقی ہوتی۔ (بلند آواز سے) ہائے آٹر! تو بڑا ہی بے شرم ہے کہ اتنی مصیبتیں جھیلنے پر بھی زندہ رہا۔ تیرا میاں جس سے تجھ کو دلی محبت تھی مر چکا ہو گا اور دوسرے جہان میں تیرا انتظار کر رہا ہو گا۔ اب تیرے لئے بہتر ہے کہ یہ تسمہ جو تیری کمر کے گرد لپٹا ہے اس سے تو اپنے آپ کو پھانسی دے کے مر جائے۔“

جب وہ یہ کہہ رہا تها تو یکایک غار میں سے ایک آواز آئی۔ ”آٹر! آٹر!“

بونے نے یہ سمجھا کہ دوسری دنیا کی کوئی روح اس سے ہمکلام ہے۔ خوف کے مارے کانپ اٹھا اور اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہی آواز آئی۔ ”آٹر کیا تم ہو؟“

آٹر : (لیونارڈ کی آواز پہچان کر) ”ہاں میاں میں ہوں۔ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تم دوسرے جہاں سے مجھے بلا رہے ہو۔ مجھے ایک لمحہ دو کہ میں اپنی کمر سے تسمہ کھول لوں اور خود کشی کر کے تمہارے پاس پہنچ جاؤں۔“

لیونارڈ۔ ”آٹر میں تمہارا مشکور ہوں مگر یہ بہتر ہو گا کہ تم زندہ میرے پاس آؤ۔“

آٹر ”میاں جان سے جانا کِسے پسند ہے۔ مگر مرے بغیر میں تمہارے پاس پہنچ بھی نہیں سکتا۔“

لیونارڈ ”احمق میں مرا نہیں۔“

آٹر ”پھر تم کیونکر بول رہے ہو؟ میرے نزدیک آؤ تاکہ میں تمہارے جسم کو چھو سکوں اور مجھ کو یقین ہو کہ تم زندہ ہو۔“

لیونارڈ ”میں کیونکر آ سکتا ہوں۔ میری مشکیں کسی ہوئی ہیں اور میں ایک کوٹھڑی میں جو تمہارے سر کے اوپر ہے مقید ہوں۔ اس کے فرش میں ایک سوراخ ہے اور اگر تمہارے پاس کوئی تسمہ ہے تو شاید تم اس کے ذریعہ اوپر آ سکو۔“

صفحہ 299

بونے پر اب حقیقتِ حال روشن ہونے لگی۔ اس نے اٹھ کر اپنی لاٹھی کو غار کی چھت سے لگایا اور ادھر ادھر ٹٹولنا شروع کیا۔ تھوڑی سی جستجو کے بعد اس نے سوراخ معلوم کر لیا مگر غار کی چھت اتنی اونچی کہ اس کی لاٹھی کا سرا سوراخ میں آدھی دور پہنچ کر رہ جاتا تھا۔ اس لئے اس نے لاٹھی کے وسط میں تسمہ باندھ کر اس کو سوراخ میں زور سے اچکا دیا اور نیچے سے تسمہ کو جھٹکا دیا۔

لیونارڈ ”لاٹھی اٹک گئی ہے۔ اب جتنی جلدی آ سکتے ہو اوپر آ جاؤ ورنہ میں موت کا منتظر بیٹھا ہوں۔“

پتلے سے تسمہ کو ہاتھوں سے پکڑ کر اوپر چڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا مگر آٹر نے کچھ پروا نہ کی۔ اس نے پاؤں رکھنے کے لئے نیچے کی طرف ایک گرہ ڈال لی اور سیدھا کھڑا ہو کر جتنا بلند اس کا ہاتھ پہنچ سکتا تھا اس نے تسمہ کو پکڑ لیا اور پھر ایک دو ہاتھ اُوپر مار کر اس نے ڈنڈے کو پکڑ لیا۔ پھر کیا تھا۔ آن کی آن میں وہ اپنے آقا کے پاس پہنچ گیا۔

لیونارڈ ”کیا تمہارے پاس چاقو ہے؟“

آٹر۔ ”ہاں میان۔ میرا چھوٹا چاقو میرے پاس ہے۔ میرے چھرے نیچے ہی رہ گئے ہیں۔ میں آپ کو سب قصہ بتاؤں گا۔“

لیونارڈ ”خیر قصہ پھر سنا لینا اس وقت تو تم میری مشکیں کھولو۔ میرے ہاتھ میری پیٹھ کے پیچھے بندھے ہیں۔ ان کو پہلے کھول دو اور جب ہاتھ کھول چکو تو چاقو مجھے دے دو۔ جن رسیوں سے میرے پاؤں بندھے ہیں میں انہیں خود کاٹ لوں گا۔“

آٹر نے فوراً اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کی۔ جب وہ اس کی مشکیں کھول چکا تو لیونارڈ نے اٹھ کر اطمینان کی سانس بھری۔

آٹر ”میان راعیہ کہاں ہے؟“

لیونارڈ ”پاس کے کمرہ میں ہے۔ مجھ کو کاہنوں نے اس سے علیحدہ کر کے میری مشکیں کس دیں اور آپ چلے گئے۔ شاید اس سے جبراً کچھ قول قرار لیتے ہوں گے۔ اب ان کے واپس آنے کا انتظار ہے۔“

آٹر ”میاں پہاڑوں کی طرف اوپر کو ایک راستہ مجھے معلوم ہے۔ اگر کہو تو ہم اس رستہ سے نکل جائیں۔“

لیونارڈ ”آٹر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راعیہ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ جب میری مشکیں کسی گئی تھیں

صفحہ 300

صرف دو آدمی وقتاً فوقتاً میرے پاس آتے رہے ہیں۔ آؤ جب وہ آئیں تو ہم ان کو پکڑ کے چھرے چھین لین۔ پھر جیسا ہو گا دکھا جائے گا۔ ہم کو دروازوں کی کنجیاں بھی مل جائیں گی۔“

آٹر ”میاں ہے تو ٹھیک۔ اچھا تم یہ ڈنڈا ہاتھ میں لے لو۔ یہ بڑا مضبوط ہے۔“

لیونارڈ ”اور تم اپنے پاس کیا رکھو گے؟“

آٹر ”کیا کہہ رہے ہو؟ ان آدمیوں کے پاس چراغ تو ہو گا ہی۔“

لیونارڈ۔ ”ہاں کیوں نہیں۔“

آٹر ”تو پھر کیا؟ ابھی میں دو منٹ کے اندر اندر اپنا ہتھیار بنا لیتا ہوں۔“

یہ کہہ کر اس نے ڈنڈے سے تسمہ کھول لیا اور اس کو گرہیں دینے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بولا ”میاں اب لو میں تیار ہو گیا۔ بتاؤ کہاں کھڑے ہوں؟“

لیونارڈ ”تم دروازو کے اس طرف کھڑے ہو جاؤ اور میں دوسری طرف کھڑا ہو جاتا ہوں۔ جب کاہن دروازہ کھول کر اندر گھسنے لگیں اور پھر اس کو بند کر کے مجھے ڈھونڈیں گے توہم اندھیرے میں سے نکل کر ان کو یکایک پکڑ لیں گے۔ مگر آٹر کسی قسم کی جدوجہد یا شور نہ ہونے دینا۔“

آٹر ”میان کہاں کی جدوجہد اور کہاں کا شور؟ ڈر کے مارے تو وہ پہلے ہی کانپ رہے ہوں گے پھر جب ہم ان پر پل پڑے تو ان کے منہ میں زبان کہاں رہے گی جو وہ بولیں گے۔“

لیونارڈ (آہستہ سے) ”آٹر تم نے نہنگ کو بھی مارا؟“

آٹر (خوش ہو کر) ”ہاں میاں۔ میں نے اس کو اس کانٹے سے پکڑا جو میں نے اس کے لئے بنایا تھا۔ مگر میاں بڑی مشکل سے مرا۔ اگر مجھے تیرنا نہ آتا تو وہ مجھے ضرور ڈبو دیتا۔“

لیونارڈ ”یاں اس واقعہ کی کیفیت میں نام سے کسی قدر سن چکا ہوں۔ آٹر تم بڑے جوانمرد ہو۔“

آٹر ”میاں مین نالائق کیا ہوں۔ جب میری اس کی آنکھیں چار ہوئیں تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ پھر میں نے کہا اگر میرا میاں یہاں ہوتا تو اس بہادری سے اس نہنگ پر وار کرتا اور مجھے کہتا کہ واہ آٹر دیکھ لی تیری بہادری۔ ایک بڑی چھپکلی سے لونڈیوں کی طرح ڈرتا بے۔ میاں ان خیالات نے مجھے ہمّت دلائی۔“

لیونارڈ ”پھر بھی تمہاری مردانگی میں کوئی شک نہیں۔۔۔۔۔ خاموش! خبردار۔“

صفحہ 301

دروازہ کھلا اور دو کاہن اندر داخل ہو گئے۔ ان مین سے جو کے ہاتھ میں مشعل تھی دلجمعی کے ساتھ مُڑ کر دروازہ بند کرنے لگا۔ لیونارڈ نے سایہ میں سے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ایک کاری لٹھ جمایا جس سے اس کے ہوش بگڑ گئے اور وہ ایک سختہ چوبی تختہ کی طرح پٹاخ سے نیچے گر پڑا۔ ادھر آٹر نے دوسرے کاہن کے گلے میں تسمہ کا حلقہ اس پھرتی سے ڈال کر جھٹکا دیا کہ وہ دو سیکنڈ میں نیچے گر پڑا اور اس کا وہیں دم نکل گیا۔ اب لیونارڈ اور آٹر چھروں اور کنجیوں کو اپنے قبضہ میں لانے میں مصروف ہوئے۔ گو مشعل زمین پر گر پڑہ تھی مگر ابھی تک جل رہی تھی۔

لیونارڈ ”اب بتاؤ کیا کریں۔“

لیونارڈ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ کوٹھڑی کا دوسرا دروازہ کھلا اور آلفن، جوانا، سوا اور تین اور آدمی اندر داخل ہوئے۔ لیکن آٹر کو دیکھتے ہی یہ سب کے سب چونک پڑے۔ حیرت و خوف نے ان میں سے اکثر کو چھا لیا۔ کچھ دیر تک خاموشی کا عالم طاری رہا۔ آخر کار ایک کپتان نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ ”دیکھو جال دیوتا واپس آ گیا ہے اور قربانیوں کی لاشیں بھی اس کے آگے پڑی ہیں۔“

آلفن اور نام نے جب آٹر اور مردہ کاہنوں کو دیکھا تو معجزہ خیال کر کے تحیّر میں غرق ہو گیا اور بادشاہ کے تینوں کپتان آٹر کو مافوق الفطرت سمجھ کر اس کی طرف گھورنے لگے۔

اس مجمع میں جوانا کے علاوہ صرف سوا ایسی تھی جس کے اوسان خطا نہ ہوئے تھے۔ جس کپتان نے اس کو پکڑ رکھا تھا وہ آٹر کی بعث بعد الموت کے ہوش ربا واقعہ کی کی دید میں اس درجہ محو تھا کہ جب سوا اس کی گرفت سے نکل کر دیوار کے سایہ میں اس دروازہ میں جس سے سب داخل ہوئے تھے دبے پاؤں باہر چلی گئی تو اسے خبر تک نہ ہوئی۔

ایک لمحہ بعد آٹر نے اس دروازہ کے باہر آواز سنی جہاں سے وہ کاہن جن کو انہوں نے مار ڈالا تھا اندر داخل ہوئے تھے اور جو تھوڑا سا کھلا رہ گیا تھا۔ وہ اس دروازہ کی طرف بڑھا تاکہ اس کو بالکل کھول دے۔ اس وقت آلفن کو معلوم ہوا کہ سوا غائب ہے۔ وہ گھبرا کر پکارا۔ ”ارے نام کی بیٹی کیا ہوئی۔“

آٹر (طمانیت سے) ”بادشاہ سلامت معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں سے نکل گئی ہے اور دروازہ بند کر کے ہم کو اندر پھندا گئی ہے۔“

صفحہ 302

آلفن جھپٹ کر اس دروازہ کی طرف بڑھا جہاں سے کہ وہ داخل ہوئے تھے لیکن اسے بند پایا۔ اس کے بعد پھرتی سے وہ اس کوٹھڑی میں گیا جس کو دروازہ آٹر نے کھولا تھا اور جہاں سے وہ کاہن داخل ہوئے تھے۔ جن کی لاشیں اب فرش پر پڑی تھیں مگر اس کو معلوم ہوا کہ یہ کوٹھڑی بھی باہر سے بند ہے اور وہ سب مقید ہیں۔

لیونارڈ ”خیر کوئی فکر کی بات نہیں۔ کنجیاں میرے پاس ہیں۔“

آلفن ”مگر یہ کنجیاں کسی کام نہیں آئیں گی۔ باہر کی طرف سے یہ دروازہ پتھر کی موٹی سلوں سے بند ہیں جن میں کنجی نہیں لگتی۔ یہ عورت اپنے ساتھ کاہنوں کا ایک جم غفیر لائے گی اور ہم سب کو مروا ڈالے گی۔“

لیونارڈ ”اچھا تو وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جلدی سے کام لو۔ آؤ دروازہ کو توڑ ڈالیں۔“

نام (ہنس کر) ”ہاں نجات دھندہ ضرور دروازہ توڑ ڈالو اور سنگین دیواروں کو اپنے نوکدار برچھوں سے گرا دو۔ کیا کہنے ہیں تمہاری طاقت کے۔ ہاں کیسے۔“

صفحہ 303

سینتیسواں باب

اے ملکہ مجھے میرا صلہ مل گیا۔

اس وقت ان کی حالت نہایت نازک تھی۔ سوا نکل گئی تھی اور سب کو حقیقت معلوم تھی۔ وہ لیونارڈ، آلفن اور آٹر تینوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ان سے انتقام لینا چاہتی تھی۔ اگر اس وقت سے پہلے پہلے وہ ان تہ خانوں میں سے نکل گئے ہوتے تو سارا معاملہ سیدھا ہو جاتا کیونکہ لوگ آٹر اور جوانا کو عالمِ فنا سے پھر اس جہان میں آئے ہوتے دیکھ کر ضرور اپنے سچے دیوتا خیال کرتے۔ مگر اب تو حالت دِگرگوں تھی۔ یہ ایک یقینی امر تھا کہ سوا کا کر کاہنوں کو ساری کیفیت بتا دے گی اور گو وہ یہ چاہتے ہوں کہ نام کے ظلم و ستم سے رہائی پائیں تاہم یہ ضرور تھا کہ وہ اپنی اوہام پرستی کو قائم اور پیشوایانِ دین کی حیثیت سے اپنے حفظِ مراتب کو برقرار رکھنے کے لئے جا توڑ کوشش کریں گے۔ سب کو اس بات کا علم تھا کہ اگر ہم یہاں سے نکل نہ گئے تو ضرور کاہنوں کے بس میں آ جائیں گے۔ اگر ان کو کوئی سہارا تها تو فقط یہ تھا کہ نام ان کے قبضہ میں تھا۔ مگر یہ بھی ایک موہوم سی امید تھی کیونکہ ظاہر تھا کہ کاہنوں میں سے جو شخص ایسے بھی نکل آئیں گے جو سردار کاہن کے منصبِ جلیلہ پر سرفراز ہونے کے دل سے آرزو مند ہوں گے اور جو اس موقعہ کے منتظر ہوں گے کہ نام ان کی حوصلہ مندی کی راہ سے ہٹ جائے۔ اس کے علاوہ نام نے جھوٹے دیوتاؤں کے متعلق ایک ایسا مغالطہ کیا تھا کہ اس کی جمیعت کے بہت سے آدمی اس کی طرف سے بد ظن ہو گئے تھے۔ ان کی نظروں میں اس کی پہلی سی وقعت نہ رہی تھی۔

ان تمام پہلوؤں کو سوچ کر اور نیز یہ خیال کر کے کہ اگر وہ یہیں پڑے رہے تو کسی صورت مین وہ موت سے نہیں بچ سکتے، انہوں نے مُضطرب و سراسیمہ ہو کر دروازہ کے ساتھ جدوجہد شروع کی مگر اس کے پٹ موٹائی میں چھ انچ سے زیادہ تھے اور ان کی لکڑی ایسی سخت تھی کہ ایک گھنٹہ تک وه اس کو کاٹنے کی کوشش کرتے رہے مگر اس کو خبر تک نہ ہوئی۔ آخر کار لیونارڈ نے مایوس ہو کر اپنا چھرا نیچے پھینک دیا۔

صفحہ 304

اور کہنے لگا ”لکڑی کیا ہے لوہا ہے۔ اس کے کاٹنے کے لئے تو ہفتوں چاہیں۔“

آٹر ”میان میں ایک بات کہتا ہوں۔ جس سوراخ سے مین اوپر چڑھ کر تمہارے پاس آیا تھا چلو اسی میں سے سب نکل چلیں۔ سانپ کو میں اپنے ہاتھوں سے مار آیا ہوں۔ اس لئے اب اس طرف سے کسی قسم کا خطرہ نہیں۔ اس سوراخ کے نیچے ایک غار ہے جو پہاڑ کے اوپر جاتا ہے۔ اس پہاڑ کی ڈھلوان پر ایک برف کا پُل ہے۔ اگر ہم اس پل کے پار ہو جائیں تو پھر ہم میدانوں میں جا پہونچیں گے۔“

جوانا ”تو پھر خدا کے واسطے اس پل کی طرف چلو۔“

اس وقت آٹر کی طرف آلفن کے کپتان گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور دل میں کہہ رہے تھے کہ یہ آدمی ہے یا دیو ہے کہ سانپ کو بھی جس کی قدیم الایّام سے پرستش ہوتی آئی ہے۔ اس نے نہیں چھوڑا مگر آلفن جو توجہ کے ساتھ تمام گفتگو سن رہا تھا کہنے لگا۔ ”میں نے وہ پُل دور سے دیکھا ہے مگر آج تک میرے سننے میں یہ بات نہیں آئی کہ کسی انسان کا اس پر گذر ہوا ہو۔“

آٹر ”پل تو واقعی بہت خطرناک ہے مگر یہاں ٹھہرے رہنے سے ہم کون سے بچ جائیں گے۔“

جوانا ”میرے خیال میں ہمیں ضرور یہاں سے چل دینا چاہیے۔ میں تو اس تنگ و تاریک زندان میں کاہنوں کے ہاتھوں مرنے کے بجائے کھلی ہوا میں مرنا زیادہ پسند ہے۔ مگر اس بُڈھے (نام کی طرف اشارہ کر کے) کو کیا کریں۔“

لیونارڈ (درشتی سے) ”نام تو جہاں ہم جائیں گے ہمارے ساتھ جائے گا۔ ابھی اس سے مجھے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔ آلفن اور اس کے کپتان خواہ یہاں ٹھہریں خواہ ہمارے ساتھ چلیں۔“

اس وقت جوانا نے ایک عرصہ کے بعد پھر آلفن سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”آلفن تمہاری کیا رائے ہے۔“

آلفن (آنکھیں نیچے جھکا کر) ”اے ملکہ میں آہ کی جان کی حفاظت کرنے کے لئے قسم کھا چکا ہوں اور اس وقت چونکہ مجھے اپنی زندگی کی امید نہیں اس لئے میری اور بھی خواہش ہے کہ آپ کی سلامتی میں اپنی جان لڑا دوں اور یہ میرے کپتان ہیں یہ بھی آپ کے لیے کھلی ہوا میں جا کر مرنا پسند کریں گے۔“

ان الفاظ کی تائید میں تینوں کپتانوں نے سر ہلائے اور پھر چلنے کی تیاری شروع ہوئی۔ پہلے وہ پاس کے کمرہ میں گئے اور وہاں کونے میں کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں۔ کچھ تو انہوں نے جلدی جلدی کھا لیں اور کچھ کمر کے گرد باندھ لیں کیونکہ معلوم نہ تھا کہ ک تک انہیں پھر کھانا نہ ملے۔

صفحہ 305

لیونارڈ جانتا تھا کہ پہاڑ کے اوپر سخت سردی ہو گی۔ اسے لئے اس نے جوانا کو ایک بکری کی کھال کی پوستین جو اس نے ایک کاہن کے بدن پر سے اتاری تھی پہنا دی اور نام سے چھرا چھین کر اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے باندھ دئیے تا کہ وہ غصہ میں آ کر کسی کو مار نہ ڈالے۔

جب سب تیار ہو چکے تو آٹر نے اپنے تسمہ کو ڈنڈے کے ساتھ مضبوط باندھ کر ڈنڈے کو سوراخ کے منہ پہ رکھ دیا اور ایک ہاتھ میں مشعل تھامے ہوئے دوسرے سے تسمہ کو پکڑ کر جلدی سے نیچے غار میں اتر پڑا۔ ابھی اس کے پاؤں زمین پر لگے ہی تھے کہ باہر شور ہوا اور دروازہ دھڑا دھڑ لٹھوں کے پڑنے کی آوازیں آئیں۔ سوا کاہنوں کو لے کر اب آن پہنچی تھی اور وہ دروازہ کو توڑ رہے تھے۔

لیونارڈ (تسمہ میں ایک مضبوط گرہ دے کر) جوانا جلدی سے اس حلقہ میں پاؤں رکھ کر نیچے اتر جاؤ۔ دروازہ ان ہتھوڑوں کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہ کر سکے گا۔“

ایک لمحہ میں جوانا نیچے اتر کر آٹر کے پاس کھڑی ہو گئی۔ اس کے بعد لیونارڈ اترا۔ اترتے ہی اس نے آٹر سے پوچھا۔ ”ہاں آٹر تم نے یہاں کہیں جواہرات بھی دیکھے ہیں۔ ہم نے سنا تھا کہ اس غار میں بہت جواہرات ہیں۔“

بونا (بے پروائی کے ساتھ) ”میاں اس غار میں ایک چٹان پر جہاں نہنگ مردوں کو لے جا کر کھاتا تھا ایک آدمی کی گردن میں تھیلی تو پڑی ہوئی تھی مگر میں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس میں کیا ہے۔ اگر ہمیں یاقوت اور لعل اب ملیں بھی تو کس کام کے۔“

لیونارڈ ”اس وقت تو ہمارے کسی کام نہیں آئیں گے مگر ممکن ہے کہ اگر ہم زندہ رہے تو آئندہ ہمارے کام آئیں۔“

آٹر (برف کے پل کا خیال دل میں لا کر) ”ہاں میاں جو ہم زندہ رہے تو خیر رستہ میں ملیں گے تو اٹھا لیں گے۔“

اس وقت نام بھی جس کو آلفن اور اس کے کپتانوں نے نیچے لٹکا دیا تھا اتر پڑا۔ اس کے بعد کپتان اترے اور سب سے پیچھے آلفن۔ اترنے کے ساتھ ہی اس نے لیونارڈ سے کہا۔ ”نجات دهنده وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ دروازہ گرنے والا ہے۔“ جونہی کہ اس نے یہ کہا پٹ سے دروازہ کے دونوں پٹوں
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 306

گرنے کی آواز آئی۔ آٹر نے تسمہ کو زور سے جھٹکا دیا۔ جھٹکے کے ساتھ ڈنڈے کا ایک سرا سوراخ کے کنارہ سے سرک گیا اور ڈنڈا نیچے آ رہا۔ ڈنڈے کو اٹھا کر آٹر بولا۔ ”اس کو یہاں کیوں چھوڑیں۔ شاید کام آئے۔“

اس وقت کس شخص نے سوراخ میں سے جھانکا۔ نام کی نظر پڑ گئی اور وہ معاً چلّا اُٹھا۔ ”جھوٹے دیوتا غار میں سے ہو کر پہاڑوں کو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ بادشاہ بھی ہے۔ ان کا تعاقب کرو اور سانپ سے نہ ڈرو۔ وہ مر چکا ہے۔ میں نام ہوں۔ مجھ کو بچانے کی اتنی فکر نہ کرو جتنی ان کے قتل کرنے کی۔“

آٹر نے اس زور کا تھپّڑ اس کے گلے پر رسید کیا کہ اس کا منہ پھر گیا مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ نام کی زبان ضرر پہنچا چکی تھی جواب میں ایک آواز آئی۔ ”جو کچھ سردار نے کہا ہے ہم نے سن لیا۔ اے سردار کاہن ہم رسیوں کی مدد سے ابھی آتے ہیں۔“

اب لیونارڈ آلفن وغیرہ غار کے بیچوں بیچ ادھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک لمحہ کے لئے وہ مرے ہوئے سانپ کے پاس کھڑے ہو گئے اور اس کی قد و قامت کو دیکھ دیکھ کر تعجب کرنے لگے۔

ایک کپتان (بآوازِ بلند) ”یہ بونا تو کوئی دیوتا ہے۔ انسان میں ہرگز یہ قدرت نہیں“

یہاں سے وہ آگے بڑھے۔ تھوڑی دیر کے بعد لیونارڈ نے پوچھا۔

”آٹر وہ تھیلی۔“

آٹر (نیچے جھک کر اور جس بدقسمت کاہن نے دیوتاؤں کی بے ادبی کی تھی اس کے بوسیدہ ڈهیچر میں سے تھیلی کو اوپر اٹھا کر) ”یہ لیجئے میاں۔“

لیونارڈ نے اس کے ہاتھ سے تھیلی لے کر اس کا منہ جو ایک تسمہ سے مضبوط بندھا ہوا تھا کھولا۔ آٹر تھیلی کے منہ کے نزدیک مشعل تھامے ہوئے تھا۔ لیونارڈ نے جو اس کے اندر نگاہ کی تو دیکھا کہ افسردہ چنگاری کی طرح ایک سرخ اور سبز روشنی جگمگا رہی تھی۔“

ایک مسرّت آمیز لہجہ میں اس نے آہستہ سے کہا۔ ”یہی ہے خزانہ آخر کار ہمارے نصیب جاگ اٹھے۔“

جوانا ”کس قدر وزن ہو گا؟“

لیونارڈ (پھولے نہ سما کر) ”سات آٹھ پاؤنڈ ہوں گے سچے جواہرات کے ساتھ آٹھ پاؤنڈ۔“

جوانا ”تو مجھے دے دو۔ میرے پاس اور کوئی چیز نہیں ہے۔ ممکن ہے تمہیں کچھ دیر میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کام لینا پڑے۔“

صفحہ 307

لیونارڈ ”واقعی۔“

یہ کہہ کر اس نے تھیلی کو جوانا کے گلے میں لٹکا دیا اور اب وہ آگے روانہ ہوئے۔ ندی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں وہ برابر اوپر کی طرف چلتے رہے اور چونکہ ندی پایاب تھی اس لیے وہ بیس پچیس منٹ میں غار کے منہ پر پہنچ گئے۔ اور یکّے بعد دیگرے باہر نکل کر پہاڑ کے پہلو پر جہاں بڑے بڑے تودہ ہائے برف پڑے ہوئے تھے کھڑے ہو گئے۔

لیونارڈ ”اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ کاہن ہمارے پیچھے پیچھے آ رہے ہوں گے۔“

آلفن (دھیمی آواز میں) صبح صادق نمودار ہو رہی ہے۔ نجاست دهنده اگر اس وقت تم پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دو تو ممکن ہے تمہیں کسی قسم کا گزند نہ پہنچے۔ میں اور میرے کپتان اس غار کے منہ پر کھڑے رہتے ہیں اور جہاں تک ہو سکے گا کاہنوں کا مقابلہ کریں گے۔ اس بُڈھے کاہن نام کو ساتھ لے جا۔ اگر ہم مارے گئے اور اس کی جمیعت نے ہمارا تعاقب کیا تو شاید اس کا تمہارے پاس بطور یرغمال کے موجود ہونا تمہاری جانیں بچا سکے۔ یہ لو۔ برچھا ہے۔ شاید اس سے تمہیں کام پڑے۔ ہم چاروں کے پاس تین برچھے کافی ہیں۔ الوداع۔“

یہ کہہ کر آلفن کپتانوں کی طرف مخاطب ہوا اور ان سے کہنے لگا۔

بڑے بڑے برف کے ٹکڑے اور پتھے جو کچھ جمع ہو سکے جمع کر کے لے آؤ تا کہ غار کا منہ بند کر دیں۔“

انہوں نے اس کے حکم کی تعمیل میں نہایت عجلت اور چالاکی سے کام لیا اور کچھ دیر میں پتھر کی سلون اور یخ کے ٹکڑوں سے غار کے منہ کے آگے ایک دیوار چن دی۔

لیونارڈ اور آٹر دونوں نے خاموشی کے عالم میں جوش کے ساتھ بادشاہ سے مصافحہ کیا لیکن جوانا کو اس سے اس طرح رخصت ہونا گوارا نہ تھا کیونکہ اس کا دل آلفن کی نیکی اور شرافت کو یاد کر کے موم کی طرح نرم ہو رہا تھا اور اس پر رقت طاری ہو رہی تھی۔ بھرائی ہوئی آواز میں اس نے آلفن سے کہا۔

”اے نیک نہاد اور فرشتہ خصال بادشاہ۔ میں تم سے عفو کی خواستگار ہوں کہ میں تمہارے غم و حزن کا باعث ہوئی اور مجھے ڈر ہے کہ غم کے بعد میری وجہ سے شاید موت بھی تمہارا حصّہ ہو۔“

آلفن ”آپ کی وجہ سے میرا دل پامالِ غم ہوا تو اس میں آپ کا قصور نہ تھا لیکن آپ یقین مانیے کہ اگر موت آئے تو مجھے نہایت خوشی ہو گی۔ اب آپ سدھارے۔ میری دعا ہے کہ آپ ان رنگین پتھروں

صفحہ 208

کو جو آپ کو اس قدر یہاں سے صحیح سلامت نکل جائیں اور ہمیشہ خوش و خرم وہیں۔ دیوتا آپ کو اور آپ کے خاوند نجات دہندہ کو سالہا سال تک ایک دوسرے کی محبت میں قائم رکھیں۔ اور جب عیش و شادمانی میں زندگی بسر کرتے کرتے پیرانہ سالہ کی منزل میں آپ قدم رکھیں تو کبھی کبھی اس وحشی شخص کو ہھی یاد کر لیا کریں جس نے عنفوانِ شباب میں آپ کی پرستش کی تھی اور آپ کی جان بچانے کے لئے اپنی جان آپ پر قربان کر دی تھی۔“

آلفن کی یہ شریفانہ باتیں سن کر جوانا کی آنکھوں مین آنسو ڈبڈبا آئے۔ پھر وہ یکایک آگے بڑھی اور آلفن کا ہاتھ پکڑ کر اس نے اس پر بوسہ دیا۔

آلفن ”اے ملکہ مجھے میرا حوصلہ مل گیا۔ مجھے امید ہے کہ تمہارے شوہر کو اس پر رشک حسد نہ ہو گیا۔ اب رخصت ہو۔ الوداع۔“

غار کے منہ کے آگے جو دیوار آلفن کے کپتانوں نے چنی تھی اس وقت اس کی کچھ حصہ گر پڑا اور ایک کاہن نے جنگلی چوہے کی طرح اس میں سے اپنا سر نکالا۔ آلفن نے ایک نعرہ بلند کر کے اپنا برچھا تان کر اس کے سر پر مارا اور وہ ہائے کہہ کر نیچے گِر پڑا۔

لیونارڈ جوانا اور آٹر بھاگ کھڑے ہوئے اور بسرعت تمام انہوں نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ آٹر گالیوں اور گھونسوں سے نام کو اپنے آگے اس طرح آگے لئے جاتا تھا جیسے کوئی مہاوت ہاتھی کو دہت دہت بری بری کہتا اور آنکس مارتا ہوا چلاتا ہو۔ تھوڑی دور جا کر نام اوندھے منہ گر پڑا اور کراہنے لگا۔ آٹر نے گھونسوں اور لاٹھیوں کا اس پر تار باندھ دیا مگر وہ نہ اٹھا۔

لیونارڈ (برچھے کی نوک کو نام کی گردن پر رکھ کر) ”ابے اٹھتا ہے کہ نہیں۔ مکار بے ایمان۔“

نام۔ ”نجات دھندہ! پہاڑ کی چوٹی پھر پیرانہ سالی۔ اس پر تم نے میرے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ میرے ہاتھ تو کھول ڈالو۔ مجھ ناتواں اور کمزور کی طرف سے تمہیں کیا اندیشہ ہو سکتا ہے۔“

لیونارڈ (منہ میں بول کر) ”ہاں ابھی تو میرے خیال میں تمہاری طرف سے ہم کو چنداں خدشہ نہیں۔“

یہ کہہ کر اس نے اپنا چاقو نکالا اور تسمہ کاٹ کر نام کو رہا کر دیا۔

آٹر ”اٹھ مردود۔“ یہ کہہ کر اس نے اس کی کنپٹی پر ایک اور گھونسہ رسید کیا۔

صفحہ 309

نام ”لعنت ہے تجھ پر مجھے چلنے کے قابل بھی چھوڑے گا یا نہیں۔“

مگر آٹر نے نام کی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کو گھونسے لگاتا گیا حتیٰ کہ وہ درّہ کے پاس پہنچ گئے جہاں سے کہ برف کا پل اور یخ بستہ گھاٹیاں سورج کی شعاعوں میں چمکتی نظر آ رہی تھیں۔

صفحہ 310

اٹھتیسواں باب

نام کی فتح یابی

جوانا ”اب ہم کس رستہ جائیں۔ کیا ہمیں اس قعر میں اترنا پڑے گا۔“

آٹر (برف اور چٹان کی دھاری کی طرف جو چوڑی کھائی اور عرض میں واقع تھا اشارہ کر کے) ”نہیں راعیہ ہم کو اس پل پر سے جو آپ کے سامنے ہے گزرنا ہو گا۔“

جوانا (کانپ کر) ”پل پر سے؟ وہ تو آئینہ کی طرح سلپٹ اور مکان کی دیواروں کی طرح ڈھلوان ہے۔ اس پر تو میں کبھی بھی جم کر نہیں بیٹھ سکتی۔“

لیونارڈ ”آٹر یا تو تم باؤلے ہو گئے ہو اور یا دل لگی کر رہے ہو۔ اس مقام کو ہم کیسے عبور کر سکتے ہیں۔ دس گز بھی ہم جانے نہ پائیں گے کر ہماری ہڈیاں چکنا چور ہو جائیں گی۔“

آٹر ”میاں ہم ان چوڑے پتھروں میں سے جو یہاں پڑے ہیں بھاری بھاری پتھروں پر ایک ایک کر کے سوار ہو جائیں گے اور پتھر ہم کو اس پل کے پار جا اتاریں گے۔ میں تجربہ کر چکا ہوں۔“

لیونارڈ ”کیا تمہارا مطلب ہے کہ تم ایک پتھر پر بیٹھ کر اس پار ہو آئے ہو۔“

آٹر ”نہیں میاں۔ میں نے تین پتھر لڑھکائے تھے تو دوسرے پار جا پہنچے۔ میں برابر ان کی حرکت کو دیکھتا رہا لیکن تیسرا بیچ میں کہیں غائب ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وسط میں کوئی شگاف ہے لیکن ہمیں اس خطرہ کا سامنا کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اگر پتھر میں کافی وزن ہوا تو جست بھر کر اس شگاف کو عبور کرے گا۔ اور اگر ہلکا ہوا تو ہم تحت الثریٰ میں چلے جائیں گے اور ان جھگڑوں قضیوں سے چھوٹ جائیں گے۔“

لیونارڈ (پیشانی سے پسینہ پونچھ کر) ”کیا اور کوئی طریقہ یہاں سے بچ نکلنے کا نہیں؟ اس پل پر اس طرح گزرنے سے تو سوئی کے ناکے میں سے اونٹ کا نکل جانا زیادہ آسان ہے۔“

آٹر ”میاں مجھے تو کوئی طریقہ نہیں معلوم ہوتا البتہ اگر ہم پرندے ہوتے تو اُڑ کر دوسری طرف جا سکتے

صفحہ 311

تھے لیکن وقت باتوں میں گزار دینے کا نہیں۔ اب ہمیں تیاری کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان کاہنوں کے تعاقب کا ہمیں ابھی تک خطرہ لگا ہوا ہے۔ میں جا کر پتھر جمع کرتا ہوں۔“

لیونارڈ (نام کی طرف جو اوندھے منہ برف پر پڑا ہوا تھا اشارہ کر کے) ”اس کا کیا ہو گا؟“

آٹر ”میاں اسے بھی رہنے دیجئے۔ اگر کاہن آ گئے تو ممکن ہے کہ اس کا وجود ہمارے لئے مفید ثابت نہ ہو اور اگر نہ آئے تو روانہ ہونے سے پہلے میں ذرا اس کی مزاج پرسی کروں گا۔“

ادھر جوانا برف کے پل کی طرف جس کے دیکھنے کی اسے ہمّت نہ پڑتی تھی اپنی پیٹھ پھیر کر ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔ بیٹھتے وقت جواہرات کی تھیلی اس کے گھٹنے سے ٹکرائی جس سے جواہرات کے کھٹکنے کی آواز آئی۔ جوانا کے دل میں معاً یہ خیال پیدا ہوا کہ ان جواہرات کو تو ایک نظر دیکھنا چاہیے کہ کیسے ہیں۔ اس خیال سے اسے نے تھیلی کا منہ کھولا اور جواہرات کو اپنے دامن میں الٹ کر مسرت آمیز تحیر کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔ اس کے تصور میں بھی یہ اب تک نہ گزرا تھا کہ ایسے جواہرات پردۂ زمین پر موجود ہو سکتے ہیں۔ ان کی چمک دمک سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں اور ان کی خلافِ قیاس کلانی کو دیکھ اُسے شبہ ہونے لگا کہ آیا میں عالمِ خواب میں ہوں یا حقیقت میں اس عظمت و شان اور اس آب و تاب کے جواہرات دیکھ رہی ہوں؟“

ان میں سے کچھ نیلم تھے کچھ لعل اور کچھ الماس۔ دو الماس کلانی اور آب و تاب کے لحاظ سے اوروں میں ممتاز تھے۔ یہ دونوں بڑے بت کی آنکھوں میں جڑے ہوئے تھے اور حبس دن کہ لیونارڈ اور جوانا مع اپنے ساتھیوں کے خطہ ظلمات میں داخل ہوئے اسی دن اہل ظلمات نے انہیں بت کی آنکھوں میں سے نکال دیا تھا۔ ایک نہایت بڑا لعل دل کی شکل کا تھا جس میں کوئی رگ نہ تھی اور جس کی رنگت بالکل یکساں تھی۔ یہ اتنا بڑا تھا جتنا کہ راج ہنس کا انڈا اور باوجودیکہ ٹھیک ترشا ہوا نہ تھا اور کھردرا پن اس میں موجود تها لیکن پھر بھی اس کی آب و تاب آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی تھی۔ اس لعل کو اہلِ ظلمات کے سردار کاہن قربانی کے وقت نسلاً بعد نسل سینہ پر پہنتے چلے آتے تھے۔ لیکن اس گنجِ بے بہا میں دو پتھر ایسے تھے کہ انہیں دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی تھی۔ ایک تو ایک بہت بڑا نیلم تھا اور دوسرا ایک عظیم الشان لعل۔ نیلم میں سے بونے کے بت اور لعل میں سے نہنگ کی شکل کا ایک چھوٹا سا نمونہ تراشا تھا۔ جوانا کو حیرت ہوئی کہ تراشنے سے قبل سالم پتھروں کا حجم کا قدر ہو گا۔ اس کے

صفحہ 312

علاوہ اور بیسیوں خوش رنگ اور خوشنما پتھر تھے جن میں سے کچھ تو تراشے ہوئے تھے اور کچھ قدرتی حالت میں لیکن ان مین سے ہر ایک اپنے حیرت انگیز حجم چمک دمک اور خوبصورتی کے باعث انتخاب تھا۔

جوانا نے ان جواہرات کو قطاروں میں آراستہ کر دیا اور بے پایاں سرور و انبساط کے ساتھ انہیں دیکھنے لگی۔ وہ ان کے نظارہ میں ایسی محو ہوئی کہ اسے دنیا و مافیہا اور موجود خطرات کا خیال نہ رہا اور اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ مام جو کچھ دور زمیں پر پڑا ہوا تھا اور جس کی آنکھوں میں نفرت اور انتقام کی آگ چمک رہی تھی اس کی طرف آہستہ آہستہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا رینگ رہا ہے۔

آخر کار جوانا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور جواہرات کو ایک ایک کر کے تھیلی میں ڈال دیا کیونکہ خوبصورت چیزوں کی دید سے محروم رہنا بھی ایک طرح کا حرمان تھا۔ وہ تھیلی کا منہ بند کر اسے اپنی گردن میں ڈال رہی تھی کہ دفعتاً ایک ہاتھ جس میں پیری نے بجز پوست و استخوان کے کچھ نہ چھوڑا تھا اس کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہوا اور جس سرعت کے ساتھ چیل جھپٹا مار کر اپنے شکار لو لے جاتی ہے اسی پھرتی کے ساتھ اس نے تھیلی کو اس سے چھین لیا۔

ایک ندائے بیم و یاس کے ساتھ وہ یکایک پتھر سے آٹھ کھڑی ہوئی اور اس کا بیم و یاس بے وجہ نہ تھا۔ کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے نام ہاتھ میں جواہرات کی تھیلی لیے ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا ہوا جا رہا تھا۔

آٹر اور لیونارڈ نے جوانا کی آواز سنی اور یہ سمجھ کر کہ نام فرار ہو رہا ہے اس کا راستہ روکنے کے لئے دوڑے مگر نام کا مقصد یہ نہ تھا کہ ان کے ہاتھ سے اس طرح بچ ک نکل جائے جس کا انہیں اندیشہ تھا۔ جس پتھر پر جوانا بیٹھی ہوئی تھی وہاں سے چالیس گز کے فاصلہ پر ایک چٹان کی نوک اس ناقابلِ گزر قعر کے اوپر نکلی ہوئی تھی جس کے عمود دار پہلو پھسلنی برف کے پگھلنے والے تودوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ نام اس نوکدار کڑاڑے کی طرف دوڑا اور اس کے کنارہ پر جا کر مجبوراً ٹھہر گیا کیونکہ اگر وہ نہ ٹھہرتا تو کھائی کی تہہ میں جو ایک ہزار فٹ گہری ہو گی جا پڑتا پھر وہ پلٹ کر لیونارڈ اور آٹر سے جو اس کے قریب آ گئے تھے کہنے لگا۔

”جہاں ہو وہیں کھڑے رہ جاؤ ورنہ میں اس تھیلی کو نیچے گرا دوں گا جہاں سے تم اس کو کبھی نہیں لا سکتے کیونکہ ان ڈھلوان دیواروں پر کسی کا گذر نہیں ہو سکتا اور کھائی کی تہہ میں پانی بہہ رہا ہے۔“

لیونارڈ اور آٹر اس کی دھمکی سن کر فوراً رُک گئے۔ پھر اس نے کہا۔

”سنو نجات دھندہ! تم اس ملک میں ان رنگین ٹھیکروں کو لینے آئے تھے اور اب تم چاہتے ہو

صفحہ 313

عکس

صفحہ 314

کہ انہیں لے کر واپس چلے جاؤ لیکن جانے سے پہلے تم مجھے انتقام کی غرض سے جان سے مار ڈالنا چاہتے ہو۔ مگر یہ سرخ پتھر جن پر تم جان دیتے ہو اس وقت میری مٹھی میں ہیں اور اگر میں چاہوں تو ابھی ان کو ایسی جگہ پھینک دوں جہاں سے نہ تم اور نہ کوئی اور شخص کبھی انہیں پھر لا سکے۔ اب کہو کہ اگر میں تمہیں یہ پتھر دے دوں تو کیا تم میری جان بخشی کرنے اور مجھے واپس چلے جانے کی قسم کھاتے ہو؟“

لیونارڈ (اضطراب اور کینسر تشویش کے لہجہ میں) ”ہاں ہم قسم کھاتے ہیں۔ نام واپس چلے جاؤ۔ تمہارا بال بیکا نہ ہو گا۔ لیکن اگر تم نے جواہرات کو گرا دیا تو تم کو بھی ان کے پیچھے پیچھے جانا ہو گیا۔“

نام (حقارت سے) ”تو قسم کھاتا ہے اب تیری یہ نوبت پہونچ گئی کہ انتقام کو طمع ہر نثار کرنے لگا۔ واه رے گورے آدمی۔ دیکھ لی تیری شرافت۔ اب دیکھ میں تجھ پر کسی سبقت لے جاتا ہوں۔ کیونکہ کو گو تو شریف نہیں سمجھتا لیکن میں تجھ کو تیری خواہشوں سے محروم کرنے کی غرض سے اپنی جان پر کھیل جاتا ہوں۔ کیا اہلِ ظلمات کے پاک خزانہ کو دو گورے چور اور ان کا کالا کتّا چرا کر لے جائے گا۔ ہرگز نہیں! اگر مجھے قضا نے مہلت دی ہوتی تو میں تم سب کو جان سے مار ڈالتا لیکن اس کا مجھ کو موقعہ نہ ملا اور اچھا ہوا کہ مجھے یہ موقع نہ ملا کیونکہ اب میں تم کو ایسا عذاب پہنچاؤں گا جس کی تلخی موت کے عذاب سے تمہارے لئے کئی حصہ زیادہ ہے۔ اے کتو! جال اور ایکا کے قہر کی بجلی تم پر گرے۔ تمہارا گھر اُجاڑ ہو۔ تم خوار ہو کر مرو اور تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد تمہاری قبر پر اس طرح سے تھوکیں جیسے میں تھوکتا ہوں۔“

یہ کہہ کر نام نے دوسرے ہاتھ جس میں تھیلی نہ تھی ان کی طرف گھونسہ تان کر تھوکا اور دفعۃً جواہرات کا گنجینہ ہاتھ میں لئے ہوئے پیچھے کی طرف خلائے بسیط میں کود پڑا اور آناً فاناً ان کی نظروں سے غائب ہو گیا۔“

کچھ دیر تک تینوں حیران و ششدر ایک دوسرے کی طرف خوف و حیرت بھری نگاہوں کے ساتھ دیکھتے رہے۔ آخر کار جوانا برف پر بیٹھ کر زار و قطار رونے لگی اور ہچکیاں لے کر یوں کہنے لگی۔

”ہائے! یہ سراسر میرا قصور ہے۔ یہ سب میری غفلت کا نتیجہ ہے۔ ابھی ابھی میں شیخی مار رہی تھی کہ میں نے یہ خزانہ تمہیں دلوایا اور ایک آن کی آن میں یہ خزانہ مجھ سے چھن گیا اور تم فقیر رہ گئے۔ ہائے مجھ سے یہ صدمہ سہا نہیں جاتا۔“

لیونارڈ (بھرائی ہوئی آواز میں) ”آٹر جا کر دیکھو تو سہی کہ اس کھائی میں اترنا ممکن ہے یا نہیں۔“

صفحہ 315

بونے نے چٹان کے نکل ہوئے سرے پر سے جہاں سے نام نیچے گرا تھا جھک کر دیکھا اور سر ہلا کر بولا۔ ”میاں نیچے اترانا ناممکن ہے۔ دیواریں بالکل سیدھی کھڑی ہیں اور نیچے پانی بھی ہے۔ میں نے اس کے بہنے کی آواز اپنے کانون سنی۔ افسوس میاں آپ نے کیوں اسے اپنے پہلے ہی نہ مار ڈالا یا بعد میں مجھے اس کو مار ڈالنے دیا ہوتا۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ بڑا جادوگر ہے۔ مصیبت لائے گا۔ اچھا جواہرات تو گئے اب اپنی جان کی خیر منائیے کیونکہ جان ان سے زیادہ قیمتی ہے۔ مجھے دو چپٹے پتھر ملے ہیں۔ آئیے ان کے سرکانے میں مجھے مدد دیجیے۔ بڑا تو آپ کے اور راعیہ کے لئے ہے کیونکہ غالباً وہ اکیلی سفر کرتی ہوئی خوف کرے گی۔ چھوٹے سے میرا کام نکل جائے گا۔“

لیونارڈ کچھ کہے سنے بغیر اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ ایسا دل شکستہ تھا کہ بات اس کے منہ تک آنی مشکل تھی۔ جوانا اٹھ کر اس جگہ گئی جہاں نام نے اس سے جواہرات چھینے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد لیونارڈ اور آٹر دو بڑے بڑے پتھروں کو برف پر سے لڑھکاتے ہوئے اس کی طرف لوٹ آئے۔ لیونارڈ نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں ابھی تک آنسوؤں سے ڈبڈبا رہی ہیں۔ اس لیے اس نے ملاطف کے ساتھ جوانا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ ”جوانا کس لئے روتی ہو۔ جانے دو جواہرات گئے تو تمہاری بلا سے۔ اب ہمیں دوسری باتوں کی فکر کرنی چاہیے۔ سنو مجھے اور تمہیں اس پتھر پر لیٹنا ہو گا اور آٹر کہتا ہے کہ ہم کھائی کے دوسری پار جا پہنچیں گے۔“

جوانا (کانپ کر) ”یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ میں غش کھا کر اس پر سے گر پڑوں گی۔“

لیونارڈ ”مگر اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں۔ اگر کوئی دوسرا امر اختیاری ہے تو وہ یہ ہے کہ شہرِ ظلمات کو واپس پلٹ جاؤ۔“

جوانا ”اچھا میں پتھر پر لیٹ جاتی ہوں۔ اگرچہ میں جانتی ہوں کہ مجھے مرنا ہو گا لیکن ان کاہنوں کے پاس واپس جانے کے مقابلہ میں یہ موت پھر غنیمت ہے اور علاوہ اس کے جواہرات چلے گئے تو لطفِ زندگی کیا ہے۔“

لیونارڈ ”جوانا کیا زندگی کا سب لطف جواہرات ہی میں رکھا ہے؟“

اس کے بعد آٹر دونوں پتھروں کو کھینچ کر گھاٹی کی چوٹی پر جہاں سے کہ اتار شروع ہوتا تھا لے آیا اوت کہنے لگا۔ ”میں آپ دونوں کی کمر کے گرد رسّا باندھ دیتا ہوں۔ اس میں آپ زیادہ محفوظ رہیں گے۔ پہلے

صفحہ 316

میں جاتا ہوں اور جب میں پل کے پار ہو جاؤں تو آپ برچھے سے صرف پتھر کو ذرا سا سرکا دیں اور آناً فاناً آپ میرے پاس پہنچ جائیں گے۔“

لیونارڈ ”اچھا اب سدھارو۔ انتظار کرنے سے مشکل آسان تو ہوئی جاتی نہیں۔“

آٹر پتھر کے اوپر پٹ لیٹ گیا اور بولا۔ ”میاں جب میں کہوں اس وقت پتھر کو آہستہ سے دھکیل دیجیے گا اور پھر دیکھئے گا کہ ایک کالی چڑیا کس طرح اُڑا کرتی ہے۔ میاں اپنا ذرا سر جھکائیے۔“

لیونارڈ نے سر جھکایا اور آٹر نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا۔

”میاں ممکن ہے کہ ہمارا ملنا پھر نہ ہو کیونکہ سیدھے سے سیدھا رستہ بھی خطرے سے خالی نہیں اس لئے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں وہاں کیسا گدھا بن گیا تھا۔ اس محل میں رہتے رہتے میرا ناک میں دم آ گیا تھا اور کہر کی وجہ سے مجھے جو سوجھتی تھی الٹی۔ اس کے علاوہ شراب اور عورت اچھوں اچھوں کو غافل بنا دیتی ہیں۔ میاں اب مت بولیے۔ مجھے روانہ کیجیے کیونکہ یہ مجھے پر خوف چھا رہا ہے۔“

لیونارڈ نے پتھر کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اسے آہستہ سے دھکیل دیا اور اس میں جنبش پیدا ہوئی۔ اوّل وہ نہایت آہستہ آہستہ حرکت کرنے لگا پھر بتدریج وہ سریع السیر ہوتا چلا حتیٰ کہ چند لحظوں میں برف کی چکنی سطح پر اس نے اس طرح سے گزرنا شروع کیا جیسے کہ کوئی کشتی دخانی سطح آب پر جاتی ہو۔ کچھ دیر میں وہ پہلے اتار کی تہہ میں پہنچا اور پھر مقابل کی گھاٹی پر چڑھنا شروع ہوا اب اُس کی حرکت کم ہوتی چلی اور اس قدر کم ہوتی گئی کہ لیونارڈ سمجھا کہ شاید وہ رُک گیا لیکن وہ رُکا نہیں بلکہ گھاٹی کی چوٹی کو عبور کر کے پھر روانہ ہوا اور چند لمحوں کے لئے ایک نشیب میں جوانا اور لیونارڈ کی مترصد نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ ٹھوڑی دیر میں وہ دوسرے ڈھلاؤ کی چوٹی پر جو قریب قریب عمودی تها نمودار ہوا۔ اس اتار پر سے پتھر اس طرح جھپٹا جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ حتیٰ کہ پل کے تنگ حصہ پر پہنچا۔ پل کی شکل مجموعی حیثیت سے ایسی تھی جیسے ایک مرے ہوئے تیتے کی جو چت پڑا ہو۔ اور لیونارڈ اور جوانا کو یہ تنگ مقام ایک چاندی کے تار سے موٹا نہ نظر آتا تھا۔ حالانکہ آٹر اور پتھر یوں معلوم ہوتے تھے گویا اس تار پر ایک مکھی بیٹھی ہے۔ اس وقت یکایک لیونارڈ کو صاف طور پر معلوم ہوا کہ بے جان پتھر اور اس کا جاندار سوار جو بسرعتِ تمام حرکت کر رہے تھے اوپر کی طرف ہوا میں اچکے اور چڑھاؤ پر جو تتئے کے گلے کے مشابہ تھا حرکت کرتے نظر آئے اور آخر کار بالکل ٹھہر گئے۔

صفحہ 317

لیونارڈ نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ پتھر نے پچاس سیکنڈ میں یہ فاصلہ طے کیا تھا جو نصف میل سے کسی طرح کم نہ ہو گا۔ جوانا اپنے ہاتھوں سے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی کیونکہ وہ بونے کے سفر کے زبرہ گداز منظر کو دیکھنے کی تاب نہ لا سکتی تھی۔ لیونارڈ نے اسے پکار کر کہا۔ ”دیکھو جوانا آٹر صحیح سلامت اس پل کو عبور کر گیا“ اور یہ کہہ کر اس نے ایک شکل کی طرف جو طرف ہر خوشی کی حالت میں ناچتی ہوئی نظر آ رہی تھی انگلی سے اشارہ کیا۔ جب لیونارڈ نے یہ بات کہی تو ایک مدہم سی آواز ان کے کانوں میں آئی کیونکہ ایسے سنسان مقامات میں آواز دور تک جاتی ہے۔ یہ آواز آٹر کے چلّانے کی تھی جو یہ کہتا ہوا سنائی دیتا تھا ”میان آئیے رستہ آسان ہے۔“

جوانا (دھیمی آواز میں) ”شکر ہے کہ وہ صحیح و سلامت پہنچ گیا۔ لیکن اب ضروری ہے کہ ہم اس ہولناک سفر کو اختیار کریں۔ لیونارڈ ہی لو میرا رومال اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ دو کیونکہ میں دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتی۔“

لیونارڈ نے اس کے کہنے کے مطابق اس کی آنکھوں پر رومال باندھ دیا۔ جب وہ پتھر کے نزدیک آئے تو لیونارڈ کو قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ وہ پیچھے مُڑا اور دیکھا کہ سوا اُن کی طرف جھپٹی ہوئی چلی آتی ہے۔ آنکھوں میں اس کے دیوانہ پن کی چمک تھی اور پہلو میں اس کے برچھے کا ایک زخم تھا۔ لیونارڈ نے برچھا اُٹھا کر نہایت تندی سے اسے کہا۔ ”پیچھے ہٹ ورنہ ابھی۔۔۔۔“سوا نے چلا کر کہا ”راعیہ مجھے اپنے ہمراہ لے چلو میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔“

جوانا نے سوا کی آواز پہچانی اور بولی۔ ”اس سے کہہ دو کہ اپنا منہ کالا کرے۔ میں اب اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتی۔“

لیونارڈ۔ ”سوا تم نے سن لیا! اچھا ذرا ٹھہرو سچ سچ بتاؤ وہاں کی کیا حالت ہے؟“

سوا۔ ”نجات دھندہ مجھے معلوم نہیں۔ جب میں وہاں سے آئی ت آلفن اور اس کا بھائی سرنگ کے منہ کو اس وقت تک روکے کھڑے تھے لیکن کپتان مر گیا تھا۔ میں ان کے پاس سے گزری اور میں نے برچھے کا یہ زخم پہلو میں کھایا۔“

لیونارڈ۔ آپ ہی آپ “اگر کچھ دیر بعد سرنگ کے منہ کو روکے رہا تو اسے کمک پہنچ جائے گی۔“ اس کے بعد وہ جوانا سمیت منہ نیچے کی طرف کر کے چوڑے پتھر پر لیٹ گیا اور بولا۔

”جوانا۔ اب ہم چلنے لگے ہیں دیکھو دہنے ہاتھ سے پتھر کو کوب مضبوطی سے تھانے رہو اور پتھر کے کنارہ

صفحہ 318

پر سے لڑھک مت جاؤ ورنہ ہم دونوں گر پڑیں گے۔“ اس وقت سوا مایوسی کے لہجہ میں چلائی۔ ”راعیہ مجھے ساتھ چلو۔ اب میں شرارت سے باز آ جاؤں گی اور تمہاری خدمت وفاداری سے کروں گی۔“

لیونارڈ نے اس کے چیخنے کی طرف کچھ التفات نہ کی۔ اس نے جوانا سے ایک دفعہ اور کہا۔ ”مضبوط تھامے رہو“ اور پھر اپنے دہنے ہاتھ کو جو جوانا کے کمر میں اس نے حمائل کر رکھا تھا علیحدہ کر کے برچھے کے دستہ کو تھاما اور اس کی انی کو چٹان کے سرے پر جو ان کے پیچھے تھی رکھ کر دبایا۔ پتھر جو ڈھلاؤ کے کنارہ پر تلا رکھا تھا اب جنبش میں آیا اور جس طرح پر کہ ایک کشتی رسّی کے کاٹتے ہی بہاؤ کی سمت میں ہو لیتی ہے۔ اسی طرح نہایت شان و وقار کے ساتھ برف کی شاہراہ پر حرکت کرنے لگا۔

اوّل اوّل تو پتھر کی حرکت انہیں بمشکل محسوس ہوئی مگر پھر وه بتدریج بڑھتی گئی۔ اس وقت لیونارڈ نے ایک آواز سنی اور اسے معلوم ہوا کہ کسی نے اس کے بائیں پاؤں کی ایڑی ہاتھ سے پکڑ لی ہے۔ اس سے اسے ایسا جھٹکا پھونکا کہ وہ پتھر کی سل پر سے جدا ہی ہو گئے ہوتے مگر وہ سل کے اگلے کنارہ کو خوب تھامے رہا اور گو اسے ابھی تک ہاتھ کی گرفت ٹخنے پر محسوس ہو رہی تھی لیکن دباؤ بالکل کم ہو گیا۔

صفحہ 319

انتالیسواں باب

معبر الشلج

لیونارڈ نے باحتیاط اپنا اٹھا کر پیچھے کو دیکھا اور اب یہ عقدہ کھل گیا۔ سوا نے اپنی مالکہ کی محبت کے جنون میں ان کو حرکت میں آتے دیکھ کر اپنے آپ کو پتھر ہر گرانے کی کوشش کی تھی لیکن پتھر اس قدر آگے نکل گیا تھا کہ وہ اس تک نہ پہنچ سکی اور جب اس کو محسوس ہوا کہ میں آگے کو پھسلتی جا رہی ہوں تو اس نے مایوسی کی حالت میں جو شے اس کی گرفت میں پہلے آئی اسی کو پکڑ لیا اور اتفاق ایسا ہوا کہ یہ شے لیونارڈ کی ایڑی تھی۔ اب یہ ضرور تھا کہ اس ہولناک سفر میں وہ ان کا ساتھ دے لیکن وہ تو پتھر پر سوار تھے اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چھاتی کے بل اوندھے منہ گھسٹتی ہوئی جا رہی تھی۔ لیونارڈ کے دل میں اس کی ہولناک حالت کا اندازہ کر کے رحم پیدا ہو گیا ہے مگر جوانا کے خطرہ میں وہ اسے کچھ دیر کے لئے بھول گیا۔ کیونکہ اب وہ ساعت بساعت بڑھنے والی سرعت کے ساتھ نیچے جھپٹ رہے تھے۔ کچھ دیر میں وہ اس برف کی گھاٹی پر چڑھنے لگے جو اس اتار کے بتدریج اوپر کو اٹھی تھی اور جس طرح سے کہ آٹر کے پتھر کی رفتار اس پر چڑھتے وقت سست پڑ گئی تھی اسی طرح ان کے پتھر کی حرکت بھی قوتِ رفتار کی تخفیف کی مناسبت سے اس قدر کم ہو گئی کہ لیونارڈ کو گمان ہوا کہ ہم بالکل ٹھہر گئے۔ اس وقت اس نے سوا کو زور سے لات ماری اور اپنے اپ کو اس کے بوجھ سے چھڑانا چاہا کیونکہ ہر وقت یہی خطرہ تھا کہ وہ ان دونوں کو بھی کہیں اپنے ساتھ تباہی میں نہ لائے لیکن وہ اس کے پاؤں کے ساتھ اس طرح چپٹی ہوئی تھی کہ جیسے کوئی بیل درخت کے گرد لپٹی ہوئی ہو۔ اور اس لئے اس نے جدوجہد کرنا چھوڑ دیا۔ کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کشمکش میں پتھر کا رخ نہ بدل جائے۔

گھاٹی کی چوٹی پر پتھر کی حرکت قریباً بالکل رک گئی۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ پھر بڑھنی شروع ہوئی اور وہ اس نشیب میں سے جہاں آٹر ان کی نگاہ سے غائب ہو گیا تها ہوتے ہوتے ایک اور فراز کے پہلو

صفحہ 320

پر چڑھنے لگے۔ اب تک سفر گو حیرت خیز تھا تاہم سلامتی سے اُسے طے کرتے آئے تھے۔ کیونکہ راہ کشادہ اور برت بالکل صاف تھی لیکن اس سفر کی ہولناکی اور زہرہ گداز منزل ابھی آنے والی تھی۔ اس فراز پر سے لیونارڈ نے سر اٹھا کر آگے کو دیکھا۔ اس وقت ان کے سامنے ایک ایسا اُتار تها جو طول میں چار پانچ سو گز تھا اور اس قدر ڈھلوان تا کہ خواہ قدم رکھنے کی اس پر جگہ ہوتی بھی کوئی پھر بھی کوئی انسان اس پر کھڑا نہ ہو سکتا۔ برف کی جس ترنگنائے ہر وہ جا رہے تھے ابھی تک اس کا عرض پچاس قدم یا اس سے کسی قدر زیادہ تھا لیکن وہ جلد جلد گاؤ دم ہوتی ہوئی کچھ دور جا کر بہت تنگ ہو گئی تھی۔ حتیٰ کہ کھائی کے دوسرے کنارہ کے قریب وہ اس قدر باریک ہو گئی تھی کہ ایک سفید سوئی کے ناکہ کے برابر نظر آتی تھی اور وہاں پہنچ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ بالک ٹوٹ گئی ہے۔

اب ان کا پھتر نیچے اترنے لگا اور ایک لمحہ کے بعد چکنی سبزی مائل برف کے اوپر اس سرعت کے ساتھ انہوں نے حرکت کرنی شروع کی کہ قوّت متخیلہ بھی بمشکل اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔ البتہ شاہین تیز دل کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جو بعض دفعہ اوجِ ہوا پر سے صعوہ کی طرف جھپٹتا ہے۔ اس وقت لیونارڈ کے احساسات کی جو کیفیت تھی اسے شاہین کے احساسات کے متماثل اور متقارن قرار دیا جا سکتا ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ نیچے جھپٹتے وقت انہیں کسی کا خوف نہیں ہوتا حالانکہ لیونارڈ کا دل خوف مجسم ہو رہا تھا۔ برف ایسی چکنی تھی اور اتار ایسا عمودی تھا کہ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں خلائے بسیط میں بغیر کسی سہارے کے گر رہا ہوں۔ کیونکہ رفتار کی اس بلا کی سرعت کی وجہ سے پتھر کے پیندے کی رگڑ بالکل محسوس نہ ہوتی تھی۔ البتہ اگر کوئی شے ان کے مزاحم تھی تو ہوا تھی جو ان کے کانوں میں سائیں سائیں کرتی ہوئی گذرتی تھی اور جوانا کے دراز گیسوؤں کو پیچھے کی طرف ایک سیاه نقاب کی طرح اُڑا رہی تھی۔

اس تیزی کے ساتھ وہ برابر نیچے گرتے گئے۔ ایک آن کی آن میں نصف بلکہ دو ثلث فاصلہ انہوں نے طے کر لیا۔ اس وقت لیونارڈ نے پھر نگاہ اٹھائی اور ایک ایسا منظر اسے اپنے سامنے دکھائی دیا کہ اس کا زہرہ آب ہو گیا۔ برف کا پل ابھی سے تنگ تھا اور اس کا عرض ایک چھوٹے سے حجرہ سے زیادہ نہ تھا۔ ساتھ گز آگے جا کر خاکنائے برف ایسی تنگ ہو گئی تھی کہ ان کے پتھر کا عرض اندازاً اس کے برابر ہو گا اور اس کے نیچے دونوں طرف وه قعرِ بے پایاں اپنا ڈراؤنا منہ کھولے ہوئے تھا جس میں نام جواہرات لے کر کود گیا تھا۔ لیکن یہ جاں گداز منظر یہیں ختم نہیں ہوا تھا کیونکہ خاکنائے مسطور اپنے تنگ ترین
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 264

یکایک اُس کو غش آ گیااور وہ پیچھے کی طرف گرنے ہی لگا تھا کہ نام نے اس کو کاندھے سے پکڑ لیا اور تھامے رہا۔
مجلس شوریٰ کا رکن ”روشنی کا رنگ سفید ہے۔ سب اسے دیکھ رہے ہیں اہل ظلمات کا فتویٰ ہے کہ یہ دیوتا جھوٹے ہیں۔ اس لیے اے سردار کاہن تم انکو نیچے گرادو۔“
آٹر نے جب یہ الفاظ سنے تو اس نے سمجھا کہ اب میرے خودبخود نیچے کود پڑنے کا وقت آ گیا ہے اور جلدی سے مڑ کر نام کی طرف نگاہ کی مگر ٹام اس وقت فرانسسکو کو تھامے ہوئے تھا اس لیے اس نے خیال کیا کہ ”اگر میں ٹام کو اپنے ساتھ لے لوں جو کہ میرے دل کا آخری ارمان ہے تو فرانسسکو اس کے ہاتھوں سے چھوٹ کر پیچھے کی طرف گر پڑیگا اور یہ کاہن جو پاس کھڑے ہیں پہچان لیں گے کہ یہ وہ عورت نہیں ہے جس کو ہم گرانا چاہتے تھے۔“ جس تپائی پر وہ بیٹھا تھا اس کو اس نے ایک لات مار کر نیچے گرا دیا اور اس کو گرتے دیکھتا رہا۔ چٹان سے وہ کہیں نہیں ٹکرائی۔ آٹر نے دل میں خیال کیا کہ جو تجویز میں نے سوچ رکھی تھی وہ چل جائیگی۔ اس وقت نام اور ایک کاہن فرانسسکو کو پکڑ کر اس کو بت کی چوٹی کے کنگرہ پر سے گرانے کے لیے بڑھے۔ باقی کے دو کاہن آٹر کی طرف متوجہ ہوئے۔ بونا دیکھتا رہا کہ کب وہ اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے قریب آ کر اس کو گرانے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ یکا یک اس نے اس کاہن کو جو اس کے دائیں طرف تھا یہ نعرہ مار کر کہ
میں تو ڈوبوں گا مگر تجھ کو بھی لے ڈوبونگا،
کمر سے مضبوطی سے پکڑ لیا اور پوری طاقت سے اس کو اوپر اٹھا کر خلا میں کود پڑا۔ کاہن کی چیخ نکل گئی اور تماشائی جن کی آنکھیں ایک عرصہ سے ان کی طرف لگی ہوئی تھیں بونے اور اس کے ہمسفر کو پتھر کی طرح ہوا میں گرتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ پانی کی سطح پر دھڑام سے گرے اور یہاں تک نیچے چلے گئے کہ آٹر نے سمجھا کہ اب اوپر آنا محال ہے مگر آخر کار وہ اوپر آئے۔ آٹر نے کاہن کو جو یا تو مر گیا تھا یا بے ہوش ہو گیا تھا چھوڑ دیا۔ فرانسسکو کی لاش اس کے ایک طرف تیر رہی تھی مگر یکایک وہ غائب ہو گئی اور پھر نظر نہ آئی۔
اب آٹر نے غوطہ لگایا اور سطح آب کے نیچے نیچے شمال کی جانب جہاں بہاؤ کا زور کم تھا اور جہاں چٹان کا ایک ٹکڑا آگے کی طرف نکلا ہوا تھا بڑھا۔ جب وہ اسکی سیدھ میں پہونچا تو اس نے
صفحہ نمبر 265

سر نکال کر ایک ہاتھ سے چٹان کو پکڑ لیا اور خاموش ہو کر اوپر لوگوں کی طرف دیکھتا رہا جو کنارے پر سے فرانسسکو کی لاش کو جوش کھاتے ہوئے پانی کے گرداب میں چکر کھاتا دیکھ رہے تھے پھر اس نے اچھی طرح دم لیا اور اپنے اعضا کو جنبش دے کر کہا ”اہا ہا مجھ کو کوئی ضرب نہیں پہنچی۔ اب تک میرے اوسان بھی خطا نہیں ہوئے اور یہ ایسی محفوظ جگہ ہے کہ گھنٹوں یہاں پڑا رہوں تو مجھے کوئی نہ دیکھ سکے اب سانپ سے دو دو ہاتھ کرنے باقی ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے جلدی سے وہ ہتھیار نکالا جو اس نے دو چھرونکو باہم جوڑ کر بنایا تھا اور اپنی کمر کے گرد سے کچھ تسمہ کو کھول لیا۔ پھر اس نے چاروں طرف نظر کی اور دیکھا کہ برابر بت کے نیچے ایک گول سوراخ میں سے پانی کی ایک بڑی دھار بہ رہی ہے۔ اس سوراخ کا قطر آٹھ فٹ کے قریب ہو گا۔ اور اس کا اوپر کا کنارہ سطح آب سے چھ انچ بلند تھا۔ یکایک پانی کی دھار میں بہتا ہوا وہ سانپ یا یہ کہو کہ نہنگ نکلا اور ایک آن میں وہ سطح آب پر آدھا پانی میں اور آدھا اوپر تیرتا ہوا نظر آیا اس کے بعد اس نے غوطہ لگایا اور فرانسسکو کی لاش کے پاس سر نکالا۔ آٹر پر اس بلائے عظیم کے تن و توش کو دیکھ کر خوف و تحیر طاری ہوا۔ نہنگ نے اپنا بڑا منہ پھیلایا اور فرانسسکو کی لاش کو درمیان سے پکڑ کر پھر پانی کے نیچے غائب ہو گیا اور دس سیکنڈ بعد اپنا شکار منہ میں دبائے سوراخ کے اندر جاتا ہوا نظر آیا۔
بونے کے دل پر خوف طاری ہوا اور اس نے کہا کہ ایسے ہولناک جانور سے مقابلہ کرنا جان بوجھ کر موت کے منہ میں جانا ہے اس لیے اس نے دیوار کے ساتھ ادھر ادھر پانی میں چکر لگانا شروع کیا تا کہ پانی کے نکلنے کا رستہ معلوم ہو مگر اس کا ایسا کرنا لاحاصل تھا کیونکہ چٹانوں کی دیوار وں کی بناوٹ ایسی مخروط نما تھی کہ پانی نیچے کی طرف زیادہ زیادہ پھیلتا جاتا تھا۔ آٹر کو اب سردی معلوم ہونے لگی اور اس کے دانت بجنے لگے کیونکہ چشمہ کا پانی اس برف سے گھل گھل کر آتا تھا جو قلعہ کوہ پر جمع تھی۔ آٹر نے خیال کیا کہ اگر میں ایک جگہ اسی طرح پر کھڑا رہا تو ٹھٹھر کر رہ جاؤنگا۔ اس لیے گو اس کا دل نہیں چاہتا تھا مگر اس نے نہنگ کو غار میں جا کر مارنے کا ارادہ کیا۔
اس وقت یکایک ان لوگوں میں جو اوپر کھڑے ہوئے نہنگ کا تماشا دیکھ رہے تھے ایک شور عظیم برپا ہوا کوئی کہتا تھا ”دیوتا ناحق مارے گئے “ کوئی کہتا تھا” اگر دیوتا سچے تھے تو وہ پھر آ سکتے ہیں۔“ بات یہ تھی کہ دیوتا ؤں کے گرائے جانے کے بعد مطلع دفعتہً صاف ہو کر آفتاب نکل آیا تھا اور اس حیرت انگیز
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر 56
پس ہمیں چاہیے کہ ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔
یہ سن کر آٹر بولا خون کا رشتہ ہرگز بدل نہیں سکتا ۔ دولت کی اُسکے مقابلہ میں کوئی حققت نہیں ۔ دولت ایک آنے جانے والی شے ہے مگر خون کا رشتہ ہمیشہ خون کا رشتہ ہوتا ہے ۔ میرے باپ تمنے کیوں ایک بڑی امپی (فوج ) جمع کرکے ان غیر لوگوں کو برچھون سے مار نہیں ڈالا اور اپنے کرال پر نئے سرے سے قبضہ نہیں کرلیا؟

لیونارڈ: آٹر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوکتا کیونکہ وہاں دولت خون کے رشتہ سے بڑ کر ہے اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہماری اور زیادہ رسوائی ہوتی صرف دولت سے ہی ہم کو اپنا گھر واپس مل سکتا تھا اور دولت ہمارے پاس رہی نہ تھی ۔ پس جو میاں مرگئے ہیں انہوں نے اور سینے ملکر قسم کھائی کہ ہم اس دور کی سرزمین میں آکر دولت کی جستجو کریں گے تاکہ ہم اپنی کُرال اور زمینوں کو پھر خرید لیں اور پہلے کی طرح پھر وہاں حکومت کریں اور ہمارے بعد ہماری نسلیں اُن پر قابض ہوں۔

اس پر آٹر نے کہا قسم تو آپ نے اچھی کھائی لیکن اس میں ہم دوسری طرح کی قسم کھاتے اور اس کرال کیلئے یہاں فولاد کی چنگار کی صدا بلند ہوئی نہ کہ پہلے لوہے کھنکھنانے کی آواز۔

لیونارڈ: آٹر ہم اس ملک میں چلے آئے اور سات سال تک اپنے ادنیٰ نوکر دن سے دونی محنت اور مشقت اپنی ذات پر گوارا کی ۔ ہم ملک میں جا بجا پھرے۔ مختلف قوموں سے ہمیں سابقہ پڑا بہت سی زبانیں سیکھیں لیکن ہمیں فائدہ کیا ہوا؟ میرے بھائی کو تو اس سامنے کے ویرانہ میں قبر کا ایک گوشہ ملے گیا اور مجھےپیٹ بھر کر کھانے کی جنگل کی پیداوار ۔ بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔ جس دولت کی ہمیں تمنا تھی وہ ابھی تک حاصل نہیں ہوئی اور میں نے یہ قسم کھائی ہے کہ یا تو اس دولت کو کماؤں گا یا اس کوشش میں اپنی جان دے دونگا ۔ گذشتہ شب ہی کو میں نے یہ قسم اُس مرنے والے کے سامنے پھر دہرائی تھی ۔

آٹر میاں آپ نے خوب کہا قسم قسم ہی ہوتی ہے اور جو سچے آدمی ہوتے ہیں وہ اپنی قسم کو پورا کرتے ہیں ۔ لیکن دولت اس جگہ نہیں لے سکتی ۔ کیونکہ سونا زیادہ تر اُن چٹانوں میں چھپا ہوا ہے جن کا کھودنا سخت مشکل ہے اور پتھر پر منتر بھی نہیں چل سکتا کہ سونا اُس زمین سے نکل پڑے ۔ زولو لینڈ میں جتنے جادوگر ہیں اُن سب کا جادو بھی اس بارہ میں کارگر نہیں ہوسکتا اور کم از کم میں اور آپ تو اکیلے اس کام کو نہیں کرسکتے خواہ بخار سے ہم بچ بھی رہیں میاں ہمیں چاہیے کہ یہاں سے چل دیں اور کہیں اور قسمت آزمائی کریں۔
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 86

پڑھنے لگے۔

سوا (یقین سے) ”یہ تو اس مقدس کتاب کا ایک ورق ہے جسے میری مالکہ پڑھا کرتی تھی۔ میں اس کی شکل خوب پہچانتی ہوں۔ اس نے کتاب میں سے ورق کو پھاڑ کر سرکنڈے پر نشان لگا دیا تا کہ اگر کوئی شخص اس کی تلاش میں آئے تو اس کو پتا مل جائے۔“

لیونارڈ ”معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے۔“

پھر اس نے نیچے جھک کر صفحہ پر سے وہ آیات پڑھیں جن کو وہ پڑھ سکتا تها۔ وہ آیات یہ تھیں۔

”کیونکہ وہ اپنی بلند اور مقدس نگاہ سے نیچے دیکھ رہا ہے اور آسمان سے زمین کی نگرانی کرتا ہے۔ تاکہ وه قیدیوں کی داد رسی کرے اور ان لوگوں کو جن کی نسبت موت کا فتویٰ جاری ہو چکا ہے نجات بخشے۔“

لیونارڈ۔ ”این یہ تو انجیل کی عبارت کا ایک نہایت برجستہ انتخاب معلوم ہوتا ہے اگر کوئی شخص فال کا قائل ہے تو اس کو ضرور نیک فالی کی علامت سمجھو جائے گا۔“

ایک گھنٹہ کے بعد وہ اس جزیرے کے گوشہ پر پہنچ گئے جس کے کنارے کنارے وہ جا رہے تھے۔

لیونارڈ۔ ”اب کہو آٹر تم اس بُرده فروشوں کے خیمہ گاہ سے کیونکر بھاگ نکلے۔ کیا تم کو کوئی کشتی مل گئی تھی۔“

آٹر ”نہیں میاں۔ آپ تو جانتے ہی میں کہ میرا جسم گھٹا ہوا اور مضبوط ہے جس خدا نے مجھ کو بد شکل بنایا ہے اس نے مجھ کو ہمّت اور توانائی عطا کی ہے اور میں اپنے کریہہ المناظر بنائے جانے پر خوش ہوں کیونکہ اگر میں آپ کی مانند خوبصورت مگر مضبوط نہ ہوتا تو میاں میں بھی اس وقت یا تو غلام ہوتا یا داخل گور جکڑے ہوئے ہاتھوں سے بھی میں نے اس شخص کا گلا گھونٹ ڈالا جو میری نگرانی کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور اس کا چاقو میں نے اس سے چھین لیا۔ پھر میں نے زور لگا کر کڑیوں کو توڑ ڈالا۔ دیکھئے میاں آج تک زخم کے نشان میرے جسم پر نظر آ رہے ہیں۔ جب میں نے ان کو توڑا تو وہ میرے گوشت کے اندر گھس گئیں مگر وہ کڑیاں کثرت استعمال کے باعث ذرا کمزور ہو گئیں تھیں اور اسی لئے میں نے ان کو توڑ لیا۔ جب دوسرے آدمی میرے مارنے کے لئے میرے نزدیک آئے تو میں پانی میں کود پڑا اور پھر میرا پتا نہ چلا۔ پھر میں نے اسی راستہ جس رستہ سے ہم آئے ہیں تیرنا شروع کر کیا۔ کبھی کبھی جزیروں پر دم لے لیتا اور کبھی کبھی جہاں سرکنڈے گنجان نہیں تھے میں کنارے پر دوڑتا۔ آخر چار دن کے عرصہ میں جس میں زیادہ تر تیرتا رہا۔ میں کھلے میدانوں میں جا نکلا۔“

لیونارڈ ”اور کھاتے کیا رہے؟“

صفحہ 87

آٹر۔ ”یہی پرندوں کے انڈے اور درختوں کی جڑیں۔“

لیونارڈ۔ ”مگر تعجب ہے کہ نہنگوں نے تم کو کھا نہ لیا۔“

آٹر ”ہاں میاں ایک نہنگ نے مجھ پر حملہ کیا تھا مگر میں تیرنے میں خوب مشاق ہوں۔ اس کی پیٹھ پر بیٹھا میرے ہوش و حواس اس وقت بجا تھے اور وہ چاقو جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے اس کی آنکھ میں مار کر میں نے اس کا سر چیر ڈالا۔ میرے کپڑے اس کے لہو سے آلودہ ہو گئے۔ اس کے بعد نہنگوں نے مجھ کو کوئی ایذا نہیں پہنچائی۔“

لیونارڈ ”بھلا آٹر یہ تو بتلاؤ کہ اگر پھر تمہیں اسی جگی رہنا پڑے تو تم ڈرو گے تو نہیں؟“

آٹر: ”ہاں میاں کسی قدر کیونکہ بُرده فروشی ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے نام سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ مگر میں تو جہاں میاں جائیں گے وہاں جاؤں گا۔ اگر آپ دوڑتے ہیں تو میں ہرگز پیچھے نہیں رہ سکتا۔ افسوس میاں کہ میں بہادر نہیں ہوں پھر بھی میری قسمت میں لکھا ہوا ہے کہ اپنے ان ہاتھوں سے پیلے بھُتنے کو موت کا شربت پلاؤں اور خود بھی پیوں تو میں اس کا چہرہ ایک دفعہ پھر دیکھنے کا مشتاق ہوں۔“

یہ کہہ کر بونے نے ہتھے پر سے اُٹھ کر چلانا شروع کیا کہ ماروں گا ماروں گا اور پھر ماروں گا۔“ اور اس قدر بآوازِ بلند چلّایا کہ دلدل کے جانور خوف سے چونک پڑے۔

لیونارڈ – (خفا ہو کر) ”ابے چپ رہ۔ کیا چاہتا ہے کہ عربوں کو علم ہو جائے اور وہ ہم پر آ پڑیں؟“

مگر دل میں لیونارڈ یہ کہتا تھا کہ اگر آٹر نے پیلے بھُتنے پر قابو پا کر اس کو مار ڈالا تو مجھے اس کی موت پر افسوس پو گا۔

صفحہ 88

نواں باب

پیلے بھُتنے کا قلعہ

غروبِ آفتاب کا وقت قریب آ گیا اور گذشتہ شب کے موافق لیونارڈ اور اس کے ہمراہی ایک جزیرے پر چاند کے انتظار میں ٹھہر گئے۔ دریا کے کنارے پر سے انہوں نے دو بطخیں ماری تھیں۔ اب ان کے پکانے کے لئے آگ سلگانے کی ضرورت ہوئی لیکن لیونارڈ نے کہا کہ ”آگ جلانا خطرناک ہے کیونکہ آگ کی روشنی اس وقت دور سے دکھائی دے گی۔“

اس مشورہ پر رمل پیرا ہو کر انہوں نے سوکھے ہوئے گوشت اور بطخ کے انڈوں پر اکتفا کیا۔

اچھا ہوا کہ لیونارڈ نے اس احتیاط سے کام لیا کیونکہ شفق کی روشنی رات کی تاریکی میں ملنے نہ پائی تھی کہ انہوں نے کشتی کھینے کی آواز سنی اور بعد ازاں دیکھا کہ پاس سے چند کشتیاں جا رہی ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے پیچھے کچھ چیز کھینچے لئے جاتی تھیں اور جو آدمی ان میں سوار تھے وہ کبھی پرتگالی اور کبھی عربی زبان میں ایک دوسرے سے بآوازِ بلند باتیں کرتے جاتے تھے۔

آٹر (دبی آواز سے) ”لیٹ جاؤ چپکے سے لیٹ جاؤ۔ یہ لوگ بُرده فروش ہیں جو اپنی بڑی کشتیوں کو انہی ہڈیوں کے ڈھیروں کے پاس جا چھوڑیں گے۔“

لیونارڈ اور سوا نے آٹر کی نصیحت پر عمل کیا اور بردہ فروش تیس فٹ کے فاصلہ پر سے نکل گئے اور یہ تینوں لمبی لمبی گھاس میں چھپ کر بیٹھے رہے۔

لیونارڈ (سانس روک کر) یہ یہاں تو نہیں ٹھہریں گے؟“

آٹر۔ ”مجھے تو ان کی اترنے کی آواز آ رہی ہے۔“ آٹر نے صحیح اندازه لگایا تھا کیونکہ کشتیوں والے قریب دو سو گز کے فاصلہ پر کنارہ پر اتر پڑے تھے اور اب آگ کے لیے سرکنڈے جمع کر رہے تھے۔

لیونارڈ۔ ”بہتر ہے کہ ہم یہاں سے نکل جائیں اگر ان کو معلوم ہو گیا کہ ہم یہاں ہیں تو۔“

لیونارڈ ”بہتر ہے کہ ہم یہاں سے نکل جائیں۔ اگر ان کو معلوم ہو گیا کہ ہم یہاں ہیں تو۔“

آٹر۔ ”میاں اگر ہم چپ چاپ پڑے رہیں تو وہ ہم کو نہیں معلوم کر سکیں گے۔ ذرا توقف کیجئے۔ میں نے ایک اور

صفحہ 89

تجویز سوچی ہے۔ سنئے۔“ یہ کہہ کر اس نے لیونارڈ کے کان میں کچھ کہا۔

کچھ دیر وہ منتظر رہے اور اُن آدمیوں کی ڈکار لینے کی آوازیں جو کھاتے وقت اور خصوصاً پیتے وقت آ رہی تھیں سننے رہے جب ایک گھنٹہ ہو گیا تو لیونارڈ اٹھا اور آٹر بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔

آٹر ”میاں میں بھی آؤں گا۔ میں بلّی کی طرح دبے پاؤں حرکت کرتا ہوں۔“

سوا۔ ”گورے آدمی کہاں جاتے ہو؟“

لیونارڈ ”میں ان آدمیوں کی خبر لینے جاتا ہوں۔ میں پُرتگالی زبان جانتا ہوں اور ان کی باتیں سننا چاہتا ہوں۔ آٹر اپنا چاقو اور طمنچہ لے لو مگر بندوق نہ لینا۔“

سوا۔ ”اچھا مگر ہوشیار رہنا کیونکہ وہ بڑے چالاک ہیں۔“

آٹر ”پڑے ہوں ہمارے میاں بھی خوب چالاک ہیں اور میں بھی چالاک ہوں۔ تم ہماری طرف سے کچھ فکر نہ کرو۔“

پھر وہ سرکنڈوں میں سے رینگتے ہوئے چلے۔ جب آگ بیس گز کے فاصلہ پر رہ گئی تو لیونارڈ کا پاؤں پھسل کر پانی کے ایک گڑھے میں پڑ گیا جس سے غڑاپ کی آواز پیدا ہوئی۔ بردہ فروشوں نے سن لیا اور فوراً کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ آٹر وہیں سے دریائی گھوڑے کی طرح ہنہنا دیا۔

ایک شخص (پرتگالی زبان میں) ”کوئی دریائی گھوڑا یہاں رہتا ہے مگر ہمارے پاس آگ ہے اور آگ سے وہ ڈرتا ہے۔ کوئی اندیشہ کہ بات نہیں۔“

لیونارڈ اور آٹر کچھ دیر ٹھہر کر سرکنڈوں کے ایک بڑے جہاز کی طرف بڑھے جہاں سے وہ ہر ایک بات بلفظ سن سکتے تھے۔ آگ کے گرد بائیس آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک شخص کے چہرہ سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان کا سردار اور خالص نسل پرتگیز سے ہے۔ ان میں سے کچھ دوغلے بھی اور باقی عرب تھے۔ ٹین کے برتنوں میں کثیر مقدار میں رم اور تھوڑا سا پانی ملا ملا کر پی رہے تھے۔ اکثر تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پہلے ہی مدہوش ہو چکے ہیں کیونکہ زبانیں ان کی منہ سے باہر لٹکی پڑی تھیں۔

ایک (جو کہ دوغلا تھا) ”لعنت ہے ہمارے سردار پیلے بھُتنے پر۔ اس کو ایسی کیا پڑی تھی کہ ہم کو اتنی جلدی کشتیاں دے کر واپس بھیج دیا۔ افسوس کہ ہم تماشا نہ دیکھ سکیں گے۔“

سرکردہ۔ ”تماشا کیا۔ تین چار روز تک تو وہ غلاموں کو کشتیوں پر سوار کروائیں گے نہیں۔ کیونکہ کشتیاں

صفحہ 90

تیار نہیں ہیں اور یہ بھی سنا جاتا ہے کہ کوئی انگریزی جہاز دریائے زمبزی کے دہانہ لنگر ڈالے پڑا ہے۔ خدا کرے وہ جہاز چلا جائے۔“

دوغلا۔ ”نہیں میرا مطلب یہ نہیں۔ کشتی میں کالے کلوٹے حبشیوں کو پکڑ کر بٹھا لانے میں کیا تماشا ہو گا۔ میرا مطلب انگریزی تاجر کی گورے گورے رنگ والی لڑکی کے نیلامی سے تها۔ جس کو ہم نے کچھ دن ہوئے پکڑا تھا۔ جس شخص کو ایسی پری پیکر عورت ملے گی وہ بڑا ہی خوش قسمت ہو گا۔ بھئی واللہ میں نے تو ایسی حسین عورت ابھی تک کوئی نہیں دیکھی۔ اس کی آنکھیں کس غضب کی ہیں اور اس میں شوخی اور چلبلاہٹ کس درجہ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ پاکدامن ایسی کہ اگر کوئی اور ہوتی تو اب تک حضرت عشق نے اس کو اندھا کر دیا ہوتا۔“

سرکردہ۔ ”تم اس کا خیال چھوڑ دو۔ وہ بہت مہنگی پڑے گی۔ علاوہ ازیں ایک چھوکری پر خواه خواہ وہ گوری ہو یا کالی اتنا صرف کرنا حماقت ہے۔ ہاں تو نیلام کب ہو گا؟“

دوغلا ”غلاموں کی کشتیوں کے چلنے سے ایک رات پہلے ہوتا تھا مگر اب بھُتنے صاحب کہتے ہیں کہ کل رات ہو گا۔ ان کی وجہ میں تمہیں بتاؤں کیا ہے؟ اسے ڈر ہے کہ مبادا یہ لڑکی مجھ پر کوئی آفت لائے، اس لیے بہتر ہے کہ میں اس سے جلدی اپنا پیچھا چھڑاؤں۔ یہ بڈھا بھی عجیب رنگیلا ہے اس پیری پر بھی مزاج سے اس کے مسخرا پن نہیں گیا۔ کل کہنے لگا کہ گورے کالے ہولنے سے کیا ہوتا ہے۔ سب آدمی آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسی طرح تمام عورتیں خواہ وہ انگریزنیں ہوں خواہ حبشنیں بہنیں بہنیں ہیں۔ پس اب وہ اسے ایک حبشن کی طرح بیچنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ جو حال اوروں کا ہو گا، وہی اس کا بھی ہونا چاہیے۔ وہ اوروں سے اچھے نہیں آئے (قہقہہ لگا کر اور سب سے مخاطب ہو کر) شراب چلتی رہے بھائیو۔ شراب چلتی رہے۔“

سرکردہ۔ ”شاید نیلام ملتوی ہو جائے اور ہم بھی وقت پر جا پہنچیں۔ خیر جو کچھ ہو میں تو اب اس پری پیکر کا جامِ صحت پیتا ہوں۔ یہ لو۔“

یہ کہہ کر وہ شراب کا پیمانہ چڑھا گیا اور مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ ”ارے چلتے وقت تم میں سے کسی کو پَلَول کا خفیہ لفظ پوچھ لینا بھی یاد نہ رہا۔ ہم اب نیلام میں کیسے جا سکیں گے۔“

دوسرا دوغلا۔ ”یاد کیوں نہیں رہا۔ وہی پرانا لفظ بھُتنا۔“

سرکردہ ”بھائیو اس سے بہتر لفظ سے بھی کوئی نہیں۔“

پھر ایک دو گھنٹہ تک وہ باتیں کرتے رہے۔ کبھی جوانا کے بارہ میں اور کبھی کبھی دیگر امور کے متعلق۔ جوں جوں

صفحہ 91

ان کو نشہ چڑھتا گیا ان کی گفتگو پر بھی لایعنی لغویات کا رنگ چڑھتا گیا۔ لیونارڈ کچھ نہ سن سکا سب مخمور ہو کر یکے بعد دیگرے سو گئے۔ پہرہ پر انہوں نے کسی جو مقرر نہ کیا کیونکہ ایسے غیر آباد جزیرہ پر دشمن کی طرف سے ان کوئی کھٹکا نہ تھا۔ تب آٹر نے اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلا۔ اس کا چہرہ مرہم روشنی میں تندرست اور درست معلوم ہو رہا تھا۔ چپکے سے اس نے لیونارڈ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”میاں کیا ہم؟“ یہ کہ کر اس نے گلے پر ہاتھ پھیرا۔

لیونارڈ کچھ دیر تک سوچتا رہا۔ غصہ تو اس کو سخت تھا مگر پھر بھی اس نے سوتے ہوئے آدمیوں کو خواہ وہ کیسے ہی خبیث ہوں قتل کرنا خلافِ بشریت سمجھا۔ علاوہ ازیں اس کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ اگر ان لوگوں کو ہم نے مارنا شروع کیا تو صدائے گیرو دار بلند ہو گی۔ ان میں سے کچھ لوگ جاگ پڑیں گے اور چونکہ ان کی تعداد زیادہ ہے، ہم مارے جائیں گے۔ اس لئے اس نے آہستہ سے آٹر کے کان میں کہا کہ نہیں نہیں تم سے پیچھے پیچھے آؤ بجائے اس کے کہ ہم انہیں قتل کریں ان کی کشتیوں کی رسیاں کاٹ ڈالنی زیادہ مناسب ہوں گی۔

آٹر یہ نہایت ہی عمدہ تجویز ہے۔“

پھر وہ سانپ کی طرح پیٹ کے بل رینگتے ہوئے تیس گز تک گئے جہاں کشتیاں رسّیوں کے ذریعہ ایک چھوٹے درخت سے بند ہی ہوئی تھیں۔ چاقو سے انہوں نے رسّیوں کو کاٹ ڈالا۔ تھوڑے سے دھکے سے وہ پانی میں چلی گئیں۔ منجدھار میں پہنچ کر انہوں نے دریا کے بہاؤ کی سمت اختیار کر لی۔

اس کے بعد وہ پیٹ کے بل لوٹے مگر ان کا راستہ اس دوغلے شخص سے گزرتا تھا جب وہ اس کے پاس سے گزر گئے تھے تو اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت چاند نکل آیا اور اس کی روشنی نے اس کے چہرہ پر پڑ کر اس کو خواب نوشین سے یکایک جگا دیا اور وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ لیونارڈ نے ذرا تامل نہ کیا اور خونخوار چیتے کی طرح ایک جست بھر کر اس کا ٹینٹوا جا دبوچا اور اس زور سے دیا کہ اس کی آواز نہ نکل سکی۔ تھوڑی سی سخت کشمکش کے بود آٹر کا چاقو چمکا اور ابھی وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا کہ دوغلے کا کام تمام ہو چکا اور اس سرعت اور آہستگی کے ساتھ کسی دوسرے آدمی کی آنکھ بھی نہیں کھلی۔ ایک یا دو شخصوں نے البتہ اپنی گہری نیند میں کروٹیں بدلیں اور کچھ منہ سے بڑبڑائے۔

لیونارڈ بغیر کسی ضرر کے پیچھے کی طرف جلدی سے پلٹا اور آٹر اور وہ دونوں اس طرف بھاگے جہاں انہوں نے سوا کو چھوڑا تھا۔

سوا ان کی انتظار کر رہی تھی اور جب وہ پہنچے تو اس نے اضطراب آمیز اشتیاق سے پوچھا۔ ”کتنے؟“

صفحہ 92

آٹر ”ایک۔“

سوا (تند ہو کر) کاش کہ سبھی قتل ہوتے۔ مگر تم تو صرف دو ہو۔“

لیونارڈ ”چلو کشتی میں جلد سوار ہو وہ ابھی ہمارے تعاقب میں آتے ہوں گے۔“

ایک لمحہ کے اندر وہ سوار ہو کر چل دیے اور جزیرہ جو چوتھائی میل سے زیادہ لمبا نہ ہو گا بہت دور پیچھے رہ گیا۔ پھر وہ دریا کے پار چلے گئے اور سامنے کے کنارے پر پہنچ کر آٹر ہنسنے لگا۔

سوا۔ ”آٹر تم کیوں ہنستے ہو؟“

آٹر (چند سیاہ نشانات کی طرف چو دریا کی سطح پر دوری میں غائب ہوتے جاتے تھے انگلی اٹھا کر) ”وہ دیکھو سامنے بردہ فروشوں کی کشتیاں جا رہی ہیں۔ جن میں ان کی خوراک اور ہتھیار ہیں۔ میان نے اور میں نے ان کی ساری رسیوں کو کاٹ ڈالا تھا۔ اس جزیرے پر بائیس آدمی سو رہے تھے۔ ان میں سے ایک مر چکا ہے۔ جب وہ اُٹھیں گے کیا دیکھیں گے۔ وہ اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے جزیرہ پر، جس کی ہر طرف پانی نظر آتا ہے، پائیں گے جہاں سے اگر وہ تیرنا جانتے بھی ہوں نہنگوں کی وجہ سے تیر کر نکل نہیں سکیں گے۔ کھانے کے لئے ان کو کچھ نہیں مل سکے گا کیونکہ ان کے پاس بندوقیں بھی نہیں۔ بطخیں ہاتھ نہیں آ سکتیں کہ ٹھہریں اور پکڑ لیں اور خشکی پر بھی سینکڑوں نہنگ ان کو پکڑنے کے لئے آئیں گے۔ آخر کار وه مارے بھوک کے چلائیں گے اور چیخیں ماریں گے مگر ان کی آوازیں کسی کے کان میں نہیں پہنچیں گی۔ پھر وہ پاگل ہو کر ایک دوسرے پر گریں گے اور ایک دوسرے کو کھائیں گے یہاں تک کہ موت ان پر رحم کھا کر اپنی گود میں سلائے گی۔ اگر کوئی پانی کی طرف گیا تو دریا کے منجدھار میں ڈوبے گا یا نہنگ کے منہ میں جائے گا۔ یہاں تک کہ سب مر جائیں گے اور ایک نہیں بچے گا۔ مردے ہی مردے۔ مردے ہی مردے۔“ یہ کہہ کر آٹر پھر ہنسا۔

لیونارڈ نے آٹر کو ملامت نہ کی چونکہ ان کمبختوں کی نفرت انگیز گفتگو کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اس لئے ان کو ان کی شامتِ اعمال پر جس نے ان کو آ لیا تھا کچھ ترس نہ آیا۔

اتنے میں ایک دھیمی سی آواز سنائی دی اور جب بتدریج بلند ہوئی تو اس سے خوف اور غصّہ صاف طور پر مترشح ہوتا تھا۔ بردہ فروش اب اپنی نیند سے بیدار ہوئے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ہمارے ایک آدمی کو کسی چھپے ہوئے دشمن نے قتل کر ڈالا ہے اور ہم کو معلوم نہیں ہوا۔ مگر ایک مصیبت ان پر اور نازل ہوئی کیونکہ جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ ان کی کشتیاں بھی اس جگہ نہیں جہاں انہوں نے ان کو باندھا تھا اور وہ ایک ایسے جزیرے پر رہ گئے جہاں سے ان کا نکلنا مشکل ہے تو ان کی چیخیں نکل گئیں اور ان کے شور و غوغا کی آواز چاروں طرف گونج اٹھی۔

صفحہ 93

دریا کے اس کنارے سے جس نے لیونارڈ اور آٹر کو پناہ دی تھی اور جس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی کشتی کو لے جا رہے تھے وہ اِن مصیبت زدہ بُرده فروشوں کو نکھری ہوئی چاندنی میں ادھر ادھر دیوانہ وار دوڑے اور کشتیوں کی تلاش میں پھرتے دیکھتے تھے مگر کشتیاں تو ہمیشہ کے لیے ان سے جدا ہو گئی تھیں۔ رفتہ رفتہ شور و غوغا کم ہو گیا اور آخر کار سنسان رات کی خاموشی اس پر غالب آ گئی۔

اس وقت لیونارڈ نے سوا کو بردہ فروشوں کی وہ باتیں جو اس نے سنی تھیں سنائیں۔

جب وہ سنا چکا تو اس نے آٹر سے پوچھا کہ ”یہاں سے وہ سڑک کتنی دور ہو گی؟“

آٹر ”خدا نے چاہا تو کل غروبِ آفتاب کی وقت ہم پیلے بھُتنے کے قلعہ کے پھاٹک پر جا پہنچیں گے۔“

دو گھنٹوں میں انہوں نے کشتیوں کو جو انہوں نے کاٹ کر پانی میں دھکیل دی تھیں جا پکڑا۔ ان میں سے اکثر ایک دوسرے کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں اور آہستہ آہستہ جا رہی تھیں۔

لیونارڈ ”میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا کہ ہم ان کشتیوں میں سوراخ کر کے ان کو غرق کر دیں۔“

آٹر ”نہیں میاں اگر ہم بچ کر نکل آئے تو ممکن ہے ہم کو ان کی ضرورت ہو۔ (ایک چھوٹے جزیرے کی طرف اشارہ کر کے) اس جگہ ہمیں اترنا چاہیے۔ چلو کشتیوں کو وہاں لے جا کر باندھیں۔ شاید ہم کو ان میں سے کھانے کی چیزیں ملیں اور ان کی ضرورت بھی ہے۔“

آٹر کی اس نیک صلاح پر لیونارڈ نے عمل کیا۔ طلوعِ آفتاب کے وقت وہ جائے مقصود پر پہنچے۔ یہاں انہوں نے ایک معقول جگہ ڈھونڈ کر اپنی کشتیوں کو ان رسیوں سے جو پہلے سے ان کے ساتھ لٹک رہی تھیں، باندھ دیا اور ان صندوقوں کو جو کشتیوں میں رکھے تھے کھول کر دیکھنے لگے، ان میں سے ان کو بہو سی اشیائے خوردنی مثل گوشت پختہ، شراب، بسکٹ، روٹی، نارنگی، کیلا وغیرہ دستیاب ہوئیں۔ اشیاء خورد و نوش کے اس کثرت سے مل جانے کی قدر صرف انہیں لوگوں کو معلوم ہو سکتی ہے جن کو دو ہفتوں یا دنوں تک نصیب نہ ہوئی ہے۔ لیونارڈ کو ایسا معلوم ہوا کہ اس نے ایسا پر لطف اور خوش ذائقہ کھانا کبھی نہیں کھایا تھا اور اس رم اور پانی کے مرکب سے بہتر کوئی مزیدار چیز اسے نصیب نہ ہوئی تھی۔

اور چیزیں بھی ان کو ملیں۔ مثلاً رائفلیں، گولی، بارود اور سب سے بہتر کارآمد ایک کپڑوں کا صندوق ملا جو بردہ فروشوں کے سرکردہ کا معلوم ہوتا تھا۔ ایک سوٹ وردی کا تھا جس کا کنارا کلابتوں اور زردوزی کے حاشیہ سے مزیّن تھا۔ ایک لمبا بوٹ اور دو خوش وضع ٹوپیاں بھی تھیں جن میں مرغ کے پروں کا طرّۂ لگا تھا۔ ان کے

صفحہ 94

علاوہ عربی اور عمامے تھے مگر سب سے زیادہ قیمتی ایک چرمی کیسہ تھا جس میں سرکردہ صاحب نے حلال کا پیسہ کما کما کر جمع کیا تھا اور جو سفر میں بھی ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ لیونارڈ نے جب غور سے دیکھا تو اس میں اس کو ایک سو انگریزی سادرن اور بارہ یا پندرہ پرتگال کے سونے کے سکے پائے۔

آٹر ”اب میاں میری رائے یہ ہے کہ یہ کپڑے پہن لو۔“

لیونارڈ۔ ”کیوں۔“

آٹر ”اس لئے کہ اگر بُرده فروش ہم کو دیکھ لیں تو ہم کو اپنا ہی بھائی خیال کریں۔“

یہ تجویز ایسی معقول اور مفید تھی کہ لیونارڈ اس پر کاربند ہوا۔ اور جب اس نے نئے کپڑے پہنے اور اپنی کمر میں ریشمی پیٹی لگا کر اس میں پستول لٹکا لیا تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ تند خو اور سخت گیر بردہ فروش ہے۔

اس کے بعد جب آٹر نے عمامہ پہنا تو اس کی بھی ایک عجیب عربی وضع نکل آئی۔ چونکہ پستہ قامت تھا اس لئے بمشکل کوئی لباس اس کے قد پر آتا تھا۔ آخر کار انہوں نے جُبّہ کو ایک لکڑی کے کندے پر رکھ کر چاقو سے کاٹ لیا۔

جب کپڑے پہن کر لیونارڈ اور آٹر نے اپنی شکل بدل لی انہوں نے بندوقوں اور ہتھیاروں کو گھاس پات میں چھپا دیا، اس خیال سے کہ شاید پھر وہاں آ کر ان سے کام پڑے۔ سکّوں کو بھی لیونارڈ نے جیب میں ڈال لیا۔

اب وہ دلدلوں کے کنارے کنارے چلے۔ رستہ ایسا پیچیدہ تھا کہ کسی شخص کو جس نے اسے پہلے نہ دیکھا ہو معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ میں کدھر جاؤں مگر آٹر کا حافظہ تیز تھا۔ اس لئے دن کی شدید گرمی میں بھی وہ چلے گئے اور کسی جگہ توقف نہ کیا۔ رستہ میں کوئی آدمی نہ ملا البتہ سڑک پر پاؤں کے بہت سے نشان تھے جو صاف بتا رہے تھے کہ ابھی بہت سے آدمی گزرے ہیں جن کے ساتھ دو خچّر یا گدھے بھی تھے۔ کہیں کہیں کسی کمبخت غلام کی لاش سڑک کے کنارے سرکنڈوں میں پڑی پائی گئی۔ آخر کار دن غروب ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے وہ پیلے بھُتنے کے قلعہ یا مسکن کے نزدیک جا پہنچے۔

صفحہ 95

دسواں باب

لیونارڈ ایک تدبیر سوچتا ہے

یہ قلعہ جزیرہ پر دس یا بارہ ایکڑ پھیلا ہوا تھا جس رستہ سے لیونارڈ اور اس کے ہمراہی جا رہے تھے وه قلعہ کے جنوب کی جانب بڑی کھائی کے کنارے کی طرف ہو کر گزرتا تھا۔ آٹر نے کہا کہ ”اس طرف نہیں جانا چاہیے کیونکہ وہاں پہرہ والے سنتری ہم کو دیکھ لیں گے اور اگرچہ لباس ہمارا بردہ فروشوں کا سا ہے تاہم خوف یہ ہے کہ کہیں وہ ہم سے ایسے سوالات نہ پوچھ بیٹھیں جن کا ہم سے کچھ جواب نہ بن پڑے۔“

اس لئے جب وہ پھاٹک سے پانچ سو گز کے فاصلہ پر پہنچے تو ان کی گنجان جھاڑیوں کی طرف ہو لئے جو کھائی کے باہر کی طرف بائیں ہاتھ پر واقع تھیں۔ ان میں سے ہوتے ہوئے لیونارڈ اور اس کے ہمراہی باحتیاط تمام پانی کے کنارے تک پہنچ کر ایک بند کے درخت کے نیچے ٹھہر گئے جہاں سے غلاموں کے کیمپ کا جنوب مغربی گوشہ بالکل مقبل تھا۔

آٹر (دھیمی آواز میں) ”دیکھو میاں سفر تو ختم ہو چکا اور میں آل کو ٹھیک لے آیا۔ پیلے بھُتنے کا گھر سامنے ہے۔ اب صرف اس کا فتح کرنا اور اس میں سے جوانا کا نکالنا باقی رہ گیا ہے۔

لیونارڈ نے خیمہ گاہ کی طرف کسی قدر ہراساں ہو کر نگاہ ڈالی۔ اس نے دل میں کہا کہ ”کیونکر ممکن ہے کہ دو آدمی اور ایک عورت اس مستحکم خیمہ گاہ کو جس میں افریقہ بھر کے چھٹے ہوئے شریر اور بدمعاش بھرے ہوئے ہیں، سر کر سکیں گے۔ وہاں تک پہنچنا ہی قریب قریب ناممکن ہے۔ ہم سمجھے ہوئے تھے کہ پیلے بھُتنے کے قلعہ کا فتح کر لینا کوئی بڑی بات نہیں مگر اب تو اپنی جان بچانی بھی دشوار نظر آتی ہے۔ لیکن خواہ کچھ بھی ہو، ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے ورنہ ہماری اس وقت تک کی تمام محنت پر پانی پھر جانا تو الگ رہا، اس بیچاری مصیبت کی ماری کا انجام کیا ہو گا جس کے چھڑانے کے لئے ہم اتنی دور سے اس قدر آفتیں جھیل کر آئے ہیں۔ یا تو ہمیشہ کے لئے داغِ رسوائی اس پر لگ جائے گا اور یا وہ خود کشی کر کے اپنے ہاتھوں نہنگ اجل کا شکار ہو جائے گی۔ (بآوازِ بلند) مگر سخت مشکل ہے کہ متاعِ جان کو انسان جان بوجھ کر اپنے ہاتھوں درد اجل کے حوالہ کرے۔“ (پھر آٹر سے مخاطب ہو کر) ”اچھا آٹر میں تم سے ایک بات کہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں اس مہم پر بہت دور سے آیا ہوں اور اب ہرگز قدم نہیں ہٹاؤں گا۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ریختہ صفحہ 201
ہم اپنا خون بہانا ایک نعمتِ غیر مترقبہ خیال کریں گے۔ تم پر قربانی چڑھنے کا ہم ہمیشہ دم بھریں گے۔ سانپ جس کو تم نے اس پوشیدہ اور ہیبت ناک جگہ کی پاسبانی کے لئے مقرر کیا تھا عجز و انکسار سے تمہارے قدموں کے نیچے پانی کی غار میں بل کھا رہا ہے۔ اور تمہارے فرمان واجب الادغان کی تعمیل میں قربانیوں کی ہڈی پسلی توڑنے کے لئے مستعد و آمادہ ہے۔ اے ایکا ! اور اے جال! تمہاری ہمیشہ رہنے والی بادشاہت کا اقبال ہر روز دوبالا ہو۔
سب لوگ مل کر۔۔۔" اے ایکا ! اور اے جال ! تمہاری ہمیشہ رہنے والی بادشاہت کا اقبال ہر روز دوبالا ہو۔ "
اس کے بعد نام کاہنوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا " اس جوان عورت کو جو سانپ کی قربانی کے لئے نامزد کی گئی ہے ۔ سامنے لاؤ۔ اور ہاں اس عورت کو بھی پیش کرو جو ایک سال ہوا سانپ کی منکوحہ بنی تھی تاکہ وہ اپنے مالک کو الوداع کہے۔"
نام کے منہ سے ان الفاظ کا نکلنا تھا کہ دو عورتیں نوعمر اور خوبصورت پتھر کے بت کی دونوں طرف سے نمودار ہوئیں۔ ان میں سے ایک عورت قریب قریب ننگی تھی۔ ایک افعی کی کینچلی اس کی کمر کے گرد لپٹی ہوئی تھی۔ اس کے لمبے بال گھٹنوں تک پہنچ کر اس کی برہنگی کی کسی قدر تلافی کرتے تھے۔ اور اس کے سر پر پھولوں کا ایک سہرا بندھا ہوا تھا۔ برخلاف اس کے دوسری عورت سیاہ لباس پہنے تھی جس پر کشیدہ کا ایک سرخ سانپ کڑھا ہوا تھا۔ لیونارڈ نے دیکھا کہ یہ عورت خوف کے مارے کانپ رہی ہے۔
پہلی عورت جو پھولوں کا سہرا پہنے تھی دیوتا یا یوں کہو کہ آٹر کے سامنے لائی گئی ۔ اس نے جھک کر تین دفعہ آٹر کو سلام کیا۔ مگر آٹر نے کچھ جواب نہ دیا اور اس نے اچھا کیا کہ خاموش رہا کیونکہ اس کی خاموشی سے نام نے بھی یہ نتیجہ نکالا کہ دیوتا نے اس عورت کو قبول کر لیا ہے اور وہ بلند آواز سے اس کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا " اے مہ جبیں تو بہت خوش قسمت ہے کہ جال دیوتا کی منظورِ نظر ہو گئی۔ اے سانپ کی زوجہ مبارک ہو تجھ کو۔ "
سب لوگ مل کر۔۔" اے سانپ کی زوجہ مبارک ہو تجھ کو۔ "
اس پر یہ عورت مسکراتی ہوئی کبر و ناز کے ساتھ پیچھے کی طرف ہٹی اور قربان گاہ کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔

ریختہ صفحہ 202
اس کے بعد نام نے دوسری عورت کی طرف جو سیاہ لباس پہنے کھڑی تھی، اشارہ کر کے کاہنوں سے بآواز بلند کہا، " دھکیل دو اس کو تا کہ یہ اپنے مالک کو جہاں وہ ہے، ڈھونڈے۔ "
سب لوگ مل کر، " دھکیل دو اس کو اس کے دن پورے ہو گئے۔ "
تب دو کاہنوں نےنے اس بد قسمت عورت کا لباس چاک کر کے نیچے کے ابلتے ہوئے چشمہ میں اس کو ایک زور کا دھکا دیا۔ اس کے منہ سے ایک ایسی دردناک چیخ نکلی کہ لیونارڈ فرانسسکو اور جوانا کلیجہ تھام کر رہ گئے۔ لیکن اہلِ ظلمات جو اس قسم کی سفاکیوں کے عادی ہو رہے تھے، بکمال اشتیاق اس ستم رسیدہ کی بیکسی کی موت کا تماشہ دیکھنے کے لئے آگے جھپٹے اور اس چٹان کے کنارہ پر سے، جس کے قعر میں کوئی بیس فٹ نیچے پانی جوش کھاتا ہوا پہاڑ کے اندر اندر چلا گیا تھا۔ گردنیں جھکا کر نیچے دیکھنے لگے۔ لیونارڈ کی نگاہ بھی بے اختیار نیچے کی طرف پڑی۔ جو کچھ اسے نظر آیا اسے دیکھتے ہی اس کے حواس پران اور بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اس نے دیکھا کہ سطح آب پر جو عورت کے گرنے سے ابھی تک پیچ و خم کھا رہی تھی ایک مہیب شکل نمودار ہوئی جو بتدریج ایک نہنگ کی شکل اختیار کر کے عورت کی لاش کو جو اوپر اٹھ کر بھنور میں چکر کھانے لگی تھی، غڑاپ سے نگل گئی۔ یہ نہنگ قریباً پچاس فٹ لمبا اور چار فیڑ چوڑا ہو گا۔ اس کی آنکھوں میں جو ایک آدمی کی مٹھی جتنی بڑی تھیں ایک خوفناک فوق العادت چمک تھی۔ سر اس کا بڑے سے بڑے آدمی کی چھاتی سے بھی چوڑا تھا۔ اس کے زرد زرد دانت شیر کے دانتوں کے مشابہ تھے اور اس کے نیچے کے جبڑوں کا گوشت دو گھناونے لوتھڑوں کی شکل میں نیچے لٹک رہا تھا۔ گینڈے کی کھال کی طرح اس عدیم المثال نہنگ کے تمام جسم پر بڑے بڑے کھردرے سپر نما قبے اٹھے ہوئے تھے اور اس کی شکل سے اس کی عمر قدامت مجسم معلوم ہوتی تھی۔
اس وقت نام پھر کہنے لگا، " سانپ نے قربانی کو قبول کیا ہے۔ اب ہمیں چاہئیے کہ جن جن لوگوں کو ہمیں چڑھانا ہے ان کو بھی چڑھا دیں۔ آلفن کہاں ہے جو کبھی بادشاہ کہلاتا تھا۔ لاؤ اسے بھی چڑھاؤ اور دیبی کے گورے گورے رنگ والے خادموں کو بھی پیش کرو کہ وہ بھی چڑھائے جائیں گے۔ میدان میں جو غلام اس کے سامنے دست بستہ
کھڑے تھے ان کو اور جن قیدیوں کو ہم نے پکڑا تھا ان سب کو چڑھا دو۔ غرضیکہ بادشاہوں کی تخت نشینی کے وقت جو رسومات ادا ہوتی ہیں وہ سب ادا ہونی چاہئیں تا کہ دیوتا جال ہم سے خوش ہو اس کے قہر سے ہم بچیں۔ ہماری سرزمین اور اس کے رہنے والے پھلیں پھولیں اور

ریختہ صفحہ 203
اور شہر میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔ "
ادہر نام یہ کہہ رہا تھا اُدھر لیونارڈ کے حواس باختہ ہو رہے تھے۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ اور وہ ادہر ادھر ایک عالمِ وحشت میں کھڑا سراسیمہ دیکھ رہا تھا کیونکہ اگرچہ وہ اہلِ ظلمات کی زبان سے ناواقف تھا تاہم وہ اس لہجہ سے جس میں نام گفتگو کر رہا تھا اس کے مفہوم کو سمجھ گیا۔
دو کاہن گرگ صورت اس کے پاس کھڑے تھے اور اس پر اس طرح ٹکٹکی جمائے کھڑے تھے جیسے بلی چوہے کو تاکا کرتی ہے۔ لیونارڈ نے جب ان کی درشت شکلوں کی طرف نگاہ کی تو اس کی ہمت اور جراءت پھر عود کر آئی اور اس نے کہا کہ گو جان پر آ بنی ہے مگر رائفل میرے پاس ہے ، بزدلوں کی طرح میں جان نہیں دوں گا۔ مروں گا تو لڑ کر مروں گا۔
ادہر چند کاہن آلفن کو پکڑ کر پانی کی غار میں دھکیلنے کے لئے لا رہے تھے ناگہاں جوانا کی صاف اور شیریں آواز سنائی دی اور اوّل دھیمے لہجے میں شروع ہو کر بتدریج فصاحت کی قوت پکڑنے سے ہر طرف گونج اٹھی۔ اس نے ہزارہا سامعین کو جو قطار در قطار دور تک اس کے سامنے کھڑے تھے، اوجِ ہوا پر سے ۔(کیونکہ جہاں پر اس کا عاج کا تخت دیوتا قامت بت کے سر پر رکھا تھا وہ جگہ زمین سے ستر فٹ بلند ہو گی) اس طرح مخاطب کیا۔
" اے اہلِ ظلمات خبردار ! اے سانپ کے پجاریو ہشیار ! ایکا اور جال پھر آ گئے ہیں۔ پشت ہا پشت کے بعد انھوں نے عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں سنبھالی ہے ۔ تم میں سے ہر ایک کا زندہ رکھنا یا مار ڈالنا اس کے دستِ قدرت میں ہے۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ تم پرانے طریقہ پر جال کی خوشنودی اور رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور ساتھ ہی یہ بھی تمنا رکھو کہ میں جو اس کی ماں ہوں تمہارے سلسلہ ء حیات اور نشو نما کو قائم رکھوں۔ خبردار ! جال کا قہر اور غضب اس مذموم طریقہ سے ہر گز کم نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو پرانا قانون ٹوٹ گیا۔ اب نئے قانون کے نفاذ کا زمانہ آیا ہے۔ صلح و امن ہاتھ میں ہاتھ لئے تمہارے ملک میں آئے ہیں۔ حیات و ممات نے ایک دوسرے سے عہد و پیمان کر لیا ہے۔ ۔۔۔۔ ایام نے ایکا اور دجال کے دلوں کو نرم کر دیا ہے ۔ خون کی پیاس اب انھیں باقی نہیں رہی۔ اب ان کے سامنے پھل پھول لایا کرو نہ کہ انسانوں کی جانیں۔ دیکھو میرے ہاتھ میں سرخ و سفید سوسن کے پھول ہیں۔ اب میں ان سرخ پھولوں کو جو قتل اور خونریزی کی علامت ہیں مسل کر پھینک دیتی ہوں۔ یہ لو تمہارا

ریختہ صفحہ 204
پرانا قانون ہو چکا۔ میں نے سرخ پھول پھینک دئیے ہیں۔ اور سفید پھول جو محبت و الفت اور صلح و امن کی دلیل ہیں، میں نے رکھ لئے ہیں۔ اے اہلِ ظلمات کیا یہ بات درست نہیں ہے۔ کیا تم میری شفقت اور رحم کی برکتوں سے مستفیض ہو گے یا نہیں "۔
سب لوگ مل کر، " قتل اور خونریزیوں کے دن گے، صلح و امن کا زمانہ آ گیا ہے۔ اے دیبی ہم تیری شفقت اور رحم کی نعمتوں کو شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔ "
اس کے بعد پھر ایک خاموشی کا عالم طاری ہوا اور آخرکار اس خاموشی کے عالم میں نام ایک غضبناک لہجہ میں کڑک کر بولا
یہ میں کیا سن رہا ہوں ۔ اے اہلِ ظلمات غالباً تم کو جنون ہو گیا ہے یا شاید دیبی نے مسحور ہو کر یہ باتیں کی ہیں، کیا پرانے طریقہ ء پرستش کو ایک آن میں چھوڑے دیتے ہو۔ خبردار ! دیوتا بھی اپنے اس طریقِ عبادت کو نہیں بدل سکتے جو خود ان کا قرار دیا ہوا ہے۔ اے کاہنو! قتل اور خونرزی کا بازار گرم کرو اور جن کی نسبت میں فتویٰ دے چکا ہوں ، ان کو مار ڈالو ورنہ تم خود موت کے منتظر رہو۔ "
اس وقت سب کاہنوں نے جو نیچے کھڑے تھے، شاہ آلفن کو جو ہاتھ پاؤں مار رہا تھا بڑی جدوجہد کے بعد پتھر کے بت کے سامنے لٹا دیا۔
جوانا۔ " لیونارڈ ! لیونارڈ! یہ پہلی بار تھی کہ اس نے لیونارڈ کو اس کے مسیحی نام سے پکارا اور لیونارڈ نے اس ہولناک معرکے میں بھی جو معرکہ قیامت سے کم نہ تھا اس طرزِ تخاطب کے اشتیاق انگیز مفہوم کو نظر انداز نہیں کیا ( " یہ کاہن تم سب کو سوائے میرے اور آٹر کے مار ڈالنے والے ہیں۔ جب میں تمہیں اشارہ کروں تو تم اس شخص کو جو بادشاہ کو نیچے دبا رہا ہے گولی مار دینا۔ خاموش! جواب نسترد۔ "
لیونارڈ سب سمجھ گیااور بت کے ساتھ لگ کر جوانا کے اشارہ کے انتظار میں جو اس وقت کاہنوں سے مخاطب تھی اس طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا جہاں سے وہ اس ہیبتناک نظارہ کو خوب دیکھ سکتا تھا۔
جوانا۔ " اے بے رحمو اگر تم میرا کہا نہیں مانو گے تو یاد رہے کہ تمہیں ایک ایسی موت مرنی پڑے گی جو تم نے کبھی نہیں دیکھی "( لیونارڈ کی طرف نگاہ ڈال کر) اے میرے نوکر جس کا نام نجات دہندہ ہے جو کچھ میں کہتی ہوں کہ اگر اب اس سامنے کے مظلوم پر کسی نے بھی ہاتھ اٹھایا تو بلا تامل اس پر قہر کی بجلی گرا۔ "
نام: (چیخ کر) قتل کر ڈالو کاہنو قتل کر ڈالو۔ دیبی کی دھمکی کی کچھ پرواہ مت کرو۔ "

ریختہ صفحہ 205
سب کاہن خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے تھے۔ ہاں ایک شخص جو منچلا اور دلیر معلوم ہوتا تھا آگے کو بڑھا اور اپنا خنجر نکال کر آلفن کے گلے پر پھیرا چاہتا ہی تھا کہ ایک دھماکا ہوا ۔ لینارڈ کی رائفل کی گولی اس کے سینہ میں لگی اور وہ چیخ مار کر چِت گر پڑا۔
اس وقت سب لوگوں کی بالعموم کاہنوں کے دل کی بالخصوص عجیب کیفیت تھی۔ بندوق کی آواز اور آگ کے شعلہ نے جو اس کے منہ سے اس وقت نکلتا ہوا معلوم ہوا ان کو حائف اور ہراساں کر دیا۔ بندوق چلتی پہلے انھوں نے کبھی نہ دیکھی تھی اور اس کے اثر سے وہ محض ناواقف تھے اور اس لئے اس کو وہ دیوتاؤں کے انتقام کا حاذق عادات آلہ سمجھے۔ ان میں سے ایک شخص بول اٹھا " دیکھو بھائیو! دیوتاؤں نے کڑک اور گرج سے اپنا قہر نازل کیا۔ اس کے شعلہ میں موت چھپی بیٹھی ہے۔ "
نام: (جھلا کر) چپ رہ ملعون۔ کیا تو نہیں جانتا کہ یہ سب جادو ہے۔ ( ایک کاہن کی طرف جو لیونارڈ کے پاس کھڑا تھا، مخاطب ہو کر) اے میرے خادم اس شخص کو جس کا نام نجات دہندہ ہے نیچے پٹخ دیکھیں تو وہ کیونکر موت سے بچ سکتا ہے" ۔
یہ شخص تو مارے خوف کے ہلا نہیں۔ ہاں اس کے ساتھ کا آدمی لیونارڈ کی طرف بڑھا مگر اببھی اس نے دو قدم بھی نہ اٹھائے تھے کہ لیونارڈ کی بندوق پھر گرجی اور وہ بھی سوئے عدم سدھارا۔ آٹر کو اب پہلی مرتبہ جوش آیا۔ وہ دفعتًہ اٹھ کر تخت پر کھڑا ہو گیا اور اپنے عصائے الوہیت کو جو کاہنوں نے تخت پر بٹھاتے وقت اس کے ہاتھ میں دیا تھا ، پھرتی سے سر کے گرد گھما کر اس نے ان آدمیوں کی طرف جو پیوندِ زمین ہو چکے تھے اشارہ کیا اور رعد کی طرح گرج کر بولا " کیا کہنے ہیں میرے میان کے کیا کہنے ہیں۔ میان اب اس بڈھے طوطے کو جو سامنے بیٹھا ہوا چلا رہا ہے اڈے پر سے گرا دو کیونکہ اس نے مجھے چیخ چیخ کر دق کر ڈالا ہے۔
آٹر کی اس تقریر نے لوگوں پر کاہنوں کی ان بوجھی موت سے بھی زیادہ اثر کیا ۔ دیوتا جال کا ایک ایسی زبان میں جسے وہ نہ سمجھتے تھے اس موقعہ پر مہر خاموشی کو توڑنا ان کے خیال میں صاف اس امر پر دلالت کرتا تھا کہ کوئی بلائے عظیم نازل ہوا چاہتی ہے اور دیوتا سخت طیش اور غصہ کے عالم میں ہے۔ اس خیال سے وہ نہایت ہراساں اور خوفزدہ ہو گئے اور ان میں سے بعض گڑگڑا کر گر پڑے۔ لیونارڈ اپنی بندوق بھرنے میں ہمہ تن مصروف تھا۔ جوانا نے موقع پا کر بآواز بلند اپنا سلسلہ تقریر یوں شروع کیا۔
 
Top