ہاں تو صدر گرامی میں کہہ رہا تھا کہ ان سینئرز کے مجھ پر کتنے احسان ہیں شاید فیض کے یہ اشعار ترجمانی کر سکیں
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان ان سینئرز کے
اتنے احسان کے گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس جونیئر پنے میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں
شرارت سیکھی، اور جونیئر کو ستانا سیکھا
لڑکیوں کو پٹانا اور جھوٹ بہانہ سیکھا
فراڈ، دھوکہ اور چونے کے معنی سیکھے
سرد آہوں اور رخ سرخ کے معنی سیکھے
جناب صدر۔۔۔ ۔۔
(جاری ہے)
خوب ہے۔
جس زمانے میں نواز شریف صاحب سعودیہ میں تھے اور جب وہ پاکستان آتے تھے تو مشرف صاحب اُنہیں ائیرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیتے تھے، اُس زمانے میں ہم نے بھی فیض کی نظم "رقیب سے" کا "بیڑہ غرق" کیا تھا۔
اُس دور کے معاملات کو زیرِ نظر رکھ کر ملاحظہ فرمائیے کہ یہاں مشرف صاحب نواز شریف سے مخاطب ہیں:
شریف سے
(فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ)
جا کہ وابسطہ ہے اک عہدِ حکومت تجھ سے
تو نے بھی قوم کو دیوانہ بنا رکھا تھا
جس کی اُلفت میں بھلا رکھی ہے دنیا ہم نے
تو نے بھی ایسی حکومت کا مزہ چکھا تھا
آشنا ہیں تیرے قدموں سے وہ راہیں جن پر
میں نے وردی میں سیاست کی بِنا رکھی ہے
تو نے بھی قوم کی دولت کے مزے لوٹے ہیں
تو نے بھی اک بڑی جاگیر بنا رکھی ہے
تیرے سینے میں دھڑکتی ہے اُسی جاہ کی چاہ
جس کی اِن آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تو کہ مذموم مقاصد لیے آیا ہے یہاں
ورنہ چیلوں نے تیرے مجھ پہ عنایت کی ہے
چوہدری لوگوں نے سینے سے لگا رکھا ہے
شیخ صاحب نے تو پلکوں پہ بٹھا رکھا ہے
میڈیا والوں سے لڑنے کو کئی گُرگے ہیں
اور درّرانی نے طوفان اُٹھا رکھا ہے
تو نے دیکھی ہے وہ کرسی، وہ حکومت، وہ حشم
زندگی جن کے تصوّر میں لٹا دی ہم نے
کتنی مشکل سے حکومت کی یہ سوغات ملی
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان حکومت کے بہت
اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس کھیل میں کیا کھویا ہے کیا پایا ہے
میں اگر نیب کو بتلاؤں تو بتلا نہ سکوں
سنگدلی سیکھی ، وزیروں کی حمایت سیکھی
ہٹ دھرم بن کے حکومت کے طریقے سیکھے
جیب کو خالی رکھا ، بینک کو بھرنا سیکھا
زورِ بازو سے سیاست کے طریقے سیکھے
چاہتا ہوں کہ رہے یوں ہی عقیدت تجھ سے
جا کہ وابسطہ ہے اک عہدِ حکومت تجھ سے
شوخیءتحریر از محمد احمد