لاریب مرزا
محفلین
جب تک ہم نے سینما نہیں دیکھا تھا ہمیں لگتا تھا کہ ہم ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے. . ویسے تو ہماری پیدائش لاہور کی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ مقولہ کچھ یوں تھا۔ "جِنے سینما نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں" خیر اس مقولے کے پیش ِنظر ہم نے اپنی ساتھی معلمات سے اظہارِ تشویش کیا کہ ہم چونکہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تو اس دنیا میں قدم رنجہ فرمانے کی کوئی صورت نکالی جائے.. لیکن جو مسئلہ ہمیں درپیش تھا وہی ہماری ساتھی معلمات کے پیشِ نظر تھا کہ کون لے جائے گا ہمیں سینما؟
خدا کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ اسی دن ہماری سکول کی منتظم صاحبہ نے کچھ مخصوص اساتذہ کو طلب فرمایا اور کہا، "کیوں نہ کہ اس دفعہ اختتام ہفتہ ذرا مختلف طریقے سے گزارا جائے!! میرا خیال ہے کہ اسلام آباد چلتے ہیں کوئی اچھی سی فلم دیکھتے ہیں اور کہیں باہر کھانا کھاتے ہیں۔"
پہلے تو ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا, اور جب یقین آیا تو ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اور ساتھ میں حیرت کا بھی کہ منتظم صاحبہ کو کیسے بھنک پڑ گئی ہمارے اس شوق کی؟؟ ہمیں تو ہماری ساتھی معلمات نے باقاعدہ مبارکباد بھی دی کہ بھئی کیا بات ہے! ادھر آپ نے خواہش کا اظہار کیا اور ادھر پوری بھی ہو چلی..
ابھی ہم ٹھیک سے ہواؤں میں اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ کچھ ساتھی معلمات نے سینما جیسی قابلِ اعتراض جگہ جانے پر پس وپیش کا اظہار کیا تو ہماری منتظم صاحبہ نے سینما جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔. یہ خبر بجلی بن کر ہم پر گِری. اُف یہ ظالم سماج!! ہمارا دل کیا کہ ہم والہانہ رونے بیٹھ جائیں، ہم اتنی بیچاری صورت لے کر اپنی منتظم صاحبہ کے پاس گئے کہ ہمارا اشتیاق دیکھ کر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں اور فرمایا کہ ٹھیک ہے, ہم سینما جائیں گے۔.اور جس نے فلم نہ دیکھنی ہو گی وہ بصد شوق جناح پارک میں چہل قدمی کرے۔ ارے واہ! یہ ہوئی نا بات!
فلم کے انتخاب کی ذمہ داری ہم نے کمال سمجھداری سے اپنی منتظم صاحبہ پر ڈال دی کہ ویسے بھی ہمیں فلم سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ہم تو صرف سینما دیکھنے کے متمنی تھے۔
آخر کار وہ وقت آن پہنچا کہ جب ہماری بس کے ٹائر جناح پارک کے سامنے چڑچڑائے.. ہمارے اشتیاق کا عالم قابلِ دید تھا۔. Cine Pax کی عمارت ہمیں بے حد بھائی.. خوبصورت اور کشادہ سی.. ٹکٹس لے کر جب ہم نے اپنے مطلوبہ ہال کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو......
ھائیں! یہ کیا؟ اتنا گھپ اندھیرا.. بھئی مانا کہ ہمیں سینما دیکھنے کا حد درجہ اشتیاق تھا.پر بلا سوچے سمجھے اس اندھیرے سمندر میں غوطہ زن ہو جانا کہاں کی عقلمندی تھی؟ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اس اندھیرے سے کیونکر نبرد آزما ہوں کہ اندر سے گارڈ چاچا نے اپنی ٹارچ سے دروازے پر روشنی پھینکی تو ہم راستہ دیکھنے کے قابل ہو پائے.. ایک لمبی سی تنگ و تاریک سرنگ نما گلی سے گزر کر ہم ہال میں پہنچے جہاں فلم شروع ہو چکی تھی۔. شروع کی چھ سات قطاریں خالی تھیں جو کہ پردے کی روشنی میں ہمیں نظر آ سکیں۔. تیسری قطار منتخب کر کے ہم وہاں براجمان ہو گئے.. زیادہ اوپر جانے کا خطرہ ہم نے مول نہ لیا اور جب فلم کا انٹرول آیا تو اپنے اس فیصلے پر خدا کا شکر ادا کیا کہ مرد حضرات کی کثیر تعداد اوپر والی نشستوں پر ہی تشریف فرما تھی۔
خیر جب ہم نے اپنی نشست سنبھالی تو فلم کی گھن گرج ہماری طبع نازک پہ ہتھوڑے برسانے لگی.. اُف اتنی آواز!! کوئی تو آہستہ کر دو.. اس دن ہمیں پتہ چلا کہ ہماری امی حضور ذرا اونچی آواز میں گانے سننے پر کیوں فرماتی ہیں کہ تم لوگوں نے کیا گھر میں سینما کھول رکھا ہے!! خیر آہستہ آہستہ ہم اس گھن گرج کے عادی ہو گئے اور بڑے پردے پر فلم دیکھنے سے لطف اندوز ہونے لگے۔. فلم کا دورانیہ آیا تو یکایک پردے کی روشنی گُل ہو گئی اور ہال روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔. ہم پاپ کارن اور مشروب لینے باہر چلے گئے.. دس منٹ کے مختصر وقفے کے بعد فلم دوبارہ شروع ہوئی.. پھر تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا.. اوپر والی نشستوں سے ہوٹنگ کی آواز آ رہی تھی۔. ہم نے سوچا کہ اب جب ہم بھی ادھر آئے بیٹھے ہیں تو ہوٹنگ کرنے میں کیا حرج ہے؟ سینما کے تمام آداب بجا لانا ہم پر لازم و ملزوم تھا۔ ہم نے اپنی مترنم آوازوں سے آخری سین پر ہوٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور خوب ہی ہوٹنگ کی..
فلم اپنے اختتام کو پہنچی تو ہم سب خراماں خراماں چلتے ہوئے ٹولی کی صورت میں باہر آگئے..
آخر کار ہماری سینما دیکھنے کی دلی حسرت پوری ہو ہی گئی.. ہم بے انتہا خوش تھے۔
جونہی ہم Cine Pax سے باہر آئے ہماری منتظم صاحبہ کی آواز آئی, لاریب کہاں ہے؟
ہم بولے, "ہم ادھر ہیں مادام"
تو وہ بولیں، "کیسا رہا سینما؟ امید ہے پیسے نہیں ضائع ہوئے ہوں گے؟"
ہم خوب ہنسے اور بولے، "نہیں مادام! پیسوں کے لحاظ سے دیکھا جائی تو ہم نے تو دوہرا لطف اٹھایا"
تو احباب یہ تھی ہماری سینما کہانی, ہماری زبانی..
جتنا لطف ہم نے فلم دیکھ کر اٹھایا, اتنا نہ سہی پر اس سے آدھا تو آپ نے یہ روداد پڑھ کے ضرور اٹھایا ہو گا۔. کیا خیال ہے؟
خدا کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ اسی دن ہماری سکول کی منتظم صاحبہ نے کچھ مخصوص اساتذہ کو طلب فرمایا اور کہا، "کیوں نہ کہ اس دفعہ اختتام ہفتہ ذرا مختلف طریقے سے گزارا جائے!! میرا خیال ہے کہ اسلام آباد چلتے ہیں کوئی اچھی سی فلم دیکھتے ہیں اور کہیں باہر کھانا کھاتے ہیں۔"
پہلے تو ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا, اور جب یقین آیا تو ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا اور ساتھ میں حیرت کا بھی کہ منتظم صاحبہ کو کیسے بھنک پڑ گئی ہمارے اس شوق کی؟؟ ہمیں تو ہماری ساتھی معلمات نے باقاعدہ مبارکباد بھی دی کہ بھئی کیا بات ہے! ادھر آپ نے خواہش کا اظہار کیا اور ادھر پوری بھی ہو چلی..
ابھی ہم ٹھیک سے ہواؤں میں اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ کچھ ساتھی معلمات نے سینما جیسی قابلِ اعتراض جگہ جانے پر پس وپیش کا اظہار کیا تو ہماری منتظم صاحبہ نے سینما جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔. یہ خبر بجلی بن کر ہم پر گِری. اُف یہ ظالم سماج!! ہمارا دل کیا کہ ہم والہانہ رونے بیٹھ جائیں، ہم اتنی بیچاری صورت لے کر اپنی منتظم صاحبہ کے پاس گئے کہ ہمارا اشتیاق دیکھ کر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں اور فرمایا کہ ٹھیک ہے, ہم سینما جائیں گے۔.اور جس نے فلم نہ دیکھنی ہو گی وہ بصد شوق جناح پارک میں چہل قدمی کرے۔ ارے واہ! یہ ہوئی نا بات!
فلم کے انتخاب کی ذمہ داری ہم نے کمال سمجھداری سے اپنی منتظم صاحبہ پر ڈال دی کہ ویسے بھی ہمیں فلم سے کوئی سروکار نہ تھا۔ ہم تو صرف سینما دیکھنے کے متمنی تھے۔
آخر کار وہ وقت آن پہنچا کہ جب ہماری بس کے ٹائر جناح پارک کے سامنے چڑچڑائے.. ہمارے اشتیاق کا عالم قابلِ دید تھا۔. Cine Pax کی عمارت ہمیں بے حد بھائی.. خوبصورت اور کشادہ سی.. ٹکٹس لے کر جب ہم نے اپنے مطلوبہ ہال کا دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تو......
ھائیں! یہ کیا؟ اتنا گھپ اندھیرا.. بھئی مانا کہ ہمیں سینما دیکھنے کا حد درجہ اشتیاق تھا.پر بلا سوچے سمجھے اس اندھیرے سمندر میں غوطہ زن ہو جانا کہاں کی عقلمندی تھی؟ ہم ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اس اندھیرے سے کیونکر نبرد آزما ہوں کہ اندر سے گارڈ چاچا نے اپنی ٹارچ سے دروازے پر روشنی پھینکی تو ہم راستہ دیکھنے کے قابل ہو پائے.. ایک لمبی سی تنگ و تاریک سرنگ نما گلی سے گزر کر ہم ہال میں پہنچے جہاں فلم شروع ہو چکی تھی۔. شروع کی چھ سات قطاریں خالی تھیں جو کہ پردے کی روشنی میں ہمیں نظر آ سکیں۔. تیسری قطار منتخب کر کے ہم وہاں براجمان ہو گئے.. زیادہ اوپر جانے کا خطرہ ہم نے مول نہ لیا اور جب فلم کا انٹرول آیا تو اپنے اس فیصلے پر خدا کا شکر ادا کیا کہ مرد حضرات کی کثیر تعداد اوپر والی نشستوں پر ہی تشریف فرما تھی۔
خیر جب ہم نے اپنی نشست سنبھالی تو فلم کی گھن گرج ہماری طبع نازک پہ ہتھوڑے برسانے لگی.. اُف اتنی آواز!! کوئی تو آہستہ کر دو.. اس دن ہمیں پتہ چلا کہ ہماری امی حضور ذرا اونچی آواز میں گانے سننے پر کیوں فرماتی ہیں کہ تم لوگوں نے کیا گھر میں سینما کھول رکھا ہے!! خیر آہستہ آہستہ ہم اس گھن گرج کے عادی ہو گئے اور بڑے پردے پر فلم دیکھنے سے لطف اندوز ہونے لگے۔. فلم کا دورانیہ آیا تو یکایک پردے کی روشنی گُل ہو گئی اور ہال روشنیوں سے جگمگا اٹھا۔. ہم پاپ کارن اور مشروب لینے باہر چلے گئے.. دس منٹ کے مختصر وقفے کے بعد فلم دوبارہ شروع ہوئی.. پھر تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا.. اوپر والی نشستوں سے ہوٹنگ کی آواز آ رہی تھی۔. ہم نے سوچا کہ اب جب ہم بھی ادھر آئے بیٹھے ہیں تو ہوٹنگ کرنے میں کیا حرج ہے؟ سینما کے تمام آداب بجا لانا ہم پر لازم و ملزوم تھا۔ ہم نے اپنی مترنم آوازوں سے آخری سین پر ہوٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور خوب ہی ہوٹنگ کی..
فلم اپنے اختتام کو پہنچی تو ہم سب خراماں خراماں چلتے ہوئے ٹولی کی صورت میں باہر آگئے..
آخر کار ہماری سینما دیکھنے کی دلی حسرت پوری ہو ہی گئی.. ہم بے انتہا خوش تھے۔
جونہی ہم Cine Pax سے باہر آئے ہماری منتظم صاحبہ کی آواز آئی, لاریب کہاں ہے؟
ہم بولے, "ہم ادھر ہیں مادام"
تو وہ بولیں، "کیسا رہا سینما؟ امید ہے پیسے نہیں ضائع ہوئے ہوں گے؟"
ہم خوب ہنسے اور بولے، "نہیں مادام! پیسوں کے لحاظ سے دیکھا جائی تو ہم نے تو دوہرا لطف اٹھایا"
تو احباب یہ تھی ہماری سینما کہانی, ہماری زبانی..
جتنا لطف ہم نے فلم دیکھ کر اٹھایا, اتنا نہ سہی پر اس سے آدھا تو آپ نے یہ روداد پڑھ کے ضرور اٹھایا ہو گا۔. کیا خیال ہے؟