سینما بینی بھی ایک نشہ ہے۔ اب تو یاد بھی نہیں کہ کب سینما میں جا کر آخری فلم دیکھی تھی۔ شاید 2004 یا 2005 میں۔اس سے پہلے فلم دیکھنے کا جنون تھااور اسی شوق میں ہم اخبار میں فلموں والے اشتہارات کا ورق کسی وجہ سے اگر نہ دیکھ پاتے تو اسے اپنی بدقسمتی تصور کرتے تھے
اور بہت دیر تک کف افسوس بھی ملتے رہتے تھے
کہ ہائے وہ صفحہ۔۔۔وہ رنگ برنگی مورتیں وہ تمام ہیروئنیں۔۔۔جن کا آج ہم دیدار نا کر سکے۔
مجھے یاد ہے 2001 سے 2002 تک ہمیں کچھ عرصہ جہلم شہر میں گزارنا پڑا۔ ریلوے سٹیشن کے قریب ہی رہائش ہوتی تھی اور ہفتے کی شام میں اکیلا یا ایک دو کولیگ شام والی ریل کار پر بیٹھ کر پنڈی چلے جاتے جو رات ساڑھے نو کے لگ بھگ ہمیں سٹیشن اتار دیتی۔ سیروز سینما وہاں سے پانچ سات منٹ کی مسافت پر تھا اور ہم رات آخری شو دیکھ، پھر سے وہی ٹرین جس کی واپسی رات ساڑھے بارہ بجے ہوتی تھی پر سوار ہو کر جہلم نکل جاتے۔۔۔۔ عموما فلم سوا بارہ بجے تک ختم ہوجاتی تھی لیکن اگر نا بھی ختم ہوئی ہوتی تو ہم ٹرین کی روانگی سے 10 منٹ پہلے ہی نکل جاتے اور اکثر وسل بجاتی ٹرین کو جا پکڑتے۔
کچھ عرصے بعد ہم نے گھر میں اپنے پی سی میں نیٹ ڈیوائس لگوائی تو پی ٹی سی ایل کی شاید 20 25 کے بی والی سپیڈ کے ساتھ ایک ٹورنٹ سے پہلی فلم ڈاؤنلوڈ کرنا شروع کی۔ جو 28 دن میں مکمل ہوئی۔ فلم کا نام تھا 'بچہ ھائ آسمان' جو ایک ایرانی مووی تھی اور ابھی تک ہمارے پی سی میں نوادرت کی طرح محفوظ پڑی ہے۔ پھر تو جیسے چوری کا چسکا ہی پڑ گیا اور سوچا کہ فلم بینی جیسے غیر شرعی کام کو کرنے کے لیے سینما جانے کی کیا ضرورت ہے یہ کام ہم گھر بیٹھے بھی کر سکتے۔