شاعری، بعد از مرگ!

فرخ منظور

لائبریرین
جانے کس کا شعر ہے۔ بچپن میں ایک دوسرے کو سنایا کرتے تھے۔
مرنے کے بعد بھی مری آنکھیں کھلی رہیں
عادت جو پڑ گئی تھی ترے انتظار کی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس رنگ سے کل اس نے اٹھائی اسد کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گیے
اسد اللہ خان غالب۔
 
آخری تدوین:

فرخ منظور

لائبریرین
:)
اقتباس شدہ پوسٹ میں اسے ذوق سے منسوب کیا گیا تھا۔ اس لیے یاددہانی کے لیے لکھ دیا۔

آپ جیسے عالمِ بے بدل میری پوسٹ کے مخاطب نہیں تھے۔

اوہو پھر تو معذرت میں نے اصل پوسٹ نہیں دیکھی بلکہ غور نہیں کیا۔
 
کوئی ایک آدھ دن قبل کا قصہ ہے کہ محفل کے کیفیت نامے پر گُلِ یاسمیں نے ایک ایسے شعر کے ساتھ انٹری دی جس نے مجھے اس لڑی کے آغاز پر اکسایا۔ محفل کے کیفیت نامے پر یہ گُل نے یہ شعر پیش کیا، پوچھا نہ زندگی میں کسی نے بھی دل کا درد اب شہر بھر میں چرچا میری خودکشی کا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک شاعر کا قصہ نہیں، اردو شاعری کی بات کی جائے تو قریب قریب ہر دوسرا تیسرا شاعر مرنے کے بعد اسی قسم کی آرزو میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی کہ وہ مر جائے، خود کشی کر لے، قتل ہو جائے تب بھی اسے شعر کہنے کی سہولت میسر رہے یا کم از کم کفن دفن کے مرحلے تک اسے کُلی آزادی میسر رہے کہ وہ شاعری کے ذریعے اپنے تاثرات اور جذبات کا اظہار کر سکے۔ یہ ایسی صورت حال ہے کہ ہمیں شعراء پر رشک محسوس ہوتا ہے وگرنہ ہم تو یہی سمجھتے آئے ہیں کہ آخری سانس لینے کے بعد قصہ تمام ہو جا تا ہے۔ اس لڑی میں ایسے اشعار پیش کیے جائیں کہ جن میں شاعر مرنے کے بعد بھی نچلا نہیں بیٹھ رہا اور مسلسل شعر پر شعر پیش کیے جا رہا ہے۔ یعنی، بعد از مرگ واویلا مچا رکھا ہے۔

میں نے تو مرنے کے بعد بس یہ ایک گانا ہی ریلیز کیا تھا

 
Top