وہ تو آئینہ نما تھا مجھکو
کس لئے اس سے گلہ تھا مجھکو
دے گیا عمر کی تنہائی مجھے
ایک محفل میں ملا تھا مجھکو
تم مجھی چھوڑ سکو پت جھڑ میں
اس لئے پھول کہا تھا مجھے
تم ہو مرکز مری تحریروں کا
تم نے اک خط میں لکھا تھا مجھکو
میں بھی کرتی تھی بہاروں کو تلاش
ایک سودا سا ہوا تھا مجھکو
اب پشیماں ہیں دنیا والے
خود ہی مغلوب کیا تھا مجھے
اب دھڑکتا ہے مگر صورت دل
زخم اک تم نے دیا تھا مجھکو
اب نظروں سے گرا دو تو کیا ۔ ۔ ۔
تم نے آنکھوں پہ رکھا تھا مجھکو ۔