غزل کا ساز اُٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات
نوائے میر سناؤ بڑی اُداس ہے رات
کہیں نہ تم سے تو پھراور کس سے جا کےکہیں
سیاہ زلف کے سایوں بڑی اُداس ہے رات
سنا ہے پہلے بھی ایسے میں بجھ گئے ہیں چراغ
دلوں کی خیر مناؤ بڑی اُداس ہے رات
دیئے رہو یونہی کچھ دیر اور ہاتھ میں ہاتھ
ابھی نہ پاس سے جاؤ بڑی اداس ہے رات