شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارا

محفلین
تم نے گم کر دیا تھا دانستہ
اب بھرے شہر میں مجھے ڈھونڈو

چھَن سے کچھ ٹوٹ جائے سینے میں
اس قدر بھی کسی کو ٹوٹ کر مت چاہو۔۔
 

سارا

محفلین
بجھتے ہوئے دیے کی لو اور بھیگی آنکھ کے بیچ
کوئی تو ہے جو خوابوں کی نگرانی کرتا ہے

یادوں سے‘ خوابوں سے اور اور امیدوں سے ربط
ہو جائے تو جینے میں آسانی کرتا ہے۔۔
 

سارا

محفلین
وہ سب سوال جو میری سمجھ سے باہر ہیں
میں جاگ جاگ کے ان کے جواب سوچتی ہوں

پلٹ کے دیکھتی ہوں جب راہِ وفا کی طرف
تو عمر بھر کے دکھوں کا حساب سوچتی ہوں۔۔
 

ماوراء

محفلین

دِل دُکھتا ہے
آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بَن میں آگ جلے
دِل دُکھتا ہے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
جب شام ڈھلے
دِل دُکھتا ہے
جب رات کا قاتل سناٹا
پُرہول فضا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ کے ساتھ چلے
دِل دُکھتا ہے
جب وقت کا "نابینا جوگی"
کچھ ہنستے بستے چہرے پر
بے دَرد رُتوں کی خاک مَلے
دِل دُکھتا ہے

دِل دُکھتا ہے
جب شہ رگ میں محرومی کا
نشتر ٹوٹے
دِل دُکھتا ہے
جب ہاتھ سے ریشم رِشتوں کا
دامن چھوٹے
دِل دُکھتا ہے
جب تنہائی کے پہلو سے
انجانے درد کی لَے پُوٹے
دِل دُکھتا ہے

دِل دُکھتا ہے
زرداب رُتوں کے سائے میں
جب پھول کِھلیں
دِل دُکھتا ہے
جب زخم دہکنے والے ہوں
اور خوشبو کے پیغام ملیں
اور اپنے دریدہ دامن کے
جب چاک سلیں
دِل دُکھتا ہے

جب آنکھیں خود سے خواب بُنیں
خوابوں میں بسرے چہروں کی
جب بَھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
دِل دُکھتا ہے
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں، جب آنکھ بُجھے
تم یاد آؤ
دِل دُکھتا ہے!!


 

حجاب

محفلین
وہ تو پھر اللہ ہے پوری کرے گا آرزو
پتھروں سے جب دل کی مرادیں پا لیتے ہیں لوگ
زندگی بھر ساتھ دینا تو نہیں کرتے پسند
دم نکل جائے تو پھر کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ
 

ماوراء

محفلین
بہت خوب حجاب۔


منظر یہ عجب شہر سے باہر نظر آئے
سایہ بھی مجھے راہ کا پتّھر نظر آئے

کس قریہ میں اب اپنی خموشی کو چھپاؤں
ہر موڑ پہ ہنگامہء محشر نظر آئے

سوچوں تو مِری دشمنِ جاں وسعتِ آفاق
دیکھوں تو یہ زِنداں بھی مِرا گھر نظر آئے

میں فکر کے مہتاب پہ پہنچا تو زمیں پر
مجھ کو کئی ذرّے مہ و اختر نظر آئے

کچھ لوگ جو منسوب رہے شیشہ گروں سے
آئینے میں وہ خود کو سکندر نظر آئے

میں جاگتی آنکھوں میں جسے ڈھونڈھنا چاہوں
وہ شخص مجھے خواب میں اکثر نظر آئے

محسن مِرے افکار کی وسعت پہ نہ جاؤ
دُشمن بھی مجھے اپنے برابر نظر آئے​
 

ماوراء

محفلین
طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی

اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی

حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی

حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضاپر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی

سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی

وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر
اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی

محسن یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی​
 

تیشہ

محفلین
جس کی خوشبو سے برہم ہیں تیرے شہر کے لوگ
ابھی وہ لفظ میں نے تجھ سے کہا بھی نہیں

تمھیں اس لئے بھی اپنا مقدر نہیں کہا جاناں !
کہ مقدر کا لکھا ہمیں کبھی ملا ہی نہیں ، ۔
 

ماوراء

محفلین
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو،کبھی تو لکھو
ہوائیں کیوں اپنی منزلوں سے بھٹک گئی ہیں
نہ ان کی آنکھوں میں خواب کوئی
نہ خواب میں انتظار کوئی
اب ان کے سارے سفر میں صبح ِ یقین کوئی،
نہ شام ِ صد اعتبار کوئی،
نہ انکی اپنی زمین کوئی،نہ آسماں پر کوئی ستارہ
نہ کوئی موسم ،نہ کوئی خوشبو کا استعارہ
نہ روشنی کی لکیر کوئی،نہ ان کا اپنا سفیر کوئی
جو انکے دکھ پر کتاب لکھے
مُسافرت کا عذاب لکھے
ہوا کو آوارہ کہنے والو
کبھی تو سوچو


نوشی گیلانی

 

قیصرانی

لائبریرین
خون پھر خون ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے

ساحر لدھیانوی​
 

قیصرانی

لائبریرین
خوبصورت موڑ

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوئے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں‌کے سائے ہیں

تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ‌دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

ساحر لدھیانوی​
 

تیشہ

محفلین
سبز مدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک
سرد کمرے میں مچلتی گرم سانسوں کی مہک
بازؤں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن
سلوٹیں ملبوس پر، آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا ،
گرمئ رخسار سے دہکی ہوئی ٹھنڈی ہوا
نرم زلفوں سے ملائم انگلیوں کی چھیڑ چھاڑ
سرخ ہونٹوں پر شرارت کے کسی لمحے کا عکس
ریشمیں باہوں میں چوُڑی کی کبھی مدھم کھنک
شر مگیں لہجوں میں دھیرے سے کبھی چاہت کی بات
دو دلوں کی دھڑکنوں میں گونجی تھی اک صدا
کانپتے ہونٹوں پہ تھی Allah سے صرف اک دعا ۔ ۔
کاش یہ لمحے ٹہر جائیں ٹہر جائیں ‘ذرا ، !
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں؟ کہاں‌ ہیں محافظِ خودی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟


یہ پرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

تعفن سے پُر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح‌کمروں‌میں کھانسی کی ٹھن تھن
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں‌پر
یہ چاروں‌طرف بھیڑ سی کھڑکیوں‌پر
یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں‌پر
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں‌کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں‌کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں ‌کی طرف
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں‌کی جانب
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی، ابا میاں‌ بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں‌ بھی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

ذرا ملک کے رہبروں‌کو بلاؤ
یہ کوچھے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟
 

تیشہ

محفلین
جینے کی اجازت نہیں مرنے نہیں دیتا
ظالم کسی رستے سے گزرنے نہیں دیتا

اُڑتے ہوئے رنگوں سے نہ تصویر بنا لوں
چہرے پہ نگاہوں کو ٹھہرنے نہیں دیتا

اک جبر دلآآویز ہے تنقید بھی اس کی
آئینہ دکھا تا ہے سنورنے نہیں دیتا :chill:
 

ماوراء

محفلین
drabbas نے کہا:
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں؟ کہاں‌ ہیں محافظِ خودی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟


یہ پرپیچ گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

تعفن سے پُر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکھلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح‌کمروں‌میں کھانسی کی ٹھن تھن
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ گونجے ہوئے قہقہے راستوں‌پر
یہ چاروں‌طرف بھیڑ سی کھڑکیوں‌پر
یہ آوازے کھنچتے ہوئے آنچلوں‌پر
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں‌کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہ بھوکی نگاہیں حسینوں‌کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں ‌کی طرف
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں‌کی جانب
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنومند بیٹے بھی، ابا میاں‌ بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں‌ بھی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی
یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

ذرا ملک کے رہبروں‌کو بلاؤ
یہ کوچھے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں‌ہیں؟

بہت خوب۔
 

ماوراء

محفلین
وہ تو یوں تھا کہ ہم
!اپنی اپنی ضرورت کی خاطر ملے
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے اِرادوں کی تکمیل میں
تیرہ و تار خواش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کِھلے
وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے!!
ورنہ یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
سب ضدیں چھوڑ دو!
اور اگر یوں نہ تھا تو یونہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے!
بھول جاؤ مجھے!!!​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top