شاعری اور ہم ۔۔۔۔ ایک ہنستی مسکراتی تحریر۔۔۔!

اسلوب کے حوالے سے صرف ایک اشارہ کافی ہو گا۔ ایسی تحریروں میں اپنے لئے ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرنا مجھے ذاتی طور پر اچھا لگتا ہے۔ آپ نے بھی اگر جمع کا صیغہ اختیار کیا ہے تو اس کو برقرار رکھئے۔ ایک جگہ قوسین میں واحد کا صیغہ میری نظر سے گزرا ہے، جہاں دیوان کا ذکر ہے۔
 
کچھ تو بہت چونکا دینے والے جملے ہیں، جنہیں انشاء پردازی کا اچھا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً

۔ سو سامانِ حرب(کاغذ ،قلم) سے لیس ہو کر قلعۂ شاعری کو تسخیر کرنے کیلیے نکل کھڑے ہوئے ۔۔۔ مگریہ کیا ۔۔۔ غزل یا نظم کہنا تو درکنار ۔۔۔ ہم سے تو ایک آدھ شعر ہی نہ بن پایا ۔۔۔​

اس میں ’’کیلیے‘‘ کو الگ الگ کر دیا جائے اور ’’ہی‘‘ کو ’’بھی‘‘ میں بدل دیا جائے تو کیسا رہے گا؟ اس سے پہلا جملہ (مہم جوئی والا) شاید بہت ضروری نہیں تھا۔ بہر حال ’’جو مزاجِ یار میں آئے‘‘۔
 
زبان و بیان کی صحت کا خیال رکھنا از بس ضروری ہے، چاہے آپ سنجیدہ لکھ رہے ہوں یا مزاحیہ یا یہ انداز جسے میں ’’شگفتہ نگاری‘‘ کا نام دینا چاہوں گا۔ تاہم ایک مزے کی بات! ایسی شگفتہ نگاری میں آپ محاوروں میں قابلِ برداشت رد و بدل کر سکتے ہیں اور ان میں جدت لا سکتے ہیں۔ مگر یہ ضروری ہے کہ قاری کو یہ احتمال نہ ہو کہ آپ سے سہو ہوا ہے۔ ایسا کچھ ادل بدل کرنا ہو تو اسے ’’واوین‘‘ میں لکھ دینا بہتر ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جناب کاشف عمران کے ’’بڑبڑ کنم‘‘ والے سلسلے میں جو ’’خود ساختہ‘‘ الفاظ اور تراکیب آئیں، وہ سب ’’واوین‘‘ میں تھیں۔ ایک گھڑا ہوا مصدر بھی تھا ’’بڑبڑیدن‘‘۔ لیکن آپ کی یہ تحریر آپ کو وہاں تک جانے کی اجازت دیتی دکھائی نہیں دے رہی۔ اسی لئے ’’قابلِ برداشت‘‘ کی شرط لگا دی ہے۔

میرا خیال ہے مزید کچھ نہیں کہہ سکوں گا، ماسوائے کسی وضاحت کے، وہ بھی اگر ناگزیر ہو! بہت آداب۔


جناب الف عین ، جناب محمد وارث ، جناب محمد خلیل الرحمٰن اور دیگر اہلِ نظر سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔
 
استاذ گرامی اگر کوئی کمیاں کوتاہیاں ہوں ۔۔۔ ۔ تو ان کا نشاندہی فرما کا مشکور ہونے کا موقع عنایت کیجئے گا۔۔۔ ۔!

’’مشکور‘‘ اور ’’ممنون‘‘ کے استعمال پر میری گزارشات اور جناب الف عین کے فرمودات ابھی کچھ دن پہلے آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے۔

جنابِ متلاشی ۔
 
اب تو ان کا 'کی بورڈ' پوچھیں بھائی

:)
بہت خوب۔
امجد صاحب! آپ کی اس بات سے ذہن میں آرہا ہے کہ کچھ محاورات اور امثال میں جدت لانی چاہیے۔
جیسے:
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا
اب یوں کہنا چاہیے:
ٹائپنگ نہ جانے کی بورڈ ٹیڑھا۔
میں نے کچھ جمع بھی کیے تھے مگر مسودہ گم ہوگیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
تو گویا کہ یہ دیوان دوم ہے جو آج کل چل رہا ہے!!
دلچسپ تحریر ہے، لگتا ہے کہ تم نثر زیادہ کامیاب لکھ سکتے ہو
 

متلاشی

محفلین
تو گویا کہ یہ دیوان دوم ہے جو آج کل چل رہا ہے!!
دلچسپ تحریر ہے، لگتا ہے کہ تم نثر زیادہ کامیاب لکھ سکتے ہو
نہیں استاذ گرامی ۔۔۔۔ میں نے اوپر کسی مراسلے میں بھی ذکر بھی کیا ہے ۔۔۔! کہ یہ ساری کارستانی میرے تخیل کی ہے ۔۔۔۔ ورنہ حقیقت میں تو میرے ساتھ ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
’’مشکور‘‘ اور ’’ممنون‘‘ کے استعمال پر میری گزارشات اور جناب الف عین کے فرمودات ابھی کچھ دن پہلے آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے۔

جنابِ متلاشی ۔
نہیں استاذ گرامی ۔۔۔ میری بد نصیبی ۔۔۔کہ میری نظر سے یہ نہیں گذرے اس لئے میں ان فرمودات سے استفادہ حاصل نہ کر سکا۔۔ اگر ربط عنایت فرما دیں تو بندہ آپ کا شکر گذار ہو گا۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
مکرمی ومحترمی استاذ گرامی جناب محمد یعقوب آسی ۔۔۔۔صاحب۔۔۔!
آپ نے اپنے قیمتی وقت سے میں سے مجھے کچھ ساعتیں عنایت کیں۔۔۔۔ اورمیری اس کاوش پر کھلے دل سے اظہارِ خیال فرمایا۔۔۔۔ اس پر میں آپ کا شکر گذار ہوں۔۔۔۔!اور امید قوی ہے کہ آپ آئندہ بھی اسی طرحِ نظرِ کرم فرماتے رہیں گے۔۔۔!
 
اگر ربط عنایت فرما دیں تو بندہ آپ کا شکر گذار ہو گا۔۔۔ !​

لنک یاد نہیں، الف عین صاحب سے تعاون کی درخواست ہے۔

عرض کرتا چلوں ۔۔۔
مشکور وہ ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے (اسمِ مفعول)، اور شاکر ہے شکریہ ادا کرنے والا (اسمِ فاعل) ۔ شکر کا ایک ترجمہ کسی شے کی قدر کرنا بھی ہے، اور وہ شے دینے والے کے احسان کو ماننا بھی ہے۔
ممنون وہ ہے جس پر احسان کیا جائے (اسمِ مفعول)، منان وہ ہے جو احسان کرے (اسمِ فاعل: صفتِ مبالغہ بے انتہا احسان کرنے والا)۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
جناب محمد یعقوب آسی صاحب نے دعوتِ مبارزت دی ہے تو کچھ کہنا لازم ٹھہرا۔ پہلی بات تو یہی کہ نہایت اچھی کوشش ہے۔ متلاشی صاحب اسی ڈگر پر چلتے رہے تو ضرور ایک اچھے لکھاری بن کر ابھریں گے۔ بطورِ سینیئر ہمارا کام تعریف سے زیادہ اصلاح کا ہے۔ اکثر خامیوں کی نشاندہی تو آسی صاحب خود ہی کر چکے۔ میری گزارشات درج ذیل ہیں:

  • "۔۔۔" کا استعمال ترک کیا جائے۔
  • ہر دوسرا فقرہ "تو" اور "سو" سے شروع ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ کسی بھی لفظ کا ایک خاص حد سے زیادہ استعمال، چند مخصوص حالات کو چھوڑ کر، خرابی کا سبب بنتا ہے۔ کوشش کی جائے کہ "تو" اور "سو" کی بجائے جملوں کو اس طرح لکھا جائے کہ ان کے باہمی ربط کے لیے ان الفاظ پر انحصار کم ہو سکے۔
  • یعقوب آسی صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے، میں عام طور پر لفظ 'ہم' کو "میں" کا نعم البدل نہیں سمجھتا۔ پرانے زمانے میں تو لفظ "میں" سے احتراز اس لیے کیا جاتا تھا کہ خود نمائی نہ لگے۔ اب اس نئے دور میں ایسی کوئی خدشہ نظر میں نہیں آتا۔ لہٰذا "میں" کی جگہ ہم کا استعمال میرے خیال میں مستقبل کے قاری کو اچھا نہ لگے گا۔ اگر "میں" کی جگہ "ہم" کہنے لگے تو "ہم" کی جگہ کیا کہیں گے؟ پھر یہ بھی دھیان میں رہے کہ مستقبل کے لکھاری انگریزی زبان کے بے بہا نثری خزانے سے بہت کچھ سیکھیں گے اور اس کے تناظر میں انہیں شاید "ہم" کا استعمال عجیب ہی لگے۔
 
جناب​
محمد یعقوب آسی​
صاحب نے دعوتِ مبارزت دی ہے تو کچھ کہنا لازم ٹھہرا۔​

نہ تو یہ مبارزت ہے اور نہ دعوتِ مبارزت، جنابِ کاشف عمران صاحب۔ یہ تو اِس فقیر کی گزارشات ہیں، اور بس!

آپ کے دونوں پہلے نکات سے سو فی صد اتفاق!
میں اور ہم ۔ میں نے تو اپنی ’’ذاتی‘‘ پسند کا ذکر کیا ہے۔ لفظ ’’ذاتی‘‘ لایا ہی اپنے دفاع کے لئے ہوں، کہ مجھے ایسا اچھا لگتا ہے، آپ کی رائے کا احترام لازم ہے، اس سے متفق ہونا لازم نہیں۔
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نہ تو یہ مبارزت ہے اور نہ دعوتِ مبارزت، جنابِ کاشف عمران صاحب۔ یہ تو اِس فقیر کی گزارشات ہیں، اور بس!

آپ کے دونوں پہلے نکات سے سو فی صد اتفاق!
میں اور ہم ۔ میں نے تو اپنی ’’ذاتی‘‘ پسند کا ذکر کیا ہے۔ لفظ ’’ذاتی‘‘ لایا ہی اپنے دفاع کے لئے ہوں، کہ مجھے ایسا اچھا لگتا ہے، آپ کی رائے کا احترام لازم ہے، اس سے متفق ہونا لازم نہیں۔

اپنے ذہن میں، مبارزت میں، میں نے خود کو اور آپ کو ایک طرف اور دولہا میاں کو دوسری طرف سمجھا تھا! فصاحت پر اختصار کو ترجیح دی۔ یہ جرم میرا ہے۔ لطیفے کا لطیفہ بن گیا!

میں اور ہم سے متعلق میری رائے بھی مستقبل کے قاری کے بارے میں میری پیش گوئی پر مبنی ہے۔ اندازے کا کھیل ہے۔ فی زمانہ تو مشتاق یوسفی سا صاحب طرز بھی "ہم" بمعنیٰ "میں" کا استعمال کُھل کے کرتا ہے! سو یہاں بھی رائے حتمی ہرگز نہیں۔ میں خود البتہ "جدیدیت" کے تناظر میں خود کو "میں" ہی لکھتا ہوں اور "ہم" سے احتراز کرتا ہوں۔
 
۔ ۔ ۔ ذرا غور کریں۔ (نیم مصرع)

میں عام طور پر لفظ 'ہم' کو "میں" کا نعم البدل نہیں سمجھتا۔ پرانے زمانے میں تو لفظ "میں" سے احتراز اس لیے کیا جاتا تھا کہ خود نمائی نہ لگے۔ اب اس نئے دور میں ایسی کوئی خدشہ نظر میں نہیں آتا۔ لہٰذا "میں" کی جگہ ہم کا استعمال میرے خیال میں​
مستقبل کے قاری​
کو اچھا نہ لگے گا۔ اگر "میں" کی جگہ "ہم" کہنے لگے تو "ہم" کی جگہ کیا کہیں گے؟ پھر یہ بھی دھیان میں رہے کہ مستقبل کے لکھاری انگریزی زبان کے بے بہا نثری خزانے سے بہت کچھ سیکھیں گے اور اس کے تناظر میں انہیں شاید "ہم" کا استعمال عجیب ہی لگے۔​

میں اور ہم سے متعلق میری رائے بھی مستقبل کے قاری کے بارے میں میری پیش گوئی پر مبنی ہے۔ اندازے کا کھیل ہے۔ فی زمانہ تو مشتاق یوسفی سا صاحب طرز بھی "ہم" بمعنیٰ "میں" کا استعمال کُھل کے کرتا ہے! سو یہاں بھی رائے حتمی ہرگز نہیں۔ میں خود البتہ "جدیدیت" کے تناظر میں خود کو "میں" ہی لکھتا ہوں اور "ہم" سے احتراز کرتا ہوں۔

ہم اگر عرض کریں گے تو ۔ ۔ ۔ (نیم مصرع)

تو کیا!!؟ تو ۔ کچھ تو بھی نہیں!!
 

شوکت پرویز

محفلین
جناب متلاشی صاحب!
بہت عمدہ تحریر ہے، اور جیسا کہ اساتذہ بھی فرما چکے ہیں کہ اس طرح صاف ستھرا، اپنی ذات سے متعلق مزاح لکھنا ذرا مشکل کام ہے، آپ نے یقینا بہت مشکل تر کام کر دکھایا ہے۔
ایک ہم (یا میں) ہیں کہ ہم سے تعریف کے جملے بھی صحیح نہیں بن پاتے۔۔ صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ:
ًمیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا
کیونکہ کچھ اسی طرح کے خدشات ہمیں بھی ہیں، کہ شاید یہی سب ہمارے (اور ہمارے "دیوان" کے) ساتھ بھی ہو۔
یہ اور بات ہے کہ ہم وہ "روداد" اتنی شائستگی سے بیان نہیں کر پائیں۔

استاد محمد یعقوب آسی صاحب کا بھی بہت بہت شکریہ، اتنے باریک نقاط اتنی آسان زبان میں سمجھانے کے لئے۔

اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے، آمین۔
 
Top