الف عین
لائبریرین
کبھی زمین کبھی آسماں کی زد میں ہے
یہ زندگی تو عجب امتحاں کی زد میں ہے
حصارِ وقت سے باہر نکل کے جائیں کہاں
نفس نفس یہاں قیدِ زماں کی زد میں ہے
ملے تو کیسے کسی کو سراغ منزل کا
یہ قافلہ سفرِ بے نشاں کی زد میں ہے
چلی ہے قریۂجاں میں یہ کس نگر کی ہوا
یقیں کا سارا اثاثہ زیاں کی زد میں ہے
کسی مقام پہ ملتی نہیں رہائی اسے
اسیر جاں غم گم گشتگاں کی زد میں ہے
امیر لشکریاں کو خبر نہیں شاید
کہ ہر بدن یہاں نوکِ سناں کی زد میں ہے
ہر ایک راہ یہاں قتل گاہ لگتی ہے
تمام شہر غنیمِ اماں کی زد میں ہے
سروں کی فصل کٹی تو یہ انکشاف ہوا
یہ کشت جاں بھی کسی مہرباں کی زد میں ہے
شکست آئنۂ دل سے یہ کھلا آخر
کہ ہر مکین شکستہ مکاں کی زد میں ہے
دیار گل سے کوئی بھی خبر نہیں آئی
سفیر گل کسی بار گراں کی زد میں ہے
فلک کی آنکھ سراپا سوال ہے خالد
ہجوم کم نگہاں امتحاں کی زد میں ہے
یہ زندگی تو عجب امتحاں کی زد میں ہے
حصارِ وقت سے باہر نکل کے جائیں کہاں
نفس نفس یہاں قیدِ زماں کی زد میں ہے
ملے تو کیسے کسی کو سراغ منزل کا
یہ قافلہ سفرِ بے نشاں کی زد میں ہے
چلی ہے قریۂجاں میں یہ کس نگر کی ہوا
یقیں کا سارا اثاثہ زیاں کی زد میں ہے
کسی مقام پہ ملتی نہیں رہائی اسے
اسیر جاں غم گم گشتگاں کی زد میں ہے
امیر لشکریاں کو خبر نہیں شاید
کہ ہر بدن یہاں نوکِ سناں کی زد میں ہے
ہر ایک راہ یہاں قتل گاہ لگتی ہے
تمام شہر غنیمِ اماں کی زد میں ہے
سروں کی فصل کٹی تو یہ انکشاف ہوا
یہ کشت جاں بھی کسی مہرباں کی زد میں ہے
شکست آئنۂ دل سے یہ کھلا آخر
کہ ہر مکین شکستہ مکاں کی زد میں ہے
دیار گل سے کوئی بھی خبر نہیں آئی
سفیر گل کسی بار گراں کی زد میں ہے
فلک کی آنکھ سراپا سوال ہے خالد
ہجوم کم نگہاں امتحاں کی زد میں ہے