شام میں حضرت اویس قرنیؓ کے مزار اور مسجد کو دھماکے سے نقصان

صرف علی

محفلین
شام میں حضرت اویس قرنیؓ کے مزار اور مسجد کو دھماکے سے نقصان
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif


بیروت (آن لائن) القاعدہ نواز شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) نے شامی شہر الرقہ میں حضرت اویس قرنیؓ کا مزار اور اس سے ملحقہ مسجد عمار بن یاسر کے قریب دھماکے کئے جس سے دونوں مقامات کو نقصان پہنچا۔ دریں اثناء شام میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ادارے شام آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا ہے کہ القاعدہ کی منحرف تنظیم داعش نے مسجد عمار بن یاسر اور حضرت اویس قرنیؓ کے مزار کو اڑانے کے لیے دو الگ الگ بم دھماکے کئے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=184928
 

صرف علی

محفلین
اسلام کے لئے سعودی عرب کی برکات وہابی فرقے نے جیسے جنت البقی میں اصحاب اکرام اور امہات المومنین (رض) کے مزارات تباہ کرکے کے اپنی خباست کا اظہار کیا ویسے ہی شام میں آل سعود کے ٹٹو یہ کام کر رہے ہیں
 

حسینی

محفلین
حب صحابہ اور صحابہ کے غلام ہونے کے دعوے دار کیوں چپ ہیں؟؟
کیا یہ صحابہ کی توہین نہیں ہے؟؟
کیوں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی؟ کیوں مظاہرے نہیں کیے جاتے؟
لگتا ہے ان لوگوں نے صحابہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں کہ یہ فلاں مسلک کے صحابہ ہیں اور وہ فلاں مسلک کے۔ انتہائی افسوسناک بات ہے۔
ان دہشت گردوں کی مدد کرنے والے تمام ممالک جن میں بعض نام نہاد اسلامی ممالک بھی شامل ہیں ان دھماکوں میں برابر کے شریک ہیں۔
 

صرف علی

محفلین
ویسے یہ سارے کہاں چلے گئے جو لکھتے تھے میں نوکر صحابہ دا کیا ان کی نظر میں یہ صحابی نہیں ہیں ؟؟؟
 

arifkarim

معطل
یہ وہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!
ایک اسرائیلی خبروں کی ویبسائیٹ جے پوسٹ پر دواسرائیلی بیروت میں بم بلاسٹ کے بعد آپس میں یہ تبصرہ کرتے پائے گئے:

پہلا: دس سال قبل میں نے مسلمانوں سےمتاثر ہونا چھوڑدیا!
دوسرا: کیوں، دس سال قبل ایسا کیا ہوا تھا؟اسوقت بھی تومسلمان ایک دوسرے کی گردنیں ہی تو کاٹ رہے تھے!
پہلا: بے شک۔ لیکن دس سال قبل انہوں نے پہلی بار ایک دوسرے کی مساجد، مزارات اور دیگر مقدس مقامات پر دانستہ حملے کئے تھے!
 

arifkarim

معطل
حب صحابہ اور صحابہ کے غلام ہونے کے دعوے دار کیوں چپ ہیں؟؟
کیا یہ صحابہ کی توہین نہیں ہے؟؟
کیوں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی؟ کیوں مظاہرے نہیں کیے جاتے؟
لگتا ہے ان لوگوں نے صحابہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں کہ یہ فلاں مسلک کے صحابہ ہیں اور وہ فلاں مسلک کے۔ انتہائی افسوسناک بات ہے۔
ان دہشت گردوں کی مدد کرنے والے تمام ممالک جن میں بعض نام نہاد اسلامی ممالک بھی شامل ہیں ان دھماکوں میں برابر کے شریک ہیں۔

ابھی کچھ دیر اور انتظار کریں اور دیکھیں کیسے ان اسلامی تکفیری دھماکوں کا الزام یہود و نصاریٰ پر مسلط کیا جاتا ہے۔ مسلمان تو معصوم ہیں۔ :)
 

حسینی

محفلین
ابھی کچھ دیر اور انتظار کریں اور دیکھیں کیسے ان اسلامی تکفیری دھماکوں کا الزام یہود و نصاریٰ پر مسلط کیا جاتا ہے۔ مسلمان تو معصوم ہیں۔ :)

جڑیں تو یہود ونصاری میں ہی ہیں۔۔۔ لیکن افسوس استعمال ہونے والے مسلمان ہی ہیں۔۔۔ افسوس مسلمان ہی مسلمان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہا ہے۔
 

arifkarim

معطل
جڑیں تو یہود ونصاری میں ہی ہیں۔۔۔ لیکن افسوس استعمال ہونے والے مسلمان ہی ہیں۔۔۔ افسوس مسلمان ہی مسلمان کی پیٹھ میں خنجر گھونپ رہا ہے۔

حضرت، جب یہود و نصاریٰ اس خطے میں نہیں بھی تھے تب بھی ہمارے مسلمان اباؤاجداد کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ میں آپسے اسلامی تاریخ نہیں، مسلمانوں کی تاریخ پڑھنے کا کہہ رہا ہوں۔ اسلامی تاریخ کا مسلمانوں کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بالکل دو الگ الگ نصاب ہیں۔
مسلمانوں کے مابین پہلی خانہ جنگی فتنہ اول اور فتنہ دوم کے دوران برپا ہوئی جسکے نتیجہ میں امت مسلمہ آج تک سنی، شیعہ جیسے فرقوں، مسلکوں وغیرہ میں بٹی ہوئی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/First_Fitna
http://en.wikipedia.org/wiki/Second_Fitna
 

گرائیں

محفلین
حب صحابہ اور صحابہ کے غلام ہونے کے دعوے دار کیوں چپ ہیں؟؟
کیا یہ صحابہ کی توہین نہیں ہے؟؟
کیوں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی؟ کیوں مظاہرے نہیں کیے جاتے؟
لگتا ہے ان لوگوں نے صحابہ کو تقسیم کیے ہوئے ہیں کہ یہ فلاں مسلک کے صحابہ ہیں اور وہ فلاں مسلک کے۔ انتہائی افسوسناک بات ہے۔
ان دہشت گردوں کی مدد کرنے والے تمام ممالک جن میں بعض نام نہاد اسلامی ممالک بھی شامل ہیں ان دھماکوں میں برابر کے شریک ہیں۔

صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو تقسیم کرنے والوں کے بارے میں آپ سے بہتر کون رائے زنی کر سکتا ہے حسینی بھائی۔
کہاں عمار، ابوذر اور مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
اور کہاں ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابو ہریرہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ) اور دوسرے کُبار صحابہ۔

ان دو گروہوں کو بنانے والا کون ہے؟ یہ بھی بتا دیجئے حسینی بھائی۔
اپنے گریبان میں جھانکنا مفید بات ہوتی ہے۔


نام نہاد اسلامی ممالک والی بات سے یاد آیا ۔۔ چلیں چھوڑیں ورنہ ابھی پھر کسی نے آ کر محفل انتظامیہ سے شکایتیں کرنا شروع کر دینی ہیں۔
 

حسینی

محفلین
صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو تقسیم کرنے والوں کے بارے میں آپ سے بہتر کون رائے زنی کر سکتا ہے حسینی بھائی۔
کہاں عمار، ابوذر اور مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
اور کہاں ابوبکر ، عمر ، عثمان، ابو ہریرہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ) اور دوسرے کُبار صحابہ۔
ان دو گروہوں کو بنانے والا کون ہے؟ یہ بھی بتا دیجئے حسینی بھائی۔
اپنے گریبان میں جھانکنا مفید بات ہوتی ہے۔
نام نہاد اسلامی ممالک والی بات سے یاد آیا ۔۔ چلیں چھوڑیں ورنہ ابھی پھر کسی نے آ کر محفل انتظامیہ سے شکایتیں کرنا شروع کر دینی ہیں۔
یہی تو میں آپ کو دعوت فکر دے رہا ہوں۔
الصحابۃ کلہم عدول بایھم اقتدیتم اھتدیتم کا نعرہ آپ لوگ لگاتے ہیں۔۔۔ ابھی آپ نے اوپر "علیہم اجمعین" کہا ہے۔
لیکن جب عملی مظاہرے پر آتے ہیں تو کردار میں فرق نظر آتا ہے۔۔۔ آج جب ان اصحاب رسول کی توہین وہ بھی مسلمان دہشت گردوں کے ہاتھوں ہو رہی ہے تو کوئی مذمت کرنے والا بھی نہیں۔
کوئی مظاہرے اور جلسے جلوس کرنے والا نہیں۔۔ ورنہ تو ویسے دسیوں مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں۔
اسی سے ظاہر ہوتا ہے سارے اصحاب سے محبت کا دعوی کھوکھلا ہے۔۔۔ کچھ اصحاب ہیں جن کو آپ لوگ کچھ نہیں سمجھتے۔
جبکہ ہمارا ایسا دعوی ہے ہی نہیں۔۔۔ ہم شروع سے ان میں تفریق کے قائل ہیں۔۔ نہ سب کا مقام ومرتبہ اک جیسا ہے، نہ سب کا کردار وعمل ۔
خدا نخواستہ یہی کام اک شیعہ گروہ کرتا تو اس وقت آپ کا نظریہ کیا ہوتا؟؟
 

حسینی

محفلین
حضرت، جب یہود و نصاریٰ اس خطے میں نہیں بھی تھے تب بھی ہمارے مسلمان اباؤاجداد کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ میں آپسے اسلامی تاریخ نہیں، مسلمانوں کی تاریخ پڑھنے کا کہہ رہا ہوں۔ اسلامی تاریخ کا مسلمانوں کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بالکل دو الگ الگ نصاب ہیں۔
مسلمانوں کے مابین پہلی خانہ جنگی فتنہ اول اور فتنہ دوم کے دوران برپا ہوئی جسکے نتیجہ میں امت مسلمہ آج تک سنی، شیعہ جیسے فرقوں، مسلکوں وغیرہ میں بٹی ہوئی ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/First_Fitna
http://en.wikipedia.org/wiki/Second_Fitna
محترم۔۔۔ تاریخ جس طرح سے ہے وہ الگ باب۔
لیکن موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھیں تو ان دہشت گردوں کی پشت پناہی بالواسطہ جا کر یہود ونصاری تک ہی جاتی ہے۔
وہ نام نہاد اسلامی ممالک جو دہشت گردی کو سپورٹ کرتے ہیں ان کی ڈوریں بھی بالآخر انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔
یقینا یہ مسلمانوں کی بے وقوفی ہے کہ وہ ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔
شام کی صورت حال اس کی واضح مثال ہے۔
 
اصحاب فیل کا واقعہ
امام حدیث وتاریخ ابن کثیر نے اس طرح نقل فرمایا ہے کہ یمن پر ملوک حمیر کا قبضہ تھا یہ لوگ مشرک تھے ان کا آخری بادشاہ ذونواس ہے جس نے اس زمانے کے اہل حق یعنی نصاریٰ پر شدید مظالم کیے، اسی نے ایک طویل عریض خندق کھدوا کر اس کو آگ سے بھرا اور جتنے نصرانی بت پرستی کے خلاف ایک اللہ کی عبادت کرنیوالے تھے سب کو اس آگ کی خندق میں ڈال کر جلادیا جن کی تعداد بیس ہزار کے قریب تھی۔ یہی وہ خندق کا واقعہ ہے جس کا ذکر اصحاب الاخدود کے نام سے سورہ بروج میں گزرا ہے۔ ان میں دو آدمی کسی طرح گرفت سے نکل بھاگے اور انھوں نے قیصر ملک شام سے جاکر فریاد کی کہ ذونو اس ملک حمیر نے نصاریٰ پر ایسا ظلم کیا ہے آپ ان کا انتقام لیں قیصر ملک شام نے بادشاہ حبشہ کو خط لکھا یہ بھی نصرانی تھا اوریمن سے قریب تھا کہ آپ اس ظالم سے ظلم کا انتقام لو، اس نے اپنا عظیم لشکر دو کمانڈر (امیر) ارباط اور ابرہہ کی قیادت میں یمن کے اس بادشاہ کے مقابلے پر بھیج دیا، لشکر اس کے ملک پر ٹوٹ پڑا اور پورے یمن کو قوم حمیر کے قبضہ سے آزاد کرایا۔ ملک حمیر ذوالنواس بھاگ نکلا اور دریا میں غرق ہوکرمرگیا اس طرح ارباط و ابرہہ کے ذریعہ یمن پر بادشاہ حبشہ کا قبضہ ہوگیا، پھر ارباط اور ابرہہ میں باہمی جنگ ہوکرارباط مقتول ہو گیا ابرہہ غالب آگیا اور یہی بادشاہ حبشہ نجاشی کی طرف سے ملک یمن کا حاکم (گورنر) مقرر ہوگیا، اس نے یمن پر قبضہ کرنے کے بعد ارادہ کیا کہ یمن میں ایسا شاندار کنیسہ بنائے جس کی نظیر دنیا میں نہ ہو۔ اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ یمن کے عرب لوگ جوحج کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں یہ لوگ اس کنیسہ کی عظمت و شوکت سے مرعوب ہوکر کعبہ کے بجائے کنیسہ میں جانے لگیں، اسی خیال پر اس نے بہت بڑا عالیشان کنیسہ اتنا اونچا تعمیر کیا کہ اس کی بلندی پر نیچے کھڑا ہوا آدمی نظر نہیں ڈال سکتا تھا اور اس کو سونے چاندی اور جواہرات سے مرصع کیا اور پوری مملکت میں اعلان کرا دیا کہ اب یمن سے کوئی کعبہ کے حج کے لیے نہ جائے اس کنیسہ میں عبادت کرے۔ عرب میں اگرچہ بت پرستی غالب آگئی تھی مگر دین ابراہیم اور کعبہ کی عظمت و محبت ان کے دلوں میں پیوست تھی اس لیے عدنان اور قحطان اور قریش کے قبائل میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے رات کے وقت کنیسہ میں داخل ہوکر اس کو گندگی سے آلودہ کردیا اور بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے مسافر قبیلہ کنیسہ کے قریب اپنی ضروریات کے لیے آگ جلائی اس کی آگ کنیسہ میں لگ گئی اور اس کو سخت نقصان پہنچ گیا۔
ابرہہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی اور بتلایا گیا کہ کسی قریش نے یہ کام کیا ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں ان کے کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رہونگا، ابرہہ نے اس کی تیاری شروع کی اور اپنے بادشاہ نجاشی سے اجازت مانگی اسنے اپنا خاص ہاتھی کہ جس کانام محمود تھا ابرہہ کے لیے بھیج دیا کہ وہ اس پر سوار ہوکر کعبہ پر حملہ کرے بعض روایات میں ہے کہ یہ سب سے بڑا عظیم الشان ہاتھی تھا جس کی نظیر نہیں پائی جاتی تھی اور اس کے ساتھ آٹھ ہاتھی دوسرے بھی اس لشکر کے لیے بادشاہ حبشہ نے بھیجدیئے تھے۔ ہاتھیوں کی یہ تعداد بھیجنے کا منشاء یہ تھا کہ بیت اللہ کعبہ کے ڈھانے میں ہاتھیوں سے کام لیا جائے۔ تجویز یہ تھی کہ بیت اللہ کے ستونوں میں لوہے کی مضبوط اور طویل زنجیریں باندھ کر ان زنجیروں کو ہاتھیوں کے گلے میں باندھیں اور انکو ہنکادیں تو سارا بیت اللہ ( معاذاللہ) فوراً ہی زمین پر آگرے گا۔
عرب میں جب اس کے حملے کی خبر پھیلی تو سارا عرب مقابلہ کے لیے تیار ہوگیا۔ یمن کے عربوں میں ایک شخص ذونفرنامی تھا اس نے عربوں کی قیادت اختیار کی اور عرب لوگ اس کے گرد جمع ہوکر مقابلہ کے لیے تیار ہوگئے اور ابرہہ کے خلاف جنگ کی مگر اللہ کو تو یہ منظور تھا کہ ابرہہ کی شکست اور اس کی رسوائی نمایاں ہوکر دنیا کے سامنے آئے اس لیے یہ عرب مقابلے میں کامیاب نہ ہوئے، ابرہہ نے ان کوشکست دیدی اور ذونفر کو قید کرلیا اور آگے روانہ ہوگیا اس کے بعد جب وہ قبیلہ خثعم کے مقام پر پہنچا تو اس قبیلہ کے سردار نفیل بن حبیب نے پورے قبیلہ کے ساتھ ابرہہ کا مقابلہ کیا مگر ابرہہ کے لشکر نے ان کو بھی شکست دیدی اور نفیل بن حبیب کو بھی قید کرلیا اور ارادہ ان کے قتل کا کیا مگر پھر یہ سمجھ کران کو زندہ رکھا کہ ان سے ہم راستوں کا پتہ معلوم کرلیں گے، اس کے بعدجب یہ لشکر طائف کے قریب پہنچا تو طائف کے باشندے قبیلہ ثقیف پچھلے قبائل کی جنگ اور ابرہہ کی فتح کے واقعات سن چکے تھے انھوں نے اپنی خیر منانے کا فیصلہ کیا اور یہ کہ طائف میں جو ہم نے ایک عظیم الشان بت خانہ لات کے نام سے بنا رکھا ہے یہ اس کو نہ چھیڑے تو ہم اس کا مقابلہ نہ کریں، انھوں نے ابرہہ سے مل کر یہ بھی طے کرلیا کہ ہم تمھاری امداد اور رہنمائی کے لیے اپنا ایک سردار ابورغال تمھارے ساتھ بھیج دیتے ہیں ابرہہ اس پر راضی ہوکر ابورغال کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ کے قریب ایک مقام مغمس پر پہنچ گیا جہاں قریش مکہ کے اونٹ چر رہے تھے، ابرہہ کے لشکر نےسب سے پہلے ان پر حملہ کرکے اونٹ گرفتار کرلیے جن میں دو سو اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد عبدالمطلب رئیس قریش کے بھی تھے ابرہہ نے یہاں پہنچ کر اپنا ایک سفیر حناطہ حمیری کو شہر مکہ میں بھیجا کہ وہ قریش کے سرداروں کے پاس جاکراطلاع کردے کہ ہم تم سے جنگ کے لیے نہیں آئے، ہمارا مقصد کعبہ کو ڈھانا ہے اگر تم نے اس میں رکاوٹ نہ ڈالی تو تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ حناطہ جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو سب نے اس کو عبدالمطلب کا پتہ دیا کہ وہ سب سے بڑے سردار قریش کے ہیں حناطہ نے عبدالمطلب سے گفتگو کی اور ابرہہ کا پیغام پہنچا دیا۔ ابن اسحٰق کی روایت کے مطابق عبدالمطلب نے یہ جواب دیا کہ ہم بھی ابرہہ سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، نہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکیں۔ البتہ میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ یہ اللہ کا گھر اور اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کا بنایا ہوا ہے وہ خود اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اللہ سے جنگ کا ارادہ تو جو چاہے کرے پھر دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ حناطہ نے عبدالمطلب سے کہا کہ تو پھر آپ میرے ساتھ چلیں میں آپ کو ابرہہ سے ملاتا ہوں۔ ابرہہ نے جب عبدالمطلب کو دیکھا کہ بڑے وجیہ آدمی ہیں تو ان کو دیکھ کر اپنے تخت سے نیچے اترکر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو اپنے برابر بٹھایا اور اپنے ترجمان سے کہا کہ عبدالمطلب سے پوچھے کہ وہ کس غرض سے آئے ہیں، عبدالمطلب نے کہا کہ میری ضرورت تو اتنی ہے کہ میرے اونٹ جو آپ کے لشکر نے گرفتار کر لیے ہیں ان کو چھوڑ دیں۔ ابرہہ نے ترجمان کے ذریعہ عبدالمطلب سے کہا کہ جب میں نے آپ کو اول دیکھا تو میرے دل میں آپ کی بڑی وقعت و عزت ہوئی مگر آپ کی گفتگو نے اس کو بالکل ختم کردیا کہ آپ مجھ سے صرف اپنے دو سو اونٹوں کی بات کر رہے ہیں اور یہ معلوم ہے کہ میں آپ کا کعبہ جو آپ کا دین ہے اس کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں اس کے متعلق آپ نے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عبدالمطلب نے جواب دیا کہ اونٹوں کا مالک تو میں ہوں مجھے ان کی فکر ہوئی اور بیت اللہ کا میں مالک نہیں بلکہ اس کا مالک ایک عظیم ہستی ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرنا جانتا ہے۔ ابرہہ نے کہا کہ تمھارا خدا اس کو میرے ہاتھ سے نہ بچاسکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا کہ پھر تمھیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ اور بعض روایات میں ہے کہ عبدالمطلب کے ساتھ اور بھی قریش کے چند سردار گئے تھے اور انھوں نے ابرہہ کے سامنے یہ پیش کش کی کہ اگر آپ بیت اللہ پردست اندازی نہ کریں اور لوٹ جائیں تو ہم پورے تہامہ کی ایک تہائی پیداوار آپ کو بطور خراج ادا کرتے رہیں گے مگر ابرہہ نے اس کے ماننے سے انکار کردیا۔ عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ نے واپس کردیئے وہ اپنے اونٹ لے کر واپس آئے تو بیت اللہ کے دروازے کا حلقہ پکڑ کر دعاء میں مشغول ہوئے اور قریش کی ایک بڑی جماعت ساتھ تھی سب نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ ابرہہ کے عظیم لشکر کا مقابلہ ہمارے تو بس میں نہیں، آپ ہی اپنے بیت کی حفاظت کا انتظام فرمادیں، الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرنے کے بعد عبدالمطلب مکہ مکرمہ کے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر مختلف پہاڑوں پر پھیل گئے ان کو یہ یقین تھا کہ اس لشکر پر اللہ کا عذاب آئے گا، اسی یقین کی بنا پر انھوں نے ابرہہ سے خود اپنے اونٹوں کا مطالبہ کیا، بیت اللہ کے متعلق گفتگو کرنا اس لیے پسند نہ کیا کہ خود تو اس کے مقابلے کی طاقت نہ تھی اور دوسری طرف یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بے بسی پر رحم فرما کر دشمن کی قوت اور اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ صبح ہوئی تو ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تیاری کی اور اپنے ہاتھی محمود نامی کو آگے چلنے کے لیےتیار کیا۔ نفیل بن حبیب جن کو راستہ سے ابرہہ نے گرفتار کیا اس وقت وہ آگے بڑھے اور ہاتھی کا کان پکڑ کر کہنے لگے تو جہاں سے آیا ہے وہیں صحیح سالم لوٹ جا، کیونکہ اللہ کے بلد امین ( محفوظ شہر) میں ہے یہ کہہ کر اس کا کان چھوڑ دیا، ہاتھی یہ سنتے ہی بیٹھ گیا، ہاتھی بانوں نے اس کو اٹھانا چلانا چاہا لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا، اس کو بڑے بڑے آہنی تبروں سے مارا گیا، اس کی بھی پرواہ نہ کی، اس کی ناک میں آنکڑا لوہے کا ڈالدیا پھر بھی وہ کھڑا نہ ہوا، اس وقت ان لوگوں نے اس کو یمن کی طرف لوٹانا چاہا تو فوراً کھڑا ہوگیا پھر شام کی طرف چلانا چاہا تو چلنے لگا پھر مشرق کی طرف چلایا تو چلنے لگا، ان سب اطراف میں چلانے کے بعد پھر اس کو مکہ مکرمہ کی طرف چلانے لگے تو بیٹھ گیا۔
قدرت حق جل شانہ، کا یہ کرشمہ تو یہاں ظاہر ہوا۔ دوسری طرف دریا کی طرف سے کچھ پرندوں کی قطاریں آتی دکھائی دیں جن میں سے ہر ایک کے ساتھ تین کنکریاں چنے یا مسور کے برابر تھیں ایک چونچ میں اور دوپنجوں میں واقدی کی روایت میں ہے کہ پرندے عجیب طرح کے تھے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے، جثہ میں کبوتر سے چھوٹے تھے ان کے پنجے سرخ تھے، ہر پنجے میں ایک کنکر اور ایک چونچ میں لیےآتے دکھائی دیتے اور فوراً ہی ابرہہ کے لشکر کے اوپر چھا گئے، یہ کنکریں جو ہرایک کے ساتھ تھیں ان کو ابرہہ کے لشکر پر گرایا۔ ایک ایک کنکر نے وہ کام کیا جو ریوالور کی گولی بھی نہیں کرسکتی، کہ جس پر پڑتی اس کے بدن کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی۔یہ عذاب دیکھ کر ہاتھی سب بھاگ کھڑے ہوئے، صرف ایک ہاتھی رہ گیا تھا جو اس کنکری سے ہلاک ہوا اور لشکر کے سب آدمی اسی موقع پر ہلاک نہیں ہوئے بلکہ مختلف اطراف میں بھاگے ان سب کا یہ حال ہوا کہ راستہ میں مرمرکر گرگئے۔ ابرہہ کو چونکہ سخت سزا دینا تھی وہ فوراً ہلاک نہیں ہوا مگر اس کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑکر گرنے لگا اسی حال میں اس کو واپس یمن لایا گیا، دارالحکومت صنعاء پہنچ کر اس کا سارا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بہ گیا اور مرگیا۔ ابرہہ کے ہاتھی محمود کے ساتھ دو ہاتھی بان یہیں مکہ مکرمہ میں رہ گئے مگر اس طرح کہ دونوں اندھے اور اپاہج ہوگئے تھے۔ محمد بن اسحٰق نے حضرت عائشہؓ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ میں نے ان دونوں کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اندھے اور اپاہج تھے اور حضرت عائشہ صدیقہ کی بہن اسماءؓ نے فرمایا کہ میں نے دونوں اپاہج اندھوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا ہے۔
(معارف القرآن جلد۸ صفحہ۸۱۷، سورۃ الفیل: آیت۱
 

arifkarim

معطل
محترم۔۔۔ تاریخ جس طرح سے ہے وہ الگ باب۔
لیکن موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھیں تو ان دہشت گردوں کی پشت پناہی بالواسطہ جا کر یہود ونصاری تک ہی جاتی ہے۔
وہ نام نہاد اسلامی ممالک جو دہشت گردی کو سپورٹ کرتے ہیں ان کی ڈوریں بھی بالآخر انہیں کے ہاتھ میں ہیں۔
یقینا یہ مسلمانوں کی بے وقوفی ہے کہ وہ ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔
شام کی صورت حال اس کی واضح مثال ہے۔


شام میں جو ہورہا ہے۔ اسکی ڈوریں سعودیہ، قطر اور ایران کے ہاتھ میں ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے تو ابھی تو اس خانہ جنگی میں ہاتھ ہی نہیں ڈالا۔ وگرنہ اسرائیل اور امریکہ کب کی وہاں اپنی کاروائی کر چکا ہوتا!
 

حسینی

محفلین
شام میں جو ہورہا ہے۔ اسکی ڈوریں سعودیہ، قطر اور ایران کے ہاتھ میں ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے تو ابھی تو اس خانہ جنگی میں ہاتھ ہی نہیں ڈالا۔ وگرنہ اسرائیل اور امریکہ کب کی وہاں اپنی کاروائی کر چکا ہوتا!
امریکہ کاروائی کرنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن کر نہیں سکا۔۔ اب اس کی وجوہات مختلف ہیں۔
آپ کی بات سے ایسا ظاہر ہو رہا ہے جیسے امریکہ اس ساری صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔
قطر اب بہت حد تک پیچھے ہٹ چکا ہے۔۔۔ جبکہ سعودیہ اب بھی کوشش کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح اپنی شرمندگی چھپا لے۔۔ لیکن معلوم ہے پیچھے امریکہ ہی ان کو چلاتا ہے۔۔ دہشت گردوں کے ہاتھ میں میڈ ان امریکہ یا یورپ اسلحہ ہی ہیں۔۔۔ تیل کے سارے پیسے ادھر ہی جا رہے ہیں۔۔۔ اقوام متحدہ سے بھی قراردیں منظور کرنے کی کوششیں ہوئیں لیکن روس اور چین نے ناکام بنایا۔
 
Top