شرعی قوانین کی کتاب یا کتب درکار ہیں۔

فرید صاحب - ذاتی نوٹ:‌ مجھے اب تک آپ سب ہی مخلص نظر آئے ہیں، سوائے ایک ابرار حسن کے۔ ان کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ان کے خیالات کو میں کس نظر سے دیکھتا ہوں۔ آپ کی پیش کردہ رائے سے تائید، تنقید اور اختلاف کیا ہے لیکن آپ کی رائے میں‌چھپے خلوص پر شبہ کبھی نہیں کیا۔ آپ ایک دوست، ایک بھائی اور ایک قابل احترام شخص ہیں۔ آپ کے ذاتی علم کا معترف ہوں۔

اب عمومی بحث:
افسوس اس بات کا ہے موجودہ ڈنڈا بردار ہی شریعت بردار ہیں اور اس کو ہی نفاذ شریعت کہا اور سمجھا جاتا ہے - افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ ہمیشہ ان ڈنڈا برداروں ، بم پھوڑنے والوں کی حمایت کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں کہ یہ تو شریعت ہے ہی نہیں اور مذہب تو کچھ اور ہے۔ بھائی بولنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ آپ ان کے خلاف بولو اور جہاد کرو۔ بھائی مذہب جو ہے پاکستان کی مقننہء اعلی اس کو ترتیب دے چکی ہے۔ تھوڑا سا اس آئین کو پڑھنے کی دیر ہے، پھر آپ کو اس کی خوبیان اور خامیاں دونوں نظر آنے لگیں گی۔ اس موقع پر کوئی بھی تائید کوئی بھی تنقید سب خنداں پیشانی سے قبول کریں گے۔

معاملات کو اصول پرستی کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیجئے، شخصیت پرستی کی روش ترک کیجئے۔ جو خرابیاں آپ نے مجھ میں اور میرے خیالات میں گنائی ہیں میں تو شاید اس سے بھی ناکارہ ہوں، کیوں اپنے وقت کا ضیاع کرتے ہیں۔ تواپنی تیشہ گری س میری ذات کا بت تراش کر، بھگوان بنانے کی روش اب ترک کیجئے، میں اس قابل نہیں۔

البتہ جس اصول کی میں بات کر رہا ہوں ۔ وہ ہے آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ جب میں نے پوچھا کہ ایک ایسی کتاب لے آئیے جس پر ایک بڑی تعداد میں علماء اور عوام متفق ہوں توآپ کو کوئی کتاب نہ ملی۔ جب کہ اس آئین کے نام پر اسلامی جمہوریہ پاکستان 60 سال سے قائم اور 34 سال سے چل رہا ہے۔ ان اصولوں میں اگر کوئی کمی ہے تو اس کے بارے میں کوئی بھی تنقید، کوئی بھی تائید ایک کار ہائے نمایاں ہوگا۔

آخر شناختی کارڈز والا کیس ہمارے سامنے ہے؟

والسلام
 

فرید احمد

محفلین
میں نے پوچھا کہ ایک ایسی کتاب لے آئیے جس پر ایک بڑی تعداد میں علماء اور عوام متفق ہوں توآپ کو کوئی کتاب نہ ملی۔ جب کہ اس آئین کے نام پر اسلامی جمہوریہ پاکستان 60 سال سے قائم اور 34 سال سے چل رہا ہے۔ ان اصولوں میں اگر کوئی کمی ہے تو اس کے بارے میں کوئی بھی تنقید، کوئی بھی تائید ایک کار ہائے نمایاں ہوگا۔

خود ہی کوئی کتاب پیش کر دیں !
شاید آپ آئین پاکستان کو پیش کرنا چاہتے ہیں ، ذرا اس کو دیکھ لیں کہ اس کا اصل مسودہ کہاں سے لیا گیا تھا ؟
(1) یعنی اولا مرتب کرتے وقت برائے ترتیب کیا سامنے رکھا گیا تھا ؟ فقط قرآن و سنت یا کچھ اور بھی ؟
(2) آج تک اس پر کتنا اتفاق مسلمانوں کا نظر آیا ؟ اس کو حکمرانوں ( جمہوری نمائندوں نے ) نے بار بار بدلا ، آرمی نے بار بار اس کو کالعدم قرار دیا ، اور اس کو چھوڑیے ، پورے پاکستان کے سپریم کورٹ کے جسٹس ، ہائی کورٹ کے جسٹس ، اور ضلعی عدالتوں ، سیشن ججوں کے فیصلے دیکھ لیں ، ایک دفعہ کے کتنے مطلب نکالے جاتے ہیں ، ایک ہی جرم میں کتنی مختلف سزائیں دی جاتی ہیں ،
آپ اس کو حکمرانوں یا ججوں یا انتظامیہ کی یا عوام کی یا ہماری اپنی کمزوری کہ کر گریز نہ کریں ، میرا مدعا یہ ہے کہ اس طرح کی کتاب یا قانون دنیا میں کسی نے پیش نہیں کیا ، اور خلفائ اربعہ نے بھی تو اس کے بغیر ہی حکمرانی کی تھی ، پھر ایسی کتاب پیش نہ کرنے پر مجھ سے پوچھ گچھ کیوں ؟
پھر بھی میں فقہ حنفی کی کتاب " ہدایہ " کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دوں گا ، قطع نظر فقہی اختلاف اور اختلافی مسائل ، اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی اس باب میں مسلمانوں ( ملاوں کی نہیں ) کاوشیں ہیں ، ایک اور کتاب ہے " مجلۃ الاحکام " دوسری ہے " شرح مجلۃ الاحکام "
آپ مجھے کس طرح کہتے ہیں" آپ کو کوئی کتاب نہ ملی " میں اس سے پہلے غزالی کی کتاب ، تیمیہ کی کتابوں اور ابن رشد کی کتابوں کا حوالہ دے چکا ہوں ۔

آخری بات ،
جب بھی آپ کے متعلق کوئی بات کہی جاتی ہے تو کہ دیتے ہوں کہ میں اس سے بھی زیادہ ناکارہ ، یا اور کچھ ، یہ آسان طریقہ ہے جان چھڑانے کا ، اگر خود کسی طریقہ کے کاربند نہیں تو پہلے اپنی فکر کریں پھر میدان دعوت میں قدم رکھیں ، اسلام میں شخص جماعت سے بالاتر نہیں ، اور معاشرہ و سماج کا متفقہ اصول ہے کہ "قوم " افراد سے بنتی ہے ۔ اگر آپ کسی کی شخصی یا اجتماعی غلطی بتانے نکلے ہو تو آپ کی شخصیت کو بالاتر نہ کیجیے ، یہی تو رسول کا اسوہ ہے ، اسی لیے رسول کو قرآن میں اسوہ کہا گیا ، ورنہ انتظامی امور میں اچھی قابلیت والے مکہ میں اور بھی تھے ، جو یہ کہ سکتے تھے کہ مجھے نہ دیکھو ، میری بات کو دیکھو ، مگر قرآنی اور نبوی طریقہ یہ ہے کہ مجھے اور میری بات کو دیکھو ، دونوں یکساں ہیں ، اس موضوع کی آیات بھی ہیں ، اس وقت ذہن ساتھ نہیں دے رہا ۔
 
مطلوب تھی ایک ایسی کتاب جس میں ترتیب وار دفعات دی گئی ہوں۔ جن کتابوں کے حوالے دئے گئے، ان میں‌ ترتیب وار دفعات موجود نہیں تھی۔

جو لوگ میری ذات سے بت تراشنے کے عمل دلگیر میں‌مصروف ہیں۔ وضاحت کرتا چلوں کی رسالت رسول اللہ صٌعم پر ختم ہوگئی۔ اب صرف ان (صلعم) کے پیغام کی شئرنگ ہوتی ہے۔ جو لوگ " نیا رسول اور نیا اللہ، نیا بت اور نیا بھگوان " ڈھونڈھنے کی کوششوں میں‌مصروف ہیں۔ یہ خواہش ان کو ہی مبارک۔ میرے لئےاللہ اور اللہ کا رسول اللہ صلعم کافی ہیں۔ اگر کوئی نیا خدا، بت یا بھگوان مل جائے تو اس کے اصولوں پر چلئے گا۔ بھر میرے اللہ، اسکے احکام، اسکے رسول کے احکام پر بے معنی بحث چہ معنی دارد؟ بہت سے ملا، مولوی، آیت اللہ مل جائیں گے، پوجنے کے لئے۔ آخر پوج ہی رہے ہیں لوگ اپنے پیروں کو فقیروں‌کو ان کی قبروں کو، پیشواؤں کو، مولویوں کو۔ ایک نہیں‌پوجتے تو اللہ واحد کو۔
 

عمر میرزا

محفلین
السلام علیکم
نومبر تو آ چکا ہے مگر مخفل کا موسم تو گرم لگ رہا ہے بڑی ہی گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں۔ موسم میں تبدیلی لایئے جناب!
مطلوب تھی ایک ایسی کتاب جس میں ترتیب وار دفعات دی گئی ہوں۔ جن کتابوں کے حوالے دئے گئے، ان میں‌ ترتیب وار دفعات موجود نہیں تھی۔

یہ لیجئے حزب کی طرف سے تجویز کردہ اسلامی ریاست کا دستور
Draft Constitution by Hizb ut-Tahrir
A Draft Constitution
GENERAL RULES
Article 1
The Islamic ‘Aqeedah constitutes the foundation of the State. Nothing is permitted to exist in the government’s structure, accountability, or any other aspect connected with the government, that does not take the ‘Aqeedah as its source. The ‘Aqeedah is also the source for the State’s constitution and shar’i canons. Nothing connected to the constitution or canons is permitted to exist unless it emanates from the Islamic ‘Aqeedah.
Article 2
The domain of Islam (Daar ul-Islam) is that entity which applies the rules of Islam in life’s affairs and whose security do Muslims maintain. The domain of disbelief (Daar ul-Kufr) is that entity which applies the rules of kufr and whose security is maintained by the kuffaar


میرے پاس یہ دستور اردوزبان میں بھی ہے مگر ان پیج والا فارمیٹ ہے اگر کویئ بھائی اسکو اپلوڈ کرنے کا طریقہ بتا دے تو بڑی مہربانی ہو گی
 
عمر، آپ فائیلز یہاں رکھ کر بھی شیئر کرسکتے ہیں :) آپ کے لئے الگ فولڈر بنا دیا ہے۔

http://www.openburhan.net/dastoor/

اس کو مزید دیکھ کر خوشی ہوگی۔

اگر کوئی مواد یا اصول ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں‌ ایسا نظر آیا کہ جس پر تنقید محسوس کی تو اس مواد پر ضرور اپنی خیال آرائی کروں گا۔ لیکن میرا یہ وعدہ اپنے آپ سے ہے کہ یہ نہیں‌کہوں گا کہ "عمر صاحب نے جو فرمایا ہے، عمر نے جو کہا ہے، عمر نے جو اپ لوڈ کیا ہے ، عمر کا قصور ہے۔ عمر غلط ہے، عمر صحیح ہے۔ "‌ بھائی اس کی وجہ ہے کہ ہم سب معلومات شیئر کرتے ہیں۔ پرانی قلابازی سیکھ کر، نئی قلابازی کھانی سیکھتے ہیں اور اس کے لئے تیار بھی ہیں۔ یہاں اپنے ہنر شنگتراشی سے عمر کا بت نہیں تراش رہے کہ ایک دن بھگوان بنا کر اس کی پوجا کریں۔

البتہ جب آپ اپنی تصنیف لکھیں گے تو پھر آپ پر ہم ہر تعریف، تائید و تنقید کے ڈونگرے برسائیں گے :) کہ وہ آپ کا اپنا نظریہ ہوگا۔ آپ کا فلسفہ ہوگا۔ دوسروں کی لکھی ہوئی معلومات شئیر کرنے پر یا اس پر تبصرہ کرنے پر، کسی کا منہہ بند کرنا، مناسب نہیں لگتا۔

والسلام
 

فرید احمد

محفلین
میں نے آپ سے کہا کہ
اگر آپ کسی کی شخصی یا اجتماعی غلطی بتانے نکلے ہو تو آپ کی شخصیت کو بالاتر نہ کیجیے ، یہی تو رسول کا اسوہ ہے ، اسی لیے رسول کو قرآن میں اسوہ کہا گیا
تو آپ جواب دیتے ہو :
جو لوگ میری ذات سے بت تراشنے کے عمل دلگیر میں‌مصروف ہیں۔ وضاحت کرتا چلوں کی رسالت رسول اللہ صٌعم پر ختم ہوگئی۔

تو جناب کون تم کو رسول کہتا ہے ، آئینے میں منہ دیکھیے ،
رسول کے اسوہ کی بات تھی ، کہ خود بھی دین و اسلام کے معیار پر رہ کر ہی دین کی بات کرنا بہتر ہے ، شاید رسول کا یہ اسوہ تمہارے نزدیک معتبر نہیں ؟ ؟ ؟
اور قرآن کے مطالعہ کا دعوی کرکے یہ آیت بھول گئے کہ
یامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم ، لوگوں کو اچھی باتیں بتاتے ہو اور اپنے کو اس سے دور رکھتے ہو !

عمر صاحب کو آپ کہتے ہیں کہ ان کتابوں میں کوئی بات قابل گرفت نظر آئے تو آپ اس پر اپنی بات رکھیں گے، تو پھر آپ کی باتیں قابل گرفت نظر آئیں تو کیوں اس کو نظر انداز کر دیں ؟
 

خرم

محفلین
بھائیو بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ دیکھیں ہم سب یہاں ایک تعمیری مقصد پر بات کرنا چاہ رہے ہیں اور کسی کا بھی مقصد کسی پر الزام تراشنا نہیں ہے اور نہ ہی اسے اس میں ڈھل جانا چاہئے۔ عمر نے ایک کتاب کا لنک فراہم کیا۔ بہت اچھی بات ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ کتاب کب لکھی گئی؟ جو بات مجھ سے ہضم نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزر گئیں اور مسلمان کسی "شرعی" حکومت نام کی چڑیا سے واقف بھی نہ تھے اور اب یکایک کتب آنے لگ پڑیں احزاب ترتیب پانے لگ پڑیں اور کشت و خون ہونے لگ پڑا شریعت کے نام پر۔ آخر کیوں؟ جب ثابت ہے کہ سابقین متاخرین سے بہتر ہیں تو کیسے مان لیا جائے کہ ان کا شریعت سے لگاؤ کم تھا چودہ صدیاں بعد میں‌آنے والوں سے؟ اور پھر کیا یہ عجب نہیں کہ چار خلفائے راشدین جن پر ہم متفق ہیں، ان چاروں کا تقرر مختلف حالات اور مختلف طریقوں سے ہوا؟ اور خلیفۂ اول کا انتخاب تو ایک بالکل جمہوری عمل سے اور کثرتِ رائے سے ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت اور سربراہ کی تقرری کا اللہ کی طرف سے ہمیں نہیں عطا کیا گیا۔ اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ کو اس کا ادراک نہیں تھا، اس لئے کہ اللہ نے اپنے محبوب صل اللہ علیہ وسلم کی امت پر آسانی کی وگرنہ صرف ایک آیت یا صرف ایک متواتر و مسلسل حدیث ہی کافی ہوتی اس معاملہ کے لئے۔ اور اگر ایسا "کچھ" بھی آیا ہوتا اللہ کی طرف سے تو نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے فوراً بعد مسلمانوں میں اسی ایک مسئلہ پر اختلافات نہ پیدا ہوجاتے۔ آپ چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادوارِ حکومت کو لے لیجئے، چاروں میں آپ کو اصحاب اور دیگر کے وظائف کی تقسیم میں فرق ملے گا۔ حضرات عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادوار میں تو ان کے طرزِ حکومت پر اکابر صحابہ نے تنقید کی۔ ان میں‌سے آپ کس کو شرعی مانئے گا؟ حضرت عثمان کو مسلمانوں سے بھرے مدینہ میں شہید کیا گیا اور طویل محاصرہ کے بعد کہ لوگوں کو ان کے طرزِ حکومت پر اعتراض تھا۔ کیا آپ ان کے دورِ حکومت کو شرعی کہیں گے اور ان سے اختلاف کرنے والوں‌کو نعوذ باللہ کافر یا اس کے برعکس اور کیوں؟
میری التجا صرف اتنی ہے کہ جو پابندی اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم نے امت پر نہیں لگائی خدارا امت کو اس کا مکلف نہ کیجئے کہ یہ راستہ صرف بربادی کا ہے۔ ذاتی خواہشات کو شریعت کا نام دے کر اس پارہ پارہ امت کو مزید نہ الجھائیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ نبوت تمام ہوگئی وگرنہ ہم لوگ بھی بنی اسرائیل کی طرح سوال پہ سوال کر کر کے اپنی زندگیاں مزید مشکل کر لیتے۔ آخر گائے کا رنگ و نسل کیوں اہم ہیں؟ آپ سے جو اللہ نے کہا اس پر عمل کئے جائیے۔ یہ باتوں کی کرید کر کے نئے نئے فلسفے گھڑنا اور پھر ان کے ذریعے امت پر سختی کرنا مناسب عمل نہیں معلوم ہوتا۔ حکمرانی کے لئے بالکل چند اصول بیان فرما دیئے گئے ہیں باقی سب امت کے اجماع پر ہے کہ عوام کی سہولت کے لئے جو مرضی نظام وضع کر لے جب تک وہ ان "چند"‌اصولوں کے اندر موجود ہے۔ خدا کے لئے اسلام کے سمندر کو ایک گاؤں کا جوہڑ نہ بنائیے اسے سمندر ہی رہنےدیجئے۔
 
اگر عادت ہو شخصیت پرستی کی ، اصول پرستی طبیعت کا خاصہ نہ ہو تو یہی طور رہتا ہے۔ اصل بات کچھ ہوتی ہے، اور الفاظ بدل کر کچھ اور معنے بناتے ہیں۔ یقیناَ ناسمجھی، انا پرستی اور ذاتی عناد و پرخاش کا کوئی علاج نہیں۔ کیا مجھے اردو نہیں‌آتی کہ دہراتے وقت میرے لکھے ہوئے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے تبدیل کیا جائے؟ مکمل جملے میں‌سے آدھا جملہ چنا جائے اور اسے اپنی مرضی کا رنگ دیا جائے؟ یعنی کہ اپنی مرضی کی کہی جائے، اپنی مرضی کی سنی جائے؟ جب کوئی نہ سمجھنے کی قسم کھا کر بیٹھا ہو تو پھر سمجھانا کیسا، سر کھپانا کیسا۔

موضوع یہاں ہے، ایک ایسی شرعی کتاب کہ جس میں‌ ترتیب وار دفعات درج ہوں۔ میری اور آپ کی نہیں۔ اس موضوع کے بارے میں اگر کچھ علم ہے تو سر آنکھوں‌پر۔

عمر : آپ کا ایک بار پھر شکریہ، ان کتب کا۔ آپ اردو کی کتب کب اپ لوڈ کریں گے، کیا یہ کتب پہلے آن لائین موجود ہیں ؟
 

قسیم حیدر

محفلین
فاروق سرور خان نے کہا:
افسوس اس بات کا ہے موجودہ ڈنڈا بردار ہی شریعت بردار ہیں اور اس کو ہی نفاذ شریعت کہا اور سمجھا جاتا ہے - افسوس اس بات کا ہے کہ لوگ ہمیشہ ان ڈنڈا برداروں ، بم پھوڑنے والوں کی حمایت کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں کہ یہ تو شریعت ہے ہی نہیں اور مذہب تو کچھ اور ہے۔
بےگناہ لوگوں کے قتل کی حرمت، اور بالخصوص خودکش حملوں کے بارے میں دوسری جگہ تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ قند مکرر کے طور پرمشہور عرب علماء کے فتوے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:
الشیخ عبد العزیز بن باز (سابق مفتی اعظم سعودی عرب)
سوال: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو یہودیوں کو قتل کرنے کے لیے اپنے آپ پر بارود باندھ کر حملہ آور ہو؟
جواب: ہم جس نظریہ کے قائل ہیں اور کئی بار متنبہ بھی کر چکے ہیں کہ اس طرح کی کاروائی کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسا شخص اپنے آپ کو خود قتل کرنے والا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
و لا تقتلوا انفسکم (النساء۔29)
“اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو”
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے:
“جس کسی نے اپنے آپ کو کسی چیز سے قتل کیا تو قیامت کے روز اسے اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا” (بخاری6048، مسلم176)
الشیخ عبد العزیز آل الشیخ (مفتی اعظم سعودی عرب)
“اپنے آپ کو قتل کرنا جیسے خودکش حملہ تو میں شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں پاتا، اور نہ اسے جہاد فی سبیل اللہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ مجھے ڈر ہے کہ مبادا یہ خودکشی میں شمار ہو۔”
الشیخ محمد بن صالح العثیمین (مشہور عرب عالم)
“میری رائے اس بارے میں یہی ہے کہ ایسا شخص خودکشی کرنے والا ہے اور ایسے شخص کو جہنم میں اسی آلہ قتل سے عذاب دیا جائے گا جس سے اس نے اپنے آپکو قتل کیا ہے۔ “
الشیخ صالح فوزان
“رہی بات خود کش حملے کی تو یہ ناجائز ہے۔”
یہ آپ کی اپنی منطق ہے کہ ہر عالم بم پھوڑنے والوں کی‌ حمایت کرتا ہے اور ہر شریعت بردار ڈنڈا بردار بھی ہوتا ہے۔شمالی علاقوں میں ہونے والے واقعات مخصوص قبائلی روایات کی پیداوار ہیں جن کی آڑ میں قرآن و حدیث اور علماء کو نشانہ بنانا درست نہیں ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
البتہ جس اصول کی میں بات کر رہا ہوں ۔ وہ ہے آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ Quote]
فاروق سرور خان نے کہا:
اس آئین کے نام پر اسلامی جمہوریہ پاکستان 60 سال سے قائم اور 34 سال سے چل رہا ہے۔

کون سا آئین؟
دستور ساز اسمبلی کا آئین؟ (1956)
ایوب کا آئین؟ (1958)
بھٹو کا 1973 ء والا آئین؟
ضیاء الحق کا آئین؟
یا پرویز مشرف کا آئین؟
پرویز مشرف کا آئین مراد ہے تو کونسا، پہلا عبوری آئین یا دوسرا یا وہ جو عنقریب پیدا ہونے والا ہے؟
ملک کی مقننہ اعلیٰ کے ترتیب دیے ہوئے "مذہب" کے بارے میں جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا:
"آئین کیا ہے، کاغذ کا ایک ٹکڑا، جسے میں جب چاہوں پاؤں کے نیچے مسل دوں"
فاروق سرور خان نے کہا:
بھائی مذہب جو ہے پاکستان کی مقننہء اعلی اس کو ترتیب دے چکی ہے۔ تھوڑا سا اس آئین کو پڑھنے کی دیر ہے
فرما دیجیے کہ جب پاکستان کی "مقننہ اعلیٰ" موجود نہ تھی تو مسلمان کس مذہب کی پیروی کرتے تھے؟ یہ مذہب تو پاکستانیوں کے لیے ہوا، کیا ہر ملک کی مقننہ اپنے شہریوں کو اسی طرح مذہب ایجاد کر کے دیا کرے گی؟
ملک توڑنے والوں، کرپشن میں لت پت، گلیوں اور نالیوں تک میں کمیشن کھانے والوں کی مقننہ اعلیٰ کے لیے قبولیت کا یہ مرتبہ اور علماء و محدثین کی کاوشوں سے صرفِ نظر، چہ معنی وارد؟
فاروق سرور خان نے کہا:
جب پاکستان بنا توملاؤں کا خیال تھا کہ پاکستان میں پھر وہی ملاؤں کی حکومت ہوگی جو مغلیہ دور میں‌تھی۔ وہی جنت گم گشتہ پھر مل جائے گی - وہی حلوے مانڈے ہوں گے، وہی کنواریوں کی قلقاریاں ہوں گی اور یہ ملا ہوں گے۔ اسی نظام کو ملا شریعت کہتے ہیں جس کا دور دور سے بھی قرآن سے واسطہ نہیں۔ یہ وہ اسرائیلیات ہیں جن کو کھینچ تان کر قرانی آیات کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔

لیکن پاکستان نے قانون سازی کے لئے قرآن کا راستہ اختیار کیا اور مجلس شوری کو قانون سازی کا اختیار دیا۔ مولوی، ملا، آیت اللہ اپنے بدترین سیاسی حربوں کے باوجود اس مجلس شوری میں نہیں گھس سکے تو اس کو غیر اسلامی قرار دینے لگے۔
قیام پاکستان کے وقت سیکولر عناصر کی پوری کوشش تھی کہ اسے بے مذہب ریاست قرار دیا جائے۔ اس وقت 31 رکنی علماء کمیٹی کی کاوشوں سے قراردادِ مقاصد منظور کی گئی جو پاکستان کے اسلامی تشخص کی بنیاد بنی۔ فاروق صاحب تو حسب معمول یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ "میں آپ کے تصور سے بھی کم علم آدمی ہوں" لیکن عام ناظرین سے میری گزارش ہے کہ میٹرک کے کسی طالب علم سے دریافت کیجیے کہ اسلامی پاکستان کی بنیاد کیا چیز بنی اور اسے منظور کرانے میں روشن خیالوں نے حصہ لیا یا "ملاؤں" نے؟ حقیقت سامنے آ جائے گی۔ کیا کیجیے کہ تعصب کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔
 

خرم

محفلین
قسیم بھائی کیوں‌گڑے مردے اکھاڑتے ہیں؟ پاکستان تو ایک "کافرِ اعظم" نے بنایا تھا نا؟ توبہ توبہ یہ میں نہیں کہتا یہ تو وہی علماء کرام کہتے تھے جو نہ پاکستان بنانے کے "گناہ" میں شامل تھے یہ اور بات کہ پاکستان کے مجاور یہی لوگ بن بیٹھے ہیں۔ مودودی ہوں کہ مفتی سب پاکستان کے خلاف اور کانگریس کے ہمنوا و متحدہ ہندوستان کے خواہاں تھے۔ آج قراردادِ مقاصد کے جھنڈے اٹھائے سامنے آجاتے ہیں۔ آئین مذہب نہیں ہوتا میرے بھائی۔ مذہب آئین سے بہت وسیع ہوتا ہے اور ہمارا مذہب تو لامکاں و لازماں‌ہے جب کہ آئین ایک مخصوص قوم اور ایک مخصوص وقت کے لئے ہوتا ہے۔ مذہب تبدیل نہیں ہوتا جبکہ آئین میں مذہب کی حدود و قیود کے اندر رہ کر تبدیلیاں کی جاسکتی ہیں۔ اور یہ اسلامی پاکستان کی اصطلاح آپ نے کہاں سے نکال لی؟ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا آپ اسے سن 56 میں مسلمان کر رہے ہیں۔ میٹرک کی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں آپ نظریہ پاکستان نامی اصطلاح کی تاریخِ پیدائش ہی ڈھونڈ لائیے تاریخ میں کہیں سے جو میٹرک کی کتب میں بکثرت استعمال ہوتی ہے۔
بھائی تاریخ بہت جابر چیز ہوتی ہے سچ کو چھپاتی نہیں۔ ہماری "درسی" کتب جتنی بھی کوشش کر لیں سچ پر گرد تو ڈال سکتی ہیں اسے قتل نہیں کر سکتیں۔ ہماری درسی کتب کیا ہمارے تو اخباروں میں آج تک یہ کہا جاتا ہے کہ سن 65 میں بھارت نے چوروں‌کی طرح ہماری سرحدوں‌پر چڑھائی کردی۔ آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرینڈ سلام کا ذکر ہی پی جاتے ہیں۔
اب آئیے آئین کی طرف۔ آپ آئین کو روتے ہیں، جتنے مطالب اور معانی احادیث اور قرآنی آیات کو پہنائے جاتے ہیں اگر اللہ کا وعدہ نہ ہوتا تو ہم تو نعوذ باللہ قرآن کو ہی بدل چکے ہوتے۔ خودکش حملے ہوں کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کہ لاقانونیت اور جہالت پر اصرار سب کا جواز ہمارے "علماء" قرآن اور حدیث سے ہی ثابت کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے بنی اسرائیل کے علماء کرتے تھے۔ جو لوگ ایک بنے ہوئے سسٹم کو درست کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ ایک نیا سسٹم کیسے تشکیل دے سکتے ہیں؟ یہی بات ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے اس دھاگہ پر سوال کئے گئے لیکن حسب توقع جو بات گفتنی تھی وہی ناگفتنی رہ گئی۔ جہاں تک ان شیوخ کے فتاوٰی کا تعلق ہے تو پھر آپ کھل کر کیوں‌نہیں کہتے کہ جو لوگ خودکش حملہ کرتے ہیں، اس کی دھمکی دیتے ہیں، اس پر لوگوں‌کو اُکساتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں سب گمراہ اور خلافِ شریعت کام کرتے ہیں اور قطعاً شریعت کے نفاذ‌کے اہل نہیں ہیں۔ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں؟
باقی رہ گئی علماء و محدثین کی بات تو علمائے حق و محدثین تو ہماری سر آنکھوں‌پر بھائی۔ یہ اور بات کہ آج کل ایک دیانتدار سیاستدان کی طرح یہ جنس بھی کمیاب ہے اور جو موجود ہیں اور جن کی کتب و فتاوٰی کے حوالے دیے جاتے ہیں‌وہ تو "ہر مال ہر چیز دو آنے دو آنے" کا اعلان کرتے پھرتے ہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
جب آدمی اپنے خیالات سے باہر نکل کر سوچنے کی کوشش ترک کر دے تو صحیح بات سمجھنے کی صلاحیت اس سے سلب ہو جاتی ہے۔ اس دھاگے میں دہشت گردی کی ساری ذمہ داری علماء پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ذرا دیکھیے کہ سرکردہ روشن خیال نذیر ناجی پاکستان میں جاری حالیہ صورتحال پر آج 7 نومبر 2007 کے کالم میں کیا لکھتے ہیں:
“اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ پاکستان کے مختلف حصوں میں سراٹھانے والی دہشت گردی کیا ہے؟ تو میرا مختصر جواب یہ ہوگا کہ ”حکمران طبقوں کے جبر کے سامنے عوامی تحریکوں کی ناکامی کا نتیجہ ۔“ یہ تاریخ کا گھسا پٹا سبق ہے کہ ”جب امور مملکت میں عوام کا عمل دخل ہر سطح پر ختم ہو کر رہ جائے اور قانون میں کسی قسم کی ریلیف دینے کی سکت نہ رہے تو قانون شکنی شروع ہو جاتی ہے اور عوام اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگتے ہیں۔“ وزیرستان اور سوات میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہم اسے دہشت گردی کہیں یا انتہا پسندی اصل بات یہ ہے کہ قانون کے تحت قائم مشینری کی طرف سے انصاف کے دروازے بند ہو جانے کے بعد جو بھی بندوق اٹھائے گا، عوام اس کا ساتھ دیں گے۔ سوات کے عوام کسی بھی طرح انتہا پسند یا دہشت گرد نہیں تھے لیکن لوگوں نے آگے بڑھ کراس نظام کوللکارا، جو عوام کے لئے وبال جان بن چکا ہے تو سوات کے امن پسند لوگ بھی باغیوں کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے۔ خیر یہ ایک دوسری کہانی ہے۔ اس پر 60 سال سے لکھا جا رہا ہے۔پتہ نہیں کب تک لکھا جاتا رہے گا؟ “
 

خرم

محفلین
قسیم بھائی شبیر احمد عثمانی اور ان کے ساتھی علماء یقیناً پاکستان بنانے کے عمل میں شریک تھے لیکن ان کی تعداد کتنی تھی یہ بھی آپ کو معلوم ہے۔ ہاں علماء کے برعکس مشائخ نے پاکستان کے قیام کی بھرپور حمایت کی اور آج بھی کبھی کسی پیر خانے سے پاکستان کے خلاف نہ کوئی بیان آیا نہ کبھی انہوں نے اس کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والی کسی حرکت کی حمایت کی۔
جہاں تک بات ہے دہشت گردی کی ذمہ داری ملا پر ڈالنے کی تو بھائی یہ بات بالکل درست ہے کہ لوگوں‌کی بے چینی اور اضطراب کئی دہائیوں پر پھیلا ہوا وہ جبر ہے جو استحصالی طبقات نے روا رکھا ہوا ہے لیکن ملا ان جذبات کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے (لفظ ملا لکھا ہے عالم نہیں)۔ اگر یہی مُلا لوگوں کو کہے کہ سچے کو ووٹ دو، رشوت نہ دو، ملاوٹ نہ کرو، زکوٰۃ دو، اقرباء پروری نہ کرو تو یہ لوگ پھر بھی اس کی بات سُنیں گے نا؟ آخر آج بھی تو اس کی بات مان کر دھماکے کر رہے ہیں، ہتھیار اٹھا رہے ہیں، خون بہا رہے ہیں۔ لیکن مُلا ایسا کبھی کہے گا نہیں کیونکہ اس کی منزل اصلاح نہیں اقتدار ہے۔ وہ اس آگ پر تیل ڈالے گا اور اسے ہوا دے گا، بُجھائے گا نہیں۔ دہشت گردی کو دین کا لبادہ تو انہی مُلاؤں نے پہنایا ہے نا اور ان کے اس چلن سے لوگوں کو نہ تو انصاف ملے گا اور نہ آزادی کہ جو برتن کے اندر ہو وہی باہر آتا ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
شکر ہے عثمانی صاحب اور ان کےساتھیوں کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا۔ اب جو ملا جہموری سیاست میں ہیں۔ ان کے بارے میں بھی رائے دے دیں۔
 

خرم

محفلین
شکر ہے عثمانی صاحب اور ان کےساتھیوں کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا۔ اب جو ملا جہموری سیاست میں ہیں۔ ان کے بارے میں بھی رائے دے دیں۔
نورانی صاحب مرحوم کے بعد تو تھالی کے بینگن ہی باقی بچے ہیں۔ نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیاست اہلِ علم کے لئے ممنوع ہے یا یہ کہ ہم کوشش ہی نہ کریں اس راستہ کو اپنانے کی۔ میرے خیال میں تو اس وقت گزشتہ ہر وقت سے زیادہ ضرورت ہے کہ علمائے دین جمہوری عمل کی نا صرف تائید کریں بلکہ اس میں بھر پور حصہ لیں۔
 
تعصب کا کوئی علاج نہیں۔ تعصب برتا جاتا ہے لوگوں سے، اصولوں سے نہیں۔ ملا اپنی ذاتی خوہشوں کی تکمیل میں اس قدر مگن رہے کہ ایک عدد ترتیب وار دفعات کے ساتھ ایک آئین یا قانوں کی کتاب بھی پیش نہیں‌کرسکے۔ 1425 سے زیادہ سالوں کے عرصے میں جن مسلمانوں نے کوئی آئین یا قانون ترتیب سے پیش کیا اس کو اصولوں‌کے تناظر میں دیکھنے سے آج بھی ان کی نظر کتراتی ہے۔ یہ لوگ یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اس کو لکھا کس نے ہے ؟‌یہ ایوب خان کا ہے یا بھٹو کا یا کسی اور کا؟ 1400 سال میں شخصیت پرستی کا جو چسکا ان کو لگا ہے، کہ انسانوں کو "مولانا" یعنی "میرا مولا" ، کہتے ان کی زبان نہیں‌تھکتی۔ لہذا تعصب کے مجرم بھی وہی قرار پائیں گے جو ہر معاملے کو شخصی تناظر میں ملاحظہ فرماتے ہیں۔

صاحبو، یہ آئین ہے پاکستان کی قوم کا، ہر شخص نے پہلے اپنے نمائیندے کو ووٹ دیا اور پھر ان نمائیندوں نے ان اصولوں‌پر حرف صاد کیا۔ اس طرح یہ آئین ہر پاکستانی کے دستخط سے جاری ہوا۔ ہم شخصیت پرستی کے عادی نہیں لہذا نمائیندوں کی معیاد مقرر ہے، اگر اس آئین کا احترام دل میں نہ ہوتا تو آج ہم سب پاکستانی اس کو معطل کرنے والے کے خلاف احتجاج نہ کررہے ہوتے۔ وقت آگیا ہے کہ اصولوں‌پرستی، قانون پرستی اور آئین پرستی کے اطوار اپنائے جائیں۔ شخصیت پرستی ختم کی جائے کہ قابل پرستش ذات صرف اللہ کی ہے، انسانوں کی پرستش ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ بغور دیکھا جائے تو کچھ مسلمان انسانوں کی اسی طرح پوجا کرتے ہیں، اسی طرح بات مانتے ہیں، اسی طرح‌ان کی ڈاکٹرائن قبول کرتے ہیں، جو صرف اللہ تعالی کا حق ہے

والسلام
 

قسیم حیدر

محفلین
جس آدمی نے مدرسے کا منہ تک نہ دیکھا ہو اس پر ملا کی پھبتی کسنا عجیب لگتا ہے۔ اللہ کی پناہ کہ ہم اس کے سوا کسی کو پوجیں۔ جہاں تک ڈاکٹرائین قبول کرنے کا تعلق ہے تو جناب آپ نے اپنے فہم سے جو سمجھا ہے اسے دوسروں کے سر مت تھوپیے۔ اگر علماء کا فہم قرآن و سنت کے بارے میں سند نہیں‌ہے تو کسی دوسرے کاکیسے ہو سکتا ہے۔
 

خرم

محفلین
جس آدمی نے مدرسے کا منہ تک نہ دیکھا ہو اس پر ملا کی پھبتی کسنا عجیب لگتا ہے۔ اللہ کی پناہ کہ ہم اس کے سوا کسی کو پوجیں۔ جہاں تک ڈاکٹرائین قبول کرنے کا تعلق ہے تو جناب آپ نے اپنے فہم سے جو سمجھا ہے اسے دوسروں کے سر مت تھوپیے۔ اگر علماء کا فہم قرآن و سنت کے بارے میں سند نہیں‌ہے تو کسی دوسرے کاکیسے ہو سکتا ہے۔
قسیم بھائی آپ کو مُلا کیوں کہے کوئی پیارے بھائی۔ یہ تو ایک عمومی بات ہو رہی ہے۔ جہاں تک فہمِ قرآن و سنت کی بات ہے بھائی تو وہ تو صرف ان کے پاس ہے جن کا اپنا عمل قرآن و سنت پر ہے، باقی تو گدھے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر۔ بدقسمتی سے علماء کے نام پر جو مخلوق ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے وہ اسی قبیل کے ہیں۔ اب اس قحط الرجالی کا ماتم کس سے کریں لیکن حقیقت تو یہی ہے اور یہی بات میں‌ہر جگہ کہتا ہوں کہ صاحبو بات اس کی مانو جس کا عمل قرآن اور سنت پر ہو۔ اگر کسی کا عمل ہی قرآن اور سنت پر نہیں تو وہ دین کی بات ہی کیسے کرسکتا ہے؟ تمثیلاً ایک بات عرض کرتا ہوں کہ ایک صاحب ہو گزرے ہیں جن کے دل میں نہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کا ادب تھا نہ ان کے اصحاب اور امہات المؤمنین کا۔ انہوں‌نے قرآن کی تفاسیر بھی لکھیں، مقدمات بھی لکھے کتب بھی لکھیں۔ اب جو خود ہی گستاخِ رسول ٹھہرا وہ جتنی بھی دین کی باتیں کرے دین سے تو اس کا واسطہ دور کا بھی نہیں۔ قرآن کے معانی ہی سمجھنا کافی ہوتا تو ان کی سمجھ تو ابوجہل و ابولہب کو بھی تھی۔ بدقسمتی سے آج ہمارے یہاں‌یہی علم و قرآن فہمی کا معیار ہوگیا ہے اور ایک ٹیسٹ آپ کو بتاؤں، جن صاحب کا ذکر کیا ان کے پیروکاروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی گفتگو میں اوروں کے لئے حقارت، اپنے آپ پر زعم اور کسی کے لئے بھی کوئی ادب نہیں ہوتا۔ کم از کم میں نے آج تک ان کی کتب سے مستفید کوئی ایسا بندہ نہیں دیکھا جسے انسانوں سے پیار ہو۔ یہی اثر ہوتا ہے تحریر و تقریر کا۔ اسی لئے عرض کرتا ہوں کہ بھائی دین کی بات صرف اس کی مانو جس کے دِل میں عشقِ مصطفٰے ہو اور جس کا عمل قرآن و سنت پر ہو اور جسے اپنے نبی صل اللہ علیہ وسلم کی امت سے پیار ہو۔
 
Top