میں نے سوال کیا کہ
باقاعدہ نظام حکومت کیا ہوتا ہے
آپ نے جواب دیا
عمر دوسرے الفاظ میں آپ یہ کہہ لیجئے کہ خلفائے راشدین نے قرآن و سُنت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے ذاتی قیاس و تجربہ کی بنیاد پر حکومت کی۔ مزید یہ کہ خلیفہ کے چناؤ سے لیکر اس کے امورِ مملکت کے چلانے تک تمام امور کسی لگے بندھے قانون یا ضابطہ کے پابند نہیں تھے بلکہ وقتِ موجود کے تقاضوں کے پیشِ نظر اختیار کئے جاتے تھے اور ان میں تبدیلیاں بھی کی جاتی تھیں۔
اسے سوال کا جواب تو نہی کہا جا سکتا۔ سید ھی سی بات ہے کہ ایک باقاعدہ نظام حکومت اس کہا جاتا ہے جو کے کسی بھی معاشرے کو نظم و ضبط میں لیکر آتا ہےاور معاشرے میں نظم وضبط قائم رکھنے کےلئے وہ کسی قانون یا ضابطہ حیات کا مرہون منت ہوتا ہے یہ قانون انسانی بھی ہوتا ہے مگر عقیدے کا تقاضہ ہے کے اسے صرف من جانب حق تعالی ہی ہونا چاہیے۔ مزید یہ کہ انسانی معاشرے میں فلاح عامہ قائم رکھنے کے لئے کچھ اور اداروںکی بھی ضرورت ہوتی ہے جیسے عدلیہ ، پولیس وغیرہ ۔معاشرے میںپائے جانے والے افراد کی تربیت کے لئے مدارس اور جامعات کا قیام بھی ضروری ہوتا ہے ۔ریاست کو بیرونی حطرات سے بچانے کی حاطر فوج بھی تشکیل دی جاتی ہے حکمران کے معاونین بھی ہوتے ہیں تاکہ حکومت احسن طریقے سے کام کر سکے وغیرہ وغیرہ ۔اور یہ تمام عناصر یعنی حکومتی ادارے، حکومتی قوانین،اس کے چلانے والے لوگوں کو ہی باقاعدہ نظام حکومت کہا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں آپ کے سوالات کی طرف آپ نے کہا کہ اسلام ایک باقاعدہ نظام حکومت نہیںدیا ۔۔
ویسے ایک منطقی بات ہے اگر اسلام ایک باقاعدہ نظام حکومت نہیں دیتا تو نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم کو بھی ایک ریاست کی تشکیل نہیں دینی چاہیے تھی وہ بس اپنے اصحاب کو لیتے اور عرب کے کسی دور دراز نخلستان میں مسجد بنا کر اللہ کی حمدو ثناء کرتے مگر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایک ریاست قائم کی بلکہ اسکے پھیلاؤ اور دفاع کے لئے جنگیں تک لڑیں بالسیف جہاد کیا۔کعبہ کو کفار مکہ سے چھین لیا دوسرے قبائل کو ریاست اسلامی میں شامل ہونے کا کہا ۔ریاست کے افراد کی ایسی اخلاقی تربیت کی کہ وہ عرب جو صدیوں سے ایک دوسرے سے باہم دست گریبان تھے انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھائی۔
نبی پاک صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نےاپنی مدینہ ہجرت کے بعد کیسے ایک باقاعدہ نظام حکومت ترتیب دیا وہ ہمارے لئے مثالی نمونہ ہے اور وہ نطام ان آٹھ بنیادی ستونوں پر قائم تھا
1) حکمران
2) معاون تفویض ( نائب حکمران)
3 معاون تنفیض ( وزراء )
4) امیر فوج
5) گورنر (والی)
6) عدلیہ
7 ) انتظامی ادارے برائے مفاد عامہ
8 ) مجلس امت
ریاست کے یہ ارکان رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم کے عمل سے ماحوذ ہیں ۔آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلمنے ریاست کے ڈھانچے کو اسی شکل میں استوار کی تھاآپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم خود ریاست کے سربراہ تھے ۔اس طرح جب آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مسلمانوں کو خلیفہ یا امام مقرر کرنے کا حکم دیا تو دراصل آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مسلمانوں کو ھکمران مقرر کرنے کا حکم دیا ۔ جہاں تک معونین کا تعلق ہے تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا معاون بنایا جیسا کہ ترمذی کی روایت ہے
(( وزیر ای من السماء جبریل و میکائیل و من اھل الارض ابوبکر و عمر ))
" آسمان پر میرے دو وزیر جبریل اور میکائیل ہیں اور اہل زمین میں میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں "
( ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ یہاں لفظ ' وزیر ای " میرے دو وزیر سے مراد میرے دو معاون ہیں کیونکہ عربی میں اس کا یہی مفہوم ہے ۔جہاں تک لفظ منسٹر یا وزیر کا تعلق ہے جس معنوں میں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں تو یہ ایک مغربی اصطلاح ہےجس کا مظلب یہ ہے کہ ایک متعین قسم کی حکمرانی کا عمل اس سے مسلمان واقف نہ تھے اور یہ اسلامی نظام ھکومت سے بھی متناقض ہےکیونکہ رسول اللہ نے جس معاون کو وزیر کے نام سے پکارا ہے اس آپ نے کوئی محصوص زمہ داری نہیںسونپی بلکہ وہ خلیفہ کے لئے کام کرنے کی عمومی زمہ داری سرانجام دیتا ہے اور اس کے پاس خلیفہ جتنے ہی احتیارات ہوتے ہیں۔ )
جہاں تک والیوں کا تعلق ہے تو آپ نے انہیں مختلف ولایہ (صوبوں ) پر مقرر کیا ۔آپ نے عتاب اسید کو فتح مکہ کے مکہ کا والی مقرر کیا ، بازان بن ساسان کے کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے انہیں یمن کا والی مقرر کیا رسول اللہ نے اس کے علاوہ اس کے علاوہ بھی کئی والی مقرر کئے ۔رسول اللہ نے لوگوں کے درمیان تنازعات آپ نےکا فیصلہ کرنے کے لئے قاضی مقرر فرمائے آپ نے حضرت علی ابن طالب کو یمن کا قاضی مقرر کیا اور معاز بن جبل اور ابو موسٰی الاشعری کو یمن کی قضا تہ اور امارت عطا کی ۔
طبرانی نے ثقہ راویوں کے ذریعے مسروق سے روایت کیا انہوں بیان کیا :
(( کان اصحاب القضا ء علی عھد رسول ستتہ : عمر علی و عبداللہبن مسعود و ابیی بن کعب و زید بن چابت و ابو موسی الا شعری ))
" رسول اللہ کے دور میں قضاتہ ( عدلیہ ) پر یہ چھ لوگ مقرر تھے : عمر ، علی ، عبد اللہ بن مسعود ، ابی بن کع ، زید بن ثابت اور ابو موسٰی الا شعری "
جہاں تک انتظامی معاملات کا تعلق ہے تو رسول اللہ نے ریاست کے مختلف شعبوںکو چلانے کے لئے سیکرٹری مقرر فرمائے جو کہ ان اداروں کے مدیر تھے ۔معقیب بن ابی فاطمہ غنیمتوںکے انچارج تھے ،جبکہ خذیفہ بن یمان حجاز کی پیدوار کا تخمینہ لگانے پر معمور تھے آپ نے دیگر محکموں پر مزید لوگ مقرر کئے ۔
جہاں تک فوج کا تعلق ہے جو کہ انتظامی لحاظ سے امیر جہاد کے ماتحت ہوتی ہے ،تو عملی طور پر رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم ہی فوج کے کمانڈر انچیف تھے اور آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم فوج کے انتظامی اور دیگر امور کو منظم کرتے تھے۔ تاہم رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے مختلف مہمات کے لئے مختلف لوگوں کو کمانڈر مقرر کیا ۔ایک موقع پر آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے عبداللہ بن حجش کو کو قریش کی جاسوسی کےلئے مشن کی قیادت دے کر بھیجا ۔ ایک اور موقع پر آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے ابو سلمہ بن عبدالامر کو 150 آدمیوں کے دستے پر امیر بنا کر بھیجا اور آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اسے ایک جھنڈا بھی عطا کیا اس دستے میں چند بہترین مسلمان جنگ جو بھی شامل تھے۔ اس میں ابو عبیدہ بن جراح ،سعد بن ابی وقاص اور اس اسد بن حضیر بھی شامل تھے۔
نبی پاک صلٰی اللہ علیہ وسلم نے فقط تیرہ سالہ مدنی زندگی میں ریاست اسلامیہ کے دفاع اور پھیلاؤ کے لئے 27 غزوات اور 35 سرایہ کییں اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے
جہاں تک مجلس امت کا تعلق ہے جس کا کام مشورہ دینا اور ھکمرانوں کا محاسبہ کرنا ہے رسول اللہ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کوئی مستقل مجلس امت قائم نہیں کی لیکن صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نے جب بھی ضرورت محسوس کی مسلمانوں سے مشورہ کیا آپ صلٰی اللہ علیہ والیہ وسلم نےغزوہ احد میں مسلمانوں کو جمع کیا اور ان سے مشورہ لیا اور کیئ اور موقعوں پر ایسا ہی کیا ۔آپ عموما لوگوں سے مشورہ لیتے تھے اور چند اصحاب کو تو بلحصوص بلا کر باقاعدگی سے مشورہ لیتے تھے ۔یہ اصحاب لوگوں کے سردار سمجھے جاتے تھے یہ حمزہ ،ابوبکر ،جعفر، عمر علی ،عبداللہ بن مسعود ،سلمان ،عمار،خذیفہ ،ابو زر ، المقداد اور بلال رضوان اللہ اجمعین تھےیہ رسول اللہ کی باقاعدہ مجلس شوری تھی ۔۔۔
صنعت حرفت کی ترویج بھی ایک یقینی عمل تھا آپ نے اصحاب کی ایک جماعت کو شام روانہ کیا کہ وہ ہتھیار سازی کی صنعت کے بارے معلومات حاسل کریں۔۔۔۔
باقی آئندہ۔۔
وسلام