فاروق سرور خان نے کہا:
تعصب کا کوئی علاج نہیں۔ تعصب برتا جاتا ہے لوگوں سے، اصولوں سے نہیں۔ ملا اپنی ذاتی خوہشوں کی تکمیل میں اس قدر مگن رہے کہ ایک عدد ترتیب وار دفعات کے ساتھ ایک آئین یا قانوں کی کتاب بھی پیش نہیںکرسکے۔
ایک علمی سوال:
ترتیب وار دفعات کے ساتھ آئین یا قانون لکھنے کا آغاز کون سے سن میں ہوا تھا اور سب سے پہلے یہ طریقہ کس نے کون سے ملک میں اختیار کیا؟ علماء نے اس موضوع پر چودہ سو سال میں جو کام کیا اس کی ایک جھلک شاکر صاحب کی بتائی ہوئی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دس جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں فقہ کی ان کتابوں کو بنیاد بنایا گیا ہے جو علماء نے پہلے سے ترتیب دے رکھی تھیں۔ فرید احمد کئی کتابوں کے نام گنوا چکے ہیں۔ اگر آپ کھوج نکال سکیں کہ قانون کو ترتیب وار دفعات کے ساتھ لکھنے کا رواج کب ہوا تو بہت سے الجھنیں دور ہو جائیں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ کتابوں کو اس طریقے پر مرتب کرنے کا رواج اب شروع ہوا ہے۔ سابقہ ادوار میں یہ تقسیم ابواب کے لحاظ سے کی جاتی تھی۔ یعنی ہر باب میں اس سے متعلقہ مسائل بغیر کسی ترقیم کے جمع کر دیے جاتے۔
یہ بنیادی بات سمجھنے کے بعد فقہ کی کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ مجھے امید ہے آپ کی غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ اب مسئلہ رہ جاتا ہے ان کی ترقیم کا، سو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اسی طرح بعض قدیم فقہی مسائل کی جگہ کچھ نئے مسائل نے لے لی ہے۔ ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے لیکن بہرحال یہ کام ان لوگوں کے کرنے کا ہے جو قرآن و حدیث اور دیگر متعلقہ علوم میں مہارت رکھتے ہیں۔
آپ نے ماشاءاللہ تاریخ کا خوب مطالعہ کر رکھا ہے، براہ مہربانی میری معلومات میں اضافہ فرمائیے کہ خلفائے راشدین نے قوانین کی جو کتابیں دفعات کے ساتھ مرتب کی تھیں وہ کہاں دستیاب ہو سکتی ہیں۔
فاروق سرور خان نے کہا:
1400 سال میں شخصیت پرستی کا جو چسکا ان کو لگا ہے، کہ انسانوں کو "مولانا" یعنی "میرا مولا" ، کہتے ان کی زبان نہیںتھکتی۔ لہذا تعصب کے مجرم بھی وہی قرار پائیں گے جو ہر معاملے کو شخصی تناظر میں ملاحظہ فرماتے ہیں۔
میری ایک ایسی پوسٹ کی نشاندہی فرما دیں جس میں کسی انسان کو میں نے “مولانا” کہا ہو۔میں تو ایک علمی سوال سامنے رکھا تھا اس کے جواب میں اس طرح الزام تراشی کی توقع نہ تھی۔ شاید آپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ قرآن کریم میں لفظ “مولا” کن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ التحریم میں ہے:
فان اللہ ھو مولٰہ و جبریل و صالح المومنین
“تو اللہ ہی اس (نبی) کا مولا ہے اور اس کے بعد جبریل اور تمام اہل ایمان”
اس بارے میں دوسری آیات اور احادیث کو دیکھنے کے بعد میں احتیاط اسی میں سمجھتا ہوں کہ کسی انسان کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا مستحسن نہیں ہے۔ لیکن “اہل قرآن” ہونے کے ناتے آپ کو ان لوگوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے جو اس آیت کی روشنی میں کسی کو “مولانا” کہنا درست سمجھتے ہیں۔
فاروق سرور خان نے کہا:
وقت آگیا ہے کہ اصولوںپرستی، قانون پرستی اور آئین پرستی کے اطوار اپنائے جائیں۔ شخصیت پرستی ختم کی جائے کہ قابل پرستش ذات صرف اللہ کی ہے، انسانوں کی پرستش ہمارے مذہب میں حرام ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ ناظم صاحب اس پوسٹ کو “سوال گندم، جواب چنا” والے تھریڈ میں منتقل کر دیں۔ میں نے کس انسان کی پرستش کی دعوت دی تھی یا میرے کس جملے سے شخصیت پرستی مترشح ہو رہی ہے؟ شخصیت پرستی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کے سامنے اللہ کا قرآن یا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان بیان کیا جائے اور وہ سنانے والے سے کہہ دے کہ میں تیری بات ماننے پر تیار نہیں ہوں اس لیے کہ میں شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا۔ یہ شخصیت پرستی نہیں اللہ کی پرستش سے انکار ہے۔ ایسا سمجھنے والے انسان کو غور کرنا چاہیے کہ ایک بہت بڑا بت اس کے اپنے نفس کے اندر چھپا ہوا ہے جس کے آگے وہ سجدہ ریز ہے، جہاں سر اطاعت خم کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہو، وہاں جھک جانا بت کے آگے جھکنا نہیں، اللہ کے آگے جھکنا ہے۔ البتہ جو شخص اس بنا پر حق سے انکار کرتا ہے کہ وہ اس کے خودساختہ فلسفوں اور ذہنی بھول بھلیوں سے ٹکراتا ہے وہ دراصل اللہ کے آگے جھکنے کی بجائے اپنے بتِ نفس کے آگے جھکتا ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
یہ لوگ یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ اس کو لکھا کس نے ہے ؟یہ ایوب خان کا ہے یا بھٹو کا یا کسی اور کا؟
فاروق سرور خان نے کہا:
ہر شخص نے پہلے اپنے نمائیندے کو ووٹ دیا اور پھر ان نمائیندوں نے ان اصولوںپر حرف صاد کیا۔
میرا سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ اس قانون کو لکھنے والے کون تھے، ان کا ذاتی کردار کیا تھا، انہوں نے کبھی بددیانتی تو نہیں کی، کسی کے خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے تو نہیں ہیں، انہوں نے کبھی جھوٹ تو نہیں بولا، کسی سے دغابازی تو نہیں کی، قرآن کریم سے ان کی واقفیت کا کیا حال تھا، حدیث ِ رسول سے ان کی آشنائی کا کیا عالم تھا وغیرہ۔چلیں یہ باتیں رہنے دیتے ہیں، مجھے صرف اتنا بتا دیا جائے کہ ان میں سے کتنے ایسے تھے جو حقیقی معنوں میں عوام نے منتخب کیے تھے اور ان کی تعداد کیا تھا جو دھونس دھاندلی اور مک مکا سے اسمبلیوں میں پہنچے۔
آپ نے ان کے بنائے ہوئے قانون کو “مذہب” کا درجہ دیا ہے اس لیے یہ سوالات پوچھنا ہمارا حق ہے۔ (واضح رہے کہ میں ان قوانین کی بات نہیں کر رہا جو علماء کے مشورے اور رائے سے بنائے گئے ہیں، میں ان دفعات کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہوں جو “عوام کے حقیقی نمائندوں” نے ترتیب دی ہیں)
فاروق سرور خان نے کہا:
دیکھا جائے تو کچھ مسلمان انسانوں کی اسی طرح پوجا کرتے ہیں، اسی طرح بات مانتے ہیں، اسی طرحان کی ڈاکٹرائن قبول کرتے ہیں، جو صرف اللہ تعالی کا حق ہے
آپ شاید بعض ناواقف مسلمانوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے (آپ اس سے اتفاق کریں گے) کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مغربی ممالک میں یہودی پروفیسروں سے “اسلام”کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور اسی طرح ان کی پوجا کرتے، بات مانتے اور ان کی خود ساختہ ڈاکٹرائن قبول کرتے ہیں۔ دین میں نئے نئے فتنے کھڑے کرتے ہیں اور اپنے اندر چھپے خود ساختہ خدا کی پوجا اسی طرح کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔
خرم نے کہا:
قسیم بھائی کیوںگڑے مردے اکھاڑتے ہیں؟ پاکستان تو ایک "کافرِ اعظم" نے بنایا تھا نا؟
جب اس طرح مردوں کی قبر کشائی کی جائے تو قسیم بیچارا اور کیا کرے؟
فاروق سرور خان نے کہا:
پاکستان نے قانون سازی کے لئے قرآن کا راستہ اختیار کیا اور مجلس شوری کو قانون سازی کا اختیار دیا۔ مولوی، ملا، آیت اللہ اپنے بدترین سیاسی حربوں کے باوجود اس مجلس شوری میں نہیں گھس سکے تو اس کو غیر اسلامی قرار دینے لگے۔
کافرِ اعظم کے فتوے آپ نے پڑھے ہوں گے تو لازمًا یہ بھی جانتے ہوں گے کہ یہ تیراندازی کس کمین گاہ سے ہوتی رہی ہے۔ اشرف علی تھانوی دار العلوم دیوبند کے مہتمم تھے۔ انہوں نے محمد علی جناح صاحب کے حق میں فتوٰی جاری کیا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ جناح صاحب ان سے ملنے بھی گئے تھے۔ ممتاز اہل حدیث عالم عبد اللہ بہاولپوری کی ذمے انہوں نے خود یہ کام لگایا تھا کہ وہ سندھ میں تحریک پاکستان کے لیے کام کریں۔تحریک پاکستان میں جناب شبیر احمد عثمانی کی جدوجہد کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اگر آپ کے خیال میں ملاؤں نے پاکستان کی پیدائش کے بعد اسے اغوا کر لیا تھا تو براہ مہربانی اس مفروضے میں کچھ تبدیلی لے آئیے، یہ افسوسناک واقعہ 1947 سے پہلے وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ گلی گلی میں نعرے لگتے تھے “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ”۔ جناح صاحب کی فرمائش پر پاکستان کا پرچم سب سے پہلے علامہ شبیر احمد عثمانی نے لہرایا تھا۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے کسی کو امید نہ تھی کہ انگریز برصغیر سے نکل جائیں گے۔جنگ عظیم میں ہونے والے بے پناہ جانی اور مالی نقصان نے تمام قابض طاقتوں کو اس درجے کمزور کر دیا کہ چند سال کے اندر اندر انہیں اپنی مقبوضات سے نکلنا پڑا۔1940 ء میں جب قرادرداد پاکستان منظور کی گئی تھی تو سیاسی افق پر کہیں پاکستان کے قیام کے آثار نہ تھے۔اس وقت یہ محض ایک سیاسی رائے تھی جس کی لوگوں اور علماء نے حمایت بھی کی اور مخالفت بھی۔ہر سیاسی رائے کے بارے میں یہی دو طرز عمل سامنے آتے ہیں۔ یہ ہے علماء کے ایک طبقے کا وہ “گناہ کبیرہ” جس کی وجہ سے آج سارے دینی طبقے کو رگڑا جا رہا ہے۔میں یہاں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ “بھائی تاریخ بہت جابر چیز ہوتی ہے سچ کو چھپاتی نہیں۔”
سید مودودی پر پاکستان کی مخالفت کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت جاننے کے لیے ان کے وہ سارے مضامین پڑھیے جو اس وقت انہوں نے لکھے اور بعد میں “مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” کے نام سے شائع ہوئے۔
www.quranurdu.com میں اردو کتب کے کے سیکشن سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔
خرم نے کہا:
اور یہ اسلامی پاکستان کی اصطلاح آپ نے کہاں سے نکال لی؟ پاکستان تو بنا ہی اسلام کے نام پر تھا آپ اسے سن 56 میں مسلمان کر رہے ہیں۔
جناب یہی سوال تو میں نے کیا تھا کہ جب “عوامی نمائندوں” نے آئین مرتب کر کے نہیں دیا تھا اور بقول فاروق صاحب “٘مذہب” ترتیب نہیں دیا گیا تھا تو اس سے قبل 1400 سو سال مسلمان کس قاانوں پر فیصلے کرتے رہے ہیں۔ میں نے سوال پیش کیا تھا کہ کس آئین کو معیاری تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کو اسلامی یا غیر اسلامی بنانے کی بات کدھر سے نکل آئی؟
خرم نے کہا:
اب آئیے آئین کی طرف۔ آپ آئین کو روتے ہیں، جتنے مطالب اور معانی احادیث اور قرآنی آیات کو پہنائے جاتے ہیں اگر اللہ کا وعدہ نہ ہوتا تو ہم تو نعوذ باللہ قرآن کو ہی بدل چکے ہوتے۔ خودکش حملے ہوں کہ ریاست کے اندر ایک ریاست کہ لاقانونیت اور جہالت پر اصرار سب کا جواز ہمارے "علماء" قرآن اور حدیث سے ہی ثابت کرتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے بنی اسرائیل کے علماء کرتے تھے۔۔
خود کش حملوں کے بارے میں علماء کا موقف میں بارہا بیان کر چکا ہوں لیکن کلام نرم و نازک بے اثر۔ احادیث اور قرآنی آیات سے مختلف مطلب تو نکالے جا ہی رہے ہیں، آئین پاکستان کی حالت بھی مختلف نہیں ہے۔ شیر افگن نیازی، شریف الدین پیرزادہ اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کی تشریحات سے آپ واقف ہوں گے۔قبائلی علاقوں کے چند لوگوں کی غلطی کی سزا میں سارے علماء کو رگڑا جا سکتا ہے تو کیوں کہ یہی کلیہ آئین پاکستان اور جمہوریت کے لیے بھی استعمال کیا جائے۔
خرم نے کہا:
یہی بات ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے اس دھاگہ پر سوال کئے گئے لیکن حسب توقع جو بات گفتنی تھی وہی ناگفتنی رہ گئی۔
یہی بات میں نے پہلی پوسٹ میں کہی تھی کہ آپ لوگوں کے اٹھائے ہوئے اکثر سوالوں کا نتیجہ بالآخر یہی نکلتا ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آپ کو بھی اس کا ادراک ہے۔ بہتر ہو گا کہ بحث برائے بحث کے نت نئے دروازے کھولنے کی بجائے اپنی توانائیاں کسی مفید کام میں خرچ کریں۔ نبیل بھائی نے بھی اس صورتحال پر پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
خرم نے کہا:
ہاں علماء کے برعکس مشائخ نے پاکستان کے قیام کی بھرپور حمایت کی اور آج بھی کبھی کسی پیر خانے سے پاکستان کے خلاف نہ کوئی بیان آیا نہ کبھی انہوں نے اس کی سالمیت کو نقصان پہنچانے والی کسی حرکت کی حمایت کی۔
قرآن کریم میں علماء کا ذکر تو موجود ہے۔
انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٰوءا (فاطر)
لیکن یہ مشائخ کیا چیز ہوتی ہے؟ اسلام کے خلاف جو سازش علامہ اقبال کے بقول ابلیس کی مجلس شوریٰ میں تیار ہوئی اور اس سازش کو کامیاب کرنے کے لئے ابلیس نے اپنے ساتھیوں کو یہ مشورہ دیا کہ
مست رکھو ذکر وفکر و صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
خرم نے کہا:
اگر یہی مُلا لوگوں کو کہے کہ سچے کو ووٹ دو، رشوت نہ دو، ملاوٹ نہ کرو، زکوٰۃ دو، اقرباء پروری نہ کرو تو یہ لوگ پھر بھی اس کی بات سُنیں گے نا؟ آخر آج بھی تو اس کی بات مان کر دھماکے کر رہے ہیں، ہتھیار اٹھا رہے ہیں، خون بہا رہے ہیں۔ لیکن مُلا ایسا کبھی کہے گا نہیں کیونکہ اس کی منزل اصلاح نہیں اقتدار ہے۔ وہ اس آگ پر تیل ڈالے گا اور اسے ہوا دے گا، بُجھائے گا نہیں۔ دہشت گردی کو دین کا لبادہ تو انہی مُلاؤں نے پہنایا ہے نا اور ان کے اس چلن سے لوگوں کو نہ تو انصاف ملے گا اور نہ آزادی کہ جو برتن کے اندر ہو وہی باہر آتا ہے۔
شاید آپ کے نزدیک متحدہ مجلس عمل ایک سیکولر جماعت ہے، اس میں کوئی ملا ہے نہ عالم۔ جمہوری ملاؤں اور قبائلی ملاؤں کا موازنہ کرتے وقت آپ اپنا وضع کردہ اصول فراموش کر دیے ہیں کہ “ان کی تعداد کتنی ہے”۔