شرعی ڈی این اے

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
العلماء ورثۃ الانبیاء۔۔۔ یہ کسی "ملا" کی کہاوت نہیں ہے۔۔۔ بلکہ ہمارے آقا و مولیٰ (مولیٰنا؟؟) کا قولِ اقدس ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔

دین اور سائنس کی بحث نئی بحث نہیں ہے۔ یہ شاید صدیوں پرانی ہے، اچھی بات ہے کہ ہمارے یہاں یہ بحث ہو رہی ہے۔ کم از کم کھرے اور کھوٹے تو الگ ہوجائیں گے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ (کھرے اور کھوٹے کی جگہ گدھے اور گھوڑے لکھنا چاہ رہا تھا)۔
دین ہم تک پہنچانے والے علماء کو گالیاں دے کر کیا ملے گا بے دینی کے سوا؟ لفظ ملا ماضی میں بہت پڑھے لکھے شخص کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا، علامہ کے مترادف کے طور پر۔ اگر اقبال کی ہرزہ سرائی (دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد) کو درست سمجھا جائے تو خود اقبال بھی ملا ثابت ہوتا ہے اگر ملا کا لفظ عمومی (generic) لیا جائے تو، کہ اسے آج دنیا "علامہ" کہتے نہیں تھکتی۔
مزید یہ کہ جو لوگ مفتی منیب الرحمٰن پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے پر مصر ہیں تو انہیں چاہیے کہ اس الزام سے توبہ کریں اور جھوٹ نہ بکیں۔ مفتی منیب الرحمٰن نہ صرف ٹیکنولوجی کا استعمال کرتے ہیں، بلکہ رویتِ ہلال کمیٹی ملک کی مین اسٹریم سائنس اور فزکس کی تحقیقاتی لیبز (جامعہ کراچی، محکمۂ موسمیات، سپارکو) کو ساتھ لے کر بلکہ ان کے شانوں پر کھڑی ہو کر چاند دیکھتی ہے۔ مسجد قاسم کے مٹھی بھر لوگوں کے برسوں پرانے واویلے پر اپنے علماء پر کیچڑ اچھالنے والوں کی قیامت کے روز سخت پکڑ ہوگی ان شاء اللہ۔ ایک سنت کو زندہ رکھنے کے لیے کام کرنے والوں کو برا کہنے والو تم کس کو برا کہہ رہے ہو؟ کیا یہ کیچڑ تم بلاواسطہ اللہ کے نبی پر تو نہیں اچھال رہے؟
اور اب آتے ہیں اس شرعی ڈی این اے پر۔ مجھے نہ سائنس دان ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ملا۔ میں صرف وہ سوال نیک نیتی سے پیش کرنا چاہ رہا ہوں جس سے موضوع صحیح سمت میں اعتدال کے ساتھ آگے بڑھے۔

جزاک اللہ خیرا ، بات دراصل یہی ہے ۔
میں نے کل عرض کیا تھا کہ یہاں موضوع صرف اتنا ہے کہ ڈی این اے کو "حتمی ناقابل تردیدشہادت" سمجھا جائے یا نہیں ۔ اب بات واضح ہو چکی ہے کہ نہ تو ججز اس کو حتمی شہادت مان رہے ہیں نہ ہی علماء ۔اگر علماء کو برا بھلا کہا جا رہا ہے تو ججز کو بھی کہیے یہ آنا کانی کیوں ؟ مزید آگے چلیے یورپ و امریکا کے قانونی ماہرین نے اب تک ڈی این اے کو سجدہ اطاعت نہیں کیا تو ان کی جہالت کے قصیدے بھی پڑھنے چاہیئیں لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی ۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا اصل موقف خبروں میں آپ سب نے دیکھ لیا ، انہوں نے ڈی این اے ٹیسٹ کو حتمی شہادت ماننے کی بجائے مدد گار شہادت کے طور پر قبول کیا ہے ۔ گویا اس کو شواہد میں شمار کیا جائے گا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ محمد حنیف کا کالم صرف جھوٹا پراپیگنڈا ہے ۔

اب اگر پبلک فورم پر بیٹھے عوام الناس میں کسی کو ناقابل تردید شہادت یا انفالیبل ایویڈنس کی اہمیت نہیں معلوم تو اس میں علماء ، ججز اور قانونی ماہرین کا کیا قصور ؟ یہ آج دوپہر کا مینیو نہیں کہ ٹینڈے نہیں تو بینگن پکا لیں ۔ یہ قانونی مسئلہ ہے جو ایک بار طے ہو گا تو کئی کیسز کے فیصلے پر اثرانداز ہو گا ۔


1- جو لوگ اس موضوع پر مذہب اور علماء کے ساتھ ہیں ان سے گذارش ہے کہ حدیث سے ایسے واقعات سے ہمیں آگاہ کریں کہ جس میں زنا بالجبر اور اس کے عدل و سزا کا ذکر ہو۔
2-حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کا اس جرم کے بارے میں کیا ردِ عمل تھا؟ کیسے وہ اسے ڈیل کرتے تھے؟
3- کیا گواہان کے بغیر زنا بالجبر کی شکار عورت انصاف حاصل نہ کر سکتی تھی اس دور میں؟ اور کیا حدیث میں روایت کردہ کسی واقعے میں زنا بالجبر کے گواہان موجود بھی تھے؟
میں نے کل ہی عرض کیا تھا کہ یہ ڈی این اے کو ثبوت ماننے سے بالکل الگ بحث ہے ۔ میں اس پر اسلامی تعلیمات سیکشن میں لکھنا پسند کروں گی ۔ مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگوں نے خلاف واقعہ باتیں کی اور دوسروں نے ہاں میں ہاں ملائی جو غلط ہے ۔ پاکستانی قوانین اور شرعی قوانین کا کوئی بھی ماہر آپ کو بتائے گا کہ یہاں بالکل غلط بات کی گئی :
صحیح اگر ایک عورت کو ریپ کیا گیا ہے۔۔۔ وہ دس لوگوں کو گواہ بنا کر نہیں کیا جاتا۔۔ اور اگر لوگ موجود تھے تو وہ بھی اس عمل میں شریک تھے۔۔ اپنے خلاف وہ گواہی دینے سے رہے۔۔۔
تو اس عورت کو کیا انصاف ملنا چاہیے۔۔۔
وہ چار لوگ کہاں سے لائے گی گواہی کے لیے جہنوں نے ایسا ظلم ہوتے دیکھا۔۔۔ اگر ایسے لوگ ہوتے تو وہ اس کو بچا لیتے۔۔۔ کیا اسلام میں ایسی عورت کے لیے انصاف نہیں ؟؟؟
شرط یہ ہے کہ یہ چار لوگ وہ ہوں جو صادق ہوں یعنی جھوٹ نہ بولتے ہوں اور انہوں نے یہ سارا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور گواہی بھی دیں
اور اگر کوئی خاتون ایسا مقدمہ درج کرائے اور اس پر "اسلامی" دفعات لگوائے ریپ کے اور ثابت نہ کر سکے تو قذف کی سزا اسی عورت کو ملے گی۔ یعنی چار گواہ اگر نہ جمع ہو سکے تو وہی سزا اسی خاتون کو۔ تھینکس ٹو ضیاء الحقس اسلامائزیشن
مقدس نے ایک سادہ سوال پوچھا تھا لیکن حیرت اور افسوس ہے کہ قیصرانی نے ان کو بالکل الگ بات کی طرف گائیڈ کیا ۔ کون کہتا ہے کہ عورت کو چار گواہ پیش کرنا ہوتے ہیں ؟ خود پاکستان میں ایسے کیسز میں صرف واقعاتی شواہد کی بنا پر مجرموں کو پھانسی کی سزائیں ہوئی ہیں ۔ ایک پبلک فورم پر یہ بات کہی جا سکتی ہے لیکن آپ ساری عمر اس کو ثابت نہیں کر سکتے ۔ کئی ممبر ہیں جن سے ایسی بات ہو تو انسان اگنور کرتا ہے لیکن قیصرانی آپ کو یہ بات کرتے دیکھ کر بہت حیرت ہوئی ۔
 

طالوت

محفلین
العلماء ورثۃ الانبیاء۔۔۔ یہ کسی "ملا" کی کہاوت نہیں ہے۔۔۔ بلکہ ہمارے آقا و مولیٰ (مولیٰنا؟؟) کا قولِ اقدس ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔

دین اور سائنس کی بحث نئی بحث نہیں ہے۔ یہ شاید صدیوں پرانی ہے، اچھی بات ہے کہ ہمارے یہاں یہ بحث ہو رہی ہے۔ کم از کم کھرے اور کھوٹے تو الگ ہوجائیں گے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ (کھرے اور کھوٹے کی جگہ گدھے اور گھوڑے لکھنا چاہ رہا تھا)۔

میرا خیال ہے اس موضوع میں مراسلت کرنے والے دونوں گروہ انتہاؤں پر ہیں، دونوں کو معتدل ہونے کی ضرورت ہے۔ اعتدال کی صرف یہیں نہیں، ہمیں من حیث القوم ضرورت ہے۔ نہ دین برا ہے اور نہ ہی سائنس۔

دین ہم تک پہنچانے والے علماء کو گالیاں دے کر کیا ملے گا بے دینی کے سوا؟ لفظ ملا ماضی میں بہت پڑھے لکھے شخص کے لیے استعمال ہوا کرتا تھا، علامہ کے مترادف کے طور پر۔ اگر اقبال کی ہرزہ سرائی (دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد) کو درست سمجھا جائے تو خود اقبال بھی ملا ثابت ہوتا ہے اگر ملا کا لفظ عمومی (generic) لیا جائے تو، کہ اسے آج دنیا "علامہ" کہتے نہیں تھکتی۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ ڈیزل سے چلنے والی مخلوق اور طاہر اشرفی جیسوں کو علماء اور ملاؤں کی فہرست میں شامل کرنے میں مجھے عار ہے۔

مزید یہ کہ جو لوگ مفتی منیب الرحمٰن پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ ننگی آنکھ سے چاند دیکھنے پر مصر ہیں تو انہیں چاہیے کہ اس الزام سے توبہ کریں اور جھوٹ نہ بکیں۔ مفتی منیب الرحمٰن نہ صرف ٹیکنولوجی کا استعمال کرتے ہیں، بلکہ رویتِ ہلال کمیٹی ملک کی مین اسٹریم سائنس اور فزکس کی تحقیقاتی لیبز (جامعہ کراچی، محکمۂ موسمیات، سپارکو) کو ساتھ لے کر بلکہ ان کے شانوں پر کھڑی ہو کر چاند دیکھتی ہے۔ مسجد قاسم کے مٹھی بھر لوگوں کے برسوں پرانے واویلے پر اپنے علماء پر کیچڑ اچھالنے والوں کی قیامت کے روز سخت پکڑ ہوگی ان شاء اللہ۔ ایک سنت کو زندہ رکھنے کے لیے کام کرنے والوں کو برا کہنے والو تم کس کو برا کہہ رہے ہو؟ کیا یہ کیچڑ تم بلاواسطہ اللہ کے نبی پر تو نہیں اچھال رہے؟

اور اب آتے ہیں اس شرعی ڈی این اے پر۔ مجھے نہ سائنس دان ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ملا۔ میں صرف وہ سوال نیک نیتی سے پیش کرنا چاہ رہا ہوں جس سے موضوع صحیح سمت میں اعتدال کے ساتھ آگے بڑھے۔

1- جو لوگ اس موضوع پر مذہب اور علماء کے ساتھ ہیں ان سے گذارش ہے کہ حدیث سے ایسے واقعات سے ہمیں آگاہ کریں کہ جس میں زنا بالجبر اور اس کے عدل و سزا کا ذکر ہو۔
2-حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کا اس جرم کے بارے میں کیا ردِ عمل تھا؟ کیسے وہ اسے ڈیل کرتے تھے؟
3- کیا گواہان کے بغیر زنا بالجبر کی شکار عورت انصاف حاصل نہ کر سکتی تھی اس دور میں؟ اور کیا حدیث میں روایت کردہ کسی واقعے میں زنا بالجبر کے گواہان موجود بھی تھے؟
بس تو پھر "تیرا ملا میرا ملا" ہی رہ گیا۔اور یہ نیلی روشنائی میں بڑی جسارت ہے ، اس سے گریز کیا کریں۔
اور اقبال کی تو خیر کیا کہیں علامہ کہنے والے اپنے دل کی تسلی کرتے ہیں ورنہ وہ بھی کیا ملائیت کے نزدیک کافر اعظم سے کم تھے ؟
 
بات ٹیسٹ کی حقیقت کی نہیں ہو رہی۔۔۔ ۔۔۔ ۔
بات اسلامی سزا کی بنیادی شہادتوں کی ہو رہی ہے۔۔۔ ۔۔۔
ایک بنیادی نوعیت کے مسئلے کو خواہ مخواہ علمیت اور جہالت کے پلڑوں میں تولنے سے پہلے ذرا اپنے معاشرے کے گریبان میں جھانک لیجئے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
مجھے کسی ملا یا مولوی کی طرفداری کا کوئی شوق نہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ نہ ہی ٹیکنالوجی سے کوئی بیر ہے۔۔۔ ۔۔۔
لیکن جب بات اسلامی شریعت کے بنیادی نوعیت کے مسائل کی ہو تو کسی ایک واقعے کو بنیاد بنانے کی بجائے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ وسیع الذہنی سے اجتہاد کیا جاتا ہے۔۔۔
جزاک اللہ خیرا ۔
 

محمد امین

لائبریرین
بس تو پھر "تیرا ملا میرا ملا" ہی رہ گیا۔اور یہ نیلی روشنائی میں بڑی جسارت ہے ، اس سے گریز کیا کریں۔
اور اقبال کی تو خیر کیا کہیں علامہ کہنے والے اپنے دل کی تسلی کرتے ہیں ورنہ وہ بھی کیا ملائیت کے نزدیک کافر اعظم سے کم تھے ؟


تیرا ملا میرا ملا کی بات نہیں۔ میں نے "اپنے علماء" لکھا، اسلئے کہ رویتِ ہلال کمیٹی میں کم و بیش سارے فرقوں کے علماء شامل ہوتے ہیں۔
 
تیرا ملا میرا ملا کی بات نہیں۔ میں نے "اپنے علماء" لکھا، اسلئے کہ رویتِ ہلال کمیٹی میں کم و بیش سارے فرقوں کے علماء شامل ہوتے ہیں۔
متفق ۔ اور اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی سارے مکتب فکر کے اہل علم ہوتے ہیں ، کبھی کبھی بزور مسلط کردہ ملحد بھی شامل ہوتے ہیں ۔
 

ابن جمال

محفلین
بات نہایت سادہ سی ہے کہ
زناکی سزااسلام نے کیارکھی ہے۔
اگردونوں نے رضامندی سے کیاہے اورچارگواہ اس عمل کی گواہی دیتے ہیں تو شادی شدہ ہونے کی صورت میں دونوں کو رجم کردیاجائے گا۔
اگردونوں غیرشادی شدہ ہیں تو دونوں کو سوکوڑے اورحنفیہ کے یہاں جج کی صوابدید پر ایک سال کی جلاوطنی بھی ہوسکتی ہے۔
اگربالجبر کی صورت حال ہے تو مظلوم فریق کو اس سلسلے میں کوئی سزانہیں ہوگی اورزبردستی کرنے والااگرشادی شدہ ہے تورجم اوراگرغیرشادی شدہ ہے تو پھرسوکوڑے اورحنفیہ کے یہاں حاکم کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس کو ایک سال کیلئے جلاوطن کردے۔
ایک صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کسی خاتون سے زبردستی کی گئی اوراس کے پاس چارگواہ نہیں ہیں ۔چارگواہ نہ ہونے کی صورت میں دویاگواہ ہونے کی صورت میں بھی اس کو حد شرعی نہ ہوکر دوسری سزائیں تعزیرادی جاسکتی ہیں جس میں قید،چالیس کوڑے سے کم کی مار،اوردیگر سزائیں شامل ہیں جس میں ملزم کے گھر کو مسمار کرنابھی ہے۔
لیکن یہ واضح رہے کہ ہرجرم کیلئے ثبوت اورگواہ ضروری ہوتے ہیں چاہے یہ ثبوت گواہوں کی صورت میں ہوں یاپھرواقعاتی شہادتیں ہوں اورقاضی کو ان پر اطمینان ہوجائے تو وہ تعزیراسزادے سکتاہے ۔اس صورت میں اگرچہ حد شرعی مجرم پر نافذ نہیں کیاجاسکتالیکن اس سے کمتر پر سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
اس سلسلے میں کچھ حوالے ملاحظہ ہوں۔
قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَيُعَزَّرُ مَنْ شَهِدَ شُرْبَ الشَّارِبِينَ وَالْمُجْتَمِعُونَ عَلَى شِبْهِ الشُّرْبِ وَإِنْ لَمْ يَشْرَبُوا، وَمَنْ مَعَهُ رِكْوَةُ خَمْرٍ وَالْمُفْطِرُ فِي رَمَضَانَ يُعَزَّرُ وَيُحْبَسُ، وَكَذَا الْمُسْلِمُ يَبِيعُ الْخَمْرَ وَيَأْكُلُ الرِّبَا. وَالْمُغَنِّي، وَالْمُخَنَّثُ، وَالنَّائِحَةُ يُعَزَّرُونَ وَيُحْبَسُونَ حَتَّى يُحْدِثُوا تَوْبَةً، وَمَنْ يُتَّهَمُ بِالْقَتْلِ وَالسَّرِقَةِ يُحْبَسُ وَيُخَلَّدُ فِي السِّجْنِ إلَى أَنْ يُظْهِرَ التَّوْبَةَ، وَكَذَا مَنْ قَبَّلَ أَجْنَبِيَّةً أَوْ عَانَقَهَا أَوْ مَسَّهَا بِشَهْوَةٍ. اه۔. (قَوْلُهُ فَيُعَزَّرُ بِشَتْمِ وَلَدِهِ) فِيهِ كَلَامٌ لِصَاحِبِ الْبَحْرِ تَقَدَّمَ فِي حَدِّ الْقَذْفِ (قَوْلُهُ وَكُلُّ مَنْ لَيْسَ بِمُحْصَنٍ) أَيْ إحْصَانِ الْقَذْفِ ط. وَحَاصِلُهُ أَنَّ مَنْ لَمْ يُحَدَّ قَاذِفُهُ لِعَدَمِ إحْصَانِهِ يُعَزَّرُ قَاذِفُهُ، فَلَا يَلْزَمُ مِنْ سُقُوطِ الْحَدِّ لِعَدَمِ الْإِحْصَانِ سُقُوطُ التَّعْزِيرِ (قَوْلُهُ وَيَبْلُغُ بِهِ غَايَتَهُ) أَيْ تِسْعَةً وَثَلَاثِينَ سَوْطًا وَهَذَا مَعْطُوفٌ عَلَى قَوْلِهِ فَيُعَزَّرُ، وَمُقْتَضَاهُ بُلُوغُ الْغَايَةِ فِي شَتْمِ وَلَدِهِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ (قَوْلُهُ مُحَرَّمًا غَيْرَ جِمَاعٍ) الَّذِي فِي الْفَتْحِ وَالْبَحْرِ وَغَيْرِهِمَا: كُلُّ مُحَرَّمٍ غَيْرِ جِمَاعٍ. وَمُفَادُهُ أَنَّهُ لَا يَبْلُغُ الْغَايَةَ بِمُجَرَّدِ لَمْسٍ أَوْ تَقْبِيلٍ، وَهُوَ خِلَافُ مَا يُفِيدُهُ كَلَامُ الشَّارِحِ (قَوْلُهُ وَفِيمَا عَدَاهَا) أَيْ مَا عَدَا هَذِهِ الْمَوَاضِعَ الثَّلَاثَ لَا يَبْلُغُ غَايَةَ التَّعْزِيرِ، وَاقْتَصَرَ عَلَيْهَا تَبَعًا لِلْبَحْرِ. وَلَعَلَّهُ مَبْنِيٌّ عَلَى الْقَوْلِ الْمَرْجُوحِ مِنْ أَنَّ لِلْقَاضِي أَنْ يَقْضِيَ بِعِلْمِهِ تَأَمَّلْ (قَوْلُهُ بِلَا بَيَانِ سَبَبِهِ) مِثْلُ أَنَّهُ فَاسِقٌ، وَهَذَا تَفْسِيرٌ لِقَوْلِهِ مُجَرَّدًا. وَاحْتُرِزَ بِهِ عَمَّا لَوْ بَيَّنَ سَبَبًا شَرْعِيًّا كَتَقْبِيلِ أَجْنَبِيَّةٍ كَمَا ذَكَرَهُ بَعْدُ.

اگرفقہ کی کتاب التعزیر کا مطالعہ کیاجائے تو یہ واضح رہے گاکہ شریعت اسلامیہ اس معاملے میں خود کفیل ہے اوراس کا نظام وجزائ وسزابہت عمدہ اورمستحکم بنیادوں پر ہے۔اوراس میں تمام فریقوں کا خیال رکھاگیاہے اورکسی بھی فریق کی نہ طرفداری ہے اورنہ جانبداری۔والسلام
 
اسلامی نظریاتی کونسل کے اس عجیب اور مبہم سے فیصلے کو کھینچ تان کردفاع کرنے والے براہِ کرم اس بات کا جواب دے دیں کہ مذکورہ کالم میں بیان کردہ واقعہ (مزارِ قائد پر ہونے والا ریپ) میں مطلوم عورت کا یہ مفتیانِ کرام انصاف کس طرح دلوا سکتے ہیں؟ 4 گواہ تو بیچاری کو میسر آنہیں سکے، اب طبی معائنے اور ڈی این اے ٹیسٹ سے کچھ سراغ ملنے کی امید تھی لیکن ملا مصر ہے کہ نہیں میں ایسا نہیں ہونے دونگا(کیونکہ مجھے جو کتب پڑھائی گئی ہیں ان میں یہ مسئلہ کہیں نہیں لکھا)۔ اب پھر اس مسئلے کا کیا حل ہے جناب؟
 

فرقان احمد

محفلین
تفتیش کا طریقہ کار بہتر بنانا چاہیے۔ وگرنہ ڈی این اے، گواہان یا دیگر شہادتوں کے حصول سے بھی انصاف ملنے کی امید کم ہی ہو گی۔ ملزم کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا جائے کہ اعترافِ جرم کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ کار نہ رہے۔
 
اگرفقہ کی کتاب التعزیر کا مطالعہ کیاجائے تو یہ واضح رہے گاکہ شریعت اسلامیہ اس معاملے میں خود کفیل ہے اوراس کا نظام وجزائ وسزابہت عمدہ اورمستحکم بنیادوں پر ہے۔اوراس میں تمام فریقوں کا خیال رکھاگیاہے اورکسی بھی فریق کی نہ طرفداری ہے اورنہ جانبداری۔والسلام
محترم۔۔جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ زنا بالجبر کے ملزم پر چار گواہوں کی عدم موجودگی پر حد لاگو ہونی چاہئیے یا تعزیر۔۔۔مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ڈی این اے رپورٹ جیسی اہم forensic شہادت کو نظر انداز کردیا جائے؟ اسلامی فقہ کی کونسی ایسی شق ہے جو ڈی این اے ٹیسٹ کو یکسر ناقابلِ اعتبار قرار دیتی ہے؟ غلطی کا امکان تو انسان کے ہر کام میں ہوتا ہے۔ یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ ڈی این اے کے ریزلٹس میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے، غلطی کی گنجائش کس کام میں نہیں ہے؟ یا پھر یوں کہیں کہ دنیا کا ہر فرد، ہر کام میں غلطی کرسکتا ہے لیکن مولوی صاحبان سے اسکا صدور ہونا ناممکن ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
پتا نہیں کیوں اس بحث کو اتنا طول دیا جا رہا ہے، کچھ لوگ جان بوجھ کر ایک بے بنیاد انسان کے بے وقوفانہ کالم کی بنیا د پر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں اور کچھ لوگ ایسے لوگوں کی کج روی پر خواہ مخواہ کڑھ رہے ہیں:) بات بالکل واضح ہے جس کے لیے اتنی لمبی چوڑی بحث کا میدان سجایا گیا۔۔۔۔۔! یہاں میں کچھ اشاریے واضح کروں گا جو بات کو سمجھنے کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے اور ابہام دور ہو جائے گا۔۔۔۔۔!
1۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا بلکہ ڈی این اے پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے ایک شہادت کے طور پر قبول کیا ہے جو بالکل درست طرز عمل ہے۔ اس کی بنیاد پر سزا بھی دی جاسکتی ہے اب مزید کس طرح ڈی این اے کو سند بخشی جائے:)
2۔ زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں بہت سا فرق ہے زنا بالرضا میں دونوں فریقین کو سزا ہوتی ہے مگر اسکے لیے فریقین کا خود اپنے ضمیر سے شرمندہ ہو کر اقرار کرنا اور خود کا سزا کےلیے پیش کرنا ضروری ہے یاپھر اگر کوئی تیسرا فریق ان پر الزامات لگاتا ہے تو اس کے لیے کڑی شرط ہے کہ وہ چار عادل گواہان کو پیش کرے۔
3۔ ہمارا موضوع زنا بالجبر ہے اور اسی کے سلسلے میں بہت سے محفلین کو تحفظات ہیں خاص کر محترم مقدس بہت الجھی ہوئی لگتی ہیں۔۔۔۔۔ تو عرض یہ ہے کہ زنا بالجبر میں متاثرہ فریق (مرد ہو یا عورت) کسی طرح بھی سزا کا مستحق نہیں (حضرت یوسف علیہ سلام کی مثال۔۔) اور مکمل انصاف کا حق رکھتا ہے۔ جہاں تک زنا بالجبر میں بھی چار گواہان کا تعلق ہے تو یہ حد جاری کرنے کے لیے ہے (یہاں پر بڑی کنفیوژن یہی ہے کہ آیا کہ گواہان نہ ہونے کی بنیاد پر ملزم باآسانی بچ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔:?: ) اگر چار گواہان نہ بھی ہوں تو میڈیکل کی شہادتوں (جس میں اب ڈی این اے سرفہرست آ جاتا ہے)، واقعاتی شہادتوں اور باریک بینی سے کی گئی تفتیش اور اسی طرح کے دوسرے عوامل سے اس پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو ملزم کو کڑی سزا دی جا سکتی ہے اور گواہ نہ ہونے سے مجرم کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں (مگر ہمارے ہاں پولیس اور عدالتوں کےگندے طریقہ کار کا سب کو علم ہے) ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اور ملزم کو مرتب کردہ سزا دی جاتی ہے ہمارے ہاں اسے تعزیر کہا جاتا ہے۔ محترم مقدس اس چیز میں ہی الجھی ہیں کہ کیا زنا بالجبر کے ملزم کو سزا نہیں ملتی تو ان کو حد اور تعزیر کے چکر سے باہر نکال کے واضح بتا دوں کہ ایسے کیسز میں ملزم کو سزا ملتی ہے اور عورت پر ہر گز لازم نہیں کہ چار گواہ ہی لائے ، مذکورہ بالا طریقہ کار ملزم کو سزا دلوانے کے لیے کافی ہے اگر ملک میں عدالتیں اثر رکھتی ہوں اور پولیس اہل اور ایماندار ہے ترقی یافتہ ممالک کی طرح۔۔۔۔۔:)
اس کے لیے میں احباب کو موجودہ چلنے والے ڈرامے "فاطمہ گل، آخر میرا قصور کیا" کی کہانی کو پڑھنے کی دعوت دوں گا۔ اس میں فاطمہ گل زنا بالجبر کی شکار ایک عورت کو انصاف فراہم کیا جاتا ہے اور واقعاتی شہادتو ں کی بنیاد پر کیوں کہ ایسے کیسز میں گواہان کا پایا جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کہانی کو پڑھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ایک دلچسپ نکتہ کہ ملزمان کی اس علاقے (جائے وقوعہ)میں موجودگی کے انکار میں ، وقوعہ کے وقت کے، ان کے علاقے کے سگنل چیک کیے جاتے ہیں اور جب متعلقہ ٹاور سے کنفرم کیا جاتا ہے کہ وقوعہ کے وقت ملزمان بیان کردہ ٹاور سے سگنل موصول کر رہے تھے اور متعلقہ ٹاور جائے وقوعہ کے پاس ہی تھا تو اس کو بھی بطور شہادت تسلیم کر لیا جاتا ہے، ڈی این اے توپھر بھی ایک مظبوط اثر رکتھا ہے:)۔۔۔۔۔۔ یہ تو خیر برسبیل تذکرہ بات چل نکلی تو ذکر کر دیا، مقصود یہ تھا کہ ایسے واقعات میں گواہان کے علاوہ باقی طریقوں سے جرم کے ثبوت حاصل کیے جاتے ہیں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے مگر حد کے لیے گواہان لازمی ہیں کیوں کہ حد کوئی نارمل سزا نہیں ہے یہ بہت ہی خوفنا ک سزا ہے کہ جس پر عمل کرانے کے لیے بہت احتیاط برتی گئی ہے، کیا آپ لوگ سو کوڑے مارنے یا زمین میں گاڑ کر پتھر مارنے کی اذیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔! پھر بھی ایسی سزا اس انسان کے لیے ہے جو اللہ کی ہر حد پھلانگ جائے اور سر عام لوگوں کہ پروا کیے بنا سب کچھ جانتے بھوجتے یہ جرم کرے حتٰی کے چار گواہ بھی اس پر گواہی دیں تو ایسے انسان کے لیے پھر یہی حد کی سزا ہے۔۔۔۔۔!:)
شریعت تو اس بات پر سخت سزا دے گی اگر آپ بے حیائی کی تمام حدود کو کراس کرتے ہوئے گناہ چھپ کر اور پوشیدہ طور پر کرنے کی بجائے اعلانیہ اور سب کے سامنے کھلم کھلا کرنے پر آجائیں۔ (بعض مادر پدر آزاد الٹرا لبرل لوگ اس حد تک پہنچ بھی چکے ہیں) چنانچہ اس مائنڈ سیٹ کا سدباب کرنے کیلئے 4 گواہوں کی شرط رکھی گئی ہے اور یہ 4 گواہ اسی صورت میں میسر ہونگے جب کوئی دیدہ دلیری اور بے حیائی کے اس لیول پر چلا جائے کہ اسے خالق تو کیا، مخلوق کی لعنت ملامت کا بھی ڈر نہ رہے، اور یہ کام کھلم کھلا کرنے لگے۔۔قرآن نے اسی extreme بگاڑ کو روکنے کیلئے یہ قوانین عطا کئے ہیں​
باقی زنا بالجبر کی متاثرہ عورت یا مرد ضرور عدالت سے رجوع کرے۔ عدالت گواہان کی عدم موجودگی کے باوجود دوسرے طریقہ کار کے مطابق جرم ثابت ہونے پر مجرم کو تعزیر کی سزا دے گی اور یاد رہے کہ تعزیر کی یہ سزا کچھ کم سزا نہیں ہے بس ایسے سمجھ لیں کہ عدالت سزائے موت کے علاوہ باقی بہت سی قسم کی سزا(عمر قید، جلا وطنی، قید بامشقت، لاکھوں روپے جرمانہ اور عدم ادائیگی پر مزید قید وغیرہ ) دے سکتی ہے اور اس طرح متاثرہ فریق کو انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس میں زنا بالجبر کے متاثرہ فریق کو خاموش رہنے کی ضرورت نہیں اگر اس کو انصاف حاصل کرنا ہے اور اسے پاکستان یا اپنے ملک کے نظام عدل پر یقین ہے تو اسے ضرور بالضرور عدالت سے رجوع کرنا چاہیے جیسا کہ متذکرہ بالا ڈارمے میں فاطمہ گل کو کافی عرصے بعد حصول انصاف کے لیے عدالت سے رجو ع کرنے کی سوجھی اور عدالت نے اسے ویلکم کہا۔۔۔۔۔۔:)
4۔ باقی رہا حنیف صاحب کا تعلق تو ایسے لوگ اپنی روزی روٹی حلال کرنے کے لیے پہلے بھی اسلام میں رخنے تلاش کرتے رہے تھے آج بھی کر رہے ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے ایسے لوگوں کی کسی بھی سمجھدار انسان کے نزدیک کوئی کریڈبیلٹی نہیں ہوتی، ہاں کچھ نادان مسلمان انسان ان کے بہکاوے میں آ کر، ان کے لفظوں کے جال میں الجھ کر وقتی طور پر خود بھی الجھ جاتے ہیں مگر یقین کریں جس نے دل سے محمدعربی:pbuh: کا کلمہ پڑھا ہے وہ کبھی ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا اس کے اندر ایک الارم موجود ہوتا ہے جو اسے ہر وقت احساس دلاتا رہتا ہے کہ سوچ سمجھ کر کہیں تمہارے الفاظ تمہارے گلے کا پھندہ نہ بن جائیں، اللہ کے آگے جوابدہی اور رسول سے ملاقات اسکے مد نظر رہتی ہے اور وہ لوٹ آتا ہے۔ میں متشدد، دین میں خود سے نظریات داخل کرنے والے، دین کو موم کی ناک بنانے والے اور دین کو مذاق بنانے والے، بے عمل (ملا، راہب یا پروہت) کسی بھی انسان کی حمایت نہیں کرتا مگر کچھ ہتھ ہولا ان روشن خیالوں کو بھی رکھنا چاہیے جو مذہب خاص کر مذہب اسلام کا نام سنتے ہی ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور زمانہ قدیم سے جدید تک ہر ملا، قاری، علامہ، مولوی، ذاکر و مذکور کو رگڑ ڈالتے ہیں ان کی زبانیں الفاظ کی میرا تھون جیتنے کے چکر میں کہاں کہاں قدم رکھتی ہیں یہ انھیں خود بھی پتا نہیں چلتا، بعض اوقات ان کی پوسٹس پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان حضرات نے اپنا مائینڈ سیٹ کیا ہوا ہوتا ہے بس موقع کی تلاش ہوتی ہے۔;)
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
انگلیاں اٹھیں گی الجھے ہوے بالوں کی طرف۔۔۔۔۔۔:notworthy:
 

ابن جمال

محفلین
محترم۔۔جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ زنا بالجبر کے ملزم پر چار گواہوں کی عدم موجودگی پر حد لاگو ہونی چاہئیے یا تعزیر۔۔۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ڈی این اے رپورٹ جیسی اہم forensic شہادت کو نظر انداز کردیا جائے؟ اسلامی فقہ کی کونسی ایسی شق ہے جو ڈی این اے ٹیسٹ کو یکسر ناقابلِ اعتبار قرار دیتی ہے؟ غلطی کا امکان تو انسان کے ہر کام میں ہوتا ہے۔ یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی کہ ڈی این اے کے ریزلٹس میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے، غلطی کی گنجائش کس کام میں نہیں ہے؟ یا پھر یوں کہیں کہ دنیا کا ہر فرد، ہر کام میں غلطی کرسکتا ہے لیکن مولوی صاحبان سے اسکا صدور ہونا ناممکن ہے۔

خط کشیدہ جملوں پر غورکرنے کے بعد صرف یہی کہنابچتاہے کہ
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
اسی تھریڈ کے گزشتہ مراسلے اس پر گواہ ہیں کہ بات یہی تھی کہ اگرچارگواہ نہ ہوتومتاثرہ کیاکرے۔ لیکن اس سوال کے جواب کے بعد اب وہ کچھ اورکہتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ڈی این اے رپورٹ جیسی اہم forensic شہادت کو نظر انداز کردیا جائے
اسلامی فقہ کی کونسی ایسی شق ہے جو ڈی این اے ٹیسٹ کو یکسر ناقابلِ اعتبار قرار دیتی ہے؟
میں نے ماقبل میں جیونیوز کے حوالہ سے اسلامی نظریاتی کونسل کا بیان درج کیاتھاکہ ڈی این اے ٹیسٹ معاون شہادت کے طورپر قبول کیاجائے گا۔یااس کی حیثیت ضمنی شہادت کی ہوگی۔
کیاکسی چیز کو معاون شہادت کا درجہ دینا نظرانداز کرناہے؟
کیاڈی این اے کو ضمنی ثبوت ماننا یکسر ناقابل اعتبار قراردیناہے؟
اگریہی نظراندازی اوریکسرناقابل اعتباری ہے توپھر نظرنوازی اورقابل اعتبار کیاچیز ہے؟
جذباتی ہوئے بغیر سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غورکیجئے۔
امام شعبی ایک مرتبہ قاضی شریح کی عدالت میں گئے تھے وہاں انہوں نے ایک عورت کو زارقطارروتے ہوئے دیکھاانہوں نے قاضی شریح سے کہاکہ عورت سچی معلوم ہوتی ہے
قاضی شریح نے کہاکہ روناسچ کی علامت نہیں ہے برادران یوسف جب حضرت یوسف کو کنویں میں پھینک کر اپنے والد کے پاس آئے توروتے ہوئے آئے تھے۔
حضورپاک کاارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس اپنے ہاتھ میں ایک آنکھ لے کر آئے کہ فلاں نے میری آنکھیں نکال دی ہیں تواس کومظلوم مت سمجھو ہوسکتاہے کہ پہلے اسی نے اس کی دونوں آنکھیں نکال دی ہوں!
عدالت ایسی جگہ ہے جہاں جذباتی ہوئے بغیر دونوں فریق کے ساتھ انصاف کرنے کی ذمہ داری جج کی ہوتی ہے اور جج کا فیصلہ ثبوت اورگواہوں پر منحصر ہوتاہے ۔
سائنس ٹکنالوجی کوئی حرف آخر نہیں ہے۔ ابھی اس پر مزید تحقیق ہونے دیجئے جب اس کی واقعیت مزید نکھر کر سامنے آجائے گی توانشاء اللہ علماء اس کو بھی کھلے دل سے قبول کرلیں گے لیکن پہلے سے کسی فریق کو مطعون کرناکاتااورلے دوڑے کی مثال ہے۔ اس سے گریز کرناہی بہتر ہے۔ والسلام
 

نایاب

لائبریرین
پتا نہیں کیوں اس بحث کو اتنا طول دیا جا رہا ہے، کچھ لوگ جان بوجھ کر ایک بے بنیاد انسان کے بے وقوفانہ کالم کی بنیا د پر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں اور کچھ لوگ ایسے لوگوں کی کج روی پر خواہ مخواہ کڑھ رہے ہیں:) بات بالکل واضح ہے جس کے لیے اتنی لمبی چوڑی بحث کا میدان سجایا گیا۔۔۔ ۔۔! یہاں میں کچھ اشاریے واضح کروں گا جو بات کو سمجھنے کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے اور ابہام دور ہو جائے گا۔۔۔ ۔۔!
1۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے ڈی این اے کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا بلکہ ڈی این اے پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے ایک شہادت کے طور پر قبول کیا ہے جو بالکل درست طرز عمل ہے۔ اس کی بنیاد پر سزا بھی دی جاسکتی ہے اب مزید کس طرح ڈی این اے کو سند بخشی جائے:)
2۔ زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں بہت سا فرق ہے زنا بالرضا میں دونوں فریقین کو سزا ہوتی ہے مگر اسکے لیے فریقین کا خود اپنے ضمیر سے شرمندہ ہو کر اقرار کرنا اور خود کا سزا کےلیے پیش کرنا ضروری ہے یاپھر اگر کوئی تیسرا فریق ان پر الزامات لگاتا ہے تو اس کے لیے کڑی شرط ہے کہ وہ چار عادل گواہان کو پیش کرے۔
3۔ ہمارا موضوع زنا بالجبر ہے اور اسی کے سلسلے میں بہت سے محفلین کو تحفظات ہیں خاص کر محترم مقدس بہت الجھی ہوئی لگتی ہیں۔۔۔ ۔۔ تو عرض یہ ہے کہ زنا بالجبر میں متاثرہ فریق (مرد ہو یا عورت) کسی طرح بھی سزا کا مستحق نہیں (حضرت یوسف علیہ سلام کی مثال۔۔) اور مکمل انصاف کا حق رکھتا ہے۔ جہاں تک زنا بالجبر میں بھی چار گواہان کا تعلق ہے تو یہ حد جاری کرنے کے لیے ہے (یہاں پر بڑی کنفیوژن یہی ہے کہ آیا کہ گواہان نہ ہونے کی بنیاد پر ملزم باآسانی بچ سکتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔:?: ) اگر چار گواہان نہ بھی ہوں تو میڈیکل کی شہادتوں (جس میں اب ڈی این اے سرفہرست آ جاتا ہے)، واقعاتی شہادتوں اور باریک بینی سے کی گئی تفتیش اور اسی طرح کے دوسرے عوامل سے اس پر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو ملزم کو کڑی سزا دی جا سکتی ہے اور گواہ نہ ہونے سے مجرم کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں (مگر ہمارے ہاں پولیس اور عدالتوں کےگندے طریقہ کار کا سب کو علم ہے) ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے اور ملزم کو مرتب کردہ سزا دی جاتی ہے ہمارے ہاں اسے تعزیر کہا جاتا ہے۔ محترم مقدس اس چیز میں ہی الجھی ہیں کہ کیا زنا بالجبر کے ملزم کو سزا نہیں ملتی تو ان کو حد اور تعزیر کے چکر سے باہر نکال کے واضح بتا دوں کہ ایسے کیسز میں ملزم کو سزا ملتی ہے اور عورت پر ہر گز لازم نہیں کہ چار گواہ ہی لائے ، مذکورہ بالا طریقہ کار ملزم کو سزا دلوانے کے لیے کافی ہے اگر ملک میں عدالتیں اثر رکھتی ہوں اور پولیس اہل اور ایماندار ہے ترقی یافتہ ممالک کی طرح۔۔۔ ۔۔:)
اس کے لیے میں احباب کو موجودہ چلنے والے ڈرامے "فاطمہ گل، آخر میرا قصور کیا" کی کہانی کو پڑھنے کی دعوت دوں گا۔ اس میں فاطمہ گل زنا بالجبر کی شکار ایک عورت کو انصاف فراہم کیا جاتا ہے اور واقعاتی شہادتو ں کی بنیاد پر کیوں کہ ایسے کیسز میں گواہان کا پایا جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کہانی کو پڑھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ایک دلچسپ نکتہ کہ ملزمان کی اس علاقے (جائے وقوعہ)میں موجودگی کے انکار میں ، وقوعہ کے وقت کے، ان کے علاقے کے سگنل چیک کیے جاتے ہیں اور جب متعلقہ ٹاور سے کنفرم کیا جاتا ہے کہ وقوعہ کے وقت ملزمان بیان کردہ ٹاور سے سگنل موصول کر رہے تھے اور متعلقہ ٹاور جائے وقوعہ کے پاس ہی تھا تو اس کو بھی بطور شہادت تسلیم کر لیا جاتا ہے، ڈی این اے توپھر بھی ایک مظبوط اثر رکتھا ہے:)۔۔۔ ۔۔۔ یہ تو خیر برسبیل تذکرہ بات چل نکلی تو ذکر کر دیا، مقصود یہ تھا کہ ایسے واقعات میں گواہان کے علاوہ باقی طریقوں سے جرم کے ثبوت حاصل کیے جاتے ہیں اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے مگر حد کے لیے گواہان لازمی ہیں کیوں کہ حد کوئی نارمل سزا نہیں ہے یہ بہت ہی خوفنا ک سزا ہے کہ جس پر عمل کرانے کے لیے بہت احتیاط برتی گئی ہے، کیا آپ لوگ سو کوڑے مارنے یا زمین میں گاڑ کر پتھر مارنے کی اذیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔! پھر بھی ایسی سزا اس انسان کے لیے ہے جو اللہ کی ہر حد پھلانگ جائے اور سر عام لوگوں کہ پروا کیے بنا سب کچھ جانتے بھوجتے یہ جرم کرے حتٰی کے چار گواہ بھی اس پر گواہی دیں تو ایسے انسان کے لیے پھر یہی حد کی سزا ہے۔۔۔ ۔۔!:)

باقی زنا بالجبر کی متاثرہ عورت یا مرد ضرور عدالت سے رجوع کرے۔ عدالت گواہان کی عدم موجودگی کے باوجود دوسرے طریقہ کار کے مطابق جرم ثابت ہونے پر مجرم کو تعزیر کی سزا دے گی اور یاد رہے کہ تعزیر کی یہ سزا کچھ کم سزا نہیں ہے بس ایسے سمجھ لیں کہ عدالت سزائے موت کے علاوہ باقی بہت سی قسم کی سزا(عمر قید، جلا وطنی، قید بامشقت، لاکھوں روپے جرمانہ اور عدم ادائیگی پر مزید قید وغیرہ ) دے سکتی ہے اور اس طرح متاثرہ فریق کو انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس میں زنا بالجبر کے متاثرہ فریق کو خاموش رہنے کی ضرورت نہیں اگر اس کو انصاف حاصل کرنا ہے اور اسے پاکستان یا اپنے ملک کے نظام عدل پر یقین ہے تو اسے ضرور بالضرور عدالت سے رجوع کرنا چاہیے جیسا کہ متذکرہ بالا ڈارمے میں فاطمہ گل کو کافی عرصے بعد حصول انصاف کے لیے عدالت سے رجو ع کرنے کی سوجھی اور عدالت نے اسے ویلکم کہا۔۔۔ ۔۔۔ :)
4۔ باقی رہا حنیف صاحب کا تعلق تو ایسے لوگ اپنی روزی روٹی حلال کرنے کے لیے پہلے بھی اسلام میں رخنے تلاش کرتے رہے تھے آج بھی کر رہے ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے ایسے لوگوں کی کسی بھی سمجھدار انسان کے نزدیک کوئی کریڈبیلٹی نہیں ہوتی، ہاں کچھ نادان مسلمان انسان ان کے بہکاوے میں آ کر، ان کے لفظوں کے جال میں الجھ کر وقتی طور پر خود بھی الجھ جاتے ہیں مگر یقین کریں جس نے دل سے محمدعربی:pbuh: کا کلمہ پڑھا ہے وہ کبھی ایک حد سے آگے نہیں جا سکتا اس کے اندر ایک الارم موجود ہوتا ہے جو اسے ہر وقت احساس دلاتا رہتا ہے کہ سوچ سمجھ کر کہیں تمہارے الفاظ تمہارے گلے کا پھندہ نہ بن جائیں، اللہ کے آگے جوابدہی اور رسول سے ملاقات اسکے مد نظر رہتی ہے اور وہ لوٹ آتا ہے۔ میں متشدد، دین میں خود سے نظریات داخل کرنے والے، دین کو موم کی ناک بنانے والے اور دین کو مذاق بنانے والے، بے عمل (ملا، راہب یا پروہت) کسی بھی انسان کی حمایت نہیں کرتا مگر کچھ ہتھ ہولا ان روشن خیالوں کو بھی رکھنا چاہیے جو مذہب خاص کر مذہب اسلام کا نام سنتے ہی ڈنڈا لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور زمانہ قدیم سے جدید تک ہر ملا، قاری، علامہ، مولوی، ذاکر و مذکور کو رگڑ ڈالتے ہیں ان کی زبانیں الفاظ کی میرا تھون جیتنے کے چکر میں کہاں کہاں قدم رکھتی ہیں یہ انھیں خود بھی پتا نہیں چلتا، بعض اوقات ان کی پوسٹس پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان حضرات نے اپنا مائینڈ سیٹ کیا ہوا ہوتا ہے بس موقع کی تلاش ہوتی ہے۔;)
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی
انگلیاں اٹھیں گی الجھے ہوے بالوں کی طرف۔۔۔ ۔۔۔ :notworthy:

محترم بھائی کسی بھی انسان کو جو کہ کسی بھی زیادتی کا جانب توجہ دلاتا ہے اس پر انگلیاں اٹھاتے اسے " بے بنیاد انسان " اور اس کی آواز کو بےوقوفانہ قرار دینے والے کن القاب و خطابات کے حقدار ہوتے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ۔ آپ نے اک کہانی میں بیان کردہ " سگنلز " کو اک شاہد قرار دے دیا ۔ مگر اس کالم کی بنیاد جو اک بچی سے مزار قائد پر ہونے والی زیادتی کے ملزمان کو اس شہادت " ڈی این اے " قابل قبول شہادت نہ ہونے پر بری کر دیا گیا ۔ ذرا غور سے مندرجہ ذیل تحریر کو پڑھیں اور پھر سمجھ کر جس کو چاہے گمراہ جس کو چاہے بے بنیاد قرار دے دیں ۔۔۔
کیا گزری ہو گی اس بچی پر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟÷ کیا آپ کو اس کا اندازہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


لیکن پانچ سال قبل لودھراں سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی کا ریپ جناح کے مزار کے احاطہ میں ہوا۔ یہ انہی جناح کا مزار ہے جہاں پاکستان کا ہر چھوٹا، بڑا، نگراں یا منتخب حکمران پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے جہاں پر فوج کی زیر تربیت افسران حفاظتی ڈیوٹی دینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
ریپ کا شکار ہونے والی اِس لڑکی نے نہ خودکشی کی، نہ اُس کے گھر والوں نے اُسی پر کوئی الزام لگایا۔ پولیس میں رپورٹ درج ہوئی اور شاید جناح کے نام پر پولیس کو بھی غیرت آئی، ایک ملزم پکڑا گیا لڑکی نے اُسے شناخت کیا ، دو اور ملزم ڈی این اے کے ٹیسٹ کے بعد پکڑے گئے ۔ پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے فیصلہ سُنایا کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے اِس لیے ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
محترم نایاب صاحب کیوں مخولیا ں کرتے ہیں;) مجھے کہنے دیں کہ صاحب مضمون اسلام دشمنی اور ادبی خباثتوں اور خیانتوں کو آپ بھی مجھ سے بہتر سمجھ رہے ہیں مگر ناجانے کونسے جذبات میں آ کر آپ نے مجھ ناچیز کو کسی خاص فہرست میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے لگتا ہے آپ کو صرف بحث برائے بحث پسند ہے یا پھر آپ کسی خاص فکر کی پاسداری کرتے ہوے لکھتے ہیں۔ محترم میرے مراسلے کا جو اتنا بڑا اقتباس لیا آپ نے تو تھوڑی سی زحمت کر کے اس مراسلے کو پورا پڑھ بھی لیتے تا کہ آپ کو اتنی زحمت نہ کرنی پڑتی۔۔۔۔۔! میں نے ایک ڈرامے کی مثال دیتے ہوئے موبائل ٹاور کے سگنل کو بھی بطور شہادت قبول کیا اور اسکی مثال دی اور اسی مراسلے میں نے ڈی این اے کو بطور شہادت ماننا بھی قبول کیا اور ثابت کیا تو پھر آپ کے اس بے سروپا الزاماتی مراسلے کے وجہ میرے سر کے اوپر سے گزر گئی ہے۔
اگر متعلقہ عدالت نےمتذکرہ بالا واقعے میں گواہان نہ ہونے پر باقی شہادتوں (ڈی این اے وغیرہ) کو قبول نہیں کیا اور مظلوم کو انصاف مہیا نہیں کیا تو ایسی عدالت میرے لیے بھی بے وقعت ہے، میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ پاکستان کا نظام انصاف اور نظام پولیس کتنی کریڈیبیلٹی رکھتا ہے۔ یہاں تو جج تک خرید لیے جاتے ہیں۔ خیر اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے اللہ مجھے ہدایت اور سمجھ دے:)
 

S. H. Naqvi

محفلین
باقی اگر صاحب مضمون اس بچی کے لیے درد دل رکھتا ہے اور اس کے لیے الفاظ اٹھاتا ہے تو میرے لیے محترم ہے کیوں کہ ایسے وہ مظلوم کا حمایتی ہو گا مگر دست بستہ عرض گزار ہوں کہ ذرا قلب و نظر کو وسیع کر کے اس مراسلے کو پڑھیں تو اس مظلومیت کی حمایت میں جناب کے اغراض و مقاصد عیاں ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔!:)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top