مقدس
لائبریرین
آئی ڈاؤنٹ نیڈ ٹو سئے اینی تھنگ دین بھیایہ ان گھرانوں کے بچے تھے کہ اگر پولیس ان پر ہاتھ ڈالے تو ان پولیس والوں کی اپنی بیٹیوں کی عزت لٹ جائے۔
قانون صرف غریب کے لیے ہوتا ہے۔۔
آئی ڈاؤنٹ نیڈ ٹو سئے اینی تھنگ دین بھیایہ ان گھرانوں کے بچے تھے کہ اگر پولیس ان پر ہاتھ ڈالے تو ان پولیس والوں کی اپنی بیٹیوں کی عزت لٹ جائے۔
قانون صرف غریب کے لیے ہوتا ہے۔۔
محمد حنیف نے کچھ چیزوں کی نشاندہی کی ہے کہ فلاں فلاں کوعلماء نے حرام قراردیاتھا اس کا کوئی حوالہ اورریفرنس محمد حنیف یامحمد حنیف کی باتوں سے اتفاق کرنے والے محفلین نے نہیں دیاہے۔ بغیر کسی حوالہ کے بات کرنامحض ہوائی بات ہے۔
زنابالجبر ہو یازنابالرضااگرچارگواہوں کی گواہی سے ثابت ہوگیاتواس کی صرف ایک ہی سزا ہے اور وہ ہے شادی شدہ کیلئے رجم اورغیرشادی شدہ کیلئے سوکوڑے اورجلاوطنی(حنفیہ کے یہاں جلاوطنی جج کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ حالات وواقعات کا جائزہ لے کر اس کا فیصلہ کرے)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زناکے جتنے بھی واقعات سامنے آئے اس میں یہ چیز قابل غور ہے کہ تمام واقعات میں ملزمین نے زناکااعتراف کیاتھا،غامدیہ خاتون نے توخود ضمیر کی خلش سے مجبور ہوکر حضورپاک سے اس کا اعتراف کیاتھا۔اورحضور نے رجم کی سزانافذ کرائی۔ بات وہاں بھی رضاکی ہی تھی۔
حضرت ماعز اسلمی نےبھی خود ہی دربارنبوت میں آکر اپنے جرم کی سزا طلب کی تھی اورحضورکے ڈھیل دینے کے باوجود بارباراعتراف کیاکہ انہوں نے زناہی کیاہے اور وہ بھی ازقبیل رضاہی تھابالجبرنہیں ۔
اس لئے بالرضااوربالجبر میں تفریق کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے۔اورنہ ہی قرآن وحدیث کے ذخیرہ میں کوئی ایسی بات ملتی ہے کہ اگرچارگواہ مل جائیں توبالرضاوالے کرنرم سزادی جائے اوربالجبر والے سخت سزادی جائے۔ زنااپنی نوعیت کے اعتبار سے ہی معاشرے میں فساد عظیم ہے جس کی اچھی وضاحت مولانا ابوالاعلی مودودی نے "پردہ "میں کیاہے۔
اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ موجودہ حالات جہاں انصاف بکتے ہیں۔ جہاں قابل وکیل مہیاکرناکسی غریب کیلئے ناممکن ہے ۔جہاں انصاف پانے کیلئے عمر نوح اورصبرایوب کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ایک خاتون جن سے چند غنڈوں نے زبردستی کی ہے وہ چارگواہ کہاں سے لائے اوراگرچارگواہ مل بھی جائیں تواس کی کیاضمانت کہ اثردار لوگ انہیں ڈرادھمکاکر گواہی دینے سے باز نہ رکھیں۔ ایسے میں ججز کا معاملہ بہت اہم ہوجاتاہے۔ اورایسے ہی حالات کیلئے اسلام میں تعزیر کا پوراباب موجود ہے اورایسے ہی واقعات میں کسی جج کی قابلیت اورصلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔ ورنہ زناکاایک کیس ہے۔چارگواہ موجود ہیں توکوئی بھی معمولی دینی علم رکھنے والااس کا فیصلہ کردے گا۔ ججوں کی قابلیت ایسے ہی کیسوں میں نمایاں ہوتی ہے جہاں واقعاتی شہادتیں دھندلی ہوں۔ مجرم کی واضح تعیین نہ ہوتی ہو ۔ ان حالات میں ججوں کو واقعات کا معروضی تجزیہ کرتے ہوئے بطور خود سزادینی چاہئے۔ والسلام
اور اگر وہ خاتون ثابت نہ کر سکی کہ ان کے ساتھ زبردستی ہوئی۔۔۔ تب کیا ہو گا
نایاب بھائی۔۔۔بٹیا میری پھر یہ اس کا نصیب قرار دیا جائے گا ۔ اللہ کی رضا پر راضی کی نصیحت کی جائے گی ۔ اور پھر آگے اس " بدنصیب " کی ذاتی منشاء کہ وہ " خودکشی " کرے یا ساری زندگی " بے گناہی " کی سزا پائے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
اس لئے بالرضااوربالجبر میں تفریق کی کوئی علمی بنیاد نہیں
دوسری بات سے متفق ہوں ، لیکن اس صورت میں آپکی پہلی بات کا کیا جواز ہے؟یہ کس نے کہاہے کہ اگرکچھ لوگوں نے کسی خاتون سے زبردستی کی ہے توخاتون کوبھی سزاملے گی۔ زبردستی کی صورت مین خاتون کو قطعاکوئی سزانہیں ملے گی بلکہ زبردستی کرنے والے قانون کے مطابق انجام کو پہنچیں گے۔ شاید آپ کو کسی ٹکرے سے غلط فہمی ہوئی ہے۔والسلام
بھرے بازار میں، مارکیٹ میں جب عام لوگوں یا با اثر لوگوں کو کوئی بائیک پہ ہی آ کر گولی مار کر بھاگ جاتا ہے تو اتنا ہجوم کیسے روک نہیں پاتا ان کو جب کہ کتنوں کے پاس گاڑیاں بھی ہوتی ہیں اور بائیکس بھی، اسلحہ بھی اور اختیارات بھی۔بھائی میرے خیال میں وہاں ہزاروں لوگ ہوتے ہوں گے۔۔۔ مل کر بھی چالیس لڑکوں کو اس سے نہ روک سکے۔۔ کسی نے پولیس تک کال بھی نہ کیا ہو شاید۔۔۔ آپ نے بھی نہیں کیا۔۔۔
آئی ایم سرپرائزاڈ۔۔۔ اے لاٹ
امجد بھائیبھرے بازار میں، مارکیٹ میں جب عام لوگوں یا با اثر لوگوں کو کوئی بائیک پہ ہی آ کر گولی مار کر بھاگ جاتا ہے تو اتنا ہجوم کیسے روک نہیں پاتا ان کو جب کہ کتنوں کے پاس گاڑیاں بھی ہوتی ہیں اور بائیکس بھی، اسلحہ بھی اور اختیارات بھی۔
اور پولیس کو فون کیسا کرنا، کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اتنی اہم جگہ پہ ایسے موقع پر پولیس ویسے ہی نہیں ہوگی
عدم تفریق کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ بالرضا کاہو یاپھربالجبر کا ۔اگرثابت ہوگیاتو ملزمان کو مقررہ سزاملے گی۔زنا بالرضا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور "زبردستی آبروریزی " میں اسلامی علمی کوئی تفریق نہیں
نایاب بھائی۔۔۔
ایسا کیوں۔۔۔ ۔ ایک اس کے ساتھ ظلم ہوا۔۔۔ برداشت بھی وہی کرے۔۔۔ آخر کیوں۔۔۔
عدم تفریق کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ بالرضا کاہو یاپھربالجبر کا ۔اگرثابت ہوگیاتو ملزمان کو مقررہ سزاملے گی۔
جس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے وہ کسی اعتبار سے ملزم ہوتی ہی نہیں ہے یہ چیز چونکہ اس کے اختیار کے بغیر ہوتاہے اس لئے وہ مجبور ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پر کوئی بندوق تانے کھڑاہے اورکہہ رہاہے کہ شراب پیو ورنہ گولی ماردوں گا۔ وہ شخص جان بچانے کیلئے شراب پیتاہے اورجان بچانےکیلئے شراب پیناجائز ہے لہذا اس کو بے گناہ تسلیم کیاجائے گا۔ اس پر شراب کی حد نہیں لگائی جائے گی۔ اسی طرح اگرکوئی جان کے خوف سے دوسرامذہب قبول کرلیتاہے لیکن اندر سے مسلم ہے تواس پر کوئی ارتداد کی سزا کانفاذ نہیں ہوگا۔ یہی بات بالجبر کے سلسلہ میں بھی ہے کہ اگرکسی خاتون کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے تو وہ سرے سے ملزم ہے ہی نہیں لہذا اس کے بارے میں کچھ کہناہی بے کار ہے۔
ہاں بالجبر یابالرضا جس پر بھی الزام ثابت ہوگیااسے مقررہ سزادی جائے گی اوراس میں بالرضا اوربالجبر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں بالجبر اوربالرضا کی تفریق کی گئی ہو الزام ثابت ہونے کے بعد!بیشترواقعات دورنبوی میں پیش آنے والے ایسے ہیں جوبالرضاکے قبیل سے ہیں اورجس میں ملزمین نے ضمیر کی خلش سے مجبور ہوکر خود ہی اعتراف جرم کیاتھا۔والسلام
ایک مثال فرض کریںاور اگر وہ خاتون ثابت نہ کر سکی کہ ان کے ساتھ زبردستی ہوئی۔۔۔ تب کیا ہو گا
آپ سیدھی سادی بات کو الجھا رہے ہیں۔عدم تفریق کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ بالرضا کاہو یاپھربالجبر کا ۔اگرثابت ہوگیاتو ملزمان کو مقررہ سزاملے گی۔
جس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے وہ کسی اعتبار سے ملزم ہوتی ہی نہیں ہے یہ چیز چونکہ اس کے اختیار کے بغیر ہوتاہے اس لئے وہ مجبور ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص پر کوئی بندوق تانے کھڑاہے اورکہہ رہاہے کہ شراب پیو ورنہ گولی ماردوں گا۔ وہ شخص جان بچانے کیلئے شراب پیتاہے اورجان بچانےکیلئے شراب پیناجائز ہے لہذا اس کو بے گناہ تسلیم کیاجائے گا۔ اس پر شراب کی حد نہیں لگائی جائے گی۔ اسی طرح اگرکوئی جان کے خوف سے دوسرامذہب قبول کرلیتاہے لیکن اندر سے مسلم ہے تواس پر کوئی ارتداد کی سزا کانفاذ نہیں ہوگا۔ یہی بات بالجبر کے سلسلہ میں بھی ہے کہ اگرکسی خاتون کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے تو وہ سرے سے ملزم ہے ہی نہیں لہذا اس کے بارے میں کچھ کہناہی بے کار ہے۔
ہاں بالجبر یابالرضا جس پر بھی الزام ثابت ہوگیااسے مقررہ سزادی جائے گی اوراس میں بالرضا اوربالجبر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ میرے علم میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس میں بالجبر اوربالرضا کی تفریق کی گئی ہو الزام ثابت ہونے کے بعد!بیشترواقعات دورنبوی میں پیش آنے والے ایسے ہیں جوبالرضاکے قبیل سے ہیں اورجس میں ملزمین نے ضمیر کی خلش سے مجبور ہوکر خود ہی اعتراف جرم کیاتھا۔والسلام
ان ہی شہادتوں کی بنیاد پر جن پر دوسرے جرائم کے فیصلے ہوتے ہیں!اس کا فیصلہ کیسے ہوگا ۔ ؟
اور جان چھین لینے کے خوف میں مبتلا کرنے والا کن شہادتوں کے بل پر سزا کا حقدار ٹھہرے گا ۔۔۔ ۔؟
شراب کے نشے میں دھت بے گناہ کیسے ٹھہرے گا ۔ اور کس کے سامنے ۔۔۔ ۔۔؟
جی درست یہی سوال ہے بنیادی طور پر۔۔۔ایک خاتون جس کے ساتھ زبردستی کی گئی۔ اگرڈی این اے کو ثبوت نہ ماناجائے توپھر وہ کیسے ثابت کرے۔
کیا یہ جواب ہے اس سوال کا؟ آپ خود ہی فیصلہ کیجئے۔ایک بنیادی بات یاد رکھئے کہ جرائم وکرائم کے تمام واقعات میں بنیادی حیثیت پولیس اورتحقیقاتی افسر کی ایمانداری اورصلاحیت کی ہے۔ اگرتحقیق کرنے والے ایماندار ہوں گے اورفرض شناس ہوں گے توانہیں ملزم کو ڈھونڈنے اورانہیں مجرم ثابت کرنے میں مشکل پیش نہیں ائے گی ورنہ رشوت خوری کی بنیاد پر قائم معاشرہ اورسماج میں ڈی این اے کیااگرملزم خود سے اعتراف بھی کرلے کہ میں نے فلاں جرم کیاہے اس پر بھی سوطرح کی تہیں چڑھاکر معترف مجرم کو بے قصورقراردیاجاسکتاہے۔
اگرآپ ان واقعات کو پورے تناظر میں دیکھیں گے تو ڈی این اے کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔
محترم ایک بات بتائیےآپ سیدھی سادی بات کو الجھا رہے ہیں۔
زنا بالرضا کی صورت میں تو واضح ہے کہ چار عادل و صادق گواہوں کی گواہی یملزم (یا ملزمان ) کےا اقرارِ جرم کے بعد حد جاری کی جائے گی۔
لیکن کیا زنا بالجبر کی صورت میں شریعت یہ کہتی ہے کہ چار عادل و صادق گواہ ڈھونڈھ کر لاؤ نہیں تو چپ ہوجاؤ؟
جج حضرات تعزیرا کوئی دوسری سزادے سکتے ہیں لیکن اس صورت میں جہاں چارگواہی پوری نہیں ہوتی اس صورت میں جو حد ہے اورقرآنی سزا ہے وہ نہیں دیاجاسکتا۔والسلامایسے میں ججز کا معاملہ بہت اہم ہوجاتاہے۔ اورایسے ہی حالات کیلئے اسلام میں تعزیر کا پوراباب موجود ہے اورایسے ہی واقعات میں کسی جج کی قابلیت اورصلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔ ورنہ زناکاایک کیس ہے۔چارگواہ موجود ہیں توکوئی بھی معمولی دینی علم رکھنے والااس کا فیصلہ کردے گا۔ ججوں کی قابلیت ایسے ہی کیسوں میں نمایاں ہوتی ہے جہاں واقعاتی شہادتیں دھندلی ہوں۔ مجرم کی واضح تعیین نہ ہوتی ہو ۔ ان حالات میں ججوں کو واقعات کا معروضی تجزیہ کرتے ہوئے بطور خود سزادینی چاہئے۔ والسلام