شریعت کے ٹھیکیداروں کا ایک اور کارنامہ

ساجد

محفلین
ہم پورے پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں۔

یہاں ان درندوں اور مجرموں کی خود ساختہ شریعت کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔

جب سیکورٹی فورسز ان کے جرائم کو روکنے کے لئیے کارروائی کریں گی تو یہ شیطان کے چیلے دہائی مچانے لگیں گے کہ ہماری فوج امریکہ کے کہنے پر ہمیں مار رہی ہے۔ خدا سمجھے ایسے جاہلوں سے جو خود کو مولانا بھی لکھواتے ہیں اور ان کی حرکتیں شیطان سے بھی بد تر ہیں
 

فرضی

محفلین
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ قبائلی علاقوں میں امریکہ کے کہنے پر کاروائی شروع کی گئی ہے؟ کوئی امریکہ کے لیے ذبح ہورہا ہے تو کوئی شریعت کے نام پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے
 
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ قبائلی علاقوں میں امریکہ کے کہنے پر کاروائی شروع کی گئی ہے؟ کوئی امریکہ کے لیے ذبح ہورہا ہے تو کوئی شریعت کے نام پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔ اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے
بھائی امریکہ سے پہلے تو ہم کو اعتراض‌ہونا چاہئیے اس شریعت کے نام پر ظلم و بربریت پر۔ ملاؤں‌کو معلوم ہے کہ کس بربریت کا نام شریعت ہے۔ یہ ملا یہ بھی جانتے ہیں‌کے شورائی نظام یعنی باہمی مشورے کی نظام یعنی جمہوریت کو یہ مولوی شکست نہیں دے سکتے اس لئے اب ان کا نعرہ ہے شریعت۔ صاحب یہ شریعت قرآن سے کس قدر دور ہے اس پر کوئی صاحب روشنی ڈالنا پسند کریں‌گے؟ اب ان ملاؤں‌کے پاس صرف قتل و غارت اور فساد ہی رہ گیا ہے۔ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

یہ تو کھلم کھلا بغاوت ہے۔ کیا شریعت اس طرح قتل کرکے نافذ ہوگی۔ قرآن حالت امن میں، کسی حکومت کو قتل کرنے کے اجازت کس صورت میں دیتا ہے؟ ایسا سوال پوچھ کر ہم شرمندہ ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ قرآن کو مانتے ہی کب ہیں؟
 

قسیم حیدر

محفلین
جناب "ملا کی شریعت" بھی ان حرکتوں کی اجازت نہیں دیتی جو قبائلی علاقوں میں‌ کی جا رہی ہیں پاک فوج کی طرف سے ہوں‌ یا جاہل اسلام پسندوں کی طرف سے۔ فقہ کی کسی بھی کتاب میں خروج کی شرائط پر ایک نظر ڈال لیجیے، "ملا کی شریعت" کا موقف معلوم ہو جائے گا۔ اسلامی حکومت کے خلاف خروج اور بغاوت کرنا سختی سے منع ہے۔ قرآن کی روشنی میں دونوں طرف کا جائزہ لیجیے:
قتلِ مومن کی حرمت:
و من یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جھنم خالدا فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ اعد لہ عذابا مھینا (النساء)
"اور جس نے کسی مومن کو عمدا قتل کر دیا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیے عذابِ عظیم مہیا کر رکھا ہے"
یہود و نصارٰی کو سرپرست بنانے کی حرمت:
یایھا الذین ءامنوا لا تتخذوا الیھود و النصارٰی اولیاء ۔ ۔ ۔ (المائدۃ)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنا سرپرست (ولی)‌نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو تم میں سے انہیں دوست بنائے اس کا شمار بھی انہی میں سے ہے۔
 
ہم کو اب اس خوش فہمی سے باہر آجانا چاہیے کہ یہ ملا مومنوں میں‌شامل بھی ہیں؟ ایسے ملاؤں کی کس شریعت کا تعلق کسی طور اسلام سے ہے؟ یہ مسلح تخریب کار ہیں جنہوں نے ملاؤں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے اور انہی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ان کے سپورٹرز میں‌سے بیشتر اسمگلرز اور ڈاکو ہیں۔ کل ایک سابقہ بریگیڈیر کا انٹرویو جیو ٹی وی پر سنا۔ ان تخریب کاروں‌کا مقصد ہے حکومت پاکستان کو ختم کرنا۔

ان ملاؤں‌کے ساتھ فوج کو کھڑا کرنا انتہائی ظلم ہے۔ اگر ہم فسادیوں اور محافظوں میں فرق نہ کرسکیں تو صاحب تف ہے ہماری اندھی آنکھوں پر جو اسلام اور شریعت کے نام پر جذباتی اندھے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔

جو لوگ لڑکیوں کے اسکول جلا رہے ہیں۔ فوج کے ساتھ خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے، ان سے اس لئے ہمدردی رکھنا کہ وہ یہ زبان سے شریعت کا نام لیتے ہیں اور عمل ان کے شیطانی ہیں۔ ایسے لوگوں کو مومن کہنا اور ان کے لئے قرآن سے ریفرنس فراہم کرنا۔ ہم کیوں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کل جن فوجیوں کی گردنیں کاٹی گئی ہیں‌ اس کا کیا جواز ہے؟ کیااب ہم اتنے معصوم ہیں‌کہ یہ مان لیں‌ کہ فوج کو امریکہ اور اسرائیل نے لڑنے بھیجا ہے کہ کلاشنکوف سے مسلح لوگ جو پاکستان میں اسکول جلا رہے ہیں، اس سے واشنگٹن کو خطرہ لاحق ہے؟ سادگی کی بھی انتہا ہوتی ہے۔

دین ملا ، فساد فی سبیل الشیطانَ
 

فرضی

محفلین
بات ہے سیدھی سیدھی۔ اگر لڑنے والے کو معلوم ہو کہ وہ کیوں لڑ رہا تو پھر ایک آدمی بھی دو یا تین پر بھاری پڑجاتا ہے۔ اگر لڑائی کا مقصد ہی دل و دماغ قبول نہ کریں تو پھر دس ڈویژن فوج بھی تاش کی گڈی بن جاتی ہے۔ کوئی بھی انفرادی یا اجتماعی یا چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی لڑائی اسی اصول کے تحت ہاری یا جیتی گئی ہے اور جیتی یا ہاری جاتی رہے گی۔
افغانستان، وزیرستان، باجوڑ یا مالا کنڈ میں مخالفین کو کھمبے سے لٹکا کر پھانسی دینے والے، زندہ آدمی کی کھال اتارنے والے، سر کاٹنے کی وڈیو بنانے والے، وڈیو کیسٹس اور حجامت کی دکانوں کو بم سے اڑانے والے افغان یا مقامی طالبان یا القاعدہ والے جو بھی آپ کہہ لیں، ان سب کے ذہن میں اپنے مقاصد کے بارے میں کوئی شبہہ نہیں ہے۔ وہ جسے شریعت سمجھتے ہیں اس کا سو فیصد نفاذ چاہتے ہیں۔ جسے بے راہروی سمجھتے ہیں اس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور جسے وہ اپنے مقصد کی راہ میں بنیادی رکاوٹ سمجھتے ہیں یعنی امریکہ اور اس کے ایجنٹ، ان سب کا زوال چاہتے ہیں۔

غلط یا صحیع کی بحث سے قطع نظر وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں صدقِ دل سے سچ اور حق جان کر کر رہے ہیں۔ لیکن جو لوگ ان عناصر کو تاریکی کی قوت سمجھتے ہیں وہ اپنے جذبے میں کتنے سچے ہیں ؟

جو لوگ خود کو سول سوسائٹی کہتے ہیں انہوں نے اب تک ٹی وی اور اخبارات میں واویلا مچانے کے علاوہ اور کیا کیا۔ ان میں سے کتنے جانتے ہیں کہ وزیرستان ، باجوڑ اور مالاکنڈ پاکستان کے کس کونے میں ہیں۔ کیا یہ کہنے سے جان بخشی ہوجائے گی کہ یہ کام حکومت کا ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ حکومتی نیت اور پالیسیاں حالات کو سنوارنے یا بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں لیکن بےچاری حکومت کو اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں اپنا اقتدار ہر قیمت پر برقرار رکھنے کی کوششوں اور اپنی کامیابیوں کے نشریاتی گن گانے سے نجات ملے تو باقی علاقوں کے بارے میں بھی سوچے۔


اگر فوجی کارروائی بر وقت ہو جاتی؟
جو فوجی کارروائی اب ہو رہی ہے اگر اس وقت ہوجاتی تو آج بھرے مجمع میں سیکیورٹی اہلکاروں کے سر قلم نہ ہو رہے ہوتے۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح یرغمال نہ بنایا جارہا ہوتا



حکومت سرکش علاقوں میں اپنی عمل داری یا رٹ بحال کرنے کی تو شدت سے خواہش مند ہے لیکن جن سکیورٹی دستوں کے بل بوتے پر وہ یہ مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے کیا ان دستوں کا ہر سپاہی اس مقصد کے حصول کے لیےطالبان کی طرح جان کی بازی لگانے کے جذبے سے سرشار ہے؟ کیا اسکے دل و دماغ پر حکومت کی سو فیصد رٹ قائم ہے ؟ کیا اسکا ہدف آئینے کی طرح واضح کیا گیا ہے؟

جب پہلے حجام کی دکان پر بم پھٹا تھا۔ جب پہلے غیرقانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشن نے آگ اگلنی شروع کی تھی۔ جب آڈیو وڈیو کی پہلی دکان لٹی تھی۔ جب پہلی مرتبہ کسی خودساختہ عدالت نے کسی کو سزائے موت سنائی تھی۔ تو اس وقت آپریشن کیوں نہیں ہوا۔

جو فوجی کارروائی اب ہو رہی ہے اگر اس وقت ہوجاتی تو آج بھرے مجمع میں سیکیورٹی اہلکاروں کے سر قلم نہ ہو رہے ہوتے۔ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح یرغمال نہ بنایا جارہا ہوتا۔ نقاب پوش چمکیلے ہتھیار لہراتے ہوئے کھلی جیپوں میں گشت نہ کر رہے ہوتے اور چیک پوسٹیں قائم کرکے تیرے میرے کی تلاشی نہ لے رہے ہوتے۔ سکیورٹی دستوں کو نقل وحرکت کے لیے طالبان کمانڈروں سے پیشگی یقین دہانی اور ہار پھول پہنانے والے عارضی مصالحتی معاہدے کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی۔بچیوں کے سکولوں پر حملے نہ ہو رہے ہوتے۔ پولیو کی ویکسین لگانے والے قتل ہونے سے بچ جاتے اور لاکھوں بے گناہوں کے کاروبار، املاک اور زندگیاں تباہ نہ ہوتیں اور وہ دربدر نہ ہوتے اور فضاؤں میں گن شپ ہیلی کاپٹر اور طیارے ایندھن نہ پھونک رہے ہوتے۔

پاکستان نے گذشتہ برس پانچ ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ خریدنے کے معاہدے کیے ہیں۔

کسے ڈرانے کے لیے۔ کن سے لڑنے کے لیے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

بشکریہ بی بی سی اردو

http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2007/10/071028_wusat_bat_sen.shtml
 

قسیم حیدر

محفلین
مومن کے قتل کے بارے میں قرآنی ریفرنس خود کش دھماکوں‌کے پس منظر میں پیش کیا تھا۔ اختصار بیان کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس بارے میں تفصیلی آرٹیکل دوسری جگہ لکھ چکا ہوں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
دوغلی پالیسی کوئی بھی اختیار کرے افسوسناک ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ قرآن کریم میں مومن کے قتل کی حرمت سختی سے بیان کی گئی ہے اور میں مختلف تھریڈز میں ان کا حوالہ دے چکا ہوں۔ لیکن یہ حرمت جیسے "دہشت گردوں" کے لیے ہے ویسے ہی پاکستانیوں کے لیے بھی ہے۔ صرف پاکستانی ہی مومن نہیں‌ہیں۔ ہمیں زیادہ درد اور دکھ اس لیے محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پیارے ملک اور ہمارے پیارے لوگوں پر حملے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیے وہ لاکھوں لوگ بھی مومن تھے جن کے قتل کے لیے ہم تزویراتی مدد فراہم کی تھی۔ اس وقت قرآن کی یہ آیات کسی کو یاد آئی تھیں؟
افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض (البقرۃ)
کیا قرآن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی کلمہ گو کے مقابلے پر کفار و مشرکین کی مدد حرام ہے۔
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر (الانفال)
"اگر تم اسی طرح(اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا"
کیا قرآن نہیں‌کہتا کہ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کو دوست مت بناؤ؟
لا تتخذا الکافرین اولیاء من دون المؤمنین (النساء)
"مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی مت بناؤ"
میری پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ آجکل بحیثیت قوم ہم پاکستانیوں کو اپنا مفاد عزیز ہے اگر وہ قرآن سے حاصل ہو رہا ہو تو ہم اپنے مطلب کی آیات کو لے کر پوری قوت سے چیختے ہیں اور اگر کوئی چیز ہمارے مفاد کے خلاف پڑے تو اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں چاہے وہ قرآنی حکم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرز عمل کی سزا ہے جو مل رہی ہے، عذاب کی مختلف شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں:
او یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم باس بعض ( الانعام)
"(عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ ) وہ (اللہ) تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک گروہ کو دوسرے کی طاقت کا مزا چکھا دے"
 

ساجد

محفلین
دوغلی پالیسی کوئی بھی اختیار کرے افسوسناک ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ قرآن کریم میں مومن کے قتل کی حرمت سختی سے بیان کی گئی ہے اور میں مختلف تھریڈز میں ان کا حوالہ دے چکا ہوں۔ لیکن یہ حرمت جیسے "دہشت گردوں" کے لیے ہے ویسے ہی پاکستانیوں کے لیے بھی ہے۔ صرف پاکستانی ہی مومن نہیں‌ہیں۔ ہمیں زیادہ درد اور دکھ اس لیے محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پیارے ملک اور ہمارے پیارے لوگوں پر حملے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیے وہ لاکھوں لوگ بھی مومن تھے جن کے قتل کے لیے ہم تزویراتی مدد فراہم کی تھی۔ اس وقت قرآن کی یہ آیات کسی کو یاد آئی تھیں؟
افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض (البقرۃ)
کیا قرآن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی کلمہ گو کے مقابلے پر کفار و مشرکین کی مدد حرام ہے۔
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر (الانفال)
"اگر تم اسی طرح(اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا"
کیا قرآن نہیں‌کہتا کہ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کو دوست مت بناؤ؟
لا تتخذا الکافرین اولیاء من دون المؤمنین (النساء)
"مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی مت بناؤ"
میری پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ آجکل بحیثیت قوم ہم پاکستانیوں کو اپنا مفاد عزیز ہے اگر وہ قرآن سے حاصل ہو رہا ہو تو ہم اپنے مطلب کی آیات کو لے کر پوری قوت سے چیختے ہیں اور اگر کوئی چیز ہمارے مفاد کے خلاف پڑے تو اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں چاہے وہ قرآنی حکم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرز عمل کی سزا ہے جو مل رہی ہے، عذاب کی مختلف شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں:
او یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم باس بعض ( الانعام)
"(عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ ) وہ (اللہ) تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک گروہ کو دوسرے کی طاقت کا مزا چکھا دے"
قسیم حیدر اور عبدالحمید بھائی ،
مؤقف آپ دونوں کا ہی درست ہے۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ ہم سب اس قتل و غارت گری سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس کو روکنے کی حمایت بھی کرتے ہیں۔
صاحبو ، اس سے انحراف ممکن نہیں کہ قبائلی علاقوں میں امریکہ کے دباؤ پہ آپریشن کیا جا رہا ہے اور طالبان بھی اسی نقطے پر عوامی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں کہ یہ کافروں کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔ اسے ہماری حکومتوں کی منافقت ہی کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے ان طالبان کو ہر طریقے سے مدد دے کر طاقتور کیا اور 1980 کی دہائی میں جب ان کی کھلم کھلا آبیاری کی جا رہی تھی ، اُس وقت بھی فوج اور حکومت نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ایک خاص گروہ کو وہ اس قدر طاقت ور کیوں بنا رہے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس وقت عوام کے اندر ان طالبان کے بارے میں شبہات نہیں پائے جاتے تھے۔ اس وقت کے اخبارات اور میڈیا رپورٹیں گواہ ہیں کہ حکومت کے اس اقدام کو معتدل مزاج عوام اور سیاستدانوں نے پسند نہیں کیا تھا۔ ان کی شدت پسندی کو ہماری ایجنسیوں اور حکومتوں نے مہمیز دی ہے۔
فرضی ( عبدالحمید) بھائی کا مؤقف درست ہے کہ طالبان اپنے ارادے اور مقصد میں (بھلے وہ غلط ہی ہے) راسخ ہیں جب کہ ہماری فوج ڈانواں ڈول پوزیشن میں رہتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی منافقت ہے جو ہماری حکومت اور ایجنسیاں آج تک دکھاتی رہی ہیں۔
اب حالات اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ان خونیوں کے خلاف کارروائی صرف امریکی ہی نہیں ہمارے اپنے عوام کے مفاد میں بھی ہے۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے ، امریکہ سے بھی پہلے ہماری حکومتیں ان عناصر کو چھوٹ دینے کی ذمہ دار رہ چکی ہیں اس لئیے اب منافقت اور سودے بازی کا راستہ ترک کر کے ہماری حکومت کو چاہئیے کہ ان کا مستقل بندو بست کرے۔ پہلی ترجیح مذاکرات اور سیاسی حل کو دی جانی چاہئیے اور جو لوگ مذاکرات کے ذریعے سمجھانے پر سدھر جائیں ان کو معاف کر دینا چاہئیے اور جو سر کشی پر مصر رہیں ان کو کسی بھی حال میں معاف نہ کیا جائے۔ اور اگر اب بھی ہماری حکومت نے اپنی روایتی منافقت دکھائی تو پھر خون خرابہ مزید بڑھے گا اور عوام میں مایوسی بھی گہری ہوتی جائے گی۔
 

ساجد

محفلین
دوغلی پالیسی کوئی بھی اختیار کرے افسوسناک ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ قرآن کریم میں مومن کے قتل کی حرمت سختی سے بیان کی گئی ہے اور میں مختلف تھریڈز میں ان کا حوالہ دے چکا ہوں۔ لیکن یہ حرمت جیسے "دہشت گردوں" کے لیے ہے ویسے ہی پاکستانیوں کے لیے بھی ہے۔ صرف پاکستانی ہی مومن نہیں‌ہیں۔ ہمیں زیادہ درد اور دکھ اس لیے محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمارے پیارے ملک اور ہمارے پیارے لوگوں پر حملے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیے وہ لاکھوں لوگ بھی مومن تھے جن کے قتل کے لیے ہم تزویراتی مدد فراہم کی تھی۔ اس وقت قرآن کی یہ آیات کسی کو یاد آئی تھیں؟
افتومنون ببعض الکتاب و تکفرون ببعض (البقرۃ)
کیا قرآن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کسی کلمہ گو کے مقابلے پر کفار و مشرکین کی مدد حرام ہے۔
الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض و فساد کبیر (الانفال)
"اگر تم اسی طرح(اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا"
کیا قرآن نہیں‌کہتا کہ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کفار و مشرکین کو دوست مت بناؤ؟
لا تتخذا الکافرین اولیاء من دون المؤمنین (النساء)
"مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی مت بناؤ"
میری پوری دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ آجکل بحیثیت قوم ہم پاکستانیوں کو اپنا مفاد عزیز ہے اگر وہ قرآن سے حاصل ہو رہا ہو تو ہم اپنے مطلب کی آیات کو لے کر پوری قوت سے چیختے ہیں اور اگر کوئی چیز ہمارے مفاد کے خلاف پڑے تو اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں چاہے وہ قرآنی حکم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرز عمل کی سزا ہے جو مل رہی ہے، عذاب کی مختلف شکلیں دیکھنے کو مل رہی ہیں:
او یلبسکم شیعا و یذیق بعضکم باس بعض ( الانعام)
"(عذاب کی ایک صورت یہ ہے کہ ) وہ (اللہ) تمہیں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک گروہ کو دوسرے کی طاقت کا مزا چکھا دے"
قسیم حیدر صاحب ،
آپ کی تحریر نے مجھے بہت کچھ یاد دلا دیا۔ جب یہی طالبان ، افغانستان میں اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مخالفین کا خون بہا رہے تھے تو میں نے ایک مولانا صاحب سے دریافت کیا تھا کہ روس تو جا چکا اب یہ لوگ جو مسلمانوں کا ہی خون بہا رہے ہیں کس قسم کی شریعت کا نفاذ کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ " وہ کافروں کو مار رہے ہیں"۔
اللہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ قرآن پاک کی آیات اور احادیثِ مبارکہ کا حکم ہم سب پر ایک جیسا لاگو ہوتا ہے ۔ جب ہم ان کے مطالب و معانی کو غلط رنگ دے کر انہیں اپنے مذموم مقاصد اور دوسروں کے قتل کے لئیے استعمال کریں گے تو اللہ کی ناراضی کا اظہار ایسی ہی صورت میں ہوتا ہے جس کا شکار ہم ہو چکے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
ہم کو اب اس خوش فہمی سے باہر آجانا چاہیے کہ یہ ملا مومنوں میں‌شامل بھی ہیں؟ ایسے ملاؤں کی کس شریعت کا تعلق کسی طور اسلام سے ہے؟ یہ مسلح تخریب کار ہیں جنہوں نے ملاؤں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے اور انہی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ ان کے سپورٹرز میں‌سے بیشتر اسمگلرز اور ڈاکو ہیں۔ کل ایک سابقہ بریگیڈیر کا انٹرویو جیو ٹی وی پر سنا۔ ان تخریب کاروں‌کا مقصد ہے حکومت پاکستان کو ختم کرنا۔

ان ملاؤں‌کے ساتھ فوج کو کھڑا کرنا انتہائی ظلم ہے۔ اگر ہم فسادیوں اور محافظوں میں فرق نہ کرسکیں تو صاحب تف ہے ہماری اندھی آنکھوں پر جو اسلام اور شریعت کے نام پر جذباتی اندھے پن کا شکار ہوجاتی ہیں۔

جو لوگ لڑکیوں کے اسکول جلا رہے ہیں۔ فوج کے ساتھ خانہ جنگی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے، ان سے اس لئے ہمدردی رکھنا کہ وہ یہ زبان سے شریعت کا نام لیتے ہیں اور عمل ان کے شیطانی ہیں۔ ایسے لوگوں کو مومن کہنا اور ان کے لئے قرآن سے ریفرنس فراہم کرنا۔ ہم کیوں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کل جن فوجیوں کی گردنیں کاٹی گئی ہیں‌ اس کا کیا جواز ہے؟ کیااب ہم اتنے معصوم ہیں‌کہ یہ مان لیں‌ کہ فوج کو امریکہ اور اسرائیل نے لڑنے بھیجا ہے کہ کلاشنکوف سے مسلح لوگ جو پاکستان میں اسکول جلا رہے ہیں، اس سے واشنگٹن کو خطرہ لاحق ہے؟ سادگی کی بھی انتہا ہوتی ہے۔

دین ملا ، فساد فی سبیل الشیطانَ
فاروق سرور خاں صاحب ،
آپ نے بالکل درست تجزیہ کیا۔ ان خونیوں اور قاتلوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان کا ماضی دیکھیں تو خرکار کیمپوں ، اسلحے کی تجارت ،سمگلنگ ، اغواء برائے تاوان ، منشیات کی تجارت اور مسروقہ گاڑیوں کے کاروبار پر مبنی ہے۔ آج انہوں نے ایک نیا چہرہ سجا لیا ہے تا کہ مذہب کے نام پر اپنے مقاصد کا حصول ممکن بنا سکیں۔
 
قسیم، آپ کی بات پہلے بھی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اسی بات پر ملاؤں کے نکتہء نظر کے مطابق مزید وضاحت کررہا تھا۔ آپ کی مزید وضاحت کا شکریہ۔

فرضی کے نوت سے اقتباس۔
جو لوگ خود کو سول سوسائٹی کہتے ہیں انہوں نے اب تک ٹی وی اور اخبارات میں واویلا مچانے کے علاوہ اور کیا کیا۔ ان میں سے کتنے جانتے ہیں کہ وزیرستان ، باجوڑ اور مالاکنڈ پاکستان کے کس کونے میں ہیں۔ کیا یہ کہنے سے جان بخشی ہوجائے گی کہ یہ کام حکومت کا ہے۔

فرضی، آپ نے درست نشاندہی کی ہے۔ مزید یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک منظم سول سوسائیٹی میں تمام لوگ اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور جو لوگ فوج کے لئے مناسب ہوتے ہیں وہ عملی طور پر اس عمل میں حصہ لیتے ہیں اور جو لوگ دیگر کام کرتے ہیں وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں تاکہ حکومت کو آمدنی ہو اور حکومت یہ فوجی نظام چلاتی رہے۔ اس ٹیکس ادا کرنے کے کام میں‌ایک طرح ہر شخص شامل ہے۔ کہ وہ کسی نہ کسی طور یہ ٹیکسز ادا کررہا ہے۔ اس طرح ہر شخص اس مرکزی عمل میں‌شامل ہے۔ مزید یہ کہ ہم سب کو اپنا نظام حکومت سمجھنا چاہئے اور اس کو بہتر بنانے کے لئے ہر مرحلے پر تجویزات و عملی کارکردگی سے کام لینا چائیے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
 

قسیم حیدر

محفلین
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
“اہل سنت کا مشہور مذہب ہے کہ وہ حکومت کےخلاف خروج (بغاوت) اور قتال بالسیف کو درست نہیں سمجھتے چاہے حاکم ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی احادیث اس بات کی دلیل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے قتال سے جو فتنہ و فساد برپا ہو گا وہ اس سے کئی گنا بڑا ہو گا جو حاکم کے ظلم سے پھیل رہا ہے۔” (منھاج السنۃ النبویۃ )
الشیخ ابن باز سے پوچھا گیا کہ جب حکام شرعیت کے مطابق فیصلے نہ کریں تو کیا حکم ہے۔ انہوں نے جواب دیا “ جب شرعی عدالتیں موجود نہ ہوں تو حکام کو نصیحت کی جائے اور ان سے تعاون کیا جائے تا کہ وہ شرع اللہ کو قائم کر سکیں۔ ایسی صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہاتھ بڑھا کر کسی کو قتل کرے یا مارے۔ اگر حکام شرع اللہ نافذ نہ کریں تو واجب ہے کہ انہیں نصیحت کی جائے” (المعلوم من واجب العلاقہ بین الحاکم والمحکوم ص ۷ تا ۱۶)
امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح المسلم میں کہتے ہیں کہ “ائمہ، یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ و ہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں”
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بنی امیہ اور بنی عباد دونوں کے زمانہ میں کوڑوں اور قید کی سزائیں بھگتیں یہاں تک کہ ان کی وفات بھی جیل میں ہوئی، امام مالک رحمہ اللہ کو منصور عباسی کے زمانے میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور اس بر طرح ان کی مشکیں کسی گئیں کہ ہاتھ بازو سے اکھڑ گیا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر مامون، معتصم اور واثق تینوں کے زمانے میں مسلسل مصائب و شدائد کے پہاڑ ٹوٹتے رہے۔ مسئلہ خلق قرآن پر حکومت وقت سے سخت نظریاتی اختلاف رہا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نےکبھی خروج کی دعوت نہیں دی۔
سمجھنے والوں کے لیے ان بڑے علماء کا عمل کافی ہے۔ افسوس مجھے یہاں مطلوبہ کتب میسر نہیں ورنہ اس بارے میں ان کے تفصیلی اقوال بھی نقل کر دیتا۔ کل جب علماء کے یہ اقوال پیش کیے جاتے تھے تو لوگ “سرکاری مولوی” کا طعنہ دیتے، آج چند ناعاقبت اندیشوں نے غلط راستے پر پیش قدمی شروع کر دی ہے تو بھی “شریعت کے ٹھیکیداروں” پر اعتراض ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک کے ایک حصے میں یہ آگ کیوں لگ گئی ہے۔ ملا وہاں پچاس ساٹھ سال سے موجود تھے، چند سال قبل تک یہ علاقہ اتنا محفوظ تھا کہ قدرتی باڑ تصور کیا جاتا۔ ہمارا قومی شاعر وہاں کے ملا کی تعریف کرتے ہوئے کہتا تھا کہ افغان کی غیرت و حمیت کا ایک ہی علاج ہے کہ ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو۔ پھر راتوں رات ایک ٹیلی فون کال آئی جس نے وحی الٰہی کی طرح ہمارا قبلہ دوسری طرف پھیر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن ہمارا ہر قدم تباہی کی طرف اٹھ رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں جس طرح گردنیں کاٹی گئیں وہ انتہائی شرمناک فعل ہے جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ “ملا کی شریعت” میں یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں اگر آپس میں لڑ پڑیں تو لڑائی کے دوران بھاگنے والے کا تعاقب نہ کیا جائے، گرفتار ہوجانے والے کو قتل نہ کیا جائے، زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دی جائے، ان کا مال مالِ غنیمت قرار نہ دیا جائے۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے کیونکہ یہ مثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس رومی بطریق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو انہوں نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ہمارا کام رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولی ممنوع ہونا چاہیے (المبسوط)
یہ حرکتیں نہ اسلام سے کوئی تعلق رکھتی ہیں نہ شریعت سے۔ یہ قبائلی روایات اور قبائلی جوش انتقام کا مظہر ہیں جنہیں اسلام اور علماء کےکھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں کے چند مولویوں کے سوا جو خود اس خاص ماحول کی پیداوار ہیں کسی عالم نے ان افعال شنیعہ کی حمایت نہیں کی۔ لڑکیوں کی سکول جلانا وغیرہ کی وجہ بھی قبائلی روایات ہیں جن سے ملاؤں کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اگر ملاؤں کی اکثریت اس کی حامی ہوتی تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی یہ وہاں دھماکےہوتے۔ صوبہ سرحد میں ملاؤں کی حکومت نے 40 سے زائد نئے کالج کھولے ہیں جن میں 28 گرلز کالج ہیں۔ علاوہ ازیں خواتین کی تعلیم کے لیےملکی تاریخ میں پہلی وومن یونیورسٹی بھی ملاؤں کی حکومت ہی کی مرہون منت ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ کسی چیز کی حمایت یا مخالفت کرتے وقت حد اعتدال کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔
ایک طنزیہ تیر جو اکثر کمین گاہوں سے پھینکا جا رہا ہے “شریعت کے ٹھیکیدار”، “اسلام کے ٹھیکیدار” وغیرہ۔ میں بھائیوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس قسم کے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے۔بعض اوقات آدمی بات کر جاتا ہے لیکن اس کے اثرات بڑے دوررس ہوتے ہیں۔چند لوگوں کی غلطی کو بنیاد بنا کر سارے علماء کو رگڑ دینا صریح زیادتی ہے۔ رہی ٹھیکیداری کی بات، تو علمائے حق کو یہ ٹھیکیداری اللہ تعالیٰ نے دی ہے نہ صرف اس امت میں بلکہ سابقہ امتوں میں بھی:
انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نور یحکم بھا النبیون الذین ءسلموا للذین ھادوا و الربانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ و کانوا علیہ شھداء (المائدۃ44)
“ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی جو مسلم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی (علماء) اور احبار (فقہاء) بھی۔ کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے”
اس وقت ضرورت ہے کہ جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے مسلمانوں میں صلح اور امن قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآنی حکم بھی یہی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما (الحجرات)
“اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں قتال کرنے لگیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو”
انما المؤمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم (الحجرات)
“بے شک مومن بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا ؤ”
 

ساجداقبال

محفلین
آپ کی تحریر نے مجھے بہت کچھ یاد دلا دیا۔ جب یہی طالبان ، افغانستان میں اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں مخالفین کا خون بہا رہے تھے تو میں نے ایک مولانا صاحب سے دریافت کیا تھا کہ روس تو جا چکا اب یہ لوگ جو مسلمانوں کا ہی خون بہا رہے ہیں کس قسم کی شریعت کا نفاذ کر رہے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ " وہ کافروں کو مار رہے ہیں"۔
آپ ذرا مبالغہ آرائی کر رہے ہیں۔ نجیب، دوستم کمیونسٹ تھے اور یہاں دونوں کا تقابل کر کے رائے دیں تو بہتر ہوگا۔ احمد شاہ مسعود، نجیب، دوستم، سیاف وغیرہ کی حرکتیں بھی ذرا بیان کریں۔
 

ساجد

محفلین
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
“اہل سنت کا مشہور مذہب ہے کہ وہ حکومت کےخلاف خروج (بغاوت) اور قتال بالسیف کو درست نہیں سمجھتے چاہے حاکم ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کئی احادیث اس بات کی دلیل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے قتال سے جو فتنہ و فساد برپا ہو گا وہ اس سے کئی گنا بڑا ہو گا جو حاکم کے ظلم سے پھیل رہا ہے۔” (منھاج السنۃ النبویۃ )
الشیخ ابن باز سے پوچھا گیا کہ جب حکام شرعیت کے مطابق فیصلے نہ کریں تو کیا حکم ہے۔ انہوں نے جواب دیا “ جب شرعی عدالتیں موجود نہ ہوں تو حکام کو نصیحت کی جائے اور ان سے تعاون کیا جائے تا کہ وہ شرع اللہ کو قائم کر سکیں۔ ایسی صورت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہاتھ بڑھا کر کسی کو قتل کرے یا مارے۔ اگر حکام شرع اللہ نافذ نہ کریں تو واجب ہے کہ انہیں نصیحت کی جائے” (المعلوم من واجب العلاقہ بین الحاکم والمحکوم ص ۷ تا ۱۶)
امام نووی رحمہ اللہ شرح صحیح المسلم میں کہتے ہیں کہ “ائمہ، یعنی مسلمان فرمانرواؤں کے خلاف خروج اور قتال حرام ہے، خواہ و ہ فاسق اور ظالم ہی کیوں نہ ہوں”
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بنی امیہ اور بنی عباد دونوں کے زمانہ میں کوڑوں اور قید کی سزائیں بھگتیں یہاں تک کہ ان کی وفات بھی جیل میں ہوئی، امام مالک رحمہ اللہ کو منصور عباسی کے زمانے میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور اس بر طرح ان کی مشکیں کسی گئیں کہ ہاتھ بازو سے اکھڑ گیا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ پر مامون، معتصم اور واثق تینوں کے زمانے میں مسلسل مصائب و شدائد کے پہاڑ ٹوٹتے رہے۔ مسئلہ خلق قرآن پر حکومت وقت سے سخت نظریاتی اختلاف رہا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نےکبھی خروج کی دعوت نہیں دی۔
سمجھنے والوں کے لیے ان بڑے علماء کا عمل کافی ہے۔ افسوس مجھے یہاں مطلوبہ کتب میسر نہیں ورنہ اس بارے میں ان کے تفصیلی اقوال بھی نقل کر دیتا۔ کل جب علماء کے یہ اقوال پیش کیے جاتے تھے تو لوگ “سرکاری مولوی” کا طعنہ دیتے، آج چند ناعاقبت اندیشوں نے غلط راستے پر پیش قدمی شروع کر دی ہے تو بھی “شریعت کے ٹھیکیداروں” پر اعتراض ہے۔
سوال یہ ہے کہ ملک کے ایک حصے میں یہ آگ کیوں لگ گئی ہے۔ ملا وہاں پچاس ساٹھ سال سے موجود تھے، چند سال قبل تک یہ علاقہ اتنا محفوظ تھا کہ قدرتی باڑ تصور کیا جاتا۔ ہمارا قومی شاعر وہاں کے ملا کی تعریف کرتے ہوئے کہتا تھا کہ افغان کی غیرت و حمیت کا ایک ہی علاج ہے کہ ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو۔ پھر راتوں رات ایک ٹیلی فون کال آئی جس نے وحی الٰہی کی طرح ہمارا قبلہ دوسری طرف پھیر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن ہمارا ہر قدم تباہی کی طرف اٹھ رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں جس طرح گردنیں کاٹی گئیں وہ انتہائی شرمناک فعل ہے جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ “ملا کی شریعت” میں یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں اگر آپس میں لڑ پڑیں تو لڑائی کے دوران بھاگنے والے کا تعاقب نہ کیا جائے، گرفتار ہوجانے والے کو قتل نہ کیا جائے، زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان دی جائے، ان کا مال مالِ غنیمت قرار نہ دیا جائے۔ باغی مقتولوں کے سر کاٹ کر گشت کرانا سخت مکروہ فعل ہے کیونکہ یہ مثلہ ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس رومی بطریق کا سر کاٹ کر لایا گیا تو انہوں نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ہمارا کام رومیوں اور ایرانیوں کی پیروی کرنا نہیں ہے۔ یہ معاملہ جب کفار تک سے کرنا روا نہیں ہے تو مسلمانوں کے ساتھ تو یہ بدرجہ اولی ممنوع ہونا چاہیے (المبسوط)
یہ حرکتیں نہ اسلام سے کوئی تعلق رکھتی ہیں نہ شریعت سے۔ یہ قبائلی روایات اور قبائلی جوش انتقام کا مظہر ہیں جنہیں اسلام اور علماء کےکھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں کے چند مولویوں کے سوا جو خود اس خاص ماحول کی پیداوار ہیں کسی عالم نے ان افعال شنیعہ کی حمایت نہیں کی۔ لڑکیوں کی سکول جلانا وغیرہ کی وجہ بھی قبائلی روایات ہیں جن سے ملاؤں کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ اگر ملاؤں کی اکثریت اس کی حامی ہوتی تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی یہ وہاں دھماکےہوتے۔ صوبہ سرحد میں ملاؤں کی حکومت نے 40 سے زائد نئے کالج کھولے ہیں جن میں 28 گرلز کالج ہیں۔ علاوہ ازیں خواتین کی تعلیم کے لیےملکی تاریخ میں پہلی وومن یونیورسٹی بھی ملاؤں کی حکومت ہی کی مرہون منت ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ کسی چیز کی حمایت یا مخالفت کرتے وقت حد اعتدال کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔
ایک طنزیہ تیر جو اکثر کمین گاہوں سے پھینکا جا رہا ہے “شریعت کے ٹھیکیدار”، “اسلام کے ٹھیکیدار” وغیرہ۔ میں بھائیوں سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ اس قسم کے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے۔بعض اوقات آدمی بات کر جاتا ہے لیکن اس کے اثرات بڑے دوررس ہوتے ہیں۔چند لوگوں کی غلطی کو بنیاد بنا کر سارے علماء کو رگڑ دینا صریح زیادتی ہے۔ رہی ٹھیکیداری کی بات، تو علمائے حق کو یہ ٹھیکیداری اللہ تعالیٰ نے دی ہے نہ صرف اس امت میں بلکہ سابقہ امتوں میں بھی:
انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نور یحکم بھا النبیون الذین ءسلموا للذین ھادوا و الربانیون والاحبار بما استحفظوا من کتاب اللہ و کانوا علیہ شھداء (المائدۃ44)
“ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ سارے نبی جو مسلم تھے، اسی کے مطابق ان یہودی بن جانے والوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور اسی طرح ربانی (علماء) اور احبار (فقہاء) بھی۔ کیونکہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے”
اس وقت ضرورت ہے کہ جلتی پر تیل ڈالنے کی بجائے مسلمانوں میں صلح اور امن قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآنی حکم بھی یہی ہے اور وقت کا تقاضا بھی۔
و ان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما (الحجرات)
“اور اگر مومنوں کے دو گروہ آپس میں قتال کرنے لگیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو”
انما المؤمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم (الحجرات)
“بے شک مومن بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا ؤ”
قسیم حیدر صاحب ،
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ، آپ نے بہت دھیمےاور اچھے انداز میں ایک مسلم حکومت کے خلاف بغاوت کی ممانعت پر جید علماء کے اقوال و اعمال پر روشنی ڈالی۔ میں بھی اسی بات کا قائل ہوں کہ بگڑے ہوئے حالات میں بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑی کرنے کی بجائے حالات کی بہتری کے لئیے حکومت سے مل کر کام کرنا چاہئیے۔ لیکن یہاں مسئلہ یہ پیدا ہو چکا ہے کہ دونوں فریق ( حکومت اور طالبان ) اپنا اعتماد ان لوگوں میں کھو چکے ہیں جو ان کے درمیان صلح کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جرگے کے فیصلوں کی پابندی ہو یا آپسی گفت و شنید ، وقت ملتے ہی دونوں ہی وعدہ خلافی پر اتر آتے ہیں۔
خیر میں مزید بحث میں نہیں جانا چاہوں گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز واضح ہوتی جا رہی ہے ۔
آپ کی بات درست کہ ملا تو پچاس ساٹھ سال سے اس علاقے میں تھے ۔ پھر اب یہ آگ اچانک کیوں بھڑک اُٹھی۔
قسیم صاحب ، یہ آگ اچانک نہیں بھڑکی۔ یہ بہت پہلے سے ہی دہک رہی تھی ۔ اب یہ ہواہے کہ اس کا رُخ اپنے ہی گھر کی طرف ہو گیا ہے۔ میں ذاتی حیثیت میں تو دورانِ بحث پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ افغان جنگ کے دوران اختیار کی گئ ہماری غلط پالیسی نے اگر ان طالبان کو ایک طاقتور مسلح گروہ بنایا تو اس جنگ کے اختتام پر ہماری حکومتوں کی بے وقوفیوں نے انہیں پاکستان کے عوام پر اپنے خود ساختہ اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کی کھلم کھلا چھٹی دئیے رکھی اور اب جب کہ حکومت اور فوج خود اس آگ کی تپش سے متاثر ہو رہے ہیں تو فوجی آپریشن اور طالبان کے ذبح خانوں میں پھر سے غریب عوام کا ہی خون بہہ رہا ہے۔
میں ان کو درندے لکھتا ہوں اور مسلمان ہونے کے لئیے تو انسان ہونا شرط ہے اس لئیے کہتا ہوں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز ہوتی تو جن اقوال کی طرف آپ نے توجہ دلائی کم از کم یہ لوگ انہی کو سمجھ لیتے۔ اور پھر ان کا دعوی ہے شریعت کے نفاذ کا۔ اس سے بڑی اور کیا بد نصیبی ہو گی ہماری کہ اس ملک میں وہ لوگ شریعت کے دعویدار ہیں کہ جو جاہلیت میں قبل از اسلام کے جاہلوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
علمائے حق اور ان کا تو دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ اس لئیے ہم ان کو کیسے علماء کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟؟؟ یہ بھلے اپنے ناموں کے ساتھ مولانا لکھتے رہیں لیکن گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ عالم تو نہیں بن جاتا نا!!! ان کی تقاریر کے کیسٹ سنئیے تو آپ کو میری بات ماننا ہی پڑے گی کہ یہ کس طریقے سے فتنہ اور فساد پھیلا رہے ہیں۔ غیر قانونی ایف ایم ریڈیو ، مدرسوں میں اسلحے کے انبار ، مسلکی عدم برداشت ، گھروں کو جلانا ، عورتوں پر تہمت بازی اور اس کی آڑ میں دشمنیاں نکالنا غرض کون سی ایسی بات ہے جو ان کو ایک مصلح یا معاون ثابت کر سکے؟؟؟
آپ کا خیال درست ہے کہ چند مولوی جو اس ماحول کی پیداوار ہیں وہ ان کے ساتھ ہیں لیکن یہاں پھر وہی بات کہ اگر معاملہ چند لوگوں کا ہے تو علماء کی اکثریت کو تو ان کا بائیکاٹ کر کے ان سے لا تعلقی کا اظہار کرنا چاہئیے۔ مجھے بس یہی گلہ ہے محترم علماء کرام سے کہ انہوں نے ان جنونیوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔ اگر کسی عالم نے کچھ کہا بھی تو گول مول الفاظ میں لیکن ان کو ایک سخت پیغام ملنا چاہئیے کہ اگر یہ خونی اپنے مذموم مقاصد کے لئیے اسلام اور علماء کا نام استعمال کریں گے تو علماء کرام کہ جن کا عوام میں کافی اثر و رسوخ ہے ، ان سے لا تعلقی کا اظہار کر کے ان کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیں گے۔
آخر میں اس بات پر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ نے صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران ہونے والے ان کاموں کی طرف توجہ دلائی کہ جس سے علماء کرام کے خلاف پائے جانے والے منفی تاثر کی مکمل نفی ہوتی ہے۔ میں خود بھی ان کے اچھے کاموں کا معترف ہوں۔ اور سرکاری یا غیر سرکاری مولوی کی تخصیص کا میں سرے سے ہی قائل نہیں ہوں۔ مولوی صاحبان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کو بھی سیاسی عمل میں شامل ہونے اور حکومت سازی کو پورا حق حاصل ہے۔ اور اگر اسی سیاسی عمل کا دائرہ ان شورش زدہ علاقوں تک بھی پھیلا دیا جائے تو معاملات کے جلد حل ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
آپ ذرا مبالغہ آرائی کر رہے ہیں۔ نجیب، دوستم کمیونسٹ تھے اور یہاں دونوں کا تقابل کر کے رائے دیں تو بہتر ہوگا۔ احمد شاہ مسعود، نجیب، دوستم، سیاف وغیرہ کی حرکتیں بھی ذرا بیان کریں۔
نہیں ، ساجد اقبال ، میرا اشارہ نجیب اور دوستم کی طرف نہیں تھا۔ میں اُن عوام کی بات کر رہا تھا جو محض مسلکی اختلاف کی بنیاد پر قتل کئیے گئے۔ اور دیکھئیے کہ میں نے سینکڑوں کا لفظ اسی لئیے لکھا ہے کہ وہ ، قتل ہونے والے ، عوام تھے۔
شاید آپ "مخالفین" کے لفظ سے غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ مخالفین سے میری مراد مسلکی اختلاف رکھنے والے تھے۔
 

ساجداقبال

محفلین
ایسا کوئی واقعہ یا خبر کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ بلکہ ان دنوں سکھوں اور عیسائیوں کو میں نے انکی تعریف کرتے پایا۔ ممکن ہے سرکاری پریشر ہو۔
 

ساجد

محفلین
ایسا کوئی واقعہ یا خبر کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ بلکہ ان دنوں سکھوں اور عیسائیوں کو میں نے انکی تعریف کرتے پایا۔ ممکن ہے سرکاری پریشر ہو۔
ساجد اقبال ، بھائی جی پرانی بات ہے اس لئیے ممکن ہے اس وقت آپ ان چیزوں میں دلچسپی نہ لیتے ہوں۔
یہاں ایسے ہی واقعات کا ذکر ہے۔
 
Top