فاروق احمد بھٹی
محفلین
اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب، جناب الف عین صاحب اور دیگر اہلِ علم اور سخن شناس حضرات سے نظم پہ اصلاحی نظر فرمانے کی گزارش ہے۔ غلطیوں کوتاہیوں کی نشاندہی فرما کر شکریہ کا موقع عنائیت فرمائیں۔ والسلام
والدہ مرحومہ کی یاد میں
میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا
لمس تیرا قابلِ احساس تھا
اُس پہ تیری مسکراہٹ بے رِیا
گود میں تیری تھا طفلِ شیر خوار
پال کر مجھ کو جواں تو نے کیا
کس قدر تیری محبت خاص تھی
تجھ سے میں نے جو بھی مانگا، وہ دیا
ساتھ تیرا ، اب نہ میرے ساتھ ہے
وقت نے کیسا دغا مجھ کو دیا
آج بھی مجھ کو ضرورت ہے تری
بن ترے گر میں جیا، تو کیا جیا
تیرے جانے کو نہ میں تیار تھا
کون میرا بن ترے غمخوار تھا
دیکھ کر مجھ کو پریشاں میرے ماں
کون اب دستِ دعا پھیلائے گا
ضد کرے گا کس سے اب بیٹا تِرا
کون مجھ کو پیار سے سمجھائے گا
جب کبھی مجھ کو نہ نیند آپائے گی
کون میرے بالوں کو سہلائے گا
جب کبھی میں دیر سے گھر آؤں گا
کون اپنی بانہوں کو پھیلائے گا
دستِ شفقت رکھ سکے گا کون اب
ہر کوئی مجھ سے تو اب کترائے گا
دل پہ کوہِ غم گرا تو سہہ گیا
لعل تیرا تنہا ہو کر رہ گیا
زندگی ہے تلخ تر، اے میری ماں
پر خطر ہے پر خطر، اے میری ماں
زیست کا حاصل ہے رنج و غم فقط
یا دلِ مضطر ،یا ڈر، اے میری ماں
چھن گئی پیروں کے نیچے سے زمیں
ہو گیا میں دربدر، اے میری ماں
ہو کے اپنے گھر میں بے گھر رہ گیا
کاٹتے ہیں بام و در، اے میری ماں
اب تو جا کے سو گئی زیرِ زمیں
چھوڑ کر سونا یہ گھر، اے میری ماں
ابر تھا سایہ دعاؤں کا تِری
ٹالتا تھا ہر گھڑی مشکل مِری
تیری مرقد پر جو میں حاضر ہوا
عجز میرا مجھ پہ پھر ظاہر ہوا
ہر کوئی پابند ہے تقدیر کا
کون اس سے بچنے پر قادر ہوا
جو بھی آیا زندگی کے بحر میں
موت سے وہ ہمکنار آخرہوا
حق اجازت دے تجھے تو کر دعا
دل مِرا آزردہِ خاطر ہوا
آئی مرقد سے صدا تو غم نہ کر
شکر ہے اُسکا کہ تو صابر ہوا
زندگی مہکے تِری جیسے کنول
ساتھ ہو تیرے خدائے لم یزل
رات ہے تنہائی اور میرا قلم
عقل میری سر بہ زانو آنکھ نم
قلزمِ خاموش تیری یاد ہے
جس طرح ہو رات کوئی صبح دم
جس طرح شب صبح کی امید ہے
اِس طرح ہے موت سب کے ہم قدم
اہلِ ایماں کو پیامِ عیش ہے
حکم کا پابند ہے لائے گا یم
تو بھی کر پابندیِ حکمِ خدا
اے تلون کیش! اب تو دم بہ دم
جنکو مقصد زندگی کا یاد ہے
یہ جہاں کیا وہ جہاں بھی شاد ہے
حوصلہ میرا نہیں میں کیا کروں
عرض کیسے مدعا اپنا کروں
عجز میرا ہے مکمل بات پر
بند کیسے کوزے میں دریا کروں
قادرِ مطلق تَو ہے سب جانتا
عرض پھر بھی اپنا میں دکھڑا کروں
ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کرنے کو اب
سر کو بھی اپنے میں کچھ نیچا کروں
لفظ مجھ سے ہوں ادا اتنا کہوں
لب کو اپنے پھر میں یوں گویا کروں
تیری مرقد پر خدا رحمت کرے
اور تیرا گھر خدا جنت کرے
فاروق احمد
والدہ مرحومہ کی یاد میں
میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا
لمس تیرا قابلِ احساس تھا
اُس پہ تیری مسکراہٹ بے رِیا
گود میں تیری تھا طفلِ شیر خوار
پال کر مجھ کو جواں تو نے کیا
کس قدر تیری محبت خاص تھی
تجھ سے میں نے جو بھی مانگا، وہ دیا
ساتھ تیرا ، اب نہ میرے ساتھ ہے
وقت نے کیسا دغا مجھ کو دیا
آج بھی مجھ کو ضرورت ہے تری
بن ترے گر میں جیا، تو کیا جیا
تیرے جانے کو نہ میں تیار تھا
کون میرا بن ترے غمخوار تھا
دیکھ کر مجھ کو پریشاں میرے ماں
کون اب دستِ دعا پھیلائے گا
ضد کرے گا کس سے اب بیٹا تِرا
کون مجھ کو پیار سے سمجھائے گا
جب کبھی مجھ کو نہ نیند آپائے گی
کون میرے بالوں کو سہلائے گا
جب کبھی میں دیر سے گھر آؤں گا
کون اپنی بانہوں کو پھیلائے گا
دستِ شفقت رکھ سکے گا کون اب
ہر کوئی مجھ سے تو اب کترائے گا
دل پہ کوہِ غم گرا تو سہہ گیا
لعل تیرا تنہا ہو کر رہ گیا
زندگی ہے تلخ تر، اے میری ماں
پر خطر ہے پر خطر، اے میری ماں
زیست کا حاصل ہے رنج و غم فقط
یا دلِ مضطر ،یا ڈر، اے میری ماں
چھن گئی پیروں کے نیچے سے زمیں
ہو گیا میں دربدر، اے میری ماں
ہو کے اپنے گھر میں بے گھر رہ گیا
کاٹتے ہیں بام و در، اے میری ماں
اب تو جا کے سو گئی زیرِ زمیں
چھوڑ کر سونا یہ گھر، اے میری ماں
ابر تھا سایہ دعاؤں کا تِری
ٹالتا تھا ہر گھڑی مشکل مِری
تیری مرقد پر جو میں حاضر ہوا
عجز میرا مجھ پہ پھر ظاہر ہوا
ہر کوئی پابند ہے تقدیر کا
کون اس سے بچنے پر قادر ہوا
جو بھی آیا زندگی کے بحر میں
موت سے وہ ہمکنار آخرہوا
حق اجازت دے تجھے تو کر دعا
دل مِرا آزردہِ خاطر ہوا
آئی مرقد سے صدا تو غم نہ کر
شکر ہے اُسکا کہ تو صابر ہوا
زندگی مہکے تِری جیسے کنول
ساتھ ہو تیرے خدائے لم یزل
رات ہے تنہائی اور میرا قلم
عقل میری سر بہ زانو آنکھ نم
قلزمِ خاموش تیری یاد ہے
جس طرح ہو رات کوئی صبح دم
جس طرح شب صبح کی امید ہے
اِس طرح ہے موت سب کے ہم قدم
اہلِ ایماں کو پیامِ عیش ہے
حکم کا پابند ہے لائے گا یم
تو بھی کر پابندیِ حکمِ خدا
اے تلون کیش! اب تو دم بہ دم
جنکو مقصد زندگی کا یاد ہے
یہ جہاں کیا وہ جہاں بھی شاد ہے
حوصلہ میرا نہیں میں کیا کروں
عرض کیسے مدعا اپنا کروں
عجز میرا ہے مکمل بات پر
بند کیسے کوزے میں دریا کروں
قادرِ مطلق تَو ہے سب جانتا
عرض پھر بھی اپنا میں دکھڑا کروں
ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کرنے کو اب
سر کو بھی اپنے میں کچھ نیچا کروں
لفظ مجھ سے ہوں ادا اتنا کہوں
لب کو اپنے پھر میں یوں گویا کروں
تیری مرقد پر خدا رحمت کرے
اور تیرا گھر خدا جنت کرے
فاروق احمد