شعریت، تغزل، مصرعہ سازی سے متعلق معلومات

اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب، جناب الف عین صاحب اور دیگر اہلِ علم اور سخن شناس حضرات سے نظم پہ اصلاحی نظر فرمانے کی گزارش ہے۔ غلطیوں کوتاہیوں کی نشاندہی فرما کر شکریہ کا موقع عنائیت فرمائیں۔ والسلام

والدہ مرحومہ کی یاد میں

میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا


لمس تیرا قابلِ احساس تھا
اُس پہ تیری مسکراہٹ بے رِیا
گود میں تیری تھا طفلِ شیر خوار
پال کر مجھ کو جواں تو نے کیا
کس قدر تیری محبت خاص تھی
تجھ سے میں نے جو بھی مانگا، وہ دیا
ساتھ تیرا ، اب نہ میرے ساتھ ہے
وقت نے کیسا دغا مجھ کو دیا
آج بھی مجھ کو ضرورت ہے تری
بن ترے گر میں جیا، تو کیا جیا
تیرے جانے کو نہ میں تیار تھا
کون میرا بن ترے غمخوار تھا


دیکھ کر مجھ کو پریشاں میرے ماں
کون اب دستِ دعا پھیلائے گا
ضد کرے گا کس سے اب بیٹا تِرا
کون مجھ کو پیار سے سمجھائے گا
جب کبھی مجھ کو نہ نیند آپائے گی
کون میرے بالوں کو سہلائے گا
جب کبھی میں دیر سے گھر آؤں گا
کون اپنی بانہوں کو پھیلائے گا
دستِ شفقت رکھ سکے گا کون اب
ہر کوئی مجھ سے تو اب کترائے گا
دل پہ کوہِ غم گرا تو سہہ گیا
لعل تیرا تنہا ہو کر رہ گیا


زندگی ہے تلخ تر، اے میری ماں
پر خطر ہے پر خطر، اے میری ماں
زیست کا حاصل ہے رنج و غم فقط
یا دلِ مضطر ،یا ڈر، اے میری ماں
چھن گئی پیروں کے نیچے سے زمیں
ہو گیا میں دربدر، اے میری ماں
ہو کے اپنے گھر میں بے گھر رہ گیا
کاٹتے ہیں بام و در، اے میری ماں
اب تو جا کے سو گئی زیرِ زمیں
چھوڑ کر سونا یہ گھر، اے میری ماں
ابر تھا سایہ دعاؤں کا تِری
ٹالتا تھا ہر گھڑی مشکل مِری


تیری مرقد پر جو میں حاضر ہوا
عجز میرا مجھ پہ پھر ظاہر ہوا
ہر کوئی پابند ہے تقدیر کا
کون اس سے بچنے پر قادر ہوا
جو بھی آیا زندگی کے بحر میں
موت سے وہ ہمکنار آخرہوا
حق اجازت دے تجھے تو کر دعا
دل مِرا آزردہِ خاطر ہوا
آئی مرقد سے صدا تو غم نہ کر
شکر ہے اُسکا کہ تو صابر ہوا
زندگی مہکے تِری جیسے کنول
ساتھ ہو تیرے خدائے لم یزل


رات ہے تنہائی اور میرا قلم
عقل میری سر بہ زانو آنکھ نم
قلزمِ خاموش تیری یاد ہے
جس طرح ہو رات کوئی صبح دم
جس طرح شب صبح کی امید ہے
اِس طرح ہے موت سب کے ہم قدم
اہلِ ایماں کو پیامِ عیش ہے
حکم کا پابند ہے لائے گا یم
تو بھی کر پابندیِ حکمِ خدا
اے تلون کیش! اب تو دم بہ دم
جنکو مقصد زندگی کا یاد ہے
یہ جہاں کیا وہ جہاں بھی شاد ہے


حوصلہ میرا نہیں میں کیا کروں
عرض کیسے مدعا اپنا کروں
عجز میرا ہے مکمل بات پر
بند کیسے کوزے میں دریا کروں
قادرِ مطلق تَو ہے سب جانتا
عرض پھر بھی اپنا میں دکھڑا کروں
ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کرنے کو اب
سر کو بھی اپنے میں کچھ نیچا کروں
لفظ مجھ سے ہوں ادا اتنا کہوں
لب کو اپنے پھر میں یوں گویا کروں
تیری مرقد پر خدا رحمت کرے
اور تیرا گھر خدا جنت کرے

فاروق احمد
 
اپنے لکھے کو ایک "نقاص" کی آنکھ سے دیکھئے۔ ذرا سی فروگزاشت کو بھی نظر انداز نہ کیجئے، بلکہ وہ جسے کیڑے نکالنا کہتے ہیں، وہ کیجئے۔
 
میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا

اس پہلے بند پر ہی بات کئے لیتے ہیں۔ میں نے عنوان نقل نہیں کیا تو یہاں لگتا ہی نہیں کہ یہ اشعار ماں کے لئے کہے گئے ہیں۔
 
بیان کے حوالے سے ایک بات کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا۔ غزل کی ضرورت ہے کہ بات دو مصرعوں میں مکمل ہو؛ نظم میں مضمون تسلسل کے ساتھ چلتا ہے۔

یہاں آپ نے پانچ ابیات جو ہم قافیہ رکھے ہیں، دو سطروں میں ایک مضمون پورا کرنے کی پابندی آپ خود اپنا رہے ہیں، اس سے نکلئے، اپنے مضمون کے حصے بنا کر ان کو منطقی اور معنوی تسلسل کے ساتھ لائیے، اور بند کا آخری بیت جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں، اسے اس پورے بند کا اختتامیہ ہونا چاہئے، اور قوت بیان بھی یہاں مرکوز ہو سکے تو خاصے کی چیز بن سکتی ہے۔
 
کچھ زبان و بیان کی باتیں ۔۔۔۔

میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا

پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
بات کا برہم ہونا؟ ۔۔۔ اور وہ بات ہے کیا؟ یا تھی کیا؟ وہ تو بیان ہی نہیں ہوئی!
قفس سا؟ ۔۔ آپ غالباً ’’قفس جیسی‘‘ کہنا چاہ رہے ہیں، مگر اس کی کوئی رعایت، کوئی تلازمہ پورے بند میں نہیں ہے۔ کھلے اور تنگ ہونے کی بات؟ کائنات ایک حوالے سے ایک ذرے میں مقید ہو سکتی ہے تو ایک حوالے سے ہفت آسمان پر محیط ہو سکتی ہے۔ یہاں اس کائنات کا تعین نہیں ہو رہا۔
مصرعے بہت ڈھیلے ہیں اور جیسا میں نے کہا یہاں اظہاریے میں ماں کا حوالہ لگتا ہی نہیں۔
غیرشعوری طور پر آپ غزل کی ریزہ خیالی میں مقید ہیں، اور چاہتے ہیں کہ دو دو مصرعوں پر مشتمل کچھ آزاد اظہاریے ہوں جو مل کر ایک نظم بن جائیں؛ ایسا بالکل ممکن ہے مگر ابھی نہیں۔ ابھی آپ ان دس مصرعوں کی ایک اکائی بنائیں اور اپنی بات کا اختتام انہی آخری دو (ہم قافیہ) مصرعوں پر کریں۔ ایک بند مکمل ہوا، دوسرے بند میں دوسری معنوی اکائی لائیں۔
کچھ منقولہ رعایات جو جچ نہیں رہیں:
۔۱۔ تریاق چوٹ کا نہیں ہوتا، زہر کا ہوتا ہے؛ چوٹ کا مرہم ہوتا ہے۔ یہاں میڈیکل سائنس کے مباحث میں نہ الجھئے گا کہ چوٹ سے زہر پھیلتا ہے اور مرہم بھی تو تریاق ہی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم یہاں شاعری پڑھنے آئے ہیں بائیو کیمسٹری اور میڈیکل سائنس کلاس میں جا کر پڑھیں گے۔
۔۲۔ گریاں اور تسکین؛ صنعتِ تضاد نہیں بن سکی۔ بے قراری اور تسکین؛ گریاں اور خندان، مسرور اور ملول، وغیرہ کو دیکھئے۔
۔۳۔ مفلس والی بات اگر یہاں لانی لازم ہے تو اس کو پالش کرکے لانا ہو گا اور افلاس کی اس نوعیت کا مضبوط اظہار لانا ہو گا کہ اس کے جانے سے کون سا سرمایہ نہ رہا۔

و علیٰ ہٰذالقیاس
 
والدہ مرحومہ کی یاد میں

نمونے کے طور پر اقبال کی اسی عنوان کی نظم کو سامنے رکھئے اور اس کے مختلف عناصر پر توجہ فرمائیے۔
بیانیہ کیا ہے، ابتدا کیسے ہو رہی ہے، واقعاتی، فکری اور جذباتی واردات کا تسلسل کیسا ہے، ہر بند میں وہ کیا چیز ہے جو اسے کسی بھی دوسرے بند سے ممتاز کر رہی ہے؛ وغیرہ

کوشش کیجئے کہ لفظیات اپنی لائیے۔ لفظیات بھی اقبال کے اسلوب کے تحت آ گئیں تو آپ تو کہیں بھی نہ رہے! لفظیات تبدیل ہو گی تو شعر کے اہم عناصر (قوافی و ردائف) بھی تبدیل ہوں گے، مضامین کی ترتیب میں قوافی کا کردار بنیادی ہوتا ہے؛ قوافی آپ کی اپنی استعداد کے مطابق ہوں گے تو اسلوب بھی آپ کا بنے گا۔ نہیں تو وہی چبائے ہوئے نوالے چبانے والی بات ہو گی۔
 
ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیٔ تقدیر ہے ۔۔
۔۔ پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
اتنا حصہ ایک انداز میں تمہید ہے۔
 
اس کے بعد

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاکِ مرقد پر تری لیکر یہ فریاد آوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آوں گا؟

یہ مصرعے اتنی بلند آواز میں ماں! ماں! پکار رہے ہیں کہ قاری کی سوچ کسی اور طرف جا ہی نہیں سکتی۔
 
یہ مصرعے دیکھئے

آہ! یہ دنیا، یہ ماتم خانۂ بر نا و پیر!
آدمی ہے کس طلسمِ دوش و فردا میں اسیر
کتنی مشکل زندگی ہے! کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت

اقبال کی فکر ماں سے ہوتی ہوئی پورے عالمِ انسانیت بلکہ موت و حیات کے فسلفے تک پہنچتی ہے
 
کیفیات کو بیان کرنے بلکہ قاری پر وارد کرنے کا اسلوب ملاحظہ ہو:

کہتے ہیں اہل جہاں دردِ اجل ہے لادوا
زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا
دل مگر غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
حلقۂ زنجیرِ صبح و شام سے آزاد ہے
وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں
وقت زخمِ تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں

میں آپ سے یہ مطالبہ بالکل نہیں کر رہا کہ آپ بھی ایسا ہی لکھیں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ فکری اور محسوساتی بہاؤ اور اس پر اظہاریے کو دیکھیں۔
 
نظم کا آخری بند خاص طور پر قابلِ توجہ ہے

دامِ سیمینِ تخیّل ہے مرا آفاق گیر! ۔۔
۔۔ نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا!
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

یہاں پوری نظم کو سمیٹ کر اس کا عطر پیش کر دیا گیا ہے۔
 
ہر بند کے اختتامی ابیات ۔۔۔۔۔۔۔

نغمۂ بلبل ہویا آوازِ خاموشِ ضمیر
ہے اسی زنجیرِ عالمگیر میں ہر شے اسیر

پرتری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے
آہ! یہ تردید میرے حکمتِ محکم کی ہے

تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بوگئی
شرکتِ غم سے وہ الفت اور محَکم ہوگئی

قافلے میں غیر فریادِ درا کچھ بھی نہیں
اک متاعِ دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

زندگی کی آگ کی انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدّر ہو، یہ وہ گوھر نہیں

شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کی شراروں سے بھی کیا؟
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا ؟
خوگرِ پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں

آہ ! یہ ضبطِ فغاں غفلت کی خاموشی نہیں
آگہی ہے یہ دلاسائی، فراموشی نہیں

یہ اگر آئینِ ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہوا انجام صبح؟

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا نہیں خیال کہ یہاں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
زندگی کی کٹھن تھی جو راہیں
ان کا میں نے مقابلہ ہے کیا
جیسے ساحل کنارے کی ہو چٹاں
موج در موج شور سہتی رہی
حوصلہ میرا ہے رہا قائم
اور ہمیشہ رہا ہے تجھ پہ یقیں
زندگی کی اُداس شاموں میں
میں نے سینچا شجر ہے خوابوں کا
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
تیری چاہت کو جو خوشی جانا .
اپنا بھی میں نے تجھ کو مانا ہے
شدتوں کا اثر ہوا کتنا ؟
آسماں نے زمیں کو تھاما کیا ؟
اے خُدا ! سنی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
سینہ معمور درد سے ہے رہا ،
ساتھ اپنا نواز تو نے دیا،
زندگی کو سنوار تو نے دیا ،
اب اجر بے حساب مجھ کو دے،
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے،
رحمتوں کے ابر میں رکھ مجھ کو !
ذات میری اجال اب تو دے !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
زندگی کی کٹھن تھی جو راہیں
ان کا میں نے مقابلہ ہے کیا
جیسے ساحل کنارے کی ہو چٹاں
موج در موج شور سہتی رہی
حوصلہ میرا ہے رہا قائم
اور ہمیشہ رہا ہے تجھ پہ یقیں
زندگی کی اُداس شاموں میں
میں نے سینچا شجر ہے خوابوں کا
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
تیری چاہت کو جو خوشی جانا .
اپنا بھی میں نے تجھ کو مانا ہے
شدتوں کا اثر ہوا کتنا ؟
آسماں نے زمیں کو تھاما کیا ؟
اے خُدا ! سنی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
سینہ معمور درد سے ہے رہا ،
ساتھ اپنا نواز تو نے دیا،
زندگی کو سنوار تو نے دیا ،
اب اجر بے حساب مجھ کو دے،
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے،
رحمتوں کے ابر میں رکھ مجھ کو !
ذات میری اجال اب تو دے !

نور سعدیہ شیخ ۔ آپ کی نظم اچھی ہے۔ مصرع بہ مصرع تبصرہ تو بہت طویل ہوجائے گا۔ بس کچھ باتیں بنیادی عرض کرتا ہوں۔ شعر میں الفاظ کی ترتیب کو جس قدر ہوسکے نثری ترتیب کے قریب رکھنا چاہیئے کہ یہی جملے یا بیان کی فطری ترتیب ہوتی ہے اور ہر آدمی کو بغیر کسی الجھن کے سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور اسی طرح گرامر کو بھی پرکھنا چاہیئے۔ دوسرے لفظون میں یہ سمجھئے کہ شعر لکھنے کے بعد اس کی نثر بنا کر دیکھ لیں کہ گرامر متاثر تو نہین ہورہی ۔ مثال کے طور پر پہلے ہی شعر کو لے لیجئے۔
اے خُدا میں کہوں تجھے کیسے!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو بھی کر!
اس کی نثر یہ بنی ۔ اے خدا میں تجھے کیسے کہوں کہ میرے دکھ کی کچھ دوا تُو بھی کر۔ آپ کو فورا معلوم ہوجائےگا کہ اس مین کئی اغلاط ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہاں تجھے کہ بجائے تجھ سے کا محل ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہاں ’’ توُ بھی‘‘ کا استعمال بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ تو بھی سے تو یہ معنی نکلتے ہیں کہ کوئی اور بھی دوا کرنے والا ہے ۔ اور یہ بات مدعا کے خلاف ہے۔
ایک اور مثال کے طور پر اس شعر کو دیکھ لیجئے:
یہ دُعا کو جو ہاتھ اٹھے ہیں رہے
اور جھکا سر رہا ہے سجدے میں
اس کی نثر : یہ ہاتھ جو دعا کو اٹھے رہے ہیں اور سر سجدے میں جھکا رہا ہے ۔ اب فورا معلوم ہوگیا کہ شعر مین الفاط کی ترتیب بہت ہی زیادہ آگے پیچھے ہوگئی ہے اور تعقید پیدا ہو رہی ہے ۔ کوشش کیجئے کی حرفِ اشارہ ( یہ ، وہ، اس، ان) وغیرہ کو مشار الیہ سے فورا پہلے رکھئے ۔ ذرا سے غور وفکر اور محنت کے بعد انہی الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے مندرجہ ذیل صورت نکالنا کوئی مشکل نہیں ۔
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا

مجموعی طور پر گرامر کی اغلاط ہیں اس نظم میں ۔ بیان میں زمانہ ماضی اور حال کو خلط ملط کردیا گیا ہے ۔ اس کا خیال رکھنا چاہیئے ۔ امید ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی سی باتیں آپ کے کچھ کام آسکیں گی۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک دو غزلہ احبابِ انجمن کے حسنِ ذوق کی نذر! یہ چند ماہ پرانی غزلیں ہیں جن میں کچھ اشعار تازہ اضافہ کئے ہیں ۔ امید ہے کہ کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔

٭٭٭

آنکھوں میں ہوں سراب توکیاکیا دکھائی دے
پانی کے درمیان بھی صحرا دکھائی دے

بینائی رکھ کے دیکھ مری ، اپنی آنکھ میں
شاید تجھے بھی درد کی دنیا دکھائی دے

دنیا نہیں نمائشِ میکانیات ہے
ہر آدمی مشین کا پرزہ دکھائی دے

آدم غبارِ وقت میں شاید بکھر گیا
حوّا زمینِ رزق پہ تنہا دکھائی دے

۔ ق ۔

جس انقلابِ نور کا چرچا ہے شہر میں
مجھ کو تو وہ بھی رات کا حربہ دکھائی دے

نکلو تو ہرگلی میں اندھیرے کا راج ہے
دیکھو توکچھ گھروں میں اُجالا دکھائی دے

۔



شطرنج ہے سیاست ِ دوراں کا کھیل بھی
حاکم بھی اپنے تخت پہ مہرہ دکھائی دے


٭٭٭


مجھ کو درونِ ذات کا نقشہ دکھائی دے
آئینہ وہ دکھاؤ کہ چہرہ دکھائی دے

آدابِ تشنگی نے سکھائے ہیں وہ ہنر
پیاسے کو مشتِ خاک میں کوزہ دکھائی دے

ایسی رہی ہیں نسبتیں دیوارِ یار سے
کوئے ستم کی دھوپ بھی سایا دکھائی دے

ہر لب پہ حرفِ وعظ و نصیحت ہے شہر میں
ہر شخص آسمان سے اُترا دکھائی دے


افشاں کسی کسی میں ہی انوارِ فیض ہے
ویسے تو ہرچراغ ہی جلتا دکھائی دے

اُن کے ورق ورق پہ ہے نامِ خدا رقم
جن کی کتابِ زندگی سادہ دکھائی دے

تمثیل گاہ ِ وقت میں بیٹھے ہیں منتظر
پردہ اُٹھے تو کوئی تماشا دکھائی دے

دنیا فریب زارِ نظر ہے عجب ظہیرؔ
آنکھیں نہ ہوں تو خاک بھی سونا دکھائی دے


٭٭٭
ظہیر ؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۹

السلام علیکم ظہیر بھائ
آپ کی شاعری کے کیا کہنے ۔ ۔ سوچ کے نئے در کھول دیتی ہے ۔ ۔
بات کہنے کا الگ ہی سلیقہ اللہ نے آپ کو دیا ہے ۔ ۔
جب بھی آپ کا کلام پڑھوں تو ویسے ہی اشعار دماغ میں آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ۔ سوچا آپ سے صلاح لے لوں کیا کیا جائے ۔ ۔

آپ کی سماعت کی نذر


اس شہرِبے اماں میں تماشا دکھائ دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائ دے

کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائ دے

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائ دے

جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائ دے

کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائ دے

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائ دے

پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندہء بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائ دے

خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائ دے

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائ دے

اب آپ کی مزید شاعری پڑھنے سے ڈر لگنے لگا ہے ۔ ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
السلام و علیکم ظہیر بھائ
آپ کی شاعری کے کیا کہنے ۔ ۔ سوچ کے نئے در کھول دیتی ہے ۔ ۔
بات کہنے کا الگ ہی سلیقہ اللہ نے آپ کو دیا ہے ۔ ۔
جب بھی آپ کا کلام پڑھوں تو ویسے ہی اشعار دماغ میں آنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ۔ سوچا آپ سے صلاح لے لوں کیا کیا جائے ۔ ۔

آپ کی سماعت کی نذر


اس شہرِبے اماں میں تماشا دکھائ دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائ دے

کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائ دے

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائ دے

جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائ دے

کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائ دے

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائ دے

پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندہء بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائ دے

خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائ دے

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائ دے

اب آپ کی مزید شاعری پڑھنے سے ڈر لگنے لگا ہے ۔ ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بہت شکریہ! بڑی نوازش! اس پذیرائی پر بہت ممنون ہوں ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ، ذوق سلامت رکھے!

آپ کی غزل بہت اچھی ہے ۔ اشعار میں کوئی عروضی سقم نظر نہیں آتا ۔ بہتر ہوتا کہ آپ اسے ایک الگ لڑی میں پوسٹ کرتیں تاکہ تمام قارئین پڑھ سکتے ۔ آپ نے اشعار پر میری صلاح مانگی ہے تو شعر بہ شعر کچھ لکھنا تو بہت مشکل ہے ۔ بدقسمتی سے ہفتے اتوار کو مصروفیت کچھ اوربھی بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن میں اپنی پوری کوشش کرکے دوچار عمومی مگر مفید نکات آپ کی غزل کے توسط سے افادئہ عام کے لئے یہاں لکھ دوں گا کہ دورِ نوآموزی میں رہنمائی کا کام کرتے ہیں ۔ اشعار آپ کے اچھے ہیں ۔ وزن کا مسئلہ نظر نہیں آرہا سوائے بندئہ بشر والے مصرع کے ۔ بندئہ بشر درست نہیں ۔ بندہ بشر درست ہے ۔ اس کے علاوہ غزل میں چند زبان و بیان کے مسائل ہیں اور عام شعری عیوب بھی ہیں ۔ آپ صبر سے کام لیں تو میں ایک آدھ روز میں کچھ لکھ دوں گا ۔
دوسرے شعرا کا کلام پڑھ کر تحریک ملنا تو اچھی بات ہے ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ میرے بجائے بڑے شعرا کو پڑھئے۔ اساتذہ کے کلام سے زبان و بیان سیکھئے اور جدید مضامین اور اسلوب سیکھنے کے لئے اپنی پسند کے ان جدید غزل گو شعرا کو پڑھئے کہ جن سے آپ کی فکری ہم آہنگی ہے ۔
آخر میں دو معمولی سی باتیں املا کے بارے میں ۔ اول تو یہ کہ " ئ" کو " ئی" لکھئے ۔ یعنی دکھائ کے بجائے دکھائی لکھئے ۔ دوم یہ کہ السلام علیکم کے درمیان میں "و" مت لگائیے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
اللہ آپ کو خوش رکھے ، ذوق سلامت رکھے!
السلام علیکم
آپ کی دعاؤں کا بے حد شکریہ ۔ ۔ جزاک اللہ :)

بہتر ہوتا کہ آپ اسے ایک الگ لڑی میں پوسٹ کرتیں تاکہ تمام قارئین پڑھ سکتے ۔
ظہیر بھائ ابھی اپنی شاعری اس قابل لگتی ہی نہیں کہ یہاں موجود اتنے قابل لوگوں کے سامنے رکھی جائے ۔ ۔ املا اور زبان و بیان کے مسائل تو آپ نے بھی دیکھ ہی لیئے ہیں اس کے علاوہ عروض کا بھی بہت معمولی علم ہے ۔ ۔ یہ تمام شاعری خود بخود ہو رہی ہے ۔ اس میں اصلاح سخن کے اساتذہ کرام کا بڑا حصہ ہے۔ اگر کسی نے کچھ پوچھ لیا کسی بھی چیز کے بارے میں تو کوئ جواب نہ ہو گا ۔ ۔ ابھی تو سیکھ رہی ہوں ۔ ۔ کوشش ہے سب جلد سمجھ آ جائے ۔ ۔

آپ نے اشعار پر میری صلاح مانگی ہے تو شعر بہ شعر کچھ لکھنا تو بہت مشکل ہے
اصل میں صحیح سے وضاحت نہ کر سکی ۔ ۔ وہ کیا ہے کہ زیادہ ترایک پاؤں کچن میں اور ایک کمرے میں ہوتا ہے تو تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور لگتا ہے کہ شائد جو ذہن میں تھا وہ لکھ دیا ۔ ۔ ۔ شاعری بھی عمر کے اس حصے میں آئ کہ فرصت یہاں وہاں سے کھینچ تان کر نکالنی پڑتی ہے ۔ ۔ کہنا تھا کہ اگر آپ کی شاعری پڑھ کر ذہن میں کچھ اشعار آ گئے تو کوئ برائ تو نہیں ۔ ۔ آپ کو برا تو نہیں لگا ۔ ۔

۔ بدقسمتی سے ہفتے اتوار کو مصروفیت کچھ اوربھی بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن میں اپنی پوری کوشش کرکے دوچار عمومی مگر مفید نکات آپ کی غزل کے توسط سے افادئہ عام کے لئے یہاں لکھ دوں گا کہ دورِ نوآموزی میں رہنمائی کا کام کرتے ہیں ۔ اشعار آپ کے اچھے ہیں ۔ وزن کا مسئلہ نظر نہیں آرہا سوائے بندئہ بشر والے مصرع کے ۔ بندئہ بشر درست نہیں ۔ بندہ بشر درست ہے ۔ اس کے علاوہ غزل میں چند زبان و بیان کے مسائل ہیں اور عام شعری عیوب بھی ہیں ۔ آپ صبر سے کام لیں تو میں ایک آدھ روز میں کچھ لکھ دوں گا ۔
میں سمجھ سکتی ہوں ۔ ۔ ۔ آپ کی ذرہ نوازی کہ آپ نے راہنمائ کا عندیہ دیا ۔ ۔ میں ممنون رہوں گی ۔ ۔

دوسرے شعرا کا کلام پڑھ کر تحریک ملنا تو اچھی بات ہے ۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ میرے بجائے بڑے شعرا کو پڑھئے۔ اساتذہ کے کلام سے زبان و بیان سیکھئے اور جدید مضامین اور اسلوب سیکھنے کے لئے اپنی پسند کے ان جدید غزل گو شعرا کو پڑھئے کہ جن سے آپ کی فکری ہم آہنگی ہے ۔
جی میں کوشش کر کے مختلف شاعروں کے کلام سے استفادہ کرتی ہوں تاکہ مندرجہ بالا نتائج حاصل ہو سکیں ۔ ۔ آپ کی شاعری جب یہاں پہلی بار پڑھی تو پتہ نہیں کیوں مزید پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ ۔ تابش بھیا سے آپ کی اور استادِ محترم اعجاز عبید کی شاعری کے لنکس لیئے ۔ ۔ پچھلے دنوں جب راحل بھائ کی بات سے سمجھ آیا کہ ایسا کیوں ہے ۔ ۔ بہت ساری وجوہات، جن کی بناء پر سب آپ کوشوق سے پڑھتے ہیں، کے ساتھ وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی شاعری میں منفرد تراکیب اور اسلوب ہوتے ہیں ۔ ۔ اور ہمارے دماغ بھی کچھ ایسی تراکیب یا تشبیہات آ جاتی ہیں جو رائج نہیں ۔ ۔ بس فرق یہ ہے کہ ہمارے پاس علم، تجربے، مطالعے اور دوسری بےشمار باتوں کی ( جن کا فی الحال ہمیں پتہ بھی نہیں) قلت ہے ۔ ۔ تو اس لیئے اپنی اس خامی کو خوبی میں بدلنے کے لیئے اسی طرح کی شاعری کو پڑھنا ہو گا ۔ ۔ تاکہ کچھ سمجھ آ سکے ۔ ۔ ورنہ ہماری تمام سوچ بےکار ضائع ہو جائے گی ۔ ۔ ہے نا

آخر میں دو معمولی سی باتیں املا کے بارے میں ۔ اول تو یہ کہ " ئ" کو " ئی" لکھئے ۔ یعنی دکھائ کے بجائے دکھائی لکھئے ۔
۔
بے حد شکریہ ۔ ۔

دوم یہ کہ السلام علیکم کے درمیان میں "و" مت لگائیے ۔

اس میں کوئ شک نہیں کہ عادت ایک بدترین آقا ہو سکتی ہے ۔ ۔ بس یہی وجہ ہے ۔ ۔
مگر میں اب بہت محتاط رہوں گی ۔ ۔ جزاک اللہ
آپ نے اپنا قیمتی وقت دیا آپ کا ایک بارپھر شکریہ ۔ ۔ جزاک اللہ :):)
 
آخری تدوین:
Top