شعریت، تغزل، مصرعہ سازی سے متعلق معلومات

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اصل میں صحیح سے وضاحت نہ کر سکی ۔ ۔ وہ کیا ہے کہ زیادہ ترایک پاؤں کچن میں اور ایک کمرے میں ہوتا ہے تو تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور لگتا ہے کہ شائد جو ذہن میں تھا وہ لکھ دیا ۔ ۔ ۔ شاعری بھی عمر کے اس حصے میں آئ کہ فرصت یہاں وہاں سے کھینچ تان کر نکالنی پڑتی ہے ۔ ۔ کہنا تھا کہ اگر آپ کی شاعری پڑھ کر ذہن میں کچھ اشعار آ گئے تو کوئ برائ تو نہیں ۔ ۔ آپ کو برا تو نہیں لگا ۔ ۔
ارے بھئی اس میں اعتراض کی یا برا ماننے کی تو قطعی کوئی بات نہیں ۔ بلکہ یہ تو کسی بھی شاعر کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے کہ اس کے کلام سے دیگر شعرا کو تحریک ملتی ہے۔ آپ بصد شوق میرا کلام پڑھئے اور اکتساب کیجئے ۔ کلام پوسٹ ہی اس لئے کیا ہے کہ لوگ اسے پڑھیں ۔ شاعری کی زمین بھی اہلِ سخن کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہے ۔ ہر شاعر کسی بھی زمین میں سخن آزمائی کرسکتا ہے ۔ جس زمین میں میں نے اور آپ نے غزل لکھی یہ تو بہت سارے شعرا برسوں سے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ میں نے تو صرف یہ مشورہ دیا تھا کہ اساتذہ کو ضرور پڑھیں کہ وہاں سے زبان و بیان کا معیار پتہ چلتا ہے ۔ اس کے علاوہ جو بھی شاعر آپ کو پسند ہو اسے پڑھیں ۔ شاعری ہے کوئی انجینیئرنگ کا نصاب تھوڑا ہی ہے ۔ :):):)
آپ نے املا درست تو پھر بھی نہیں کیا ۔ اس مراسلے میں بھی آپ نے "ئ" لکھا ہے "ئی" نہیں لکھا ۔ کیبورڈ پر ایک بٹن کو دبا کر آپ "ئ" لکھتی ہیں تو دوسرے بٹن کو دبا کر آگے "ی" بھی لکھئے تاکہ یہ "ئی" بن جائے ۔ :)
 

صابرہ امین

لائبریرین
بے حد شکریہ ۔ ۔ بس اب "چائنہ کٹنگ" کا کوئ خدشہ نہ رہا ۔ ۔ :)
ہائے یہ اردو ٹائپنگ کس قدر رسوا کروائے گی کبھی نہ سوچا تھا ۔ ۔ :D:D

اب تو تدوین نہ ہو پائے گی ، آئندہ کوشش ہو گی کہ ایسا نہ ہو ۔ ۔ :) جزاک اللہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سوچا آپ سے صلاح لے لوں کیا کیا جائے ۔ ۔
آپ کی سماعت کی نذر

اس شہرِبے اماں میں تماشا دکھائ دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائ دے

کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائ دے

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائ دے

جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائ دے

کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائ دے

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائ دے

پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندہء بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائ دے

خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائ دے

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائ دے

آپ کی شاعری میں وزن اور بحر کے مسائل نہیں ہیں جو کہ بہت خوش آئند بات ہے ۔ وزن پر عبور حاصل ہوجائے تو پھر شعر کے دیگر فنی پہلوؤں پر محنت کرنا اور شعر کو سنوارنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔ آپ کے اشعار پر نقد و نظر کے توسط سے کچھ عمومی نکات عرض کرتا ہوں ۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ میری ناقص رائے ہے ۔ اسے ایک سینئر کی طرف سے جونیئرز کے لئے مشورہ سمجھئے ۔ شاید کوئی نکتہ آپ کے یا کسی اور کے کام آجائے ۔

۱۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ شعر "صاف ستھری اور نفیس زبان" کا نام ہے۔ شعری خیال یا مضمون کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر زبان و بیان درست نہیں تو وہ شعر ناکام اور بیکار ہے ۔ ایسا شعر ذوق پر گراں گزرےگا۔ اس کے برعکس بہت سارے اشعار ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا مضمون تو معمولی اور سامنے کا ہوتا ہے لیکن وہ مضمون کچھ ایسی زبان اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہوتا ہے کہ لوگ اس پر سر دھنتے ہیں ۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ مشروب خواہ کتنا ہی اعلیٰ و عمدہ کیوں نہ ہو اگر اسے ٹوٹے پھوٹے بغیر دُھلے پیالے میں پیش کیا جائے تو کوئی بھی منہ سے نہیں لگائے گا۔ اس کے برعکس سادہ پانی بھی اگر بلوریں اور چمکتے دمکتے منقش خوبصورت پیالے میں پیش کیا جائے تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ۔ یعنی نفیس اور خوبصورت زبان ہی بذاتِ خود بدرجۂ شاعری ہوتی ہے ۔ الفاظ کا درست اور برمحل استعمال ، محاورے اور روزمرہ کی پابندی ، درست گرامر اور معیاری اسلوب وہ بنیادی عناصر ہیں کہ جن سے زبان و بیان میں صفائی اور شستگی پیدا ہوتی ہے جبکہ تشبیہات ، استعارے ، تلمیحات ، علامات (یعنی صنائع بدائع) کے استعمال سے زبان میں نفاست اور خوبصورتی آتی ہے حاصلِ کلام یہ کہ ہر لکھاری کو مسلسل زبان سیکھتے رہنا چاہئے ۔ ادب عالیہ کا مطالعہ ، اساتذہ کے کلام کا تجزیہ اور حسبِ ضرورت لغات اور دیگر لسانی مآخذات سے رجوع کرتے رہنا چاہئے ۔زبان لکھاری کا اوزار ہے سو اس اوزار کو صیقل کرتے بہت رہنا ضروری ہے ۔ زبان و بیان پر عبور ہو تو مدعا بیان کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔ شعر کے دونوں مصرع مربوط ہونے چاہئیں یعنی دونوں مصرع مل کر ایک بات یا مضمون کو مکمل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ ایک شعر میں ایک ہی مضمون باندھا جائے ۔ شعرگوئی کی ابتدا میں پیچیدہ مضامین باندھنے سے پرہیز کیجئے ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بڑی بات کہنے کے لئے زیادہ الفاظ اور چھوٹی بات کہنے کے لئے کم الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چنانچہ چھوٹی بحر میں بڑے مضامین کی سمائی بہت مشکل ہوتی ہے ۔
اس شہرِ بے اماں میں تماشا دکھائی دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائی دے
خدا سا کیا معنی؟! کیا خدا سا بھی کوئی ہے؟! سیدھا سیدھا خدا کہئے ۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص خدا بنا ہوا ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ خدا سا بنا ہوا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ شہر کے بے اماں ہونے کی کیا معنویت اور غایت ہے؟ کس چیز کو تماشا کہا جارہا ہے؟ دونوں مصرعوں میں دو مختلف باتیں ہیں جو کھینچ تان کر بھی باہم مربوط نہیں ہو رہیں ۔ اگر اس طرح کی کوئی بات کی جائے کہ شہر میں ہر شخص اپنی منوانے اور اپنی چلانے پر تلا ہوا ہے ، ہر ایک پر اپنا فیصلہ تھوپتا ہے ، مجھے تو ہر شخص خدا نظر آتا ہے تو پھربات مکمل اور بامعنی ہوگی ۔ یعنی ہر شخص کے خدا نظر آنے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ تو دینا ہوگی شعر میں ۔

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے
یعنی یہ دل (کسی کی آنکھوں کے) دریا میں ڈوبنے کے لئے بیتاب ہے اور اس دل کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ مکمل بات تو نہ ہوئی۔ اس میں معنویت کہاں ہے؟ یہ تو سپاٹ سا ایک بیان ہوگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ شاعری میں مدعا کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب ضروری ہے ۔ الفاظ کا درست محلِ استعمال ادب عالیہ اور اساتذہ کا کلام پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شعر میں الفاظ کے معنی کے بجائے ان کے مفہوم سے کام لیا جاتا ہے ۔ ذرا تصور کیجئے کہ غالب کا یہ مشہور شعر اگر یوں لکھا جائے:
مرگ کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تو یہ شعر پاتال میں گرجائے گا کیونکہ یہاں مرگ یا انتقال یا وفات کا محل نہیں ہے بلکہ موت کا محل ہے اگرچہ مذکورہ بالا تمام الفاظ ہم معنی ہیں لیکن ان کا مفہوم اور محلِ استعمال الگ الگ ہے۔ اسی كو انگریزی میں connotationکہتے ہیں۔ مرگ کا لفظ اردو میں صرف تراکیب میں استعمال ہوتا ہے ، مفرد نہیں بولا جاتا۔ اسی طرح قابل اجمیری کا یہ مشہور شعر دیکھئے: وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔ اس شعر میں برسوں کی جگہ دن رات کہہ کر دیکھئے ۔ شعر غلط ہوجائے گا۔ یہاں پرورش کی شدت کے بجائے پرورش کی مدت دکھانا مقصود ہے اس لئے رات دن کے بجائے برسوں یا صدیوں کا لفظ مناسب ترین ہے ۔
خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائی دے
یکتا کا لفظ کسی شے کے لئے کسی پس منظر میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً پوری محفل میں یکتا ، کائنات میں یکتا ، گلشن میں یکتا وغیرہ ۔ اگر یکتا استعمال کرنا ہے تو اس کا پس منظر بنائیے ۔ ورنہ کوئی اور مناسب متبادل استعمال کیجئے ۔

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائی دے
انسانیت اور عظمتِ بشر کا تعلق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اخلاص کی یہاں کیا معنویت ہے ؟ کس چیز میں اخلاص ؟! بے غرضی اور ایثار بہتر الفاظ ہیں اس مقام پر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ جہاں تک ممکن ہو شعر میں الفاظ کی ترتیب کو نثر کی طرح رکھنا چاہئے ۔ نثری صورت زبان کی فطری صورت ہوتی ہے ۔ وزن کی پابندی کی وجہ سے شعر میں لفظی ترتیب کا کچھ نہ کچھ آگے پیچھے ہونا ( یعنی تعقید) تو لازمی سی بات ہے لیکن تعقید جتنی کم ہو اتنا اچھا ہے ۔ شعر اگر الجھا ہوا ہو ، لفظی تعقید زیادہ ہو تو شعر کی نثر بنا کر پرکھ لینا چاہئے کہ گرامر کی کوئی غلطی تو نہیں ۔ شعر میں لسانی اغلاط کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے ۔
کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دے
اس شعر کی نثر بنا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ گرامر (نحو) کی غلطی ہے۔" جو چہرہ کل تک ماہتاب تھا وہ آج محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دیتا ہے "۔ اس میں "مگر" کی کہاں ضرورت ہے؟! اس جملے میں مگر کا کوئی محل نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵ ۔ نظم اور نثر میں کسی بات کو بیان کرنے کے لئے کئی الفاظ اور فقرے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان میں چند الفاظ کلیدی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جنہیں استعمال کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ۔ ان الفاظ کو حذف نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کا استعمال ضروری ہے کہ انہیں کہے بغیر ابلاغ نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۔ جہاں تک ممکن ہو سکے شعر میں بات مکمل ہونی چاہئے ۔ شعر پڑھنے کے فوراً بعد قاری کے ذہن میں کیا ، کون ، کسے ، کدھر وغیرہ قسم کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے ۔
کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائی دے
کون کہتا پھرے ہے؟ اس کو کس کو؟ اس شعر میں فاعل کا ذکر کئے بغیربس ایک بیان دے دیا گیا ہے ۔ اب قاری اس سے کیا سمجھے؟

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائی دے
کس چیز کی چکا چوند؟ یہ بتائے بغیر تو بات نامکمل ہے اور معنی سے خالی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ چاروں طرف ، چاروں جانب یا چار سمت معیاری زبان ہے اور معروف اسلوب ہے ۔ "چاروں اور" ساڑھے تیرہ ہزار سال پرانی زبان ہے ۔ چاروں اور اسی صورت میں اچھا لگے گا جب نظم میں ہندی لفظیات غالب ہوں مثلاً کوئی گیت یا دوہا وغیرہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔ شعر میں رعایات کا التزام ابلاغ کو بڑھاتا ہے اور قاری کے دل و دماغ پر ایک تصویر سی نقش کردیتا ہے ۔ رعایات کا التزام جتنا مربوط ہوگا شعر اتنا ہی موثر اور بلیغ ہوگا ۔
پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندۂ بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائی دے
بندۂ بشر کی ترکیب سے قطع نطر اس شعر میں رعایات کا لحاظ نہیں ہے ۔ بندہ بشر کو ضرورتوں کا پہاڑ کہنے کے بعد دوسرے مصرع میں کوئی ایسی رعایت لانا ضروری ہے کہ جس سے خیال مربوط اور لفظی تصویر مکمل ہوجائے ۔ مثلاً یہ کہ فکرِ معاش کی جھیل میں یا دریا میں یا سمندر میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے ۔ تواس طرح پہاڑ اور دریا میں ایک ربط پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگرایسی کوئی رعایت استعمال نہ کی جائے تو پھر بندہ بشر کو پہاڑ کہنے کی کیا معنویت رہ جاتی ہے؟! بندہ بشر کو ضرورتوں کا جنگل بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی کچھ بھی کہا جاسکتا ہے ، پہاڑ کی کیا قید؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔ شعر میں تشبیہ ، استعارے ، تلمیح ، علامت وغیرہ کے استعمال سے ابلاغ بڑھ جاتا ہے اور شعر میں زور پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے شاعر کو تشبیہ اور استعارے کی بنیادی شرائط کا بخوبی علم ہونا ضروری ہے ۔ تشبیہہ اور استعارے کے لئے معقولیت اولین شرط ہے ۔
جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائی دے
جامِ جہاں نما میں جھانک کر جہان بھر کو دیکھا جاتا ہے ۔ جام خود کچھ نہیں دیکھتا ۔ سو شاعر اپنی آنکھ کو اگر جامِ جہاں نما کہہ رہا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ میری آنکھ کے جام میں جھانک کر دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا ۔ چنانچہ دوسرے مصرع میں یہ کہنا کہ میری آنکھ سے دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا بے معنی ہے ۔ جہاں نما اور جہاں بین کا فرق ملحوظ رہے ۔ میری آنکھ کے بجائے اگر یوں کہا جائے کہ "محبوب کی آنکھ جامِ جہاں نما ہے ، اُس کی آنکھ میں دیکھو تو کیا کیا منظر دکھائی دیتا ہے" تو تشبیہ معقول اور منطقی لحاظ سے درست ہوجائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
آپ کی شاعری میں وزن اور بحر کے مسائل نہیں ہیں جو کہ بہت خوش آئند بات ہے ۔ وزن پر عبور حاصل ہوجائے تو پھر شعر کے دیگر فنی پہلوؤں پر محنت کرنا اور شعر کو سنوارنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔ آپ کے اشعار پر نقد و نظر کے توسط سے کچھ عمومی نکات عرض کرتا ہوں ۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ میری ناقص رائے ہے ۔ اسے ایک سینئر کی طرف سے جونیئرز کے لئے مشورہ سمجھئے ۔ شاید کوئی نکتہ آپ کے یا کسی اور کے کام آجائے ۔

۱۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ شعر "صاف ستھری اور نفیس زبان" کا نام ہے۔ شعری خیال یا مضمون کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر زبان و بیان درست نہیں تو وہ شعر ناکام اور بیکار ہے ۔ ایسا شعر ذوق پر گراں گزرےگا۔ اس کے برعکس بہت سارے اشعار ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا مضمون تو معمولی اور سامنے کا ہوتا ہے لیکن وہ مضمون کچھ ایسی زبان اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہوتا ہے کہ لوگ اس پر سر دھنتے ہیں ۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ مشروب خواہ کتنا ہی اعلیٰ و عمدہ کیوں نہ ہو اگر اسے ٹوٹے پھوٹے بغیر دُھلے پیالے میں پیش کیا جائے تو کوئی بھی منہ سے نہیں لگائے گا۔ اس کے برعکس سادہ پانی بھی اگر بلوریں اور چمکتے دمکتے منقش خوبصورت پیالے میں پیش کیا جائے تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ۔ یعنی نفیس اور خوبصورت زبان ہی بذاتِ خود بدرجۂ شاعری ہوتی ہے ۔ الفاظ کا درست اور برمحل استعمال ، محاورے اور روزمرہ کی پابندی ، درست گرامر اور معیاری اسلوب وہ بنیادی عناصر ہیں کہ جن سے زبان و بیان میں صفائی اور شستگی پیدا ہوتی ہے جبکہ تشبیہات ، استعارے ، تلمیحات ، علامات (یعنی صنائع بدائع) کے استعمال سے زبان میں نفاست اور خوبصورتی آتی ہے حاصلِ کلام یہ کہ ہر لکھاری کو مسلسل زبان سیکھتے رہنا چاہئے ۔ ادب عالیہ کا مطالعہ ، اساتذہ کے کلام کا تجزیہ اور حسبِ ضرورت لغات اور دیگر لسانی مآخذات سے رجوع کرتے رہنا چاہئے ۔زبان لکھاری کا اوزار ہے سو اس اوزار کو صیقل کرتے بہت رہنا ضروری ہے ۔ زبان و بیان پر عبور ہو تو مدعا بیان کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔ شعر کے دونوں مصرع مربوط ہونے چاہئیں یعنی دونوں مصرع مل کر ایک بات یا مضمون کو مکمل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ ایک شعر میں ایک ہی مضمون باندھا جائے ۔ شعرگوئی کی ابتدا میں پیچیدہ مضامین باندھنے سے پرہیز کیجئے ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بڑی بات کہنے کے لئے زیادہ الفاظ اور چھوٹی بات کہنے کے لئے کم الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چنانچہ چھوٹی بحر میں بڑے مضامین کی سمائی بہت مشکل ہوتی ہے ۔
اس شہرِ بے اماں میں تماشا دکھائی دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائی دے
خدا سا کیا معنی؟! کیا خدا سا بھی کوئی ہے؟! سیدھا سیدھا خدا کہئے ۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص خدا بنا ہوا ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ خدا سا بنا ہوا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ شہر کے بے اماں ہونے کی کیا معنویت اور غایت ہے؟ کس چیز کو تماشا کہا جارہا ہے؟ دونوں مصرعوں میں دو مختلف باتیں ہیں جو کھینچ تان کر بھی باہم مربوط نہیں ہو رہیں ۔ اگر اس طرح کی کوئی بات کی جائے کہ شہر میں ہر شخص اپنی منوانے اور اپنی چلانے پر تلا ہوا ہے ، ہر ایک پر اپنا فیصلہ تھوپتا ہے ، مجھے تو ہر شخص خدا نظر آتا ہے تو پھربات مکمل اور بامعنی ہوگی ۔ یعنی ہر شخص کے خدا نظر آنے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ تو دینا ہوگی شعر میں ۔

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے
یعنی یہ دل (کسی کی آنکھوں کے) دریا میں ڈوبنے کے لئے بیتاب ہے اور اس دل کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ مکمل بات تو نہ ہوئی۔ اس میں معنویت کہاں ہے؟ یہ تو سپاٹ سا ایک بیان ہوگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ شاعری میں مدعا کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب ضروری ہے ۔ الفاظ کا درست محلِ استعمال ادب عالیہ اور اساتذہ کا کلام پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شعر میں الفاظ کے معنی کے بجائے ان کے مفہوم سے کام لیا جاتا ہے ۔ ذرا تصور کیجئے کہ غالب کا یہ مشہور شعر اگر یوں لکھا جائے:
مرگ کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تو یہ شعر پاتال میں گرجائے گا کیونکہ یہاں مرگ یا انتقال یا وفات کا محل نہیں ہے بلکہ موت کا محل ہے اگرچہ مذکورہ بالا تمام الفاظ ہم معنی ہیں لیکن ان کا مفہوم اور محلِ استعمال الگ الگ ہے۔ اسی كو انگریزی میں connotationکہتے ہیں۔ مرگ کا لفظ اردو میں صرف تراکیب میں استعمال ہوتا ہے ، مفرد نہیں بولا جاتا۔ اسی طرح قابل اجمیری کا یہ مشہور شعر دیکھئے: وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔ اس شعر میں برسوں کی جگہ دن رات کہہ کر دیکھئے ۔ شعر غلط ہوجائے گا۔ یہاں پرورش کی شدت کے بجائے پرورش کی مدت دکھانا مقصود ہے اس لئے رات دن کے بجائے برسوں یا صدیوں کا لفظ مناسب ترین ہے ۔
خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائی دے
یکتا کا لفظ کسی شے کے لئے کسی پس منظر میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً پوری محفل میں یکتا ، کائنات میں یکتا ، گلشن میں یکتا وغیرہ ۔ اگر یکتا استعمال کرنا ہے تو اس کا پس منظر بنائیے ۔ ورنہ کوئی اور مناسب متبادل استعمال کیجئے ۔

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائی دے
انسانیت اور عظمتِ بشر کا تعلق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اخلاص کی یہاں کیا معنویت ہے ؟ کس چیز میں اخلاص ؟! بے غرضی اور ایثار بہتر الفاظ ہیں اس مقام پر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ جہاں تک ممکن ہو شعر میں الفاظ کی ترتیب کو نثر کی طرح رکھنا چاہئے ۔ نثری صورت زبان کی فطری صورت ہوتی ہے ۔ وزن کی پابندی کی وجہ سے شعر میں لفظی ترتیب کا کچھ نہ کچھ آگے پیچھے ہونا ( یعنی تعقید) تو لازمی سی بات ہے لیکن تعقید جتنی کم ہو اتنا اچھا ہے ۔ شعر اگر الجھا ہوا ہو ، لفظی تعقید زیادہ ہو تو شعر کی نثر بنا کر پرکھ لینا چاہئے کہ گرامر کی کوئی غلطی تو نہیں ۔ شعر میں لسانی اغلاط کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے ۔
کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دے
اس شعر کی نثر بنا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ گرامر (نحو) کی غلطی ہے۔" جو چہرہ کل تک ماہتاب تھا وہ آج محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دیتا ہے "۔ اس میں "مگر" کی کہاں ضرورت ہے؟! اس جملے میں مگر کا کوئی محل نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵ ۔ نظم اور نثر میں کسی بات کو بیان کرنے کے لئے کئی الفاظ اور فقرے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان میں چند الفاظ کلیدی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جنہیں استعمال کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ۔ ان الفاظ کو حذف نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کا استعمال ضروری ہے کہ انہیں کہے بغیر ابلاغ نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۔ جہاں تک ممکن ہو سکے شعر میں بات مکمل ہونی چاہئے ۔ شعر پڑھنے کے فوراً بعد قاری کے ذہن میں کیا ، کون ، کسے ، کدھر وغیرہ قسم کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے ۔
کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائی دے
کون کہتا پھرے ہے؟ اس کو کس کو؟ اس شعر میں فاعل کا ذکر کئے بغیربس ایک بیان دے دیا گیا ہے ۔ اب قاری اس سے کیا سمجھے؟

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائی دے
کس چیز کی چکا چوند؟ یہ بتائے بغیر تو بات نامکمل ہے اور معنی سے خالی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ چاروں طرف ، چاروں جانب یا چار سمت معیاری زبان ہے اور معروف اسلوب ہے ۔ "چاروں اور" ساڑھے تیرہ ہزار سال پرانی زبان ہے ۔ چاروں اور اسی صورت میں اچھا لگے گا جب نظم میں ہندی لفظیات غالب ہوں مثلاً کوئی گیت یا دوہا وغیرہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔ شعر میں رعایات کا التزام ابلاغ کو بڑھاتا ہے اور قاری کے دل و دماغ پر ایک تصویر سی نقش کردیتا ہے ۔ رعایات کا التزام جتنا مربوط ہوگا شعر اتنا ہی موثر اور بلیغ ہوگا ۔
پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندۂ بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائی دے
بندۂ بشر کی ترکیب سے قطع نطر اس شعر میں رعایات کا لحاظ نہیں ہے ۔ بندہ بشر کو ضرورتوں کا پہاڑ کہنے کے بعد دوسرے مصرع میں کوئی ایسی رعایت لانا ضروری ہے کہ جس سے خیال مربوط اور لفظی تصویر مکمل ہوجائے ۔ مثلاً یہ کہ فکرِ معاش کی جھیل میں یا دریا میں یا سمندر میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے ۔ تواس طرح پہاڑ اور دریا میں ایک ربط پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگرایسی کوئی رعایت استعمال نہ کی جائے تو پھر بندہ بشر کو پہاڑ کہنے کی کیا معنویت رہ جاتی ہے؟! بندہ بشر کو ضرورتوں کا جنگل بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی کچھ بھی کہا جاسکتا ہے ، پہاڑ کی کیا قید؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔ شعر میں تشبیہ ، استعارے ، تلمیح ، علامت وغیرہ کے استعمال سے ابلاغ بڑھ جاتا ہے اور شعر میں زور پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے شاعر کو تشبیہ اور استعارے کی بنیادی شرائط کا بخوبی علم ہونا ضروری ہے ۔ تشبیہہ اور استعارے کے لئے معقولیت اولین شرط ہے ۔
جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائی دے
جامِ جہاں نما میں جھانک کر جہان بھر کو دیکھا جاتا ہے ۔ جام خود کچھ نہیں دیکھتا ۔ سو شاعر اپنی آنکھ کو اگر جامِ جہاں نما کہہ رہا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ میری آنکھ کے جام میں جھانک کر دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا ۔ چنانچہ دوسرے مصرع میں یہ کہنا کہ میری آنکھ سے دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا بے معنی ہے ۔ جہاں نما اور جہاں بین کا فرق ملحوظ رہے ۔ میری آنکھ کے بجائے اگر یوں کہا جائے کہ "محبوب کی آنکھ جامِ جہاں نما ہے ، اُس کی آنکھ میں دیکھو تو کیا کیا منظر دکھائی دیتا ہے" تو تشبیہ معقول اور منطقی لحاظ سے درست ہوجائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آداب
آپ کا بے حد شکریہ کہ شاعری کے تقریبا تمام محاسن بخوبی بیان کیئے ۔ ۔ اور اتنی آسان زبان میں ۔ ۔ اب سمجھ آیا کہ شاعری کرنا تو کافی آسان ہے پر اچھی شاعری کیوں جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں کی یاد دلاتی ہے ۔ ۔ اور یہ کہ دلی ابھی بھی بہت دور ہے بھئ ۔ ۔ ۔ :D:D
مگر کوشش جاری رہے گی انشا اللہ
ایک بار پھر بہت شکریہ:):)
 
آپ کی شاعری میں وزن اور بحر کے مسائل نہیں ہیں جو کہ بہت خوش آئند بات ہے ۔ وزن پر عبور حاصل ہوجائے تو پھر شعر کے دیگر فنی پہلوؤں پر محنت کرنا اور شعر کو سنوارنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔ آپ کے اشعار پر نقد و نظر کے توسط سے کچھ عمومی نکات عرض کرتا ہوں ۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ میری ناقص رائے ہے ۔ اسے ایک سینئر کی طرف سے جونیئرز کے لئے مشورہ سمجھئے ۔ شاید کوئی نکتہ آپ کے یا کسی اور کے کام آجائے ۔

۱۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ شعر "صاف ستھری اور نفیس زبان" کا نام ہے۔ شعری خیال یا مضمون کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر زبان و بیان درست نہیں تو وہ شعر ناکام اور بیکار ہے ۔ ایسا شعر ذوق پر گراں گزرےگا۔ اس کے برعکس بہت سارے اشعار ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا مضمون تو معمولی اور سامنے کا ہوتا ہے لیکن وہ مضمون کچھ ایسی زبان اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہوتا ہے کہ لوگ اس پر سر دھنتے ہیں ۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ مشروب خواہ کتنا ہی اعلیٰ و عمدہ کیوں نہ ہو اگر اسے ٹوٹے پھوٹے بغیر دُھلے پیالے میں پیش کیا جائے تو کوئی بھی منہ سے نہیں لگائے گا۔ اس کے برعکس سادہ پانی بھی اگر بلوریں اور چمکتے دمکتے منقش خوبصورت پیالے میں پیش کیا جائے تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ۔ یعنی نفیس اور خوبصورت زبان ہی بذاتِ خود بدرجۂ شاعری ہوتی ہے ۔ الفاظ کا درست اور برمحل استعمال ، محاورے اور روزمرہ کی پابندی ، درست گرامر اور معیاری اسلوب وہ بنیادی عناصر ہیں کہ جن سے زبان و بیان میں صفائی اور شستگی پیدا ہوتی ہے جبکہ تشبیہات ، استعارے ، تلمیحات ، علامات (یعنی صنائع بدائع) کے استعمال سے زبان میں نفاست اور خوبصورتی آتی ہے حاصلِ کلام یہ کہ ہر لکھاری کو مسلسل زبان سیکھتے رہنا چاہئے ۔ ادب عالیہ کا مطالعہ ، اساتذہ کے کلام کا تجزیہ اور حسبِ ضرورت لغات اور دیگر لسانی مآخذات سے رجوع کرتے رہنا چاہئے ۔زبان لکھاری کا اوزار ہے سو اس اوزار کو صیقل کرتے بہت رہنا ضروری ہے ۔ زبان و بیان پر عبور ہو تو مدعا بیان کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔ شعر کے دونوں مصرع مربوط ہونے چاہئیں یعنی دونوں مصرع مل کر ایک بات یا مضمون کو مکمل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ ایک شعر میں ایک ہی مضمون باندھا جائے ۔ شعرگوئی کی ابتدا میں پیچیدہ مضامین باندھنے سے پرہیز کیجئے ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بڑی بات کہنے کے لئے زیادہ الفاظ اور چھوٹی بات کہنے کے لئے کم الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چنانچہ چھوٹی بحر میں بڑے مضامین کی سمائی بہت مشکل ہوتی ہے ۔
اس شہرِ بے اماں میں تماشا دکھائی دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائی دے
خدا سا کیا معنی؟! کیا خدا سا بھی کوئی ہے؟! سیدھا سیدھا خدا کہئے ۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص خدا بنا ہوا ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ خدا سا بنا ہوا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ شہر کے بے اماں ہونے کی کیا معنویت اور غایت ہے؟ کس چیز کو تماشا کہا جارہا ہے؟ دونوں مصرعوں میں دو مختلف باتیں ہیں جو کھینچ تان کر بھی باہم مربوط نہیں ہو رہیں ۔ اگر اس طرح کی کوئی بات کی جائے کہ شہر میں ہر شخص اپنی منوانے اور اپنی چلانے پر تلا ہوا ہے ، ہر ایک پر اپنا فیصلہ تھوپتا ہے ، مجھے تو ہر شخص خدا نظر آتا ہے تو پھربات مکمل اور بامعنی ہوگی ۔ یعنی ہر شخص کے خدا نظر آنے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ تو دینا ہوگی شعر میں ۔

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے
یعنی یہ دل (کسی کی آنکھوں کے) دریا میں ڈوبنے کے لئے بیتاب ہے اور اس دل کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ مکمل بات تو نہ ہوئی۔ اس میں معنویت کہاں ہے؟ یہ تو سپاٹ سا ایک بیان ہوگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ شاعری میں مدعا کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب ضروری ہے ۔ الفاظ کا درست محلِ استعمال ادب عالیہ اور اساتذہ کا کلام پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شعر میں الفاظ کے معنی کے بجائے ان کے مفہوم سے کام لیا جاتا ہے ۔ ذرا تصور کیجئے کہ غالب کا یہ مشہور شعر اگر یوں لکھا جائے:
مرگ کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تو یہ شعر پاتال میں گرجائے گا کیونکہ یہاں مرگ یا انتقال یا وفات کا محل نہیں ہے بلکہ موت کا محل ہے اگرچہ مذکورہ بالا تمام الفاظ ہم معنی ہیں لیکن ان کا مفہوم اور محلِ استعمال الگ الگ ہے۔ اسی كو انگریزی میں connotationکہتے ہیں۔ مرگ کا لفظ اردو میں صرف تراکیب میں استعمال ہوتا ہے ، مفرد نہیں بولا جاتا۔ اسی طرح قابل اجمیری کا یہ مشہور شعر دیکھئے: وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔ اس شعر میں برسوں کی جگہ دن رات کہہ کر دیکھئے ۔ شعر غلط ہوجائے گا۔ یہاں پرورش کی شدت کے بجائے پرورش کی مدت دکھانا مقصود ہے اس لئے رات دن کے بجائے برسوں یا صدیوں کا لفظ مناسب ترین ہے ۔
خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائی دے
یکتا کا لفظ کسی شے کے لئے کسی پس منظر میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً پوری محفل میں یکتا ، کائنات میں یکتا ، گلشن میں یکتا وغیرہ ۔ اگر یکتا استعمال کرنا ہے تو اس کا پس منظر بنائیے ۔ ورنہ کوئی اور مناسب متبادل استعمال کیجئے ۔

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائی دے
انسانیت اور عظمتِ بشر کا تعلق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اخلاص کی یہاں کیا معنویت ہے ؟ کس چیز میں اخلاص ؟! بے غرضی اور ایثار بہتر الفاظ ہیں اس مقام پر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ جہاں تک ممکن ہو شعر میں الفاظ کی ترتیب کو نثر کی طرح رکھنا چاہئے ۔ نثری صورت زبان کی فطری صورت ہوتی ہے ۔ وزن کی پابندی کی وجہ سے شعر میں لفظی ترتیب کا کچھ نہ کچھ آگے پیچھے ہونا ( یعنی تعقید) تو لازمی سی بات ہے لیکن تعقید جتنی کم ہو اتنا اچھا ہے ۔ شعر اگر الجھا ہوا ہو ، لفظی تعقید زیادہ ہو تو شعر کی نثر بنا کر پرکھ لینا چاہئے کہ گرامر کی کوئی غلطی تو نہیں ۔ شعر میں لسانی اغلاط کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے ۔
کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دے
اس شعر کی نثر بنا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ گرامر (نحو) کی غلطی ہے۔" جو چہرہ کل تک ماہتاب تھا وہ آج محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دیتا ہے "۔ اس میں "مگر" کی کہاں ضرورت ہے؟! اس جملے میں مگر کا کوئی محل نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵ ۔ نظم اور نثر میں کسی بات کو بیان کرنے کے لئے کئی الفاظ اور فقرے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان میں چند الفاظ کلیدی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جنہیں استعمال کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ۔ ان الفاظ کو حذف نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کا استعمال ضروری ہے کہ انہیں کہے بغیر ابلاغ نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۔ جہاں تک ممکن ہو سکے شعر میں بات مکمل ہونی چاہئے ۔ شعر پڑھنے کے فوراً بعد قاری کے ذہن میں کیا ، کون ، کسے ، کدھر وغیرہ قسم کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے ۔
کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائی دے
کون کہتا پھرے ہے؟ اس کو کس کو؟ اس شعر میں فاعل کا ذکر کئے بغیربس ایک بیان دے دیا گیا ہے ۔ اب قاری اس سے کیا سمجھے؟

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائی دے
کس چیز کی چکا چوند؟ یہ بتائے بغیر تو بات نامکمل ہے اور معنی سے خالی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ چاروں طرف ، چاروں جانب یا چار سمت معیاری زبان ہے اور معروف اسلوب ہے ۔ "چاروں اور" ساڑھے تیرہ ہزار سال پرانی زبان ہے ۔ چاروں اور اسی صورت میں اچھا لگے گا جب نظم میں ہندی لفظیات غالب ہوں مثلاً کوئی گیت یا دوہا وغیرہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔ شعر میں رعایات کا التزام ابلاغ کو بڑھاتا ہے اور قاری کے دل و دماغ پر ایک تصویر سی نقش کردیتا ہے ۔ رعایات کا التزام جتنا مربوط ہوگا شعر اتنا ہی موثر اور بلیغ ہوگا ۔
پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندۂ بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائی دے
بندۂ بشر کی ترکیب سے قطع نطر اس شعر میں رعایات کا لحاظ نہیں ہے ۔ بندہ بشر کو ضرورتوں کا پہاڑ کہنے کے بعد دوسرے مصرع میں کوئی ایسی رعایت لانا ضروری ہے کہ جس سے خیال مربوط اور لفظی تصویر مکمل ہوجائے ۔ مثلاً یہ کہ فکرِ معاش کی جھیل میں یا دریا میں یا سمندر میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے ۔ تواس طرح پہاڑ اور دریا میں ایک ربط پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگرایسی کوئی رعایت استعمال نہ کی جائے تو پھر بندہ بشر کو پہاڑ کہنے کی کیا معنویت رہ جاتی ہے؟! بندہ بشر کو ضرورتوں کا جنگل بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی کچھ بھی کہا جاسکتا ہے ، پہاڑ کی کیا قید؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔ شعر میں تشبیہ ، استعارے ، تلمیح ، علامت وغیرہ کے استعمال سے ابلاغ بڑھ جاتا ہے اور شعر میں زور پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے شاعر کو تشبیہ اور استعارے کی بنیادی شرائط کا بخوبی علم ہونا ضروری ہے ۔ تشبیہہ اور استعارے کے لئے معقولیت اولین شرط ہے ۔
جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائی دے
جامِ جہاں نما میں جھانک کر جہان بھر کو دیکھا جاتا ہے ۔ جام خود کچھ نہیں دیکھتا ۔ سو شاعر اپنی آنکھ کو اگر جامِ جہاں نما کہہ رہا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ میری آنکھ کے جام میں جھانک کر دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا ۔ چنانچہ دوسرے مصرع میں یہ کہنا کہ میری آنکھ سے دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا بے معنی ہے ۔ جہاں نما اور جہاں بین کا فرق ملحوظ رہے ۔ میری آنکھ کے بجائے اگر یوں کہا جائے کہ "محبوب کی آنکھ جامِ جہاں نما ہے ، اُس کی آنکھ میں دیکھو تو کیا کیا منظر دکھائی دیتا ہے" تو تشبیہ معقول اور منطقی لحاظ سے درست ہوجائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی محمد خلیل الرحمٰن سے درخواست ہے کہ اس مضمون کو ایک الگ لڑی میں نقل کرکے اصلاحِ سخن کے زمرے میں ثبت کردیں تاکہ صلائے عام رہے۔ ظہیراحمدظہیر بھائی نے ہم مبتدیوں کے لئے بہترین ’’ٹیوشن‘‘ دے دی ہے :)
جزاک اللہ ظہیر بھائی ۔۔۔ کاش ایسے مضامین ہمارے اردو کے نصاب میں شامل ہوتے :(

دعاگو،
راحلؔ
 

عاطف ملک

محفلین
آپ کی شاعری میں وزن اور بحر کے مسائل نہیں ہیں جو کہ بہت خوش آئند بات ہے ۔ وزن پر عبور حاصل ہوجائے تو پھر شعر کے دیگر فنی پہلوؤں پر محنت کرنا اور شعر کو سنوارنا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔ آپ کے اشعار پر نقد و نظر کے توسط سے کچھ عمومی نکات عرض کرتا ہوں ۔ اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں یہ میری ناقص رائے ہے ۔ اسے ایک سینئر کی طرف سے جونیئرز کے لئے مشورہ سمجھئے ۔ شاید کوئی نکتہ آپ کے یا کسی اور کے کام آجائے ۔

۱۔ سب سے پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ شعر "صاف ستھری اور نفیس زبان" کا نام ہے۔ شعری خیال یا مضمون کتنا ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو اگر زبان و بیان درست نہیں تو وہ شعر ناکام اور بیکار ہے ۔ ایسا شعر ذوق پر گراں گزرےگا۔ اس کے برعکس بہت سارے اشعار ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا مضمون تو معمولی اور سامنے کا ہوتا ہے لیکن وہ مضمون کچھ ایسی زبان اور پیرائے میں بیان کیا گیا ہوتا ہے کہ لوگ اس پر سر دھنتے ہیں ۔ اس بات کو یوں سمجھئے کہ مشروب خواہ کتنا ہی اعلیٰ و عمدہ کیوں نہ ہو اگر اسے ٹوٹے پھوٹے بغیر دُھلے پیالے میں پیش کیا جائے تو کوئی بھی منہ سے نہیں لگائے گا۔ اس کے برعکس سادہ پانی بھی اگر بلوریں اور چمکتے دمکتے منقش خوبصورت پیالے میں پیش کیا جائے تو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا ۔ یعنی نفیس اور خوبصورت زبان ہی بذاتِ خود بدرجۂ شاعری ہوتی ہے ۔ الفاظ کا درست اور برمحل استعمال ، محاورے اور روزمرہ کی پابندی ، درست گرامر اور معیاری اسلوب وہ بنیادی عناصر ہیں کہ جن سے زبان و بیان میں صفائی اور شستگی پیدا ہوتی ہے جبکہ تشبیہات ، استعارے ، تلمیحات ، علامات (یعنی صنائع بدائع) کے استعمال سے زبان میں نفاست اور خوبصورتی آتی ہے حاصلِ کلام یہ کہ ہر لکھاری کو مسلسل زبان سیکھتے رہنا چاہئے ۔ ادب عالیہ کا مطالعہ ، اساتذہ کے کلام کا تجزیہ اور حسبِ ضرورت لغات اور دیگر لسانی مآخذات سے رجوع کرتے رہنا چاہئے ۔زبان لکھاری کا اوزار ہے سو اس اوزار کو صیقل کرتے بہت رہنا ضروری ہے ۔ زبان و بیان پر عبور ہو تو مدعا بیان کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔ شعر کے دونوں مصرع مربوط ہونے چاہئیں یعنی دونوں مصرع مل کر ایک بات یا مضمون کو مکمل کریں ۔ کوشش کیجئے کہ ایک شعر میں ایک ہی مضمون باندھا جائے ۔ شعرگوئی کی ابتدا میں پیچیدہ مضامین باندھنے سے پرہیز کیجئے ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بڑی بات کہنے کے لئے زیادہ الفاظ اور چھوٹی بات کہنے کے لئے کم الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ چنانچہ چھوٹی بحر میں بڑے مضامین کی سمائی بہت مشکل ہوتی ہے ۔
اس شہرِ بے اماں میں تماشا دکھائی دے
ہر شخص ہی مجھے تو خدا سا دکھائی دے
خدا سا کیا معنی؟! کیا خدا سا بھی کوئی ہے؟! سیدھا سیدھا خدا کہئے ۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص خدا بنا ہوا ہے یہ نہیں کہا جاتا کہ خدا سا بنا ہوا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ شہر کے بے اماں ہونے کی کیا معنویت اور غایت ہے؟ کس چیز کو تماشا کہا جارہا ہے؟ دونوں مصرعوں میں دو مختلف باتیں ہیں جو کھینچ تان کر بھی باہم مربوط نہیں ہو رہیں ۔ اگر اس طرح کی کوئی بات کی جائے کہ شہر میں ہر شخص اپنی منوانے اور اپنی چلانے پر تلا ہوا ہے ، ہر ایک پر اپنا فیصلہ تھوپتا ہے ، مجھے تو ہر شخص خدا نظر آتا ہے تو پھربات مکمل اور بامعنی ہوگی ۔ یعنی ہر شخص کے خدا نظر آنے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ تو دینا ہوگی شعر میں ۔

یہ دل کہ ڈوبنے کو ہے بےتاب اس قدر
اس کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے
یعنی یہ دل (کسی کی آنکھوں کے) دریا میں ڈوبنے کے لئے بیتاب ہے اور اس دل کو ہر ایک آنکھ میں دریا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ مکمل بات تو نہ ہوئی۔ اس میں معنویت کہاں ہے؟ یہ تو سپاٹ سا ایک بیان ہوگیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۳۔ شاعری میں مدعا کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب ضروری ہے ۔ الفاظ کا درست محلِ استعمال ادب عالیہ اور اساتذہ کا کلام پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شعر میں الفاظ کے معنی کے بجائے ان کے مفہوم سے کام لیا جاتا ہے ۔ ذرا تصور کیجئے کہ غالب کا یہ مشہور شعر اگر یوں لکھا جائے:
مرگ کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تو یہ شعر پاتال میں گرجائے گا کیونکہ یہاں مرگ یا انتقال یا وفات کا محل نہیں ہے بلکہ موت کا محل ہے اگرچہ مذکورہ بالا تمام الفاظ ہم معنی ہیں لیکن ان کا مفہوم اور محلِ استعمال الگ الگ ہے۔ اسی كو انگریزی میں connotationکہتے ہیں۔ مرگ کا لفظ اردو میں صرف تراکیب میں استعمال ہوتا ہے ، مفرد نہیں بولا جاتا۔ اسی طرح قابل اجمیری کا یہ مشہور شعر دیکھئے: وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ۔ اس شعر میں برسوں کی جگہ دن رات کہہ کر دیکھئے ۔ شعر غلط ہوجائے گا۔ یہاں پرورش کی شدت کے بجائے پرورش کی مدت دکھانا مقصود ہے اس لئے رات دن کے بجائے برسوں یا صدیوں کا لفظ مناسب ترین ہے ۔
خوش فہمیوں کا پیڑ تناور جو ہو گیا
بس اپنا آپ ہی مجھے یکتا دکھائی دے
یکتا کا لفظ کسی شے کے لئے کسی پس منظر میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً پوری محفل میں یکتا ، کائنات میں یکتا ، گلشن میں یکتا وغیرہ ۔ اگر یکتا استعمال کرنا ہے تو اس کا پس منظر بنائیے ۔ ورنہ کوئی اور مناسب متبادل استعمال کیجئے ۔

انسانیت ہو جس میں بشر ہے وہی عظیم
اخلاص کے ثمر سے جو جھکتا دکھائی دے
انسانیت اور عظمتِ بشر کا تعلق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اخلاص کی یہاں کیا معنویت ہے ؟ کس چیز میں اخلاص ؟! بے غرضی اور ایثار بہتر الفاظ ہیں اس مقام پر ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ جہاں تک ممکن ہو شعر میں الفاظ کی ترتیب کو نثر کی طرح رکھنا چاہئے ۔ نثری صورت زبان کی فطری صورت ہوتی ہے ۔ وزن کی پابندی کی وجہ سے شعر میں لفظی ترتیب کا کچھ نہ کچھ آگے پیچھے ہونا ( یعنی تعقید) تو لازمی سی بات ہے لیکن تعقید جتنی کم ہو اتنا اچھا ہے ۔ شعر اگر الجھا ہوا ہو ، لفظی تعقید زیادہ ہو تو شعر کی نثر بنا کر پرکھ لینا چاہئے کہ گرامر کی کوئی غلطی تو نہیں ۔ شعر میں لسانی اغلاط کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے ۔
کل تک جو ماہتاب تھا چہرہ، مگر وہ آج
محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دے
اس شعر کی نثر بنا کر دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ گرامر (نحو) کی غلطی ہے۔" جو چہرہ کل تک ماہتاب تھا وہ آج محرومیوں کی دھوپ سے جھلسا دکھائی دیتا ہے "۔ اس میں "مگر" کی کہاں ضرورت ہے؟! اس جملے میں مگر کا کوئی محل نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۵ ۔ نظم اور نثر میں کسی بات کو بیان کرنے کے لئے کئی الفاظ اور فقرے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان میں چند الفاظ کلیدی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جنہیں استعمال کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی ۔ ان الفاظ کو حذف نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کا استعمال ضروری ہے کہ انہیں کہے بغیر ابلاغ نہیں ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۶۔ جہاں تک ممکن ہو سکے شعر میں بات مکمل ہونی چاہئے ۔ شعر پڑھنے کے فوراً بعد قاری کے ذہن میں کیا ، کون ، کسے ، کدھر وغیرہ قسم کا سوال نہیں اٹھنا چاہئے ۔
کہتا پھرے ہے حال دلِ بےقرار کا
اس کو توہر شخص مسیحا دکھائی دے
کون کہتا پھرے ہے؟ اس کو کس کو؟ اس شعر میں فاعل کا ذکر کئے بغیربس ایک بیان دے دیا گیا ہے ۔ اب قاری اس سے کیا سمجھے؟

خیرہ ہوئیں ہیں آنکھیں چکاچوند سے مری
دنیا میں چاروں اور اندھیرا دکھائی دے
کس چیز کی چکا چوند؟ یہ بتائے بغیر تو بات نامکمل ہے اور معنی سے خالی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ چاروں طرف ، چاروں جانب یا چار سمت معیاری زبان ہے اور معروف اسلوب ہے ۔ "چاروں اور" ساڑھے تیرہ ہزار سال پرانی زبان ہے ۔ چاروں اور اسی صورت میں اچھا لگے گا جب نظم میں ہندی لفظیات غالب ہوں مثلاً کوئی گیت یا دوہا وغیرہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۷۔ شعر میں رعایات کا التزام ابلاغ کو بڑھاتا ہے اور قاری کے دل و دماغ پر ایک تصویر سی نقش کردیتا ہے ۔ رعایات کا التزام جتنا مربوط ہوگا شعر اتنا ہی موثر اور بلیغ ہوگا ۔
پربت ضرورتوں کا ہے، ہر بندۂ بشر
فکرِ معاش میں میں مجھے ڈوبا دکھائی دے
بندۂ بشر کی ترکیب سے قطع نطر اس شعر میں رعایات کا لحاظ نہیں ہے ۔ بندہ بشر کو ضرورتوں کا پہاڑ کہنے کے بعد دوسرے مصرع میں کوئی ایسی رعایت لانا ضروری ہے کہ جس سے خیال مربوط اور لفظی تصویر مکمل ہوجائے ۔ مثلاً یہ کہ فکرِ معاش کی جھیل میں یا دریا میں یا سمندر میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے ۔ تواس طرح پہاڑ اور دریا میں ایک ربط پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگرایسی کوئی رعایت استعمال نہ کی جائے تو پھر بندہ بشر کو پہاڑ کہنے کی کیا معنویت رہ جاتی ہے؟! بندہ بشر کو ضرورتوں کا جنگل بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی کچھ بھی کہا جاسکتا ہے ، پہاڑ کی کیا قید؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۸۔ شعر میں تشبیہ ، استعارے ، تلمیح ، علامت وغیرہ کے استعمال سے ابلاغ بڑھ جاتا ہے اور شعر میں زور پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے شاعر کو تشبیہ اور استعارے کی بنیادی شرائط کا بخوبی علم ہونا ضروری ہے ۔ تشبیہہ اور استعارے کے لئے معقولیت اولین شرط ہے ۔
جامِ جہاں نما ہےمری چشم دوستو
دیکھو جو میری آنکھ سے کیا کیا دکھائی دے
جامِ جہاں نما میں جھانک کر جہان بھر کو دیکھا جاتا ہے ۔ جام خود کچھ نہیں دیکھتا ۔ سو شاعر اپنی آنکھ کو اگر جامِ جہاں نما کہہ رہا ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ میری آنکھ کے جام میں جھانک کر دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا ۔ چنانچہ دوسرے مصرع میں یہ کہنا کہ میری آنکھ سے دیکھو تو سب کچھ نظر آئے گا بے معنی ہے ۔ جہاں نما اور جہاں بین کا فرق ملحوظ رہے ۔ میری آنکھ کے بجائے اگر یوں کہا جائے کہ "محبوب کی آنکھ جامِ جہاں نما ہے ، اُس کی آنکھ میں دیکھو تو کیا کیا منظر دکھائی دیتا ہے" تو تشبیہ معقول اور منطقی لحاظ سے درست ہوجائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشااللہ۔۔۔۔۔ایسی خوبی اور اتنے آسان فہم انداز میں کتنے ہی محاسن و معائب سخن کا بتا دیا۔ہم ایسے مبتدیوں کیلیے واقعی بہت اچھی رہنمائی ہے۔
جزاک اللہ ظہیر بھائی
 

صابرہ امین

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ

آداب
آپ سے اصلاح و راہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔


کسی کی آبرو کو خاک میں رولا نہیں جاتا
تکبر سے اسے پاؤں تلے روندا نہیں جاتا

تھکاوٹ ان کو ہوتی ہے جنہیں دامن چھڑانا ہو
محبت کے سفر میں راستہ دیکھا نہیں جاتا

یونہی دن رات رہتے ہیں مگن ہم اس کی یادوں میں
مگر بس حال اپنے دل کا بتلایا نہیں جاتا

تمھاری بےرخی نے ہم کو کتنا توڑ ڈالا ہے
محبت کا فسانہ ہم سے اب لکھا نہیں جاتا

یہ جانا دیر میں گریہ وزاری اب ہے لاحاصل
محبت کے عذابوں کو تو یوں ٹالا نہیں جاتا

تمھارا عشق لے آیا ہے ہم کو بند گلیوں میں
تمھاری راہوں تک اب کوئی بھی رستا نہیں جاتا

نہ جانے کون سا دن آئے گا وہ مان جائے گا
کوئ اس کو بتاؤ اس طرح روٹھا نہیں جاتا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صابرہ امین ، اچھی غزل ہے ۔ اچھے غزلیہ مضامین باندھے ہیں آپ نے ۔ قوافی البتہ درست نہیں ہیں ۔ اس غزل کے حوالے سے ایک اور نکتہ قافیہ کے بارے میں سمجھ لیجئے ۔

۱۔ غزل میں قافیہ کا تعین مطلع میں استعمال ہونے والے دو قوافی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مثلاً مطلع میں اگر دعا اور صبا کے قوافی ہوں تو بقیہ غزل میں فضا ، قضا ، مزا ، کہا ، سُنا ، لکھا ، شفا ، ذرا وغیرہ درست قوافی ہوں گے ۔
۲۔ لیکن اگر مطلع میں دونوں قوافی "فعل" ہوں تو پھر معاملہ ذرا مختلف ہوجاتا ہے ۔
فعل کے صیغۂ امر کو فعل کا مصدر مانا جاتا ہے ۔ یعنی مصدر وہ بنیادی لفظ ہوتا ہے کہ جس کے آگے حروف کا اضافہ کرکے فعل کے دیگر صیغے بنائے جاتے ہیں۔ "لکھ" ایک مصدر ہے ۔ اس مصدر سے لکھا ، لکھی ، لکھو ، لکھتا ، لکھتی ، لکھتے ، لکھیں ، لکھوں ، لکھنا وغیرہ کے الفاظ بنائے گئے ۔ اسی طرح "چل" کے مصدر سے چلا ، چلتا ، چلتی ، چلئے ، چلو، چلیں وغیرہ بنائے گئے ہیں ۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ ان تمام الفاظ کی ابتدا میں "لکھ" اور "چل" مشترک ہے اور اس مصدر کے آگے زائد حروف لگا کر مختلف صیغے بنادیئے گئے ہیں ۔
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔
۴۔ آپ کی غزل میں مطلع کے قوافی رولا اور روندا درست نہیں ہیں ۔ کیونکہ رول اور روند ہم قافیہ نہیں ۔ لیکن مطلع میں رولا کا قافیہ اگر بولا لے آئیں تو درست ہوجائے گا ۔ اور بقیہ غزل کے لئے تولا ، گھولا ، چولا وغیرہ کے قوافی متعین ہوجائیں گے ۔
۵۔ مطلع میں قوافی کے مذکورہ بالا مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک حیلہ استعمال کیا جاتا ہےاور وہ یہ کہ مطلع میں ایک قافیہ فعل اور دوسرا قافیہ غیرفعل استعمال کرلیا جائے ۔ مثلاً آپ کے مطلع میں ایک قافیہ روندا اور دوسرا قافیہ باجا ہو تو درست ہے ۔ اور یوں بقیہ غزل میں اب وہ تمام قافیے استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو الف پر ختم ہوتے ہوں مثلاً آیا ، بھاگا ، آدھا ، اُلٹا ، سونا ، چہرہ ، نقشہ وغیرہ ۔ ( نقشہ ، چہرہ ، حلیہ وغیرہ کے آخر میں جو ہائے مختفی ہوتی ہے اُسے الف کے برابر مانا جاتا ہے۔)

آپ کی ایک غزل پر میں نے پہلے کچھ نکات لکھے تھے ۔ ان کو بار بار دیکھئے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کیجئے ۔ اپنی زبان بہتر بنائیے ۔ درست زبان ہی اچھے شعر کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اس سے زیادہ اس بارے میں اور کیا کہوں ۔
آپ نے مطلع میں محاورہ درست استعمال نہیں کیا ۔ عزت یا آبرو کو خاک میں ملایا جاتا ہے ۔ خاک میں رولا نہیں جاتا ۔ نیز یہ کہ پاؤں تلے مادی اور مرئی چیزوں کو روندا جاتا ہے ۔ آبرو کو کیسے پاؤں تلے روندا جائے گا ؟! صرف روندا استعمال کیا ہوتا تو ٹھیک تھا لیکن پاؤں تلے روندا درست نہیں ۔ اسی طرح بقیہ اشعار پر بھی نظر کیجئے اور خود دیکھئے ۔ جہاں شبہ ہو وہاں لغت سے رجوع کیجئے ۔ آپ میں شعر کہنے کی قابلیت ہے اور اچھے امکانات نظر آتے ہیں ۔ بس زبان سیکھنے میں محنت کیجئے ۔ شوق محنت اور لگن مانگتا ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
قافیے کے بارے میں مَیں اتنا متشدد نہیں۔ مجھے علم عروض کی وہ بندش درست نہیں لگتی کہ مصدر فعل ہو تو قافیوں کے مصدر بھی ہم قافیہ ہوں جیسا کہ عزیزی ظہیراحمدظہیر نے لکھا ہے۔ کہنا اور لکھنا قوافی بھی مجھے قبول ہیں بشرطیکہ مطلع میں نہ ہوں اور بقیہ قوافی تمہاری غزل کی طرح محض الف مشترک والے الفاظ کے ہوں۔ یا یہ کہ کچھ قوافی فعل ہوں، کچھ نہ ہوں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پاؤں، بمعنی پیر کا درست تلفظ پاں+وْ ہوتا ہے، جو اس ترتیب میں وزن میں نہیں آئے گا. اس کو "پیروں تلے" کردیں.
راحل بھائی ، آپ کا کہنا درست ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاؤں کو متقدمین نے فاع اور فعلن دونوں کے وزن پر باندھا ہے ۔ بعد کے اساتذہ نے فاع کے وزن کو اختیار کیا اور ترجیح دی اور فعلن پر باندھنا گویا متروک ہوگیا ۔ لیکن اب جدید شعرا کے ہاں فاع اور فعلن دونوں اوزان پر ملتا ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس رواج کو چلتا رہنے دینا چاہئے ، فاع اور فعلن دونوں کی اجازت ہونی چاہئے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عروض کو سہل بنایا جائے اور عروضی بندشوں میں جہاں تک ہوسکے کشادگی پیدا کی جائے ۔ ایک اور بات یہ کہ جب پاؤں (فعل) کو متقدمین اور متاخرین دونوں نے فعلن کے وزن پر باندھا ہے تو پاؤں (اسم) کو بھی فعلن کے وزن پر باندھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ معاصر اردو میں ان دونوں کا تلفظ تقریباً ایک ہی کیا جاتا ہے سو منطقی طور پر انہیں ہم وزن بھی ہونا چاہئے ۔ اور اب تو دونوں الفاظ کا املا بھی ایک ہی ہوگیا ہے ۔ یہ میری ناقص رائے ہے اور تسہیلِ عروض کی ایک کوشش ہے ۔
فعلن کے وزن کی سند کے لئے میر کے کچھ اشعار ذیل میں لکھتا ہوں ۔
بوجھ اٹھاتا ہوں ضعف کا شاید
ہاتھ پاؤں میں زور آیا ہے

اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگائیے گا

پاؤں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہِ عشق میں گویا دبی ہے آگ

کھا گیا اندوہ مجھ کو دوستانِ رفتہ کا
ڈھونڈتا ہے جی بہت پر اب انہیں پاؤں کہاں

کیونکے طے ہو دشت شوق آخر کو مانند سر شک
میرے پاؤں میں تو پہلے ہی قدم چھالے پڑے

مہندی لگی تھی تیرے پاؤں میں کیا پیارے
ہنگامِ خونِ عاشق سر پر جو تو نہ آیا

تھا صیدِ ناتواں میں ولے میرے خون سے
پاؤں میں صید بندوں کے بھر کر حنا لگی

شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گردِ راہ سب کے پاؤں سے تو لگا رہ

گئے دن متصل جانے کے اس کی اور اُٹھُ اُٹھ کر
تفاوت ہو گیا اب تو بہت پاؤں کی طاقت میں

غرور ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جو نے
ملا پاؤں تلے جب تک نہ چشمِ صد غزالاں کو

ترے غمزے نے جور و ظلم سے آنکھیں غزالوں کی
بیاباں میں دکھا مجنوں کو پاؤں کے تلے ملیاں

نہ چشمِ کم سے مجھ درویش کی آوارگی دیکھو
تبرک کرتے ہیں کانٹے مرے پاؤں کے چھالوں کو

دل پہ رکھتا ہوں کبھو سر سے کبھو ماروں ہوں
ہاتھ پاؤں کو نہ میں تیرے لگایا ہوتا

وہ سیر کا وادی کے مائل نہ ہوا ورنہ
آنکھوں کو غزالوں کی پاؤں تلے مل جاتا

عاشق کی چشمِ تر میں گو دبتے آویں لیکن
پاؤں کا دلبروں کے چھپتا نہیں چھپاکا

خاک ایسی عاشقی میں ٹھکرائے بھی گئے کل
پاؤں کنے سے اس کے پر میرؔ جی نہ سرکے

زنجیر تو پاؤں میں لگی رہنے ہمارے
کیا اور ہو رسوا کوئی آشفتہ سری سے

وے یاسمنِ تازہ شگفتہ میں کہاں میرؔ
پائے گئے لطف اس کے جو پاؤں کے نشاں میں

ہم عاجزوں کا کھونا مشکل نہیں ہے ایسا
کچھ چونٹیوں کو لے کر پاؤں تلے مل ڈالا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قافیے کے بارے میں مَیں اتنا متشدد نہیں۔ مجھے علم عروض کی وہ بندش درست نہیں لگتی کہ مصدر فعل ہو تو قافیوں کے مصدر بھی ہم قافیہ ہوں جیسا کہ عزیزی ظہیراحمدظہیر نے لکھا ہے۔ کہنا اور لکھنا قوافی بھی مجھے قبول ہیں بشرطیکہ مطلع میں نہ ہوں اور بقیہ قوافی تمہاری غزل کی طرح محض الف مشترک والے الفاظ کے ہوں۔ یا یہ کہ کچھ قوافی فعل ہوں، کچھ نہ ہوں
اعجاز بھائی ، بعض دفعہ آپ کا مراسلہ دیر تک سر کھجانے پر مجبور کردیتا ہے ۔ :):):)
معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ لگتا ہے آپ میرے مراسلے سے سرسری اور عجلت میں گزر گئے ۔ میں نے تو ایسی کوئی بات لکھی ہی نہیں کہ جو آپ نے مجھ سے منسوب کی: " مجھے علم عروض کی وہ بندش درست نہیں لگتی کہ مصدر فعل ہو تو قافیوں کے مصدر بھی ہم قافیہ ہوں جیسا کہ عزیزی ظہیراحمدظہیر نے لکھا ہے۔"
میرا مراسلہ پھر سے دیکھ لیجئے:
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔
۴۔ آپ کی غزل میں مطلع کے قوافی رولا اور روندا درست نہیں ہیں ۔ کیونکہ رول اور روند ہم قافیہ نہیں ۔ لیکن مطلع میں رولا کا قافیہ اگر بولا لے آئیں تو درست ہوجائے گا ۔ اور بقیہ غزل کے لئے تولا ، گھولا ، چولا وغیرہ کے قوافی متعین ہوجائیں گے ۔

اور اسی بات کی تائید آپ بھی کررہے ہیں کہ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت زائد الفاظ کو نظر انداز کرتے ہوئے مصدرِ فعل یعنی اس کے صیغۂ امر کو دیکھا جائے گا ۔ یہ دیکھئے:
کہنا اور لکھنا قوافی بھی مجھے قبول ہیں بشرطیکہ مطلع میں نہ ہوں اور بقیہ قوافی تمہاری غزل کی طرح محض الف مشترک والے الفاظ کے ہوں۔
یہی بات میں نے اپنے مراسلے کے نکتہ نمبر 5 میں تفصیلاً سمجھائی ہے ۔ یہ دیکھئے:
۵۔ مطلع میں قوافی کے مذکورہ بالا مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک حیلہ استعمال کیا جاتا ہےاور وہ یہ کہ مطلع میں ایک قافیہ فعل اور دوسرا قافیہ غیرفعل استعمال کرلیا جائے ۔ مثلاً آپ کے مطلع میں ایک قافیہ روندا اور دوسرا قافیہ باجا ہو تو درست ہے ۔ اور یوں بقیہ غزل میں اب وہ تمام قافیے استعمال ہو سکتے ہیں کہ جو الف پر ختم ہوتے ہوں مثلاً آیا ، بھاگا ، آدھا ، اُلٹا ، سونا ، چہرہ ، نقشہ وغیرہ ۔ ( نقشہ ، چہرہ ، حلیہ وغیرہ کے آخر میں جو ہائے مختفی ہوتی ہے اُسے الف کے برابر مانا جاتا ہے۔)

میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ عروض کی ثقیل اور نامانوس اصطلاحات استعمال کئے بغیر بنیادی خیال یا concept مبتدیان تک پہنچادیا جائے ۔ عموماً عروض سے دور بھاگنے کی ایک وجہ یہی اصطلاحات ہیں ۔ سو ان سے پرہیز کرتا ہوں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
الف عین سر نے وصلی قوافی کے طور پر درست قرار دیا ہے جبکہ محترمی ظہیر سر نے اصلی قوافی کی رو سے غلط قرار دیا ہے. امید ہے پچھلی پوسٹ فائدہ دے گی
بیٹا ، آپ وضاحت کریں گی کہ کس بات کو الف عین نے درست قرار دیا اور کس بات کو میں نے غلط قرار دیا؟
 
راحل بھائی ، آپ کا کہنا درست ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاؤں کو متقدمین نے فاع اور فعلن دونوں کے وزن پر باندھا ہے ۔ بعد کے اساتذہ نے فاع کے وزن کو اختیار کیا اور ترجیح دی اور فعلن پر باندھنا گویا متروک ہوگیا ۔ لیکن اب جدید شعرا کے ہاں فاع اور فعلن دونوں اوزان پر ملتا ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس رواج کو چلتا رہنے دینا چاہئے ، فاع اور فعلن دونوں کی اجازت ہونی چاہئے ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عروض کو سہل بنایا جائے اور عروضی بندشوں میں جہاں تک ہوسکے کشادگی پیدا کی جائے ۔ ایک اور بات یہ کہ جب پاؤں (فعل) کو متقدمین اور متاخرین دونوں نے فعلن کے وزن پر باندھا ہے تو پاؤں (اسم) کو بھی فعلن کے وزن پر باندھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ معاصر اردو میں ان دونوں کا تلفظ تقریباً ایک ہی کیا جاتا ہے سو منطقی طور پر انہیں ہم وزن بھی ہونا چاہئے ۔ اور اب تو دونوں الفاظ کا املا بھی ایک ہی ہوگیا ہے ۔ یہ میری ناقص رائے ہے اور تسہیلِ عروض کی ایک کوشش ہے ۔
ظہیرؔ بھائی، آداب!
سر تسلیم خم ۔۔۔ آپ کی بات عین مناسب ہے ۔۔۔ لیکن پاؤں (بمعنی پانا) اور پاؤں (بمعنی پیر) کے جدید تلفظ میں بہرحال معمولی فرق تو ہے۔ پاؤں(پانا) میں تو واؤ واضح طور پر معروف سنائی دیتی ہے جبکہ پاؤں(پیر) میں کچھ کچھ مجہول۔ دراصل میرا یہ نکتہ اٹھانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کئی مرتبہ ایسا دیکھا ہے کہ کوئی شاعر پاؤں (بمعنی پیر) کو دعاؤں، خطاؤں وغیرہ کے ساتھ قافیہ لایا تو اساتذہ نے تلفظ کی بنیاد پر ٹوک دیا۔ بس اسی لئے یہ بات کی کہ اگر مستقبل میں قافیہ کے باب میں کبھی کسی کو اس اعتراض کا سامنا ہو تو وجہ ذہن نشین رہے۔

بہرحال، ظاہر ہے کہ آپ کی بات میری رائے سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے کہ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا :) آپ کے مطالعے کا ایک چوتھائی بھی ہمارے پاس ہوتا تو کیا بات تھی :)

دعاگو،
راحلؔ۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بیٹا ، آپ وضاحت کریں گی کہ کس بات کو الف عین نے درست قرار دیا اور کس بات کو میں نے غلط قرار دیا؟
مصدر ہوتا کیا ہے اس بات کا علم ہی نہیں ہے اگر اس کی انگلش پتا چل سکے تو شاید پتا ہی ہوں. کچھ ان ٹرمز کی وجہ سے مراسلے کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوئی. آپ نے مطلع کے حوالے سے قوانین میں جو بتائے اک فعل اور دوسرا جیسا باجا ... اس سے اگلے اشعار میں ایسے الفاظ جن کے آخر میں الف آتا ہے گنجائش نکل آتی ہے .. روند تو دل پر ختم ہوجاتا ہے اور روندا ہم نے الف لگا کے لفظ بنادیا ہے جبکہ باجا اک مکمل لفظ ہے. اسطرح کہتا بہنا ، بہرا مطلع میں نہیں آسکتے مگر یہ اگلے اشعار میں آسکتے ہیں ... معذرت مجھ سے غلطی ہوگئی ہے سمجھنے میں. مگر آپ دونوں اساتذہ کی گفتگو ایک ہی ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
معزز استادِ محترم الف عین ،
ظہیراحمدظہیر
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ


آداب

کچھ اشعار مطلع کے طور پر لکھے ہیں ۔ ۔ آپ سے گزارش ہے کہ رہنمائی کیجیئے کہ کون سا بہتر ہو گا ۔ ۔ اس کے بعد دیگر تصحیح شدہ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کروں گی ۔ ۔



بہت محبوس رہتے ہیں کہیں نکلا نہیں جاتا
ہمارے دل سے اک آسیب کا سایہ نہیں جاتا

یا

بہت کوشش بھی کرتے ہیں اسے بھولا نہیں جاتا
ہمارے دل سے کیوں آسیب کا سایہ نہیں جاتا

یا

کہاں پر کھو گئے ہو تم، تمہیں ڈھونڈا نہیں جاتا
تمہارے دل کی نگری تک کوئی رستہ نہیں جاتا

یا


اندھیرا ہر طرف ہے گھر سے اب نکلا نہیں جاتا
تمہارے دل کی نگری تک کوئی رستہ نہیں جاتا

یا

بھلائیں کس طرح تم کو تمہیں بھولا نہیں جاتا
بھلایا، دل پہ ہے جو نقش، وہ چہرہ نہیں جاتا

یا

بھلائیں کس طرح تم کو تمہیں بھولا نہیں جاتا
ہمارے دل پہ ہے جو نقش وہ چہرہ نہیں جاتا
ان میں سے اکثر دولخت ہیں یا دونوں مصرعوں کا ربط کمزور ہے۔ کیوں ہیں وہ آپ خود معلوم کیجئے ۔ اپنے اشعار کو دشمن کی آنکھ سے دیکھئے اور کڑے سوالات کیجئے ۔ وجہ سمجھ میں آجائے گی ۔ آخری مطلع درست ہے اور مصرع مربوط ہیں ۔ لیکن دل سے چہرہ جانے کے بجائے آنکھوں یا تصور سے چہرہ نہیں جاتا زیادہ معقول اور بہتر ہوگا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیرؔ بھائی، آداب!
سر تسلیم خم ۔۔۔ آپ کی بات عین مناسب ہے ۔۔۔ لیکن پاؤں (بمعنی پانا) اور پاؤں (بمعنی پیر) کے جدید تلفظ میں بہرحال معمولی فرق تو ہے۔ پاؤں(پانا) میں تو واؤ واضح طور پر معروف سنائی دیتی ہے جبکہ پاؤں(پیر) میں کچھ کچھ مجہول۔ دراصل میرا یہ نکتہ اٹھانے کا اصل مقصد یہ تھا کہ کئی مرتبہ ایسا دیکھا ہے کہ کوئی شاعر پاؤں (بمعنی پیر) کو دعاؤں، خطاؤں وغیرہ کے ساتھ قافیہ لایا تو اساتذہ نے تلفظ کی بنیاد پر ٹوک دیا۔ بس اسی لئے یہ بات کی کہ اگر مستقبل میں قافیہ کے باب میں کبھی کسی کو اس اعتراض کا سامنا ہو تو وجہ ذہن نشین رہے۔

بہرحال، ظاہر ہے کہ آپ کی بات میری رائے سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے کہ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا :) آپ کے مطالعے کا ایک چوتھائی بھی ہمارے پاس ہوتا تو کیا بات تھی :)

دعاگو،
راحلؔ۔
ہا ہا ہا ہا !!! بہت خوب راحل بھائی ! آپ نے میرے کندھے پر بندوق رکھ کر میر کا مصرع خود میر ہی کے متھے مار دیا ۔ :):):) بیشک میر صاحب کہہ گئے ہیں کہ مستند ہے اُن کا فرمایا ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ میر کی زبان اور کلام ہر معاملے میں حجت نہیں ہے ۔ بہت کچھ اگڑم بگڑم بھی لکھ گئے ہیں موصوف۔ ان کی زبان ان کے عہد کی آئینہ دار تھی ۔ درجنوں الفاظ اور نحوی اسلوب جو وہ استعمال کر گئے کب کے متروک ہوچکے ہیں ۔ تب سے اب تک اردو بہت سنور چکی اور ترقی کرچکی ہے ۔ ارتقائی عمل جاری ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا پاؤں بروزن فعلن بھی متروک ہو چکا ۔ لیکن تسہیل اور کشادگی کی غرض سے میں سمجھتا ہوں کہ اسے بروزن فعلن باندھنے کی اجازت ہونی چاہئے ۔ وجوہات پہلے ہی تفصیلاً عرض کرچکا ہوں۔ میر کے اشعار تو لفظ مذکور کا ارتقا دکھانے کے لئے نقل کئے تھے ۔
قافیہ کا نکتہ آپ نے بہت اچھا اٹھایا۔ بیشک پاؤں بمعنی قدم کو دعاؤں ، صداؤں کا قافیہ نہیں بنایا جاسکتا کہ تلفظ میں فرق ہے ۔ لیکن لوگ اب بنارہے ہیں کہ تلفظ میں فرق معمولی سا ہے ۔ جمال احسانی کی یہ غزل دیکھئے گا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مصدر ہوتا کیا ہے اس بات کا علم ہی نہیں ہے اگر اس کی انگلش پتا چل سکے تو شاید پتا ہی ہوں. کچھ ان ٹرمز کی وجہ سے مراسلے کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوئی. آپ نے مطلع کے حوالے سے قوانین میں جو بتائے اک فعل اور دوسرا جیسا باجا ... اس سے اگلے اشعار میں ایسے الفاظ جن کے آخر میں الف آتا ہے گنجائش نکل آتی ہے .. روند تو دال پر ختم ہوجاتا ہے اور روندا ہم نے الف لگا کے لفظ بنادیا ہے جبکہ باجا اک مکمل لفظ ہے. اسطرح کہتا بہنا ، بہرا مطلع میں نہیں آسکتے مگر یہ اگلے اشعار میں آسکتے ہیں ... معذرت مجھ سے غلطی ہوگئی ہے سمجھنے میں. مگر آپ دونوں اساتذہ کی گفتگو ایک ہی ہے
کوئی بات نہیں بیٹا ۔ میرا بھی یہی خیال تھا کہ آپ کو ٹھیک سے بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ پوچھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ۔ :)

مصدر کی وضاحت میں نے اوپر اپنے مراسلے میں بڑے آسان پیرائے میں کر تو دی تھی لیکن پھر سمجھادیتا ہوں ۔ مصدر کے لغوی معنی ہیں نکلنے کی جگہ ، صادر ہونے کی جگہ ، منبع ، جڑ وغیرہ ۔ اسے انگریزی میں root wordکہتے ہیں ۔ لسانیات میں اصطلاحاً morphemeبھی کہا جاتا ہے ۔ مصدر کے تصور کو ایک مثال سے سمجھئے ۔ علم ایک لفظ ہے جو تین حروف (عین لام میم) پر مشتمل ہے ۔ اسی بنیادی لفظ میں کچھ تبدیلیاں کرکے اس سے کئی نئے الفاظ نکالے گئے ہیں ۔ مثلاً عالم ، علیم ، معلم ، تعلیم ، تعلم ، علوم ، علما ، عالمہ وغیرہ ۔ گرامر کی اصطلاح میں اس بنیادی لفظ "علم" کو مصدر کہیں گے اور اس سے نکلنے والے تمام الفاظ کو مشتقات ۔ نوٹ کیجئے کہ بنیادی حروف (عین لام میم) سے پہلے ، بعد میں یا ان کے درمیان میں کچھ حروف کا اضافہ کر کے نئے الفظ مشتق کئے گئے ہیں ۔ مصدر سے نئے الفاظ کا اشتقاق جن قواعد کی رُو سے کیا جاتا ہے اُن کے علم کو علم الصرف یا صَرف کہتے ہیں ۔

لیکن سمجھنےکی اہم بات یہ ہے کہ علمِ قافیہ میں مصدر کی اصطلاح گرامر کے مصدر سے مختلف ہے ۔ اس فرق کو سمجھنے کے لئے پہلے اس بات کو سمجھئے کہ اردو میں اکثر ایک مکمل اور بامعنی لفظ کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے اس کے آگے کچھ حروف کا اضافہ کرکے اس کی جمع ، تانیث ، تصغیر یا کوئی صیغہ وغیرہ بناتے ہیں ۔ مثلاً باغ سے باغوں اور باغات ، کتاب سے کتابوں اور کتابیں ، کمال سے کمالوں اور کمالات ، چل سے چلنا ، چلو ، چلیں ، چلوں ، چلا ، چلتے وغیرہ ۔ ان مثالوں میں اصل لفظ کو مصدر یا مصدرِ قافیہ کہتے ہیں اور اس کے آگے اضافہ کئے گئے حروف کو زائد یا اضافی حروف کہتے ہیں ۔ مطلع میں اصل لفظ یا مصدر کو قافیہ بنانےکے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے آگے موجود اضافی حروف کو ردیف مانا جاتا ہے ۔ چنانچہ شرابوں کا قافیہ کتابوں ، حسابوں ، نصابوں ، خرابوں ہوگا ۔ ان میں شراب ، کتاب ، حساب ، نصاب وغیرہ قافیے ہیں اور "وں" کے زائد یا اضافی حروف ردیف میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ اسی طرح مطلع میں کمالات کا قافیہ باغات نہیں لاسکتے کیونکہ باغ اور کمال ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ "ات" اضافی حروف ہیں اور ردیف کا حصہ ہیں ۔ قافیے کا تعین ان اضافی حروف سے نہیں بلکہ اصل لفظ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اگر باغات اور کمالات کے قوافی مطلع میں لائیں تو ایطائے جلی کا عیب واقع ہوجائے گا ۔ ان مثالوں کی روشنی میں اب میرے پہلے مراسلے کو پڑھئے تو آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ روندا اور رولا کے قوافی مطلع میں کیوں استعمال نہیں کئے جاسکتے ۔ اردو افعال میں مصدرِ قافیہ فعل کا صیغۂ امر ہوتا ہے ۔ اس مصدر کے آگے حروف زیادہ کرکے دیگر تمام صیغے بنائے جاتے ہیں ۔ جیسے روند سے روندا ، روندے ، روندیں ، روندی ، روندے ، روندنا وغیرہ ۔ مذکورہ بالا غزل کے مطلع میں روندا اور رولا کی وجہ سے ایطائے جلی واقع ہو رہا ہے ۔ لیکن روندا اور باجا کے قوافی اس عیب کو دور کردیتے ہیں اور بقیہ غزل میں ایسے تمام قوافی کو ممکن بنادیتے ہیں کہ جن کے آخر میں الف آرہا ہو ۔
فعل کے صیغۂ امر کو فعل کا مصدر مانا جاتا ہے ۔ یعنی مصدر وہ بنیادی لفظ ہوتا ہے کہ جس کے آگے حروف کا اضافہ کرکے فعل کے دیگر صیغے بنائے جاتے ہیں۔ "لکھ" ایک مصدر ہے ۔ اس مصدر سے لکھا ، لکھی ، لکھو ، لکھتا ، لکھتی ، لکھتے ، لکھیں ، لکھوں ، لکھنا وغیرہ کے الفاظ بنائے گئے ۔ اسی طرح "چل" کے مصدر سے چلا ، چلتا ، چلتی ، چلئے ، چلو، چلیں وغیرہ بنائے گئے ہیں ۔ یہ بات نوٹ کیجئے کہ ان تمام الفاظ کی ابتدا میں "لکھ" اور "چل" مشترک ہے اور اس مصدر کے آگے زائد حروف لگا کر مختلف صیغے بنادیئے گئے ہیں ۔
۳۔ مطلع میں دو افعال کو قافیہ بناتے وقت ان کے مصدر کو دیکھا جاتا ہے ۔ مصدر کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے ۔ یعنی کہتا اور سُنتا قافیہ نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے کہ سُن اور کہہ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس کہتا اور بہتا قوافی ہوسکتے ہیں کیونکہ کہہ اور بہہ ہم قافیہ ہیں ۔ اسی طرح دیکھا اور لکھا بھی قوافی نہیں ہوسکتے کہ دیکھ اور لکھ ہم قافیہ نہیں ہیں ۔

امید ہے کہ اب بات سمجھ میں آگئی ہوگی ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تمھاری راہ تک اب کوئی بھی رستہ نہیں جاتا
ارے بھئی اس غزل پر تو کافی تبصرے ہو چکے اور بہت سے ضمنی نکات بھی زیر بحث آچکے خصوصاًقافیے
کی خصوصیات بھی زیر بحث آگئیں ۔ اس لیے بس اس کا آخری ریویژن دیکھا ۔
اس مصرع پر شاید کسی کی توجہ نہیں گئی ۔ اس میں راہ اور رستے کے معنوی تصادم کی وجہ سے مجھے عجیب
تعارض سا محسوس ہوا ۔لگتا ہے اس سے مصرع ضعیف پڑ رہا ہے اور مصرع سے شعر بھی ۔
سو یہاں راہ تک کے بجائے گھر تک یا در تک یا اس طرح کی کوئی اور ترکیب آنی چاہیئے ۔ پھر شعر مستحکم ہو گا ۔
جیسے ،
تمہارے بام و در تک اب کوئی رستہ نہیں جاتا ۔


اصلاح سخن کے سلسلے میں جہاں عمومی مشورہ جات ہوں وہاں یہ بات شعراؤ شاعرات کو مدنظر رکھنی چاہیئے
کہ جب وہ اپنی کسی کاوش پر متعدد بار نظر ثانی (بلکہ ثالث و رابع وغیرہ) کریں تو ہر مرتبہ ایک متعین تناظر
سے ریویو کریں ۔

ایک مرتبہ لفظی اور ترکیبی نشست اور مصرعوں کی ظاہری ساخت کے اعتبار سے
پھر اندازِ بیان کے اعتبار سے اور شعری طرز و ترتیب کے لحاظ سے
پھر معنوی اور تخیل سے مطابقت کے لحاظ سے

اس طرح کئی اعتبار سے مناسب تبدیلیوں کی ضرورت نظر آئے گی ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس مشق میں کافی جانفشانی ،
مشقت اور ذہنی عرقریزی کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ ان کئی سطحوں کے لحاظ سے غور و خوض کرتے ہوئے خیال
بھی مجموعی طور پر رکھنا پڑتا ہے کہ یہ تمام خصوصیات شعر کے اس تخیل سے موافق بھی رہیں کہ جس پر شعر کی بنیاد
رکھی گئی ہے ۔ اگر ان اصولوں سے اشعار کو ضروری مراحل سے گزارا جائے تو یقینا ایک پختہ اسلوب کا نمونہ سامنے
آئے گا ۔ اس سلسلے میں اساتذہ کے پختہ کلام کا بغور مطالعہ انتہائی مفید ثابت ہوگا۔ کیوں کہ گہرے مطالعے کے بغیر
اتنی ساری قدروں کو مبتدیوں کے لیے بیک وقت مد نظر رکھنا عموماً سہل نہیں ہو گا ۔ لیکن اگر ان کو سمجھ کر مشق کی
جائے تو اس کے ثمرات یقیناً نظر آئیں گے ۔
 
Top