شعر جو ضرب المثل بنے

اس پوسٹ کا مقصد ہے ایسے اشعار پوسٹ کرنا جو ضرب المثل بنے

آغاز کرتا ہوں

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا

(مومن خاں مومن)
 
جواب

اس سلسلے میں کلاسیکی شعرا بہت زیادہ خوش قسمت رہے جن میں داغ، غالب میر اکبر جگر وغیرہ شامل ہیں۔

لطف مے تجھ سے کیا کہوں واعظ
ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں
دی شب وصل موزن نے اذاں پچھلے پہر
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا
تو ہے ہر جائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی (داغ)

(اس عاشقی میں عزتِ سعادت بھی گئی)
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا (میر)

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذودپشیماں کا پشیماں ہونا
یہ لاش بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں (غالب)

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو (مومن)

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں (ناسخ)

مرگ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد (مولانا محمد علی جوہر)

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا (ظفر علی خان)

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا(اکبر)

کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
گلزار و ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں (اقبال)

یہ عشق نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیئے
ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے (جگر)

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئ (حفیظ جالندھری

کیوں اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں (شائد سلیم احمد کا شعر ہے)
گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہو کچھ لوگ پہچانے گئے خاطر غزنوی

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھے روتا ہے کیا
 

رضوان

محفلین
وہاب صاحب( شناء)
آپ اکیلے ھی کئیوں پر بھاری ھیں جو ایک دو ھمارے ذھن میں تھے وہ آپ نے شامل کر دئیے بہت عمدہ انتخاب ھے آپکا
 
مزید

آتش کے دو شعر بھی اس حوالے سے کافی اہم ہیں

آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا

جبکہ غالب کا ایک اور شعر

بک رہا ہوں جنوں میں‌کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کر ے کوئی
 

الف عین

لائبریرین
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
 
جواب

ویسے زیدی کے یہ دو اشعار بھی اب تو اکثر خود بخود ہماری زبان پر آجاتے ہیں۔
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

لیکن خیر اپنے ظہیر الدین بابر بھی تو کہہ گئے ہیں کہ
بابر بہ عیش کوش کی عالم دوبارہ نیست
 
اعجاز اختر نے کہا:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اعجاز صاحب آپ نے تو یہ شعر میرے منہ سے چھین لیا ، بہت خوب میں یہی پوسٹ کرنے آیا تھا کہ دیکھا آپ نے پوسٹ کردیا ہے۔ چلیں اتنا تو ہوا کہ مجھے پتہ چل گیا کہ میرا خیال بھی کبھی بلند سمت پرواز کر سکتا ہے

غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
 
اعجاز اختر نے کہا:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اعجاز صاحب آپ نے تو یہ شعر میرے منہ سے چھین لیا ، بہت خوب میں یہی پوسٹ کرنے آیا تھا کہ دیکھا آپ نے پوسٹ کردیا ہے۔ چلیں اتنا تو ہوا کہ مجھے پتہ چل گیا کہ میرا خیال بھی کبھی بلند سمت پرواز کر سکتا ہے

غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
 

فرید احمد

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر میرا مجھ سے بہتر کہ اس “ محفل “ میں ہے

یہاں لفظ “ محفل “ ہماری اس محفل کی مناسبت سے رس گھول رہا ہے ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم،

شعراء کی خوش نصیبی برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مصرعہ اور اشعار درست لکھے جائیں

مرگِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے ( ؟؟؟)

مولانا محمد علی جوہر نے یوں کہا تھا

قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں


اگر میں غلطی پر نہیں تو یہ شعر ناصر کاظمی کا ہے

کوئی صاحب یا صاحبہ تصحیح فرما دیں تو تشکر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جواب

وہاب اعجاز خان نے کہا:
ویسے زیدی کے یہ دو اشعار بھی اب تو اکثر خود بخود ہماری زبان پر آجاتے ہیں۔
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

لیکن خیر اپنے ظہیر الدین بابر بھی تو کہہ گئے ہیں کہ
بابر بہ عیش کوش کی عالم دوبارہ نیست



بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
اعجاز اختر نے کہا:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اعجاز صاحب آپ نے تو یہ شعر میرے منہ سے چھین لیا ، بہت خوب میں یہی پوسٹ کرنے آیا تھا کہ دیکھا آپ نے پوسٹ کردیا ہے۔ چلیں اتنا تو ہوا کہ مجھے پتہ چل گیا کہ میرا خیال بھی کبھی بلند سمت پرواز کر سکتا ہے

غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا


محب علوی،
آپ نے صرف وعدے پہ اعتبار کر کے ہی غضب نہیں کیا تھا مصرعے میں جو کا اضافہ کر کے بھی غضب کیا ہے ، اب اگر آپ غضب کرنے کی ہیٹ ٹرک کرنا چاہیں تو مصرعہ کو یہ شکل دیں :roll:

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
farid rasheed kavi نے کہا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر میرا مجھ سے بہتر کہ اس “ محفل “ میں ہے

یہاں لفظ “ محفل “ ہماری اس محفل کی مناسبت سے رس گھول رہا ہے ۔

کوی ،

آپ 7 فروری کو ہزار بار رویا کیئے اور اب اتنی جلدی رس گھولنے پر تُل گئے ہیں ۔ ۔ ۔ !! خیر تُلے رہیے مگر للہ مصرعہ پر نظرِ ثانی فرمائیں کہ شرکاء محفل رس کا حظ اٹھا سکیں آپ نے رس گھولنے میں کچھ ڈنڈی ماردی ہے ۔ ۔ ۔

۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
جواب

وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے
شگفتہ شگفتہ بہانے تیرے
اشعار کی تصیح کا شکریہ ویسے چچا غالب نے کسر نفسی سے کام لیتے ہوتے ہوئے اپنے بارے میں کہا تھا۔
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ ہائے تو برا کیا ہے
 
Top