اعجاز اختر نے کہا:وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اعجاز اختر نے کہا:وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
وہاب اعجاز خان نے کہا:ویسے زیدی کے یہ دو اشعار بھی اب تو اکثر خود بخود ہماری زبان پر آجاتے ہیں۔
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
لیکن خیر اپنے ظہیر الدین بابر بھی تو کہہ گئے ہیں کہ
بابر بہ عیش کوش کی عالم دوبارہ نیست
محب علوی نے کہا:اعجاز اختر نے کہا:وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اعجاز صاحب آپ نے تو یہ شعر میرے منہ سے چھین لیا ، بہت خوب میں یہی پوسٹ کرنے آیا تھا کہ دیکھا آپ نے پوسٹ کردیا ہے۔ چلیں اتنا تو ہوا کہ مجھے پتہ چل گیا کہ میرا خیال بھی کبھی بلند سمت پرواز کر سکتا ہے
غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
farid rasheed kavi نے کہا:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر میرا مجھ سے بہتر کہ اس “ محفل “ میں ہے
یہاں لفظ “ محفل “ ہماری اس محفل کی مناسبت سے رس گھول رہا ہے ۔