ساغر صدیقی کی اس غزل کے کئی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔
ہے دعا یاد مگرحرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایاتھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں