شعر و شاعر (اشعار اور خالق)

طارق شاہ

محفلین

چُھپا ہے ماہ، وہ خورشید رُو کو دیکھ، سِراجؔ
ظلوعِ صُبح میں، جُوں شمع انجمن سے اُٹھے

سِراجؔ اورنگ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

محبّت کے نشہ، ہیں خاص اِنساں واسطے، ورنہ !
فرشتے یہ شرابیں پی کے مستانے ہُوئے ہوتے


سِراجؔ اورنگ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

اوّل سے دِل مِرا جو گرفتار تھا سو ہے
میرے گلے میں عشق کا زُنّار تھا سو ہے

اے شاہِ حُسن! مجھکو تمھاری جناب میں
مُدّت سے بندگی کا جو اِقرار تھا سو ہے

سِراجؔ اورنگ آبادی
 

طارق شاہ

محفلین

سنّاٹے میں جیسے کوئی
دُور سے آوازیں دیتا تھا

یادوں کی سِیڑھی سے، ناصؔر
رات اِک سایا سا اُترا تھا

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

پل پل کانٹا سا چُبھتا تھا
یہ مِلنا بھی، کیا مِلنا تھا

کتنی باتیں کی تھیں، لیکن!
ایک بات سے جی ڈرتا تھا

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

تیرے ساتھ ،تِرے ہمراہی
میرے ساتھ، میرا رستا تھا

رنج تو ہے لیکن، یہ خوشی ہے !
اب کے سفر تِرے ساتھ کِیا تھا

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

وہی ہُوئی ہے جو ہونی تھی
وہی مِلا ہے، جو لِکھا تھا

دِل کو یونہی سا رنج ہے، ورنہ!
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا

ناصؔر کاظمی
 

طارق شاہ

محفلین

کہاں اب وہ موسمِ رنگ و بُو، کہ رگوں میں بول اُٹھے لہُو
یونہی ناگوار چُبھن سی ہے کہ جو شامِلِ رَگ و پے نہیں

ناصؔر کاظمی
 
Top