یہ شعر داغ دہلوی کا ہے مومن خاں مومن کا نہیں بھائی جانشبِ وصال ہے، گُل کردو اِن چراغوں کو !
خوشی کی بزم میں ، کیا کام جلنے والوں کا
مومن خاں مومؔن
اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ، تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص! تُو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
تِرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
وہ جلدباز! خفا ہو کے چل دِیا، ورنہ
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا
اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دِیا ، ورنہ
مِری دُعا سے، وہ پتّھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عُمرتِر ا منتظر رہا مُحسن
یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا
مُحسؔن نقوی
اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ، تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص! تُو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
تِرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
وہ جلدباز! خفا ہو کے چل دِیا، ورنہ
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا
اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دِیا ، ورنہ
مِری دُعا سے، وہ پتّھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عُمرتِر ا منتظر رہا مُحسن
یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا
مُحسؔن نقوی۔۔۔ میرا فیس بک پر ایک پیج ہے منتخب اشعار وہاں ندیم رومی صاحب نے توجہ دلائی تھی کہ یہ غزل محسن نقوی کی نہیں بلکہ ان کی کاوش ہے۔ ساتھ رومی صاحب کا کمنٹس پوسٹ کر رہا ہوں.
جناب عالی!
یہ مجھ ناچیز کی کاوش ہے، نقوی صاحب کا کلام نہیں ہے، مہربانی کریں
دسمبر 2004 کے آداب عرض میں شائع ہو چکی ہے،
کل پاکستان آداب عرض ملن مشاعرہ میں جناب رسا چغتائی صاحب کے زیرِ صدارت کراچی میں دسمبر 2004 میں پڑھی ہوئی ہے۔
میرا فیس بک پر ایک پیج ہے منتخب اشعار وہاں ندیم رومی صاحب نے توجہ دلائی تھی کہ یہ غزل محسن نقوی کی نہیں بلکہ ان کی کاوش ہے. ساتھ رومی صاحب کا کمنٹس پوسٹ کر رہا ہوں.اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ، تو مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص! تُو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
تِرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
وہ جلدباز! خفا ہو کے چل دِیا، ورنہ
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا
اَنا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دِیا ، ورنہ
مِری دُعا سے، وہ پتّھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عُمرتِر ا منتظر رہا مُحسن
یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا
مُحسؔن نقوی
طارق شاہ صاحب آپ کہاں ہیں؟