علی صہیب
محفلین
یوں وفا آزما رہے ہیں ہمتو اپنے اس ورودِ "نامسعود" کو شعر میں بیان کرنا تھا نا
تیرے کہنے پہ آ رہے ہیں ہم
یوں وفا آزما رہے ہیں ہمتو اپنے اس ورودِ "نامسعود" کو شعر میں بیان کرنا تھا نا
نگہ کو عزمِ سفر عرش سے ذرا آگےملتفت تم ذرا نہیں ہوتے
ہم بھی لیکن خفا نہیں ہوتے
یوں وفا آزما رہے ہیں ہم
تیرے کہنے پہ آ رہے ہیں ہم
آپ دونوں کی نذرایک مشہور شعر۔نگہ کو عزمِ سفر عرش سے ذرا آگے
کہ خاکِ رہ پہ تلطف مرا وتیرہ (وطیرہ) نیست
(پرانا شعر)
ان کہی کی الگ اذیت ہےپھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کیا، گھبرانا کیا
ہم کو کیا عار ہو بھلا اس میںآپ دونوں کی نذرایک مشہور شعر۔
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
نگہ کو عزمِ سفر عرش سے ذرا آگے
کہ خاکِ رہ پہ تلطف مرا وتیرہ (وطیرہ) نیست
(پرانا شعر)
سنا ہے میں نے اذیت مزہ بھی دیتی ہےان کہی کی الگ اذیت ہے
کہی کا عذاب مت پوچھو
زندگی کرۂ جہنم ہےان کہی کی الگ اذیت ہے
کہی کا عذاب مت پوچھو
وہ زخم دے کے مجھے حوصلہ بھی دیتا ہےسنا ہے میں نے اذیت مزہ بھی دیتی ہے
سنا ہے دل کی خلش میں سکوں بھی ہوتا ہے
ہزار دکھ مجھے دینا مگر خیال رہےسنا ہے میں نے اذیت مزہ بھی دیتی ہے
سنا ہے دل کی خلش میں سکوں بھی ہوتا ہے
سچ کہوں؟ درد میں بھی لذت ہےسنا ہے میں نے اذیت مزہ بھی دیتی ہے
سنا ہے دل کی خلش میں سکوں بھی ہوتا ہے
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہو جس میںزندگی کرۂ جہنم ہے
ہر نفس التہاب! مت پوچھو
سنتے آئے ہیں کہ معمورۂ غم ہے دنیامرے ساتھی! چلو اڑ کر افق کے پار چلتے ہیں
جہاں پر غم نہ ہو کوئی، وہاں اے یار چلتے ہیں
قولِ ناسخ کی کیا ضرورت ہے !زندگی کا مزہ اذیت ہے
سچ کہوں؟ درد میں بھی لذت ہے
منفرد سا مزہ اذیت ہے
نعمتوں پر نہیں سبھی موقوف
رنج بھی زیست کی عنایت ہے
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوںسنتے آئے ہیں کہ معمورۂ غم ہے دنیا
ہائے وہ شخص جسے اس کی طلب خوار کرے
کیسا بازار یہ نیرنگِ نظر ہے پیارےدنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الٰہ آبادی
قولِ ناسخ ذرا عنایت ہوقولِ ناسخ کی کیا ضرورت ہے !
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتےہزار دکھ مجھے دینا مگر خیال رہے
مرے خدایا مرا حوصلہ بحال رہے
فرحت عباس شاہؔ
نہ آنکھ میں آنسو نہ لب پہ ہنسی ہےزندگی کا مزہ اذیت ہے
سچ کہوں؟ درد میں بھی لذت ہے
منفرد سا مزہ اذیت ہے
نعمتوں پر نہیں سبھی موقوف
رنج بھی زیست کی عنایت ہے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گےاس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یی لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے