شمار کا خمار۔۔۔ محسن حجازی

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

شمار کا خمار
محسن حجازی

دنیا میں سب سے زیادہ ٹی وی اور ویڈیو گیمز کے شائق امریکی جنگ کو بھی ایک ویڈیو گیم ہی سمجھے۔ ایک ایسا کھیل جسے بڑی سی سکرین کے پار بیٹھ کر محض بٹن دبانے سے کھیلا جا سکتا ہے۔ آغاز میں برسائے جانے والے بموں پر تحریر تھا کہ بن لادن اور بسٹ!


آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کا صرف ايک نقاطی ايجنڈا اور پاليسی تھی جس کے تحت افغانستان پر بے دريخ بم پھينکے گئے۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی افغانستان ميں کاروائ محض دہشت گردوں کے خاتمے تک محدود نہيں ہے۔ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔

اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔

http://img502.imageshack.us/my.php?image=96154060ez8.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=59764280ff7.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=65286244iv9.jpg


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

شمار کا خمار
محسن حجازی

ناقدین سوال اٹھا سکتے ہیں کہ محض دو عمارتیں تو نہ تھیں انسانی جانیں بھی گنئے۔ صراحتا عرض کیے دیتے ہیں کہ اب جب کہ ہم خالصتا امریکی نکتہ نظر سے معاملے کا جائزہ لے رہے ہیں، انسانی جان کی حرمت کا پاس و قیاس کرنا بعید از حقیت ہو گا سو محض عمارتوں اور ڈالروں میں گنئے۔اگر شک ہے تو آٹھ سالہ جنگ دیکھ لیجئے، ہلاک شدگان کی تعداد دیکھ لیجئے جو ہمارے طرز استدلال کی صحت ثابت کرتی ہے۔ اب بھی ہم کو امریکہ کی جانب سے جنگ کے متعلق اعداد و شمار میں انسانی جانوں کے ضیاع کی بجائے سیدھا سیدھا ڈالروں میں خرچ ہی نظر آتا ہے۔

معاملہ رہا طالبان کا تو پرنالہ وہیں ہے۔ طالبان کے معاملے میں امریکی شدید غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ غالبا امریکیوں کا تصور یہ رہا ہوگا کہ ڈھاٹوں میں ملفوف کچھ باریش غاروں میں چھپے بیٹھے ہیں کلسٹر بموں سے معاملہ حل ہو جائے گا۔ نہ غار رہیں گے نہ طالبان۔ سو ابتدا میں یہی بم استعمال کیے گئے اور بے انتہا کیے گئے۔ خیال تھا کہ چند ہزار طالبان کی کمک کی مکمل ہلاکت کے بعد طالبان کسی ناپید جاندار کی نسل کی مانند معدوم ہو جائیں گے۔


امريکی حکومت اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ القائدہ کو اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے ميں کاميابی طالبان حکومت کی پشت پناہی اور سپورٹ کی بدولت ملی۔

آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امريکہ ابھی تک اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے ميں کامياب نہيں ہو سکا ہے ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ القائدہ تنظيم کے کئ اہم رکن گرفتار يا ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2001 ميں امريکہ کی فوجی کاروائ سے پہلے القائدہ کاميابی کے ساتھ دنيا کے مختلف ممالک ميں دہشت گرد سيل اور گروپ تيار کر رہی تھی جس کی تمام تر ٹرينيگ افغانستان ميں کی جا رہی تھی۔ يہ تمام تربيت اور امداد طالبان حکومت کی زير نگرانی کی جا رہی تھی۔ اس وقت يہ صورت حال نہيں ہے۔ يہ درست ہے کہ ايک تنظيم کی حيثيت سے القائدہ اس وقت بھی ايک خطرہ ہے ليکن اس کی افاديت پہلے سے بہت کم ہو چکی ہے۔ اس تنظيم کی باقی ماندہ قيادت مفرور ہے اور اس کی تمام توجہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے پر صرف ہو رہی ہے۔

اسامہ بن لادن کو بالآخر انصاف کے کٹہرے ميں لايا جائے گا اور انھيں اپنے جرائم کی سزا ملے گی۔

آپ نے 11 ستمبر 2001 کے حادثے ميں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کے تناظر ميں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی منطق پر تنقيد کی ہے۔

حققیت يہ ہے کہ القائدہ کے خلاف کاروائ کا فيصلہ صرف 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد نہيں کيا گيا تھا بلکہ اس کے پيچھے قريب دس سالہ تاريخ ہے جس دوران القائدہ نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر کے دنيا بھر ميں امريکی تنصيبات اور املاک پر حملے شروع کر رکھے تھے۔ 11 ستمبر کے واقعات کے بعد بھی دو ماہ تک طالبان سے يہ مطالبہ کيا گيا کہ اسامہ بن لادن کو حکام کے حوالے کيا جائے۔ تمام تر مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوجی کاروا‏ئ کے سوا کوئ چارہ نہيں تھا۔

اگر امريکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد بھی کوئ کاروائ نہيں کرتا تو آج القائدہ پہلے سے کہيں زيادہ موثر اور فعال تنظيم ہوتی۔ طالبان کے انکار کے بعد کيا امريکی حکومت دہشت گردی کے خطرے کو دانستہ نظرانداز کر سکتی تھی؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

شمار کا خمار
محسن حجازی

اصل غلطی کہیں اور ہوئی۔ اور وہ اصل غلطی یہ کہ طالب ہے کون؟ طالب کسے کہا جائے گا؟اور یہیں سے اصل تباہی کا آغازہوا۔ امریکہ انہیں مٹھی بھر سمجھتے ہوئے مسلنے کی مہم پر نکل کھڑا ہوا لیکن یہ بھول گیا کہ تمام افغانستان طالب ہے! اور یہی نہیں پاکستان کا ہر چوتھا باشندہ طالب ہے! لیجئے چند مثالیں:


آپ اسلامی اقدار پر عمل پيرا جن مسلم کرداروں کا حوالہ دے رہے ہيں، وہ تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور فوج سميت امريکی معاشرے کے ہر شعبہ زندگی ميں موجود ہيں۔ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ امريکی معاشرے بلکہ امريکی حکومتی اداروں ميں بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائيگی ميں کسی پابندی يا رکاوٹ کا سامنا نہيں کرنا پڑتا۔ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر صدر بش سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔ دو ہفتے قبل اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں عيد کے موقع پر مسلمانوں نے دعوت کا اہتمام کيا جس ميں بے شمار سينير حکومتی عہديداروں نے شرکت کی۔

اسی ضمن ميں آپ کو ليفٹينينٹ کمانڈر ابن نول کا حوالہ دے سکتا ہوں جو کہ اس وقت امريکی نيوی ميں سب سے سينير مسلم امام ہيں۔ يہ اپنی ملازمت کے دوران مسلمان ہوئے تھے اور اس وقت امريکی نيوی ميں باقاعدہ اسلام کی تبليغ اور مسلمان افسران کی دينی درس وتدريس کے فرائض انجام ديتے ہيں۔


http://findarticles.com/p/articles/mi_m0IBQ/is_/ai_n25353736

اگر امريکی حکومت کو اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی نيوی ميں ان "داڑھی والے مسلم کرداروں" کی موجودگی اور انکے مذہبی عقائد سے کوئ خطرہ نہيں ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ ہزاروں ميل دور کسی ملک ميں ان "کرداروں" کی مذہبی طرز زندگی امريکی حکومت کے ليے خطرہ بن جائے؟

افغانستان ميں فوجی کاروائ ان مسلم کرداروں کے خلاف نہيں کی گئ۔ يہ ان گروہوں اور تنظيموں کے خلاف کی گئ جو اپنے سياسی ايجنڈے کے ليے دانستہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر کے مذہب کی آڑ ميں اپنے جرائم کو جائز قرار ديتے ہيں۔ چند روز قبل طالبان کی جانب سے ايک بس کے دو درجن سے زائد مسافروں کا قتل اور اس کے بعد ان کی گردنيں کاٹنے کا واقعہ اس کی تازہ مثال اور ثبوت ہے۔

http://www.latimes.com/news/nationworld/world/la-fg-afghan20-2008oct20,0,7376933.story


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

خاور بلال

محفلین
آپ کے تجزيے سے يہ تاثر ملتا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد امريکہ کا صرف ايک نقاطی ايجنڈا اور پاليسی تھی جس کے تحت افغانستان پر بے دريخ بم پھينکے گئے۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی افغانستان ميں کاروائ محض دہشت گردوں کے خاتمے تک محدود نہيں ہے۔ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔

اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔

http://img502.imageshack.us/my.php?image=96154060ez8.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=59764280ff7.jpg

http://img522.imageshack.us/my.php?image=65286244iv9.jpg


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
یا الٰہی
افغانوں کو عدل و انصاف فراہم کرنے کے دعوے وہ کررہے ہیں کہ جو آئے دن کی کاروائیوں میں معصوم افغان بچوں اور خواتین کا خون کرنے سے ذرا نہیں شرماتے۔ جب بھی کوئ کاروائ ہوتی ہے تو یہ خبر آتی ہے کہ چند دہشت گرد اور کچھ عام افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تو افغانستان میں ابھی میڈیا کی رسائ بہت کم ہے ورنہ پسِ پردہ تو کیا کچھ ہوتا ہوگا جو دنیا کو نہیں معلوم۔ عراق میں تو دنیا بھر کا میڈیا موجود ہے اس کے باوجود وہاں ابو غرائب جیسے ٹارچر سیل برآمد ہوئے تو سوچیں افغانستان میں کیا حال ہوگا۔

آخر شمالی اتحاد کے زیرِ سایہ افغان معاشرہ کس طرح مضبوط بنیادوں پر قائم ہوسکتا ہے۔ اگر امریکہ کو افغان معاشرے سے اور ایک عام افغانی سے کچھ بھی ہمدردی تھی تو اس وقت قدم اٹھانا چاہیے تھا کہ جب افغانوں نے روس کو افغانستان سے بے دخل کیا تھا۔ سویت یونین امریکا کا سب سے بڑا حریف تھا اور اسے شکست دے کر افغانوں نے امریکا پر احسانِ عظیم کیا تھا۔ حکمت یار اس وقت تک امریکا کے ہیرو رہے جب تک وہ روس سے الجھے رہے لیکن سویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد انہیں جب ایک طرف شمالی اتحاد اور دوسری جانب طالبان کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے اس جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو امریکا کا یہی محسن تھا جسے دنیا کی کوئ طاقت پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھی حتیٰ کی پاکستان نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔ پاکستان نے طالبان کو پروموٹ کیاتو اس میں امریکا کی پوری مرضی شامل تھی۔ امریکی مرضی کے بغیر پاکستان کبھی طالبان کو افغانستان پر مسلط نہیں کرسکتا تھا، آخر افغانستان کا امریکا کی سلامتی سے براہِ راست تعلق رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
۔۔۔۔۔يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://usinfo.state.gov

جی آپ کو بات بالکل درست ہے، کیا ہی جامع منصوبہ ہے کہ جتنے اپاہج اس وقت افغانستان میں ہیں، دنیا کے کسی اور ملک میں نہ ہوں گے۔
 

زین

لائبریرین
اصل پيغام ارسال کردہ از: fawad -
افغانستان ميں فوجی کاروائ ان مسلم کرداروں کے خلاف نہيں کی گئ۔ يہ ان گروہوں اور تنظيموں کے خلاف کی گئ جو اپنے سياسی ايجنڈے کے ليے دانستہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر کے مذہب کی آڑ ميں اپنے جرائم کو جائز قرار ديتے ہيں۔ چند روز قبل طالبان کی جانب سے ايک بس کے دو درجن سے زائد مسافروں کا قتل اور اس کے بعد ان کی گردنيں کاٹنے کا واقعہ اس کی تازہ مثال اور ثبوت ہے۔
مذہب کی آڑ میں تو امریکہ نے جنگ شروع کر رکھی ہے ، اور اس حقیقت کے بارے میں اعداد و شمار کی جادوگری کی ضرورت نہیں۔

اور جہاں تک عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے تو امریکہ اور دیگر قابض قوتیں اس میں بھی بازی لے گئی ہیں۔

شادی کی تقریب پر بھی بمباری
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/07/080714_afghan_survivors_rr.shtml

امریکی فوج نے خود بھی شہریوں کو ہلاک کرنے کا اعتراف کیا ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/10/081009_us_concede_fz.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/10/081016_afghan_civilians.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2007/06/070622_helmand_attack_sq.shtml

http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/07/080706_aghan_nangahar.shtml

http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/07/080717_us_afghan_bombing_sz.shtml

فوجی کارروائیوں‌میں شہریوں کی ہلاکت پر اقوام متحدہ کی تشویش

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اتحادی فوج کے فضائی حملوں میں افغان شہری ہلاکتوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/09/080908_hrw_civic_kill_afghan_zs.shtml
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

مذہب کی آڑ میں تو امریکہ نے جنگ شروع کر رکھی ہے ، اور اس حقیقت کے بارے میں اعداد و شمار کی جادوگری کی ضرورت نہیں۔

ميں آپکی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ مذہب کو دہشت گردی کے ضمن ميں غلط طريقے سے استعمال کيا گيا ہے۔ ليکن ميں اس رائے سے متفق نہیں ہوں کہ صدر بش يا امريکی حکومت نے اسلام کو دہشت گردی سے تعبير کيا ہے۔ آپ شايد يہ بھول رہے ہيں کہ القائدہ نے ہميشہ يہ دعوی کيا ہے کہ وہ اسلامی تعليمات پر عمل پيرا ہيں۔

اس ضمن ميں آپ کی توجہ ايک رپورٹ کی طرف دلوانا چاہتا ہوں جو مارچ 2006 ميں ايک ريسرچ گروپ نے شا‏ئع کی تھی۔ ايسی ہی بہت سی رپورٹيں ديگر اداروں نے بھی شائع کی ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=820348&da=y

اس رپورٹ ميں دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے اپنی سوچ کی ترويج کے ليے استعمال کيے جانے والے تشہيری مواد کی تفصيلات موجود ہيں۔ اس رپورٹ کو پڑھے بغير اگر آپ اس ميں موجود تصويروں اور پوسٹرز پر سرسری نظر ڈاليں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان تنظيموں کی تمام تر اشتہاری مہم اور جدوجہد کا مرکز امريکہ سے نفرت کو فروغ دے کر مذہب کی آڑ ميں جذبات کو بھڑکانہ ہے۔

ميرا آپ سے سوال ہے کہ کوئ بھی ملک يا انتظاميہ جان بوجھ کر اپنے وسائل ايسی تنظيموں کو تيار کرنے ميں کيوں صرف کرے گی جن کے فعال ہونے کا مطلب يہ ہے کہ دنيا بھر ميں اس کے شہری اور املاک براہراست دہشت گردوں کی زد ميں آ جائيں ؟

11 ستمبر کے واقعے ميں ملوث افراد نہ صرف يہ کہ مسلمان تھے بلکہ انھوں نے اپنے جرم کو قابل قبول بنانے کے ليے مذہب کا سہارا بھی ليا تھا۔ اس کے باوجود امريکی کميونٹی کا ردعمل مسلم اقليتوں کے خلاف اتنا سنگين اور شديد نہيں تھا۔

صدر بش نے گيارہ ستمبر 2001 کے واقعات کے چند دن بعد واشنگٹن ڈی سی ميں ايک اسلامک سينٹر کا دورہ کيا تھا اور عوامی سطح پر يہ مطالبہ کيا تھا کہ امريکہ ميں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کيا جائے۔ يہ درست ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کچھ واقعات پيش آئے تھے ليکن وہ انفرادی نوعيت کے تھے، اس کے پيچھے کوئ باقاعدہ منظم تحريک نہيں تھی۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
زیڈ این ایف اور خاور بلال آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے میری عدم موجودگی میں موقف کا دفاع کیا، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی افغانستان ميں کاروائ محض دہشت گردوں کے خاتمے تک محدود نہيں ہے۔ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔


میں ابھی تک ہنسی کے دورے سے نکل نہیں پا رہا ہوں کہ فوجی کاروائی ایک جامع منصوبے کا حصہ تھی جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے۔
تو حضور ہم کو بھی کر دیجئے مضبوط بنیادوں پر استوار۔ اور بھی کئی معاشرے کمزور بنیادوں پر استوار ہیں ان پر بھی کرپا ہو۔
جنگوں سے بھی معاشرے مضبوط ہوئے ہیں؟ کسی ماہر سماجیات سے رائے لیجئے۔
امریکہ کیسے فیصلہ کرتا ہے کہ:
- کونسے معاشرے مضبوط بنیادوں پر استوار نہیں؟
- اور ان تمام معاشروں میں سے کسی ایک معاشرے کا مضبوط بنیادوں پر استواری کے لیے چناؤ کس طرح کیا جاتا ہے؟ قرعہ اندازی اکڑ بکڑ یسو پنجو وغیرہ؟
میرا خیال ہےکہ اتنا کہہ دینے کے بعد میں اپنےموقف کی تائید میں proof by contradiction کے طریق میں کامیاب رہا ہوں۔


اس ضمن ميں جو اعدادوشمار ميں نے يو-ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں ان کی روشنی ميں يہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ امريکہ افغانستان ميں صرف طاقت کے استعمال پر يقين رکھتا ہے۔ امريکہ ايسے بے شمار منصوبوں ميں افغان حکومت کی براہراست مدد کر رہا ہے جن کا مقصد افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے تاکہ افغان عوام دوبارہ اپنے پيروں پر کھڑے ہو سکيں۔
یو ایس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کی حقانیت پر میں پہلے اسی فورم پر لکھ چکا ہوں ۔ مجھے دھاگہ یاد نہیں آر ہا تاہم میں نے آپ ہی کے بیان سے ثابت کیا تھا کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا موقف خاص نکتہ نظر کا حامل ہوتا ہے۔


امريکی حکومت اس بات سے بخوبی واقف تھی کہ القائدہ کو اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے ميں کاميابی طالبان حکومت کی پشت پناہی اور سپورٹ کی بدولت ملی۔

حضور پہلے تو طالبان کی حیثیت دیکھئے وہ کیا کسی کا اثر و رسوخ بڑھائيں گے؟ جو خود مفلسی میں پڑے ہوں وہ سپورٹ بھی کریں گے؟


آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امريکہ ابھی تک اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے ميں کامياب نہيں ہو سکا ہے ليکن يہ بھی حقيقت ہے کہ القائدہ تنظيم کے کئ اہم رکن گرفتار يا ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2001 ميں امريکہ کی فوجی کاروائ سے پہلے القائدہ کاميابی کے ساتھ دنيا کے مختلف ممالک ميں دہشت گرد سيل اور گروپ تيار کر رہی تھی جس کی تمام تر ٹرينيگ افغانستان ميں کی جا رہی تھی۔ يہ تمام تربيت اور امداد طالبان حکومت کی زير نگرانی کی جا رہی تھی۔ اس وقت يہ صورت حال نہيں ہے۔ يہ درست ہے کہ ايک تنظيم کی حيثيت سے القائدہ اس وقت بھی ايک خطرہ ہے ليکن اس کی افاديت پہلے سے بہت کم ہو چکی ہے۔ اس تنظيم کی باقی ماندہ قيادت مفرور ہے اور اس کی تمام توجہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے پر صرف ہو رہی ہے۔
آپ یہ فرمائیے کہ امریکہ کی توجہ کس طرف صرف ہو رہی ہے؟


اگر امريکہ 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد بھی کوئ کاروائ نہيں کرتا تو آج القائدہ پہلے سے کہيں زيادہ موثر اور فعال تنظيم ہوتی۔ طالبان کے انکار کے بعد کيا امريکی حکومت دہشت گردی کے خطرے کو دانستہ نظرانداز کر سکتی تھی؟

القاعدہ ہے حضور کو ئی دواؤں کی ملٹی نیشنل کمپنی تو نہیں جو آج پہلے سے بھی زیادہ فعال اور موثر ہوتی۔ کوئی آپ کے گھر کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر بھاگ گیا اس کے لیے اگر گھر کے باہر باڑ کروا لی جائے وہ بہتر ہے یہ محلے میں شک کی بنیاد پر دو چار گھر چن کر انہیں آگ لگا دی جائے؟


اگر امريکی حکومت کو اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی نيوی ميں ان "داڑھی والے مسلم کرداروں" کی موجودگی اور انکے مذہبی عقائد سے کوئ خطرہ نہيں ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ ہزاروں ميل دور کسی ملک ميں ان "کرداروں" کی مذہبی طرز زندگی امريکی حکومت کے ليے خطرہ بن جائے؟
چین کے پہاڑوں میں دن رات اپنی پوجا پاٹ میں مصروف بھکشو بھلا کسی کا کیا بگاڑیں گے؟ ان کی معصومیت پر تو فدا جائیے۔ لیکن اگر یہی بھکشو اپنے حقوق یا خودمختاری کی بات کریں تو چینی حکومت کو دلائی لامہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بعینہ یہی معاملہ مسلمانوں کی بابت ہے۔ پوجا پاٹ قوالی میلاد عرس و نیاز میں مست مسلمان امریکہ کی لیے چنداں خطرہ نہیں۔ محض وہ خطرہ ہیں جو اپنے حقوق یا خود مختاری کی بات کریں ۔ اور پھر یہ بھی کہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں، محض خودمختاری اور حقوق کی بابت نظریات رکھنا ہی کافی ہے۔


افغانستان ميں فوجی کاروائ ان مسلم کرداروں کے خلاف نہيں کی گئ۔ يہ ان گروہوں اور تنظيموں کے خلاف کی گئ جو اپنے سياسی ايجنڈے کے ليے دانستہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر کے مذہب کی آڑ ميں اپنے جرائم کو جائز قرار ديتے ہيں۔ چند روز قبل طالبان کی جانب سے ايک بس کے دو درجن سے زائد مسافروں کا قتل اور اس کے بعد ان کی گردنيں کاٹنے کا واقعہ اس کی تازہ مثال اور ثبوت ہے۔

یہ بس کا واقعہ بقول آپ کے چند روز پہلے کا ہے کہ سیاسی ایجنڈے کے لیے قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ تاہم حملے سے پہلے تو یہ صورتحال نہ تھی تو پھر حملے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ میرا خیال ہےکہ قارئین تضاد محسوس کر سکتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
"میں نہ مانوں" کا کیا علاج ہو سکتا ہے فواد ؟‌؟؟
افغان معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے والی امریکی حکومت اگر اپنے پڑوس میں توجہ دے تو زیادہ مناسب ہو گا ۔۔۔
وسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ کی افغانستان ميں کاروائ محض دہشت گردوں کے خاتمے تک محدود نہيں ہے۔ يہ فوجی کاروائ ايک جامع منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت افغان معاشرے کو مضبوط بنيادوں پر استوار کرنا ہے جو برسا برس کی خانہ جنگی اور طالبان کے نظام کے زير اثر دہشت گردی کا اڈہ بن چکا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام کو ساتھ ملا کر عدل و انصاف پر مبنی ايک ايسا معاشرہ تشکيل ديا جائے جس ميں سب کو ان کے بنيادی حقوق مل سکيں۔
لوگو خبرادر ہنسنا منع ہے وگرنہ امریکی حکومت کے پاس اردو محفل کے لیے بھی عدل و انصاف پر مبنی جامع منصوبے وافر مقدار میں ہیں ۔ ۔ :laugh::laugh:


اسامہ بن لادن کو بالآخر انصاف کے کٹہرے ميں لايا جائے گا اور انھيں اپنے جرائم کی سزا ملے گی۔
اور دنیا کہ اس سب سے بڑے دہشت گرد بُش کا کیا؟ اُسے آپ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کب کٹہرے میں کھڑا کررہا ہے کہ جس کی کج فہمیوں اور بداعمالیوں سے ساری دنیا کی معاشرت اور معیشت سمیت خود امریکی معیشت کا بھی جنازہ نکلنے کو تیار ہے ۔:blush:
 

شمشاد

لائبریرین
بُری بات آبی بھائی ایسا نہیں کہتے۔

ابھی فواد صاحب آپ کو سارے حساب کتاب ہندسوں کی مدد سے ثابت کر کے بتائیں گے کہ بُش موجودہ وقت سب سے جینیئس بندہ ہے۔ اور امریکہ کی سب پالیسیاں انسانیت کی خیر خواہی کے لیے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

پاکستان نے طالبان کو پروموٹ کیاتو اس میں امریکا کی پوری مرضی شامل تھی۔ امریکی مرضی کے بغیر پاکستان کبھی طالبان کو افغانستان پر مسلط نہیں کرسکتا تھا، آخر افغانستان کا امریکا کی سلامتی سے براہِ راست تعلق رہا ہے۔


امريکہ کی جانب سے طالبان کی حمايت کے حوالے سے آپ کی رائے انٹرنيت پر امريکی مخالف جذبات کی بنياد پر ہے۔ تاريخی اور دستاويزی حقائق اس بات کی نفی کرتے ہيں۔ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت تسليم نہيں کی تھی۔ امريکہ اور طالبان حکومت کے درميان کسی بھی طرح کے سرکاری معاہدے اور معاملات طے نہيں ہوئے تھے۔ اگر امريکہ نے طالبان کی حمايت اور مدد کی تھی تو ان کی حکومت تسليم کرنے سے انکار کيوں کيا؟

اس کے مقابلے ميں پاکستان ان تين ممالک ميں شامل تھا جنھوں نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔ پاکستان کے سابق وزير داخلہ جرنل نصير بابر کا يہ بيان ميڈيا پر کافی مشہور ہوا تھا جس ميں انھوں نے طالبان کو اپنی اولاد قرار ديا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

محسن حجازی

محفلین
یہ بھی اچھا ہے۔ کرتے جائیے پیچھے سے تاریخ پر صفایا بھی پھیرتے جائیے کہ یہ تو ہوا ہی نہیں
حضور روس کو افغان وار میں پھنسانے والا کون تھا؟
افغان وار میں پیسہ لگانے والا کون تھا؟
نصاب میں جہادی تصورات اور انتہا پسندی کو فروغ کس نے دیا؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

کوئی آپ کے گھر کی کھڑکی کا شیشہ توڑ کر بھاگ گیا اس کے لیے اگر گھر کے باہر باڑ کروا لی جائے وہ بہتر ہے یہ محلے میں شک کی بنیاد پر دو چار گھر چن کر انہیں آگ لگا دی جائے؟


اگر ميں آپ کا نقطہ نظر درست سمجھا ہوں تو اس منطق کے اعتبار سے اسلام آباد ميں ميريٹ ہوٹل پر حملے کے جواب ميں صرف يہی کاروائ کرنی چاہيے کہ مستقبل ميں اس عمارت کی سيکورٹی ميں اضافہ کر ديا جائے تا کہ پھرايسا کوئ واقعہ پيش نہ آئے۔ ان تمام مجرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہيں کرنی چاہيے جو نہ صرف يہ کہ اس طرح کے مزيد حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہيں بلکہ مزيد "جہادی"بھی اپنی صفوں ميں شامل کر رہے ہيں۔

اس منطق کے اعتبار سے تو اسلام آباد ميں ايک مضبوط فصيل کی تعمير کے مبينہ منصوبے پر بھی کسی کو تنقيد نہيں کرنی چاہيے۔

يہ ايک حقيقت ہے کہ محض مضبوط ديواروں اور فصيلوں کی تعمير سے دہشت گردی کا مقابلہ نہيں کيا جا سکتا۔ 11 ستمبر 2001 کے واقعات سے قبل بھی القائدہ دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کر رہی تھی۔ اگر اس واقعے کے بعد بھی امريکہ کا ردعمل محض اپنی سرحدوں کی سيکورٹی فعال کرنے تک محدود رہتا اور ان مجرموں کے خلاف کوئ کاروائ نہ کی جاتی تو وہ دنيا بھر ميں ايسے مزيد حملوں کے منصوبے تيار کرنے اور ان پر عمل کرنے کے ليے آزادانہ کاروائياں کرتے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

چین کے پہاڑوں میں دن رات اپنی پوجا پاٹ میں مصروف بھکشو بھلا کسی کا کیا بگاڑیں گے؟ ان کی معصومیت پر تو فدا جائیے۔ لیکن اگر یہی بھکشو اپنے حقوق یا خودمختاری کی بات کریں تو چینی حکومت کو دلائی لامہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ بعینہ یہی معاملہ مسلمانوں کی بابت ہے۔ پوجا پاٹ قوالی میلاد عرس و نیاز میں مست مسلمان امریکہ کی لیے چنداں خطرہ نہیں۔ محض وہ خطرہ ہیں جو اپنے حقوق یا خود مختاری کی بات کریں ۔ اور پھر یہ بھی کہ مسلمان ہونا بھی شرط نہیں، محض خودمختاری اور حقوق کی بابت نظریات رکھنا ہی کافی ہے۔

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان افغانستان ميں برسراقتدار رہے۔ يہاں تک کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

کیا آپ يہ سمجھتے ہيں کہ طالبان کی جانب سے غير ملکی دہشت گردوں کو پناہ دينا برحق اور جائز تھا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

طالوت

محفلین
میں سمجھتا ہوں کہ ان سب باتوں کی جو بنیاد ہے وہ ہے سانحہ ٹریڈ ٹاور ۔۔۔
جس میں بے گناہ افراد کے مارے جانے کی کسی کو کوئی خوشی نہیں ہوئی حتٰی کہ ہر "بڑی دہشت گرد" تنظیم نے اس کی مذمت کی تھی ۔۔۔ خصوصا طالبان نے تو اسامہ حوالے کرنے کو مکمل ثبوتوں کے ساتھ مشروط کیا تھا ۔۔۔ لیکن صاحب کہاں کے ثبوت کیسی شہادتیں ۔۔۔ وہ سارا باب بند کر کے بس ضدی بچے کی طرح مجھے اسامہ دے دو ورنہ حملہ کر دوں گا ، حملہ کر دیا ۔۔۔ ان 3 یا 4 ہزار لوگوں کی ہلاکت کے جواب میں کتنے افغان مارے گئے کبھی آپ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے حساب لگایا ہے ؟
عراق پر امریکی حملے کی "غلطی" کو آپ دو چار "دکھی اور ندامت" بھرے لفظوں میں گول کر جاتے ہیں ۔۔ کیا 6 سے 7 لاکھ عراقیوں کے قتل کا مداوا ان چند گھٹیا اور لاحاصل جملوں سے ہو سکتا ہے ؟
کیا کیا "امریکی انصاف" نے اس سلسلے میں ؟
ابو غریب جیل کے خنزیروں کا کس نے احتساب کیا ؟
گوانتا ناموبے میں قید لوگوں کے ساتھ کونسا انصاف کیا جا رہا ؟
اظہار رائے آزادی کے چیمپینوں نے "الجزیرہ" کے صحافیوں کو ٹینک کے گولے سے اڑانے پر کونسی کڑی سزائیں دیں ؟
سوڈان کی دوا ساز فیکٹری کو میزائلوں سے اڑانے کا ہرجانہ کس نے دیا ؟
شیطان اسرائیل کی ناجائز ریاست کو عربوں کے خلاف جنگ میں کس نے اسلحہ بارود دیا ؟
امریکہ کے گناہ اتنے ہیں کہ دنیا میں معدودے چند ایک گدھوں کے ساری حکومتیں ان خلاف ، ان کی پالیسیوں سے نالاں ، امریکہ مردہ باد کے نعرے ، "تھینک گاڈ آئی ایم ناٹ امیریکن" کے بینر ، کتوں کی طرح لاشیں ان کی گھسیٹیں جاتی ہیں ، دنیا میں ہر جگہ یہ غیر محفوظ ہیں ۔۔۔۔
تو کیا یہ کہہ دینا درست ہو گا کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ انتہا پسند اور امریکی و چند ایک موجود "اقوام" ہی اعتدال پسند اور صحیح رستے پر ہیں ؟ یہ جذباتی تقریر نہیں حقائق ہیں جو نہ تو تڑوڑ مروڑ کر پیش کیئے گئے ہیں اور نہ جھوٹ بولا گیا ہے ۔۔۔
وسلام
(گدھوں والی بات حکومتوں کے ضمن میں کہی گئی ہے نہ کسی خاص فرد یا افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے)
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یو ایس ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کی حقانیت پر میں پہلے اسی فورم پر لکھ چکا ہوں ۔ مجھے دھاگہ یاد نہیں آر ہا تاہم میں نے آپ ہی کے بیان سے ثابت کیا تھا کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا موقف خاص نکتہ نظر کا حامل ہوتا ہے۔


افغانستان ميں 90 کی دہائ کے دوران امريکی پاليسی کے حوالے سے ميری يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ان امريکی اہلکاروں سے بڑی تفصيلی گفتگو ہوئ ہے جو 1995 ميں طالبان کے برسراقتدار آنے سے قبل کے حالات و واقعات اور اس ضمن ميں امريکی پاليسی سے براہراست منسلک تھے۔ اس کے علاوہ ميں نے ايسی سينکڑوں رپورٹوں اور دستاويزات کا بھی تفصيلی مطالعہ کيا ہے جو اس زمانے ميں امريکی اور پاکستانی حکومتی اہلکاروں کے درميان معلومات کے تبادلے پر مبنی ہيں۔ ان دستاويزات سے حاصل شدہ معلومات سے امريکی اہلکاروں کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ميں نے ان ميں سے کچھ دستاويزات کے لنکس اسی فورم پر کچھ سوالات کے جوابات کے ضمن ميں پوسٹ بھی کيے ہيں۔

موضوع کی مناسبت سے ميں دوبارہ وہ لنکس يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔ ان دستاويزات پر درج تاریخيں توجہ طلب ہيں۔ يہ رپورٹیں 11 ستمبر 2001 کے واقعات سے پہلے کی ہيں۔ ان دستاويزات سے يہ بات ثابت ہے کہ 90 کی دہائ کے دوران امريکی حکومت نےکئ بار حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کی ديگر تمام سياسی قوتوں کو پس پشت ڈال کر صرف طالبان کی حمايت اور مدد پر شديد تحفظات کا اظہار کيا ۔ کم ازکم 30 مختلف موقعوں پر پاکستانی حکومت اور فوج کے اعلی حکام کو خطے ميں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ضمن ميں ممکنہ خطرات سے آگاہ کيا گيا۔

ايک دستاويز ميں طالبان کے برسراقتدار آنے کی صورت ميں دہشت گردی کے فروغ کے بارے ميں امريکی خدشات کے جواب ميں ايک پاکستانی اہلکار کا جواب خاصا توجہ طلب ہے

"وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طالبان اعتدال پسندی کی راہ اختيار کر ليں گے اور جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو يہ آج کا اہم مسلہ نہيں ہے اس مسلئے سے مستقبل ميں نبرد آزما ہوں ليں گے"۔

آپ يو – ايس –اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے ميری وابستگی کی بنياد پر ميری رائے کو جانب داری کے زمرے ميں ڈال سکتے ہيں۔ ليکن حقائق ان دستاويزات کی صورت ميں آپ کے سامنے ہيں۔

نومبر7 1996 کی اس دستاويز ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کی براہراست فوجی امداد پر تشويش کا اظہار کيا گيا ہے۔ اس دستاويز ميں ان خبروں کی تصديق کی گئ ہے کہ آئ – ايس – آئ افغانستان ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس ميں آئ – ايس – آئ کے مختلف اہلکاروں کا افغانستان ميں دائرہ کار کا بھی ذکر موجود ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689832&da=y


ستمبر26 2000 کو يو – ايس – اسٹیٹ ڈيپارٹمنٹ کی اس رپورٹ ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کو فوجی کاروائيوں کے ليے پاکستانی حدود کے اندر اجازت دينے پر شديد خدشات کا اظہار ان الفاظ ميں کيا گيا ہے
"يوں تو پاکستان کی جانب سے طالبان کی امداد کاقی عرصے سے جاری ہے ليکن اس حمايت ميں موجودہ توسيع کی ماضی ميں مثال نہيں ملتی"۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنی کاروائيوں کے ليے پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر سہوليات مہيا کرنے کے علاوہ پاکستانی شہری بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان کی پختون فرنٹير کور افغانستان ميں طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ ميں ملوث ہے۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689833&da=y

اگست 1996 ميں سی – آئ – اے کی اس دستاويز کے مطابق حرکت الانصار نامی انتہا پسند تنظيم جسے حکومت پاکستان کی حمايت حاصل رہی ہے، کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا گيا ہے۔ حرکت الانصار کی جانب سے غير ملکی شہريوں پر حملے اور عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اپنے دائرہ کار کو وسيع کرنے کی غرض سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط مستقبل ميں اس جماعت کی جانب سے امريکہ کے خلاف دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستانی اينٹيلی جينس انتہا پسند تنظيم حرکت الانصار کو مالی امداد مہيا کرتی ہے مگر اس کے باوجود يہ تنظيم اسامہ بن لادن سے تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے جو کہ مستقبل ميں نہ صرف اسلام آباد بلکہ امريکہ کے ليے دہشت گردی کے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اس تنظيم کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ہوائ جہازوں کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہيں۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689834&da=y

فروری6 1997 کی اس دستاویز ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ايک حکومتی اہلکار کو يہ باور کرايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں اسامہ بن لادن، طالبان اور حرکت الانصار کے درميان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شديد تشويش ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے حرکت الانصار کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستانی حکومتی اہلکار کا يہ دعوی تھا کہ اس تنظيم کی کاروائيوں پر مکمل کنٹرول ہے اور اس حوالے سے مستقبل ميں پکستان کو کوئ خطرات درپيش نہیں ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689835&da=y

جنوری 16 1997 کی اس دستاويز کے مطابق طالبان کی انتہا پسند سوچ کا پاکستان کے قبائلی علاقے ميں براہراست اثرات کے خطرے کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف يہ تھا کہ "يہ مسلہ فوری ترجيحات ميں شامل نہيں ہے"۔ کابل ميں طالبان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689836&da=y

اکتوبر 22 1996 کی اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس –آئ کے طالبان کے ساتھ روابط کا دائرہ کار اس سے کہيں زيادہ وسيع ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان امريکی سفارت کاروں سے کرتی رہی ہے۔ آئ – ايس – آئ ايک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذريعے طالبان کو امداد مہيا کرتی رہی ہے۔ اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس – آئ طالبان کو اسلحہ مہيا کرنے ميں براہراست ملوث ہے اور اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار دانستہ يا کم علمی کی وجہ سے غلط بيانی سے کام ليتے رہے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689837&da=y

امريکی انٹيلی جينس کی اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کی فوجی امداد ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی اس تشويش کا بھی ذکر ہے کہ پاکستان ميں پختون آبادی کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے حکوت پاکستان طالبان کو اپنی پاليسيوں ميں اعتدال پيدا کرنے کے ليے اپنا رول ادا کرے گی۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689838&da=y

اگست 27 1997 کی اس دستاويز کے مطابق افغانستان کے مسلئے کے حوالے سے پاکستان کا کردار محض مصالحتی نہيں ہے بلکہ پاکستان براہراست فريق ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689839&da=y

دسمبر 22 1995 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے تہران اور تاشقند کو اس يقين دہانی کے باوجود کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے، امريکی حکومتی حلقے اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ اس دستاويز ميں امريکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کی طالبان کی پشت پناہی کی پاليسی کو افغانستان ميں قيام امن کے ليے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ ميں رکاوٹ قرار ديا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689840&da=y

اکتوبر 18 1996 کو کينيڈين اينٹيلی ايجنسی کی اس دستاويز کے مطابق کابل ميں طالبان کی توقع سے بڑھ کر کاميابی خود حکومت پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بن رہی ہے اور طالبان پر حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ کم ہونے کی صورت ميں خود پاکستان کے ليے نئے چيليجنز پيدا ہو جائيں گے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689841&da=y

مارچ 9 1998 کی اس دستاويز ميں اسلام آباد ميں امريکی ڈپٹی چيف آف مشن ايلن ايستھم اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے ايک اہلکار افتخار مرشد کی ملاقات کا ذکر ہے جس ميں امريکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن سے منسوب حاليہ فتوے اور پاکستان ميں حرکت الانصار کے ليڈر فضل الرحمن خليل کی جانب سے اس فتوے کی تحريری حمايت کے حوالے سے امريکی حکومت کے خدشات کا اعادہ کيا گيا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689842&da=y

ستمبر 28 1998 اور 25 مارچ 1999 کی ان دو دستاويزات ميں امريکی حکومت نے ان خدشات کا اظہار کيا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کے باوجود اسامہ بن لادن کی بازيابی ميں اپنا کردار ادا نہيں کر رہا۔


http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689843&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689844&da=y

دسمبر 5 1994 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی افغانستان کی سياست ميں براہراست مداخلت اور طالبان پر آئ – ايس – آئ کے اثرورسوخ کے سبب طالبان قندھار اور قلات پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہوئے۔ پاکستان کی اس غير معمولی مداخلت کے سبب اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی محمود ميسٹری کی افغانستان مين قيام امن کی کوششوں ميں شديد مشکلات حائل ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689845&da=y

جنوری 29 1995 کی اس دستاويز میں حکومت پاکستان کے اہلکاروں کی جرنل دوسطم سے ملاقات کا ذکر ہے جس ميں انھيں يہ باور کروايا گيا کہ طالبان ان کے خلاف کاروائ نہيں کريں گے ليکن اس يقين دہانی کے باوجود مئ 1997 ميں مزار شريف پر قبضہ کر کے انھيں جلاوطن ہونے پر مجبور کر ديا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689846&da=y

اکتوبر 18 1995 کی اس دستاويز ميں افغانستان ميں پاکستانی سفير قاضی ہمايوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689847&da=y

ستمبر 30 1996 کو کابل ميں طالبان کے قبضے کے چار دن بعد سی – آئ – اے کی جانب سے اس دستاويز ميں طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی کے حوالے سے غير متوازن پاليسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689848&da=y

اکتوبر 2 1996 کی اس دستاويز ميں آئ – ايس – آئ کی جانب سے 30 سے 35 ٹرک اور 15 سے 20 تيل کے ٹينکر افغانستان منتقل کرنے کا حوالہ ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689849&da=y

نومبر 12 1996 کی اس دستاویز ميں طالبان کے ترجمان ملا غوث کے توسط سے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان ميں موجود نہيں ہيں۔ اس دستاويز ميں اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں لانے اور طالبان سے متعارف کروانے ميں پاکستان کے براہراست کردار کا بھی ذکر ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689850&da=y

مارچ 10 1997 کی اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے حوالے سے پاليسی ميں تبديلی کا عنديہ ديا گيا ہے ليکن آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی بھرپور حمايت کا اعادہ کيا گيا ہے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689851&da=y

جولائ 1 1998 کی اس دستاويز ميں پاکستان کے ايٹمی دھماکے کے بعد نئ سياسی فضا کے پس منظر ميں پاکستان کی جانب سے پہلی بار کھلم کھلا طالبان کی پشت پناہی کا اعادہ کيا گيا۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689853&da=y

اگست 6 1998 کی اس دستاويز ميں ايک رپورٹ کے حوالے سے يہ باور کرايا گيا کہ طالبان کی صفوں ميں 20 سے 40 فيصد فوجی پاکستانی ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=689854&da=y

پاکستان کی جانب سے طالبان کی پشت پناہی، اور اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں القائدہ کی تنظيم نو اور 11 ستمبر 2001 کے حادثے سميت دنيا بھر ميں دہشت گردی کے واقعات کی اس تاريخ کے پس منظر ميں کيا يہ دعوی کرنا حقيقت کے منافی نہيں کہ ہم امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں اور"طالبان کا مسلہ" ہم پر مسلط کيا جا رہا ہے؟

طالبان اور پاکستان کی يہی وہ تاريخ ہے جس کے نتيجے ميں امريکی حکومتی حلقوں ميں پاکستان کے سرحدی علاقوں ميں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر شديد تشويش پائ جاتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
کوئی ایسی دستاویزات پیش کیجیے جنہیں دیکھنا ممکن بھی ہو
کلک کرنے پر ایرر آتا ہے "فائلیں خراب ہیں جو درست نہیں ہوسکتیں"
 

محسن حجازی

محفلین
جواد آپ نے دستاویزات ڈھونڈ لانے میں جتنی محنت صرف کی ہے وہ یقینا قابل تحسین ہے۔
ان میں سے کچھ دستاویزات دیکھ بھی چکا ہوں جن میں آئی ایس آئی کا ذکر ہے۔
تاہم:
I'd say you're still on wrong foot

یہ سب ہوتے ہوئے بھی امریکہ کسی بھی خطے پر حملہ آور ہونے کا حق نہیں رکھتا۔
اقوام متحدہ نامی تنظیم کس کام کے لیے ہے؟ عالمی عدالت کا کیا کردار ہے؟ کیا امریکہ ان کے پاس گيا؟
 
طالبان کے بارے میں میرا اپنا نکتہ نظر یہی ہے کہ ان کے قیام و ارتقاء میں امریکا کا کوئی رول نہیں تھا تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ روس کی آمد سے لے کر طالبان کی آمد تک امریکا افغانستان میں بری طرح ملوث رہا ہے اور اس کا واحد سبب روس دشمنی تھی لیکن خیر یہ باتیں تو اب کافی پرانی ہو چکی ہیں ، شکست روس قصہ پارینہ بن گی اور اب باری ہے شکست امریکا کی جو ہر دن گزرنے کو ساتھ قریب سے قریب تر آرہی ہے۔
فواد ایک گلہ جو میں نے آپسے پہلے کیا تھا وہ تھا کہ آپ بہت سارے سوالات اور باتیں ادھوری چھوڑ دیتے ہیں اور عموما اس قسم کے سوالات بدترین امریکی جارحیت سے متعلق ہوا کرتے ہیں ان کی ایک مثال اوپر دی گئی طالوت کی یہ پوسٹ بھی ہے
میں سمجھتا ہوں کہ ان سب باتوں کی جو بنیاد ہے وہ ہے سانحہ ٹریڈ ٹاور ۔۔۔
جس میں بے گناہ افراد کے مارے جانے کی کسی کو کوئی خوشی نہیں ہوئی حتٰی کہ ہر "بڑی دہشت گرد" تنظیم نے اس کی مذمت کی تھی ۔۔۔ خصوصا طالبان نے تو اسامہ حوالے کرنے کو مکمل ثبوتوں کے ساتھ مشروط کیا تھا ۔۔۔ لیکن صاحب کہاں کے ثبوت کیسی شہادتیں ۔۔۔ وہ سارا باب بند کر کے بس ضدی بچے کی طرح مجھے اسامہ دے دو ورنہ حملہ کر دوں گا ، حملہ کر دیا ۔۔۔ ان 3 یا 4 ہزار لوگوں کی ہلاکت کے جواب میں کتنے افغان مارے گئے کبھی آپ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے حساب لگایا ہے ؟
عراق پر امریکی حملے کی "غلطی" کو آپ دو چار "دکھی اور ندامت" بھرے لفظوں میں گول کر جاتے ہیں ۔۔ کیا 6 سے 7 لاکھ عراقیوں کے قتل کا مداوا ان چند گھٹیا اور لاحاصل جملوں سے ہو سکتا ہے ؟
کیا کیا "امریکی انصاف" نے اس سلسلے میں ؟
ابو غریب جیل کے خنزیروں کا کس نے احتساب کیا ؟
گوانتا ناموبے میں قید لوگوں کے ساتھ کونسا انصاف کیا جا رہا ؟
اظہار رائے آزادی کے چیمپینوں نے "الجزیرہ" کے صحافیوں کو ٹینک کے گولے سے اڑانے پر کونسی کڑی سزائیں دیں ؟
سوڈان کی دوا ساز فیکٹری کو میزائلوں سے اڑانے کا ہرجانہ کس نے دیا ؟
شیطان اسرائیل کی ناجائز ریاست کو عربوں کے خلاف جنگ میں کس نے اسلحہ بارود دیا ؟
امریکہ کے گناہ اتنے ہیں کہ دنیا میں معدودے چند ایک گدھوں کے ساری حکومتیں ان خلاف ، ان کی پالیسیوں سے نالاں ، امریکہ مردہ باد کے نعرے ، "تھینک گاڈ آئی ایم ناٹ امیریکن" کے بینر ، کتوں کی طرح لاشیں ان کی گھسیٹیں جاتی ہیں ، دنیا میں ہر جگہ یہ غیر محفوظ ہیں ۔۔۔۔
تو کیا یہ کہہ دینا درست ہو گا کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ انتہا پسند اور امریکی و چند ایک موجود "اقوام" ہی اعتدال پسند اور صحیح رستے پر ہیں ؟ یہ جذباتی تقریر نہیں حقائق ہیں جو نہ تو تڑوڑ مروڑ کر پیش کیئے گئے ہیں اور نہ جھوٹ بولا گیا ہے ۔۔۔
وسلام
(گدھوں والی بات حکومتوں کے ضمن میں کہی گئی ہے نہ کسی خاص فرد یا افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے)

اب صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف اسامہ بن لادن ہے اور دوسری طرف امریکی صدر جارج والکر بش
ایک کے اوپر ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے پانچ ہزار افراد کے قتل کا الزام ہے جو ابھی پایہ ثبوت تک نہیں پہنچا (اور طالبان کے دور تک تو باکل نہیں پہنچا تھا(
دوسرا لاکھوں انسانوں کے قتل کا مجرم ہے اور یہ بات بالکل طے ہے۔

ایک اگر شدت پسند مسلمان ہے تو دوسرا جنونی عیسائی (اس موضوع پر جلد ہی میں ایک پوسٹ یہاں کروں گا(

ایک اگر مسلم خلافت کے خواب دیکھ رہا ہے تو دوسرا عیسائی مملکت کے

اگر اسامہ دنیا کی رائے کا احترام نہیں کرتا تو بش بھی تو ایشیا اور یورپ کے لاکھوں کے جلوس لاکھوں مخالفین کو نظر انداز کر کے ، اقوام متحدہ کو نظر انداز کر کے عراق پر حملہ کر دیتا ہے

تاہم ان میں بڑا مجرم کون ہے یہ فیصلہ فواد آپ کریں‌ اور وجوہات بیان کریں

نیز اگر القاعدہ شدت مسلم تنظیم ہے تو

وہ امریکی فوج کیا ہے جو ابو غریب جیل میں قیدیوں کو ننگا کر دیتی ہے اور گوانتانامو میں قرآن کی توہین کرتی ہے

جو عراق ، افغانستان کے بعد پاکستانی قبائلی علاقوں میں معصوم لوگوں کے قتل عام میں ملوث ہے

جو مدرسے کے طالب علموں اور رہائشی عام شہریوں کو ان کے گھروں میں اتر کر قتل کر دیتی ہے

جو عافیہ جیسی نا جانے کتنی مسلم خواتین کی عزتیں تار تار کر چکی ہے

یہ باتیں صرف اسی فورم پر نہ جانے کتنی بار اور کتنے انداز سے کہی جا چکی ہیں لیکن آفرین ہے فواد صد آفرین ہے آپ کی "ہمت" پر ایک آپ ان سب باتوں کو نظر انداز کر کہ ایک بار پھر میدان میں اپنے اعداد و شمار کے ساتھ میدان میں اتر جاتے ہیں لیکن اب آپ ان سب باتوں کا جواب دیں پھر آُپ سے دوسری بات کی جائے گی۔
 
Top