المدینۃُ المنوّرہ۔
ہمارے بزرگ جب مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کا ذکر کرتے یا اپنی کتابوں میں لکھتے تو ساتھ زادھااللہ شرفاً و تعظیماً کے الفاظ کا اضافہ فرماتے کہ اللہ ان شہروں کی بزرگی اور عظمت میں مزید اضافہ فرمائے۔ اگر یہ الفاظ ہمیں کچھ بڑے لگتے ہوں تو ہم کم از کم مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ تو کہہ ہی سکتے ہیں۔ کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔۔۔
مدینہ منورہ ، وہ شہر کہ مجھ جیسا شخص اس شہر مبارک کے بارے میں کیا لکھ سکتا ہے کہ جس کی بزرگی اور فضیلت میں حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔۔۔
وہ کوچئہ جاناں کہ جس کی محبت اور برکت میں اضافے کی دعائیں خود اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مانگی ہیں۔۔۔
وہ کوئے یاراں کہ جس کی عظمت اور فضیلت کے بیان میں علماء اسلام نے باقاعدہ کتابیں لکھیں اور دفتر کے دفتر بھر دیے۔۔۔
وہ شہر دلبراں کہ جہاں ائمہ اسلام پاؤں میں جوتے پہن کر چلنا بے ادبی خیال کرتے ہیں۔۔۔
وہ شہر خوباں کہ جس میں مرنے کی دعائیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مانگا کرتے تھے۔۔۔
وہ دیار محبوباں کہ جہاں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے کی سواری کواپنے لئے خلاف ادب سمجھتے ہیں اور اپنی سواریاں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہہ کر بھجوا دیتے ہیں کہ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ میں اس زمین کو اپنی سواری کے پاؤں سے روندوں جہاں خاتم الرسل صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما ہیں۔۔۔
وہ قریہ عاشقاں کہ جہاں ستر ہزار فرشتے صبح وشام بارگاہ اقدس میں سلام عرض کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔۔۔
وہ ارض اماں کہ جس کے راستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں۔ اور دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔۔۔
وہ پناہ گاہ عاصیاں کہ جس میں مرنے والے کے لئے شفاعت کا سرٹیفکیٹ مل چکا ہے۔۔۔
وہ حرم حبیب کہ جس کے درختوں کو کاٹنا اور جانوروں کو ستانا حرام فرما دیا گیا ہے۔۔۔
وہ قطعئہ جنت کہ جو باجماع امت عرش بریں سے بھی افضل ہے۔ کہ زمین کا وہ ٹکڑا جس پر آقا علیہ الصلاہ والسلام تشریف فرما ہیں، عرش عظیم سے بھی افضل ہے۔
حیراں ہوں کوئے یار میں کیا کیا لکھوں تجھے۔۔۔
اس لئے لکھنے کو چھوڑ کر دیکھنے کو چلتے ہیں۔۔۔