ساجد بھائی! حقیقتاً رُلا دیا شفیع کی داستان نے۔۔۔
ساجد بھائی! حقیقتاً رُلا دیا شفیع کی داستان نے۔۔۔
اور تقسیم کے بعد اب تک بھی۔تقسیم کے وقت اس ملک میں نجانے کتنے ہی شفیع اپنے عزیزوں کو قربان کرکے آئے مگر ہم نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ایک ایسی تلخ اور تکلیف دہ داستان ہے کہ اس کا تصور کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ساجد بھائی، ہم اس روز انارکلی میں جن بزرگ سے ملے تھے وہ بھی اپنی طرز کے شفیع ہی ہیں۔
کمالیہ آ کر اس کے اکلوتے بیتے کو پیٹ پالنا مشکل ہو گیا۔ پاکستان بنتے ہی کرپشن اور افراتفری کا وہ دور شروع ہو گیا کہ جس کا ہاتھ پڑتا تھا کلیم اسی کو ملتا تھا بھلے وہ حق دار تھا یا نہین ۔ لیکن شفیع تو پاگل ہو چکا تھا۔ اس کا بیٹے کی عمر بہت کم تھی۔۔۔ محض 14 برس۔ وہ ایک گھر میں براجمان ہوتے تو چند روز بعد انہیں کہا جاتا کہ یہ گھر خالی کرو فلاں کو یہ کلیم میں ملا ہے۔ تم اپنے کاغذات جمع کرواؤ۔ رشتے داروں نے بھی شفیع کی اس سلسلے میں کچھ مدد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی حکومتی اہلکار کو دیکھتے ہی گالیاں دینے لگ جاتا۔یوں دھیرے دھیرے شفیع مکمل پاگل ہو گیا اور من چلوں نے اس کی ہذیانی کیفیت پر ہمدردی کرنے کی بجائے اسے شفیع کانا کہہ کر چھیڑنا شروع کر دیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ شفیع پاگل نہیں تھا ۔ہمارے روئیے نے سے پاگل بنا دیا۔ وہ جس سرزمین کی خاطر اتنا پرجوش تھا اسے اس نے اپنے خاندان کے لہو سے سیراب کر کے بھی ہمت سے کام لیا لیکن اپنے خوابوں کے جزیرے میں پہنچتے ہی وہ اپنے ساتھ رکھے جا نے والے ناراوا سلوک کو برداشت نہ کر سکا۔اکلوتا نفیس جب بے بس بوڑھے باپ کی آنکھوں کے سامنے در بدر ہوا اور آخر کار غائب ہو گیا یا کر دیا گیا وہ اس "پاگل" کو کیوں کر برداشت ہو سکتا تھا۔ جس قوم کو وہ اپنی سمجھ کر یہاں آیا اسی نے اسے شفیع کانا کا نام دے کر ذلیل کیا ، سرچھپانے کا سہارا بار بار چھینا تو پاگل پن کے لئے یہ کافی نہیں ہے؟۔
یہی مسالک کے بت ہیں جو ہم نے اپنی آستینوں میں چھپائے ہوئے یں اور ہم ان ہی کی صبح شام پوجا کرتے ہیں اسلام سے دور ، پیارے اور عظیم ترین ہستی کو اپنا آقا کہتے ہیں مگر احکام مسالک کے پیشوا کے مانتے ہیں ۔ اللہ ہمیں راہ ہدائت عطا فرمائے (آمین)ان کلیموں نے بہت خاندان تباہ و برباد کیئے ۔ اہل دربدر پھرتے خوار ہوئے '
بابا شفیع کی داستان بھی ایسی ہی ہے ۔
سن 1970 تک ہجرت کی داستانیں پاکستان سنوارنے کا جذبہ ابھارتی تھیں۔
اور پھرستر کے بعد جب پاکستان بالغ کہلانے کے قابل ہوا تو مسالک کا عفریت جانے کہاں سے ابھرا
اور ہجرت کی داستانوں کی جگہ مسالک کی ابحاث کی آندھی کچھ ایسی چلی کہ
ہم ملک سنوارنے کی جگہ اپنے اپنے مسالک سنوارنے میں الجھ گئے ۔
میرے محترم سید بھائی ۔یہی مسالک کے بت ہیں جو ہم نے اپنی آستینوں میں چھپائے ہوئے یں اور ہم ان ہی کی صبح شام پوجا کرتے ہیں اسلام سے دور ، پیارے اور عظیم ترین ہستی کو اپنا آقا کہتے ہیں مگر احکام مسالک کے پیشوا کے مانتے ہیں ۔ اللہ ہمیں راہ ہدائت عطا فرمائے (آمین)
اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہےمیرے محترم سید بھائی ۔
آمین ثم آمین
یہ مسالک کے بت ہمیں اسی طرح گمراہ کرتے ہیں جیسے کہ اس بت نے آپ کی آستین سے نکل آپ کی انگلیوں کو کی بورڈ پر حرکت دے ۔ مسالک کے پیشوا کو نشان زد کیا ۔ کوئی مسلک نفرت پھیلانے نہیں سکھاتا یہ ہم ان مسلکوں کے ماننے والے ان مسلکوں کو اپنے اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔ ہر مسلک اولاد آدم کو سچا انسان بننا سکھاتا ہے ۔