شہزادوں جیسی آن بان والا کیپٹن وطن پر قربان ہوگیا

زنیرہ عقیل

محفلین
شہید فوجی کی ماں کے قلم سے نکلنے والی خاص تحریر
’’ شہزادوں جیسی آن بان والا کیپٹن وطن پر قربان ہوگیا‘‘ شہید فوجی کی ماں کے قلم سے نکلنے والی وہ خاص تحریرجسے حساس دل لوگ نہیں پڑھ سکیں گے

25ba0c388e1e4e7f869befa35309e39a.large.png


ستمبر2014کیا شروع ہوا کہ نئے سرے سے یادوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ویسے یہ مہینہ سب پاکستانی کیسے بھول سکتے ہیں؟ اسی ماہ میں ڈیفنس ڈے منایا جاتا ہے۔ میرے پیارے بیٹے کا جوش و خروش بھی ستمبر میں بڑھ جاتا تھا جس کا وہ اظہار بھی کیا کرتا تھا۔ اسی طرح اس نے ستمبر2012 میں ہی فیس بک پر پروفائل فوٹو تبدیل کی اور ایک شہید کا جنازہ تھا ،والی وہ یادگار فوٹو لگائی۔ شرجیل شہید کے ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ جب تم شہید ہوگے تو یہ شہید کے جنازے والی فوٹو کام آئے گی اور پھر ایسے ہی ہوا’’ میرا لختِ جگر‘ شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والا 20 ستمبر2012 کو بروزِ جمعرات شہید ہوگیا اور بڑی شان سے جمعۃ المبارک کو آرمی قبرستان میں نمازِ جنازہ کے بعد ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں سے تو اوجھل ہوگیا مگر دلوں میں اسی طرح آباد ہے جیسے ایک شہید کو ہونا چاہئے ، میرا بیٹا جمعہ کے دن ہی پیدا ہوا اور جمعہ کے دن ہی اس دنیا سے چلا گیا۔
news-1502044807-1771.jpg

میری تو لفاظی ختم ہوگئی ہے ، میں اپنے لخت جگر کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شنواری کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں مگر الفاظ کھو جاتے اور گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، لوگ کہتے تھے کہ وقت کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، وقت مرہم لگا دیتا ہے مگر مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ زخم پہلے دن سے بھی تازہ ہیں، شہادت کا فخر اپنی جگہ مگر جدائی کا زخم سہنا بہت مشکل ہوتا ہے ، یہ بات صرف شہداء کی فیملیز ہی جانتی ہوں گی۔ ہم سب کا دکھ درد ایک جیسا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہمارے تمام شہداء پر اور اللہ میرے ملک کی حفاظت فرمائے اور شہداء کا خون رائیگاں نہ جائے۔ شہداء کے جنازے بہت بڑے بڑے اور پورے اعزاز کے ساتھ ہوتے ہیں، میرے پیارے بیٹے کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شنواری
کے جنازے میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی ، میں نے پہلی دفعہ اتنا بڑا جنازہ دیکھا تھا، اب نہ کوئی خوشی، خوشی لگتی ہے اور نہ ہی غم، غم لگتا ہے۔
میں زندگی کا ایک دن کم ہونے پر روز سوچتی ہوں کہ ایک دن اور کم ہوگیا، اب اپنے بیٹے سے ملنے کے نزدیک ہو رہی ہوں۔ شرجیل سے آخری دفعہ بات بدھ کے دن ہوئی، ویسے تقریباً3 منٹ کی کال ہوتی تھی، اس دن کوئی15 یا16 منٹ بات ہوئی، آپریٹر بار بار فون چیک کرتا پھر کچھ کہے بغیر فون رکھ دیتا۔ آخری باتیں بھی میرے بیٹے کی اپنی چھوٹی بہن کو نصیحت ہی تھی۔ عمارہ تمہارا فائنل ائیر ہے خوب پڑھنا ، نانو(نانی اماں) کا بی پی کا چارٹ بنانا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے کسی نے بتایا کہ شرجیل کہتا تھا کہ میرے نام کے ساتھ تین ’’ ایس ‘‘ ہیں ایک ’’ایس ‘‘ اور آئے گا ، یعنی شرجیل شاہد شنواری(شہید) میرا بیٹا میرے لئے بڑی ہی خوبصوت یادیں چھوڑگیا ، اپنی بہت خوبصورت نشانیاں چھوڑ کر گیا ہے۔
news-1502044789-8111.jpg

میرے ڈرائنگ روم کے ایک کارنر میں میرے بیٹے کی سکول کی شیلڈز پڑی ہیں ، فرسٹ پرائزکپ پڑے ہیں۔ میرا بیٹااپنے ہاتھوں سے خوبصورت خطاطی کرتا تھا ، ایک خطاطی ’’یارحیم‘‘ کی ہے جو اْس نے بلیک اینڈ وائٹ کی ہے جس پراْس کو پہلا انعام دیا گیا ، میرے بیٹے کی خطاطی آج بھی آرمی میڈیکل کے ایک ہال میں دیوار پر آویزاں ہے ، اْس کے علاوہ پہلا کلمہ‘ بسم الرحمن الرحیم اور اسماء الحسنٰی کی خوبصورت خطاطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام لکھتے وقت اس نے کہا ’’ ممی آپ ویسٹریج سے مجھے خوبصورت چوڑیاں لادیں‘‘ پھر میرے سامنے ایک ایک نام کو اس ایک چوڑی میں فکس کیا۔ شاہد صاحب (میجرریٹائرڈ شاہد شنواری والد کیپٹن شرجیل شہید)نے فریم کروائے ، یہ میرے ڈرائنگ روم کی دیواروں پر چاروں طرف خوبصورتی سے سجی ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو ان پر بھی اجرعطا فرمائے (آمین) اور اس کے لئے صدقہ جاریہ بنے۔ یہ تمام خطاطی وہ اپنے کالج کی ایک نمائش میں رکھنے کے لئے بناتا تھا ، ویسے میری بیٹی شمیلہ بھی خطاطی کرتی ہے مگر پہلا انعام شرجیل کو ہی ملا۔شرجیل ایک نرم دل اورحساس طبیعت کا مالک تھا۔ رمضان کے پہلے عشرے میں‘ میں‘شاہد اور میری بیٹی شمیلہ‘ شرجیل کو‘ کوہاٹ چھوڑ کر اللہ کے حوالے کرکے آئے۔کچھ دنوں کے بعد کانوائے جب وزیرستان کے لئے روانہ ہوا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے کچھ لوگوں(جوانوں) کی طبیعت خراب ہوئی ، خاص کر جن کا روزہ تھا ، شرجیل نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ بیٹا جوانوں سے کہو کہ تم حالتِ سفر میں ہو اور دوسرا جہاد پر جارہے ہو‘ اگر کوئی روزہ چھوٹ گیا تو بعد میں قضا کر لینا۔ رمضان میں ہی لیفٹیننٹ عثمان وانا میں زخمی ہوا تو جب ہیلی کاپٹر پر پشاور سی ایم ایچ لارہے تھے تو شمیلہ کو کہا کہ ممی سے کہنا دعا کریں ، میں نے کہا کہ دْعا میں ضرور کروں گی مگر مجھے نہ بتانا کہ کیا ہوا ؟ عثمان تو ماشائاللہ ٹھیک ہوگیا ،اس کے لئے دعا کروانے والا شہید ہوگیا ، اس دن ہی شرجیل واپس وانا گیا تو روزہ ہیلی کاپٹر میں ہی افطار کیا ، کہنے لگا کہ بڑا ہی مزہ آیا۔
news-1502044738-2208.jpg

اسی طرح ایک کیپٹن (شرجیل کا فیس بک فرینڈ تھا) وہ شہید ہوا تو مجھے لیپ ٹاپ میں اسکی تصویر دکھائی‘ کہنے لگا یہ شہید ہوگیا ہے ، میں نے کہا بچے میں ایک کمزوراور نرم دل کی مالک عورت ہوں ، مجھے نہ دکھایا کرو‘ پھر کوئی بات ہوتی تو شمیلہ کو بتاتا کہ ممی کو نہیں بتانا۔ شاید وہ یہ باتیں کرکے ، یہ تصویریں دکھا کر ماں کا دل مضبوط کرنا چاہتا تھا یا اْن کے لئے دْعا کروانا چاہتا تھا اور مجھے بھی میرے اللہ نے دعاؤں پر لگادیا۔ یہ سب کچھ میرے ربّ کی طرف سے تھا۔ مجھے نارمل سی کوکنگ آتی تھی مگر میرا بیٹا اچھے کھانے کھانے کا بہت شوقین تھا ، میں کھانا بناتی تو کہتا کہ میری ممی جیسی کوکنگ کسی کی نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے میرے پاس صرف ایک ہفتہ رہا ہے
(ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک) ۔
پہلی دفعہ بھی پشاور سی ایم ایچ میں جب میری گود میں آیا تو سویا ہوا تھا اور آخری دفعہ بھی پشاور سی ایم ایچ سے آیا تو چہرے پر مسکراہٹ سجائے سو رہا تھا ، اللہ تعالیٰ میری ملاقات روزِ قیامت میرے بیٹے سے کروائے۔ (آمین) شرجیل کو ہم نے پاسنگ آؤٹ پر گاڑی گفٹ کی تھی ، ایک دن میں نے کہا کہ مجھے بھی ایک چھوٹی گاڑی چاہئے درس وغیرہ پر جانے کے لئے تو کہنے لگا ’’ممی میں اپنی گاڑی چھوڑ کر جارہا ہوں‘‘ میں اب اْسی گاڑی پر ہی درس کے لئے جاتی ہوں تاکہ میرے بیٹے کے درجات بلند ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
اس طرح کے مضامین شہید کردار کے گرد پلاٹ بنا کر پروپیگنڈے کے لیے بھی استعمال کیا جاتاہے۔ حقائق اب سامنے آرہے ہیں۔ اِن بیچاروں کا شہید کروایا گیا۔ فوج کے اندر بعض عناصر نے وزیرستان اور قبائلی پشتونوں پر ظلم اور بربریت کے جو پہاڑ توڑےہیں اُن کا ردعمل ابھی شروع ہی ہوا ہے۔
قبائل اب کسی بھی صورت میں اِن کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے صحافی اب کھلم کھلا یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ فوج اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے والے عناصر کو کٹہرے میں لایا جائے وگرنہ قبائل کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ وہ اپنے ایک ایک ظلم کا حساب لیں گے۔
 
آخری تدوین:

زنیرہ عقیل

محفلین
اس طرح کے مضامین شہید کردار کے گرد پلاٹ بنا کر پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ حقائق اب سامنے آرہے ہیں۔ اِن بیچاروں کا شہید کروایا گیا۔ فوج کے اندر بعض عناصر نے وزیرستان اور قبائلی پشتونوں پر ظلم اور بربریت کے جو پہاڑ توڑےہیں اُن کا ردعمل ابھی شروع ہی ہوا ہے۔
قبائل اب کسی بھی صورت میں اِن کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے صحافی اب کھلم کھلا یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ فوج اور ایجنسیوں کو استعمال کرنے والے عناصر کو کٹہرے میں لایا جائے وگرنہ قبائل کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ وہ اپنے ایک ایک ظلم کا حساب لیں گے۔

غلط ملکی سیاسی پالیسی اور استحکام ِپاکستان پر بحث ایک الگ موضوع ہے جس میں پختون قوم کو ایک ایسے چوراہے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ وہ حدور سے تجاوز کرنے والے فیصلے پر مجبور ہو رہے ہیں
آپ سے گزارش ہے کہ موضوع کو نیا رُخ دینے سے گریز کریں
 

آصف اثر

معطل
غلط ملکی سیاسی پالیسی اور استحکام ِپاکستان پر بحث ایک الگ موضوع ہے جس میں پختون قوم کو ایک ایسے چوراہے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے کہ وہ حدور سے تجاوز کرنے والے فیصلے پر مجبور ہو رہے ہیں
آپ سے گزارش ہے کہ موضوع کو نیا رُخ دینے سے گریز کریں
میں ملکی سلامتی کے لیے شہید ہونے والے ہر فوجی کا درد ایک بھائی کی مانند محسوس کرسکتاہوں۔ مگر صرف ایک جانب کے شہداؤں کو میڈیا میں صبح وشام خبروں، ٹاک شوز، ڈراموں، فلموں اور ڈاکیومنٹریوں کی شکل میں دکھا دکھا کر سچ اور حق چھپانے کا عمل ایک مذموم حرکت ہے۔ اس کیفیت کا احساس صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو خود اس سے گزرے ہوں۔ ایک ماں کے درد میں برابر کا شریک ہونے کی وجہ سے میں اپنے الفاظ واپس لیتاہوں۔
وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں میں ہزاروں بے گناہ جوانوں کو نہیں بلکہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو حتیٰ کہ حاملہ عورتوں کو نہیں بخشا گیا۔ اُن کا درد کون دکھائے گا؟ اُن کے زخموں پر کون مرحم رکھے گا؟ اُن پر کون ڈاکیومنٹریاں بنائے گا، ٹاک شوز کرے گا؟ کیا یہ کھلی منافقت نہیں؟ اپنے اوپر اس طرح کا وحشیانہ ظلم کون برداشت کرسکتا ہے۔
دوسری جانب اُن کے مال اور گھریلوں سامان کو لُوٹا گیا۔۔۔ اور ٹرک بھربھر کر بیچا گیا۔ بازاروں کو بِلا کسی وجہ کے مکمل طور پر۔۔۔۔مسمار کیا گیا۔ گھروں کو زمین بوس کیا گیا۔ ہر روز لاکھوں قبائل کو چیک پوسٹوں پر ذلیل کیا جارہاہے۔۔۔ اور حد تو یہ ہے کہ چیک پوسٹ پر ہزاروں افراد کی چیکنگ کے لیے ایک یا دو فوجی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ حدود اتنے پار کیے جاچکے ہیں کہ اب چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر سرکردہ جنرلز نے اُن کے تمام مطالبات تسلیم کیے ہیں اور اُن کو حل کرنے کے لیے اقدام اُٹھائے جارہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

زنیرہ عقیل

محفلین
میں ملکی سلامتی کے لیے شہید ہونے والے ہر فوجی کا درد ایک بھائی کی مانند محسوس کرسکتاہوں۔ مگر صرف ایک جانب کے شہداؤں کو میڈیا میں صبح وشام خبروں، ٹاک شوز، ڈراموں، فلموں اور ڈاکیومنٹریوں کی شکل میں دکھا دکھا کر سچ اور حق چھپانے کا عمل ایک مذموم حرکت ہے۔ اس کیفیت کا احساس صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو خود اس سے گزرے ہوں۔ ایک ماں کے درد میں برابر کا شریک ہونے کی وجہ سے میں اپنے الفاظ واپس لیتاہوں۔
وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں میں ہزاروں بے گناہ جوانوں کو نہیں بلکہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو حتیٰ کہ حاملہ عورتوں کو نہیں بخشا گیا۔ اُن کا درد کون دکھائے گا؟ اُن کے زخموں پر کون مرحم رکھے گا؟ اُن پر کون ڈاکیومنٹریاں بنائے گا، ٹاک شوز کرے گا؟ کیا یہ کھلی منافقت نہیں؟ اپنے اوپر اس طرح کا وحشیانہ ظلم کون برداشت کرسکتا ہے۔
دوسری جانب اُن کے مال اور گھریلوں سامان کو لُوٹا گیا۔۔۔ اور ٹرک بھربھر کر بیچا گیا۔ بازاروں کو بِلا کسی وجہ کے مکمل طور پر۔۔۔۔مسمار کیا گیا۔ گھروں کو زمین بوس کیا گیا۔ ہر روز لاکھوں قبائل کو چیک پوسٹوں پر ذلیل کیا جارہاہے۔۔۔ اور حد تو یہ ہے کہ چیک پوسٹ پر ہزاروں افراد کی چیکنگ کے لیے ایک یا دو فوجی کھڑے کیے جاتے ہیں۔ حدود اتنے پار کیے جاچکے ہیں کہ اب چیف آف آرمی اسٹاف اور دیگر سرکردہ جنرلز نے اُن کے تمام مطالبات تسلیم کیے ہیں اور اُن کو حل کرنے کے لیے اقدام اُٹھائے جارہے ہیں۔
میں کہہ چکی ہوں کہ وہ ایک الگ ٹاپک ہے غلط پالیسیوں نے غیروں کی جنگ کو ہمارے ملک میں لا کر ہماے ہی ہاتھوں اپنوں کا خون بہایا لیکن قصور اس وقت کے ڈکٹیٹر کا تھا. افواج پاکستان کا ہم ہمیشہ ساتھ دینگے. اور پاکستان کے ترانے گائینگے

ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خلاف عوامل میں حصہ لے کر دشمنان اسلام و پاکستان کے مذموم عزائم کو جِلا دینے کی بجائےوطن عزیز کی سلامتی کے جدو جہد میں ساتھ دینگے. افواج پاکستا ن کے خلاف تحریکیں چلا کر دشمن کا ساتھ نہیں دے سکتے.

قبائلی پختون پاکستان کا حصہ ہیں جو پر امن لوگ ہیں اور انشاء اللہ بہت جلد قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک و ملت کی خدمت کرینگے.
یہود و نصاریٰ کی پالیسیوں نے نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا ہے اور اللہ سب سے بہتر حساب لینے والا ہے
 

آصف اثر

معطل
میں کہہ چکی ہوں کہ وہ ایک الگ ٹاپک ہے غلط پالیسیوں نے غیروں کی جنگ کو ہمارے ملک میں لا کر ہماے ہی ہاتھوں اپنوں کا خون بہایا لیکن قصور اس وقت کے ڈکٹیٹر کا تھا. افواج پاکستان کا ہم ہمیشہ ساتھ دینگے. اور پاکستان کے ترانے گائینگے

ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے خلاف عوامل میں حصہ لے کر دشمنان اسلام و پاکستان کے مذموم عزائم کو جِلا دینے کی بجائےوطن عزیز کی سلامتی کے جدو جہد میں ساتھ دینگے. افواج پاکستا ن کے خلاف تحریکیں چلا کر دشمن کا ساتھ نہیں دے سکتے.

قبائلی پختون پاکستان کا حصہ ہیں جو پر امن لوگ ہیں اور انشاء اللہ بہت جلد قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک و ملت کی خدمت کرینگے.
یہود و نصاریٰ کی پالیسیوں نے نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا ہے اور اللہ سب سے بہتر حساب لینے والا ہے
ہم پاکستانی فوج کا ساتھ اُس وقت تک دیں گے جب تک وہ ”پاکستانی“ رہے گی۔ غیروں کے ایجنڈوں پر اپنوں کو تباہ کرنے والے لوگ فوجی نہیں قاتل کہلاتے ہیں۔ امریکہ سے اربوں ڈالر لے کر پختونوں کی نسل کُشی کرنے والے فوجی اہلکار ہوں یا جرنیل کوئی ماورا نہیں۔ میڈیا کے ذریعے فوج کو فرشتے ثابت کرنے کی اوچھے ہتھکنڈے اب نہیں چل سکتے۔ یہی لوگ اس ملک کے ساتھ غداری کے مرتکب اور فوج کے خلاف خود ہی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہر ہر مجرم کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ فوجیوں کی شکل میں اِن مخصوص قاتلوں اور لُٹیروں کو ہم پاکستانی فوج کبھی بھی نہیں مان سکتے۔ جنہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ مذکورہ کیپٹن اور ان جیسے دیگر بےگناہ شہیدوں کا خون بھی اُن پالیسی سازوں پر ہے جنہوں نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ خون معاف نہیں ہوگا۔ ہم پاکستان کے ترانے ضرور گائینگے لیکن غیروں کے پے رول پر لڑنے والے پاکستان دشمن فوجیوں کے گُن کبھی نہیں۔
باقی اس ٹاپک کو یہیں ختم سمجھے۔
 
آخری تدوین:

زنیرہ عقیل

محفلین
ہم پاکستانی فوج کا ساتھ اُس وقت تک دیں گے جب تک وہ ”پاکستانی“ رہے گی۔ غیروں کے ایجنڈوں پر اپنوں کو تباہ کرنے والے لوگ فوجی نہیں قاتل کہلاتے ہیں۔ امریکہ سے اربوں ڈالر لے کر پختونوں کی نسل کُشی کرنے والے فوجی اہلکار ہوں یا جرنیل کوئی ماورا نہیں۔ میڈیا کے ذریعے فوج کو فرشتے ثابت کرنے کی اوچھے ہتھکنڈے اب نہیں چل سکتے۔ یہی لوگ اس ملک کے ساتھ غداری کے مرتکب اور فوج کے خلاف خود ہی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہر ہر مجرم کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ فوجیوں کی شکل میں اِن مخصوص قاتلوں اور لُٹیروں کو ہم پاکستانی فوج کبھی بھی نہیں مان سکتے۔ جنہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کیا۔ مذکورہ کیپٹن اور ان جیسے دیگر بےگناہ شہیدوں کا خون بھی اُن پالیسی سازوں پر ہے جنہوں نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ خون معاف نہیں ہوگا۔ ہم پاکستان کے ترانے ضرور گائینگے لیکن غیروں کے پے رول پر لڑنے والے پاکستان دشمن فوجیوں کے گُن کبھی نہیں۔
باقی اس ٹاپک کو یہیں ختم سمجھے۔
بالکل بھی آپ کی بات سے متفق نہیں ہوں
کیوں کہ فوج پاکستان کا ایک ادارہ ہے اور اداروں سے ممالک کا استحکام و بقا منسلک ہے
ادراہ قومی مشینری کا حصہ ہے اور ہمارے پیسوں سے چلتا ہے
فوج کمزور ہوگی تو ملک کمزور ہوگا اور فوج کے خلاف بغاوت کرنے والے پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے

البتہ اس بات سے ضرور اتفاق کرونگی کہ فوج سے ریٹائرڈ ہونے کو بعد جن ڈکٹیٹروں نے پالیسی بنائی امریکی ایجنڈوں پر کام کیا ان کا احتساب ضرور ہوگا اور ایک دن کٹہرے میں ضرور کھڑے ہونگے

یہ جو آج کل افواج پاکستا ن کے خلاف ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں انکا ڈیریکٹ تعلق راء موساد اور سی آئی اے سے ہے
میں بھی چاہتی ہوں کہ اب یہ بحث ختم ہونی چاہیے
 
امریکہ نہ افغانوں کا دوست ہے نا پاکستان کا نہ قبائیلوں کا ۔ امریکہ نے طبلہ نواز ڈکٹیٹر کو استعمال کر کے پاکستانی فوج کو قبائیلوں کے ساتھ لڑوایا ۔ پھر قبائیلوں نے بھی اندھے انتقام میں باقی بے گناہ پاکستانیوں پر ظلم کیا ۔ میری رائے ہے کہ اب دونوں اطراف سے معافی تلافی اور صلح صفائی ہوجانی چاہئے۔
 

آصف اثر

معطل
آخر میں صرف ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ فوج کی پالیسیاں ریٹائرڈ نہیں حاضر سروس جرنیل بناتے ہیں۔ والسلام۔
 

زنیرہ عقیل

محفلین
افواج پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ سلالہ کے واقعہ کے بعد تو حالات بالکل واضح ہو چکے ہیں
یہ حاضر سروس نہیں بلکہ ریٹائرڈ ڈکٹیٹر کی کارستانی ہے ورنہ افواج پاکستان اور امریکہ میں کافی فاصلے ہیں
 
افواج پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی کوئی پالیسی نہیں بنائی بلکہ سلالہ کے واقعہ کے بعد تو حالات بالکل واضح ہو چکے ہیں
یہ حاضر سروس نہیں بلکہ ریٹائرڈ ڈکٹیٹر کی کارستانی ہے ورنہ افواج پاکستان اور امریکہ میں کافی فاصلے ہیں
آصف صاحب غالبا یہ چاہتے ہیں کہ اب حاضر سروس جرنیلوں کو فوج کی پالیسیاں تبدیل کر دینی چاہئیں۔
 

زنیرہ عقیل

محفلین
آصف صاحب غالبا یہ چاہتے ہیں کہ اب حاضر سروس جرنیلوں کو فوج کی پالیسیاں تبدیل کر دینی چاہئیں۔
افواج پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے
یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کررہا تھا
یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے ساتھ رویہ تبدیل کر لیا ہے
اور اب پاکستان اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرےگا
 
افواج پاکستان نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے
یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کررہا تھا
یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے ساتھ رویہ تبدیل کر لیا ہے
اور اب پاکستان اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرےگا
اللہ کرے واقعی ایسا ہی ہو، ویسے جب تک حکمران ہر قسم کی بیرونی امداد کو ٹھکرانے کا فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہونگے۔
 

زنیرہ عقیل

محفلین
اللہ کرے واقعی ایسا ہی ہو، ویسے جب تک حکمران ہر قسم کی بیرونی امداد کو ٹھکرانے کا فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہونگے۔
یہ تو عوام کا کام ہے کہ اچھے حکمرانوں کا انتخاب کرے با شعور عوام کا درست انتخاب ہی قوم کی حالت بدلنے میں مدد دیتا ہے
 

آصف اثر

معطل
پچھلے ظلم کا حساب تو دینا ہوگا۔ پالیساں تبدیل کرنے کا مطلب ہے کہ پہلی پالیسیاں غلط تھیں۔ جن جرنیلوں اور اہلکاروں نے یہ پالیسیاں بنائی اور اِن پر عمل کیا وہ قومی مجرم ہیں۔ اور انہیں بچانا بدترازجرم۔
 
Top