زنیرہ عقیل
محفلین
شہید فوجی کی ماں کے قلم سے نکلنے والی خاص تحریر
’’ شہزادوں جیسی آن بان والا کیپٹن وطن پر قربان ہوگیا‘‘ شہید فوجی کی ماں کے قلم سے نکلنے والی وہ خاص تحریرجسے حساس دل لوگ نہیں پڑھ سکیں گے
ستمبر2014کیا شروع ہوا کہ نئے سرے سے یادوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ویسے یہ مہینہ سب پاکستانی کیسے بھول سکتے ہیں؟ اسی ماہ میں ڈیفنس ڈے منایا جاتا ہے۔ میرے پیارے بیٹے کا جوش و خروش بھی ستمبر میں بڑھ جاتا تھا جس کا وہ اظہار بھی کیا کرتا تھا۔ اسی طرح اس نے ستمبر2012 میں ہی فیس بک پر پروفائل فوٹو تبدیل کی اور ایک شہید کا جنازہ تھا ،والی وہ یادگار فوٹو لگائی۔ شرجیل شہید کے ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ جب تم شہید ہوگے تو یہ شہید کے جنازے والی فوٹو کام آئے گی اور پھر ایسے ہی ہوا’’ میرا لختِ جگر‘ شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والا 20 ستمبر2012 کو بروزِ جمعرات شہید ہوگیا اور بڑی شان سے جمعۃ المبارک کو آرمی قبرستان میں نمازِ جنازہ کے بعد ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں سے تو اوجھل ہوگیا مگر دلوں میں اسی طرح آباد ہے جیسے ایک شہید کو ہونا چاہئے ، میرا بیٹا جمعہ کے دن ہی پیدا ہوا اور جمعہ کے دن ہی اس دنیا سے چلا گیا۔
میری تو لفاظی ختم ہوگئی ہے ، میں اپنے لخت جگر کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شنواری کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں مگر الفاظ کھو جاتے اور گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، لوگ کہتے تھے کہ وقت کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، وقت مرہم لگا دیتا ہے مگر مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ زخم پہلے دن سے بھی تازہ ہیں، شہادت کا فخر اپنی جگہ مگر جدائی کا زخم سہنا بہت مشکل ہوتا ہے ، یہ بات صرف شہداء کی فیملیز ہی جانتی ہوں گی۔ ہم سب کا دکھ درد ایک جیسا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہمارے تمام شہداء پر اور اللہ میرے ملک کی حفاظت فرمائے اور شہداء کا خون رائیگاں نہ جائے۔ شہداء کے جنازے بہت بڑے بڑے اور پورے اعزاز کے ساتھ ہوتے ہیں، میرے پیارے بیٹے کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شنواری
کے جنازے میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی ، میں نے پہلی دفعہ اتنا بڑا جنازہ دیکھا تھا، اب نہ کوئی خوشی، خوشی لگتی ہے اور نہ ہی غم، غم لگتا ہے۔
میں زندگی کا ایک دن کم ہونے پر روز سوچتی ہوں کہ ایک دن اور کم ہوگیا، اب اپنے بیٹے سے ملنے کے نزدیک ہو رہی ہوں۔ شرجیل سے آخری دفعہ بات بدھ کے دن ہوئی، ویسے تقریباً3 منٹ کی کال ہوتی تھی، اس دن کوئی15 یا16 منٹ بات ہوئی، آپریٹر بار بار فون چیک کرتا پھر کچھ کہے بغیر فون رکھ دیتا۔ آخری باتیں بھی میرے بیٹے کی اپنی چھوٹی بہن کو نصیحت ہی تھی۔ عمارہ تمہارا فائنل ائیر ہے خوب پڑھنا ، نانو(نانی اماں) کا بی پی کا چارٹ بنانا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے کسی نے بتایا کہ شرجیل کہتا تھا کہ میرے نام کے ساتھ تین ’’ ایس ‘‘ ہیں ایک ’’ایس ‘‘ اور آئے گا ، یعنی شرجیل شاہد شنواری(شہید) میرا بیٹا میرے لئے بڑی ہی خوبصوت یادیں چھوڑگیا ، اپنی بہت خوبصورت نشانیاں چھوڑ کر گیا ہے۔
میرے ڈرائنگ روم کے ایک کارنر میں میرے بیٹے کی سکول کی شیلڈز پڑی ہیں ، فرسٹ پرائزکپ پڑے ہیں۔ میرا بیٹااپنے ہاتھوں سے خوبصورت خطاطی کرتا تھا ، ایک خطاطی ’’یارحیم‘‘ کی ہے جو اْس نے بلیک اینڈ وائٹ کی ہے جس پراْس کو پہلا انعام دیا گیا ، میرے بیٹے کی خطاطی آج بھی آرمی میڈیکل کے ایک ہال میں دیوار پر آویزاں ہے ، اْس کے علاوہ پہلا کلمہ‘ بسم الرحمن الرحیم اور اسماء الحسنٰی کی خوبصورت خطاطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام لکھتے وقت اس نے کہا ’’ ممی آپ ویسٹریج سے مجھے خوبصورت چوڑیاں لادیں‘‘ پھر میرے سامنے ایک ایک نام کو اس ایک چوڑی میں فکس کیا۔ شاہد صاحب (میجرریٹائرڈ شاہد شنواری والد کیپٹن شرجیل شہید)نے فریم کروائے ، یہ میرے ڈرائنگ روم کی دیواروں پر چاروں طرف خوبصورتی سے سجی ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو ان پر بھی اجرعطا فرمائے (آمین) اور اس کے لئے صدقہ جاریہ بنے۔ یہ تمام خطاطی وہ اپنے کالج کی ایک نمائش میں رکھنے کے لئے بناتا تھا ، ویسے میری بیٹی شمیلہ بھی خطاطی کرتی ہے مگر پہلا انعام شرجیل کو ہی ملا۔شرجیل ایک نرم دل اورحساس طبیعت کا مالک تھا۔ رمضان کے پہلے عشرے میں‘ میں‘شاہد اور میری بیٹی شمیلہ‘ شرجیل کو‘ کوہاٹ چھوڑ کر اللہ کے حوالے کرکے آئے۔کچھ دنوں کے بعد کانوائے جب وزیرستان کے لئے روانہ ہوا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے کچھ لوگوں(جوانوں) کی طبیعت خراب ہوئی ، خاص کر جن کا روزہ تھا ، شرجیل نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ بیٹا جوانوں سے کہو کہ تم حالتِ سفر میں ہو اور دوسرا جہاد پر جارہے ہو‘ اگر کوئی روزہ چھوٹ گیا تو بعد میں قضا کر لینا۔ رمضان میں ہی لیفٹیننٹ عثمان وانا میں زخمی ہوا تو جب ہیلی کاپٹر پر پشاور سی ایم ایچ لارہے تھے تو شمیلہ کو کہا کہ ممی سے کہنا دعا کریں ، میں نے کہا کہ دْعا میں ضرور کروں گی مگر مجھے نہ بتانا کہ کیا ہوا ؟ عثمان تو ماشائاللہ ٹھیک ہوگیا ،اس کے لئے دعا کروانے والا شہید ہوگیا ، اس دن ہی شرجیل واپس وانا گیا تو روزہ ہیلی کاپٹر میں ہی افطار کیا ، کہنے لگا کہ بڑا ہی مزہ آیا۔
اسی طرح ایک کیپٹن (شرجیل کا فیس بک فرینڈ تھا) وہ شہید ہوا تو مجھے لیپ ٹاپ میں اسکی تصویر دکھائی‘ کہنے لگا یہ شہید ہوگیا ہے ، میں نے کہا بچے میں ایک کمزوراور نرم دل کی مالک عورت ہوں ، مجھے نہ دکھایا کرو‘ پھر کوئی بات ہوتی تو شمیلہ کو بتاتا کہ ممی کو نہیں بتانا۔ شاید وہ یہ باتیں کرکے ، یہ تصویریں دکھا کر ماں کا دل مضبوط کرنا چاہتا تھا یا اْن کے لئے دْعا کروانا چاہتا تھا اور مجھے بھی میرے اللہ نے دعاؤں پر لگادیا۔ یہ سب کچھ میرے ربّ کی طرف سے تھا۔ مجھے نارمل سی کوکنگ آتی تھی مگر میرا بیٹا اچھے کھانے کھانے کا بہت شوقین تھا ، میں کھانا بناتی تو کہتا کہ میری ممی جیسی کوکنگ کسی کی نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے میرے پاس صرف ایک ہفتہ رہا ہے
(ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک) ۔
پہلی دفعہ بھی پشاور سی ایم ایچ میں جب میری گود میں آیا تو سویا ہوا تھا اور آخری دفعہ بھی پشاور سی ایم ایچ سے آیا تو چہرے پر مسکراہٹ سجائے سو رہا تھا ، اللہ تعالیٰ میری ملاقات روزِ قیامت میرے بیٹے سے کروائے۔ (آمین) شرجیل کو ہم نے پاسنگ آؤٹ پر گاڑی گفٹ کی تھی ، ایک دن میں نے کہا کہ مجھے بھی ایک چھوٹی گاڑی چاہئے درس وغیرہ پر جانے کے لئے تو کہنے لگا ’’ممی میں اپنی گاڑی چھوڑ کر جارہا ہوں‘‘ میں اب اْسی گاڑی پر ہی درس کے لئے جاتی ہوں تاکہ میرے بیٹے کے درجات بلند ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے
’’ شہزادوں جیسی آن بان والا کیپٹن وطن پر قربان ہوگیا‘‘ شہید فوجی کی ماں کے قلم سے نکلنے والی وہ خاص تحریرجسے حساس دل لوگ نہیں پڑھ سکیں گے
ستمبر2014کیا شروع ہوا کہ نئے سرے سے یادوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ویسے یہ مہینہ سب پاکستانی کیسے بھول سکتے ہیں؟ اسی ماہ میں ڈیفنس ڈے منایا جاتا ہے۔ میرے پیارے بیٹے کا جوش و خروش بھی ستمبر میں بڑھ جاتا تھا جس کا وہ اظہار بھی کیا کرتا تھا۔ اسی طرح اس نے ستمبر2012 میں ہی فیس بک پر پروفائل فوٹو تبدیل کی اور ایک شہید کا جنازہ تھا ،والی وہ یادگار فوٹو لگائی۔ شرجیل شہید کے ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ جب تم شہید ہوگے تو یہ شہید کے جنازے والی فوٹو کام آئے گی اور پھر ایسے ہی ہوا’’ میرا لختِ جگر‘ شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والا 20 ستمبر2012 کو بروزِ جمعرات شہید ہوگیا اور بڑی شان سے جمعۃ المبارک کو آرمی قبرستان میں نمازِ جنازہ کے بعد ہمیشہ کے لئے ہماری آنکھوں سے تو اوجھل ہوگیا مگر دلوں میں اسی طرح آباد ہے جیسے ایک شہید کو ہونا چاہئے ، میرا بیٹا جمعہ کے دن ہی پیدا ہوا اور جمعہ کے دن ہی اس دنیا سے چلا گیا۔
میری تو لفاظی ختم ہوگئی ہے ، میں اپنے لخت جگر کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شنواری کے بارے میں بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں مگر الفاظ کھو جاتے اور گڈ مڈ ہو جاتے ہیں، لوگ کہتے تھے کہ وقت کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں، وقت مرہم لگا دیتا ہے مگر مجھے ایسے ہی لگتا ہے کہ زخم پہلے دن سے بھی تازہ ہیں، شہادت کا فخر اپنی جگہ مگر جدائی کا زخم سہنا بہت مشکل ہوتا ہے ، یہ بات صرف شہداء کی فیملیز ہی جانتی ہوں گی۔ ہم سب کا دکھ درد ایک جیسا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہمارے تمام شہداء پر اور اللہ میرے ملک کی حفاظت فرمائے اور شہداء کا خون رائیگاں نہ جائے۔ شہداء کے جنازے بہت بڑے بڑے اور پورے اعزاز کے ساتھ ہوتے ہیں، میرے پیارے بیٹے کیپٹن ڈاکٹر شرجیل شنواری
کے جنازے میں ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی ، میں نے پہلی دفعہ اتنا بڑا جنازہ دیکھا تھا، اب نہ کوئی خوشی، خوشی لگتی ہے اور نہ ہی غم، غم لگتا ہے۔
میں زندگی کا ایک دن کم ہونے پر روز سوچتی ہوں کہ ایک دن اور کم ہوگیا، اب اپنے بیٹے سے ملنے کے نزدیک ہو رہی ہوں۔ شرجیل سے آخری دفعہ بات بدھ کے دن ہوئی، ویسے تقریباً3 منٹ کی کال ہوتی تھی، اس دن کوئی15 یا16 منٹ بات ہوئی، آپریٹر بار بار فون چیک کرتا پھر کچھ کہے بغیر فون رکھ دیتا۔ آخری باتیں بھی میرے بیٹے کی اپنی چھوٹی بہن کو نصیحت ہی تھی۔ عمارہ تمہارا فائنل ائیر ہے خوب پڑھنا ، نانو(نانی اماں) کا بی پی کا چارٹ بنانا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے کسی نے بتایا کہ شرجیل کہتا تھا کہ میرے نام کے ساتھ تین ’’ ایس ‘‘ ہیں ایک ’’ایس ‘‘ اور آئے گا ، یعنی شرجیل شاہد شنواری(شہید) میرا بیٹا میرے لئے بڑی ہی خوبصوت یادیں چھوڑگیا ، اپنی بہت خوبصورت نشانیاں چھوڑ کر گیا ہے۔
میرے ڈرائنگ روم کے ایک کارنر میں میرے بیٹے کی سکول کی شیلڈز پڑی ہیں ، فرسٹ پرائزکپ پڑے ہیں۔ میرا بیٹااپنے ہاتھوں سے خوبصورت خطاطی کرتا تھا ، ایک خطاطی ’’یارحیم‘‘ کی ہے جو اْس نے بلیک اینڈ وائٹ کی ہے جس پراْس کو پہلا انعام دیا گیا ، میرے بیٹے کی خطاطی آج بھی آرمی میڈیکل کے ایک ہال میں دیوار پر آویزاں ہے ، اْس کے علاوہ پہلا کلمہ‘ بسم الرحمن الرحیم اور اسماء الحسنٰی کی خوبصورت خطاطی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام لکھتے وقت اس نے کہا ’’ ممی آپ ویسٹریج سے مجھے خوبصورت چوڑیاں لادیں‘‘ پھر میرے سامنے ایک ایک نام کو اس ایک چوڑی میں فکس کیا۔ شاہد صاحب (میجرریٹائرڈ شاہد شنواری والد کیپٹن شرجیل شہید)نے فریم کروائے ، یہ میرے ڈرائنگ روم کی دیواروں پر چاروں طرف خوبصورتی سے سجی ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو ان پر بھی اجرعطا فرمائے (آمین) اور اس کے لئے صدقہ جاریہ بنے۔ یہ تمام خطاطی وہ اپنے کالج کی ایک نمائش میں رکھنے کے لئے بناتا تھا ، ویسے میری بیٹی شمیلہ بھی خطاطی کرتی ہے مگر پہلا انعام شرجیل کو ہی ملا۔شرجیل ایک نرم دل اورحساس طبیعت کا مالک تھا۔ رمضان کے پہلے عشرے میں‘ میں‘شاہد اور میری بیٹی شمیلہ‘ شرجیل کو‘ کوہاٹ چھوڑ کر اللہ کے حوالے کرکے آئے۔کچھ دنوں کے بعد کانوائے جب وزیرستان کے لئے روانہ ہوا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے کچھ لوگوں(جوانوں) کی طبیعت خراب ہوئی ، خاص کر جن کا روزہ تھا ، شرجیل نے پوچھا تو میں نے بتایا کہ بیٹا جوانوں سے کہو کہ تم حالتِ سفر میں ہو اور دوسرا جہاد پر جارہے ہو‘ اگر کوئی روزہ چھوٹ گیا تو بعد میں قضا کر لینا۔ رمضان میں ہی لیفٹیننٹ عثمان وانا میں زخمی ہوا تو جب ہیلی کاپٹر پر پشاور سی ایم ایچ لارہے تھے تو شمیلہ کو کہا کہ ممی سے کہنا دعا کریں ، میں نے کہا کہ دْعا میں ضرور کروں گی مگر مجھے نہ بتانا کہ کیا ہوا ؟ عثمان تو ماشائاللہ ٹھیک ہوگیا ،اس کے لئے دعا کروانے والا شہید ہوگیا ، اس دن ہی شرجیل واپس وانا گیا تو روزہ ہیلی کاپٹر میں ہی افطار کیا ، کہنے لگا کہ بڑا ہی مزہ آیا۔
اسی طرح ایک کیپٹن (شرجیل کا فیس بک فرینڈ تھا) وہ شہید ہوا تو مجھے لیپ ٹاپ میں اسکی تصویر دکھائی‘ کہنے لگا یہ شہید ہوگیا ہے ، میں نے کہا بچے میں ایک کمزوراور نرم دل کی مالک عورت ہوں ، مجھے نہ دکھایا کرو‘ پھر کوئی بات ہوتی تو شمیلہ کو بتاتا کہ ممی کو نہیں بتانا۔ شاید وہ یہ باتیں کرکے ، یہ تصویریں دکھا کر ماں کا دل مضبوط کرنا چاہتا تھا یا اْن کے لئے دْعا کروانا چاہتا تھا اور مجھے بھی میرے اللہ نے دعاؤں پر لگادیا۔ یہ سب کچھ میرے ربّ کی طرف سے تھا۔ مجھے نارمل سی کوکنگ آتی تھی مگر میرا بیٹا اچھے کھانے کھانے کا بہت شوقین تھا ، میں کھانا بناتی تو کہتا کہ میری ممی جیسی کوکنگ کسی کی نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے میرے پاس صرف ایک ہفتہ رہا ہے
(ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک) ۔
پہلی دفعہ بھی پشاور سی ایم ایچ میں جب میری گود میں آیا تو سویا ہوا تھا اور آخری دفعہ بھی پشاور سی ایم ایچ سے آیا تو چہرے پر مسکراہٹ سجائے سو رہا تھا ، اللہ تعالیٰ میری ملاقات روزِ قیامت میرے بیٹے سے کروائے۔ (آمین) شرجیل کو ہم نے پاسنگ آؤٹ پر گاڑی گفٹ کی تھی ، ایک دن میں نے کہا کہ مجھے بھی ایک چھوٹی گاڑی چاہئے درس وغیرہ پر جانے کے لئے تو کہنے لگا ’’ممی میں اپنی گاڑی چھوڑ کر جارہا ہوں‘‘ میں اب اْسی گاڑی پر ہی درس کے لئے جاتی ہوں تاکہ میرے بیٹے کے درجات بلند ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے
آخری تدوین: