انقلاب دہر تو دیکھو امیر
وہ جو کہا کرتے تھے کہ ہمیں شہادت ملے گی اور اس مسجد کے فرش پر ہمارا خون ٹپکے گا تو انقلاب آئے گا وہ شرعی اجازت کے تحت بھیس بدل کرایک پردہ نشین عورت کی صورت میں جان بچاکر غازی بن گئے
جہاں تک مولانا عبد العزیز صاحب کے برقعہ پہن کر نکلنے کی بات ہے تو یقینا اس پر غیر جانبدارانہ انداز میں غور کرنا چاہئے کہ آخر ان کا مقصد کیا تھا ؟
اس کو سمجھنے کے لئے کچھ پیچھے چلیں
یہ معاملہ چند دن سے نہیں بلکہ تقریبا 6 مہینہ سے چل رہا ہے ، 6 مہینے سے لیکر اب تک جو بھی ہوا ، اور لال مسجد کی طرف سے جو بھی اقدامات ہوئے ان کے اصل کمانڈر مولانا عبدالعزیر صاحب ہی تھے ، ان کو اگر واقعتا اپنی جان کی اتنی ہی فکر ہوتی تو بجائے حکومت کو دھمکہاں دینے کے خاموشی سے اپنا مدرسہ چلاتے ، ویسے اپنے موقف کے سلسلہ میں وہ اپنے بھائی مولانا عبدالرشید غازی شہید علیہ الرحمۃ سے زیادہ سخت تھے
اس سے پہلے مذاکرات کاروں کی رائے آچکی ہے کہ مولانا عبدالرشید لچک کے لئے تیار تھے مگر مولانا عبدالعزیز نہیں ،
ویسے بھی اگر جان بچانا ہی ہوتا تو آپریشن کہ ابتدا ہی کے وقت وہ ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیتے ، ظاہر ہے عدالت سے موت کی سزاملنے سے تو رہی ،
اب پھر سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ آخر وہ نکلے ہی کیوں تھے ؟ ان کو چاہیے تھا کہ وہ مدرسہ کے اندر ہی رہکر کمانڈ کرتے ؟
اس کا جواب یہ ہے جناب کہ اگر آپ اس کو جنگ تسلیم ہی کرتے ہیں تو جنگ میں تو دشمن کو شکست دینے کے لئے تمام ممکنہ صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں اور ظاہر ہے مذکورہ سچوییشن میں اپنی ممکنہ ہار کو جیت میں بدلنے کے لئے غازی برادران کی طرف سے یہ ایک بہترین حکمت عملی تھی ، اگر مولانا بچ کر سرحد کے علاقہ کی طرف نکل جاتے تو یقینا مولانا ، اس علاقہ میں اپنے خاندان کے اثر نیز اپنی جرات کی بنا پر اسلامی انقلاب کی بات چلانے میں ضرور کامیاب ہوچکے ہوتے اور اپنی تحریک میں زبردست جان ڈالدیتے ،
اور ممکن ہے مذکورہ صورت میں حکومت لال مسجد میں کسی قسم کے آپریشن سے گریز کرتی،
میں یہ کہ رہا تھا کہ یہ حکمت عملی ہے نہ کہ بزدلی، اس لیے کہ جنگ میں جب کبھی اس قسم کی نوبت آتی ہے یعنی دشمن کا چاروں طرف سے اس قسم کا شدید محاصرہ ہو کہ شکست کے امکانات غالب ہوں تو اس وقت اولین کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اندر موجود سب سے اہم شخصیت کو کسی طرح باہر پہنچادیا جائے ، یہ کوشش بھی صرف اس لئے ہوتی ہے کہ جس نظریہ کی بنیاد پر وہ اپنی جانیں قربان کررہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نظریہ بھی ان کے ساتھ دفن ہوجائے بلکہ اس نظریہ کے لئے ان کے بعد بھی دنیا میں پرجوش تحریک چلانے والا باقی رہے ،
اور ظاہر ہے ایسی شخصیت مولانا عبد العزیز ہی کی تھی اور مذکورہ صورت میں مولانا عبد العزیز صاحب کے فوج سے بچ کر نکلنے کے ممکنہ واحد صورت یہ تھی کہ وہ برقعہ پہن کر نکلتے ، تاکہ ان کی شناخت نہ کی جاسکے ،
اور ایسا بھی نہیں تھا کہ مولانا، لال مسجد میں موجود مجاہدین کو بے یار و مددگار چھوڑ کر جارہے تھے ، بلکہ مولانا نے اپنے سگے بھائی مولانا عبد الرشید غازی کو ان کے کمانڈر کے طور پر چھوڑا تھا
نیز ان کی ضعیف والدہ بھی اندر موجود تھی ، اور یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ مولانا کوئی ایسے ماہر فن ” لڑاکا " تو تھے نہیں کہ اگر وہ موجود ہوتے تو میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیتے ، ظاہر ہے ان کی غیر موجودگی کا میدان جنگ میں عملی طور پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں ہوتا ، بلکہ ان کا سرحد کے علاقہ میں موجود رہنا یہ لال مسجد والوںکے لئے زیادہ مفید ہوتا کہ شاید وہ وہاں سے ”یزید وقت مشرف” پر کم از کم اتنا دباؤ ڈالنے میں ضرور کامیاب ہوچکے ہوتے کہ اس قسم کے کسی آپریشن کی نوبت نہیں آتی ، بلکہ معاملہ مذاکرات سے حل ہوچکا ہوتا ،
مزید باتیں بھی وقتا فوقتا پیش کرتا رہونگا ، فی الحال اتنا تو پڑھئے ۔