حکیم دانا کا مشہور واقعہ ہے کہ انہیں ایک سفر درپیش تھا لیکن راستے میں ایک دریا ایسا پڑتا تھا جسے پار کرنے کی اجازت نہ تھی۔ حکیم دانا دریا تک پہنچے تو پہرے داروں نے انہیں لوٹا دیا اور کہا کہ جب تک بادشاہ سلامت اجازت نہ دیں دریا پار نہیں کیا جاسکتا۔ حکیم دانا بادشاہ کے حضور پیش ہوئے، ادب سے عرض کیا حضور کچھ لوگ دریا پار کرنا چاہتے ہیں پہرے دار انہیں روکتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا تحریری حکم نامہ ہوگا تو ہم مانیں گے۔ سو آپ ایک چٹھی پر یہ مضمون لکھ دیجئے “روکو، مت جانے دو“۔ اس وقت کے بادشاہ سلامت بھی چوہدری شجاعت کی طرح سادے ہوتے تھے سو یہ بے ضرر سی چٹھی لکھوا کر حکیم دانا کو تھمادیتے ہیں۔ حکیم دانا دوبارہ دریا پر پہنچتے ہیں اور پہرے دار کو بادشاہ کا حکم نامہ دکھاتے ہیں جس پر لکھا تھا “روکومت، جانے دو“۔ اس طرح حکیم دانا کو دریا پار کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اور وہ ہنسی خوشی اپنی منزل مقصود کی طرف چل پڑتے ہیں۔ صرف ایک قومے کےفرق سے مضمون کا عنوان تبدیل ہوگیا۔لیکن قربان جائیے آج کل کے حکیم داناؤں پر جو مضمون کا غلط تاثر پیدا کرنے کے لیے کسی قومے کے محتاج بھی نہیں۔ خدا کی پناہ
میں نے صریح الفاظ میں کہا تھا کہ لال مسجد والوں سے اختلاف کے باوجود اگر اس کا کوئی انسانی پہلو نکلتا ہے تو اس پر بھی بات ہونی چاہئیے۔ لیکن لگتا ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ظاہر ہے اس میں بھینس کی کوئی غلطی نہیں، غلطی ہماری ہے کہ ہم نے بھینس کی زبان میں بات کیوں نہ کی۔ روشن خیالی کے ٹیکے مقررہ مقدار سے زیادہ لگ جائیں تو انسان کی یہی کیفیت ہوتی ہے وہ ہر بات کے جواب میں خوش الحانی کے ساتھ وہی تقریر دہرانے لگ جاتا ہے جو اسے یاد کرائی جاتی ہے۔ میں نے چڑیا کے دو ننھے منھے بچوں کی مثال دے کر احباب کو یہ یاد دلانے کی کوشش کی کہ انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ لیکن حضرات نے اس ایک پہلو کو چھوڑ کر باقی ہر پہلو پر بات کرنا ضروری سمجھا اور رٹے رٹائے جملے دہرانے کی مشق کی گئی۔ غالب کے الفاظ میں خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو۔
انسانی قدروں پر معاملات کو جانچنے والے پانڈوں کی طرح کمیاب ہوتے جارہے ہیں۔ لوگ انسانی حقوق اور مساوات کی باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں جو کچھ کرتے ہیں وہ ان تصورات کی ضد ہوتی ہے۔ جسے دیکھو کہتا کچھ ہے، سوچتا کچھ۔ دل و دماغ حسد، کدورت، سازش، بغض، کینہ اور تعصبات سے سڑ رہے ہیں مگر ہونٹوں پر پاکی کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔ گفتگو کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے جھٹ سے مخصوص طبقے کی غلط رسومات کو قبائلیوں کے اتنے بڑے کینوس پر فٹ کردیا۔ پوری گفتگو لپیٹ کر قبائلیوں کی غلط رسومات کے متھے ماردی گئی۔ مثل مشہور ہے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟
جس ملک کو پورے عالم اسلام کیا پوری مسلم دنیا کے لیے ماڈل بننا تھا اسے حکمرانوں نے ایک بڑے نفسیاتی اسپتال میں تبدیل کردیا۔ ایسا اسپتال جہاں کمانڈر ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر بھی ایک سے بڑھ کر ایک، ہر ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کی ضد۔ ڈارون کو اپنی تھیوری کا عملی ثبوت دیکھنا ہوتو ہمارے حکمرانوں کو دیکھ لے۔ صحت مند نشونما کے لیے ضروری ہے کہ شخصیت کو ایک اصول کے تابع ہونا چاہیے۔ قول میں اسلام، عمل میں مغرب۔ آدھی زندگی ایک اصول کے تحت، مزید آدھی زندگی دوسرے اصول کے تحت۔ قوم کوبرداشت، صبر اور تحمل کا درس اور خود “فوجی ذہن“ سے سوچنے کے عادی۔ پہلی بات تو یہ کہ فوجی ذہن سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا، بالفرض محال اگر سوچنے پر آمادہ بھی ہوجائے تو اسکی سوچ سے ایک عدد گرنیڈ، گولی لاٹھی اور (۔۔۔۔۔قابلِ سنسر۔۔۔۔۔) کے علاوہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔ جبر اور طاقت کی سرپرستی اسے دیوانہ کردیتی ہے۔ بالخصوص اگر اس کا مقابلہ مذہبی تناظر سے ہو۔ پھر مقامی سطح ہو یا قومی و بین الاقوامی ۔۔۔ اسے قانون یاد رہتا ہے نہ ضابطہ۔ اسے انسانی حقوق یاد آتے ہیں نہ انصاف کے تقاضے۔ پھر یہ لاشیں گراتا ہے اور جشن مناتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ آج جو کچھ کیا جارہا کل پلٹ کر ہماری طرف ضرور آئے گا۔
امریکا جہاد کی حمایت کرے اور ڈالز بھی دے تو ہمارے حکمران نہ صرف یہ کہ خود جہاد کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری دنیا سے جہادی جمع کرلیتے ہیں۔ امریکا جہاد کا دشمن ہو جائے اور جہاد کی دشمنی کے لیے ڈالر بھی دے تو ہمارے حکمران انہی کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنے لگتے ہیں۔ جہاد کی تعریف بدل جاتی ہے، تعلیم کے معنی تبدیل ہوجاتے ہیں، دوقومی نظریے کا مفہوم کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ ہماری تاریخ محمد بن قاسم سے شروع ہونے کے بجائے اشوکا سے شروع ہونے لگتی ہے۔ افغان پالیسی اور کشمیر پالیسی میں کوئی فرق ہی نہیں رہتا۔ ملک کا واحد ہیرو مجرموں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ قوم کی طرف سےاس ظلم و زیادتی کا ردِ عمل سامنے آئے تو دھول جھونکنے کے لیے فٹ سے “مذہب“ پر الزام رکھ دیتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے مذہب ایک حربہ ہے جسے بوقتِ ضرورت کام لایا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مذہب کی مظلومیت دیکھے کہ پاکستان مذہب کےنام پر بنا جبکہ قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ مذہب کی نہیں بلکہ مذہب سے انحراف کی تاریخ ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سیکولر اور لبرل فکر کے پاس ہمارے مسائل کا حل تو دور کی بات ان مسائل کا درست تجزیہ تک نہیں ہے۔ ہوتا تو وہ اب تک سامنے آچکا ہوتا اور اس کی بنیاد پر ہمارے کچھ نہ کچھ مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ پاکستان کے حالات اچھے ہیں یا برے۔ جو کچھ بھی ہیں سیکولر اور لبرل عناصر کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ ایک ایسی قوم جس کی تاریخ ساٹھ سال پرانی ہے۔ ایک ایسی ملت جو ہزار سال سے اس سرزمین میں جڑیں پھیلارہی ہے آج خود کو گملے میں لگے ہوئے پودے سے بھی کمزور محسوس کررہی ہے۔
طالبان کو الزام دینا ضروری ہے تو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ طالبان آخر کہاں سے آٹپکے۔ کیا آسمان سے گھسیٹیاں کھاتے ہوئے اچانک افغانستان میں وارد ہوئے اور افغانیوں پر مسلط ہوگئے؟ جو طالبان کو مجرم کہتے ہیں وہ اس سے بڑھ کر مسلم حکمرانوں اور فوج کو مجرم کیوں نہیں کہتے جنہوں نے طالبان کی سرپرستی کی؟ طالبان کے موجد ہی طالبان کے خون کے پیاسے ہوگئے اور غیروں کی ڈانگ میں ڈانگ ڈال کر اپنے ہی بچوں کو ہڑپ کرنا شروع کردیا۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنی ہی قوم فتح کرنے کا جنون لاحق ہوگیا، ہم رفتہ رفتہ دشمن کی ضرورت سے بے نیاز ہوتے گئے۔ پھر بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ طالبان کو ہم سے دشمنی کیوں ہوگئی؟ اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ خدا کے لیے گھٹنوں سے سوچنا بند کردو۔ بس کردو بس!
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
وہ لوگ کون تھے جو قیام پاکستان کے ہی مخالف تھے؟ وہ کون تھے جنہوں نے اسے "پلیدستان" کا نام دیا؟ وہ کون تھے جنہوں نے قائد اعظم کو "کافر اعظم" کا خطاب دیا؟ اور وہ کون تھے جنہوں نے فرمایا کہ "کسی ماں نے وہ بچہ ہی پیدا نہیں کیا جو پاکستان کی پ بھی بنا سکے"۔
ان سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے ان قبائلی علاقوں کے چند رہنماؤں ڈاکٹر قیوم اور باچا خان کے ساتھ ساتھ کچھ بڑی بڑی اسلامی جماعتوں اور ان کے بڑے بڑے علماء مثلاً مودودی صاحب کے نام بھی آئیں گے۔ لہٰذا اس ذکر کو چھپائے رکھنے میں ہی ہم سب کی عزت ہے۔ ششششششش
تو لیجیے خواتین و حضرات! تشریف لاتا ہے ایک عدد اعتراض۔ اس ذکر کو چھپاتے چھپاتے بھی موصوف سے سید مودودی کا نام نکل ہی پڑا۔ یعنی اب کاغذ کے پھول موتیے اور گلاب کو شرمندہ کررہے ہیں۔ روشن خیالی کے نام پر جیسی مجروح نفسیات کا مظاہرہ ہمارے حکمران کررہے ہیں ویسی ہی یا اس سے کچھ کم نفسیات ان کے حامیوں میں بھی در آئی ہے۔ کہاوت مشہور ہے “باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا، زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا“۔ وسوسے پھیلانا کبھی صرف شیطانوں کا کام تھا مگر اب یہ کام انسانوں نے بھی سنبھال لیا ہے۔
اعتراض کیونکہ سید ابوالاعلیٰ پر کیا گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا جواب بھی انہیں سے معلوم کیا جائے؛
“مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندوستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے اور متحدہ ہندوستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ہندو ہندوستان اور مسلم ہندوستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یہ چیز وہی ہے جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے اور اگر مسلمانوں کے مسلمان ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے انہیں صرف ایک قوم کی حیثیت سے دیکھا جائے تو ان کے اس مطالبہ کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جاسکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ اس لئے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کریں تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ ہمیں اس چیز کو نصب العین بنانے پر جو اعتراض ہے وہ صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک اصولی جماعت اور ایک نظام کی داعی اور علمبردار جماعت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کرکے صرف ایک قوم ہونے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اگر وہ اپنی اصلیت کو قائم رکھتے تو ان کے لیے قومی وطن اور اس کی آزادی کا سوال ایک نہایت حقیر سوال ہوتا۔ بلکہ حقیقاً سرے سے وہ ان کے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب وہ کروڑوں ہوکر ایک ذرا سے خطہ میں اپنی حکومت حاصل کرلینے کو ایک انتہائی نصب العین سمجھ رہے ہیں۔ لیکن اگر وہ نظام اسلامی کے داعی ہونے کی حیثیت اختیار کریں تو تنہا ایک مسلمان ساری دنیا پر اپنے اس نظام کی جس کا وہ داعی ہے، حکومت کا مدعی ہوسکتا ہے اور صحیح طور پر سعی کرے تو اسے قائم بھی کرسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن۔ رجب، شوال ٦٣ھ، جولائی، اکتوبر ٤٤ء)
اس اقتباس کو پڑھ کر ہی اندازہ لگا لیں کہ ہمارے بعض لوگ خطِ اطلاع سے کتنے نیچے رہتے ہیں اور خطِ اطلاع سے نیچے کی زندگی خطِ اخلاق اور خطِ تہذیب سے بہت نیچے کی زندگی ہے۔ اسی لیے انکے قلوب، نفوس اور اذہان کی جو حالت ہے اس کی وجہ سے سیدھی باتیں ان کی سمجھ میں مشکل سے ہی آتی ہیں۔ البتہ تمام ٹیڑھی باتیں یہ فوراً سمجھ لیتے ہیں۔
جذباتیت کے لئے تو یہ باتیں بہت اچھی ہیں میرے بھائی لیکن حقائق کا جائزہ بھی لینا چاہئے۔ آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ لال مسجد والوںکو بندوقیں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک مدرسہ میں، سکول میں اور ایک مسجد میںبندوقوں کی کیا ضرورت تھی؟ باقی باتیں معروضی ہیں۔ آپ صرف اس سوال کا جواب دے دیجئے۔
عزیزم یہاں یہی تو بات ہورہی ہے کہ لال مسجد والوں کا رویہ صحیح نہیں تھا۔ یقیناً ان کے پاس بندوقیں نہیں ہونی چاہئیے تھیں۔ کیا میں اعوذ با اللہ ، بسم اللہ سے دوبارہ تمہید باندھوں کہ میں لال مسجد کی تعریف نہیں کررہا بلکہ اس المیے کے انسانی پہلو پر بات کررہا ہوں۔ بندوقیں رکھنے کے جرم کی یہ سزا صحیح ہے تو آدھا پاکستان اس سزا کا مستحق ضرور ہے۔ ماردیں ان پاکستانیوں کو؟ جلادیں انکو؟ خدا کے لیے کبھی گفتگو کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کیا کریں۔ اور “فوجی ذہنیت“ سے پیچھا چھڑائیں۔ خدا کے لیے ۔۔۔ جیو اور جینے دو!
آنٹی شمیم کا نام آپ اتنی کراہت سے لیتے ہیں چلیں آپ ہی شرعی ثبوت فراہم کر دیجئے۔ دین کے نام پر اتنی دیدہ دلیری تو نہ کیجئے۔ قیامت کے روز اس خاتون کے کردار سے قطع نظر جب اس کا ہاتھ آپ کے گریبان پر ہوگا تو حاکمِ اعلٰی کے سامنے کیا جواب دیں گے کہ کس بِرتے پر آپ نے اس پر الزام دھرا؟ کبھی اس پر بھی سوچا؟
پہلی بات تو یہ کہ آنٹی شمیم کو شرعی سزا دینے کے لیے ہی شرعی ثبوت چاہئیے ہوگا۔ صرف ڈانٹے اور باز رہنے کی نصیحت کرنے کے لیے اہلِ محلہ کی گواہی کافی ہے۔ دوسی بات یہ کہ میں تو یہی سوچ رہا ہوں کہ میں نے آنٹی شمیم پر الزام کب دھرا۔ البتہ ان کا نام نفرت سے لینے کی وجہ یہ ہے کہ ان پر الزامات کی تائید بہت سے حوالوں سے ہوچکی ہے۔آنٹی شمیم کی سرگرمیوں سے اہلِ محلہ مطمئن نہیں تھے اور اس پر کاروائی کرنے کا حق لال مسجد کو نہیں تھا۔یہی میرا موقف ہے۔ ۔ آپ نہیں مانتے تو نہ مانیے۔ لیکن میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آنٹی شمیم کا معاملہ اتنا اہم کب سے ہوگیا کہ اس کی بنا پر سینکڑوں افراد کی ہلاکت کے انسانی پہلو کو بھلادیا جائے۔ بہر حال کوٹھے کی محبت میں کچھ آشفتہ سراؤں نے انسانیت کی وہ دھجیاں بکھیری ہیں کہ دل لرز کر رہ جاتا ہے۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آنٹیاں اور بھی ہیں
اب کیا کہوں بھائی۔ اگر ایک ایسا شخص جو ازروئے قرآن جھوٹا اور تا عمر جس کی گواہی ساقط تھی اس کو آپ اسلام کا رہنما مانتے ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہمارے لئے تو قرآن کی گواہی معتبر اور بس۔
کیا اس کے جواب میں مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ آپ از سرِ نو میری پوسٹس ملاحظہ فرمائیں تاکہ میں جان سکوں کہ میں نے کب ایسے شخص کو اسلام کا رہنما قرار دیا۔ لال مسجد آپریشن کے دنوں میں ایک دھاگے پر مذہبی جنونیت پر گفتگو کرچکا ہوں
ملاحظہ کیجیے۔اس سب کے باوجود اگر آپ کی اجازت ہوتو میں ایک بار پھر انسانیت کا وظیفہ پڑھ لوں۔ بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو جذباتی باتیں کہتے ہیں۔ آدمی بیمار ہوتو کیا صحت کی آرزو کو جذباتی کہہ کر سنسنی پھیلانا شریفوں کا کام ہوسکتا ہے؟