اب یہ واقعی کہہ دیا ہے یا
کہ یہ بتایا ہے کہ یہ کہتے کہتے رک گیا تھا۔
بہت خوب اسامہ بھائی، بہت اچھی نظم ہے
مذاق برطرف
یہ نظم تو غزل کے قواعد کے موافق ہے۔ قافیہ۔ ردیف۔ مطلع۔ مقطع ۔ تو کیا ہم کسی بھی غزل کو نظم بھی کہہ سکتے ہیں؟؟یہ شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے یا مروجہ قاعدوں پر؟
ٹیگ:
استادِ محترم توجہ فرمائیں
غزل کی حیثیں دو ہیں۔ ایک صنف یا ہیئت کے حوالے سے۔
یہ ایسی نظم ہے جومندرجہ ذیل ہیئت کے حامل دو دو مصرعوں کے متعدد اشعار یا ابیات پر مشتمل ہوتی ہے۔
الف : تمام مصرعوں کا عروضی وزن مشترک ہوتا ہے (مروجہ شرائط اور رعایات کے ساتھ)۔
باء: تمام ابیات کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ ردیف اختیاری ہے اور جب یہ اختیار کر لی جائے تو اس کو بھی نبھانا ہو گا جیسے قافیے کو نبھاتے ہیں۔
شذرہ: وزن ردیف اور قافیے کے مجموعے کو عرفِ عام میں ’’زمین‘‘ کہتے ہیں۔
جیم: غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص التزاماً لاتا ہے، مقطع کہتے ہیں۔
دال: غزل کے پہلے شعر کو جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، مطلع کہتے ہیں۔
دوسری حیثیت مضامین کے حوالے سے ۔
غزل کے ہر شعر یا بیت میں ایک مضمون ، خیال، تاثر، پیغام، احساس، پورا پیش کرنا ہوتا ہے۔ غزل کے ہر شعر میں الگ الگ مضامین بھی لائے جا سکتے ہیں (ریزہ خیالی) اور ایک ہی مضمون یا موضوع بھی لایا جا سکتا ہے (غزل مسلسل)۔ بہ ایں ہمہ غزل مسلسل میں یہ اہتمام لازم ہے کہ ہر شعر اپنی جگہ پر (تخیل یا مضمون کے حوالے سے) ایک مکمل اکائی ہو اور اس کے مضمون کو پانے کے لئے کسی دوسرے شعر کی ضرورت نہ پڑے(تواتر نہ ہو)۔ نظم کی دیگر ہئیتوں میں ایک مضمون متواتر چلتا ہے اور اور شعر بہ شعر آگے بڑھتا ہے۔ اگر غزل کے اندر کہیں تواتر ناگزیر ہو جائے تو دو، تین چار پانچ اشعار نظم کے انداز میں ایک متواتر مضمون کے حامل ہو سکتے ہیں، ان کو ’’قطعہ‘‘ کہا جاتاہے۔ ایک اچھی غزل کی خاصیت یہ بھی ہے کہ ریزہ خیالی کے باوجود اس کی مجموعی فضا یا تاثر ایک جیسا رہے، اور یوں غزل کے اندر ایک زیریں رَو (مزاج کی وحدت) پائی جائے، جو اس کو وحدت بنائے۔ قوافی اور ردیف اس میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ غزل کی دیگر خوبیوں یا تقاضوں کا مذکور پھر کبھی سہی۔
حاصل یہ ہے کہ غزل اپنی ہیئت کے اعتبار سے ’’نظم‘‘ ہے۔ اور اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک خاص مزاج رکھتی ہے۔
۔۔۔ بہت آداب
برائے توجہ جناب
الف عین ۔