کتنا اچھا صبر کا پھل ہے
کیسا پیارا صبر کا پھل ہے

کیلا ، تربوز ، آم اور چیکو
سب سے میٹھا صبر کا پھل ہے

ہونے لگا ہے ہر پھل مہنگا
ہر پل سستا صبر کا پھل ہے

ملتا ہے پھر ہر پھل اس کو
جس نے پایا صبر کا پھل ہے

دَم ہے اگر تو صبر کیا کر
یکدم ملتا صبر کا پھل ہے

ان اللہ مع الصابریں پڑھ
سب سے عمدہ صبر کا پھل ہے

”صاد“ سے صحت ، ”ب“ سے برکت
”ر“ سے رسیلا صبر کا پھل ہے

بچے صابر ہوگئے سارے
یہ بھی اسامہ صبر کا پھل ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
اب یہ واقعی کہہ دیا ہے یا :cautious: کہ یہ بتایا ہے کہ یہ کہتے کہتے رک گیا تھا۔:idontknow:

بہت خوب اسامہ بھائی، بہت اچھی نظم ہے :)

مذاق برطرف
یہ نظم تو غزل کے قواعد کے موافق ہے۔ قافیہ۔ ردیف۔ مطلع۔ مقطع ۔ تو کیا ہم کسی بھی غزل کو نظم بھی کہہ سکتے ہیں؟؟یہ شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے یا مروجہ قاعدوں پر؟

ٹیگ: استادِ محترم توجہ فرمائیں
 
آخری تدوین:

عمر سیف

محفلین
اب یہ واقعی کہہ دیا ہے یا :cautious: کہ یہ بتایا ہے کہ یہ کہتے کہتے رک گیا تھا۔:idontknow:

بہت خوب اسامہ بھائی، بہت اچھی نظم ہے :)

یہ نظم تو غزل کے قواعد کے موافق ہے۔ قافیہ۔ ردیف۔ مطلع۔ مقطع ۔ تو کیا ہم کسی بھی غزل کو نظم بھی کہہ سکتے ہیں؟؟

ٹیگ: استادِ محترم
جیسا آپ بہترسمجھیں ۔۔
 

شیرازخان

محفلین
واہ کیا شاندار نظم ہے ۔۔۔جناب آپ کی شاعری سے بہت متاثر ہوں آپ ہی جیسی چیزیں لکھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔۔:)
 
مسلسل غزل یا نظم کہا جا سکتا ہے اسے۔
بس ایک مصرع۔ ان اللہ مع الصابرین والا بحر سے خارج ہے۔
ان اللہ مع الصابریں پڑھ
2 2۔۔ 2 11۔۔ 2 2۔۔ 11 2
استاد جی! اگر صابریں کے نون کو نون غنے کے طور پر لے کر ”ی“ کا اسقاط کیا جائے تو ”بریں پڑھ‘‘ فَعِلُن کے وزن پر بن سکتا ہے۔
 
اب یہ واقعی کہہ دیا ہے یا :cautious: کہ یہ بتایا ہے کہ یہ کہتے کہتے رک گیا تھا۔:idontknow:

بہت خوب اسامہ بھائی، بہت اچھی نظم ہے :)

مذاق برطرف
یہ نظم تو غزل کے قواعد کے موافق ہے۔ قافیہ۔ ردیف۔ مطلع۔ مقطع ۔ تو کیا ہم کسی بھی غزل کو نظم بھی کہہ سکتے ہیں؟؟یہ شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے یا مروجہ قاعدوں پر؟

ٹیگ: استادِ محترم توجہ فرمائیں
استاد جی نے رہنمائی فرمادی ہے۔
 
واہ کیا شاندار نظم ہے ۔۔۔ جناب آپ کی شاعری سے بہت متاثر ہوں آپ ہی جیسی چیزیں لکھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔ ۔:)
شیراز بھائی! یہ سب آپ حضرات کی محبت ہے۔ میں خود آپ جیسے شعرا سے مستفید ہوکر اور اثر لے کر تک بندی کرلیا کرتا ہوں۔:)
 

ابن رضا

لائبریرین
یہ نظم تو غزل کے قواعد کے موافق ہے۔ قافیہ۔ ردیف۔ مطلع۔ مقطع ۔ تو کیا ہم کسی بھی غزل کو نظم بھی کہہ سکتے ہیں؟؟یہ شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے یا مروجہ قاعدوں پر؟
مسلسل غزل یا نظم کہا جا سکتا ہے اسے۔

استاد محترم الف عین و محمد یعقوب آسی صاحب میرے استفسارِ مذکور کی بابت کچھ مزید وضاحت فرمائیے گا ۔ مزید یہ بتائیے گا کہ مسلسل نظم یا غزل میں تو ہر مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے (جبکہ مذکور نظم میں ایسا نہیں) یا مسلسل نظم کی کوئی اور تعریف ہے۔
شکریہ
 
آخری تدوین:
جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب ۔
ان اللہ مع الصابریں پڑھ
سب سے عمدہ صبر کا پھل ہے

پہلے مصرعے پر دو باتیں ہیں بھائی۔ اول تو یہ کہ یہ وزن میں زیادہ ہے۔ دوم یہ کہ پوری نظم میں کوئی اور لفظ اتنی ثقالت کا نہیں، خاص طور پر بچوں کے لئے مشکل بات ہو جاتی ہے۔
آیاتِ قرآنی کو شاعری میں لانا بالکل بجا مگر آپ کے قاری کی سطح کیا ہے، یہ امر بھی بہت اہم ہے۔

نظم پر مزید محنت کی ضرورت تھی۔ میرا خیال ہے کہ اگر ردیف ’’پھل ہے‘‘ رکھی جائے اور قافیہ میں ذرا سی تبدیلی کر کے الف کو پورا بولنے دیا جائے تو شاعر کے لئے بھی سہولت ہو گی اور قاری (بچے) کے لئے بھی۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
آخری تدوین:
اب یہ واقعی کہہ دیا ہے یا :cautious: کہ یہ بتایا ہے کہ یہ کہتے کہتے رک گیا تھا۔:idontknow:

بہت خوب اسامہ بھائی، بہت اچھی نظم ہے :)

مذاق برطرف
یہ نظم تو غزل کے قواعد کے موافق ہے۔ قافیہ۔ ردیف۔ مطلع۔ مقطع ۔ تو کیا ہم کسی بھی غزل کو نظم بھی کہہ سکتے ہیں؟؟یہ شاعر کی صوابدید پر منحصر ہے یا مروجہ قاعدوں پر؟

ٹیگ: استادِ محترم توجہ فرمائیں

غزل کی حیثیں دو ہیں۔ ایک صنف یا ہیئت کے حوالے سے۔
یہ ایسی نظم ہے جومندرجہ ذیل ہیئت کے حامل دو دو مصرعوں کے متعدد اشعار یا ابیات پر مشتمل ہوتی ہے۔
الف : تمام مصرعوں کا عروضی وزن مشترک ہوتا ہے (مروجہ شرائط اور رعایات کے ساتھ)۔
باء: تمام ابیات کے مصرع ہائے ثانی ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ ردیف اختیاری ہے اور جب یہ اختیار کر لی جائے تو اس کو بھی نبھانا ہو گا جیسے قافیے کو نبھاتے ہیں۔
شذرہ: وزن ردیف اور قافیے کے مجموعے کو عرفِ عام میں ’’زمین‘‘ کہتے ہیں۔
جیم: غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا نام یا تخلص التزاماً لاتا ہے، مقطع کہتے ہیں۔
دال: غزل کے پہلے شعر کو جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، مطلع کہتے ہیں۔

دوسری حیثیت مضامین کے حوالے سے ۔
غزل کے ہر شعر یا بیت میں ایک مضمون ، خیال، تاثر، پیغام، احساس، پورا پیش کرنا ہوتا ہے۔ غزل کے ہر شعر میں الگ الگ مضامین بھی لائے جا سکتے ہیں (ریزہ خیالی) اور ایک ہی مضمون یا موضوع بھی لایا جا سکتا ہے (غزل مسلسل)۔ بہ ایں ہمہ غزل مسلسل میں یہ اہتمام لازم ہے کہ ہر شعر اپنی جگہ پر (تخیل یا مضمون کے حوالے سے) ایک مکمل اکائی ہو اور اس کے مضمون کو پانے کے لئے کسی دوسرے شعر کی ضرورت نہ پڑے(تواتر نہ ہو)۔ نظم کی دیگر ہئیتوں میں ایک مضمون متواتر چلتا ہے اور اور شعر بہ شعر آگے بڑھتا ہے۔ اگر غزل کے اندر کہیں تواتر ناگزیر ہو جائے تو دو، تین چار پانچ اشعار نظم کے انداز میں ایک متواتر مضمون کے حامل ہو سکتے ہیں، ان کو ’’قطعہ‘‘ کہا جاتاہے۔ ایک اچھی غزل کی خاصیت یہ بھی ہے کہ ریزہ خیالی کے باوجود اس کی مجموعی فضا یا تاثر ایک جیسا رہے، اور یوں غزل کے اندر ایک زیریں رَو (مزاج کی وحدت) پائی جائے، جو اس کو وحدت بنائے۔ قوافی اور ردیف اس میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔ غزل کی دیگر خوبیوں یا تقاضوں کا مذکور پھر کبھی سہی۔

حاصل یہ ہے کہ غزل اپنی ہیئت کے اعتبار سے ’’نظم‘‘ ہے۔ اور اپنے مضامین کے اعتبار سے ایک خاص مزاج رکھتی ہے۔

۔۔۔ بہت آداب
برائے توجہ جناب الف عین ۔
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
Top