رانا
محفلین
روحانی بابا یہ نوامیس کونسا علم ہوتا ہے؟ میں نے پہلی بار یہ لفظ سنا ہے۔کیا کشتہ سازی، کیا سنیاس، کیا نوامیس، کیا علم نجوم، کیا رمل، کیا ویدک غرض جو کلہٗ سِر کا ماہر ہوتا ہے۔
روحانی بابا یہ نوامیس کونسا علم ہوتا ہے؟ میں نے پہلی بار یہ لفظ سنا ہے۔کیا کشتہ سازی، کیا سنیاس، کیا نوامیس، کیا علم نجوم، کیا رمل، کیا ویدک غرض جو کلہٗ سِر کا ماہر ہوتا ہے۔
کوئی بات نہیں۔ مابدولت نے معاف کیا۔میں تو بس واقعات سنا رہی تھی باقی میرے تینوں واقعات میں تھوڑا سا تجسس ڈالنا مقصود تھا جنات نہیں۔
وہ نانو والا واقعہ تو جملہ معترضہ کے طور پر سامنے آگیا
اکثر پالا پڑنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ یہ انسانی مخلوق یا تقریب نہیں ہےارے جی! میں نے تو ایسے ہی شوخی کی تھی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی کسی جن سے پالا پڑے۔ میرے پاس ایسا دل گردہ نہیں۔
ویسے ایسا ہوتا ہے۔ قوم جنات اگر کسی سے متاثر ہو تو دعوتوں میں بھی بلاتی ہے۔
نوامیس کا مطلب ہوتا ہے خود بخود۔۔۔۔۔۔بہرحال یہ ایک ایسا علم ہے کہ جو کہ جڑی بوٹیوں جانوروں اور پرندوں کی ہڈیوں اور ان کے جسم کے سارے حصوں کے زریعے کیئے گئے اعمال کا احاطہ کرتا ہے دراصل یہ نظر بندی یا شعبدہ بازی سے آگے کی چیز ہے جو کہ حقیقت پر مبنی ہے۔روحانی بابا یہ نوامیس کونسا علم ہوتا ہے؟ میں نے پہلی بار یہ لفظ سنا ہے۔
محترم بھائی روحانی بابامجھ تک نوامیس کا ایک زبردست عمل پہنچا ہے آج آپ کی تحریر میں شاہ درہ کا نام سن کر یاد آیا۔۔۔ ۔۔۔ یہ عمل ایک بندہ کو ایک جوگی نے دیا تھا یہ جوگی اور وہ شخص جس سے یہ عمل مجھ تک پہنچا ہے وہ آج سے تقریبا 60 سال پہلے ٹرین پر اجمیر شریف جارہ رہے تھے دوران گفتگو جوگی نے اس کو یہ عمل دیا تھا اور پھر اپنا پتہ بھی بتایا تھا۔۔۔ ۔قصہ مختصر یہ کہ کسی زمانے میں شاہدرہ اور لاہور کا تقسیم کنندہ یعنی دریائے راوی کے شاہدرہ والی طرف جوگیوں کی بستی آباد تھی کیا آپ کی کبھی اُن جوگیوں سے ملاقات ہوئی ہو ؟؟؟یا کوئی دوستی رہی ہو تو ضرور شیئر کریں۔
نوٹ: قارئین ایک بات واضح ہو کہ جوگی اور سپیرے میں بہت فرق ہوتا ہے دراصل جوگیوں کے پاس بھی اکثر و بیشتر خطرناک قسم کے سانپ ازقسم شیش ناگ (یعنی وہ کالا ناگ جس کا پیٹ بھی کالا ہوتا ہے) دیکھے جاتے ہیں اس وجہ سے کم علم لوگ جوگی کو بھی سپیرا سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ جوگی تو ہر فنِ مولا ہوتا ہے۔کیا کشتہ سازی، کیا سنیاس، کیا نوامیس، کیا علم نجوم، کیا رمل، کیا ویدک غرض جو کلہٗ سِر کا ماہر ہوتا ہے۔
اجی غزنوی جی ۔۔۔۔۔کتابوں میں پڑھنا اور بات ہے اور براہ راست تجربہ کرنا اور بات ہے ۔۔۔۔ہم تو تجربات کی بات کررہے ہیں دراصل نایاب جی ہم لوگوں سے اپنے تجربات شیئر کرنا چاہ رہے تھے لیکن آپ کو پتہ ہے کہ چند لوگ۔۔۔۔۔۔کی وجہ سے ہر دھاگے کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔اس قسم کی کافی باتیں بابا یحییٰ خان کی مشہور کتاب ' پیا رنگ کالا' اور 'کاجل کوٹھا' میں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔۔۔ دونوں کتابیں زبردست اور قابلِ مطالعہ ہیں۔
یہ تو بہت زبردست معلومات شئیر کی ہیں آپ نے۔ میرے لئے تو بالکل نئی ہیں۔ لیکن ان باتوں پر ایمان لایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اللہ میاں نے اس دنیا کی مادی چیزوں میں جو خواص رکھے ہیں وہ بھی کم حیرت انگیز نہیں۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز باتیں اس دنیا کی مادی چیزوں کے متعلق میں پڑھ چکا ہوں۔ ان خواص سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ الو کی آنکھ والی بات کی میں تحقیق ضرور کروں گا کہ یہ قابل یقین تو ہے لیکن بہت حیران کن۔نوامیس کا مطلب ہوتا ہے خود بخود۔۔۔ ۔۔۔ بہرحال یہ ایک ایسا علم ہے کہ جو کہ جڑی بوٹیوں جانوروں اور پرندوں کی ہڈیوں اور ان کے جسم کے سارے حصوں کے زریعے کیئے گئے اعمال کا احاطہ کرتا ہے دراصل یہ نظر بندی یا شعبدہ بازی سے آگے کی چیز ہے جو کہ حقیقت پر مبنی ہے۔
مثلا آپ الو کی گولی مار دیں تو اس کی ایک آنکھ کھلی رہے گی اور ایک بند رہے گی۔۔۔ ۔۔اب دونوں آنکھوں کو نکال لیں اور الماری میں محفوظ کرلیں اب جب نیند نہ آرہی ہو تو وہ آنکھ جو کہ بند تھی اس کو اپنے سرہانے رکھ لیں مزے کی میٹھی نیند کے مزے لیں۔اسی طرح اگر جاگنا ہے تو پھر وہ کھلی آنکھ اپنے سرہانے رکھ لیں جاگتے رہیں گے۔۔۔ ۔۔
اسی طرح اونٹ کی ہڈی کو اگر گھر کی بنیادوں میں چاروں طرف رکھ لیا جائے تو اس گھر میں تھرڈ کلاس سے تھرڈ کلاس قسم کی لکڑی لگائیں مجال ہے کہ دیمک قریب بھی آجائے۔
ایسے واقعات میں اکثر ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی رشتے دار کے ساتھ ہوا ہوتا ہے۔ اگر کبھی بھولے سے کوئی ایسا راوی مل جائے کہ جس کے ساتھ خود ایسا ہوا ہو تو اس میں بھی ایک قدر مشترک عموما ملتی ہے کہ اس واقعے کے وقت وہ اپنے بچپن یا لڑکپن کے دور میں ہوتا ہے۔ ایک بار ایک صاحب ایسے ملے کہ جنہوں نے اپنے ہوش و حواس کے وقت کا واقعہ سنایا اور ان کے ہوش حواس کا ثبوت یہ تھا کہ اس وقت وہ شادی شدہ اور ایک بچے کے باپ تھے۔ لیکن ان صاحب کی زندگی کا محور صرف ملازمت، تنخواہ، بیوی بچے پالنا اور شام کے اوقات گلی کے دوستوں کے ساتھ گزارنا تھا۔ نہ کوئی علمی اور ادبی ایکٹویٹی نہ کوئی سوشل ایکٹیویٹی کہ جس سے ان کی شخصیت میں کوئی سنجیدگی کا تاثر ابھرے نہ ہی کیریکٹر اتنا مضبوط کہ بندہ ان کی بات پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلے۔
البتہ کچھ واقعات ایسے لوگوں سے بھی سنے ہیں جن کے کردارکی بلندی کے باعث اس حوالے سے تو شک کا شائبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ غلط بیانی کررہے ہوں گے لیکن اکثر تو ایسے لوگ خود ہی اس واقعے کی قابل فہم تشریح کردیتے ہیں ورنہ آپ کو یہ تو تسلی ہوتی ہے کہ سنانے والے نے کوئی غلط بیانی نہیں کی۔ ایسے لوگوں کی بات پر تو بندے کو واقعاتی اعتبار سے یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔ بعد میں آپ اس کی توجیہ سوچتے رہیں۔ لیکن اکثر واقعات سنانے والے پہلی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
میرے کس مراسلے سے آپ کو لگا کہ میں دھاگہ "ڈی ٹریک" کر رہا ہوں ؟ یا کس مراسلے یہ گمان گذرا کہ میں دوسروں کا مزاق اڑا رہا ہوں ؟بہت شکریہ آپ سب لوگوں کی شراکت کا
لیکن مجھے کچھ دکھ بھی ہوا ہے اگر آپ متفق نہیں ہیں تو کسی کا مذاق اڑانا بھی ٹھیک نہیں
آپ بعد میں لاکھ معذرت کریں اس سے اس دکھ یا تکلیف کا مداوا نہیں ہوتا یار
میں نے شروع میں لکھا تھا کہ لازمی نہیں آپ صرف جنات کے حوالے سے ہی لکھیں میں نے کہا کہ صرف سچ لکھیں
اور سچ میں بہت کچھ ہوتا ہے ۔ زندگی آپ کو روزانہ کچھ نہ کچھ نیا سکھاتی ہے آپ وہ شیئر کریں
اگر شیئر نہیں کر سکتے تو تنقید بھی نہ کریں ۔ متفق یا غیر متفق ہونا آپ کا حق ہے آپ یہ حق استعمال ضرور کریں
اور براہِ کرم دھاگے کو ڈی ٹریک نہ کریں یہ آپ سے میری درخواست ہے
لیکن مجھے خوشی ہوگی اگر اپ کچھ شیئر کریں گے تو
فاتح
عثمان
رانا
محترم بھائی روحانی بابا
اب تو جوگیوں کے بچے بھی پڑھ لکھ زمانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ۔ سن 1980 تک جوگی اور سپیرے اپنی اپنی ڈیوٹی نبھاتے رہے ہیں ۔ اس کے بعد جو جوگی تھے واقع میں وہ ہند برما نیپال کی جانب نکل گئے ۔ کشتہ سازی ۔ نجوم بینی ۔ اور ویدک ۔ اس میں کمال مہارت دیکھی ان کے پاس ۔ بنا علوم فزکس کیمسٹری ریاضیات کے ان کے علم کو کامل پایا ۔
' نوامیس " اس کائنات کی مخلوق چرند پرند ہجرو مواسم کی طبعی ماہیت میں پائے جانے والے وہ افعال جو کہ قدرت کے حکم سے خودبخود جاری رہتے ہیں ۔ نوامیس کا علم کہلاتا ہے ۔ اگر اس علم کو گہرائی سے سمجھنا ہو تو " سورہ الرعد " میں بیان کردہ آیات کی تفسیر بہت مددگار ہوتی ہے ۔
عام طور سے جوگیوں کو کسی بھی مذہب سے باہر جانا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ مذہب کا پرچار نہیں کرتے اور بنا کسی چھوت چھات کے صرف انسان کی خدمت کرتے ہیں ۔ اور کشتہ سازی، سنیاس نوامیس علم نجوم رمل ویدک کے علوم سے مدد لیتے ہیں ۔ سانپ کے ڈسے انسانکے علاج کا منظر دیکھ انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ کہ اس انسان نے کس طرح سانپ واپس بلایا ۔۔۔ ۔۔۔
شاید آپ یقین نہ کریں گے لیکن میرا اک ایسے جوگی سے رابطہ رہا ہے ۔ جو کہ حافظ قران تھا ۔ مجھے " نوامیس " کے بارے اس نے آگہی دی تھی
کہ " بادل کی گرج " کیا ہوتی ہے ۔ اور کیا اثرات رکھتی ہے ۔
الو اور سیاہ کالی بلی میں کیا راز ہیں جوکہ عملیات کا اک لازم جزو ٹھہرتے ہیں ۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے جو آنکھوں سے دیکھا ۔ عقل سے پرکھا ۔ مگر
بات وہیں آجاتی ہے کہ یہ پلیٹ فارم ایسی گفتگو کے لیئے مناسب نہیں ہے ۔ جس نے سنہرا گلاب دیکھا ہی نہ ہو اس کے سامنے سنہرے گلاب کا ذکر عقل کو الجھا دینے کی مثال ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
عظیم، جاری رکھو جو آپ سمجھتے ہو کہ درست ہے۔۔۔ لیکن ایک بات میری بھی یاد رکھو کہ میں جو درست سمجھتا ہوں وہ مجھے بھی کہنے کا حق ہے۔رانا اور فاتح ایک بات یاد رکھیں کہ بھلے آپ کا ذہن اس بات کو تسلیم کرتا ہو یا نہ کرتا ہو لیکن ایک دم سے اعتراض کرنا،استہزاء اڑانا، ٹھٹھا کرنا۔۔۔ ۔اس سے بہت سارے ایسے لکھاری جو کہ اپنے اپنے واقعات محفلین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے ہوں تو وہ اپ لوگوں کی باتیں سُن کر ہمت ہار بیٹھتے ہیں کہ اُن کا مذاق اڑایا جائے گا۔
رانا اور فاتح ایک بات یاد رکھو کہ اس طریقے جو آپ لوگ کررہے ہو ایک اچھے بھلے دھاگے کا بیڑا غرق ہوگیا ہے کم از کم میں تو اپنے ساتھ گزرے ہوئے بہت سارے واقعات جو کہ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا تھا اب کبھی بھی، قطعاً شیئر نہیں کرنا چاہونگا۔۔۔ ۔۔۔ ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور دلیل سے بات ہوتی ہے اگر کسی کا شیئر کردہ واقعہ آپ لوگ سائنسی طور پر سمجھا نہیں سکتے ہیں تو کم از کم آپ لوگ اس واقعہ کی صحت کا انکار بھی نہیں کرسکتے ہیں۔۔۔
بہت خوب بجا فرمایا آپ نے بھائیہمارے ایک بزرگ مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کا بیان کردہ واقعہ ہے جو انہوں نے اپنی کتاب "حیات قدسی" میں بھی لکھا ہے۔
کہ سعداللہ پور میں ایک جوان لڑکی کو آسیب جسے جن چڑھنا بھی کہتے ہیں اس کا شدید دورہ ہوا اور اس کے رشتہ داروں نے دور دور کے پیروں فقیروں اور عاملوں کو اس کے علاج کے لئے بلایا۔ مگر ان عاملوں نے جب اس لڑکی کا علاج شروع کیا تو اس لڑکی نے ان کو گالیاں دیں اور اینٹیں بھی ماریں۔ مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کہیں قریب ہی کسی گاؤں میں آئے ہوئے تھے۔ کسی نے ان کا ذکر کیا کہ ان کو بلوالیں۔ چنانچہ ان کو بہت جلدی کا کہلا کر بلوایا گیا۔ آگے کا واقعہ ان کی زبانی ہی سنئے:
"میں جب وہاں پہنچا تو اس حویلی کے آس پاس کے کوٹھوں پر مخلوق کا اژدہام پایا جو اس حویلی کے اندر اس آسیب زدہ لڑکی کا نظارہ کررہے تھے۔ خدا کی حکمت ہے کہ جب میں اس لڑکی والی حویلی میں داخل ہوا تو اسی وقت وہ لڑکی میرے لئے صحن میں چارپائی لے آئی اور بچھادی۔ چنانچہ میں اس چارپائی پر بیٹھ گیا اور اس معمول کو حکم دیا کہ تم اس لڑکی کو چھوڑ کر چلے جاؤ۔ اس معمول نے کہا کہ آپ ہمارے بزرگ اور پیشوا ہیں اس لئے آپ کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں جاتے ہوئے اس مکان کے چھت کی تھمبی (ستون) گراجاؤنگا۔ میں نے کہا یہ بات تو ٹھیک نہیں اس سے ان گھر والوں کا بہت نقصان ہوگا۔ یہ سن کر اس نے کہا تو اچھا پھر میں سامنے طاقچے پر رکھے ہوئے برتنوں کی تین قطاریں گرادونگا۔ میں نے سمجھا کہ اس میں چنداں مضائقہ نہیں چنانچہ جب وہ لڑکی میرے پاس صحن میں بیٹھی تھی تو جونہی اس معمول نے مجھے سلام کہا فورا مٹی کے برتنوں کی تین قطاریں اس کمرہ میں جو ہم سے فاصلہ پر تھا جس میں تقریبا سات سات آٹھ آٹھ برتن نیچے اوپر رکھے ہوئے تھے دھڑام سے نیچے گریں اور اسی وقت اس مریضہ نے کلمہ پڑھا اور ہوش میں آگئی۔"
میں اس واقعے کو بالکل درست تسلیم کرتا ہوں کیونکہ بیان کرنے والے کی امانت و دیانت شک و شبہ سے بالا ہے۔ البتہ یہ واقعہ پڑھنے کے بعد میں اس کی توجیہ کے حوالے سے شش و پنج میں پڑ گیا کہ واقعہ تو درست ہے لیکن جنات کو ایسی حرکتوں سے کیا سروکار!!!۔ اس واقعہ پر یقین کرنے کے باوجود اسطرح کے واقعات کی توجہہ سوچتا رہا۔ آخر یہی واقعہ ان کی کتاب میں بھی پڑھا تو ساتھ ہی ایک اور صاحب عرفان بزرگ کا تبصرہ بھی پڑھنے کو ملا جس نے ساری الجھن دور کردی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تبصرہ خود صاحب کتاب یعنی واقعہ بیان کرنے والے بزرگ نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے اور تبصرے سے پہلے یہ دو سطری نوٹ تحریر کیا ہے:
آئندہ صفحات میں بعض واقعات آسیب زدہ مریضوں کے متعلق شائع کئے جاتے ہیں ان واقعات کے متعلق سیدی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی کی موقر رائے جو آں محترم نے خاکسار کے نام تحریر فرمائی ہے شکریہ کے ساتھ درج کی جاتی ہے۔"
تبصرہ درج زیل ہے:
"حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے موضع سعداللہ پور ضلع گجرات اور موضع راجیکی ضلع گجرات کا ایک ایک واقعہ اور لاہور شہر کے دو واقعات لکھے ہیں۔ جن میں ان کی دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ آسیب زدہ لوگوں کو شفا حاصل ہوئی۔ جہاں تک کسی کے آسیب زدہ ہونے کا سوال ہے میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی ہسٹیریا کی بیماری ہے۔ جس میں بیمار شخص اپنے غیر شعوری یعنی سب کانشنس خیال کے تحت اپنے آپ کو بیمار یا کسی غیر مرئی روح سے متاثر خیال کرتا ہے اور اس تاثر میں اس شخص کی سابقہ زندگی کے حالات اور اسکی خواہشات اور اس کے خطرات غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک قسم کی بیماری ہے۔ مگر یہ احساس بیماری ہے حقیقی بیماری نہیں۔ اسلام ملائکہ اور جنات کے وجود کا تو قائل ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اللہ تعالی کے فرشتے خداتعالی کے حکم کے ماتحت نظام عالم کو چلاتے اور لوگوں کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے اور بدیوں کے خلاف احساس پیدا کرتے ہیں۔
لیکن یہ درست نہیں اور نہ اس کا کوئی شرعی ثبوت ملتا ہے کہ جنات لوگوں کو چمٹ چمٹ کر اور کے دل و دماغ پر سوار ہو کر لوگوں سے مختلف قسم کی حرکات کرواتے ہیں۔ یہ نظریہ اسلام کی تعلیم اور انسان کی آزادی ضمیر کےسراسر خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اسلام نے جنات کا مفہوم ایسا وسیع بیان کیا ہے کہ اس مین بعض خاص مخفی ارواح کے علاوہ نظر نہ آنے والے حشرات اور جراثیم بھی شامل ہیں۔ چنانچہ حدیث میں جو یہ آتا ہے کہ اپنے کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو ورنہ ان میں جنات داخل ہوجائیں گے۔ اس سے یہی مراد ہے کہ بیماریوں کے جراثیم سے اپنی خوردو نوش کی چیزوں کو محفوظ رکھو۔
بہرحال جنات کا وجود تو ثابت ہے۔ اور خداتعالی کے نظام میں حقیقت تو ضرور ہے۔ مگر کھیل نہیں۔ اس لئے میں اس بات کو نہیں مانتا خواہ اس کے خلاف بظاہر ٍغلط فہمی پیدا کرنے والی اور دھوکا دینے والی باتیں موجود ہوں کہ کوئی جنات ایسے بھی ہیں جو انسانوں کو اپنے کھیل تماشے کا نشانہ بناتے ہیں لہذا میرے نزدیک جو چیز آسیب کہلاتی ہے وہ خود نام نہاد آسیب زدہ شخص کا اپنے ہی وجود کا دوسرا پہلو ہے جو غیر شعوری طور پر آسیب زدہ شخص کی زبان سے بول رہا ہوتا ہے۔ اور چونکہ آسیب زدہ شخص لازما کمزور دل کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے جب کوئی زیادہ مضبوط دل کا انسان یا زیادہ روحانی اس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی قلبی اور دماغی یا روحانی طاقت کے ذریعہ آسیب کے طلسم کو توڑ دیتا ہے۔ مادی لوگ تو محض قلبی توجہ سے یہ تغیر پیدا کرتے ہیں لیکن روحانی لوگوں کے عمل میں روح کی توجہ اور دعا کا اثر بھی شامل ہوتا ہے اور توجہ کا علم بہرحال برحق ہے۔ پس جب حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی نے سعداللہ پور اور لاہور والے واقعات میں اپنی روحانی توجہ اور دعا کا اثر ڈالا۔ تو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے اس اثر کا نتیجہ پیدا کردیا اور آسیب زدہ شخص اپنے نام نہاد آسیب سے آزاد ہوگیا۔ باقی رہا سعداللہ پور کے واقعہ میں برتنوں کا ٹوٹنا اور لاہور کے واقعہ میں انگوٹھی کا ٍغائب ہوکر پھر حاصل ہوجانا۔ تو اول تو یہ ثابت ہے کہ علم توجہ کے ماہرین بعض اوقات ایسی طاقت پیدا کرلیتے ہیں کہ بے جان چیزوں پر بھی وقتی طور پر ان کی توجہ کا اثر ہوجاتا ہے۔ مثلا ایسی مثالیں سننے میں آتی ہیں کہ ایک جلتی ہوئی موم بتی پر توجہ کی گئی تو وہ بجھ گئی یا کسی بند دروازے کی کنڈی توجہ کے نتیجہ میں خود بخود کھل گئی۔ غالبا سعداللہ پور والے واقعہ میں آسیب زدہ لڑکی نے اپنے دل میں آسیب دور ہونے کی یہ علامت رکھی ہوگی کہ کمرے کے اندر رکھے ہوئے برتن گر جائیں اور حضرت مولوی صاحب کی قلبی اور روحانی توجہ اور دعا سے یہ علامت پوری ہوگئی۔ اسی طرح لاہور والے واقعہ میں آسیب زدہ لڑکی کے دل میں اپنی انگوٹھی کا خیال آیا ہوگا اور اس نے اپنے خیال میں یہ علامت مقرر کرلی ہوگی کہ انگوٹھی کھوئی جائے اور پھر مل جائے۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ چونکہ آسیب زدہ شخص نیم بیہوشی کی حالت میں ہوتا ہے اس لئے اس نے خود ہی انگوٹھی کسی خاص جگہ چھپادی ہو اور پھر وہاں سے وہ انگوٹھی برآمد ہوگئی ہو۔ بہرحال ان باتوں میں کوئی اچنبھا چیز نہیں ہے۔ اور نہ کوئی بات عقل کے خلاف ہے۔ بلکہ سوچنے سے معقول تشریح کا راستہ کھل سکتا ہے۔
اس جگہ طبعا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بعض اوقات غیر روحانی لوگ بھی علم توجہ میں کمال پیدا کرلیتے ہیں تو پھر انبیا اور اولیا کے معجزات اور کرامات میں کیا امتیاز باقی رہا۔ سو اس کے متعلق اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ یہ امتیاز بہرصورت نمایاں طورپر قائم رہتا ہے اور ہمیشہ سے قائم رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ حضڑت موسی علیہ السلام کے مقابل پر توجہ کرنے والے نام نہاد ساحروں نے اپنی رسیوں اور جالوں میں اپنی توجہ کے ذریعے ایک حرکت پیدا کردی اور بظاہر یہ توجہ اپنے اندر ایک کمال کا رنگ رکھتی تھی۔ مگر حضرت موسی علیہ السلام کے عصا کے سامنے اس سحر کا تاروپود آن واحد میں تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔ پس امتیاز اقتدار میں ہے یعنی بالمقابل کھڑے ہونے پر ہمیشہ خدا کے برگزیدہ لوگوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے۔"