الف عین
لائبریرین
پسِ پندار کوئی شعلہ نم روتا ہے
میں نے خود جس کو تراشا وہ صنم روتا ہے
اب تو کم کم ہی تری یاد کبھی آتی ہے
اب تو میرا دلِ ناشاد بھی کم روتا ہے
ضبط گر یہ ہے نوازش تری ، لیکن جاناں
میں ہنسا لیتا ہوں جب خود کو تو غم روتا ہے
میں تو سائل ہوں ترے در پہ ٹھہر جاؤں گا
کیسے مرے بیٹوں کو دیواروں کا خم روتا ہے
میں نے جی لینے کا کیا ڈھنگ نکالا دیکھو
میں نہیں روتا ہوں جب میرا قلم روتا ہے
تار چھیڑوں بھی تو جھنکار سے محروم رہوں
اور جو مضراب سے چھولوں بھی تو سم روتا ہے
ظلم کی جب کوئی تاریخ نہیں لکھ سکتا
خون ہر سانس سے بہتا ہے ، ستم روتا ہے
فن کو فن کار کا انعام سمجھنے والوں
نقشِ مانی پہ بھی ژولیدہ رقم روتا ہے
کچھ مرے دیدہ پر آب پہ موقوف نہیں
ان کے ہاتھوں گلِ شاداب کا نم روتا ہے
وہی حضرت تو بنے پھرتے ہیں اقبال متین
جن کے ترانے پہ خود ان کا بھرم روتا ہے
میں نے خود جس کو تراشا وہ صنم روتا ہے
اب تو کم کم ہی تری یاد کبھی آتی ہے
اب تو میرا دلِ ناشاد بھی کم روتا ہے
ضبط گر یہ ہے نوازش تری ، لیکن جاناں
میں ہنسا لیتا ہوں جب خود کو تو غم روتا ہے
میں تو سائل ہوں ترے در پہ ٹھہر جاؤں گا
کیسے مرے بیٹوں کو دیواروں کا خم روتا ہے
میں نے جی لینے کا کیا ڈھنگ نکالا دیکھو
میں نہیں روتا ہوں جب میرا قلم روتا ہے
تار چھیڑوں بھی تو جھنکار سے محروم رہوں
اور جو مضراب سے چھولوں بھی تو سم روتا ہے
ظلم کی جب کوئی تاریخ نہیں لکھ سکتا
خون ہر سانس سے بہتا ہے ، ستم روتا ہے
فن کو فن کار کا انعام سمجھنے والوں
نقشِ مانی پہ بھی ژولیدہ رقم روتا ہے
کچھ مرے دیدہ پر آب پہ موقوف نہیں
ان کے ہاتھوں گلِ شاداب کا نم روتا ہے
وہی حضرت تو بنے پھرتے ہیں اقبال متین
جن کے ترانے پہ خود ان کا بھرم روتا ہے