لالہ رخ
محفلین
عربی وفارسی کے شعراء اسے صنعت تجنیس اور اردو شعراء اسے صنعت ضلع کہتے ہیں۔ اس میں ایک ہی لفظ کو مختلف معنوں میں دہرایا جاتا ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔
ایک ہی اسم اور ایک ہی فعل ہو لیکن معنی جدا جدا ہوں مثلا
شانے سے بل نکال دئیے زلف یار کے
اک مار ہم نے زیر کیا مار مار کے
دو ہم شکل الفاظ ایک مرکب اور ایک مفرد ہو لیکن معنی الگ الگ ہوں مثال کے طور پر
مظلوم نہ شاہ بحر و بر سا ہو گا
مینہ تیروں کا یوں کبھی نہ برسا ہو گا
دوسری مثال کا یہ شعر ہے
خورشید جمال کچھ تو سمجھا
یہ سحر نظر ہے یا سحر ہے۔
اب آپ احباب سے درخواست ہے کہ اس صنعت سے متعلق اشعار لکھیں۔